فاخر رضا
محفلین
ایسا تو شاید بوٹاں والی سرکار نے بھی نہیں سوچا ہوگا
ایسا تو شاید بوٹاں والی سرکار نے بھی نہیں سوچا ہوگا
اسی لوہار ہائی کورٹ کے شریف خاندان سے متعلق فیصلوں پر جب ہم انصافی چیختے تھے تو پوری قوم انجوائے کرتی تھی۔ اب آپ روئیں، ہم انجوائے کر رہے ہیںعدل تو عدل، عدالت بھی نہ چھوڑی ہم نے
ہنڈیا انصاف کی چوراہے پہ پھوڑی ہم نے
ملک کی سب سے بڑی عدالت نے ذوالفقار علی بھٹو کو قاتل کہا تھا۔ نواز شریف کو جھوٹا اور تاحیات نااہل قرار دیا تھا۔ جب ان تاریخی فیصلوں کو ان کے مداح آج تک نہیں مانے تو مشرف کی خصوصی عدالت والا فیصلہ کب تک ٹھہر سکتا تھا۔ملک کی سب سے بڑی عدالت کا چیف جسٹس ایک خصوصی عدالت بنائے تو اس کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی
تو اصل غداری کا مقدمہ 1999 میں مارشل لا لگانے پر بنتا تھا۔ اسے چھوڑ کر 2007 میں ایمرجنسی لگانے پر کر دیا۔چونکہ اس کے پاس مسلح فوج ہے اس نے اپنے زبردستی کے اقتدار میں آئین توڑا مگر دھڑلے سے آئین کی موم کی گردن مروڑ کر اسے مارشل لاء کا نام دینے کی بجائے ایمرجنسی کا نام دے دیا
قانون کی بات کیا کرو، افراد غلط ہو سکتے ہیں لیکن قانون نہیں، قانون جو اکثریت یعنی عوام کے لیے بنایا جائے وہی اصل قانون ہوتا ہے اور جسے گن پوائنٹ پر منوایا جائے اور جس کا فائدہ چند افراد یا ایک گروہ کے لیے ہو وہ ٹوپک زم قانون ہوا کرتا ہے۔ملک کی سب سے بڑی عدالت نے ذوالفقار علی بھٹو کو قاتل کہا تھا۔ نواز شریف کو جھوٹا اور تاحیات نااہل قرار دیا تھا۔ جب ان تاریخی فیصلوں کو ان کے مداح آج تک نہیں مانے تو مشرف کی خصوصی عدالت والا فیصلہ کب تک ٹھہر سکتا تھا۔
مقدمہ میں نے تو قائم نہیں کیا، نوازشریف دور کا مقدمہ ہے، اور یہ بھی کھلی حقیقت ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کی پروردہ پارٹیاں ان کو بچانے کے کھیل کھیلتی ریتی ہیں، ایک طرف مقدمہ بنا دیا اپنی پارٹی اور عوام کو خوش کر دیا، دوسری طرف مقدمے میں پتلی گلی ڈال دی کہ وہ بھی بچ جائے میں بھی بچ جاؤں۔ دھندہ کرنے والے ایسے ہی لوگ ہوتے ہیں، اب تم نے فیصلہ کرنا ہے ہے کہ دھندہ کرنے والوں کی مدح سرائی کرو گے یا سچ کا ساتھ دو گے۔تو غداری کا مقدمہ 1999 میں مارشل لا لگانے پر بنتا تھا۔ اسے چھوڑ کر 2007 میں ایمرجنسی لگانے پر کر دیا۔
عدالت کا کونسا فیصلہ قانونی طور پر درست یا غلط ہے، اس کا فیصلہ بھی عدالتوں نے ہی کرنا ہے، آپ عوام نے نہیں۔قانون کی بات کیا کرو، افراد غلط ہو سکتے ہیں لیکن قانون نہیں، قانون جو اکثریت یعنی عوام کے لیے بنایا جائے وہی اصل قانون ہوتا ہے اور جسے گن پوائنٹ پر منوایا جائے اور جس کا فائدہ جس افراد یا ایک گروہ کے لیے ہو وہ ٹوپک زم قانون ہوا کرتا ہے۔
