]::::: اسلام میں موسیقی اور گانے ::::: پہلا حصہ ::: شرعی حیثیت :::::

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

خرم

محفلین
برادر محترم۔ آپ کی ساری باتیں سر آنکھوں پر۔ لیکن اگر آپ اصولِ تفسیر سے متعلق کتب کا مطالعہ فرمائیں تو آپ کو صاف نظر آئے گا کہ صحابہ کرام کی مختلف تفسیر کا مطلب "اختلاف" یا "تضاد" نہیں بلکہ "تنوع" ہے۔ یہ بات میں شائد اس سے پہلے بھی آپ سے کہہ چکا ہوں۔
میں اپنی بات کے حوالے میں امام ابن تیمیہ کا قول پیش کر رہا ہوں ، ملاحظہ فرمائیں :
[arabic]الخلاف بين السلف فى التفسير قليل وخلافهم فى الأحكام أكثر من خلافهم فى التفسير وغالب ما يصح عنهم من الخلاف يرجع الى اختلاف تنوع لا اختلاف تضاد[/arabic]
سلف کے مابین تفسیر میں اختلاف کم ہوا ہے۔ احکام میں تفسیر سے زیادہ اختلاف صحیح طور پر ان (صحابہ) سے جو مروی ہے وہ تنوع کا ہے نہ کہ تضاد کا۔
[arabic]مقدمة في أصول التفسير ، شيخ الاسلام بن ت۔يم۔ي۔ة ، ص:2[/arabic]

"تضاد" اور "تنوع" میں فرق کرنے کی ایک آسان سی مثال دینا چاہوں گا۔
اگر آپ لاہور کا سفر کر آئیں اور آپ کا ایک دوست (الف) مجھ سے کہے کہ خرم صاحب لاہور کے سفر سے حال میں‌ لوٹے ہیں۔ اور آپ کا کوئی دوسرا دوست (ب) بتائے کہ خرم صاحب پنجاب کے طویل سفر سے آج واپس لوٹ آئے ہیں۔
بتائیے کہ آپ کے دونوں دوستوں الف اور ب کی باتوں میں "تضاد" بیان کیا جا سکتا ہے؟؟
لاہور تو خود پنجاب میں‌ شامل ہے۔ "ب" نے اگر عمومی طور پر صوبے کا حوالہ دیا تھا تو "الف" نے خصوصی طور پر شہر کا نام لیا۔
ہاں اگر "ب" کہہ دے کہ خرم صاحب پنجاب ضرور گئے تھے لیکن لاہور نہیں گئے تو ۔۔۔ تب کہا جا سکتا ہے کہ "الف" اور "ب" کی باتوں میں تضاد ہے !!

یہی مثال " لھو الحدیث " کے معنی کی ہے۔ بیشتر صحابہ (بشمول عبداللہ بن مسعود اور عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم) نے اس کے معنی "غنا" کے لئے ہیں تو شائد ایک دو صحابہ نے "بےکار باتیں" بھی مراد لی ہیں۔ لیکن کسی ایک بھی صحابی یا تابعی یا تبع تابعی یا ائمہ اربعہ سے یہ منقول نہیں ہے کہ : "غنا" بےکار باتوں میں‌ شامل نہیں ہے !
اگر " لھو الحدیث " کی تفسیر میں صحابہ کرام کے تضاد کو ثابت کرنا ہو تو لازم ہے کہ کسی صحابی کا کوئی ایسا قول پیش کیا جائے جس میں وہ واضح‌ طور پر کہتے ہوں کہ : غنا ، " لھو الحدیث " میں شامل نہیں ہے !
بصورت دیگر اس کو تنوع ہی مانا جائے گا اور یہی یقین رکھا جائے گا کہ : غنا کے "لھو الحدیث" ہونے پر صحابہ کا اجماع رہا ہے۔

