اسلام میں عورت کا مقام

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

رضا

معطل
شرح صحیح مسلم،جلد-4
تصنیف علامہ غلام رسول سعیدی صاحب
چند صفحات سکین کرکے پوسٹ کررہا ہوں۔جس میں آپ ملاحظہ فرمائیں گے۔

کتاب العتق​

1۔عتق کا لغوی معانی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔صفحہ۔47
2۔عتق کا اصطلاحی معانی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔صفحہ۔47
3۔غلام کی تعریف۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔صفحہ۔47
4۔غلامی کے اسباب۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔صفحہ۔47
5۔اسلام نے سب سے پہلے غلاموں کے خاتمے کیلئے قوانین بنائے۔۔صفحہ۔47
6۔اسلام میں غلاموں کو آزاد کرنے کیلئے قوانین اور ترغیبات۔۔۔۔صفحہ۔48
7۔مسلمانوں کے غلام آزاد کرنے کی چند مثالیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔صفحہ۔49
8۔اسیران جنگ کے بارے میں اسلام کی ہدایات۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔صفحہ۔50
9۔جنگی قیدیوں کو غلام بنانے کی مشروطیت کا سبب۔۔۔۔۔۔۔۔صفحہ۔51
10۔جنگی قیدیوں کو غلام بنانے کی فوائد و ثمرات۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔صفحہ۔52
11۔کیا بغیرنکاح کے لونڈیوں سے مباشرت کرنا ناقابل اعتراض ہے؟۔صفحہ۔53
11۔کیا بغیرنکاح کے لونڈیوں سے مباشرت کرنا ناقابل اعتراض ہے؟۔صفحہ۔54


(تصویری مواد حذف کردہ از ایڈمن)
 
رضا، سلام اور دل سے شکریہ ان صفحات کو پیش کرنے کا۔ آپ ہمیشہ ایسی کتب سے حوالے پیش کرتے ہیں جو کو بہت مددگار ہوتی ہیں اصل اصول کو واضح کرنے کے لئے۔ ایک بار پھر خلوص دل سے آپ کا شکریہ۔

میں اس ضمن میں پیش کی گئی روایات اور تشریحات کے لئے مزید آیات پیش کرنے کی اجازت چاہوں گا۔ آپ دوستوں سے التماس ہے کہ اصول قائم کرنے کے لئے اس موقع پر چونکہ دئے گئے حوالے صرف اور صرف قرآن سے ہیں۔ لہذا صرف اور صرف قرآن سے حوالہ دیجئے تاکہ توازن رہے۔
 
رضا، سلام۔

اس کتاب میں اس مصنف نے جو نکات پیش کئے ہیں۔ ان میں سے ایک کا جواب۔

اس کتاب کا نام شرح " صحیح مسلم " ہے۔ جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ایک شخص اپنا نکتہ نظر صحیح مسلم اور قرآن سے ثابت کرنا چاہتا ہے۔ یہ مصنف یہاں لکھتا ہے:
http://i127.photobucket.com/albums/p160/Raza1226/54.jpg


[AYAH]33:52[/AYAH] [ARABIC]لَا يَحِلُّ لَكَ النِّسَاءُ مِن بَعْدُ وَلَا أَن تَبَدَّلَ بِهِنَّ مِنْ أَزْوَاجٍ وَلَوْ أَعْجَبَكَ حُسْنُهُنَّ إِلَّا مَا مَلَكَتْ يَمِينُكَ وَكَانَ اللَّهُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ رَّقِيبًا[/ARABIC]
نہیں حلال ہیں تمہارے لیے عورتیں اس کے بعد اور نہ یہ کہ تم بدلو ان کی جگہ اور بیویاں اگرچہ تمہیں بہت ہی پسند ہو ان کا حسن سوائے تمہاری لونڈیوں کے اور ہے اللہ ہرچیز پر نگران۔

یہاں " مَلَكَتْ يَمِينُكَ "‌ کا ترجمہ لونڈی کیا گیا ہے۔ مناسب ترجمہ "‌ جو آپ کی حق ملکیت ہے"" ہوگا۔ جس سے مراد لونڈی بھی لی جاسکتی ہے۔ اس سے درج ذیل معانی اخذ‌کئے گئے ہیں :
اقتباس:
"قرآن مجید کی ان آیات سے واضح ہوگیا کہ اللہ تعالی نے باندیوں سے مباشرت کی اجازت دی ہے۔ اور جس طرح اللہ تعالی کی اجازت کے بعد منکوحہ بیوی حلال ہوجاتی ہے، اور اس سے مباشرت کرنا ناقابل اعتراض نہیں ہوتا اسی طرح اللہ تعالی کی اجازت سے مملوکہ باندی بھی مرد پر حلال ہوجاتی ہے۔ اور اس سے مباشرت کرنا بھی کسی طور سے لائق اعتراض‌نہیں"

اس کتاب کا نام شرح " صحیح مسلم " ہے۔ جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ صحیح مسلم اور اس ایک آیت کی مدد سے یہ صاحب باندی یعنی نوکرانی یعنی ملازمہ سے حق مباشرت کو بناء کسی عقد النکاح کے حلال قرار دیتے ہیں۔

کیا باندی ، کے لئے نوکرانی یا ملازمہ کا لفظ مناسب ہے؟
جی مناسب ہے۔
آپ ایک عورت کو ایک ماہ کے لئے نوکر رکھیں تو اس کا معاوضہ ادا کیجئے تو وہ ہوئی نوکرانی۔ 50 ماہ کے لئے نوکر رکھیں تو بھی نوکرانی۔ اور اگر 50 سال کے لئے نوکر رکھیں تو بھی وہ نوکرانی ہی رہے گی۔ اب اگر آپ ایک عورت کو ملازمت دیتے ہیں اور یہ ملازمہ 18 سال کی ہے اور 50 سال کام کرے گی۔ آپ اس ملازمہ کی 50 سالہ ملازمت کا معاوضہ ایڈوانس میں اس کے باپ کو ادا کردیتے ہیں تو بھی یہ ملازمہ ہی رہے گی۔ تو جو اصول 50 سال کی ملازمت پر لگے گا وہی اصول 1 سال کی ملازمت پر۔ لہذا یہ ملازمہ ہی کہلائے گی۔

اب یہ ملازمہ آپ کی بیٹی ہے اور آپ نے اس کے 50 سال کی ملازمت کی رقم ایڈوانس میں لے لی۔ گویا آپ نے اپنی بیٹی کو حق تبدیلی ملازمت سے یہ ایڈوانس لے کر محروم کردیا وہ اب ملازمت تبدیل نہیں کرسکتی۔ اس نے اپنے ایمپلائر کی ہی ملازمت کرنی ہے۔ کہیں جا نہیں سکتی۔ یہ وہ باریک نکتہ ہے جو ملازمت اور غلامی کو الگ کرتا ہے۔ اس 50 سالہ ملازمت کے معاہدہ کے ساتھ ساتھ یہ لڑکی یعنی آپ کی بیٹی، اپنے حق تبدیلی ملازمت سے محروم ہورہی ہے۔ اور اب یہ صاحب دعوی کررہے ہیں کہ حق تبدیلی ملازمت تو گیا ہی۔ حق مباشرت بھی مل گیا۔ گویا ملازمت کرنے کی شرط یہ ہے کہ یہ لڑکی اب شادی بھی نہیں کرسکتی۔ اپنی زندگی نہیں‌ جی سکتی؟ کیا یہ منطق آپ کو سمجھ میں آتی ہے؟ آپ کو مناسب لگے گی؟

کیا ملازمت دینے سے حق مباشرت بھی مل جاتا ہے؟ غلامی اور ملازمت میں کیا فرق ہے؟
غلامی ایک شخص کو ملازمت کے نام پر تمام حقوق سے محروم کرنا ہے۔ کہ آپ نے ملازمت تو دی لیکن ساتھ ساتھ اس کے تمام سماجی حقوق چھین لئے۔ جیسے شادی کرنے کا حق۔ اپنی ملکیت رکھنے کا حق۔ اپنے بچے رکھنے کا حق۔ ملازمت تبدیل کرنے کا حق۔ سفر کرنے کا حق۔ ایسی غلامی کچھ ممالک میں عام ہے۔

اس ضمن میں قرآن کیا کہتا ہے؟ قرآن اس ضمن میں بہت ہی واضح حکم دیتا ہے کہ تمہاری لونڈیاں جو پاک دامن رہنا چاہتی ہیں انہیں دنیا کی زندگی کے فائدہ کی غرض سے زنا پر مجبور نہ کرو

