فاروق سرور خان
محفلین
علم دست شناسی یعنی ہاتھ کی لکیروں کا پڑھنا اسلام کے نزدیک کیسا ہے؟ قرآن اور حدیث اس بارے میں کیا کہتے ہیں؟بحث کرتے ہوئے اس بات کو پیش نظر رکھیے گا کہ دست شناسی باقاعدہ سائنس کی شکل اختیار کر چکی ہے. کوشش کریں کہ آپ کی رائے مدلل اور حوالے مستند ہوں۔
جناب من، آپ کے سوال بلکہ سوالات کے پہلے حصے کا جواب پچھلے پیغام میںدے دیا۔ اب ان سوالات کے سرخ زدہ حصے کا جواب۔ میرے جواب میںکوئی درشتگی یا سختی یا غصہ نہیں ہے۔ میںآپ کے طریقہ کار اور سوالات اور سوچ کے بہاؤ پر اپنے نکہءنظر کا اظہار کروںگا۔ ممکن ہے آپ کو یہ بات موضوع سے ہٹکر لگے لیکن پڑھتے جائیے۔
آپ کا طریقہء سوال اور سوالات کا بہاؤ
پہلے ایک مسئلہ پیش کیا پھر اس پر قرآن اور حدیث کی رائے مانگی۔
پھر اس مسئلہ کو سائننسی قرار دیا اور وارننگ دی کہ رائے مدلل اور حوالے مستند ہوں - بنیادی طور پر یہ اسلام (یا مذہب)اور سائنس میںایک کو چن لینے کو کہا گیا ہے۔
تو بھائی اس مد میںیہ عرضہے ، قرآن گو ایک سائنس کی کتاب نہیں ہے لیکن ایک غیر سائنسی کتاب نہیں ہے۔ اگر ہے تو اس میں سے صرف ایک تھیوری ایسی بتائیے جو آپ سائنسی نکتہ نگاہ سے غلط ثابت کرسکیں۔
مزید دیکھتے ہیں وہ یہ کہ اگر آپ یہاںہیں تو بہت ممکن ہے کہ آپ ایک پروگرامر ہوں ۔ اگر آپ ایک پروگرام نہیںبھی ہیں تو کسی پروگرامر سے یہ پوچھ لیجئے کہ ایک پروگرام کیسے تخلیق کیا جاتا ہے۔
ہر پروگرامر یہ جانتا ہے کہ پروگرام سب سے نچلے درجے میں بٹس کی مدد سے لکھا جاتا ہے، تمام پروگرام باٌآخر بٹس ( آن یا آف)کی سطحپر کام کرتے ہیں۔ جی؟ یہ آن یا آف، مادہ کی پراپرٹی کو مدد سے حاصٌل ہوتا ہے۔ جب ہم ایک مکمل انسان کو دیکھتے ہیں جو ایک جرثومہ سے بڑھ کر ایک مکمل انسان بن جاتا ہے تو یہ ایک پروگرام ہے جو اس ڈی این اے میں موجود ہے جو تمام خلیوں (سیلز) کا بنیادی عنصر ہے۔ یہ آن اور آف کا فیصلہ ڈی این اے کی سطح پر ہو رہا ہے۔ یہی ڈی این اے ایک زندہ پروگرام کی صورت میں وہ تمام فیصلہ کررہا ہے جو ایک مکمل انسان بنانے کے لئے ضروری ہیں ۔ ایک کمپیوٹر کی طرح۔ اب اس ڈی این اے کو مزید دیکھیں تو یہ صرف ایٹم اور مالیکیول سے بنا ہوا ایک پروگرام ہے۔ کسی ایسی ذات کا بنایا ہوا جو ایک طرف ان تمام ایٹموں کی اور مالیکیولوںکی فزیکل ، الیکٹریکل اور کیمیکل پراپرٹیز کے بارے میں جانتا ہے اور دوسری طرف زندہ انسان کی پوری تقویم (کنفیگریشن) کے بارے میںجانتا ہے
