]::::: اسلام میں موسیقی اور گانے ::::: پہلا حصہ ::: شرعی حیثیت :::::

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
عبداللہ بن مسعود نے اپنے ذاتی خیال کا اظہار فرمایا۔ یقیناً‌ ان کا فرمانا سنت نہیں۔ انہوں‌نے رسول اکرم سے بھی منسوب نہیں فرمایا۔۔ لھو الحدیث کوئی بھی بے کار بات ہو سکتی ہے۔ وہ چاہے نغمہ کی صورت میں‌ہو یا نثر کی صورت میں۔
 
کچھ نصف آیات کو مکمل طور پر فراہم کردیا ہے۔ استدعا ہے کہ مکمل آیت لکھئے۔ کوئی انسان اللہ سے بڑھ کر حکیم نہیں ہوسکتا، اپنی بات کو واضح کرنے کے لئے، رنگ کا یا انڈر لائین کا استعمال کیجئے لیکن آیت کو کم و بیش نہ کیجئے۔
السلام علیکم و رحمۃُ اللہ و برکاتہ ، فاروق بھائی ، بحث مباحثہ اپنی جگہ اور سلام اپنی جگہ ، آیات کو جزوی طور پر ذکر کرنے کا مقصد اس میں سے موجوع کے مطابق حصے کا ذکر کرنا ہوتا ہے ، اگر یہ آپ کو قبول نہیں تو پوری آیت ہی لکھ دیا کروں گا ان شاء اللہ ، اور ان شاء اللہ وہ میرے لیے زیادہ مضبوط حجت ہو گی ،
 
عبداللہ بن مسعود نے اپنے ذاتی خیال کا اظہار فرمایا۔ یقیناً‌ ان کا فرمانا سنت نہیں۔ انہوں‌نے رسول اکرم سے بھی منسوب نہیں فرمایا۔۔ لھو الحدیث کوئی بھی بے کار بات ہو سکتی ہے۔ وہ چاہے نغمہ کی صورت میں‌ہو یا نثر کی صورت میں۔
انا للہ و انا الیہ راجعون ، فاروق بھائی ، کیا آپ کو قران میں صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کے تقوی اور ایمان کی گواہیاں نظر نہیں آتیں ، کیا اللہ کی ان گواہیوں کے بعد وہ لوگ اپنی رائے اور سمجھ سے قران کی تاویلات کرتے تھے ، اور کیا آپ کی یا آپ کے پیران منہج کی قرن فہمی ان سے زیادہ ہے ؟؟؟
 
آپ سنت (قول و فعل رسول)‌ اور کتب روایات میں کوئی فرق نہیں سمجھتے؟ کتب روایات پر جھگڑوں کی تاریخ‌1250 سال پرانی ہے۔ لوگوں کا بس نہیں چلتا کہ اپنی تمام رسومات رسول اکرم سے منسوب کر دیں
فاروق بھائی ، سنت یعنی قول و فعل رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم روایات حدیث میں ہی تو ملے گی ، قران میں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی سنت نہیں ہے ، بلکہ سنت کی اہمیت اور شرعی حیثیت بتائی گئی ہے !!!!!
روایات حدیث پر جھگڑا نہیں ، اسناد پر حکم میں اختلاف ہوتا ہے ، اور اس اختلاف کے باوجود مسلمانوں کی بہٹ بڑی اکثریت آج تک ان ہی روایات حدیث سے اپنے عقائد ، عبادات ، اور احکام شریعت اخذ کرتی چلی آ رہی ہے ،
میرا منہج شخصیات پر بحث کرنا کبھی نہیں رہا ، ورنہ نام لے کر بتاتا کہ سنت کے بارے میں شکوک و شبہات کہاں سے داخل کیے گئے اور پھر کس کس نے کب کب سنت کو جزوی یا کلی طور پر فراموش کرنے کا واویلا شروع کیا،
آپ کو شاید پتہ ہو گا ہی ، کہ ، سب سے پہلے """ ان الحکم الا للہ """ کو اپنی عقل سلیم کی بنیاد ہر سمجھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم اور صحابہ رضی اللہ عنہم کے اجتماعی احکام کا انکار کرنے والے """ خوارج """ کو علی رضی اللہ عنہ نے قتل کیا ، اب ہم مسلمانوں میں کوئی خلیفہ علی منہج النبوۃ نہیں ہے ورنہ شاید آج کے خوارج کا بھی کچھ ایسا ہی انجام ہو چکا ہوتا ،
فاروق بھائی ، میرا شک یقین میں تبدیل ہوتا جا رہا ہے کہ آپ روایات حدیث کی درستگی اور نا درستگی کے قوانین کے بارے میں کچھ نہیں جانتے ، ورنہ سب کی سب روایات حدیث کو ایک ہی پلڑے میں نہ ڈالے رکھتے ،
 
بہت خوب فرمایا، اب آپ وہ سنت عطا فرم دیجئے جہاں پر رسول اکرم نے واضح طور پر اپنے قول و فعل سے موسیقی کو رد کیا ہو۔ ہم سب منتظر ہیں۔
تعریف کرنے کا شکریہ فاروق بھائی لیکن یہ کہنا کہ """ بہت خوب فرمایا آپ نے """ میری کسی بات کا علمی جواب نہیں ، صحیح البخاری کی واضح حدیث میں پیش کر چکا ہوں ، اور دیگر کئی احادیث بھی جو موسیقی کے مختلف آلات کے واضح طور پر نام لے کر انہیں حرام قرار دینے کے بارے میں ہیں ، اب سمجھ کر بھی نہ مجھے کوئی ، تو کیا کیجیے ، یا آپ کو سمجھ ہی نہیں آئی ، معکوس سوچ کا عکس ایسا ہی ہوتا ہے بھائی جان ،
 