[AYAH]24:33[/AYAH] اور چاہیے کہ پاک دامن رہیں وہ جو نکاح کی توفیق نہیں رکھتے یہاں تک کہ اللہ انہیں اپنے فضل سے غنی کر دے اور تمہارے غلاموں میں سے جو لوگ پروانہء آزادی کی تحریر چاہیں تو انہیں لکھ دو اگر اس میں تم ان کے لئے بہتری کے آثار پاؤ اور انہیں اللہ کے مال میں سے ان کو کچھ مال دو جو اس نے تمہیں دیا ہے اور تمہاری لونڈیاں جو پاک دامن رہنا چاہتی ہیں انہیں دنیا کی زندگی کے فائدہ کی غرض سے زنا پر مجبور نہ کرو اور جو انہیں مجبور کرے گا تو اللہ ان باندیوں کے مجبور ہونے کے بعد بخشنے والا مہربان ہے

مزید دیکھئے کہ جو عورتیں آپ کے پاس کسی معاہدہ کے مطابق ملازمت کررہی ہیں آپ ان سے شادی کرسکتے ہیں لیکن اس لئے کہ وہ آپ کی ملازمہ ہے آپ اس ناطہ ان سے زبردستی نہیں کرسکتے کہ وہ آپ سے ہی شادی کریں یا اپنا حق سمجھ کر آپ ان پر زبردستی کریں (زبردستی یعنی violent rape) ۔ اس شادی کے بعد وہ درست طور پر آپ کی ہیں جو کہ " مَلَكَتْ يَمِينُكَ "‌ کے مناسب معنی بنیں گے ۔ یعنی شادی (‌عقد النکاح ) کی بنیادی شرائط پورا کرنا ضروری ہے۔ جس میں مہر کی ادائیگی ، ایجاب و قبول وغیرہ شامل ہیں۔ بہت سے علماء معاہدہ کی مد میں ادا کی گئی رقم کو مہر کی ادائیگی تصور کرتے ہیں۔ جس کی وضاحت یہاں ہوتی ہے۔ ایجاب و قبول ایک لازمی اور فرض کیا ہوا امر ہے۔ جس کا اشارہ یہاں ملتا ہے۔

[AYAH]4:25[/AYAH] اور تم میں سے جو کوئی (اتنی) استطاعت نہ رکھتا ہو کہ آزاد مسلمان عورتوں سے نکاح کر سکے تو ان مسلمان کنیزوں سے نکاح کرلے جو (شرعاً) تمہاری ملکیت میں ہیں، اور اللہ تمہارے ایمان (کی کیفیت) کو خوب جانتا ہے، تم (سب) ایک دوسرے کی جنس میں سے ہی ہو، پس ان (کنیزوں) سے ان کے مالکوں کی اجازت کے ساتھ نکاح کرو اور انہیں ان کے مَہر حسبِ دستور ادا کرو درآنحالیکہ وہ (عفت قائم رکھتے ہوئے) قیدِ نکاح میں آنے والی ہوں نہ بدکاری کرنے والی ہوں اور نہ درپردہ آشنائی کرنے والی ہوں، پس جب وہ نکاح کے حصار میں آجائیں پھر اگر بدکاری کی مرتکب ہوں تو ان پر اس سزا کی آدھی سزا لازم ہے جو آزاد (کنواری) عورتوں کے لئے (مقرر) ہے، یہ اجازت اس شخص کے لئے ہے جسے تم میں سے گناہ (کے ارتکاب) کا اندیشہ ہو، اور اگر تم صبر کرو تو (یہ) تمہارے حق میں بہتر ہے، اور اللہ بخشنے والا مہر بان ہے

گو کہ یہ آیات پہلے بھی لکھی جاچکی ہیں لیکن جب تک ہم میں قران کی تعلیم عام نہیں ہوگی۔ یہ سوالات اٹھتے رہیں گے۔ یہ ذہن میں رکھئے کہ بہت کچھ غلط العام قرآن کو قبول کرنے کے بعد بھی جاری ہے۔ اس سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ قرآن سے اختلاف رکھنے والی کتب کو پڑھنے میں احتیاط ضروری ہے۔
 

راجہ صاحب

محفلین
کیا ملازمہ سے مباشرت جائز ہے؟ روایات کہتی ہیں جائز ہے۔ شاید عام ایمان بھی یہی ہے۔ لیکن قرآن کے واضح احکامات موجود ہیں کہ ایسا درست نہیں ۔ آپ کے کیا خیالات ہیں؟ اس دھاگہ میں فراہم کیجئے۔


جناب ملازمہ اور باندی میں بہت فرق ہے ذرا غور کریں‌اس پر بھی
 

خاور بلال

محفلین
فاروق سرور خان نے کہا:
کیا ملازمہ سے مباشرت جائز ہے؟ روایات کہتی ہیں جائز ہے۔ شاید عام ایمان بھی یہی ہے۔ لیکن قرآن کے واضح احکامات موجود ہیں کہ ایسا درست نہیں ۔ آپ کے کیا خیالات ہیں؟ اس دھاگہ میں فراہم کیجئے۔

لاحول ولا
کیا آپ کے ساتھ کچھ مسئلہ ہے؟ جھوٹ بولنا اور اسلامی تعلیمات سے متعلق لاف زنی آپ کے نزدیک کوئ حیثیت ہی نہیں رکھتی؟ ملازمہ اور لونڈی میں‌ آپ کے نزدیک کوئ فرق نہیں۔ اسلام کیا کوئ خیالی مذہب ہے یا آپ پر اس کی نئ نئ تشریحات اب نازل ہورہی ہیں؟ آخر وہ کونسی لغت ہے جس سے آپ نے یہ مطلب نکالا؟ جس شخص کو یہ نہ معلوم ہوکہ باندی اور ملازمہ میں‌کیا فرق ہے وہ اس قابل کب ہوا کہ قرآن و احادیث پر مشق ستم کرتا پھرے؟ آپ نے تو حسب روایت اتنے اہم مسئلے میں‌ بے سوچے سمجھے بیان داغ دیا لیکن یہ نہ سوچا کہ اس کا اثر کہاں‌ تک جائے گا۔ اہل بیت رسول اور صحابہ کے گھروں میں‌ جنگ کے پکڑے ہوئے غلام اور مفتوح‌ ممالک سے آئ ہوئ لونڈیاں موجود تھیں۔ یاد رہے صحابہ کرام اور اہل بیت رسول کو مسلمان روشنی کا مینار مانتے ہیں اس روشنی کے مینار کو جس گندی نظر سے آپ دیکھنا چاہ رہے ہیں اس کا صاف اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ یعنی آپ کے بیان کے مطابق کائنات کی عظیم ترین ہستیاں‌ ملازماؤں‌ سے جنسی تعلقات رکھتی تھیں؟ باندی اور ملازمہ دو مختلف چیزیں ہیں اور ان میں اتنا ہی فرق ہے جتنا حدیث سے متعلق آپ کے سابقہ موقف اور موجودہ موقف میں فرق ہے۔

مسئلہ غلامی سے متعلق تفہیمات حصہ دوم میں مضمون موجود ہے اس کے کچھ اقتباسات یہاں پیش کررہا ہوں؛

اسلامی کے ابتدائ زمانے میں‌غلامی کی دو صورتیں‌رائج تھیں:
ایک یہ کہ، بعض‌ ممالک کے آزاد باشندوں کو پکڑ کر ان کی خرید و فروخت کی جاتی تھی۔
دوسرے یہ کہ، جنگ میں‌ جولوگ گرفتار ہوتے تھے ان کو غلام بنالیا جاتا تھا۔
ان دو شکلوں‌میں‌سے پہلی شکل کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قطعا ممنوع قرار دیا اور فرمایا کہ جوشخص کسی آزاد کو پکڑ کر بیچے گا اس کے خلاف میں‌خود قیامت کے روز مدعی بنوں گا۔ بخاری
دوسری شکل کے متعلق اسلام کا قانون یہ قرار پایا کہ جولوگ جنگ میں گرفتار ہوں ان کو یا تو احسان کے طور پر رہا کردیا جائے، یافدیہ لے کر چھوڑدیا جائے، یا دشمن کے مسلمان قیدیوں سے ان کا مبادلہ کرلیا جائے لیکن اگر یونہی رہا کردینا جنگی مصالح کے خلاف ہو، اور فدیہ وصول نہ ہوسکے اور دشمن اسیران جنگ کا مبادلہ کرنے پر بھی رضامند نہ ہوتو مسلمانوں کو حق ہے کہ انہیں غلام بناکر رکھیں۔ البتہ اس قسم کے غلاموں کے ساتھ انتہائ حسن سلوک اور رحمت کے برتاؤ کا حکم دیا گیا ہے۔ ان کی تعلیم و تربیت دینے اور انہیں سوسائٹی کے عمدہ افراد بنانے کی ہدایت کی گئ ہے اور مختلف صورتیں ان کی رہائ کے لیے پیدا کی گئ ہیں۔ دشمن کی خواتین سے متعلق بھی اسلام نے ضابطہ مقرر کیا ہے۔ حیات طیبہ سے اسکی بہت سی مثالیں ملتی ہیں۔ ام المومنین حضرت صفیہ انہی عورتوں میں سے تھیں جو بنی قریظہ سے گرفتار ہوکر آئی تھیں بنی قریظہ کی عورتوں اور بچوں کو لونڈی غلام بناکر مسلمانوں میں تقسیم کردیا گیا تھا۔

