اسلام اور علم دست شناسی

علم دست شناسی یعنی ہاتھ کی لکیروں کا پڑھنا اسلام کے نزدیک کیسا ہے؟ قرآن اور حدیث اس بارے میں کیا کہتے ہیں؟بحث کرتے ہوئے اس بات کو پیش نظر رکھیے گا کہ دست شناسی باقاعدہ سائنس کی شکل اختیار کر چکی ہے. کوشش کریں کہ آپ کی رائے مدلل اور حوالے مستند ہوں۔

جناب من، آپ کے سوال بلکہ سوالات کے پہلے حصے کا جواب پچھلے پیغام میں‌دے دیا۔ اب ان سوالات کے سرخ‌ زدہ حصے کا جواب۔ میرے جواب میں‌کوئی درشتگی یا سختی یا غصہ نہیں ہے۔ میں‌آپ کے طریقہ کار اور سوالات اور سوچ کے بہاؤ‌ پر اپنے نکہء‌نظر کا اظہار کروں‌گا۔ ممکن ہے آپ کو یہ بات موضوع سے ہٹ‌کر لگے لیکن پڑھتے جائیے۔

آپ کا طریقہء سوال اور سوالات کا بہاؤ
پہلے ایک مسئلہ پیش کیا پھر اس پر قرآن اور حدیث کی رائے مانگی۔
پھر اس مسئلہ کو سائننسی قرار دیا اور وارننگ دی کہ رائے مدلل اور حوالے مستند ہوں - بنیادی طور پر یہ اسلام (یا مذہب)‌اور سائنس میں‌ایک کو چن لینے کو کہا گیا ہے۔

تو بھائی اس مد میں‌یہ عرض‌ہے ، قرآن گو ایک سائنس کی کتاب نہیں ہے لیکن ایک غیر سائنسی کتاب نہیں ہے۔ اگر ہے تو اس میں سے صرف ایک تھیوری ایسی بتائیے جو آپ سائنسی نکتہ نگاہ سے غلط ثابت کرسکیں۔

مزید دیکھتے ہیں وہ یہ کہ اگر آپ یہاں‌ہیں تو بہت ممکن ہے کہ آپ ایک پروگرامر ہوں ۔ اگر آپ ایک پروگرام نہیں‌بھی ہیں تو کسی پروگرامر سے یہ پوچھ لیجئے کہ ایک پروگرام کیسے تخلیق کیا جاتا ہے۔

ہر پروگرامر یہ جانتا ہے کہ پروگرام سب سے نچلے درجے میں بٹس کی مدد سے لکھا جاتا ہے، تمام پروگرام باٌآخر بٹس ( آن یا آف)‌کی سطح‌پر کام کرتے ہیں۔ جی؟ یہ آن یا آف، مادہ کی پراپرٹی کو مدد سے حاصٌل ہوتا ہے۔ جب ہم ایک مکمل انسان کو دیکھتے ہیں جو ایک جرثومہ سے بڑھ کر ایک مکمل انسان بن جاتا ہے تو یہ ایک پروگرام ہے جو اس ڈی این اے میں‌ موجود ہے جو تمام خلیوں‌ (سیلز)‌ کا بنیادی عنصر ہے۔ یہ آن اور آف کا فیصلہ ڈی این اے کی سطح پر ہو رہا ہے۔ یہی ڈی این اے ایک زندہ پروگرام کی صورت میں‌ وہ تمام فیصلہ کررہا ہے جو ایک مکمل انسان بنانے کے لئے ضروری ہیں ۔ ایک کمپیوٹر کی طرح۔ اب اس ڈی این اے کو مزید دیکھیں تو یہ صرف ایٹم اور مالیکیول سے بنا ہوا ایک پروگرام ہے۔ کسی ایسی ذات کا بنایا ہوا جو ایک طرف ان تمام ایٹموں کی اور مالیکیولوں‌کی فزیکل ، الیکٹریکل اور کیمیکل پراپرٹیز کے بارے میں جانتا ہے اور دوسری طرف زندہ انسان کی پوری تقویم (کنفیگریشن) کے بارے میں‌جانتا ہے

یہ پروگرام کس نے لکھا؟‌ اور اس پروگرام کو لکھنے کا طریقہ کار کیا ہے۔ اس پروگرام کو جس کسی نے بھی لکھا، وہ یہ جانتا تھا کہ یہ پروگرام کس طرح‌چلے گا اور اس کو مادہ کی تمام پراپرٹیز کے بارے میں‌معلوم تھا کہ ان پراپرٹیز یا خصوصیات کو اس طرح ڈی این اے میں رکھا جائے تو یہ خلیہ اس طرح انسان بن جائے گا، اس طرح یہ خلیوں‌کا مجموعہ کیلشئیم جمع کرے گا اور ہڈیاں بنیں گی، اس طرح انسان کی کھال کا پولی مر بنے گا۔ اتنے درجہ اس کا درجہ حرارت ہوگا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ عقل مند ہوگا اور نسل در نسل ہر نیا انسان اپنی اولاد کو یہ عقل دے سکے گا۔ غصہ کرے گا، پیار کرے گا، سوچے گا۔ منطقی دلائل لائے گا، متفق ہوگا، یا نہیں ہوگا۔ حسد کرے گا، رشک کرے گا، محنت کرے گا، پوستی ہوگا۔ وغیرہ وغیرہ

یہ تمام کا تمام پروگرام لکھنے کے لئے یہ جاننا کہ مادہ کی کیا خصوصیات ہیں اور کس طرح ان ایٹم اور مالیکیول کو ترتیب دیا جائے کہ مکمل انسان ، دوران خون کا نظام ، ہاضمہ کا نظام ، اعصابی نظام اور پھر سوچنے کا یہ عظیم انجن جسے عقل کہتے ہیں وجود میں‌آئے۔ وہ کونسی ذات ہے جو اس طرح کا علم رکھتی ہے؟