جو روایت آپ نے --- زنا و غناء‌کی -- پیش کی اس کی اسناد ٹوٹی ہوئی ہیں۔ آپ اس کو دیکھنے کی زحمت بھی گوارا نہیں کرتے بھائی۔ اس لئے کہ آپ کا مقصد سچ و حق کی تلاش نہیں بلکہ صرف اور صرف ثابت کرنے کے لئے کہ میں سنت نہیں مان رہا۔ ایسا نہیں ہے۔ جو سنت آپ پیش کررہے ہیں وہ قرآن کی روشنی میں ماند پڑجاتی ہے اور اس کی اسناد بھی ٹوٹی ہوئی ہیں صاحب۔
ماشا اللہ ، اسناد پر بات کرنا بھی جانتے ہیں فاروق بھائی ، ملاحظہ فرمایے ، صحیح البخاری کی حدیث کی سند مندرجہ ذیل ہے ،
وقال هِشَامُ بن عَمَّارٍ حدثنا صَدَقَةُ بن خَالِدٍ حدثنا عبد الرحمن بن يَزِيدَ بن جَابِرٍ حدثنا عَطِيَّةُ بن قَيْسٍ الْكِلَابِيُّ حدثنا عبد الرحمن بن غَنْمٍ الْأَشْعَرِيُّ قال حدثني أبو عَامِرٍ أو أبو مَالِكٍ الْأَشْعَرِيُّ والله ما كَذَبَنِي سمع النبي صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم يقول ،،،،،، الحدیث ،،،،،
میں آپ کا بڑا ممنوں ہوں گا ، بلکہ یہ تو پوری امت پر بڑا احسان ہو گا کہ آپ اس سند کے ٹوٹے ہوئے ہونے کا بیان فرما دیں ،میری سابقہ کئی گذارشات کے طرح اسے بھولیے گا نہیں
میری نیت کشائی کا شکریہ ، یہ بھی پتہ چل گیا کہ آپ کی قران فہمی آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے مطلقا غیب نہ جاننے کا علم رکھتی ہے اور آپ کو لوگوں کے دلوں کا حال جانے کا ، سبحان اللہ ،
فاروق بھائی ، کوئی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم سے ثابت شدہ سنت قران کی روشنی میں ماند نہیں پڑتی لیکن ،ترجموں اور فلسفوں کی محتاج قران فہمی کے اندھیرے میں ۔
اسناد کے بارے میں پھر گذارش ہے کہ اس کے ٹوٹے ہوئے ہونے کا بیان فرمایے ، میں آپ کی تحقیق کو نشر کر کے ، اپنی پوری کوشش کروں گا کہ صحیح البخاری کی سند کے ٹوٹے ہوئے ہونے کا ثبوت دینے پر آپ کو اگر محدثین کی نہیں تو کم از کم علماء حدیث کی گنتی میں شمار کر لیا جائے ،
 
صاحب ، یہ آیت تو کہہ رہی ہے کہ اے رسول ہم نے آپ پر قرآن اتارا ہے تاکہ آپ لوگوں کو اس قرآن کی مدد سے پیغام و احکام واضح کردیں۔ جی؟

فاروق بھائی ، آپ نے ایک دفعہ پھر میری توقعات کو دھچکا لگایا ہے ، غصے میں آ کر آپ معقولیات سے نکل کر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پر اتر آئے تھے ، لیکن خیانت کرتے ہوئے میرے لکھے ہوئے الفاظ کو بھی بدل دیں گے ، یہ اس سے بھی بڑی خرابی ہے ، بھائی اگر آپ کو میرے لکھے ہوئے ترجمے میں کوئی خامی یا خرابی نظر آئی تھی تو اس کا اظہار کرتے ، خود سے تبدیل کیوں کیا ؟؟؟ اب آپ جیسے کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے کیا بھروسہ رہا کہ آپ اپنے مقابل کے الفاظ تبدیل کر کے اپنے ھدف کے حصول میں مدد دینے والے الفاظ اس کے کھاتے میں نہ ڈال دیں گے ؟؟؟

میں نے لکھا ترجمہ لکھا تھا """ اور (اے ہمارے رسول ) ہم نے آپ کی طرف ذکر (قران) نازل کیا ہے تا کہ آپ لوگوں پر واضح فرما دیں کہ اُن کی طرف کیا نازل کیا گیا ہے تا کہ وہ ( آپ کے بیان کے مطابق اس میں غور و) فِکر کریں """ ،،، اور آپ نے میرے نام کے اقتباس میں لکھ دیا """ اور (اے نبیِ مکرّم!) ہم نے آپ کی طرف ذکرِ عظیم (قرآن) نازل فرمایا ہے تاکہ آپ لوگوں کے لئے وہ (پیغام اور احکام) خوب واضح کر دیں جو ان کی طرف اتارے گئے ہیں اور تاکہ وہ غور و فکر کریں """
گو کہ آپ کے لکھے ہوئے ترجمے سے بھی آپ کا مقصد پورا نہیں ہوتا اس میں بھی یہ ہی بات ملتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم وضاحت فرمائیں ، اور جناب ، اسی وضاحت کو سنت قولی اور فعلی اور تقریی کہا جاتا ہے اور وہ سنت روایات حدیث میں ہی ملتی ہے قران میں نہیں ، کیونکہ وہ قرن کا حصہ نہیں بلکہ قران کی وضاحت ہے ، و للہ الحمد ، آپ کا پیش کردہ ترجمہ بھی آپ کے کام نہیں آیا ، لیکن خیانت داری آپ کے ذمے لگ گئی ،
 
اس آیت میں واضح‌طور پر یہ لکھا ہے کہ ----- آپ کی طرف کتاب اتارنے کا مقصد یہ ہے کہ آپ جن معاملات میں یہ لوگ اختلاف کرتے ہیں ان کو اس کتاب کی روشنی میں‌ ان امور کو واضح کریں۔ آپ کا زیادہ درست جملہ یہ ہوگا۔

پس ، جس بات یا کام میں اختلاف ہے اسے کتاب اللہ کی روشنی میں سُنّت رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم سے سمجھا جائے گا
جی فاروق بھائی ، یہ ترجمہ آپ کے منہج کو تقویت تو دیتا ہے لیکن اللہ سبحانہ و تعالی کے فرمان کی ترجمانی نہیں کرتا ، قران رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی طرف نازل کرنے کا سبب یہ بتایا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم اس کو بیان کریں ، قولا و عملا اس کی تفسیر و شرح بیاں کریں ، اور اس بیان کے ذریعے باقی لوگ قران کو سمجھیں ، نہ کہ اپنی اپنی سوچ و فِکر کے مطابق ، جی ہاں ،
 
میں اس سے بھی بہتر آیت عرض کرتا ہوں‌ اس ضمن میں

سورۃ النور:24 , آیت:56 [arabic]وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ[/arabic]
اور تم نماز (کے نظام) کو قائم رکھو اور زکوٰۃ کی ادائیگی (کا انتظام) کرتے رہو اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی (مکمل) اطاعت بجا لاؤ تاکہ تم پر رحم فرمایا جائے (یعنی غلبہ و اقتدار، استحکام اور امن و حفاظت کی نعمتوں کو برقرار رکھا جائے)
بہت اچھے فاروق بھائی ، اب یہ بھی بتایے کہ """ اقیموا الصلاۃ """ کا مطلب """ نماز کا نظام قائم رکھو """ ہے تو پھر قران میں """ نماز کا نطام """ کیا ہے ؟؟؟ اور قران میں اس کو قائم رکھنا کیا اور کیسے ہے ؟؟؟ اور اسی طرح اگر """ آتوا الزکاۃ """ کا مطلب """ زکوۃ کی ادائیگی کا انتظام """ کرنا ہے تو قران میں یہ انتظام کیا ہے ؟؟؟
 