یہ پروگرام کس نے لکھا؟ اور اس پروگرام کو لکھنے کا طریقہ کار کیا ہے۔ اس پروگرام کو جس کسی نے بھی لکھا، وہ یہ جانتا تھا کہ یہ پروگرام کس طرحچلے گا اور اس کو مادہ کی تمام پراپرٹیز کے بارے میںمعلوم تھا کہ ان پراپرٹیز یا خصوصیات کو اس طرح ڈی این اے میں رکھا جائے تو یہ خلیہ اس طرح انسان بن جائے گا، اس طرح یہ خلیوںکا مجموعہ کیلشئیم جمع کرے گا اور ہڈیاں بنیں گی، اس طرح انسان کی کھال کا پولی مر بنے گا۔ اتنے درجہ اس کا درجہ حرارت ہوگا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ عقل مند ہوگا اور نسل در نسل ہر نیا انسان اپنی اولاد کو یہ عقل دے سکے گا۔ غصہ کرے گا، پیار کرے گا، سوچے گا۔ منطقی دلائل لائے گا، متفق ہوگا، یا نہیں ہوگا۔ حسد کرے گا، رشک کرے گا، محنت کرے گا، پوستی ہوگا۔ وغیرہ وغیرہ
یہ تمام کا تمام پروگرام لکھنے کے لئے یہ جاننا کہ مادہ کی کیا خصوصیات ہیں اور کس طرح ان ایٹم اور مالیکیول کو ترتیب دیا جائے کہ مکمل انسان ، دوران خون کا نظام ، ہاضمہ کا نظام ، اعصابی نظام اور پھر سوچنے کا یہ عظیم انجن جسے عقل کہتے ہیں وجود میںآئے۔ وہ کونسی ذات ہے جو اس طرح کا علم رکھتی ہے؟
نوٹکیجئے مین نے اب تک اللہ یا قرآن کا تذکرہ نہیںکیا ہے
گو کہ یہ تمام باتیں آپ کو کسی قرآن میںنہیں ملیںگی لیکن اسی قرآن میں ایک ایسی ذات ضرور مل جائے گی جو یہ دعوی کرتا ہے کہ وہ ایسا علم رکھتا ہے اور جس نے انسان کو تخلیق کیا ہے۔ دنیا کے تمام مذاہب ایک یا دوسرے طریقہ سے کسی خالق کی بات کرتے ہیں۔ مسلمانوں کا یہ عقیدہ کہ کہ اس علم یعنی انسان کی تخلیق کی سائنس کا علم رکھنے والی ذات اللہ کی ہے تو یہ ایک غیر سائنسی خرافات کسی طور نہ ہوئی؟ یہ سب بنایا نہیں گیا تو اس کی تقویم میں اتنی تفصیل کیسے ہے؟
ذرا دیکھئے تخلیق کے زبردست دعوی جن کا مقابلہ کرنے والا پچھلے ہزاروں سالوںمیںکوئی نہیںسامنے آیا۔ تخلیق انسانی اور عقل انسانی وہ سائنسی حقیقت اور وہ ملکیت ہے جس کی تخلیق کا دعوی دار اللہ کے سوا ڈھونڈے سے بھی نہیںملتا۔
[ayah]2:21[/ayah] [arabic] يَا أَيُّهَا النَّاسُ اعْبُدُواْ رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُمْ وَالَّذِينَ مِن قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ[/arabic]
[ayah]3:59 [/ayah] إِنَّ مَثَلَ عِيسَى عِندَ اللّهِ كَمَثَلِ آدَمَ خَلَقَهُ مِن تُرَابٍ ثُمَّ قَالَ لَهُ كُن فَيَكُونُ
[ayah]3:190 [/ayah] [arabic]إِنَّ فِي خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلاَفِ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ لَآيَاتٍ لِّأُوْلِي الْأَلْبَابِ [/arabic]
بیشک آسمانوں اور زمین کی تخلیق میں اور شب و روز کی گردش میں عقلِ سلیم والوں کے لئے (اللہ کی قدرت کی) نشانیاں ہیں