نوٹ‌کیجئے مین نے اب تک اللہ یا قرآن کا تذکرہ نہیں‌کیا ہے

گو کہ یہ تمام باتیں آپ کو کسی قرآن میں‌نہیں ملیں‌گی لیکن اسی قرآن میں ایک ایسی ذات ضرور مل جائے گی جو یہ دعوی کرتا ہے کہ وہ ایسا علم رکھتا ہے اور جس نے انسان کو تخلیق کیا ہے۔ دنیا کے تمام مذاہب ایک یا دوسرے طریقہ سے کسی خالق کی بات کرتے ہیں۔ مسلمانوں کا یہ عقیدہ کہ کہ اس علم یعنی انسان کی تخلیق کی سائنس کا علم رکھنے والی ذات اللہ کی ہے تو یہ ایک غیر سائنسی خرافات کسی طور نہ ‌ہوئی؟ یہ سب بنایا نہیں گیا تو اس کی تقویم میں اتنی تفصیل کیسے ہے؟

ذرا دیکھئے تخلیق کے زبردست دعوی جن کا مقابلہ کرنے والا پچھلے ہزاروں سالوں‌میں‌کوئی نہیں‌سامنے آیا۔ تخلیق انسانی اور عقل انسانی وہ سائنسی حقیقت اور وہ ملکیت ہے جس کی تخلیق کا دعوی دار اللہ کے سوا ڈھونڈے سے بھی نہیں‌ملتا۔

[ayah]2:21[/ayah] [arabic] يَا أَيُّهَا النَّاسُ اعْبُدُواْ رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُمْ وَالَّذِينَ مِن قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ[/arabic]

[ayah]3:59 [/ayah] إِنَّ مَثَلَ عِيسَى عِندَ اللّهِ كَمَثَلِ آدَمَ خَلَقَهُ مِن تُرَابٍ ثُمَّ قَالَ لَهُ كُن فَيَكُونُ

[ayah]3:190 [/ayah] [arabic]إِنَّ فِي خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلاَفِ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ لَآيَاتٍ لِّأُوْلِي الْأَلْبَابِ [/arabic]
بیشک آسمانوں اور زمین کی تخلیق میں اور شب و روز کی گردش میں عقلِ سلیم والوں کے لئے (اللہ کی قدرت کی) نشانیاں ہیں

[ayah]4:1[/ayah] [arabic]يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُواْ رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُم مِّن نَّفْسٍ وَاحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالاً كَثِيرًا وَنِسَاءً وَاتَّقُواْ اللّهَ الَّذِي تَسَاءَلُونَ بِهِ وَالْأَرْحَامَ إِنَّ اللّهَ كَانَ عَلَيْكُمْ رَقِيبًا[/arabic]

[ayah]6:2[/ayah] [arabic]هُوَ الَّذِي خَلَقَكُم مِّن طِينٍ ثُمَّ قَضَى أَجَلاً وَأَجَلٌ مُّسمًّى عِندَهُ ثُمَّ أَنتُمْ تَمْتَرُونَ[/arabic]
(اﷲ) وہی ہے جس نے تمہیں مٹی کے گارے سے پیدا فرمایا (یعنی کرّۂ اَرضی پر حیاتِ انسانی کی کیمیائی ابتداء اس سے کی)۔ پھر اس نے (تمہاری موت کی) میعاد مقرر فرما دی، اور (انعقادِ قیامت کا) معیّنہ وقت اسی کے پاس (مقرر) ہے پھر (بھی) تم شک کرتے ہو


کچھ لوگ اس ساری تخلیق کے نظریہ کو نہیں مانتے ہیں۔ ٹھیک ہے، لیکن جو مانتے ہیں وہ یہ جانتے ہیں‌کہ انسان اور عقل انسانی کی تخلیق کا دعویدار اب تک اللہ کے سوا کوئی سامنے نہیں آٰیا ۔ اگر ہمارے عقیدہ کے مطابق خالق کائنات اور رب العالمین اگر اللہ ہے تو وہ ایک بہت ہی باعلم (علم یعنی سائنس) ذات ہے کیونکہ اس قسم کی تخلیقات کے لئے جو سائنسی علم درکار ہے اس کے بغیر یہ ممکن ہی نہیں کہ یہ سب کچھ تخلیق کیا جائے۔ لہذا ایسے خالق کائنات کی کتاب کیونکر ایک سائنس کے اصولوں‌کے خلاف کتاب ہو سکتی ہے ۔ نوٹ کیجئے کہ باقی سب کے بارے میں‌اللہ تعالی فرماتے ہیں‌کہ وہ سباپنے اپنے تکے مارتے ہیں۔

جو لوگ جینیٹکس پڑھتے ہیں وہ [ayah]4:1[/ayah] پر غور فرمائیں اور بتائیں کہ جو بات ایک عام آدمی کے لئے درست ہے‌کے لئے درست ہے کیا وہ خلیاتی سظح‌پر بھی درست ہے؟ جو لوگ تھوڑا سا بھی علم رکھتے ہیں‌ وہ یہ جانتے ہیں کہ یہ کتاب ایک ایسی ذات کی لکھی ہوئی یے جو انتہائی اعلی سائنسی علم رکھتا ہے ورنہ یہ آیات اس طرح سطحی طور پر اور پھر تفصیلی طور پر درست نہ ہوتیں۔

اگر ہم مان لیتے ہیں‌کہ ایک ایسی باعلم ذات جو یہ دعوی کرتی ہے کہ اس نے انسان کی تخلیق کی تو وہ برحق ہے کہ ہم کو ہدایت دے کے کیا اچھا (فلاح )‌ ہے اور کیا برا (‌رجس و شیطانی) لہذا سائنسی نکتہ نظر سے اشاراتی طریقوں سے فال نکالنا یا ہاتھوں کی لکیر کے ایروز (تیر نما اشاروں)‌سے شخصیت کی نشاندہی کرنا یا قسمت کا حال بتانا رجس (ناپاک)‌ اور شیظانی کام ہیں ، جن سے اجتناب کرنا فلاح پانے کے لئے ضروری ہے۔