یہاں تو یہ بھی مسئلہ نہیں کہ قرآن اللہ کا اور سنت رسول کی ہے۔ بھائی ۔ سنت ساری کی ساری قرآن پر مبنی ہے۔ اگر قرآن پر مبنی نہیں تو سنت ہی نہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیوں ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ وہ قرآن سے باہر آزادانہ جاتے رہتے تھے۔ مطلق العنان تھے، قرآن کے اصولوں کی پابندی نہیں کرتے تھے؟ آپ یہ ثابت کرنے کے بجائے کہ ان کتب میں جو کچھ درج ہے قرآن کے مخالف بھی ، اس پر ہم ایمان لے آئیں۔ تھوڑی سے کوشش یہ کیجئے کہ یہ دیکھئے کہ خلاف قرآن کیا رسول اکرم سے ممکن ہے؟
نعوذ باللہ من تلک الھزلات و من کلھا ، فاروق بھائی ابھی میں نماز اور زکوۃ کے بارے میں جو سوالات کیے ہیں ان کا جواب عنایت فرمایے ، آپ کی اس مندرجہ بالا بات کو جواب بھی وہیں سے ملے گا ، یہ مندرجہ بالا سوچ آپ کے پاس ہو سکتی ہے جو سنت کو قران کا بیان نہیں سمجھتا ، بلکہ یہ سمجھتا ہے کہ جو سنت اس کی سمجھ کے مطابق قران کے خلاف نظر آئے وہ سنت ہی نہیں ، اور اس میں صحیح غیر صحیح کا بھی کوئی فرق نہیں ، یہ اس کی سمجھ کا فرق ہے کہ وہ معاذ اللہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم اپنی قران فہمی کی بنا پر سنت میں بظاہر مختلف چیز کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کا اپنے رب کے احکامات سے خارج ہونا سمجھے ، اگر نہ سمجھتا ہو تو ایسا فلسفہ اپنی دلیل بنا کر نہ لائے ،
فاروق بھائی ، آپ سے انتہائی مودبانہ گذارش ہے کہ اپنے فلسفے کے دفاع میں کچھ بھی کرتے رہیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی ذات مبارک اور ان کی سنت مقدسہ کے بارے میں اپنے شکوک و شبہات کو دوسروں کے سر مت منڈھیے ، یہ گستاخی اس ذہن میں ہی سما سکتی ہے جس نے اللہ کے مقرر کردہ منہج کو چھوڑ دیا ہو ، اورسنت کو قران کا بیان نہ سمجھتا ہو ،
 
اس قرآن کا نزول ہی تو سارا معجزہ و معرکہ ہے؟ اگر آپ ایک ٹوٹی ہوئی اسناد کی روایت سے باہر یہ سنت ثابت کرسکیں تو صاحب سر تسلیم خم ہے۔
جی ہاں قران کا نزول معجزہ ہے ، ٹوٹی ہوئی سند کا ثبوت دیجیے پھر بات کرتے ہیں ان شاء اللہ ،
ایک اصطلاح ---- لھو الحدیث ---- ، جس کی روایات بھی رسول اکرم سے منسوب نہیں ، اس کی مدد سے آپ ثابت کرنے پر تلے ہیں کہ خالق کائنات نے موسیقی تخلیق ہی نہیں کی۔
بھائی جی کیا ہو گیا ہے ، بات کچھ ہوتی ہے آپ کو سمجھ کچھ آتا ہے ، معکوس ؟؟؟ ، موسیقی اللہ نے کی تخلیق ہے ، یا مخلوق کی ایجاد ، اس موضوع پر کبھی ہماری بات ہوئی ہی نہیں ، اگر آپ کرنا چاہیں تو خوش آمدید ، ویسے اس فلسفیانہ دلیل کا جواب بھی موسیقی کے باقی حصوں میں تیار کیے ہوئے ہوں و للہ الحمد ،
 
آپ کا مقصد اگر مجھے مسلمان کرنا ہے تو بہت اچھا، لیکن باقی بہت سے ایسے ہیں جو عربی نہیں سمجھتے۔ ان کا خیال کیجئے۔
صرف عربی جاننے سے اگر کوئی مسلمان ہو جاتا تو کوئی عرب غیر مسلم نہ رہتا ، پیدائشی ملسمان ہوتا ، میں نت اپنی خوشی کا اظہار کیا تھا کہ بقل آپکے آپ کی عربی کافی اچھی ہے پس مجھے ترجمے کرنے کی ضرورت نہ رہے گی ، رہا معاملہ دوسروں کا تو مجھے تو لگتا ہے کہ یہاں آ کر ہماری گفتگو پڑہنے والے شاید اس طرف توجہ ہی نہیں دیتے کہ کس نے کیا لکھا ، گویا کہ یہ گفتگو میرے اور آپ کے درمیان ہے بس ، جی ہاں دوست بھائی نے کچھ جوابات ارسال کیے ہیں ، اور میں ان کے سارے جوابات آ جانے کا منتظر ہوں ،
 
ایسا کرتے ہیں ، جو اصول آپ نے روایات کی تعداد، متن ، ترتیب اور پر لاگو کیا ہے ۔ قرآن پر بھی نعوذ باللہ کردیتے ہیں۔ ایک 500 آیات کا قرآن بناتے ہیں، ایک 5000 آیات کا۔ آیات کی ترتیب بدل دیتے ہیں ۔ یار کیا ہے بات ہی تو ہے۔ کیا اہمیت ہے؟ کچھ اپنی طرف سے اور کچھ سنا سنایا بھی ڈال دیتے ہیں۔ اور اگر کچھ خلاف قرآن ہو تو پھر تو بات ہی کیا ہے۔
فاروق بھائی ، آپ ایسا کرنا چاہیں تو کیجیے ، ہماری ہمت تو نہیں کہ ہم قران یا حدیث میں اپنے تیئں اضافہ یا کمی کریں ،
فاروق بھائی چوتھی دفعہ عرض ہے ::: """ کتب حدیث میں روایات کی تعداد ، متن ، اور ترتیب ، میں فرق ان کی صحت و درستگی پر کوئی منفی اثرنہیں ڈالتا ، یہ بات سمجھنے کے لیے """ علم مصطلح الحدیث """ اور """ جرح و تعدیل """ اور """ نقد الحدیث """ کا جاننا ضروری ہے ، اگر آپ ان علوم کی کچھ بنیادی معلومات ہی حاصل کریں تو اس غلط فہمی کا ازالہ ہو جائے گا ان شاء اللہ """
 
