میں عمر کا جتنا شکر گزار ہوں کم ہے۔ کہ اگر میں لکھتا تو یہ ایک طرفہ معاملہ ہوتا۔ درج ذیل خود ساختہ نظام جس کو عام طور پر "اسلامی نظام" کہہ مسلمانوں پر نافذ کیا جاتا ہے اس کا دور دور تک اسلام سے واسطہ نہیں۔ ہم اس کو "باطل اور کافرانہ نظام "کہیں گے، اقتباسات میں جمہوریت کی خصوصیات لکھی ہیں اور اس کے مقابلہ میں "باطل اور کافرانہ نظام " کی خصوصیات
اسلام جمہوریت کو کن بنیادوں پر مسترد کرتا ہے ان میں سے چند ایک یہ ہیں۔
1۔ اکثریت کی حکمرانی۔
جہاں جمہوریت اکثریت کی نمائیندہ ہے وہاں یہ "کافرانہ نظام" کیا ہے؟ قرآن سے بہت دور ایک نظام۔ مخصوس مدرسے سے نکلے ہوئے "استادوں" کی حکمرانی، جس کو تبدیل نہیںکیا جاسکتا، جس کے خیالات میں تبدیلی نہیں آتی۔ کافرانہ نظام میں آپ "پارلیمینٹ میں گریجویٹ ہو کر جاتے ہیں منتخب ہو کر نہیں" یہ نمائیندے عوام نہیں چنتے، بلکہ مدرسے کے استاد آپس میں ایک دوسرے کی سفارش کرکے بناتے ہیں۔ اس میں ڈائریکٹ یعنی منتخب ہوکر کوئی نمائندہ داخل نہیں ہوسکتا، اور کسی نمائندے کو ہٹایا نہیں جاسکتا۔ اس طرح حکومت ایک گروہ کہ ملکیت ہوتی ہے۔ یہ خود ساختہ علماء کا ٹولہ اپنی ڈگریاںدیتا ہے اور کسی بھی درسگاہ کی ڈگری تسلیم نہیں کرتا۔ اس سے ملتا جلتا نظام قدیم ایران میں ہزار ہا سال تک چلتا رہا۔ جہاں آپس کے چناؤ سے، عوام کے چناؤسے نہیں، نمائندے علماء کی شکل میں مقننہ، عدلیہ ، اور انتظامیہ کا گھلا ملا نظام قائم کرتے ہیں۔ عموماَ اس کے لکھے ہوئے آئین نہیں ہوتے بلکہ وقت ضرورت "فتووں " سے کام چلایا جاتا ہے۔
اس کے برعکس، جمہوریت، قرآن کے اصولون کے تحت، اکثریتی، منتخب شدہ نمائندوں پر مشتمل عدلیہ، مققنہ اور انتظامیہ ترتیب دینے کا نام ہے۔ اس کے لئے میرے دستخط میں دئے گئے لنک میں مزید تفاصیل دی گئی ہیں۔
2۔ گروہ بندی اور پارٹی بازی۔
جمہوری نظام، آپس میں صحت مند مقابلہ کی حوصلہ افزائی کرتا ہے، جس میں لوگ اپنی قابلیت کا مظاہرہ کرکے سامنے آتے ہیں۔ جبکہ "کافرانہ نظام " میں صرف "دقیانوسی خیالات پر مبنی علماء کی ایک جماعت" ہوتی ہے جو ہر شخص کی قسمت کا فیصلہ "جرم ہونے کے بعد قانون بنا کر کرتی ہے" جس کو فتوی کا نام دیا جاتا ہے، جس کے خلاف آواز نہیں اتھائی جاسکتی، عموماً نظریات سے اختلاف کی سزا گردن زدنئ ہوتی ہے۔ ۔ اس کے برعکس "اسلامی جمہوریت " میں لوگوںکو موقع ملتا ہے کہ اپنی جماعت بنا کر مقابلہ کرسکیں اور مخالف خیالات "قرانی اصولوں "کے تحت اپنا کر اپنے لئے بہترین راہ کا انتخاب کرسکیں۔
3۔ باہمی رقابت( اخوت اسلامی کا پار ہ پارہ ہونا)۔