بذات خود میں ایک معمولی طالب علم ہوں، لہذا غلطی کا امکان ہے ، کسی بھی غلطی کی پیشگی معافی کا خواستگار ہوں۔
والسلام
 

خرم

محفلین
فاروق بھائی یہاں میں تھوڑا سا الجھ گیا ہوں۔ فال نکالنا، تیر پھینکنا تو یقیناً منع ہیں کہ ان میں کسی بھی قسم کی کوئی سائنس سرے سے داخل ہی نہیں۔ اس سب کو علم دست شناسی سے کیسے ملایا جا سکتا ہے؟ میرے خیال میں تو دونوں مختلف ہیں اور واضح طور پر کہیں بھی دست شناسی کی ممانعت نہیں کی گئی۔ اگر چند علماء کے بیان کردہ تراجم پر اکتفا کیا جائے تو موسمیاتی پیشگوئی بھی حرام ٹھہرے گی کہ بادلوں کی اور ہوا کی نوعیت اور رُخ دیکھ کر موسم کی پیش گوئی کی جاتی ہے۔ میرے خیال میں ہم دونوں باتوں کو الگ نہیں کر پارہے۔ اسلام Game of Chance کی ممانعت کرتا ہے چاہے وہ جوا ہو، پانسہ پھینکنا ہو، فال نکالنا ہو، لاٹری کے ٹکٹ خریدنا ہو وغیرہ وغیرہ لیکن اگر کوئی چیز کسی علم کی بنیاد پر ہو اس کی ممانعت میرے ناقص خیال میں نہیں ہے۔ اگر پچھلے صفحہ پر بیان کردہ تشریحات کو مانا جائے (تراجم کو نہیں تشریحات کو) تو پھر تو کافی سارے سائنسی علوم پر ہی چھری چل جاتی ہے۔ میں آپ سے بالکل متفق ہوں کہ اللہ کریم کو ہر چیز کا علم ہے اور اس کے علمِ کاملہ کا نہ تو کوئی مقابلہ ہے اور نہ کوئی ہمسر۔ لیکن سوائے جادو کے میرے خیال میں کوئی ایسا علم نہیں ہے جو اسلام کے خلاف ہو۔ توکل و تقوٰی کے خلاف ضرور ہوسکتے ہیں چند علوم لیکن ان کی حرمت شاید ثابت نہیں۔
آپ کے گراں قدر خیالات کا انتظار رہے گا۔
 

شمشاد

لائبریرین
خرم بھائی علم غایب اور معلومات میں خاصا فرق ہے۔

ماں کے رحم میں جب حمل ٹھہرتا ہے تو اللہ کی ذات جانتی ہے کہ لڑکا پیدا ہونا ہے یا لڑکی، اس کا علم سوائے اللہ کے اور کسی کو نہیں، یہ تو ہوا علم غایب۔ اب حمل کو آٹھ دس ہفتے گزر گئے، بچہ کسی حد تک مکمل ہو گیا اور میڈیکل سائینس نے الٹرا ساونڈ کے ذریعے بچے کا اس دار فانی میں آنے سے پہلے ہی معلوم کر لیا کہ لڑکا پیدا ہو گا، تو اس کا تعلق معلومات سے ہے۔

کسی ایسی چیز کے متعلق گواہی دینا جس کا وجود ہی نہیں، اس کا تعلق غایب سے ہے اور کسی ایسی چیز کے متعلق بتانا جس کا وجود تو ہے لیکن علم نہیں، اس کا تعلق معلومات سے ہے۔

موسمیاتی سیاروں کی مدد سے بارش کا یا موسم کا حال جاننا بھی معلومات سے ہی تعلق رکھتا ہے اور بارش کے متعلق تو آپ لکھ ہی چکے ہیں کہ بارش کے کس قطرے سے کیا ہونا ہے یہ اللہ کی ذات ہی بہتر جانتی ہے۔
 

خرم

محفلین
تو شمشاد بھائی اس کا فیصلہ کون کرے کہ دست شناسی علم غائب ہے یا معلومات اور اس کی جانچ کا کیا طریقہ ہوگا؟
 
بھائی خرم، آپ نے ایرو ‌بہت بار دیکھا ہوگا۔ اس کے معنی تیر کے بھی ہوتے ہیں اور نشان کے بھی۔ الازلام کے عمومی معنی تمام لوگوں نے "جوئے کے تیر"‌ کیا ہے یہ سمجھتے ہوئے کہ یہ کوئی طریقہ ہوتا ہوگا جوا کھیلنے کا لیکن یقین سے سب مترجمین نے کچھ نہیں‌کہا، قیاساً ‌ کہا ہے۔ یہاں‌ الازلام کا بہتر ترجمہ اشاراتی نشانی ہے۔ کہ ہاتھ کی اس لکیر سے ہم کو یہ اشارہ مل گیا کہ اس شخص‌کے تین بچے ہونگے۔ اگر کوئی ایسا اصول ہے تو کوئی ہاتھ یاترا کا ماہر مدد کرے کہ ہاتھ کی کس لکیر سے بنک اکاؤنٹ کا سائز یا ساس صاحبہ کی موت یا بچوں کی تعداد سامنے آتی ہے۔

اگر آپ بادل کو بارش کی نشانی کہیں یا کسی بھی سائینسی تجربہ کے عمل کو اس کے نتیجہ کی نشانی کہیں تو یہ وہ نشانی ہے جو کسی نہ کسی اصؤل کے تحت پوری ہوتی ہے۔ اس کے برعکس کوے کے بولنے سے مہمان کے آنےوالی نشانی کی قسم ذرا دوسری ہے۔ اسی طرح ہاتھ کی لکیروں سے قسمت بتانا کس قسم کی نشانی ہے یہ ہم اور آپ اپنے علم و عقل سے فیصلہ کرسکتے ہیں۔