نبی کے علاوہ کوئی فرد بےشک "معصوم" نہیں ہو سکتا لیکن "اجماع" ضرور خطا سے پاک ہے کیونکہ وہ مشہور حدیث تو غالباَ سب کے علم میں ہوگی کہ : میری امت گمراہی پر مجتمع نہیں ہو سکتی !
کسی صحابی سے خطا کا سرزد ہونا ممکن ہے لیکن سارے صحابہ سے مشترکہ طور پر "غلطی" کا صدور مشکل ہی نہیں ناممکن ہے !!
اگر ہم یہ اصول ذہن نشین کر لیں تو ان شاءاللہ صحابہ کرام کی ذات پر "ذاتی استدلال" جیسے فقرے چست کرنے سے بچ جائیں گے۔
بہت شکریہ بھیا۔ جس اختلاف کی بابت میں نے اشارہ کیا تھا وہ تنوع کی مد میں نہیں بعد المشرقین کی مد میں آتا ہے۔ مزید بات اس لئے آگے نہیں بڑھاؤں گا کہ اس سے بات مقصد سے ہٹ جائے گی۔ سورۃ النجم کا حوالہ ہی کافی رہے گا۔ باقی جہاں تک اصحاب سے اجتماعی طور پر غلطی کے صدور کی بات ہے یقیناًَ آپ کی اس بات سے اختلاف نہیں کیا جاسکتا لیکن اختلاف رائے جو اصحاب کے دور میں بھی موجود تھا اس کا انکار تاریخ کا انکار ہوگا۔
 
میں نے پوسٹ‌ نمبر 95 میں لکھا تھا:
میں اس گفتگو میں مخل نہیں ہونا چاہتا تھا، لیکن فاروق صاحب کے بعض جملے ایسے ہوتے ہیں جن پر رہا نہیں جاتا۔ قرآن اور حدیث کو اگر صحابہ کے فہم پر نہیں سمجھا جائے گا تو کس کے فہم پر سمجھا جائے؟ جنہیں خود رسول نے قرآن سکھایا اور سمجھایا وہ ابھی اگر اس قابل نہیں تو کیا غلام احمد پرویز کے فہم پر قرآن سمجھا جائے جو ساری عمر انگریز کی چاکری کرتا رہا اور جاتے ہوئے امت کو انکار حدیث کا فتنہ دے گیا
ا س کا جواب دیکھیے جو پوسٹ نمبر 99 میں دیا گیا ہے
قسیم حیدر صاحب فرماتے ہیں کہ یہ میں نے کہا ہے کہ قران پر غور کرو اندھے ہو کر مت گرو۔
سولنگی بھائی کا مراسلہ پوسٹ 97 میں ہے۔ اس کے جواب میں فاروق صاحب کہتے ہیں:
بھائی ظہور احمد سولنگی لکھتے ہیں ہیں کہ قران پر غور فکر کرنا، اللہ کا حکم نہیں ہے، جو بھی اللہ کی کتاب پر غور و فکر کرتا ہے ، تو یہ پرویزیت ہے۔
معاف کرنا صاحب! دوسروں کو آپ اسرائیلیات کی پیدوار کہتے ہیں اور اپنے اندر یہودی عادات لیے پھر رہے ہیں کہ جو بات کسی نے نہیں کہی وہ اسے کے ذمے لگا دو۔ ضوء القراں میں حدیث پرکھنے تو نکلے ہیں کبھی اپنی پوسٹس بھی قرآن کی روشنی میں دیکھ لیا کیجیے:
یحرفون الکلم عن مواضعہ "المائدۃ:
"یہودی بات کو اس کی جگہ سے ہٹاتے ہیں"
و من یکسب خطیئۃ او اثما ثم یرم بہ بریئا فقد احتمل بھتانا و اثما مبینا "النساء"
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ ، جزاک اللہ خیرا جزاء ،
قسیم بھائی ، فاروق بھائی شاید اپنی استطاعت سے زیادہ بحث شروع کر لیتے ہیں اور جو کچھ پڑھ سن رکھا ہے دوسرے کے جواب کے باوجود وہی کچھ دہرائے جاتے ہیں ، ، اور دوسرے کی بات کا جواب نہیں دیتے ، میں سمجھ رہا تھا کہ شاید لا علمی اور کمی حجت کی بنا پر کنی کتراتے ہیں لیکن پتہ چلا کہ انہیں ٹھیک سے یاد ہی نہیں رہتا کہ کہا کہاں تھا ! میرے ساتھ بھی ایسا کر چکے ہیں ، اور اپنے ہی مراسلات میں بھی ، ایک دفعہ کچھ لکھا ہوتا ہے اور اگلی دفعہ کچھ اور ، و السلام علیکم ،
 
السلام علیکم
اس روایت کی اسناد پر آپ کے جتنے بھی اعتراضات ہیں ، ان کے سارے جواب آپ کو ذیل کے ربط پر مل جائیں گے ان شاءاللہ :
تحريم آلات الطرب ، صفحہ (1/38) سے آگے ۔۔۔