جماعت سازی کو "کافرانہ نظام " مکروہ قرار دیتا ہے۔ پر امن طور پر اکٹھا ہونا خلاف قانون ہوتا ہے۔ احتجاج جنگ اور غداری کے مترادف ہے۔ اس "کافرانہ نظام" میں "ملا" "خلیفے " کی اور خلیفہ"" "ملے " کی حفاظت کرتا ہے۔ "کافرانہ نظام" کا بنیادی مقصد گروہ بندی کرکے عوام کی دولت پر قبضہ کرنا ہوتا ہے۔ اس نظام میں "خلیفے" اور "ملے" کی کبھی کوئی معیاد نہیں ہوتی۔ "ملا" اور "خلیفے" دونوں تاحیات مراتب ہیں ، ایک دوسرے کی حفاظت ان کے ذمہ ہوتی ہے اور کسی بھی قسم کی گروہ سازی، جماعت سازی ، تنظیم سازی اس کے آئین کے خلاف ہے۔
4۔ عالم اور جاہل کی یکسانیت۔
آہ ۔۔ یہ سب سے بڑا مرتبہ ہے۔ ہر وہ شخص جو " ملا " کی مدرسی سے گریجویٹ ہوا ہو ، وہی عالم ہو سکتا ہے۔ باقی کسی بھی درسگاہ کی تعلیم نہ گوارہ ہے اور نہ ہی قابل قبول، - اس طرح عالم اور جاہل کی تمیز کی جاتی ہے۔ جاہل ووٹنہیں دے سکتا، آواز نہیں اتھا سکتا۔ " عالم " کسی قسم کی جہالت کرتا ہو "فتوی" قرار پاتا ہے۔ اس فتوی کے خلاف کوئی دعوی نہں کیا جاسکتا۔ اس کو عموما " شریعت کا نام دیا جاتا ہے۔ ذہن میں رکھئے کہ کوئی فتوی، پاکستان کی کسی بھی عدالت میں قابل قبول نہیں ہے۔ اس طرح "جاہلوں " کو مدرسی سے دور رکھا جاتا ہے اور صرف اچھی ذات کے سلسلہ جیسے نقشبندیہ، قادریہ، ہی صرف اس ان مدرسیوں میں داکل کئے جاسکتے ہیں۔ جاہلوں کو مدرسیوں کے دروازے پر ہی فلٹر کردیا جاتا ہے۔ اس طرحجاہل کبھی گریجویٹ نہیں ہوتا، کبھی جج یا قاضی نہیں بنتا، وکالت کا تصور اس نظام مین بہت ہلکا ہے۔ سرسری سماعت کے بعد فوری "انصاف" سخت سزائیں دے کر کیا جاتا ہے۔ تاکہ معاشرے میں سخت خوف کا عالم رہے۔ اس طرحجاہلوں یعنی عوام کو قابو میں رکھا جاتا ہے۔
5۔ رائے دہندگی میں نیک اور بد کی تمیز اور فاسقوں فاجروں کا اقتدارتک پہنچنا آسان ہونا۔
جمہوریت، ایک نمائندے کو عوام کی عدالت میں کھڑا کر دیتی ہے۔ "کافرانہ نطام" میں صرف مدرسیوں کے باشندے ہی اپس میں ایک دوسرے کو چنتے ہیں۔ عوام یعنی "جاہلوں" کو کوئی موقع نہیں دیا جاتا۔
6۔ مر د اور عورت کا یکسا ں حق رائے دہندگی و حق حکمرانی۔
قرآن ہر معاملے میں خواتین و حضرات کو مساوی سماجی درجہ دیتا ہے۔ اور اپنی رائے کے اظہار کا حق دیتا ہے۔ "کافرانہ نظام " مٰن عورتوں سے یہ حق چھین لیا جاتا ہے۔ وہ کسی معاملے میں اپنی رائے کا اظہار نہیں کرسکتی ہیں۔
7۔ دولت اور سیاہ دھن کے غلط استعمال کا بار بار امکان( یورپی ملک تک اس سے محفوظ نہیں)۔
عوام کی دولت پر قبضے کی سیاہ ترین مثال یہ ہے کہ ضکومت کو ملکیت سمجھا جائے۔ جمہوریت میں ایک شخص اپنی مدت پوری کرکے اگے بڑھ جاتا ہے۔ لیکن "کافرانہ نظام " میں وہ تا حیات اس مرتبہ پر رہتا ہے۔ اس طرح ، حکومت ملکیت میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ اس خلیفے کی موت کے بعد دوسرے خلیفے، بہانہ بہانہ سے اپنی اولادوں یا پنے پسندیدہ افراد کو ہی حکومت سونپتے ہیں۔ "ملا"ہر طور اس خیال کے "شرعی جواز " نکالتا رہتا ہے۔ " ایسے خلیفے " کو خلافئے رشدین سے ملانا ایک ظلم ہے۔ کیا رسول اکرم نے وصیت میں کسی کو خلیفہ بنایا تھا؟