میرا بہترین خیال یہ ہے کہ "اشاراتی نشانیوں" سے قسمت یا شخصیت کا حال بتانا کسی سائنسی زمرہ میں نہیں آتا بلکہ اس زمرے میں آتا ہے کہ اگر سکہ سیدھا گرا تو ضیاالحق جنوری میں مرے گا ورنہ دسمبر میں۔ یہ ہوئی ایک اشاراتی نشانی۔ اور اگر اس کا جہاز گرا تو چاہے الٹا گرے یا سیدھا، ضیاء الحق مرا ہی مرا ۔ اب آپ سکہ گرنے اور جہاز گرنے میں کوئی فرق نہ کیجئے تو بھائی اس سے آگے مباحثہ میں معذرت :)

والسلام
 
میں ایسے جھگڑوں میں کم (بلکہ کبھی نہیں) پڑتا ہوں۔ اس لئے خاموش ہی رہتا ہوں اپنی رائے کے اظہار سے گریز کرتا ہوں۔ پر پیچھے کہیں پڑھا کہ خاموشی نصف رضامندی ہے(گر چہ یہ قاعدہ کلیہ نہیں ہے، اکثر مصلحت خاموش رکھتی ہے)۔ خیر

میرا ایک سوال!

میں ان سبھی احباب سے اس "علم سائنس" کی تعریف پوچھوں گا جس کے دائرے میں "علم دست شناسی" آتا ہے۔ اور پھر "علم دست شناسی" کی ان صفات اور خواص کو جاننا چاہوں گا جن کے باعث یہ اس "علم سائنس" کے معیاروں پر پورا اترتا ہے۔

نوٹ: میرا مقصد نہ تو کسی کو خاموش کرنا ہے اور نہ ہی طنز و تشنیع۔ بس میں سنجیدگی کے ساتھ اس کے سائنسی پہلوؤں سے روشناس ہونا چاہتا ہوں کہ میرے ناقص علم میں اضافہ ہو۔ عین ممکن ہے کہ اس علم میں کچھ ایسے راز مضمر ہوں جن سے میری وقفیت نہ ہو میں نے تو بس سڑک چھاپ دست شناسوں کو دیکھا ہے۔ ایک بات کی اور وضاحت کر دوں کہ میرا دست شناسی پر اب تک کا رویہ یہ رہا ہے کہ میں اسے سرے سے علم ہی نہیں سمجھتا بجز عوام کو بیوقوف بنا کر ٹھگنے کا ایک طریقہ۔ ممنون ہوں گا۔

والسلام!

--
سعود ابن سعید
 

وجی

لائبریرین
کیا اردو محفل پہ آنے کا حکم خدا نے دے رکھا ہے؟ آپ لوگ کیسی باتیں سوچتے ہیں؟
آپ کو ایک چیز کا پتہ ہو گا کہ اگر کسی چیز سے منع کر دیا جائے تو رکنا پڑتا ہے
کرنے کا حکم دیا جائے تو کرنا پڑتا ہے
اور اگر خاموشی رکھی جائے تو کہتے ہیں کہ خاموشی نیم رضا ہوتی ہے۔
آئندہ آپ سے اچھی پوسٹ کی امید رکھوں گا۔

امر صاحب میں آپ کو ایک سمجھ دار آدمی سمجھتا تھا مگر میری غلط فہمی تھی
اب کیا کیا جائے کہ انسان سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیتوں کو استعمال ہی نہ کرے تو اللہ کا اس میں کیا قصور
 

وجی

لائبریرین
شمشادبھائی کوئی اگر اپنے آپ کو پھنے خان سمجھتا ہو تو کچھ نہیں کیا جاسکتا
سمجھانے کا کوئی فائدہ نہیں
 

امر شہزاد

محفلین
امر صاحب میں آپ کو ایک سمجھ دار آدمی سمجھتا تھا مگر میری غلط فہمی تھی
اب کیا کیا جائے کہ انسان سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیتوں کو استعمال ہی نہ کرے تو اللہ کا اس میں کیا قصور

مجھے بہت خوشی ہوئی کہ آپ کو میرے بارے میں بر وقت معلوم ہو گیا ہے۔ مسٹر! کیا آپ سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیتوں کے استعمال میں میری رہنمائی کر سکتے ہیں؟

تعاون کا طالب ہوں۔
 

خرم

محفلین
امر صاحب، فاروق بھائی کی پوسٹ میں کچھ سوالات ہیں جو جواب کے متقاضی ہیں۔ ابن سعید بھائی نے بھی کچھ سوالات کئے ہیں علم دست شناسی کے بارے میں۔ آپ کا ان کے متعلق کیا خیال ہے؟
 

