پوسٹ نمبر 115 دیکھیے۔ اس میں میری کچھ گزارشات موجود ہیں۔
آپ نے میرے دو سطری سوال کے جواب میں بڑی لمبی تحریر لکھی ہے لیکن اس میں میرے سوال کا کوئی جواب مذکور ہی نہیں۔ اس لیے سادہ الفاظ میں اپنا سوال دوبارہ عرض کرتا ہوں شاید میں اسے صحیح طرح بیان نہیں کر پا رہا ۔
سوال نمبر 1۔ نبی صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کو صرف الفاظ وحی کیے گئے تھے یا ان کے معنی بھی اللہ کی طرف سے سمجھائے گئے؟
سوال نمبر2: نبی صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے صحابہ کو قرآن کے الفاظ سکھائے تھے یا ان کے الہامی معنی بھی بتائے تھے؟
یہ دونوں سوال قرآن کریم کی دو آیات پڑھ کر میرے ذہن میںآئے ہیں۔ تکرار سے بچنے کے لیے پوسٹ نمبر 115
آپ کی پوسٹنمبر 115 بیانیہ تھی۔ سوالیہ کوئی بات نہیں۔ اس میں کوئی بھی نئی بات نہیں جو مسلمانوں کو نہیں معلوم۔ آپ کے اس بیان پر کوئی اعتراض بھی نہیں کیا۔
صاحب آپ نے بجا فرمایا کہ
1۔ اللہ تعالی نے رسول صلعم کو قرآن کے الفاظ وحی کیا اور بیان کیا یعنی سمجھایا بھی
2۔ نبی کریم نے قرآن کے الفاظ صحابہ کو سکھائے اور اس کے معانی بھی بتائے۔
ذہن میں رکھئے کہ قرآن اور اس کے معانی بتائے۔ غیر القرآن اور اس کے معانی نہیں سمجھائے۔
اب آتے ہیںآپ کے اس بیان سے کئے جانے والے آپ کے استدلال پر۔ آپ کیا یہ استدلال کرنا چاہتے ہیں کہ اب اگر ان اصحابہ کرام سے کچھ بھی غیر قرآنی منسوب کیا جائے تو وہ صرف اس لئے قابل قبول ہے کہ یہ ان اصحابہ کرام سے منسوب ہے۔
اجازت دیجئے کہ میں اپنے سوچنے کے اندازکو واضحکروں ۔
1۔ میں قرآن کو، قران کے اپنے الفاظ میں، مفصل اور مکمل یقین کرتا ہوں۔ لہذا جو کتاب مکمل ہو اور مفصلل ہو وہ اپنے الفاظ کے معانی خود بیان کرتی ہے۔
2، ہر روایت کو آپ ضوء القرآن میں دیکھیں گے تاکہ صحیح سنت یعنی مستند سنت واضح ہو کر سامنے آئے۔ بیشتر، جی! زیادہ تر روایات میں مستند سنت موجود ہے۔
3۔ قرآن یقینی طور پر رسول اکرم نے صحابہ کو سمجھایا۔ لیکن خلاف قرآن اور غیر القرآن ( قران سے باہر) نہیںسمجھایا۔ لہذا صحابہ سے منسوب وہ روایات جو خلاف قرآن اور غیر القرآن ہوں ان کو ضوء القرآن یعنی قرآن کی آیات کی روشنی میںپرکھنا بہتر ہے۔
اب آئیے اس لفظ کی طرف جو میرے بھائی یہاں زیر بحث ہے۔ لَھْوَ الْحَدِيثِ - اس کی تعریف بھائی عادل سہیل کے الفاظ میں عبد اللہ ابن مسعود نے "غناء " کی ہے۔ لَھْوَ الْحَدِيثِ کا استعمال قرآن میںدیکھئے۔
[ayah]6:32[/ayah] [arabic] وَمَا الْحَيَاةُ الدُّنْيَا إِلاَّ
لَعِبٌ وَلَهْوٌ وَلَلدَّارُ الْآخِرَةُ خَيْرٌ لِّلَّذِينَ يَتَّقُونَ أَفَلاَ تَعْقِلُونَ [/arabic]
اور دنیوی زندگی (کی عیش و عشرت)
کھیل اور تماشے کے سوا کچھ نہیں، اور یقیناً آخرت کا گھر ہی ان لوگوں کے لئے بہتر ہے جو تقویٰ اختیار کرتے ہیں، کیا تم (یہ حقیقت) نہیں سمجھتے
[ayah]47:36 [/ayah] [arabic]إِنَّمَا الْحَيَاةُ الدُّنْيَا لَعِبٌ
وَلَهْوٌ وَإِن تُؤْمِنُوا وَتَتَّقُوا يُؤْتِكُمْ أُجُورَكُمْ وَلَا يَسْأَلْكُمْ أَمْوَالَكُمْ [/arabic]
بس دنیا کی زندگی تو محض کھیل اور
تماشا ہے، اور اگر تم ایمان لے آؤ اور تقوٰی اختیار کرو تو وہ تمہیں تمہارے (اعمال پر کامل) ثواب عطا فرمائے گا اور تم سے تمہارے مال طلب نہیں کرے گا
[ayah]57:20[/ayah] [arabic]اعْلَمُوا أَنَّمَا الْحَيَاةُ الدُّنْيَا لَعِبٌ
