رضا، سلام۔
اس کتاب میں اس مصنف نے جو نکات پیش کئے ہیں۔ ان میں سے ایک کا جواب۔
اس کتاب کا نام شرح " صحیح مسلم " ہے۔ جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ایک شخص اپنا نکتہ نظر صحیح مسلم اور قرآن سے ثابت کرنا چاہتا ہے۔ یہ مصنف یہاں لکھتا ہے:
http://i127.photobucket.com/albums/p160/Raza1226/54.jpg
[AYAH]33:52[/AYAH] [ARABIC]لَا يَحِلُّ لَكَ النِّسَاءُ مِن بَعْدُ وَلَا أَن تَبَدَّلَ بِهِنَّ مِنْ أَزْوَاجٍ وَلَوْ أَعْجَبَكَ حُسْنُهُنَّ إِلَّا مَا مَلَكَتْ يَمِينُكَ وَكَانَ اللَّهُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ رَّقِيبًا[/ARABIC]
نہیں حلال ہیں تمہارے لیے عورتیں اس کے بعد اور نہ یہ کہ تم بدلو ان کی جگہ اور بیویاں اگرچہ تمہیں بہت ہی پسند ہو ان کا حسن سوائے تمہاری لونڈیوں کے اور ہے اللہ ہرچیز پر نگران۔
یہاں " مَلَكَتْ يَمِينُكَ " کا ترجمہ لونڈی کیا گیا ہے۔ مناسب ترجمہ " جو آپ کی حق ملکیت ہے"" ہوگا۔ جس سے مراد لونڈی بھی لی جاسکتی ہے۔ اس سے درج ذیل معانی اخذکئے گئے ہیں :
اقتباس:
"قرآن مجید کی ان آیات سے واضح ہوگیا کہ اللہ تعالی نے باندیوں سے مباشرت کی اجازت دی ہے۔ اور جس طرح اللہ تعالی کی اجازت کے بعد منکوحہ بیوی حلال ہوجاتی ہے، اور اس سے مباشرت کرنا ناقابل اعتراض نہیں ہوتا اسی طرح اللہ تعالی کی اجازت سے مملوکہ باندی بھی مرد پر حلال ہوجاتی ہے۔ اور اس سے مباشرت کرنا بھی کسی طور سے لائق اعتراضنہیں"
اس کتاب کا نام شرح " صحیح مسلم " ہے۔ جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ صحیح مسلم اور اس ایک آیت کی مدد سے یہ صاحب باندی یعنی نوکرانی یعنی ملازمہ سے حق مباشرت کو بناء کسی عقد النکاح کے حلال قرار دیتے ہیں۔
کیا باندی ، کے لئے نوکرانی یا ملازمہ کا لفظ مناسب ہے؟
جی مناسب ہے۔
آپ ایک عورت کو ایک ماہ کے لئے نوکر رکھیں تو اس کا معاوضہ ادا کیجئے تو وہ ہوئی نوکرانی۔ 50 ماہ کے لئے نوکر رکھیں تو بھی نوکرانی۔ اور اگر 50 سال کے لئے نوکر رکھیں تو بھی وہ نوکرانی ہی رہے گی۔ اب اگر آپ ایک عورت کو ملازمت دیتے ہیں اور یہ ملازمہ 18 سال کی ہے اور 50 سال کام کرے گی۔ آپ اس ملازمہ کی 50 سالہ ملازمت کا معاوضہ ایڈوانس میں اس کے باپ کو ادا کردیتے ہیں تو بھی یہ ملازمہ ہی رہے گی۔ تو جو اصول 50 سال کی ملازمت پر لگے گا وہی اصول 1 سال کی ملازمت پر۔ لہذا یہ ملازمہ ہی کہلائے گی۔
اب یہ ملازمہ آپ کی بیٹی ہے اور آپ نے اس کے 50 سال کی ملازمت کی رقم ایڈوانس میں لے لی۔ گویا آپ نے اپنی بیٹی کو حق تبدیلی ملازمت سے یہ ایڈوانس لے کر محروم کردیا وہ اب ملازمت تبدیل نہیں کرسکتی۔ اس نے اپنے ایمپلائر کی ہی ملازمت کرنی ہے۔ کہیں جا نہیں سکتی۔ یہ وہ باریک نکتہ ہے جو ملازمت اور غلامی کو الگ کرتا ہے۔ اس 50 سالہ ملازمت کے معاہدہ کے ساتھ ساتھ یہ لڑکی یعنی آپ کی بیٹی، اپنے حق تبدیلی ملازمت سے محروم ہورہی ہے۔ اور اب یہ صاحب دعوی کررہے ہیں کہ حق تبدیلی ملازمت تو گیا ہی۔ حق مباشرت بھی مل گیا۔ گویا ملازمت کرنے کی شرط یہ ہے کہ یہ لڑکی اب شادی بھی نہیں کرسکتی۔ اپنی زندگی نہیں جی سکتی؟ کیا یہ منطق آپ کو سمجھ میں آتی ہے؟ آپ کو مناسب لگے گی؟
کیا ملازمت دینے سے حق مباشرت بھی مل جاتا ہے؟ غلامی اور ملازمت میں کیا فرق ہے؟