ایم اے راجا

محفلین
جیسا کہ ہماری قوم میں کچھ خبطی اور کچھ دغا باز لوگ اپنے آپ کو پروفیسر، دشت شناس، عامل اور کامل سمجھتے ہیں اور لوگوں کو باور کرواتے ہیں کہ وہ ہر بات کا علم اور ہر مصیبت کا حل رکھتے ہیں اسی قسم کے لوگ دوسری اقوام میں بھی ہیں اگرچہ تعلیم یافتہ اقوام ہونے کی وجہ سے ایسے لوگوں کی تعداد کم ہے اور ان کے پیروکاروں کی تعداد بھی محدود ہے، علمِ دشت شناسی اگر سائنسی علم ہے تو کس بڑے سائنسدان نے اس پر باقا عدہ تھیوری ترتیب دی ہے اور اگر دی ہے تو کیا نام ہے اس تھیوری کا اور کس یونیورسٹی یا سائنسی ادارے نے اس تھیوری کو سند دی ہے، بھائی یہ علم نہ صرف علم نہیں بلکہ اسلام کے منافی بھی ہے۔
ہاں ہم اسے معلومات یا اندازوں پر مبنی ایک قلیل علم کہہ سکتے ہیں، جیسے ہم لوگ کسی کا چہرہ دیکھ کر یہ اندزہ لگا لیتے ہیں کہ یہ شخص شریف ہے یا غلط لیکن یہ اندازے غلط بھی ثابت ہوتے ہیں ایسے علم اور معلومات کے ماہروں کو جو قدرے ہم سے بہتر جانتے ہیں نا کہ صد فیصد قیافہ شناس یا چہرہ شناس کہتے ہیں، اسی طرح کسی کے ہاتھ کی بناوٹ اور ڈیل ڈول سے ماہر اور عیار لوگ یہ اندازہ لگا لیتے ہیں کہ اس شخص کے حالات کیسے ہیں، جیسے گھر میں کام کرنے والی خاتون اور فارغ رہنے والی خاتون کے ہاتھوں میں فرق ہوتا اسی طرح ایک مزدور اور وزیرِاظم کے ہاتھوں کی بناوٹ میں بھی فرق ہے اور عام بندہ بخوبی یہ اندازہ لگا سکتا ہے کون مزدور اور کون دولت مند ہے اسی طرح دیہاتی اور شہری لوگوں کہ پاؤں اور ہاتھوں میں اور شخصیت میں ایک واضح فرق ہوتا ہے۔
کچھ مخفی باتیں ایسی ہیں جن کو اگر عام آدمی جان لے تو اللہ ( نعوذباللہ) پر سے ایمان ہی اٹھ جائے یعنی آسمانوں میں چھپی چیزوں جنت اور جہنم کے مقامات موت کے وقت کا درست علم اور بچے کی پیدائش کا درست اور عین وقت ( ڈاکٹر جو وقت بتاتے ہیں وہ عین اور ٹھیک نہیں ہوتا اس میں آگے پیچھے ضرور ہو تا ہے ) جب نطفہ رحم میں داخل ہوتا ہے تو کیا سائنس اس بات کو حتمی طور پر بیان کرسکتا ہے کہ اس سے حمل ٹھہرے گا یا نہیں اور لڑکا ہو گا یا لڑکی اور کن اعمال کا مالک ہو گا؟ نہیں ہر گز نہیں۔ جب بچہ رحم میں کچھ ہفتوں کا ہو جاتا ہے مطلب اسکی شبیع بن جاتی ہے تو الٹرا ساؤنڈ کی آنکھ یہ دیکھ لیتی ہیکہ وہ نر ہے یا مادہ کیا کبھی کسی ڈاکٹر نے حمل ٹھہرتے ہی یہ بتایا ہیکہ حاملہ کو بیٹا ہو گا یا بیٹی اور وہ تندرست ہوگا۔
دائیں ہاتھ پر انگھوٹھے کے نیچے اگر بڑا ابھار ہے تو حامل دست خودکشی کرے گا اور اگر اسی ہاتھ کی انگشت شہادت کے نیچے کا ابھار برا ہے تو حامل حادثے میں موت کا شکار ہوگا، کیا ایسی سب پیشنگوئیاں درست ثابت ہوئیں ہیں اگر آپ کا جواب مثبت ہے تو پھر قدرت کیا ہے اللہ کے راز تو راز نہ رہے نہ۔
ہاں ہاتھوں کی ساخت اور رنگ سے بیماریوں وغیرہ کا پتہ چلایا جا سکتا ہے جس کے لیئے کافی مہارت کی ضرورت ہوتی ہے جیسے ڈاکٹر نبض سے دل کی دحڑکن جگر کی گرمی وغیرہ کا پتہ چلا سکتا ہے۔
بھائی یہ علم کوئی علم نہیں یہ صرف معلومات ہے اور وہ بھی حاصل کرنے والے کی مہارت سے مشروط ہے۔
موسم کا حال بتانے کا جہاں تک تعلق ہے تو اللہ کی نشانیوں سے یہ معلوم کیا جاسکتا ہیکہ بارش ہوگی یا نہیں اور وہ بھی صد فیصد نہیں، پہلے زمانوں میں لوگ تاروں سے وقت اور سمت معلوم کر لیاکرتے تھے اور انیس بیس کا فرق ہوتا تھا یہ علمِ غیب نہیں بلکہ اللہ کی نشانیوں کو سمجھنے کا علم ہے اور معلومات کے زمرے میں ہی آتا ہے۔
دست شناسی جس طرح آج کل کے ٹھگ کرتے ہیں گناہ کبیرہ ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سختی سے منع فرمایا ہے اور دست دکھانے اور ایسی باتیں بتانے والے کو گناہ کبیرہ کا مرتکب قرار دیا گیا ہے، اگر لوگ اسطرح کسی کے آنے والے اور گذرے ہوئے حالات اور موت بیماری اور قسمت کے فیصلوں کا حال جاننے لگ جائیں تو پھر توبہ نعوذ باللہ اللہ اور کرامات اور معجزات کا وجود تو خطرے میں اور مشکوک نہ ہو جائے گا۔
بھائیو ایسے لوگوں سے بچو اور دوسروں کو بھی بچنے کی تلقین کرو اور ایسے پیروں فقیروں سے دور بھاگو اور انکی حوصلہ شکنی کرو جو معاشرے میں انارکی اور غیراسلامی چیزیں پھیلا رہے ہیں، بیماریوں کو جن بھوت کا سایہ قرار دیتے ہیں۔ شکریہ۔
 

فرخ

محفلین
السلام و علیکم لوگو
اس لڑی میں اور دوستوں‌نے کافی اچھے حوالے دیئے ۔ کچھ میں‌اپنے ناقص علم اور انٹرنیٹ پر موجود دوسرے ذرائع سے کچھ نکال کر یہاں پیش کر رہاہوں۔ (واللہ اعلم(

دست شناسی پر تبصرہ سے پہلے ان علوم سے متعلق کچھ باتیں جن میں مستقبل کے متعلق معلومات دینے کے طریقے موجود ہیں:

غییب کا علم صرف اللہ کے پاس ہے۔


قُلْ لَا يَعْلَمُ مَنْ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ الْغَيْبَ إِلَّا اللَّهُ (سورۃ النمل۔65)

''فرمادیجئے کہ جو لوگ آسمانوں اور زمین میں ہیں ان میں سے کوئی غیب کا علم نہیں رکھتا سوائے اللہ کے''

اور فرمایا:

وَعِنْدَهُ مَفَاتِحُ الْغَيْبِ لَا يَعْلَمُهَا إِلَّا هُوَ وَيَعْلَمُ مَا فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَمَا تَسْقُطُ مِنْ وَرَقَةٍ إِلَّا يَعْلَمُهَا وَلَا حَبَّةٍ فِي ظُلُمَاتِ الْأَرْضِ وَلَا رَطْبٍ وَلَا يَابِسٍ إِلَّا فِي كِتَابٍ مُبِينٍ (الانعام۔59)

''اسی کے پاس غیب کی کنجیاں ہیں جنہیں اس کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ بحروبر میں جو کچھ ہے وہ اس سے واقف ہے۔ درخت سے گرنے والا کوئی پتہ ایسا نہیں جس کا اسے علم نہ ہو۔ زمین کے تاریک پردوں میں کوئی ایسا دانہ نہیں جس سے وہ باخبر نہ ہو۔ خشک و تر سب ایک کھلی کتاب میں لکھا ہوا ہے۔''

وَمَا تَدْرِي نَفْسٌ مَاذَا تَكْسِبُ غَدًا وَمَا تَدْرِي نَفْسٌ بِأَيِّ أَرْضٍ تَمُوتُ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ (لقمان۔ 34)

''کوئی شخص یہ نہیں جانتا کہ وہ کل کیا کچھ کرے گا، نہ کسی کو یہ معلوم ہے کہ وہ کس زمین پر مرے گا۔ اللہ تعالیٰ ہی سب کچھ جاننے والا اور باخبر ہے۔''


اسی طرح مستقبل کی خبر دینے والے نجومیوں کے بارے میں ایک بہت اہم حدیث۔
قَالَتْ عَائِشَةُ : سَأَلَ أُنَاسٌ رَسُولَ اللّهِ عَنِ الْكُهَّانِ؟ فَقَالَ لَهُمْ رَسُولُ اللّهِ : «لَيْسُوا بِشَيْءٍ» قَالُوا: يَا رَسُولَ اللّهِ فَإِنَّهُمْ يُحَدِّثُونَ أَحْيَاناً الشَّيْءَ يَكُونُ حَقًّا. قَالَ رَسُولُ اللّهِ : «تِلْكَ الْكَلِمَةُ مِنَ الْجِنِّ يَخْطَفُهَا الْجِنِّي. فَيَقُرُّهَا فِي أُذُنِ وَلِيِّهِ قَرَّ الدَّجَاجَة، فَيَخْلِطُونَ فِيهَا أَكْثَرَ مِنْ مِائَةِ كَذْبَةٍ (مسلم حدیث نمبر 5769۔ کتاب السلام باب تحریم الکھانۃ و اتیان الکھان)

اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ بعض لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے کاہنوں(نجومیوں) کے بارے میں پوچھا؟ تو انہوں نے فرمایا کہ ''وہ کچھ نہیں ہیں'' (یعنی ان کی کوئی حیثیت نہیں اور کسی اعتبار کے لائق نہیں ہیں)۔ لوگوں نے کہا '' اے اللہ رسول! ان کی بعض باتیں سچ نکلتی ہیں (اس کی کی وجہ ہے)''۔ انہوں نے فرمایا کہ ''وہ سچی بات وہی ہے جس کو کوئی جن (فرشتوں کی بات چیت کے دوران) اُڑا لیتا ہے اور اپنے دوست کے کان میں ڈال دیتا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پھر وہ اس میں اپنی طرف سے اور سو جھوٹ ملاتے ہیں (اور لوگوں سے کہتے ہیں)۔

بحوالہ: انسانی زندگی پر ستاروں کے اثرات، قرآن و حدیث‌ کی روشنی میں
http://pak.net/showthread.php?t=3673


اسی طرح مستقبل کی خبر دینے والوں کے بارے میں دین میں‌کافی دلائل و حوالا جات موجود ہیں جس سے ان علوم کا کفر کی طرف لے جانا ثابت ہوتا ہے اور اندیشہ ہوتا ہے کہ انسان گمراہی کے گڑھے میں گر سکتا ہے، کیونکہ ایسے علوم میں شیطان کا ہاتھ ہوتا ہے۔

اب کوئی بھی علم جس میں‌دست شناسی بھی شامل ہے، اگر تو مستقبل بینی کے لیئے استعمال ہوگا، تو بھی انہی حوالا جات کے تحت دیکھا جائیگا یعنی قطعی طور ممانعت۔

لیکن اگر اس سے کسی کی شخصیت چانچنی ہو، یا کسی کے مزاج یا طبیعت کا اندازہ لگانا ہو، تو مجھے ابھی تک اس بارے میں کوئی حوالا جات نہیں معلوم جس میں اس کام سے منع کیا گیا ہو۔

بدقسمتی سے، ہمارے ہاں دست شناسی زیادہ تر مستقبل بینی کے طور پر استعمال ہو رہی ہے۔ جس کی دین میں‌کوئی گنجائیش نہیں۔
یہاں‌دو بہت اہم نکات ہیں:
تقدیر پر ایمان رکھنا مسلمان کے لیئے بہت ضروری ہے۔ اور اس طرح مستقبل بینی کے علوم اس ایمان کے حصے کو متاثر کر سکتے ہیں۔
غیب کا علم اللہ کے پاس ہے۔۔ تو ایمان کا یہ حصہ بھی متاثر ہو سکتا ہے۔

بات یہ ہے، کہ اگر آپ کسی طریقے سے یہ پتہ بھی لگا لیں کہ اللہ تعالٰی نے آپ کی تقدیر میں کیا لکھا ہے، تو اپ کبھی اسکو بدل نہیں‌سکتے۔ کیونکہ ہوتا وہی ہے جو اللہ کا حکم ہو۔

اور جسے لوگ کہتے ہیں کہ فلاں نے اپنی تقدیر بدل لی، تو دراصل ویسا کرنا ہی اسکی تقدیر میں تھا۔۔۔۔


ہمیں چاہیے کہ اپنے عقیدے قرآن و حدیث کے مطابق رکھیں اور ہر قسم کی گمراہیوں سے بچیں۔ اللہ تعالیٰ سمجھ اور عمل کی توفیق عطا فرمائے (آمین)
 