یہی طور طریقے تھے سابقہ امتوں کے کہ اپنی کتب میں تعداد، ترتیب، متن سب کچھ بدل ڈالا۔ جس کا سد باب اللہ تعالی نے خود اس کتاب کی حفاظت فرما کر کیا۔
انا للہ و انا الیہ راجعون ، سابقہ امتوں کو اللہ نے نہ وہ علوم دیے نہ وہ عالم جو ہماری امت کو عطا فرمائے ہیں کہ ہمیشہ سے صحیح اور غیر صحیح کی پہچان کر کے ان کو الگ الگ کرتے چلے آ رہے ہیں ، اور ہر ناحق فلسفے اور منطق کا جواب دیتے چلے آ رہے ہیں ، سابقہ امتوں نے بھی جب اپنے انبیاء کی تعلیمات کو ترک کیا اور ان کی حفاظ ت نہ کی تو ان کی طرف نازل کردہ کتابوں میں بھی تحریف ہوئی ، ہماری امت کی طرف نازل کردہ وحی کی حفاظت کی ذمہ داری اللہ نے خود لی ہے ، پس باوجود کوشش کے لوگوں کو اس میں لفظی تحریف میں کامیابی نہیں ہوتی ، جی ہاں ، معنوی تحریف کے کئی دروازے وقتا فوقتا کھلتے رہتے ہیں اور جب تک اللہ چاہتا ہے انہیں کھلا رہنے دیتا ہے اور جب چاہتا ہے اپنے کسی بندے یا بندوں کے ذریعے بند کروا دیتا ہے ، واللہ یفعل ما یرید ،
 