علاوہ ازیں یہ بھی یاد رکھیں کہ ۔۔۔ امام بخاری کے علاوہ اس روایت کو ذیل ائمہ و محدثین نے بھی "صحیح" قرار دیا ہے :
امام ابن حبان ، حافظ اسماعیلی ، حافظ ابن الصلاح ، علامہ نووی ، امام ابن تیمیہ ، حافظ ابن قیم ، حافظ ابن کثیر ، حافظ ابن حجر العسقلانی ، علامہ سخاوی ، علامہ ابن الوزیر صنعانی ، امیر الصنعانی وغیرہم ۔
السلام علیکم و رحمۃُ اللہ و برکاتہ ، جزاک اللہ خیر ، با ذوق بھائی ، آپ نے میرا کام مختصر کر دیا ،
 
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ ، بھائی شمشاد اور بھائی فاروق کی گفتگو کی روشنی میں ، میں اپنے جوابات انتطامیہ کے اگلے فیصلے تک روکے رکھوں گا ، امید ہے کہ جلد ہی فیصلہ کر لیا جائے گا کہ کس موضوع پر کہاں بات کرنا ہے ، ان شاء اللہ ، و السلام علیکم۔
 
سلام مسنون
کچھ برادران نے مجھ پر الزام عائد کیا ہے کہ میں ان کے الفاظ کو بدل رہا ہوں۔ میرا خیال ہے کہ بھائی سولنگی کچھ اور کہنا چاہتے تھے لیکن ان کے پیش کرنے کے انداز پر پر بات میں کچھ اور سمجھا۔ اس کی وضاحت ذیل میں کی ہے۔

جی ہاں فاروق بھائی ، ایک نہیں کئی صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کی طرف سے ، اور واقعی ہی کمال ہے ، میرے بھائی ، اگر ہمیں قران کی کسی آیت یا کسی کلمے کی تفسیر براہ راست رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے قول و فعل میں نہیں ملتی تو ہمیں اپنی عقل یا لغوی تراجم کے بنا پر اس بات کو نہیں سمجھنا بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے شاگردوں ، جن کے تقوے اور ایمان کی سچائی اور پاکیزگی کی گواہی اللہ نے دی ہے ، ان سے سمجھنا ہے ،

میرا جواب، عادل سے سوال ، اس سوال کی وجہ اور ساتھ میں قرآن کا حوالہ - پیغام نمبر 94 میں :
یہ آپ کا نظریہ ہے۔ اس کا قرآنی حوالہ فراہم کیجئے کہ جو رسول اللہ کی سنت نہیں ہے ، اسے پھر اصحابہ سے سمجھا جائے گا۔ اللہ تعالی نے واضح طور پر فرمایا ہے کہ آپ اندھے ہو کر نہ گریں، بلکہ غور کریں ۔ دیکھئے ۔

سورۃ الفرقان:25 , آیت:73 اور وہ لوگ جنہیں اگر نصیحت کی جاتی ہے اپنے رب کی آیات سنا کر تو نہیں گرتے اس پر بہرے اور اندھے بن کر (بلکہ غور سے سُنتے ہیں)۔


اس کے جواب میں بھائی قسیم حیدر کا کمنٹ ، قرآن کی آیت کو انہوں نے ہٹا دیا تاکہ میرے سوال کو بے معنی بنایا جائے اور استدلال میں صحابہ کرام کو اہمیت دی اور یہ تاثر دیا کہ میں غلام احمد پرویز سے پوچھنے کے لئے کہہ رہا ہوں (‌جو کہ شاید طبلہ بجاتے تھے، سولنگی صاحب کے الفاظ میں۔ میں اس آیت کو ہٹانا جس پر میرے سوال کی بنیاد تھی ایک نامناسب عمل قرار دیتا ہوں دیکھئے :

آپ کا نظریہ ہے۔ اس کا قرآنی حوالہ فراہم کیجئے کہ جو رسول اللہ کی سنت نہیں ہے ، اسے پھر اصحابہ سے سمجھا جائے گا۔ اللہ تعالی نے واضح طور پر فرمایا ہے کہ آپ اندھے ہو کر نہ گریں، بلکہ غور کریں ۔ دیکھئے ۔

میں اس گفتگو میں مخل نہیں ہونا چاہتا تھا، لیکن فاروق صاحب کے بعض جملے ایسے ہوتے ہیں جن پر رہا نہیں جاتا۔ قرآن اور حدیث کو اگر صحابہ کے فہم پر نہیں سمجھا جائے گا تو کس کے فہم پر سمجھا جائے؟ جنہیں خود رسول نے قرآن سکھایا اور سمجھایا وہ ابھی اگر اس قابل نہیں تو کیا غلام احمد پرویز کے فہم پر قرآن سمجھا جائے جو ساری عمر انگریز کی چاکری کرتا رہا اور جاتے ہوئے امت کو انکار حدیث کا فتنہ دے گیا۔