مہوش علی

لائبریرین
سورۃ لقمان:31 , آیت:34
[arabic]إِنَّ اللَّهَ عِندَهُ عِلْمُ السَّاعَةِ وَيُنَزِّلُ الْغَيْثَ وَيَعْلَمُ مَا فِي الْأَرْحَامِ وَمَا تَدْرِي نَفْسٌ
مَّاذَا تَكْسِبُ غَدًا وَمَا تَدْرِي نَفْسٌ بِأَيِّ أَرْضٍ تَمُوتُ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ[/arabic]



بیشک اﷲ ہی کے پاس قیامت کا علم ہے، اور وہی بارش اتارتا ہے، اور جو کچھ رحموں میں ہے وہ جانتا ہے، اور کوئی شخص یہ نہیں جانتا کہ وہ کل کیا (عمل) کمائے گا، اور نہ کوئی شخص یہ جانتا ہے کہ وہ کِس سرزمین پر مرے گا، بیشک اﷲ خوب جاننے والا ہے، خبر رکھنے والا ہے (یعنی علیم بالذّات ہے اور خبیر للغیر ہے، اَز خود ہر شے کا علم رکھتا ہے اور جسے پسند فرمائے باخبر بھی کر دیتا ہے) (ترجمہ طاہرالقادری)

سرخ نشان زدہ طاہر القادری صاحب کا اپنا اضافہ لگتا ہے، باقی تراجم میں ایسی کوئی بات نہیں ملتی۔

السلام علیکم
صرف یہ سرخ رنگ کی عبارت ہی نہیں، بلکہ ڈاکٹر طاہر القادری صاحب کے آخر کا پورا جملہ اس آیت کا ترجمہ نہیں ہے[بلکہ کچھ دیگر قرانی آیات کا مفہوم ہے]، اور اس چیز کو واضح کرنے کے لیے ڈاکٹر صاحب نے پورے جملے کو بریکٹز میں بند کیا ہوا ہے اور یہ وہ عام طریقہ ہے جسے تمام کے تمام مترجمین و مفسرین استعمال کرتے ہیں۔
چنانچہ پورا جملہ جو ڈاکٹر طاہر القادری نے دوسری قرانی آیات کے مفہوم کے طور پر لکھا ہے وہ یہ ہے:
(یعنی علیم بالذّات ہے اور خبیر للغیر ہے، اَز خود ہر شے کا علم رکھتا ہے اور جسے پسند فرمائے باخبر بھی کر دیتا ہے)

سورہ التکویر [۸۱] کی یہ آیت دیکھیں:
24. اور وہ (یعنی نبئ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) غیب (کے بتانے) پر بالکل بخیل نہیں ہیں (مالکِ عرش نے ان کے لئے کوئی کمی نہیں چھوڑی) [طاہر القادری]

24۔ [از شبیر احمد] اور نہیں ہے یہ (رسول) غیب (کی بات بتانے) میں ذرا بھی بخیل۔

///////////////////////

مختصرا قران کی بہت سی آیات میں اللہ یہ فرما رہا ہے کہ غیب کا علم صرف اسی کو ہے، مگر اسی قران میں کئی جگہ وہ اولیاء اللہ کو بھی غیب کی خبروں سے مطلع کرنے کا فرما رہا ہے اور یہ وہی بات ہے جو کہ ڈاکٹر صاحب نے ان بریکٹز کے اندر لکھی ہے۔
 

مہوش علی

لائبریرین
جو جھوٹے عامل دست شناسی کے ذریعے مستقبل بتانے کی بات کرتے ہیں، ان کے اس وبال کو انہی کے سر رکھیں، اور بذات خود اس "علم" سے ناانصافی نہ کریں۔

وقت آ گیا ہے کہ اسلام میں اجتہاد کیا جائے اور سائنسی علوم اور اسلام میں تطبیق کی جائے۔ مثلا:

1۔ پیر فقیر کو چھوڑیں، بڑے بڑے ملا یہ فتوی آج تک دے رہے ہیں کہ زمین سورج کے گرد نہیں بلکہ سورج زمین کے گرد گھوم رہا ہے۔

2۔ زناکاری [حتی کہ زنا بالجبر] میں ملا ابھی تک 4 عینی گواہوں کا تقاضا کرتا ہے اور سائنسی علوم کے ذریعے ظاہر ہونے والی رپورٹوں کا منکر ہے۔

3۔ ملا آج تک اعضاء کی ٹرانسپلانٹیشن کا مخالف ہے۔ اور میڈیکل سائنس کی بہت سی باتوں کا منکر ہے اور یہ چیز اسلام کو دوسروں کے نزدیک مضحکہ خیز بنا رہی ہے۔

/////////////////////////

علم دست شناسی بطور سائنس:

علم دست شناسی کے ذریعے مستقبل بینی کا دعوی کرنے والے جھوٹے عاملوں کے برعکس اگر اس سائنس کے ماڈرن یورپین ماہرین سے گفتگو کریں تو وہ کبھی بھی آپ کو یہ نہیں کہیں کہ اسکے ذریعے وہ مستقبل دیکھنے کے قابل ہو گئے ہیں [یعنی بطور سائنس وہ مستقبل بینی کو نہیں مانتے]

تو میری رائے میں مستقبل کا دعوی کرنے والے یہ جھوٹے عامل بھی غلط ہیں اور وہ ملا طبقہ بھی غلط ہے جو اس مستقبل کا بہانہ بنا کر اس سائنس کا مطلق منکر ہے۔

///////////////////////////////

دست شناسی کے حوالے سے پرسنل تجربہ
میں یہ مانتی ہوں کہ انسان کو سب سے پہلے اپنے آپ سے "سچا" ہونا چاہیے۔
بطور مسلمان میری تعلیم و تربیت بھی ایسے ہی ہوئی ہے کہ جس کے مطابق میں شروع میں ایسے علوم کو شیطانی علوم مانتی تھی [یہ بہت شروع کی بات ہے جب میں نے اسلام کے متعلق پڑھنا شروع کیا تھا اور اردو میں سب سے زیادہ لٹریچی مودودی صاحب کا پڑھا تھا اور اسکے اثرات بہت حد تک میری شخصیت میں تھے]
مختصرا یہ کہ میرے گھر والے تو علم دست شناسی وغیرہ کو مانتے تھے، مگر میں منکر تھی۔