بھٹو نے اپنا مقدمہ سیاسی طور پر لڑا، ہار گیا، سیاسی میدان کا آج تک ہیرو ہے۔ اس کا مقدمہ سننے والے ججز بھی بعد میں مانے کی غلط فیصلہ تھا۔ملک کی سب سے بڑی عدالت نے ذوالفقار علی بھٹو کو قاتل کہا تھا۔ نواز شریف کو جھوٹا اور تاحیات نااہل قرار دیا تھا۔ جب ان تاریخی فیصلوں کو ان کے مداح آج تک نہیں مانے تو مشرف کی خصوصی عدالت والا فیصلہ کب تک ٹھہر سکتا تھا۔
تم ابھی تک یہ بات نہیں سمجھ سکے کہ کسی طبقے کا ماورائے آئین ہونا اسلامی، اخلاقی اور قانونی لحاظ سے غلط ہے۔ جس دن یہ سمجھ جاؤ گے، شخصیات کی پوجا بند کر دو گے۔ فی الحال تم شخصیات کے بتوں کی پوجا کر سکتے ہو۔ جاہلوں کی کمی تو نہیں ایک چھوڑو دس نکل آتے ہین،عدالت کا کونسا فیصلہ قانونی طور پر درست یا غلط ہے، اس کا فیصلہ بھی عدالتوں نے ہی کرنا ہے، آپ عوام نے نہیں۔
جب انہی عدالتوں نے مشرف کو آئین شکن قرار دے کر پھانسی کی سزا سنائی۔ جب انہی نے جنرل باجوہ کا ایکسٹینشن غیر قانونی قرار دے کر معطل کیا۔ اس وقت تو آپ خوشی سے پھولے نہیں سما رہے تھے۔ کیونکہ وہ فیصلے آپ کی منشا یا قانونی سوجھ بوجھ کے عین مطابق تھے۔ اب بازی پلٹ گئی ہے توٹوپک زم قانون دے!
یہ لیں۔ آپ تو خود ہی مان گئے ہیں کہ نواز شرف نے مشرف پر مقدمہ نیک نیتی کے ساتھ نہیں کیا تھا۔ صرف سیاسی پوائنٹ سکورنگ کرنی تھی کہ دیکھو میں کتنا بہادر انسان ہوں جو اسٹیبلشمنٹ کے خلاف کھڑا ہوا۔یہ بھی کھلی حقیقت ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کی پروردہ پارٹیاں ان کو بچانے کے کھیل کھیلتی ریتی ہیں، ایک طرف مقدمہ بنا دیا اپنی پارٹی اور عوام کو خوش کر دیا، دوسری طرف مقدمے میں پتلی گلی ڈال دی کہ وہ بھی بچ جائے میں بھی بچ جاؤں۔
میں نے کب کہا تھا کہ نوازشریف درست تھا؟ کبھی نہیںیہ لیں۔ آپ تو خود ہی مان گئے ہیں کہ نواز شرف نے مشرف پر مقدمہ نیک نیتی کے ساتھ نہیں کیا تھا۔ صرف سیاسی پوائنٹ سکورنگ کرنی تھی کہ دیکھو میں کتنا بہادر انسان ہوں جو اسٹیبلشمنٹ کے خلاف کھڑا ہوا۔
اگر واقعتا مشرف کو سزا دلوانے کا پلان ہوتا تو 1999 میں اپنی حکومت کا تختہ الٹنے پر کرتا۔ لیکن وہاں کچھ نہ کیا کیونکہ اس وقت اسی مشرف سے ڈیل کر کے جدہ بھاگا تھا۔ جیسے آجکل اسٹیبلشمنٹ سے ڈیل کرکے لندن بھاگا ہوا ہے۔
جب آپ اچھی طرح جانتے ہیں کہ مقتدر حلقے آئین و قانون سے بالا تر ہیں تو ان کے خلاف آنے والے عدالتی فیصلوں پر بھنگڑے ڈالنے کی کیا ضرورت تھی؟ بالآخر اس ملک میں ہونا تو وہی ہے جو منظور اسٹیبلشمنٹ ہے۔تم ابھی تک یہ بات نہیں سمجھ سکے کہ کسی طبقے کا ماورائے آئین ہونا اسلامی، اخلاقی اور قانونی لحاظ سے غلط ہے۔ جس دن یہ سمجھ جاؤ گے، شخصیات کی پوجا بند کر دو گے۔ فی الحال تم شخصیات کے بتوں کی پوجا کر سکتے ہو۔ جاہلوں کی کمی تو نہیں ایک چھوڑو دس نکل آتے ہین،