]آپ کا یہ استدلال کہ صحابہ سے زیادہ قرآن فہم کون ہوسکتا ہے احتیاط کے لحاظ سے اچھی چیز ہے لیکن ۔۔۔۔۔۔۔۔ لیکن عقل سلیم اللہ کریم نے سب کو عطاء کی ہے۔ اگر عبداللہ بن مسعود لھو الحدیث سے گانا نکالتے ہیں تو یہ ان کا ذاتی استدلال ہے۔ یہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان نہیں۔ یہ یاد رہے اور چونکہ ہمیں صرف قرآن اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے رہنمائی لینے کا حکم ہے اس لیے ہم تو اس آیت کی تفسیر میں قول یا فعل رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا مطالبہ کریں گے۔ اگر یہ پیش نہیں کیا جاسکتا اور انشاءاللہ قیامت تک پیش نہیں کرسکیں گے تو یہ مان لیں کہ اس آیت سے ہر کسی نے اپنی سمجھ کے مطابق مطلب نکالا ہے۔
صحابہ کی جماعت کی تربیت خود رسول اللہ‌ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے فرمائی۔ انہون‌نے نبی صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم سے براہ راست قرآن کریم سیکھا۔ نہ صرف الفاظ سیکھے بلکہ اس کے معنی بھی سیکھے۔ اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان دیکھیے:
[arabic] إِنَّ عَلَيْنَا جَمْعَهُ وَقُرْآَنَهُ (17 ) فَإِذَا قَرَأْنَاهُ فَاتَّبِعْ قُرْآَنَهُ (18 ) ثُمَّ إِنَّ عَلَيْنَا بَيَانَهُ ( 19) [/arabic] (القیامۃ)
(اے نبی) آپ اس (قرآن) کو جلدی یاد کرنے کے لیے اپنی زبان کو حرکت نہ دیں۔ یقینا اس کا (آپ کے سینے میں) جمع کرنا اور (آپ سے) اس کا پڑھوا دینا ہمارے ذمے ہے۔ پھر جب ہم اسے پڑھوا چکیں تو آپ اس کے پڑھنے کا اتباع کریں۔ پھر یقینا اس کی وضاحت ہمارے ذمے ہے۔"
بھائی! سوچنے کی بات ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے صرف قرآن کے الفاظ کی تعلیم دی تھی یا اس کے معانی بھی سکھائے تھے؟ اگر سکھائے تھے تو کسے سکھائے تھے؟ صحابہ کے سوا کوئی دوسرا گروہ اس کا دعویٰ کر سکتا ہے ؟ تصور بھی نہیں‌ کیا جا سکتا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نےمعانی دوسروں کے فہم پر چھوڑ دیے تھے۔ میں نے جو آیت اوپر لکھی ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کو الفاظ اور ان کے معانی (جو لازمی نہیں کہ لغوی معنی ہوں، اس لیے کہ عربی تو نبی صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی زبان تھی) اللہ تعالیٰ کی طرف سے سکھائے گئے تھے اور مندرجہ ذیل آیت دلیل ہے کہ انہوں نے (صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم) یہ معانی صحابہ کو سکھائے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
[arabic]يَا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنزِلَ إِلَيْكَ مِن رَّبِّكَ وَإِن لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهُ وَاللّهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ إِنَّ اللّهَ لاَ يَهْدِي الْقَوْمَ الْكَافِرِينَ [المائدة : 67]
[/arabic]
"اے رسول! آپ کے رب کی طرف سے آپ پو جو کچھ نازل کیا گیا ہے وہ لوگوں تک پہنچا دیجیے۔ اور اگر آپ نے ایسا نہ کیا تو گویا آپ نے رسالت کا حق ادا نہ کیا، اور اللہ آپ کو لوگوں کے (شر) سے بچائے گا، اور بلا شبہ اللہ کافروں کی قوم کو ہدایت نہیں دیتا"
کوئی بھی فیصلہ کرنے سے قبل ان دونوں آیات کو پڑھیے اور بتائیے کہ نبی صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے کن لوگوں تک یہ وہ سب پہنچایا جو ان پر نازل کیا گیا تھا؟ کیا آج کو کوئی متجدد یہ دعوٰی کر سکتا ہے کہ اس نے قرآن کے الفاظ اور ان کی تشریح خود نبی صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم سے سیکھی ہے؟ کیا ہم اور صحابہ اس اعتبار سے بھی برابر ہیں؟ میرے بھائی! یہ دعوٰی تو امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے بھی نہیں کیا تھا ان کا جو قول ملتا ہے وہ بھی تابعین اور تبع تابعین کے بارے میں ہے کہ "فہم رجال و نحن رجال"۔ ہم میں سے کون ہے جس کی شان میں آیات نازل ہوتی ہوں، جن کی بشری تقاضوں کے تحت ہونے والی غلطیاں اللہ عرش کے اوپر سے معاف کرنے کا اعلان کرتا ہو، جن کے بارے میں فرمایا جاتا ہو کہ (بیعت رضوان کے موقع پر) ان کے ہاتھ کے اوپر اللہ کا ہاتھ تھا، جن کے سچی پیروی کرنے والوں سے بھی اللہ راضی ہو؟ اسے مبالغہ آرائی یا روایتی جذباتی پن کہہ کر گزرنے سے پہلے یہ آیتیں تو پڑھ کر دیکھو، اللہ کے لیے! بھائی کچھ تو سوچو۔
[arabic]وَالسَّابِقُونَ الأَوَّلُونَ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ وَالأَنصَارِ وَالَّذِينَ اتَّبَعُوهُم بِإِحْسَانٍ رَّضِيَ اللّهُ عَنْهُمْ وَرَضُواْ عَنْهُ وَأَعَدَّ لَهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي تَحْتَهَا الأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَداً ذَلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ [التوبة : 100] [/arabic]
"اور (قبول اسلام میں) سبقت کرنے والے مہاجرین اور انصار اور وہ لوگ جنہوں نے نیکوکاری کے ساتھ ان کی پیروی کی ، اللہ ان سے راضی ہو گیا اور وہ اس سے راضی ہو گئے، اور للہ نے ان کے لیے ایسی جنتیں تیار کر رکھی ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں، وہ ان میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے، یہ ہے بہت بڑی کامیابی"
[arabic]لَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ إِذْ يُبَايِعُونَكَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ فَعَلِمَ مَا فِي قُلُوبِهِمْ فَأَنزَلَ السَّكِينَةَ عَلَيْهِمْ وَأَثَابَهُمْ فَتْحاً قَرِيباً [الفتح : 18] [/arabic]
"یقینا اللہ مومنوں سے راضی ہو گیا جب وہ درخت کے نیچے آپ سے بیعت کر رہے تھے، چنانچہ ان کے دلوں میں جو (خلوص) تھا، وہ اس نے جان لیا تو اس نے ان پر سکینت نازل فرمائی اور بدلے میں انہیں قریب کی فتح دی"
یہ وہ مبارک گروہ ہے جسے اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے "سب سے بہترین گروہ" قرار دیا"
[arabic]كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللّهِ وَلَوْ آمَنَ أَهْلُ الْكِتَابِ لَكَانَ خَيْراً لَّهُم مِّنْهُمُ الْمُؤْمِنُونَ وَأَكْثَرُهُمُ الْفَاسِقُونَ [آل عمران : 110] [/arabic]
"تم بہترین امت ہو جو لوگوں کی (اصلاح) کے لیے نکالی گئی ہے، تم نیک کاموں کا حکم دیتے ہو اور برے کاموں سے روکتے ہو، اور تم اللہ پر ایمان رکھتے ہو، اور اگر اہل کتاب ایمان لے آتے تو ان کے حق میں بہتر ہوتا۔ ان میں بعض ایمان والے ہیں مگر ان کے اکثر نافرمان ہیں"
[arabic]مُّحَمَّدٌ رَّسُولُ اللَّهِ وَالَّذِينَ مَعَهُ أَشِدَّاء عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاء بَيْنَهُمْ تَرَاهُمْ رُكَّعاً سُجَّداً يَبْتَغُونَ فَضْلاً مِّنَ اللَّهِ وَرِضْوَاناً سِيمَاهُمْ فِي وُجُوهِهِم مِّنْ أَثَرِ السُّجُودِ ذَلِكَ مَثَلُهُمْ فِي التَّوْرَاةِ وَمَثَلُهُمْ فِي الْإِنجِيلِ كَزَرْعٍ أَخْرَجَ شَطْأَهُ فَآزَرَهُ فَاسْتَغْلَظَ فَاسْتَوَى عَلَى سُوقِهِ يُعْجِبُ الزُّرَّاعَ لِيَغِيظَ بِهِمُ الْكُفَّارَ وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ مِنْهُم مَّغْفِرَةً وَأَجْراً عَظِيماً [الفتح : 29]
[/arabic]
"محمد( صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم) اللہ کے رسول ہیں اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں وہ کافروں پر بہت سخت ہیں، آپس میں نہایت مہربان ہیں، آپ انہیں رکوع و سجود کرتے دیکھیں گے، وہ اللہ کا فضل اور (اس کی) رضامندی تلاش کرتے ہیں، ان کی خصوصی پہنچان ان کے چہروں میں سجدوں کا نشان ہے، ان کی یہ صفت تورات میں ہے اور انجیل میں ان کی صفت اس کھیتی کی مانند ہے جس نے اپنی کونپل نکالی پھر اسے مضبوط کیا اور وہ (پودا) موٹا ہو گیا، پھر اپنے تنے پر سیدھا کھڑا ہو گیا، کسانوں کو خوش کرتا ہے، (اللہ نے یہ اس لیے کیا) تا کہ ان (صحابہ کرام) کی وجہ سے کفار کو خوب جلائے، اللہ نے ان لوگوں میں سے جو ایمان لائے ہیں اور انہیوں نے نیک عمل کیے ہیں، مغفرت اور اجر عظیم کا وعدہ کیا ہے"
یہ ساری آیتیں کس کے بارے میں اتریں؟ دنیا کا کوئی انسان ہے جو دعوٰی کر سکے صحابہ کی ہمسری کا؟ آج ان صحابہ کے بارے میں قرآن کو ماننے کا دعوٰی کرنے والے کہتے ہیں کہ وہ قابل اعتبار نہیں، ان کا فہم قابل اعتماد نہیں، ان کی تفسیر قابل قبول نہیں۔ بھائیو! یہ سب کرو گے تو دین کا حلیہ ہی بگڑ جائے گا۔
دوست! آپ نے عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے بارے میں بہت بڑی بات کہہ دی ہے۔ اللہ تعالیٰ توبہ کی توفیق عطا فرمائے اور غلطیوں سے درگزر کرے۔ میرے بھائی! یہ وہ جلیل القدر صحابی ہیں جن کا مرتبہ قرآن فہمی کے لیے خود صحابہ میں بھی ممتاز تھا حتی کہ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے فرمایا تھا:
[arabic]اسْتَقْرِئُوا الْقُرْآنَ مِنْ أَرْبَعَةٍ مِنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ وَسَالِمٍ مَوْلَى أَبِي حُذَيْفَةَ وَأُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ وَمُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ [/arabic]ٍ
(صحیح بخاری۔ کتاب المناقب باب مناقب عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ )
"قرآن چار لوگوں سے پڑھو، عبد اللہ بن مسعود، سالم مولیٰ ابی حذیفہ، ابی ابن کعب اور معاذ ابن جبل (رضی اللہ عنہم اجمعین) "
یہ حدیث امام بخاری نے اپنی صحیح میں بیان کی ہے اس لیے تمام اہل سنت و الجماعت کے نزدیک تو اس میں کوئی شک و شبہہ نہیں ہے۔ مجھے امید ہے فاروق صاحب بھی اسے تسلیم کریں گے۔
امام بخاری سے بعض لوگوں کو چڑ ہے اس لیے میں دوسرے محدثین کا حوالہ بھی دے رہا ہوں جنہوں نے اس مضمون کی حدیث بیان کی ہے۔
1۔ صحیح مسلم کتاب فضائل الصحابہ باب "من فضائل عبداللہ ابن مسعود و امہ"۔
2۔ مسند احمد بن حنبل میں مسند عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ
3۔ السنن الکبری للنسائی جلد 5 حدیث نمبر 8001
4۔ صحیح ابن حبان کتاب اخبارۃ النبی صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم عن مناقب الصحابہ باب ذکر معاذ ابن جبل رضی اللہ عنہ
اس سے تشفی نہ ہو مزید محدثین کے حوالے بھی ان شاء اللہ دیے جا سکتے ہیں۔
ان آیات و احادیث کو بیان کرنے کا مقصد یہ سمجھانا ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ اور عام آدمی کی تفسیر و تشریح برابر نہیں ہو سکتی اور عبداللہ بن مسعور رضی اللہ عنہ جیسے صحابی کے بارے میں کہنا کہ ان کی اور میری رائے برابر ہے ایک عظیم غلطی ہے، اس لیے کہ ان کے فہم قرآن کے درست ہونے کی گواہی تو خود اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے دی تھی اسی لیے دوسروں کو بھی حکم دیا کہ قرآن پڑھنا ہے تو عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے پڑھو۔ ظاہری با ت ہے، سب صحابہ عربی جانتے تھے، ان کی مادری زبان تھی، اس لیے قرآن پڑھنے سے مراد عربی الفاظ سیکھنا نہیں ہے بلکہ اس کے معانی اور تفسیر سیکھنا ہے۔ آپ نے گارنٹی مانگی تھی عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی تفسیر کے درست ہونے کی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی گارنٹی سے بڑھ کر کون سی گارنٹی چاہیے؟ اس جلیل القدر صحابی کی تفسیر کو یہ کہہ کر رد کر دینا کہ میری اور ان کی تفسیر برابر ہے کس قدر ظلم ہے۔ آپ خود سوچیں۔
 