ظہور احمد سولنگی صاحب نے اس خیال کو کہ غلام احمد پرویز سے پوچھنا چاہئے تقویت دی، قسیم حیدر صاحب کا اوپری اقتباس پیش کیا اور فرمایا

بھیا میرے ایک استاد ہیں اور ہمیں بزنس مینجمنٹ اور ریسرچ پڑھاتا تھا وہ کسی دور میں ریڈیو پاکستان میں بھی کام کرتا تھا میں نے غلام احمد پرویز کے بارے پوچھا تو کہنے لگا وہ ہمارے ریڈیو پاکستان میں طبلہ بھی بجاتا تھا، کیا مجھے کوئی اس کی تصدیق کرے گا آیا وہ واقعی بھی طبلہ نواز تھے یا یہ صرف پروپیگنڈہ ہے وہ کس سن میں فوت ہوا۔ میرے استاد محترم خود بھی نمل سے قرآن میں پی ایچ ڈی کررہے تھے ان دنوں، میں پرویزی فکر کے بارے میں نہیں پوچھ رہا کیونکہ جانتا ہوں ٹیڑھافکر۔

ظہور احمد سولنگی صاحب آپ دیکھئے: اپنا پیغام http://www.urduweb.org/mehfil/showpost.php?p=318247&postcount=97
آپ اگر صرف وہ کہنا چاہتے تھے جو آپ نے لکھا تو اس اقتباس کی وجہ سے جو آپ نے اپنےپیغام کے ساتھ دیا۔ اس کے معانی یہ ہوئے کہ آپ اس بات پر جو میری اور قسیم حیدر کے درمیان ہورہی تھی اس پر کمنٹ‌کرتے ہوئے یہ واضح کررہے ہیں کہ صاحب قرآن کی آیات پر غور نہیں کرنا ہے بلکہ جو کچھ رسول اکرم نہ بتائیں وہاں صحابہ کرام سے پوچھنا ہے۔ اگر آپ کا مقصد یہ تاثر دینا نہیں تھا تو پھر میں غلط سمجھا۔ لیکن اس ضمن میں میں‌میرے لئے کچھ اور سمجھنا مشکل ہے اور تھا۔ لہذا آپ کی بات کو اسی ضمن میں‌لیا۔

اب آئیے عادل سہیل صاحب کی طرف:
جناب عادل سہیل مصر ہیں کہ ان کے فراہم کی ہوئی آیات کو مکمل کیوں کیا؟ اور ترجمہ کیوں‌تبدیل کیا۔ اس لئے کہ آٰیات و ترجمہ نامکمل تھے اور ترجمہ کس کا اور کہاں‌سے لیا گیا تھا اس کا کوئی حوالہ نہیں تھا۔ یہی وجہ تھی مکمل ترجمہ و آیت فراہم کرنے کی۔ ان کا فراہم کردہ آیات اور ترجمہ موجود ہے۔ مکمل ترجمہ سے یہ بات سامنے آئی تھی کہ سنت کو ماننا ہے۔

ان کے ترجمہ سے اور فراہم کردہ ترجمہ سے کوئی اختلاف نہیں بلکہ یہ اتفاق کیا کہ یہ آیات درست ہیں اور اطاعت رسول ضروری ہے۔
ان کو ان کی پیش کردہ آیت سے بہتر ایک آیت پیش کی اور ان کے ساتھ اتفاق کیا کہ آپ کے ترجمہ یا با حوالہ ترجمہ دونوں سے یہ بات ثابت ہے کہ مستند سنت کو ماننا ہے۔ ان سے یہ سوال کیا گیا کہ بھائی۔ سنت سے ثابت کیجئے کہ رسول اکرم نے موسیقی سے روکا، منع کیا۔


اگر ان کے فراہم کردہ ترجمے اور میرے فراہم کردہ ترجمے میں اختلاف نہیں بلکہ اتفاق ہے تو ان کا اعتراض کیا ہے؟ ان کے فراہم کردہ ترجمے غیر ضروری تھےکیوں کہ اس بات پر تو اختلاف ہی نہیں کہ رسول اللہ کی اطاعت کرنی ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ جس کو یہ صاحب مستند حدیث کہہ رہے ہیں اس کو ان کا اپنا امام البخاری ضعیف کہہ رہا ہے۔