حق ملکیت کی بنا پر جنسی تعلق کی اجازت قرآن مجید کی متعدد آیات میں صریح طور پر وارد ہوئ ہے۔ بہت سے لوگ اس معاملہ میں بڑی بے باکی کے ساتھ یہ سمجھتے ہوئے اعتراضات کرڈالتے ہیں کہ یہ شاید محض “مولویوں“ کا گھڑا ہوا مسئلہ ہوگا جبکہ بعض منکرین حدیث اس کو اپنے نزدیک “حدیث کے خرافات“ میں سے سمجھ کر زبان درازی کرنے لگتے ہیں۔ لہٰذا ایسے سب لوگوں کو آگاہ رہنا چاہیے کہ ان کا معاملہ “مولویوں“ کی فقہ اور محدثین کی روایات سے نہیں بلکہ خود خدا کی کتاب سے ہے۔ اس کے لیے حسب ذیل آیاد ملاحظہ ہوں۔
“اگر تم کو خوف ہو کہ متعدد بیویوں کے درمیان عدل نہ کرسکو گے تو ایک ہی بیوی رکھو یا جو لونڈی تمہارے قبضے میں ہو۔ (النساء ٢)“
“اور حرام ہوگئیں تم پر بیاہی ہوئ عورتیں سوائے ان (شوہردار) عورتوں کے جن کے مالک تمہارے سیدھے ہاتھ ہوں (یعنی جو جنگ میں تمہارے قبضے میں آئیں)۔ (النساء ٢٤)
“اور جو اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرتے ہیں بجز اپنی بیویوں کے یا ان عورتوں کے جو ان کے قبضے میں ہیں (یعنی لونڈیاں) اس میں ان پر کچھ ملامت نہیں۔(المومنون ٦،٥)“
“اے نبی ہم نے تمہارے لیے تمہاری ان بیویوں کو حلال کردیا جن کے مہر تم نے ادا کردیے ہیں، اور ان عورتوں کو بھی جو ان لونڈیوں میں سے تمہارے قبضے میں ہیں جنہیں اللہ نے تم کو غنیمت میں عطا فرمایا ہے۔(الاحزاب٥)“
“اب اس کے بعد دوسری عورتیں تمہارے لیے حلال نہیں ہیں اور نہ یہ حلال ہے کہ ان کے بجائے تم دوسری بیویاں کرلو خواہ ان کا حسن تم کو کتنا ہی پسند آئے، البتہ وہ لونڈیاں حلال ہیں جو تمہارے قبضہ میں آئیں۔(الاحزاب ٥٢)

اسیران جنگ میں سے کوئ عورت کسی شخص کی ملکیت میں صرف اسی وقت آتی تھی جبکہ وہ حکومت کی طرف سے باقاعدہ اس کے حوالے کی جاتی اور اس کے بعد اس عورت کے ساتھ مباشرت کا حق صرف اسی شخص کو حاصل ہوتا۔ سرکاری طور پر تقسیم ہونے سے پہلے کسی عورت سے مباشرت کرنا زنا ہے۔اور اس تقسیم کے بعد ایک مالک کے سوا کسی اور آدمی کا اس کے ساتھ ایسا فعل کرنا زنا ہے۔ اور یہ بات سب کو معلوم ہے کہ اسلام میں زنا ایک قانونی جرم ہے۔ (از تفہیمات حصہ دوم، سید ابوالاعلیٰ مودودی)


میں نے مسئلہ غلامی سے متعلق مختصر اقتباس پیش کیا ہے جو حضرات مکمل پڑھنا چاہیں وہ یہاں سے پی ڈی ایف ڈاؤن لوڈ کر کے پڑھ سکتے ہیں۔ تفہیمات حصہ دوم صفحہ 330
 

خاور بلال

محفلین
جناب ملازمہ اور باندی میں بہت فرق ہے ذرا غور کریں‌اس پر بھی

1۔ آپ سمجھائیے یہ فرق کہ ملازمہ اور باندی میں کیا فرق ہے؟
2۔ آپ کو باندی کے لئے فراہم کردہ آیات پر - جس سے باندی سے بنا اجازت اور نکاح‌کی شرائط پوری کئے بغیر مباشرت کی ممانعت ہے --- کیا بات سمجھ نہیں آتی ہے۔
 
لاحول ولا
ملازمہ اور لونڈی میں‌ آپ کے نزدیک کوئ فرق نہیں۔ ؟اسلام کیا کوئ خیالی مذہب ہے یا آپ پر اس کی نئ نئ تشریحات اب نازل ہورہی ہیں؟ آخر وہ کونسی لغت ہے جس سے آپ نے یہ مطلب نکالا؟ جس شخص کو یہ نہ معلوم ہوکہ باندی اور ملازمہ میں‌کیا فرق ہے وہ اس قابل کب ہوا کہ قرآن و احادیث پر مشق ستم کرتا پھرے؟
مسئلہ غلامی سے متعلق تفہیمات حصہ دوم میں مضمون موجود ہے اس کے کچھ اقتباسات یہاں پیش کررہا ہوں؛

اسلامی کے ابتدائ زمانے میں‌غلامی کی دو صورتیں‌رائج تھیں:

حق ملکیت کی بنا پر جنسی تعلق کی اجازت قرآن مجید کی متعدد آیات میں صریح طور پر وارد ہوئ ہے۔
“اگر تم کو خوف ہو کہ متعدد بیویوں کے درمیان عدل نہ کرسکو گے تو ایک ہی بیوی رکھو یا جو لونڈی تمہارے قبضے میں ہو۔ (النساء ٢)“
[AYAH]4:3[/AYAH] ۔۔۔۔[ARABIC] أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ [/ARABIC] ۔۔۔۔۔
اور حرام ہوگئیں تم پر بیاہی ہوئ عورتیں سوائے ان (شوہردار) عورتوں کے جن کے مالک تمہارے سیدھے ہاتھ ہوں (یعنی جو جنگ میں تمہارے قبضے میں آئیں)۔ (النساء ٢٤)
[AYAH]4:24[/AYAH] ۔۔۔۔۔۔ [ARABIC] وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ النِّسَاءِ إِلاَّ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ [/ARABIC]۔۔۔۔۔۔
اور جو اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرتے ہیں بجز اپنی بیویوں کے یا ان عورتوں کے جو ان کے قبضے میں ہیں (یعنی لونڈیاں) اس میں ان پر کچھ ملامت نہیں۔(المومنون ٦،٥)“
[AYAH]6:23[/AYAH] ۔۔۔۔۔ [ARABIC]أوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُمْ [/ARABIC] ۔۔۔۔۔۔
“اے نبی ہم نے تمہارے لیے تمہاری ان بیویوں کو حلال کردیا جن کے مہر تم نے ادا کردیے ہیں، اور ان عورتوں کو بھی جو ان لونڈیوں میں سے تمہارے قبضے میں ہیں جنہیں اللہ نے تم کو غنیمت میں عطا فرمایا ہے۔(الاحزاب٥)“

“اب اس کے بعد دوسری عورتیں تمہارے لیے حلال نہیں ہیں اور نہ یہ حلال ہے کہ ان کے بجائے تم دوسری بیویاں کرلو خواہ ان کا حسن تم کو کتنا ہی پسند آئے، البتہ وہ لونڈیاں حلال ہیں جو تمہارے قبضہ میں آئیں۔(الاحزاب ٥٢)
[AYAH]33:52[/AYAH] ۔۔۔۔ [ARABIC] إِلَّا مَا مَلَكَتْ يَمِينُكَ [/ARABIC] ۔۔۔۔۔
)

آپ کا نکتہء‌نظر:
ایک لاچار عورت جو کہ جنگ میں ہاتھ آئی ہو یا جو مال سے خریدی گئی ہو اس کو بنا کسی نکاح کے بناء شادی کئے ہوئے، بناء اس کی مرضی کے استعمال کرنا جائز ہے۔ اور ایسا رسول اکرم صلعم نے بھی کیا۔ لہذا اس سنت کے بعد ان تمام لوگوں کا ایسا فعل جائز ہے۔ گویا ہاتھ آئی لاچار عورت کی تضحیک کرکے مفتوحہ قوم کی تضحیک کی جائے؟؟؟ جی؟؟ یا لاچار عورت کو خرید لیا جائے اور اس کو استعمال کیا جائے اس طرح ایک انسان کی تضحیک کی جائے؟؟