متن، تعداد ، ترتیب ، خلاف قرآن روایات ہی وہ ثبوت ہے کہ یہ کتب روایات قابل اعتماد نہیں۔
ماشاء اللہ بہت منطقی ثبوت ہے ، پھر عرض کروں گا ہزاروں سال سے امت کے ائمہ اور علماء محدیثن و فقہا جھک مارتے ہی چلے آ رہے ہیں ، اور اب نصف لگ بھگ نصف صدی سے مستشرقین سے متاثر ، یا ان کے بنائے ہوئے ایسے """ دانشور""" پیدا ہو گئے جنہیں یہ سمجھ آیا کہ ان کے علاوہ ساری امت اب تک ناقابل اعتماد روایات کی بنا پر اپنا عقیدہ ، عبادات ، اور احکام شریعت اپنائے ہوئے ہیں ،
((( و مثلھم کمثل الذی استوقد ناراً فلما أضأت ماحولہ ذھب اللہ بنورھم و ترکھم فی ظلمات لا یُبصرون ::: اور ان کی مثال اس شخص کے جیسی ہے جو آگ جلاتا ہے اور جب وہ آگ اس شخص کے ارد کرد روشنی کرتی ہے تو اللہ ان (کی آنکھوں ) کا نور لے جاتا ہے اور انہیں اندھیروں میں چھوڑ دیتا ہے (جہاں ) وہ دیکھ نہیں سکتے ))) سورت البقرۃ ،
 