[ayah]4:1[/ayah] [arabic]يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُواْ رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُم مِّن نَّفْسٍ وَاحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالاً كَثِيرًا وَنِسَاءً وَاتَّقُواْ اللّهَ الَّذِي تَسَاءَلُونَ بِهِ وَالْأَرْحَامَ إِنَّ اللّهَ كَانَ عَلَيْكُمْ رَقِيبًا[/arabic]
[ayah]6:2[/ayah] [arabic]هُوَ الَّذِي خَلَقَكُم مِّن طِينٍ ثُمَّ قَضَى أَجَلاً وَأَجَلٌ مُّسمًّى عِندَهُ ثُمَّ أَنتُمْ تَمْتَرُونَ[/arabic]
(اﷲ) وہی ہے جس نے تمہیں مٹی کے گارے سے پیدا فرمایا (یعنی کرّۂ اَرضی پر حیاتِ انسانی کی کیمیائی ابتداء اس سے کی)۔ پھر اس نے (تمہاری موت کی) میعاد مقرر فرما دی، اور (انعقادِ قیامت کا) معیّنہ وقت اسی کے پاس (مقرر) ہے پھر (بھی) تم شک کرتے ہو
کچھ لوگ اس ساری تخلیق کے نظریہ کو نہیں مانتے ہیں۔ ٹھیک ہے، لیکن جو مانتے ہیں وہ یہ جانتے ہیںکہ انسان اور عقل انسانی کی تخلیق کا دعویدار اب تک اللہ کے سوا کوئی سامنے نہیں آٰیا ۔ اگر ہمارے عقیدہ کے مطابق خالق کائنات اور رب العالمین اگر اللہ ہے تو وہ ایک بہت ہی باعلم (علم یعنی سائنس) ذات ہے کیونکہ اس قسم کی تخلیقات کے لئے جو سائنسی علم درکار ہے اس کے بغیر یہ ممکن ہی نہیں کہ یہ سب کچھ تخلیق کیا جائے۔ لہذا ایسے خالق کائنات کی کتاب کیونکر ایک سائنس کے اصولوںکے خلاف کتاب ہو سکتی ہے ۔ نوٹ کیجئے کہ باقی سب کے بارے میںاللہ تعالی فرماتے ہیںکہ وہ سباپنے اپنے تکے مارتے ہیں۔
جو لوگ جینیٹکس پڑھتے ہیں وہ [ayah]4:1[/ayah] پر غور فرمائیں اور بتائیں کہ جو بات ایک عام آدمی کے لئے درست ہےکے لئے درست ہے کیا وہ خلیاتی سظحپر بھی درست ہے؟ جو لوگ تھوڑا سا بھی علم رکھتے ہیں وہ یہ جانتے ہیں کہ یہ کتاب ایک ایسی ذات کی لکھی ہوئی یے جو انتہائی اعلی سائنسی علم رکھتا ہے ورنہ یہ آیات اس طرح سطحی طور پر اور پھر تفصیلی طور پر درست نہ ہوتیں۔
اگر ہم مان لیتے ہیںکہ ایک ایسی باعلم ذات جو یہ دعوی کرتی ہے کہ اس نے انسان کی تخلیق کی تو وہ برحق ہے کہ ہم کو ہدایت دے کے کیا اچھا (فلاح ) ہے اور کیا برا (رجس و شیطانی) لہذا سائنسی نکتہ نظر سے اشاراتی طریقوں سے فال نکالنا یا ہاتھوں کی لکیر کے ایروز (تیر نما اشاروں)سے شخصیت کی نشاندہی کرنا یا قسمت کا حال بتانا رجس (ناپاک) اور شیظانی کام ہیں ، جن سے اجتناب کرنا فلاح پانے کے لئے ضروری ہے۔
بذات خود میں ایک معمولی طالب علم ہوں، لہذا غلطی کا امکان ہے ، کسی بھی غلطی کی پیشگی معافی کا خواستگار ہوں۔
والسلام