چلئے آپ سے اس مباحثہ کے ذریعے اپنے اور باقی سب کی معلومات میں اضافہ کرتے ہیں۔
1۔ آپ نے آیات کے نمبر درست نہیں لگائے - میں‌نے اس کی درستگی کردی ہے۔
2۔ اور پھر بہت جلدی میں‌ ----- ملکت ایمانکم ---- کا روایتی ترجمہ لونڈی قبول کرلیا۔ ملکت یا ملکیت - اردو میں بھی استعمال ہوتا ہے جس کے معانی ملکیت کے ہیں۔ ایمانکم کا مطلب - آپ کے سیدھے ہاتھ -- لیا جاتا ہے۔ جو کہ درست ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ لوگ سیدھا ہاتھ کسی متبرک شے پر رکھ کر قسم کھاتے تھے یا اپنا بناتے تھے۔ یہ طریقہ آج بھی عربوں اور یہودیوں میں رائج ہے۔ اس کے علاوہ دنیا کے بیشتر ممالک میں گواہی دینے سے پیشتر دایاں ہاتھ کسی متبرک شے یا کتاب پر رکھا جاتا ہے۔

مکمل طور پر اس کے معانی ----- جو کچھ آپ کا حق ملکیت ہے ---- بنتا ہے۔ جو لوگ عربی سے واقفیت رکھتے ہیں اس کی تصدیق کریں گے۔ یہ صیغہء ماضی ہے اور اس کا مطلب ہے کہ جو کچھ آپ کا حق ملکیت بن چکا ہے یا جو کچھ آپ پنا حق ملکیت ڈیک۔ل۔یئر کرسکتے ہیں۔

یہ حق ملکیت بنا کیسے؟؟؟؟ پیسے دے کر خرید کر؟ جنگ میں‌جیت کر ؟؟؟‌ یا باقاعدہ شادی کی شرائط پوری کر کے؟؟؟

[AYAH]24:33[/AYAH] اور [AYAH] 4:25[/AYAH] سورۃ النور:24 , آیت:33 اور سورۃ النسآء:4 , آیت:25 یہ وہ آیات ہیں جو اس بات کی نشاندہی کرتی ہیں کہ ان عورتوں سے شرائط نکاح پوری کی جائیں اور پھر حق ملکیت مع شرائط نکاح‌، یعنی کسی طریقے سے مہر کی ادائیگی ، ایجاب و قبول اور اس معاہدے کو عام کردیا گیا ہو۔ اس صورت میں اس " عورت " کو جو جنگ میں لاچار ہوگئی تھیں - بیوی بنا کر ایک تحفظ فراہم کیا گیا۔ ان سے شادی کرنا اور مہر کی ضرورت دونوں اس سے پچھلے پیش کردہ پیغام میں‌ دی گئی آیات سے ہر طرح واضح ہے۔ جذباتی ہونے کے بجائے دوبارہ ان آیات کو پڑھ لیں۔

ملازمہ اور لونڈی اور ملکت ایمانکم
ملکت ایمانکم : آپ اس کا ترجمہ لونڈی یا ملازمہ کس طرح کررہے ہیں؟ اس کا صاف و واضح‌ترجمہ ہوا "‌ جن پر تمہارا ملکیتی حق ہوا " - جن عورتوں سے نکاح‌کی شرائط پوری کردی گئی ہیں ان پر آپ کا حق ہو گیا۔ اس میں آپ کو کیا قباحت نظر آتی ہے؟ آپ یہ کیوں‌ تصور کررہے ہیں کہ انہوں نے ایجاب و قبول بھی نہیں کیا اور لونڈیوں سے زبردستی کی۔ آپ کے پاس بلند پایہ شخصیات پر اس الزام کی کیا وجوہات ہیں؟ کونسی روایات ہیں اور کونسی آیات ہیں کہ رسول اللہ صلعم نے بناء کسی عورت کی مرضی کے یا بناء ایجاب و قبول کے کسی عورت سے زبردستی کی ہو؟ یہ لگتا ہے کہ آپ کے اپنے مفروضے ہیں یا تفریح طبع کے لئے آپ نے ایسا سمجھ لیا ہے؟؟

ملازمہ یا لونڈی یا غلام کیا ہے۔ ملکت ایمانکم بنانے کا طریقہ کیا یہ ہے؟
فرض‌کیجئے آپ ایک شخص (‌مرد یا عورت )‌ کو ملازم رکھتے ہیں اور ماہانہ تنخواہ مقرر کرتے ہیں 10 ہزار روپے۔ آپ سارا حساب کتاب کرتے ہیں کہ 50 سال کی رقم اتنی بنتی ہے - یہ رقم تم لے لو اور میری 50 سال تک نوکری کرو۔ جی؟ یہ آپ کو مناسب لگتا ہے؟ ہوسکتا ہے لگتا ہو۔ لیکن ہے نہیں۔ اپ نے اس شخص سے حق تبدیلی ملازمت چھین لیا۔ یہ ہوگئی غلامی۔ اب آپ نے اس عورت سے زبردستی شادی بھی کی اور اس سے حق زواج بھی چھین لیا۔ یہ ہوا قران کی نگاہ میں جرم۔ اس کے لئے آپ کو دو عدد واضح‌آیات پیش کردی گئی ہیں۔ آپ ان ان آیات کو بالکل نظر انداز کردیا اور ----- ملکت ایمانکم --- کا ترجمہ لونڈی کرکے اپنا کام آسان کرلیا۔

جب کہ ملکت ایمانکم صرف اور صرف اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ جو آپ ان کو ملکت ایمانکم بنا چکے ہیں اور اس کو ملکت ایمانکم بنانے کا طریقہ وہ ہے جو سورۃ النور:24 , آیت:33 اور سورۃ النسآء:4 , آیت:25 میں فراہم کردیا گیا ہے۔ یعنی باقاعدہ نکاح اور مہر کی ادائیگی۔ یہ ناممکن ہے کہ رسول اکرم صلعم نے ان آیات کو پڑھ کر لوگوں کو سنایا ہو، ایک کتاب میں لکھوایا ہو اور پھر ان اصولوں سے کھلم کھلا رو گردانی کی ہو ۔ کیا آپ کے پاس ایسا کوئی ثبوت ہے کہ ایسا ہوا؟

مجھ پر اگر آپ قلم آزمائی کرنا چاہتے ہیں تو اس کے لئے ایک الگ دھاگہ ہے۔ وہاں ‌ آپ مجھ پر قلم آزمائی کرسکتے ہیں، میں ہر سوال کا جواب دینے کے لئے تیار ہوں۔ لیکن اس دھاگہ میں مجھ پر طنز و تشنیع کا مطلب ، میں اور باقی احباب اس کا مطللب یہ لیں گے کہ آپ اپنے نکتہ نظر کا قرآن سے دفاع نہیں کرسکے اور یہ بحث ہار چکے ہیں۔ لہذا ذاتی طنز و تشنیع پر اتر آئے ہیں۔ لہذا آپ اپنے نکات کا دفاع قرآن سے یہاں‌کیجئے تاکہ ہم سب کے علم میں اضافہ ہو۔
 
اپنے ملکت ایمانکم سے اپنی دولت کو شیئر کرنے کے بارے میں ، جس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ "لونڈیاں " یعنی ملکت ایمانکم بننے کے بعد دولت پر بھی حق رکھتی ہیں۔ اس سے کیا تضحیک ظاہر ہوتی ہے؟

[AYAH]16:71[/AYAH] [ARABIC]وَاللّهُ فَضَّلَ بَعْضَكُمْ عَلَى بَعْضٍ فِي الْرِّزْقِ فَمَا الَّذِينَ فُضِّلُواْ بِرَآدِّي رِزْقِهِمْ عَلَى مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُمْ فَهُمْ فِيهِ سَوَاءٌ أَفَبِنِعْمَةِ اللّهِ يَجْحَدُونَ[/ARABIC]
اور اللہ نے تم میں سے بعض کو بعض پر رزق (کے درجات) میں فضیلت دی ہے (تاکہ وہ تمہیں حکمِ انفاق کے ذریعے آزمائے)، مگر جن لوگوں کو فضیلت دی گئی ہے وہ اپنی دولت (کے کچھ حصہ کو بھی) اپنے زیردست لوگوں پر نہیں لوٹاتے (یعنی خرچ نہیں کرتے) حالانکہ وہ سب اس میں (بنیادی ضروریات کی حد تک) برابر ہیں، تو کیا وہ اللہ کی نعمتوں کا انکار کرتے ہیں
 