جو روایت انہوں نے پیش کی وہ امام بخاری نے خود ضعیف لکھی ہے کہ پہلا راوی نامعلوم ہے۔ اور اس پہلے راوی کو ابن حجار نے تحقیق کرکے درست کیا اور پہلی سند لگائی تہذیب التہذیب میں ۔ جس کو سکالرز نے تسلیم نہیں کیا۔

2۔ پھر قرآن سے یہ ثابت کیا کہ رسول اکرم مستقبل کا حال صرف ماشاء اللہ کے مطابق جانتے تھے۔ جو اللہ نے بتایا وہی جانتے تھے۔ اب یہ ان پر چھوڑا کہ اس روایت میں موسیقی کو اللہ نے قرآن میں کہاں حرام قرار دیا ہے۔

اس ساری بحث میں عادل سہیل صاحب نے ان نکات پر سے توجہ ہٹانے کے لئے شور مچانا شروع کردیا کہ میرے الفاظ بدل دئے۔ صاحب اگر قرآن کی آیات اور اس کا ترجمہ عادل سہیل صاحب کے الفاظ ہیں تو ہم ان سے بحث نہیں‌کرسکتے ہیں۔ پھر نعوذ باللہ یہی وہ خدا ہیں جن کو یہودی صدیوں سے ڈھونڈھ رہے ہیں۔

باذوق صاحب نے سوال دوست سے کیا تھا کہ اہل الذکر کون ہیں ۔ ان کو جواب دیا کہ اہل الذکر کے بارے میں قرآن کیا کہتا ہے۔ میرا خیال ہے کہ باذوق صاحب کو یہ شکایت نہیں کہ ان کے جملے بدل دئے گئے ہیں؟ لہذا کوئی بحث یہاں نہیں۔

اس ساری بحث میں میں عادل سہیل صاحب کی کہی ہوئی ایک اچھی بات دہراتا ہوں۔
"فاروق بھائی ، """ کتب روایات """ سے کیا آپ کی مراد """ کتب احادیث """ ہے ؟؟؟ یا تاریخ و سیر کی کتابیں بھی آپ اس میں شامل کرتے ہیں ،
جہاں تک معاملہ ہے """ کتب احادیث """ کا تو بھائی کہیں بھی کوئی کسی ساری کی ساری کتاب کو حجت نہیں بناتا بلکہ فردا فردا روایت کو حجت بنایا جاتا ہے" http://www.urduweb.org/mehfil/showpost.php?p=317857&postcount=91


میرا کمنٹ:
کتب روایات میں ہر قسم کی کتب جن میں‌روایات درج ہیں ، میں شامل سمجھتا ہوں، بلا قید۔
ہر روایت کو فرداً فرداً‌ دیکھنے کی بھی ضرورت ہے کہ وہ غیرقرآنی نہیں ہے۔ وہ اس لئے کہ غیر القرآن کے لئے رسول اللہ کے قول کا ترجمہ آپ کرچکے ہیں۔ بھائی اُس روایت میں ، جس کا ترجمہ آپ نے فرمایا، رسول اکرم نے روایت لکھنے کو نہیں منع فرمایا بلکہ غیر القرآن کو رسول اکرم سے منسوب کرکے لکھنے سے منع فرمایا ہے۔ بغور دیکھئے۔

غیر القران یعنی اردو میں غیر قرانی، جیسے غیر انسانی، انسانیت سے باہر کا، غیر ملکی، ملک سے باہر کا۔ غیر القرآن یعنی غیر قرآنی، یعنی قرآن سے باہر کا۔

لہذا جب یہاں کچھ حضرات یہ کہتے ہیں کہ کامل بخاری اور تین مزید کتب پر ایمان رکھنے کی ضرورت ہے تو کم از کم میں اپنے آپ کو ان سے الگ کرتا ہوں۔

والسلام
 
شاید فاروق بھائی کہنا چاہتے ہیں کہ قرآن کو صحابہ کے فہم پر سمجھنے کی ضرورت نہیں رہی ۔ میں نے اوپر قرآن کریم کی دو آیات نقل کی تھیں اور سوال اٹھایا تھا ک نبی صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے صرف الفاظ کی تعلیم دی تھی یا معانی بھی سکھائے تھے؟ ابھی تک اس کا جواب موصول نہیں ہوا۔
 
اور یہی شکایت مجھے بھی فاروق سرور سے بات کو سمجھتے نہیں اور ایسی بات کی جو میں نے کی نہیں حتٰی کہ سوچا بھی نہیں۔
فاروق صاحب مجھے پتہ کرنا تھا طبلہ نواز ہونے کا نہ کہ لیبل لگانا تھا مگر اس کا جواب نہیں ملا مطلب کہ کسی کو شاید پتہ نہ ہو۔
فاروق صاحب میں نے آپ سے کسی دھاگے میں پوچھا تھا کہ قرآن کی ترتیب نزولی کیوں نہیں؟