8۔ جہالت زدہ اور پسماندہ طبقوں کااستحصال۔
جمہوریت ، پاکستان میں 60 سال پہلے آئی، تعلیم میں جس قدر اضافہ ہو، وہ "کافرانہ نظام "میں 600 سال میں نہیں ہوا۔ جتنی یونیورسٹیاں 60 سال میں قائم ہوئی۔ اس کا مقابل 600 سالوں میں قائم ہونے والی صٍفر جی صفر یونیورسٹی سے کیجئے۔ "ملا" کبھی تعلیم ھاصل کرنے نہیں دیتا۔ مبلغ 400 ملاؤں نے سرسید احمد خان کو کافر قرار دیا کہ انہوںنے دیوبند اور بریلی کے مقابل ایک جدید تعلیم کے لئے یونیورسٹی قائم کی ۔ جس کے فارغ التحصیل "علماء"نے پاکستان کی بنیاد رکھی۔ لیکن "ملا" اپنی نشاۃ ثانیہ کے خوب دیکھتا رہتا ہے اور اپنے "جاہلانہ نظام "کو
اسلامی نظام بنا کر آج بھی دھوکہ کی روش سے نہیں ہٹا ہے۔ "عالم و فاضل استاد صرف اس وقت قابل عزت ہے جب تک و ایمان سے پڑھاتا رہے، جونہی وہ مکاری کی راہ اپنا کر "مکارانہ سیاست پر مبنی جاہلانہ نظام پیش کرتا ہے" ۔ علامہ اقبال جیسے عظیم انسان سے "ملا " کے لقب سے نوازی جاتا ہے۔
9۔ میڈ یا جیسی اندھی قوت کاشیطانی استعمال (یعنی عوام الناس کو بے وقوف بنانے کے فن کا استعمال)۔
حقیقت کو سامنے لانے سے "ملا" ہمیشہ خوفزدہ رہے ہیں۔ اور سیاسی بہکاوے دینے میں میں بہت آگے ہیں۔ بم باندھ کر معصوم لوگوں کے قاتلوں کو مجاہدین قرار دیتے ہیں
10۔ برادری اور طبقاتی تعصب کو ہو ا دی جانا۔
جی ۔ جاہلوں اور عالوں کی برادری، ایک قوم ، ایک فالحی مملکت ، جمہوریت کی بنیاد ہیں۔
11۔ انسانوں کو قانون سازی کا حق ہونا۔
قرآن صرف ضوری اصول فراہم کرتا ہے۔ بطور ایک آئین، اور انسانوں کو ان اصولوں کے تحت قوانین بنانے کا حق دیتا ہے۔ ایک فلاحی مملکت اور اسکے دفاع کو اہم قرار دیتا ہے میرے دستخط میں دیے گئے لنک کو آپ بہ آسانی پڑھ سکتے ہیں۔
12۔ دین اور دنیا کی تقسیم(سیکولرازم جس کے بغیر جمہوریت آج تک کہیں چل ہی نہیں سکی)۔
قرآن ، اسلامی فلاحی مملکت میں غیر مسلموں کو امن کی ضمانت دیتا ہے جو امن کے لئے انتہائی ضروری ہے۔
13۔ مغربی قوموں کی مشابہت اور ان کی پیروی کے کلچر کو فروغ۔
اللہ کے نزدیک بنی نوع انسان ایک قوم ہیں ۔ "ملا" اپنے کافرانہ نطام کی حفاظت کے لئے انسانوں میں فرق پیدا کرتے ہیں۔
14۔ اسلامی شعائر(مانند شوری و بیعت) کا مسخ کیا جانا۔
شوری یعنی پارلیمنٹ، بیعت یعنی ووٹنگ یا رائے دہی، اسلامی نظریات ہیں۔ قرآن کی آیات بارہا پیش کرچکا ہوں۔ کہ شوری عوم کی رائے سے منتخب نمائندوں سے ہوگی۔
15۔ عقیدہ قومیت پر ایمان لازم آنا( جمہوری عقیدے کا ایک بنیادی عنصر ’زمین‘ ہے جو کہ ’دارالاسلام ‘ کے تصور سے براہ راست متصادم ہے ۔ جمہوریت کا ’نظریہ زمین‘ دھرتی کو قیامت تک کےلئے قوموں میں بانٹ کر فارغ ہوجاتا ہے۔ انسانوں کو قوموں میں تقسیم کرتا ہے۔ جمہوریت کی رو سے کسی خاص قوم کا کسی خاص خطہ زمین پر ہمیشہ ہمیشہ کےلئے حکمران رہنے کا حق آپ اصولاً ماننے پر مجبور ہوتے ہیں اور ہر قسم کی بیروی اثر اندازی کو اس کے داخلی امور میں مداخلت تسلیم کرنے پر اصولاً پابند ہوجاتے ہیں)۔