غیر قرانی یا غیر القرآن کے لئے رسول اکرم کا کیا حکم ہے۔ مع ریفرنس، ترجمہ آپ فرما دیجئے۔
http://hadith.al-islam.com/Display/D...Doc=1&Rec=6851
[arabic]‏حدثنا ‏ ‏هداب بن خالد الأزدي ‏ ‏حدثنا ‏ ‏همام ‏ ‏عن ‏ ‏زيد بن أسلم ‏ ‏عن ‏ ‏عطاء بن يسار ‏ ‏عن ‏ ‏أبي سعيد الخدري ‏
‏أن رسول الله ‏ ‏صلى الله عليه وسلم ‏ ‏قال ‏ ‏لا تكتبوا عني ومن كتب عني غير القرآن فليمحه وحدثوا عني ولا حرج ومن كذب علي ‏ ‏قال ‏ ‏همام ‏ ‏أحسبه قال متعمدا ‏ ‏فليتبوأ ‏ ‏مقعده من النار ‏[/arabic]
فاروق بھائی ، ریفرنس بھی ساتھ ہی نقل کر دیا کیجیے ، ادھر ادھر جانے سے پڑہنے والے کا تسلسل خراب ہو جاتا ہے ،
پہلے تو آپ کے حکم کی تعمیل میں اس مندرجہ بالا حدیث کا ترجمہ کرتا ہوں ان شاء اللہ ، سند کا نہیں ،
((( میری طرف سے (کہی گئی بات ) مت لکھا کرو ، اور جس نے میری طرف سے قران کے علاوہ (کہی گئی بات ) لکھی ہو وہ اسے مٹا دے ، اور کوئی حرج نہیں کہ میری طرف سے (کہی گئی بات آگے ) کرو ، اور جس نے میرے بارے میں جھوٹ بولا ، ھمام سند میں ایک روای کا کہنا ہے کہ میرا خیال ہے کہ (زید ابن اسلم) نے کہا ، جان بوجھ کر (جھوٹ بولا ) تو وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بناتا ہے ))) صحیح مسلم ، کتاب الزھد و الرقاق ، باب التثبت فی الحدیث و کتابۃ العلم ،
غالبا یہ حدیث آپ نے یہ ثابت کرنے کے لیے لکھا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے حدیث لکھنے سے منع فرمایا ، پھر احادیث کیوں لکھی گئیں ، اس کا جواب ابھی حاضر کرتا ہوں ، ان شا اللہ ، لیکن اس سے پہلے ، یہ تو بتایے ، کہ یہ بھی تو ایک روایت ہے ، کونسی کسوٹی پر پرکھ کر آپ نے اسے اپنے لیے حجت بنایا ہے ؟؟؟ قران میں سے کونسی آیت اس ممانعت کی دلیل ہے ؟؟؟ معاذ اللہ ، آپ کے بیان کردہ مندرجہ بالا فلسفے کی روشنی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم قران سے باہر چلے گئے ؟؟؟
فاروق بھائی ، آپ کی پیش کردہ یہ حدیث ہمیں تو بالکل قبول ہے کیونکہ صحیح حدیث کی تمام شرائط کے مطابق ہے ، اب آئیے اس کے جواب کی طرف ، ، ،
آپ جانتے ہی ہوں گے ، جس طرح قران میں ناسخ و منسوخ ہیں اسی طرح سنت میں بھی ناسخ و منسوخ ہیں ،
حدثنا محمد بن كَثِيرٍ أخبرنا سُفْيَانُ عن الْأَعْمَشِ عن إبراهيم التَّيْمِيِّ عن أبيه عن عَلِيٍّ رضي الله عنه قال ما كَتَبْنَا عن النبي صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم إلا الْقُرْآنَ وما في هذه الصَّحِيفَةِ قال النبي e الْمَدِينَةُ حَرَامٌ ما بين عَائِرٍ إلى كَذَا فَمَنْ أَحْدَثَ حَدَثًا أو آوَى مُحْدِثًا فَعَلَيْهِ لَعْنَةُ اللَّهِ وَالْمَلَائِكَةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ لَا يُقْبَلُ منه عَدْلٌ ولا صَرْفٌ وَذِمَّةُ الْمُسْلِمِينَ وَاحِدَةٌ يَسْعَى بها أَدْنَاهُمْ فَمَنْ أَخْفَرَ مُسْلِمًا فَعَلَيْهِ لَعْنَةُ اللَّهِ وَالْمَلَائِكَةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ لَا يُقْبَلُ منه صَرْفٌ ولا عَدْلٌ وَمَنْ والي قَوْمًا بِغَيْرِ إِذْنِ مَوَالِيهِ فَعَلَيْهِ لَعْنَةُ اللَّهِ وَالْمَلَائِكَةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ لَا يُقْبَلُ منه صَرْفٌ ولا عَدْلٌ
صحیح البخاری ، ابواب جزیۃ و الموادعۃ ، باب 17 بَاب إِثْمِ من عَاهَدَ ثُمَّ غَدَرَ وقوله الَّذِينَ عَاهَدْتَ منهم ثُمَّ يَنْقُضُونَ عَهْدَهُمْ في كل مَرَّةٍ وَهُمْ لَا يَتَّقُونَ ، سنن ابی داود ، کتاب المناسک، باب 97 بَاب في تَحْرِيمِ الْمَدِينَةِ
علی رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے ((( ہم نے نبی صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی طرف سے ( کہی گئی ) کوئی بات نہیں لکھی سوائے قران کے اور جو کچھ اس صحیفہ میں ہے ))) اور فرمایا ((( نبی صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے فرمایا ،، اور پھر اس صحیفہ میں جو کچھ لکھا ہواتھا اسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قول کے طور پر پڑھ کر سنایا )))
کیا خیال ہے معاذ اللہ علی رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے حکم کی نافرمانی کی یا انہیں وہ سمجھ نہیں آئی ، اور جمع کے صیغے میں ہم استعمال کیا ہے ، یعنی ان کے علاوہ اور بھی حدیث لکھا کرتے تھے
مزید دیکھیے ،
حدثنا مُسَدَّدٌ وأبو بَكْرِ بن أبي شَيْبَةَ قالا ثنا يحيى عن عُبَيْدِ اللَّهِ بن الْأَخْنَسِ عن الْوَلِيدِ بن عبد اللَّهِ بن أبي مُغِيثٍ عن يُوسُفَ بن مَاهَكَ عن عبد اللَّهِ بن عَمْرٍو قال كنت أَكْتُبُ كُلَّ شَيْءٍ أَسْمَعُهُ من رسول اللَّهِ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم أُرِيدُ حفظة فَنَهَتْنِي قُرَيْشٌ وَقَالُوا أَتَكْتُبُ كُلَّ شَيْءٍ تَسْمَعُهُ وَرَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم بَشَرٌ يَتَكَلَّمُ في الْغَضَبِ وَالرِّضَا فَأَمْسَكْتُ عن الْكِتَابِ فَذَكَرْتُ ذلك لِرَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم ((( فَأَوْمَأَ بِأُصْبُعِهِ إلى فيه ))) فقال ((( أكتب فَوَالَّذِي نَفْسِي بيده ما يَخْرُجُ منه إلا حَقٌّ )))
عبداللہ ابن عَمرو رضی اللہ عنہما کا کہنا ہے """ میں جو کچھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم سے سنتا لکھ لیا کرتا کیونکہ میں اسے محفوظ رکھنا چاہتا تھا ، قریش نے مجھے منع کیا اور کہا تم جو جچھ سنتے ہو لکھ لیتے ہو اور رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم انسان ہیں غصے اور راضی دونوں حالت میں بات کرتے ہیں ، تو (یہ سن کر ) مین نے لکھنا بند کردیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم سے اس بات کا ذکر کیا ، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے ((( اپنی انگلی مبارک سے اپنے منہ مبارک کی طرف اشارہ فرماتے ہوئے ))) ارشاد فرمایا ((( لکھو ، اس کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اس (یعنی منہ مبارک ) میں سے سوائے حق کے اور کچھ نہیں نکلتا ))) سنن ابی داود ، کتاب الأقضیۃ ، ۲۰ اول کتاب العلم ، باب۳ بَاب في كِتَابِ الْعِلْمِ ، المستدرک الحاکم ، حدیث ۳۵۹ ، و سنن الدارمی باب 43 بَاب من رخص فی کتابۃ العلم ،
لیجیے فاروق بھائی ، ممانعت کے بعد اجازت دے دی گئی تھی ، ہمارے لیے یہ حدیث بھی بالکل قابل قبول ہے کیونکہ صحیح ہے ، اور اگر آپ کو قبول نہ ہو تو اسی کسوٹی پر پرکھیے گا جس پر آپ نے ممانعت والی حدیث کو پرکھ کر قبول کیا تھا !!!
یہ صرف احادیث صرف مثال کے طور پر پیش کی ہیں ، ورنہ بہت سے صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کے بارے میں یہ ثابت ہے کہ وہ احادیث لکھا کرتے تھے ، اور ان کی لکھی ہوئی احادیث کے صحیفے اور اوراق بعد والوں تک بھی پہنچے ،
 