آپ کو آپ کے پہلے سوال کا جواب دے چکا ہوں۔ شاید یہ آپ کی پیشکش کے انداز سے ہونے والی ایک غلط فہمی ہے۔ بقول آپ کے " پرویز صاحب طبلہ نواز " کا کمنٹ‌ آپ کا اس موضوع پر نہیں تھا جو قسیم صاحب سے ہورہی تھی۔

ترتیب نزولی کا اگر اس موضوع سے کیا تعلق ہے ۔ یہ فرمائیے ۔ آپ کیا کہنا چاہتے ہیں؟ کھل کر بیان کیجئے۔ یا آپ اسموضوع پردھاگہ شروع فرمائیے اور اپنے خیالات سے سب کو منور فرمائیے۔
 
شاید فاروق بھائی کہنا چاہتے ہیں کہ قرآن کو صحابہ کے فہم پر سمجھنے کی ضرورت نہیں رہی ۔ میں نے اوپر قرآن کریم کی دو آیات نقل کی تھیں اور سوال اٹھایا تھا ک نبی صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے صرف الفاظ کی تعلیم دی تھی یا معانی بھی سکھائے تھے؟ ابھی تک اس کا جواب موصول نہیں ہوا۔
ممکن ہے آپ نے سوال کیا ہو جو میری نظر سے نہ گذرا ہو یا آپ کا سوال کسی لمبے بیان میں چھپا ہو اور نظر نہ آیا ہو۔ پیغام کا نمبر فراہم کیجئے۔

صحابہ کے فہم پر قرآن سمجھنا ہے یا نہیں ؟‌
ٌٌٌٌٌٌٌٌ--- ذہن میں رکھئے کہ یہ ساری بحث غیر القرآن یعنی قرآن سے باہر کے معاملات پر ہورہی ہے۔

1۔ جہاں سنت نبوی کی روایات غیر مستند اور ضعیف موجود ہیں تو جن مصنفین نے غیر القرآن پر یہ ہولی کارپوریشن آف اسلام بنائی ہے وہ کس طور قابل قبول ہونی چاہئیے وضاحت فرمائیے۔
2۔ آپ کیوں مصر ہیں کہ قرآن کو اٹھا کر ایک طرف رکھ دیا جائے اور ان کتب اور ان افراد سے قرآن کو سمجھا جائے، چاہے غیر القرآن ہی کوں نہ ہو۔؟
3۔ قران کہتا ہے رسول - ماشاء اللہ کے علاوہ -- پیشن گوئیاں نہیں کرتے۔ آپ ان سے پیشین گوئیاں منسوب کرتے ہیں۔ اور اس کی اسناد صحابہ کرام سے ثابت کرتے ہیں۔ تو یا قرآن غلط ہے یا پھر آپ کی لکھی ہوئی یہ روایات۔
3۔ قرآن کہتا ہے کہ زانی اور زانیہ کے نکاح‌کے اصول کیا ہیں۔ آپ کہتے ہیں کہ صحابہ کہتے تھے کہ رسول اللہ قرآن سے باہر جاکر سزا دیتے تھے۔ کون درست ہے اور کون غلط؟

بھائی۔ اگر کوئی امر غیر قرآنی ہے تو پھر آپ اس پر لاکھ صحابہ کرام کی اسناد لگا دیجئے وہ غیر قرآنی ہی رہے گا۔ اس پر سوچئیے۔ صحابہ کرام سے وہ سیکھئے جو موافق القرآن ہے ۔ جب امور و معاملات پر قرآن غور و فکر کرنے کو کہتا ہے، تو انکار کیوں؟

والسلام
 
السلام علیکم و رحمۃُ اللہ و برکاتہ ، جزاک اللہ خیر ، با ذوق بھائی ، آپ نے میرا کام مختصر کر دیا ،

بازوق نے کوئی نئی بات نہیں کی۔ دوست ان میں سے بیشتر کا جواب دے چکا ہے۔

آپ سے اب بھی درست حوالہ کی استدعا ہے تاکہ آپ کو خود معلوم ہوجائے کہ جو روایت آپ نے پیش کی اسکو آپ کے اپنے امام البخاری نے ضعیف قرار دیا ہے۔ وہ روایت صحیح البخاری میں‌ مختلف اسناد کے ساتھ ہے اور تہذیب التہذیب میں ابن حجار نے مختلف اسناد سے لکھی ہے۔ جو قابل قبول نہیں ہے۔