خاور بلال

محفلین
ملازمہ یا لونڈی یا غلام کیا ہے۔ ملکت ایمانکم بنانے کا طریقہ کیا یہ ہے؟
فرض‌کیجئے آپ ایک شخص (‌مرد یا عورت )‌ کو ملازم رکھتے ہیں اور ماہانہ تنخواہ مقرر کرتے ہیں 10 ہزار روپے۔ آپ سارا حساب کتاب کرتے ہیں کہ 50 سال کی رقم اتنی بنتی ہے - یہ رقم تم لے لو اور میری 50 سال تک نوکری کرو۔ جی؟ یہ آپ کو مناسب لگتا ہے؟ ہوسکتا ہے لگتا ہو۔ لیکن ہے نہیں۔ اپ نے اس شخص سے حق تبدیلی ملازمت چھین لیا۔ یہ ہوگئی غلامی۔ اب آپ نے اس عورت سے زبردستی شادی بھی کی اور اس سے حق زواج بھی چھین لیا۔ یہ ہوا قران کی نگاہ میں جرم۔ اس کے لئے آپ کو دو عدد واضح‌آیات پیش کردی گئی ہیں۔ آپ ان ان آیات کو بالکل نظر انداز کردیا اور ----- ملکت ایمانکم --- کا ترجمہ لونڈی کرکے اپنا کام آسان کرلیا۔

مجھ پر اگر آپ قلم آزمائی کرنا چاہتے ہیں تو اس کے لئے ایک الگ دھاگہ ہے۔ وہاں ‌ آپ مجھ پر قلم آزمائی کرسکتے ہیں، میں ہر سوال کا جواب دینے کے لئے تیار ہوں۔ لیکن اس دھاگہ میں مجھ پر طنز و تشنیع کا مطلب ، میں اور باقی احباب اس کا مطللب یہ لیں گے کہ آپ اپنے نکتہ نظر کا قرآن سے دفاع نہیں کرسکے اور یہ بحث ہار چکے ہیں۔ لہذا ذاتی طنز و تشنیع پر اتر آئے ہیں۔ لہذا آپ اپنے نکات کا دفاع قرآن سے یہاں‌کیجئے تاکہ ہم سب کے علم میں اضافہ ہو۔

آپ کی ذات سے مجھے اتنی دلچسپی نہیں کہ اس کی خاطر قلم آزمائ کروں۔ میں تو صرف اتنا کہتا ہوں کہ قرآن و سنت کے مباحث کو عمران سیریز کی طرح ہنیڈل نہیں کیا جانا چاہیے۔ عمران سیریز کے پورے پیراگراف میں بھی کوئ تبدیلی کردی جائے اور کچھ بھی جھوٹ موٹ لکھ دیا جائے تو کچھ زیادہ فرق نہیں پڑتا لیکن اگر یہی کام قرآن و سنت کی بحث میں کیا جائے تو فاش غلط فہمیوں کا باعث بنتا ہے۔ اس کا ایک نمونہ یہیں دیکھا جاسکتا ہے کہ کس طرح ملازمہ اور لونڈی کو ایک ہی صف میں کھڑا کردیا گیا۔ ایک تاریخی حقیقت میں ترمیم اور لغت کی ایسی تیسی کرنے کے لیے کوئ معقول جواز دینے کی زحمت بھی نہیں کی گئ بلکہ صرف ایک نیم بے جان سا حساب کتاب پیش کردیا گیا جس کی رو سے لونڈی اور ملازمہ خوشی خوشی ایک ہوگئے۔ یعنی ایک عورت کو خدمت کے لیے بھرتی کیا جائے اور ساری عمر کی تنخواہ یکمشت ادا کردی جائے نیز اس کو جنسی تسکین کے لیے بھی استعمال کیا جائے تو اسی کو یہ لونڈی کہتے ہیں اور اسی کو ملازمہ۔ سمجھ نہیں آتا کہ ملازمہ کی یہ تعریف آج تک انسانوں سے پوشیدہ کیوں رہی بہر حال میں یہ پوچھنا چاہوں گا کہ آپ کسی ایسی ملازمہ کو جانتے ہیں جو اس تعریف کے زمرے میں آتی ہو۔ میں اردو محفل کے ارکان سے گزارش کروں گا کہ اگر وہ کسی ایسی عورت کو جانتے ہیں جو خدمت کے لیے بھرتی کی گئ ہو اور اسے ساری عمر کی تنخواہ یکمشت اداکردی گئ ہو نیز اسے جنسی تسکین کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہو اور پھر بھی وہ ملازمہ ہی کہلاتی ہو تو ہمیں اس دھاگے میں آکر مطلع کریں۔ مجھے شدت سے اس نئ دریافت کا انتظار ہے ہم تو آج تک جسے ملازمہ سمجھتے آئے تھے وہ تو اس تعریف سے کوسوں دور ہے۔ معذرت کیساتھ اگر کامن سینس کا استعمال نہ بھی کیا جائے تو اس بات کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ملازمہ کی یہ نئ تعریف صرف ایک مفروضہ ہے اور یہ مفروضہ کیا گل کھلا سکتا ہے اس کا اندازہ ہے کسی کو؟ میں اس نئ دریافت کے موجد سے پوچھنا چاہوں گا کہ جب آپ ملازمہ اور لونڈی میں کچھ فرق نہیں کرنا چاہتے تو قرآن کے وہ احکامات جو لونڈی سے متعلق ہیں وہی ملازمہ پر بھی نافذ ہوں گے؟

میں نے غلطی سے ایک لنک فراہم کردیا تھا اگر اس سے استفادہ کرلیا جاتا تو موصوف کو اتنی لمبی چوڑی پوسٹ لکھنے کی زحمت نہ کرنی پڑتی تفہیمات حصہ دوم میں سید مودودی ان تمام اعتراضات کا جواب دے چکے ہیں جو اس دھاگے میں بار بار دہرائے جارہے ہیں صیغے کی جتنی اقسام ہیں اور اس حوالے سے ان مسائل پر کیا کیا اعتراض کیا جاسکتا ہے ان سب کا احاطہ اس مضمون میں کردیا گیا ہے جس کا میں نے لنک دیا ہے۔ تفہیم القرآن حصہ اول میں بھی مسئلہ غلامی سے متعلق تفصیل سے روشنی ڈالی گئ ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ جو لوگ صرف اعتراضات چنتے پھرتے ہیں انہیں اس بات کی کبھی زحمت نہیں ہوئ کہ اس حوالے سے جو تحقیق ہوچکی ہے اس سے استفادہ کرلیں یہ لوگ غلط فہمیوں میں مبتلا رہنا چاہتے ہیں اور محض اپنے تخیل کے بنا پر قرآن کے صریح احکامات، سنت رسول، اور تاریخی حقائق کی یکسر نفی کردیتے ہیں انہیں اتنی شرم بھی نہیں آتی کہ اس طرح کی غیر محتاط گفتگو، بے بنیاد تخیلات، خود ساختہ تصورات اور بے ہودہ دریافتوں سے کتنے لوگ غلط فہمی میں مبتلا ہوسکتے ہیں۔

میں یہ بھی عرض کردوں کہ قرآن و سنت سے متعلق جب بحث ہوتی ہے تو وہ ہارنے اور جیتنے کے لیے نہیں ہوتی۔ کسی معاملے کا قرآن و سنت سے ثابت ہوجانا اس بات کے لیے کافی ہے کہ اس کے سامنے سر تسلیم خم کردیا جائے اور یہی جیت ہوتی ہے۔

میری خواہش ہے کہ مسئلہ غلامی سے متعلق سید مودودی کی تحقیق اردو محفل پر پیش کی جائے لیکن اس کے لیے مجھے کچھ مدد چاہیے۔ الف عین صاحب، قسیم حیدر اور دیگر کچھ حضرات تفہیم القرآن پر کام کررہے تھے میری ان حضرات سے گذارش ہے کہ اگر تفہیم القرآن جلد اول برقیالی گئ ہے تو اس میں سے مسئلہ غلامی والا حصہ یہاں فراہم کردیں میں انشاء اللہ تفہیمات اور رسائل و مسائل سے یہ مضمون ٹائپ کرکے پوسٹ کرتا ہوں۔ شمشاد بھائ آپ کی خصوصی توجہ چاہیے۔
 

رضا

معطل
اپنے ملکت ایمانکم سے اپنی دولت کو شیئر کرنے کے بارے میں ، جس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ "لونڈیاں " یعنی ملکت ایمانکم بننے کے بعد دولت پر بھی حق رکھتی ہیں۔ اس سے کیا تضحیک ظاہر ہوتی ہے؟