طالع آزما قوتوں کی شکست پر چاہے وہ وقتی ہی کیوں نہ ہومجھے کیا کسی بھی ذی ہوش انسان کو تو خوشی ہی ہونی چاہیے، کیا کوئی غریب نیچے گرے اور میں اس پر ہنسنا شروع کر دوں ایسی بات ہے تو پھر مجھ سے برا انسان کوئی نہ ہوا ناں۔ لیکن جب ان کو جیمز میٹس جیسے لوگوں کے سامنے ہاتھ باندھے، گردن جھکائے دیکھتا ہوں تو خوشی ہوتی ہے کہ کسی فرعون کے لیے موسیٰ کا وجود بھی ہے۔ ایوری ڈاگ ہیز ہز ڈے، ان کو انجوائے کرنے دو۔جب آپ اچھی طرح جانتے ہیں کہ مقتدر حلقے آئین و قانون سے بالا تر ہیں تو ان کے خلاف آنے والے عدالتی فیصلوں پر بھنگڑے ڈالنے کی کیا ضرورت تھی؟ بالآخر اس ملک میں ہونا تو وہی ہے جو منظور اسٹیبلشمنٹ ہے۔
میرے نزدیک یہ انصاف یا نون کا نہیں انصاف کے خون کا معاملہ ہے، جو پچھلے ادوار میں بھی ہوتا رہا اور اب بھی جاری ہے۔اسی لوہار ہائی کورٹ کے شریف خاندان سے متعلق فیصلوں پر جب ہم انصافی چیختے تھے تو پوری قوم انجوائے کرتی تھی۔ اب آپ روئیں، ہم انجوائے کر رہے ہیں
بہت خوب۔ کتنی خوبصورت بات کی اور کتنے اچھے پیرائے میں کی۔ اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ۔میرے نزدیک یہ انصاف یا نون کا نہیں انصاف کے خون کا معاملہ ہے، جو پچھلے ادوار میں بھی ہوتا رہا اور اب بھی جاری ہے۔
تبدیلی آپ کے لیے ہو گی، میرے لیے یہ پچھلی حکومتوں کا ہی تسلسل ہے۔ جب تک قوم عدل و انصاف کے بجائے میری پارٹی کی ہر بات درست اور باقی کی سب باتیں غلط سمجھتی رہے گی، حالات تبدیل ہو ہی نہیں سکتے۔ آپ میرا تیرا کیجیے۔
کس کا موقف درست ہے؟ کون قانونی طور پر حق کیساتھ کھڑا ہے کا فیصلہ بھی بالآخر عدالت نے ہی کرنا ہے۔ قوم اگر عدل و انصاف کو مانتی تو تمام عدالتی فیصلوں کو من و عن تسلیم کرتی۔ جبکہ حقیقت میں ایسا آج تک نہ ہو سکا۔میرے نزدیک یہ انصاف یا نون کا نہیں انصاف کے خون کا معاملہ ہے، جو پچھلے ادوار میں بھی ہوتا رہا اور اب بھی جاری ہے۔
تبدیلی آپ کے لیے ہو گی، میرے لیے یہ پچھلی حکومتوں کا ہی تسلسل ہے۔ جب تک قوم عدل و انصاف کے بجائے میری پارٹی کی ہر بات درست اور باقی کی سب باتیں غلط سمجھتی رہے گی، حالات تبدیل ہو ہی نہیں سکتے۔ آپ میرا تیرا کیجیے۔
عدالت نے جنرل باجوہ کا ایکسٹینشن اس لئے معطل کیا تھا کیونکہ اسے جاری کرتے وقت کابینہ سے منظوری نہیں لی گئی تھی۔ اس وقت عوامی تاثر یہ تھا کہ یہ کیسی نااہل حکومت جو ایک ایکسٹینشن تک ٹھیک سے جاری نہ کر سکی۔ اور مزید یہ کہ عدالتی فیصلہ بالکل درست ہے۔بہت خوب۔ کتنی خوبصورت بات کی اور کتنے اچھے پیرائے میں کی۔ اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ۔