پھر ہم پاکستان گئے۔ وہاں پہلی مرتبہ میرا سامنا خاندان کے ہی ایک ایسے شخص سے ہوا جو کہ ستر کی دھائی میں تھا، اُس نے شادی نہیں کی تھی، اُس نے بچپن میں سکول ختم نہیں کیا تھا مگر کمال کا شخص تھا کہ پوری زندگی 14 تا 15 گھنٹے مختلف چیزوں کے مطالعے میں صرف کرتا تھا۔
تو اگرچہ کہ سکول نہیں گیا تھا، مگر 9 غیر ملکی زبانوں کا ماہر تھا اور ایک پرائیویٹ کالج میں عربی کی کلاسز کو پڑھاتا تھا۔ علم دست شناسی کے علاوہ بھی بہت سے دیگر روحانی علوم کا ماہر تھا۔

باقی روحانی علوم کے متعلق پھر کبھی، مگر جب ہم پاکستان گئے تو اتفاقا وہ خالو کے گھر آیا ہوا تھا۔ اُس وقت پہلی مرتبہ میں اپنے اس رشتے دار بزرگ سے متعارف ہوئی [حالانکہ اس سے قبل اتفاقی طور پر کبھی کسی نے اسکا نام میرے سامنے نہیں لیا تھا]

پھر میں نے دیکھا کہ لوگوں نے اس شخص کی منت سماجت کرنی شروع کر دی کہ ذرا اس بچی کا ہاتھ دیکھیں۔ مگر وہ شخص راضی نہ ہوتا تھا، بہرحال جب لوگوں نے بہت کہا کہ بچی بہت دور یورپ سے آئی ہے اور جلد یہ لوگ واپس جانے والے ہیں تو یہ سن کر راضی ہوا۔

یاد رہے کہ میں علم دست شناسی کی منکر تھی، مگر میں کم از کم اپنے آپ سے سچ بولنے کا وعدہ کیے ہوئے تھی، اور میرا تجربہ یہ تھا کہ:
"وہ شخص میری عادات، میری خوبیوں، میری کمزوریوں، میرے رویوں کے متعلق بتاتا چلا گیا اور اللہ میرا گواہ ہے کہ میرا سر بہت سی باتوں پر اثبات میں ہل رہا تھا، اور کچھ چیزوں پر میں اپنا سر ہلانے سے روک لیتی تھی، اور اُن باتوں پر شک کرنا چاہتی تھی اور انہیں جھٹلانا چاہتی تھی۔۔۔ مگر میرا ذہن مجھے سمجھا رہا ہوتا تھا کہ انصاف کی نطر سے دیکھو تو یہ شخص بالکل صحیح بات بتا رہا ہے۔

کچھ ایسی باتیں بھی تھیں جن پر اپنے متعلق میں نے غور نہیں کیا تھا، مگر جب اُس شخص نے بیان کیا تو مجھے غور کرنا پڑا اور واقعی مجھے اسکی باتوں میں صداقت نظر آئی۔

////////////////////////////////

مختصرا،
یہ سب باتیں ایک طرف، مگر میں نے چھوٹتے ہی ان پر مستقبل بینی کے حوالے سے سوال داغ دیا۔ اس پر اُس شخص نے یہی جواب دیا کہ اُس نے مستقبل کے حوالے ایک بھی بات نہیں کی ہے، مگر صرف عادات کے مطابق رجحانات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ اگر ان رجحانات کو کنٹرول نہ کیا گیا تو اس قسم کے نتائج سامنے آ سکتے ہیں۔

اور کیا میں اس شخص کو جھٹلا دوں کہ اس نے مجھے یہ تک بتا دیا تھا کہ وہ دیکھ رہا ہے کہ صحت کی طرف سے پرابلم ہونے والی ہے [اور وہ شخص اس قابل تھا کہ اس نے اسے اعصاب کی منسوب کیا تھا]

آپ میں سے بہت سے لوگوں کو علم ہو گا کہ مجھے آنکھوں کی شدید پرابلم ہے۔ مگر اصل بات یہ ہے کہ میری آنکھیں بالکل درست ہیں اور میں چشمہ تک نہیں لگاتی۔۔۔۔۔ اور اصل بیماری Optic Nerves یعنی آنکھوں تک آنے والے اعصاب کی ہے جو کہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں]

/////////////////////////////

میں نے دست شناسی کو جہاں تک بطور سائنس پڑھا ہے، اسکے مطابق بہت سی چیزیں واضح ہوئی ہیں کہ یہ لکیریں ہمارے ہاتھوں میں ہماری "صحت" کی وجہ سے ظاہر ہوتی ہیں۔

ایک چیز اور، ہاتھ کی لکیروں کی علاوہ بھی ایک اور علم ہے جو کہ انسانی رویوں کا ہمیں بہت حد تک بتا سکتا ہے۔ اور وہ یہ ہے کہ انسان کی بڑی آنت کا ایکس رے لیا جاتا ہے اور اسکی بناوٹ ہمیں بتاتی ہے کہ اس شخص کو کیا کیا پرابلمز ہیں۔ یہ ایک طویل موضوع ہے مگر جب اسے آپ سائنس کے حوالے سے پڑھیں گے تو آپ کو بہت حیرت کا سامنا کرنا پڑے گا۔
 

فرخ

محفلین
بہت خوب مہوش
لیکن یہ کون بے وقوف ہے
۔ پیر فقیر کو چھوڑیں، بڑے بڑے ملا یہ فتوی آج تک دے رہے ہیں کہ زمین سورج کے گرد نہیں بلکہ سورج زمین کے گرد گھوم رہا ہے۔
جو آج بھی ایسی حرکتیں کر رہے ہیں؟
 
Top