[AYAH]16:71[/AYAH] [ARABIC]وَاللّهُ فَضَّلَ بَعْضَكُمْ عَلَى بَعْضٍ فِي الْرِّزْقِ فَمَا الَّذِينَ فُضِّلُواْ بِرَآدِّي رِزْقِهِمْ عَلَى مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُمْ فَهُمْ فِيهِ سَوَاءٌ أَفَبِنِعْمَةِ اللّهِ يَجْحَدُونَ[/ARABIC]
اور اللہ نے تم میں سے بعض کو بعض پر رزق (کے درجات) میں فضیلت دی ہے (تاکہ وہ تمہیں حکمِ انفاق کے ذریعے آزمائے)، مگر جن لوگوں کو فضیلت دی گئی ہے وہ اپنی دولت (کے کچھ حصہ کو بھی) اپنے زیردست لوگوں پر نہیں لوٹاتے (یعنی خرچ نہیں کرتے) حالانکہ وہ سب اس میں (بنیادی ضروریات کی حد تک) برابر ہیں، تو کیا وہ اللہ کی نعمتوں کا انکار کرتے ہیں

یہ ملکت ایمانکم یا "لونڈیاں " آپ کی دولت میں سے حصے دار ہیں۔ جیسے آپ کے ازواج (‌شوہر یا بیوی)
[AYAH]30:28 [/AYAH] [ARABIC]ضَرَبَ لَكُم مَّثَلًا مِنْ أَنفُسِكُمْ هَل لَّكُم مِّن مَّا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُم مِّن شُرَكَاءَ فِي مَا رَزَقْنَاكُمْ فَأَنتُمْ فِيهِ سَوَاءٌ تَخَافُونَهُمْ كَخِيفَتِكُمْ أَنفُسَكُمْ كَذَلِكَ نُفَصِّلُ الْآيَاتِ لِقَوْمٍ يَعْقِلُونَ[/ARABIC]
اُس نے (نکتہء توحید سمجھانے کے لئے) تمہارے لئے تمہاری ذاتی زندگیوں سے ایک مثال بیان فرمائی ہے کہ کیا جو (لونڈی، غلام) تمہاری مِلک میں ہیں اس مال میں جو ہم نے تمہیں عطا کیا ہے شراکت دار ہیں، کہ تم (سب) اس (ملکیت) میں برابر ہو جاؤ۔ (مزید یہ کہ کیا) تم ان سے اسی طرح ڈرتے ہو جس طرح تمہیں اپنوں کا خوف ہوتا ہے (نہیں) اسی طرح ہم عقل رکھنے والوں کے لئے نشانیاں کھول کر بیان کرتے ہیں (کہ اﷲ کا بھی اس کی مخلوق میں کوئی شریک نہیں ہے)
فاروق صاحب! قرآن کی شرح کرنے سے پہلے سے پہلے سمجھ لیا کریں۔
نیم حکیم خطرہ جان اور نیم ملّاں خطرہ ایمان۔۔۔ آپ کیا کہتے ہو۔آپ ملّاؤں کے خلاف لکھتے ہو تو آپ بھی تو ملّاں ہی ہونا!کہنے سے کیا فرق پڑتا ہے جناب ملاں کی بھی کئی قسمیں ہیں۔علماء سو سنا ہوگا آپ نے ۔اس کی علامات چیک کیجئے گا۔شاید ہی کوئی ہو جو آپ میں نہ ملے۔ :)
صحیح ترجمہ ملاحظہ فرمائیں۔آپ نے غلاموں کو شراکت دار کیسے بنا دیا۔ارے جاہل شراکت ہی کی تو نفی ہے اس آیت میں کفار کو خطاب ہے کہ جب تم اپنے غلام کو اپنے مال میں شریک نہيں کرتے تو اللہ کے شریک کیوں بناتے ہو۔جب تمہارا شریک نہیں ہوسکتا تو اس کا شریک کیسے ہوسکتا ہے۔اور آپ کی گنگا الٹی ہی چل رہی ہے آپ نے غلاموں کو شراکت دار بنا دیا۔ولا حولا ولاقوۃ الا باللہ العلی العظیم۔ جہالت کی انتہاء ہے۔
سورۃ النحل آیت نمبر71
71.gif

ترجمہ کنزالایمان: اور اللہ نے تم میں ایک کو دوسرے پر رزق میں بڑائی دی (ف۱۵۳) تو جنہیں بڑائی دی ہے وہ اپنا رزق اپنے باندی غلاموں کو نہ پھیر دیں گے کہ وہ سب اس میں برابر ہوجائیں(ف۱۵۴) تو کیا اللہ کی نعمت سے مُکرتے ہیں (ف۱۵۵)
تفسیر خزائں العرفان:153.تو کسی کو غنی کیا، کسی کو فقیر ، کسی کو مالدار ، کسی کو نادار ، کسی کو مالک ، کسی کو مملوک۔154.اور باندی غلام آقاؤں کے شریک ہو جائیں، جب تم اپنے غلاموں کو اپنا شریک بنانا گوارا نہیں کرتے تو اللہ کے بندوں اور اس کے مملوکوں کو اس کا شریک ٹھہرانا کس طرح گوارا کرتے ہو ، سبحان اللہ یہ بُت پرستی کا کیسا نفیس دل نشین اور خاطر گُزین رد ہے ۔155-کہ اس کو چھوڑ کر مخلوق کو پوجتے ہیں ۔
سورہ روم آیت نمبر28
28.gif

ترجمہ کنزالایمان: تمہارے لئے (ف۵۲) ایک کہاوت بیان فرماتا ہے خود تمہارے اپنے حال سے (ف۵۳) کیا تمہارے لئے تمہارے ہاتھ کے مال غلاموں میں سے کچھ شریک ہیں(ف۵۴) اس میں جو ہم نے تمہیں روزی دی(ف۵۵) تو تم سب اس میں برابر ہو(ف۵۶) تم ان سے ڈرو(ف۵۷)جیسے آپس میں ایک دوسرے سے ڈرتے ہو(ف۵۸) ہم ایسی مفصّل نشانیاں بیان فرماتے ہیں عقل والوں کے لئے
تفسیر خزائں العرفان: (ف۵۲) اے مشرکو۔(ف۵۳) وہ مثل (کہاوت) یہ ہے۔(ف۵۴) یعنی کیا تمہارے غلام تمہارے ساجھی ہیں۔(ف۵۵) مال و متاع وغیرہ ۔(ف۵۶) یعنی آقا اور غلام کو اس مال و متاع میں یکساں استحقاق ہو ایسا کہ ۔(ف۵۷) اپنے مال و متاع میں بغیر ان غلاموں کی اجازت سے تصرُّف کرنے سے ۔(ف۵۸) مدعٰی یہ ہے کہ تم کسی طرح اپنے مملوکوں کو اپنا شریک بنانا گوارا نہیں کر سکتے تو کتنا ظلم ہے کہ اللہ تعالٰی کے مملوکوں کو اس کا شریک قرار دو ۔ اے مشرکین تم اللہ تعالٰی کے سوا جنہیں اپنا معبود قرار دیتے ہو وہ اس کے بندے اور مملوک ہیں ۔
۔۔۔۔
اور شمشاد بھائی! آپ نے کس بات پہ شکریہ ادا کردیا۔شکریہ ادا کرنے سے پہلےذرا سوچ لیا کریں کہ کس بات پہ شکریہ ادا کررہے ہيں؟ ایسا نہ ہو کہ کوئی کلمہء کفر لکھ دے اور آپ اس کا شکریہ ادا کردیں۔تو جہاں وہ گیا آپ بھی آنکھیں بند کئے اس کے پیچھے پیچھے چلیں جائيں۔
 

رضا

معطل
ان آیات کی تفسیر سے ثابت ہوا۔ کہ مولوی فاروق خان اپنی من چاہی تفسیر کرتے ہيں۔جو کہ حرام ہے۔
خود بدلتے نہیں قرآن کو بدل دیتے ہیں۔ میاں! اگر قرآن کو سمجھنے کا اتنا شوق ہے تو پہلے کچھ پڑھ لو۔پھر اس طرف آنا ۔کجا کہ آپ خود بھی گمراہ ہو اور دوسرے مسلمانوں کو بھی گمراہ کررہے ہو۔
 