غلامی ایک شخص کو ملازمت کے نام پر تمام حقوق سے محروم کرنا ہے۔ کہ آپ نے ملازمت تو دی لیکن ساتھ ساتھ اس کے تمام سماجی حقوق چھین لئے۔ جیسے شادی کرنے کا حق۔ اپنی ملکیت رکھنے کا حق۔ اپنے بچے رکھنے کا حق۔ ملازمت تبدیل کرنے کا حق۔ سفر کرنے کا حق۔ ایسی غلامی کچھ ممالک میں عام ہے۔
اس ضمن میں قرآن کیا کہتا ہے؟ قرآن اس ضمن میں بہت ہی واضح حکم دیتا ہے کہ
تمہاری لونڈیاں جو پاک دامن رہنا چاہتی ہیں انہیں دنیا کی زندگی کے فائدہ کی غرض سے زنا پر مجبور نہ کرو
[AYAH]24:33[/AYAH] اور چاہیے کہ پاک دامن رہیں وہ جو نکاح کی توفیق نہیں رکھتے یہاں تک کہ اللہ انہیں اپنے فضل سے غنی کر دے اور تمہارے غلاموں میں سے جو لوگ پروانہء آزادی کی تحریر چاہیں تو انہیں لکھ دو اگر اس میں تم ان کے لئے بہتری کے آثار پاؤ اور انہیں اللہ کے مال میں سے ان کو کچھ مال دو جو اس نے تمہیں دیا ہے
اور تمہاری لونڈیاں جو پاک دامن رہنا چاہتی ہیں انہیں دنیا کی زندگی کے فائدہ کی غرض سے زنا پر مجبور نہ کرو اور جو انہیں مجبور کرے گا تو اللہ ان باندیوں کے مجبور ہونے کے بعد بخشنے والا مہربان ہے
مزید دیکھئے کہ جو عورتیں آپ کے پاس کسی معاہدہ کے مطابق ملازمت کررہی ہیں آپ ان سے شادی کرسکتے ہیں لیکن اس لئے کہ وہ آپ کی ملازمہ ہے آپ اس ناطہ ان سے زبردستی نہیں کرسکتے کہ وہ آپ سے ہی شادی کریں یا اپنا حق سمجھ کر آپ ان پر زبردستی کریں (زبردستی یعنی violent rape) ۔ اس شادی کے بعد وہ درست طور پر آپ کی ہیں جو کہ " مَلَكَتْ يَمِينُكَ " کے مناسب معنی بنیں گے ۔ یعنی شادی (عقد النکاح ) کی بنیادی شرائط پورا کرنا ضروری ہے۔ جس میں مہر کی ادائیگی ، ایجاب و قبول وغیرہ شامل ہیں۔ بہت سے علماء معاہدہ کی مد میں ادا کی گئی رقم کو مہر کی ادائیگی تصور کرتے ہیں۔ جس کی وضاحت یہاں ہوتی ہے۔ ایجاب و قبول ایک لازمی اور فرض کیا ہوا امر ہے۔ جس کا اشارہ یہاں ملتا ہے۔
[AYAH]4:25[/AYAH]
اور تم میں سے جو کوئی (اتنی) استطاعت نہ رکھتا ہو کہ آزاد مسلمان عورتوں سے نکاح کر سکے تو ان مسلمان کنیزوں سے نکاح کرلے جو (شرعاً) تمہاری ملکیت میں ہیں، اور اللہ تمہارے ایمان (کی کیفیت) کو خوب جانتا ہے،
تم (سب) ایک دوسرے کی جنس میں سے ہی ہو، پس ان (کنیزوں) سے ان کے مالکوں کی اجازت کے ساتھ نکاح کرو اور انہیں ان کے مَہر حسبِ دستور ادا کرو درآنحالیکہ وہ (عفت قائم رکھتے ہوئے) قیدِ نکاح میں آنے والی ہوں نہ بدکاری کرنے والی ہوں اور نہ درپردہ آشنائی کرنے والی ہوں، پس جب وہ نکاح کے حصار میں آجائیں پھر اگر بدکاری کی مرتکب ہوں تو ان پر اس سزا کی آدھی سزا لازم ہے جو آزاد (کنواری) عورتوں کے لئے (مقرر) ہے، یہ اجازت اس شخص کے لئے ہے جسے تم میں سے گناہ (کے ارتکاب) کا اندیشہ ہو، اور اگر تم صبر کرو تو (یہ) تمہارے حق میں بہتر ہے، اور اللہ بخشنے والا مہر بان ہے
گو کہ یہ آیات پہلے بھی لکھی جاچکی ہیں لیکن جب تک ہم میں قران کی تعلیم عام نہیں ہوگی۔ یہ سوالات اٹھتے رہیں گے۔ یہ ذہن میں رکھئے کہ بہت کچھ غلط العام قرآن کو قبول کرنے کے بعد بھی جاری ہے۔ اس سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ قرآن سے اختلاف رکھنے والی کتب کو پڑھنے میں احتیاط ضروری ہے۔