وَلَهْوٌ وَزِينَةٌ وَتَفَاخُرٌ بَيْنَكُمْ وَتَكَاثُرٌ فِي الْأَمْوَالِ وَالْأَوْلَادِ كَمَثَلِ غَيْثٍ أَعْجَبَ الْكُفَّارَ نَبَاتُهُ ثُمَّ يَهِيجُ فَتَرَاهُ مُصْفَرًّا ثُمَّ يَكُونُ حُطَامًا وَفِي الْآخِرَةِ عَذَابٌ شَدِيدٌ وَمَغْفِرَةٌ مِّنَ اللَّهِ وَرِضْوَانٌ وَمَا الْحَيَاةُ الدُّنْيَا إِلَّا مَتَاعُ الْغُرُورِ [/arabic]
جان لو کہ دنیا کی زندگی محض کھیل اور
تماشا ہے اور ظاہری آرائش ہے اور آپس میں فخر اور خود ستائی ہے اور ایک دوسرے پر مال و اولاد میں زیادتی کی طلب ہے، اس کی مثال بارش کی سی ہے کہ جس کی پیداوار کسانوں کو بھلی لگتی ہے پھر وہ خشک ہو جاتی ہے پھر تم اسے پک کر زرد ہوتا دیکھتے ہو پھر وہ ریزہ ریزہ ہو جاتی ہے، اور آخرت میں (نافرمانوں کے لئے) سخت عذاب ہے اور (فرمانبرداروں کے لئے) اللہ کی جانب سے مغفرت اور عظیم خوشنودی ہے، اور دنیا کی زندگی دھوکے کی پونجی کے سوا کچھ نہیں ہے
آپ ان میں سے کسی بھی آیت پر کلک کیجئے اور دیکھئے کہ لھو الحدیث کو کس طور پھیلا کر غناءبنایا جارہا ہے۔ یا تو قران میں اس لفظ کا استعمال غلط ہے یا پھر ان صحابی سے یہ بات کسی نے اپنی ذاتی خواہشات کی تکمیل کے لئے منسوب کی ہے۔
اس دنیاوی زندگی کو کھیل اور تماشا قرار دیتے ہوئے اللہ تعالی نے اس کو کھیل( لعب ) اور لھو (تماشہ) کے معنوں میں رکھا ہے۔ اب یا تو اللہ تعالی کا اس لفظ کا تماشہ کے معنوںمیں استعمال کرنا درست ہے یا پھر جن صاحب نے ایک جلیل القدر صحابی سے منسوب کرکے اس کے معنی گانا رکھے ہیں وہ درست ہیں۔ لگتا یہ ہے کہ کسی شخص نے ان صحابی سے یہ بات کسی نے اپنی ذاتی خواہشات کی تکمیل کے لئے منسوب کی ہے۔
[ayah]31:6[/ayah] [arabic]وَمِنَ النَّاسِ مَن يَشْتَرِي لَهْوَ الْحَدِيثِ لِيُضِلَّ عَن سَبِيلِ اللَّهِ بِغَيْرِ عِلْمٍ وَيَتَّخِذَهَا هُزُوًا أُولَئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ مُّهِينٌ [/arabic]
اور لوگوں میں سے کچھ ایسے بھی ہیں جو بیہودہ کلام خریدتے ہیں تاکہ بغیر سوجھ بوجھ کے لوگوں کو اﷲ کی راہ سے بھٹکا دیں اور اس (راہ) کا مذاق اڑائیں، ان ہی لوگوں کے لئے رسوا کن عذاب ہے
یہ آیت اس بے کار و بے معنی کلام کے بارے میں ہے جو اللہ کی راہ سے ہٹا دے، اللہ کی راہ کا تعین قرآن حکیم اللہ کے الفاظ کرتے ہیں اور اس سے بھٹکانے والی کتب بہت ہی واضح ہیں جو غیر القرآن اور خلاف القران پر یقین رکھنے کا کہتی ہیں۔ دعا یہ ہے کہ ہم سب قرآن کی طرف آئیں اور غیر القران اور خلاف القرآن روایات کو رسول اکرم کی ہدایت کے مطابق تلف کردیں۔
ا
یسا کیوں؟ اس لئے کہ وہ روایات موجود ہیں جن میں غناء کو رسول اکرم نے سنا۔ دوست نے اس پر بہت محنت سے معلومات فراہم کیں۔
اگر غناء کے بارے میں قرآن میں نہیں ہے تو پھر کیا کیا جائے؟ خومخواہ کے سوالات سے گریز کیا جائے۔ اور اپنی صوابدید پر فیصلہ کیا جائے۔ یہ فیصلہ ذاتی نہیں بلکہ اجتماعی ہوگا۔ دیکھئے۔
[ayah]5:101 [/ayah] اے ایمان والو! تم ایسی چیزوں کی نسبت سوال مت کیا کرو (جن پر قرآن خاموش ہو) کہ اگر وہ تمہارے لئے ظاہر کر دی جائیں تو تمہیں مشقت میں ڈال دیں (اور تمہیں بری لگیں)، اور اگر تم ان کے بارے میں اس وقت سوال کرو گے جبکہ قرآن نازل کیا جا رہا ہے تو وہ تم پر (نزولِ حکم کے ذریعے ظاہر (یعنی متعیّن) کر دی جائیں گی (جس سے تمہاری صواب دید ختم ہو جائے گی اور تم ایک ہی حکم کے پابند ہو جاؤ گے)۔ اللہ نے ان (باتوں اور سوالوں) سے (اب تک) درگزر فرمایا ہے، اور اللہ بڑا بخشنے والا بردبار ہے
آپ کو جو معانی اچھے لگیں وہ دیکھئے۔ نغمہ یا غناء کے بارے میں خالق حقیقی کا کوئی واضح حکم نہیں ہے۔ یہ بات اس قدر مشکل کیوںلگتی ہے صاحب؟