خاور بلال

محفلین
مجھے بتائیں میں آپ کی کیسے مدد کر سکتا ہوں؟

شکریہ شمشاد بھائ، آپ مدد کرنے کے لیے ہردم تیار رہتے ہیں تبھی آپ سے بے دھڑک کہہ دیا۔
اب مسئلہ یہ ہے کہ مسئلہ غلامی کے حوالے سے سید مودودی کی تحقیق پیش کرنی ہو تو بہت سے جگہوں سے مواد اکھٹا کرنا پڑے گا۔ تفہیمات حصہ دوم، رسائل و مسائل اور تفہیم القرآن۔
یہ مواد جمع کرنے کے بعد بھی کام ختم نہیں ہوگا بلکہ اسے ایسی ترتیب میں ڈھالنا ہوگا کہ ایک مضمون کی صورت اختیار کرلے۔ کیونکہ سید مودودی نے مسئلہ غلامی کے حوالے سے کوئ باقاعدہ مضمون نہیں لکھا بلکہ مختلف مواقع پر کیے گئے سوالات اور کچھ مراسلوں کے جوابات تحریر کیے ہیں۔ ہر جگہ مختلف پہلوؤں سے بات کی ہے۔ قرآن کریم میں جہاں جہاں غلامی سے متعلق تعلیمات وارد ہوئ ہیں اسی کی مناسبت سے اس کی تفسیر کی ہے۔ تفہیم القرآن کی چھ جلدیں ہیں اور مسئلہ غلامی سے متعلق بحث ان تمام جلدوں میں ہی بکھری ہوئ ہے۔ اس بحث کو سمیٹ کر ایک قالب میں ڈھالنا اصل کام ہے جس کے لیے آپ کی مدد درکار ہے۔ تفہیم القرآن میں کہاں کہاں غلامی سے متعلق گفتگو موجود ہے یہ جاننے کے لیے یہ لنک مدد گار ہوگا۔ اس لنک کی مدد سے ہم وہ تمام مواد اکھٹا کرسکتے ہیں جو تفہیم القرآن میں بکھرا ہوا ہے۔

یعنی دو طرح کے کام ہیں۔ ایک تو ٹائپنگ اور دوسرے اس تمام ٹائپنگ کو ازسرنو ترتیب دینا تاکہ یہ گفتگو ایک مضمون کی شکل اختیار کرلے۔ اب آپ کیا کہتے ہیں۔ میں اردو ٹائپنگ تو کرسکتا ہوں لیکن جہاں قرآنی آیات لکھنی ہوں وہاں میں پھنس جاتا ہوں کیونکہ عربی آیات ٹائپ کروں تو غلطی کا امکان ہے اور کسی بیرونی ماخذ سے لنک فراہم کرنا مجھے نہیں آتا۔ تو میری تجویز یہ ہے کہ میں تمام اردو کمپوزنگ کی ذمہ داری لیتا ہوں جبکہ آپ اس کمپوزنگ میں عربی مواد داخل کرنے اور اسے ازسر نو ترتیب دیکر حتمی شکل میں ڈھالنے کی ذمہ داری قبول کریں۔
 
آپ اب وہی بات کررہے ہیں جو میں‌نے لکھی ہے۔ الفاظ بدل کر۔ آپ کا نکتہ نظر اب درستگی کی سمت ہوتا جارہے ہے کہ باندی سے شادی کی شرائط پوری کئے بغیر جنسی تعلق جائز نہیں ہے۔ چاہے وہ باندی اپنی ہو یا پرائی ہو۔

آپ کیوں سمجھتے ہیں کہ غلام یا باندی خریدنے کے لئے جو رقم ادا کی جارہے ہے اس رقم کو ایک انسان کی تاحیات ملازمت کی رقم کے طور پر کیوں‌نہیں‌سمجھا جاسکتا؟

یہ مثال آپ کو سمجھانے کے لئے تھی۔ جس میں یہ دکھایا گیا ہے کہ مکمل طور پر تا حیات معاوضہ ادا کرنے سے خریدنے والا ، خریدے جانے والے کو حق تبدیلی ملازمت سے محروم نہیں کرسکتا اور اسی طرح خریدنے والے کو اس ملازم کی تا عمر کی ملازمت کی ادائیگی کردینے پر بھی اس سے جنسی تعلقات کا حق نہیں مل سکتا۔

اس کے بعد یہ بہت ہی واضح ہے کہ کسی باندی سے شادی کی شرائط پوری کئے بغیر جنسی تعلقات قائم نہیں کئے جاسکتے ہیں۔ اس کی تفصیل ان دو آیات میں‌ آ چکی ہے۔ آپ کو اس تفصیل سے کیوں انکار ہے۔ مزید یہ کہ کسی منظق آرائی کے بغیر سنت رسول یا آیات سے بہت صاف اور واضح مثال دیجئے کہ کوئی آیت ایسا کہتی ہو کہ باندی سے بنا شادی کے شرائط پوری کئے نکاح جائز ہو یا رسول اکرم صلعم نے ایسا کیا ہو۔

اب تک آپ کسی بھی آیت یا سنت کو فراہم کرنے سے قاصر ہیں۔ اگر ایسی کوئی سنت کسی جگہ موجود ہے تو سکین کرکے آپ مجھے ای میل کردیجئے مجھے لنک فراہم کرکے خوشی ہوگی۔
 
فاروق صاحب! قرآن کی شرح کرنے سے پہلے سے پہلے سمجھ لیا کریں۔
صحیح ترجمہ ملاحظہ فرمائیں۔آپ نے غلاموں کو شراکت دار کیسے بنا دیا۔ارے جاہل شراکت ہی کی تو نفی ہے اس آیت میں کفار کو خطاب ہے کہ جب تم اپنے غلام کو اپنے مال میں شریک نہيں کرتے تو اللہ کے شریک کیوں بناتے ہو۔جب تمہارا شریک نہیں ہوسکتا تو اس کا شریک کیسے ہوسکتا ہے۔اور آپ کی گنگا الٹی ہی چل رہی ہے آپ نے غلاموں کو شراکت دار بنا دیا۔ولا حولا ولاقوۃ الا باللہ العلی العظیم۔ جہالت کی انتہاء ہے۔
سورۃ النحل آیت نمبر71
71.gif

ترجمہ کنزالایمان: اور اللہ نے تم میں ایک کو دوسرے پر رزق میں بڑائی دی (ف۱۵۳) تو جنہیں بڑائی دی ہے وہ اپنا رزق اپنے باندی غلاموں کو نہ پھیر دیں گے کہ وہ سب اس میں برابر ہوجائیں(ف۱۵۴) تو کیا اللہ کی نعمت سے مُکرتے ہیں (ف۱۵۵)
تفسیر خزائں العرفان:153.تو کسی کو غنی کیا، کسی کو فقیر ، کسی کو مالدار ، کسی کو نادار ، کسی کو مالک ، کسی کو مملوک۔154.اور باندی غلام آقاؤں کے شریک ہو جائیں، جب تم اپنے غلاموں کو اپنا شریک بنانا گوارا نہیں کرتے تو اللہ کے بندوں اور اس کے مملوکوں کو اس کا شریک ٹھہرانا کس طرح گوارا کرتے ہو ، سبحان اللہ یہ بُت پرستی کا کیسا نفیس دل نشین اور خاطر گُزین رد ہے ۔155-کہ اس کو چھوڑ کر مخلوق کو پوجتے ہیں ۔
۔۔۔۔
۔
رضا، دوسری آیت کا حوالہ اس ضمن میں غیر مناسب تھا۔ اشارہ کرنے کاشکریہ۔ --- جہاں اللہ کے مملوکوں کا مقابلہ انسان کے ملکت ایمانکم سے کیا گیا ہے۔ کسی کنفیوژن کو ختم کرنے کے لئے، اس آیت کا حوالہ حذف کردیا ہے۔ پہلی آیت کے فراہم کردہ ہوئے ترجمہ اور تفسیر میں بہت فرق ہے - پہلی آیت کا ترجمہ 23 مترجمین کی نظر سے دیکھ لیجئے۔ اس ایک مفسر کا دیا ہو رنگ دوسرے مترجمیں سے نہیں ملتا۔

اسی آیت کا ایک دوسرا ترجمہ پیش خدمت ہے، مزید یہ کہ انگریزی کے ترجمے بھی دیکھ لیجئے۔
اور اللہ نے فضیلت دی ہے تم میں سے بعض کو بعض پر رزق میں۔ سو نہیں ہیں وہ لوگ جنہیں فضیلت دی گئی ہے (ایسے) کہ دے دیں اپنا رزق اپنے مملوکوں کو تاکہ ہوجائیں وہ بھی اس رزق میں برابر (کے حصّے دار)۔ تو کیا پھر اللہ کی نعمتوں کا انکار کرتے ہیں یہ۔