آپ نے ابن حجار کی تحقیق شدہ تہذیب التہذیب کی روایت کو امام البخاری سے نسبت یعنی " کوٹ"‌ کیا ہے۔ اس "مس کوٹ" کی وجہ بھی عنایت کیجئے۔
 
السلام علیکم
اس روایت کی اسناد پر آپ کے جتنے بھی اعتراضات ہیں ، ان کے سارے جواب آپ کو ذیل کے ربط پر مل جائیں گے ان شاءاللہ :
تحريم آلات الطرب ، صفحہ (1/38) سے آگے ۔۔۔

علاوہ ازیں یہ بھی یاد رکھیں کہ ۔۔۔ امام بخاری کے علاوہ اس روایت کو ذیل ائمہ و محدثین نے بھی "صحیح" قرار دیا ہے :
امام ابن حبان ، حافظ اسماعیلی ، حافظ ابن الصلاح ، علامہ نووی ، امام ابن تیمیہ ، حافظ ابن قیم ، حافظ ابن کثیر ، حافظ ابن حجر العسقلانی ، علامہ سخاوی ، علامہ ابن الوزیر صنعانی ، امیر الصنعانی وغیرہم ۔
اس روایت کو امام البخاری نے درست یا صحیح قرار نہیں دیا، کیونکہ پہلا راوی موجود نہیں تھا۔ امام البخاری نے اس کو معلق قرار دیا۔۔ صرف ابن حجار نے تحقیق کرکے پہلے راوی کا نام تہذیب التہذیب میں پہلی بار لکھا۔ امام البخاری کی اس تردید کو سکالرز نے تسلیم نہیں کیا۔ یہ روایت غیرالقران اور خلاف القرآن دونوں ہے۔ کہ قرآن میں موسیقی کا کوئی تذکرہ نہیں لہذا قرآن سے باہر ثابت ہوئی۔ اور خلاف القرآن اس طرح کہ اس میں رسول اکرم کو ایک ایسی پیشن گوئی کرتے دکھایا گیا ہے جو قرآن میں موجود نہیں۔ اللہ تعالی نے اس آیت میں صاف صاف فرما دیا کہ رسول کو مستقبل کا صرف وہ حال معلوم ہے جو --- ماشاء اللہ ---- یعنی اللہ تعالی کی مرضی سے عطا ہوا۔

7:188 آپ (ان سے یہ بھی) فرما دیجئے کہ میں اپنی ذات کے لئے کسی نفع اور نقصان کا خود مالک نہیں ہوں مگر (یہ کہ) جس قدر اللہ نے چاہا، اور (اسی طرح بغیر عطاءِ الٰہی کے) اگر میں خود غیب کا علم رکھتا تو میں اَز خود بہت سی بھلائی (اور فتوحات) حاصل کرلیتا اور مجھے (کسی موقع پر) کوئی سختی (اور تکلیف بھی) نہ پہنچتی، میں تو (اپنے منصب رسالت کے باعث) فقط ڈر سنانے والا اور خوشخبری دینے والا ہوں ان لوگوں کو جو ایمان رکھتے ہیں

اگر کسی کا اس آیت پر ایمان نہیں تو لاتا رہے تاویلات اس پیشین گوئی پر مبنی روایت کی۔
 
ممکن ہے آپ نے سوال کیا ہو جو میری نظر سے نہ گذرا ہو یا آپ کا سوال کسی لمبے بیان میں چھپا ہو اور نظر نہ آیا ہو۔ پیغام کا نمبر فراہم کیجئے۔

صحابہ کے فہم پر قرآن سمجھنا ہے یا نہیں ؟‌
ٌٌٌٌٌٌٌٌ--- ذہن میں رکھئے کہ یہ ساری بحث غیر القرآن یعنی قرآن سے باہر کے معاملات پر ہورہی ہے۔