خرم

محفلین
عبداللہ بھائی نعوذ باللہ حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ کی شان میں کمی مقصود نہیں صرف یہ بیان کرنا مقصود ہے کہ مختلف معاملات میں صحابہ کرام کے درمیان بھی علمی اختلاف رائے موجود رہا ہے۔
صرف ایک مثال عرض کروں گا کہ سورہ نجم کی تفسیر میں اصحاب عبداللہ ابن مسعود اور عبداللہ ابن عباس رضوان اللہ علیہم اجمعین کے درمیان انتہائی اختلاف ہے۔ سو یہ کہیں پر بھی تاثر نہیں دیا جانا چاہئے کہ اصحاب کا مؤقف ہر بات میں ایک سا تھا۔ سرچشمہ رشد و ہدایت رسولی صل اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ہر صحابی نے اپنی اپنی استعداد کے مطابق فیض اٹھایا ہے اور ہر کسی کا مقام اس کی استعداد کے مطابق فرق ہے لیکن اصحاب کے خلوص نیت کے بارے میں شک کرنا کم از کم قریب از کفر ہے۔ اور اگر کسی صحابی نے یہ نہیں فرمایا کہ نبی پاک صل اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایسا فرمایا تھا تو ان کے ذاتی اجتہاد کو سنت پر محمول کرنا ان صحابی پر بہتان تراشی ہے۔ ہاں اپنی ذاتی رائے ایک صحابی کی رائے سے مرتب کرنا مجھ احقر کے نزدیک انتہائی احسن ہے لیکن ضروری ہے کہ اسے متابعت صحابہ کی حیثیت سے ہی سمجھا جائے ناکہ حدیث یا سنت قرار دے دیا جائے۔
واللہ اعلم
 
فتاوی کے معنی عنایت فرمائیے تو آگے بڑھتے ہیں۔ یہ مفتی کیوں بنائے جاتے ہیں؟ مفتی فتوی کیوں دیتے ہیں ذرا روشنی ڈالئے۔ پھر اس پر بات کرتے ہیں۔
دوبارہ ---- فتاوی یا افتاء کے معنی عنایت فرمائیے تو آگے بڑھتے ہیں۔ یہ مفتی کیوں بنائے جاتے ہیں؟ مفتی فتوی کیوں دیتے ہیں ذرا روشنی ڈالئے۔ پھر اس پر بات کرتے ہیں۔
فتاویٰ ، فتویٰ کی جمع ہے اور فتویٰ ، کسی سوال کے جواب کو کہا جاتا ہے ، جی ہاں ، دینی دُنیاوی کسی بھی سوال کے جواب کو ، اور اِفتاء فتویٰ کا ہم معنی ہے ،
اور استفتاء ، فتویٰ طلب کرنے کو یعنی سوال کرنے کو ، اور ، مستفتی ، فتویٰ طلب کرنے والے کو ، اور ، مفتی فتویٰ دینے والے کو ، یہ تو ہیں لغوی معنیٰ ،
اب اگر آپ یہ پوچھیں کہ فتویٰ کو بھی جواب ہی کیوں نہیں کہا جاتا ، جبکہ جواب بھی عربی الفاظ ہیں ، تو اس کا جواب یہ ہے کہ جواب کسی بھی قسم کے جواب کو کہا جاتا ہے ، جبکہ فتویٰ کسی دلیل کی بنا پر حتمی جواب کو کہا جاتا ہے ،
اسلامی اصطلاحات میں ، فتویٰ ، دِین کے کسی معاملے کا حکم ، کسی مسئلے کا حل ہوتا ہے ،
مفتی اس لیے بنائے جاتے ہیں کہ وہ لوگوں کو یہ احکام اور مسائل بتائیں ، اور یہ کام ہر کس و ناکس کو نہیں سونپا جاتا بلکہ جو دینی علوم میں سے اتنے علم سیکھ چکا ہو کہ وہ کسی دینی دلیل کی بنا پر فتویٰ دینے کا اہل ہو ، اسے مفتیٰ بنایا جاتا ہے ، اور اسی لیےوہ فتویٰ دیتے ہیں ، دیکھ لیجیے دینی مدارس میں سے کتنے طلاب علم فارغ التحصیل ہو کر نکلتے ہیں ، اور ان میں سے مفتی کے درجے تک کتنے ہوتے ہیں ،
فتویٰ دینا شریعت سازی نہیں ، پہلے کافی کچھ عرض کر چکا ہوں لیکن ،،،،،،،،،،آپ نے اس موضوع پر بات کرنے کا فرمایا ہے تو میں آپ کی بات کا انتظار کروں گا ، ان شاء اللہ ،
فاروق بھائی ، کیا خیال شریعت اور شریعت سازی کے موضوع کو ایک الگ دھاگے پر نہ لے چلیں، یہاں بات کافی گڈ مڈ ہوتی جا رہی ہے ،
فاروق بھائی اس دفعہ میں نے بات بات کا جواب الگ الگ مراسلے کی شکل میں اس لیے دیا ہے کہ سب پڑہنے والوں کے لیے آسانی رہے ، لمبے لمبے جوابات میں سے اکثر حصے قارئین کی توجہ سے دور رہتے ہیں ، و السلام علیکم۔
 

قسیم حیدر

محفلین
میں نے پوسٹ‌ نمبر 95 میں لکھا تھا:
میں اس گفتگو میں مخل نہیں ہونا چاہتا تھا، لیکن فاروق صاحب کے بعض جملے ایسے ہوتے ہیں جن پر رہا نہیں جاتا۔ قرآن اور حدیث کو اگر صحابہ کے فہم پر نہیں سمجھا جائے گا تو کس کے فہم پر سمجھا جائے؟ جنہیں خود رسول نے قرآن سکھایا اور سمجھایا وہ ابھی اگر اس قابل نہیں تو کیا غلام احمد پرویز کے فہم پر قرآن سمجھا جائے جو ساری عمر انگریز کی چاکری کرتا رہا اور جاتے ہوئے امت کو انکار حدیث کا فتنہ دے گیا
ا س کا جواب دیکھیے جو پوسٹ نمبر 99 میں دیا گیا ہے
قسیم حیدر صاحب فرماتے ہیں کہ یہ میں نے کہا ہے کہ قران پر غور کرو اندھے ہو کر مت گرو۔
سولنگی بھائی کا مراسلہ پوسٹ 97 میں ہے۔ اس کے جواب میں فاروق صاحب کہتے ہیں:
بھائی ظہور احمد سولنگی لکھتے ہیں ہیں کہ قران پر غور فکر کرنا، اللہ کا حکم نہیں ہے، جو بھی اللہ کی کتاب پر غور و فکر کرتا ہے ، تو یہ پرویزیت ہے۔
معاف کرنا صاحب! دوسروں کو آپ اسرائیلیات کی پیدوار کہتے ہیں اور اپنے اندر یہودی عادات لیے پھر رہے ہیں کہ جو بات کسی نے نہیں کہی وہ اسے کے ذمے لگا دو۔ ضوء القراں میں حدیث پرکھنے تو نکلے ہیں کبھی اپنی پوسٹس بھی قرآن کی روشنی میں دیکھ لیا کیجیے:
یحرفون الکلم عن مواضعہ "المائدۃ:
"یہودی بات کو اس کی جگہ سے ہٹاتے ہیں"
و من یکسب خطیئۃ او اثما ثم یرم بہ بریئا فقد احتمل بھتانا و اثما مبینا "النساء"
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top