اسلامی فالحی مملکت کا نظریہ ، اس کا دفاع، سرحدوں کی حفاظت، خالصاسلامی اور قرآنی نظریات ہیں۔
16۔عقیدہ قومیت کو قبول کرلینے سے عقیدہ جہاد کا واضح طور پر انکار اور تعطل لازم آنا۔
جہاد و کوشش کے معنی بھی "ملا " کو نہیں معلوم۔ وہ صرف "فساد فی فی الارض اللہ و فساد فی سبیل اللہ " کی اعلی ترین مثال ہے۔
17۔ مسلم اور غیر مسلم دونوں کو ایک قوم، ایک وحدت اور ایک برادری ماننا اور ان میں اتحاد ، یکجہتی اور یگانگت کی ضرورت کو تسلیم کرنا جس سے عقیدہ ولا و براء[یعنی کفار سے براءت و بیزاری اور صرف اہل ایمان سے وابستگی کو فرض جاننے کاعقیدہ۔] کا انکا ر لازم آتا ہے۔
قرآن اسلامی فلاھی مملکت میں غیر مسلموں کو مکمل حقوق فراہم کرتا ہے۔
18۔ وطنیت (وطن سے وفاداری اور وطن پر جان دینے کا عقیدہ)۔
قرآن فلاحی مملکت کی حفاظت کی ذمہ داری حکومت کے ذمہ لگاتا ہے۔
فلاحی مملکت کا دفاع سے ناقافیت، "کافرانہ نظام "کی قراں سے دوری کا واضح ثبوت ہے۔
20۔ عالمی برادری اور ملت اقوام کا حصہ ہونے کا تصور۔
قرآن کا نظام عالمی برادری کے لئے ہے۔ انسانوں کو پر امن رہنے کے طریقہ سکھاتا ہے۔
اب آپ اگر جمہوریت کو اسلام سے ہم آہنگ کرنے چلے ہیں تو ذرا اس فہرست پر نگا ہ ڈال لیجئے۔ جمہوریت کے ان بنیادی اجزاءکو ایک نظر دیکھئے اور پھر کہئے کہ اسلام میں داخل کرنے کےلئے آپ جمہوریت کاآخر کیا کیا نکالیں گے؟
کہیں ایسا تو نہیں ہمارے مسلم معاشروں میں جمہوریت کو اسلام سےہم آہنگ کرتے کرتے اسلام کو ہی جمہوریت سے ہم آہنگ کرد یا گیا ہو؟ایسا تو نہیں کہ ہمیں کفار سے کچھ لیتے لیتے الٹا بہت کچھ دینا پڑ گیا ہو؟
["کافرانہ نظام "پاکستان کے تمام جج مسترد کرچکے ہیں، تمام تعلیم یافتہ لوگ مسترد کرتے ہیں۔ قرآن سے ہدایت ھاصل کیجئے۔ "جو کافرانہ نظام " کافروں نے 2500 ق م میں ترتیب دیا ، اس کو اسلامی نظام کی چھاپ لگا کر معصوموں کو دھوکہ دینے کی روش ترک کیجئے۔ قرآن بنیادی اصول فراہم کرتا ہے، اور سنت جزئیات و تفصیلات۔ جو کچھ "ملا " نے اپنی مرضی سے ٹھونسا ہے اس کو کبھی قرآن یا سنت نہیںکہتا۔
یہ بحث پاکستان بننے سے پہلے سے چلی آرہی ہے۔ مشیت ایزدی نے اس "کافرانہ نظام "کا خاتمہ کیا اور مسلمانوں کو موقع دیا کہ وہ قرآن کے مطابق "اسلامی نطام " اپنائیں۔ اس 'اسلامی نظام " قوانین لکھنے والے انتہائی قابل لوگ جیسے مفتی جسٹس تقی عثمانی ہیں۔ آپ "اپنا کافرانہ نظام " جس کو آپ اسلامی نظام قرار دیتے ہیں سرحد پار ہندوستان میں کیوں نہیں قائم کرتے، ان کو اس نظام کی زیادہ ضرورت ہے۔ کیوں اپنے ساتھیوں کو ایک "ثواب " سے محروم کرتے ہیں؟