یہ واضح ہے کہ اپنے زیردستوں کو دئے ہوئے رزق سے محروم رکھنا اللہ کی نعمت کا انکار کرنا ہے۔ اور اپنے ملکت ایمانھم کو اس رزق میں شامل نہ کرنا رب کی نعمت کا انکار کرنا بتایا گیا ہے۔ یہ تو بہت ہی واضح ہے عربی سے بھی ۔ اردو سے بھی اور انگریزی سے بھی۔
 

رضا

معطل
مولوی فاروق سرور:پہلی آیت کا ترجمہ 23 مترجمین کی نظر سے دیکھ لیجئے۔ اس ایک مفسر کا دیا ہو رنگ دوسرے مترجمیں سے نہیں ملتا۔
23مترجمین اگر غلط ترجمہ کریں یا آپ کو سمجھنے میں غلطی ہو تو وہ بات اور نہیں ہوجائے گی۔جو ہے وہی رہے گي۔
آپ ترجمہ کنزالایمان چیک کرلیں۔پھر تفسیر سے تو آپ کو سمجھ جانا چاہیے تھا۔لیکن کیا کریں۔
ہماری بات کا آپ کو یقین نہیں تو سورۃ النحل پڑھ لیں۔آیت نمبر71 کی آگے اور پیچھے والی آیات پڑھ لیں آپ کو خود اندازہ ہوجائے گا کہ کیا بات ہورہی ہے۔اس سورہ میں اللہ تعالی نے توحید کے بارے میں دلائل دئیے ہيں۔اور اس آیت میں اس سورہ کی ديگر آیات کی طرح وحدانیت پہ دلائل ہیں۔
ذرا چشمہ لگا کے سورہ نحل پڑھئے امید ہے سب سمجھ آجائے گا۔
اگر آپ کی سمجھ کے مطابق جو آپ ترجمہ کررہے ہيں اس کے مطابق یہ آیت سورہ روم کی آیت 28 سے تضاد کرے گی۔ اور قران میں تضاد نہیں ہے۔
 
آپ کی بات سے واضح نہیں ہے کہ اس ترجمہ میں کیا غلط کہا گیا ہے اور آپ کیا کہنا چاہتے ہیں؟ ترجمہ میرا نہیں ، من و عن مترجمین‌ سے پیش کررہا ہوں۔

یہ آیت کسی طور سورہ روم کی دی گئی آیت سے تضاد نہیں‌کرتی ہے۔ اس امر کو ہم علیحدہ دیکھ سکتے ہیں۔ آپ اپنے زیردستوں کو اپنی ملکیت سے خدا کے دئے ہوئے سے کھلائیں پلائیں گے اور ضرورت پوری کریں گے۔ اس اصول میں کیا خرابی ہےِ۔ یہی اصول یہاں‌ دیا گیا ہے۔

اس دھاگہ کے بنیادی امور پر دھیان دیجئے کہ

1۔ بناء شادی کی شرائط پوری کئے کسی باندی کو جنسی مقاصد کے لیے استعمال نہیں کیا جاسکتا ہے۔ (آیت اوپر موجود ہے)
2۔ باندی اپنی ہو یا دوسرے کی، شادی جائز ہے ، لیکن شادی کی شرائط پوری کرنا ہونگی۔ ( آیت اوپر موجود ہے)
3۔ ایک ملازمہ کی ساری عمر کی تنخواہ بھی اگر ادا کردی جائے تو بھی وہ ملکیت نہیں‌بنتی ہے۔ (‌یہ مثال میں نے دی ہے غلامی کو واضح کرنے کے لئے، قرآن سے کوئی آیت نہیں پیش کی۔)
4۔ اپنے زیردست ملکت ایمانکم ، ملازمین کو خدا کی دی ہوئی دولت سے ضروریات پورا کرنا ضروری ہے۔ ( آیت اوپر موجود ہے)

آپ کا اس میں سے کسی بات سے اختلاف ہے؟
 

شمشاد

لائبریرین
۔۔۔۔۔۔۔ارے جاہل شراکت ہی کی تو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

محترم رضا صاحب آپ بڑے شوق سے بحث جاری رکھیں لیکن اپنا طرز تخاطب ٹھیک کر لیں۔ آپ کا مندرجہ بالا طرز تخاطب کسی طرح بھی قابل قبول نہیں ہے۔

اور شمشاد بھائی! آپ نے کس بات پہ شکریہ ادا کردیا۔شکریہ ادا کرنے سے پہلےذرا سوچ لیا کریں کہ کس بات پہ شکریہ ادا کررہے ہيں؟ ایسا نہ ہو کہ کوئی کلمہء کفر لکھ دے اور آپ اس کا شکریہ ادا کردیں۔تو جہاں وہ گیا آپ بھی آنکھیں بند کئے اس کے پیچھے پیچھے چلیں جائيں۔

میں نے شکریہ خاور بلال صاحب کا کیا ہے۔ مزید اس کی وضاحت انہوں نے اپنے مندرجہ بالا پیغام میں کر دی ہے۔
 
رضا صاحب۔ شکریہ کی ادائیگی ، ایک طرح کا تسلیم کرنا ہے کہ یہ مضمون دیکھ لیا گیا ہے۔ انسان ہونے کے ناطے ہم سب سے غلطی ہوسکتی ہے۔ توجہ دلانے پر غلطی کی درستگی کرنا غلطی کرنے والے کا فرض‌ہے۔ میں کچھ بھی کسی بد نیتی یا بد طینتی سے نہیں لکھتا۔ بلکہ اللہ کا کلام شئیر کرتا ہوں۔

اللہ تعالی نے غلامی کے فروغ کے لیے کوئی آیات نہیں اتاری، کسی لاچار کی تضحیک کی کبھی حوصلہ افزائی نہیں‌کی ---- لقد کرمنا بنی آدمً ----- ایک انتہائی عظیم حقیقت ہے۔ قرآن نے غلامی کے خاتمہ کے لئے جو طریقے اختیار کئے وہ انتہائی اعلی ہیں۔ اگر ایک ساتھ غلامی کا خاتمہ کردیا جاتا تو ہزاروں‌اور لاکھوں انسان سڑک پر ہوتے ۔ یعنی گھر سے بے گھر۔ افسوس ان لوگوں‌ پر ہے جنہوں‌ نے غلامی کے خاتمہ کے فلسفہ والی آیات کو لاچاروں اور محکوموں کی تضحیک کا رنگ دیا ، ان کے حق تبدیلیء ملازمت، حق ازواج، حق تعلیم، حق آزادی اور حق آزادی رائے چھین لینے کی روایات جاری رکھیں۔ نہ قرآن میں اور نہ ہی سنت میں کوئی بھی ایسی روایت ملتی ہے کہ جس میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی لاچار یا محکوم یا مفتوح‌ قوم کی عورتوں سے ان میں‌سے کسی بھی ناقابل قبول ضمن میں کوئی زبردستی روا رکھی ہو۔

لیکن آپ یہ بات جب بھی کہیں گے آپ کو چند لوگ ایسے ملیں گے جو کچھ اس طرح‌سمجھتے ہیں کہ مفتوح قوم کی عورتیں تو ہوتی ہی بانٹ لینے کے لئے اور مرد غلام بنا لینے کے لئے - جی؟‌
یہ ایک ایسا اصول ہے جو خود ہم قبول نہ کریں۔ کہ اگر مسلمانوں کو شکست ہو یا ان کا ملک مفتوح ہوجائے ، تو کیا مسلمان فتح کرنے والوں کو اپنی عورتوں سے زیادتی اور اپنے مردوں کی غلامی خوشی خوشی قبول کرلیں گے؟ یقیناً نہیں ۔ قرآن خالق برحق کا کلام ہے اور اس کے اصول سب کے لئے ہیں۔ یہ وہ نظام ہے جو حق پر مبنی ہے۔ اگر میں دنیا کا سب سے جاہل انسان ہوں‌ تو بھی کم از کم یہ جانتا ہوں کہ ---- یہ وہ نظام ہے ، جو آ کر رہے گا ----- جیسا کہ آپ نے فرمایا کہ اللہ کے کلام کی یہ خوبی ہے کہ اس میں‌تضاد نہیں ، جس طرح اس کے ہر حرف، ہر لفظ، آیت، سورۃ‌ کی حفاظت کا ذمہ خود اللہ تعالی نے لیا ہے ۔ اسی طرح اس کے ہر اصول کی حفاظت کا ذمہ بھی اللہ تعالی نے خود لیا ہے، اس کلام پر روایات کا ملمع چڑھانا بہت ہی مشکل ہے ۔
پھر بھی اگر ہم آپ روایات میں کھو بھی گئے تو کیا؟ اللہ تعالی اپنے کلام کو ترک کردینے والی قوم کو چھوڑ کر کسی اور قوم کو چن لے گا۔ میرے منہہ میں خاک !
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top