1۔ جہاں سنت نبوی کی روایات غیر مستند اور ضعیف موجود ہیں تو جن مصنفین نے غیر القرآن پر یہ ہولی کارپوریشن آف اسلام بنائی ہے وہ کس طور قابل قبول ہونی چاہئیے وضاحت فرمائیے۔
2۔ آپ کیوں مصر ہیں کہ قرآن کو اٹھا کر ایک طرف رکھ دیا جائے اور ان کتب اور ان افراد سے قرآن کو سمجھا جائے، چاہے غیر القرآن ہی کوں نہ ہو۔؟
3۔ قران کہتا ہے رسول - ماشاء اللہ کے علاوہ -- پیشن گوئیاں نہیں کرتے۔ آپ ان سے پیشین گوئیاں منسوب کرتے ہیں۔ اور اس کی اسناد صحابہ کرام سے ثابت کرتے ہیں۔ تو یا قرآن غلط ہے یا پھر آپ کی لکھی ہوئی یہ روایات۔
3۔ قرآن کہتا ہے کہ زانی اور زانیہ کے نکاح‌کے اصول کیا ہیں۔ آپ کہتے ہیں کہ صحابہ کہتے تھے کہ رسول اللہ قرآن سے باہر جاکر سزا دیتے تھے۔ کون درست ہے اور کون غلط؟

بھائی۔ اگر کوئی امر غیر قرآنی ہے تو پھر آپ اس پر لاکھ صحابہ کرام کی اسناد لگا دیجئے وہ غیر قرآنی ہی رہے گا۔ اس پر سوچئیے۔ صحابہ کرام سے وہ سیکھئے جو موافق القرآن ہے ۔ جب امور و معاملات پر قرآن غور و فکر کرنے کو کہتا ہے، تو انکار کیوں؟

والسلام
پوسٹ نمبر 115 دیکھیے۔ اس میں میری کچھ گزارشات موجود ہیں۔
آپ نے میرے دو سطری سوال کے جواب میں بڑی لمبی تحریر لکھی ہے لیکن اس میں میرے سوال کا کوئی جواب مذکور ہی نہیں۔ اس لیے سادہ الفاظ میں اپنا سوال دوبارہ عرض کرتا ہوں شاید میں اسے صحیح طرح بیان نہیں کر پا رہا ۔
سوال نمبر 1۔ نبی صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کو صرف الفاظ وحی کیے گئے تھے یا ان کے معنی بھی اللہ کی طرف سے سمجھائے گئے؟
سوال نمبر2: نبی صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے صحابہ کو قرآن کے الفاظ سکھائے تھے یا ان کے الہامی معنی بھی بتائے تھے؟
یہ دونوں سوال قرآن کریم کی دو آیات پڑھ کر میرے ذہن میں‌آئے ہیں۔ تکرار سے بچنے کے لیے پوسٹ نمبر 115
 
پوسٹ نمبر 115 دیکھیے۔ اس میں میری کچھ گزارشات موجود ہیں۔
آپ نے میرے دو سطری سوال کے جواب میں بڑی لمبی تحریر لکھی ہے لیکن اس میں میرے سوال کا کوئی جواب مذکور ہی نہیں۔ اس لیے سادہ الفاظ میں اپنا سوال دوبارہ عرض کرتا ہوں شاید میں اسے صحیح طرح بیان نہیں کر پا رہا ۔
سوال نمبر 1۔ نبی صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کو صرف الفاظ وحی کیے گئے تھے یا ان کے معنی بھی اللہ کی طرف سے سمجھائے گئے؟
سوال نمبر2: نبی صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے صحابہ کو قرآن کے الفاظ سکھائے تھے یا ان کے الہامی معنی بھی بتائے تھے؟
یہ دونوں سوال قرآن کریم کی دو آیات پڑھ کر میرے ذہن میں‌آئے ہیں۔ تکرار سے بچنے کے لیے پوسٹ نمبر 115

آپ کی پوسٹ‌نمبر 115 بیانیہ تھی۔ سوالیہ کوئی بات نہیں۔ اس میں کوئی بھی نئی بات نہیں جو مسلمانوں کو نہیں معلوم۔ آپ کے اس بیان پر کوئی اعتراض بھی نہیں کیا۔
صاحب آپ نے بجا فرمایا کہ
1۔ اللہ تعالی نے رسول صلعم کو قرآن کے الفاظ وحی کیا اور بیان کیا یعنی سمجھایا بھی
2۔ نبی کریم نے قرآن کے الفاظ صحابہ کو سکھائے اور اس کے معانی بھی بتائے۔

ذہن میں رکھئے کہ قرآن اور اس کے معانی بتائے۔ غیر القرآن اور اس کے معانی نہیں سمجھائے۔

اب آتے ہیں‌آپ کے اس بیان سے کئے جانے والے آپ کے استدلال پر۔ آپ کیا یہ استدلال کرنا چاہتے ہیں کہ اب اگر ان اصحابہ کرام سے کچھ بھی غیر قرآنی منسوب کیا جائے تو وہ صرف اس لئے قابل قبول ہے کہ یہ ان اصحابہ کرام سے منسوب ہے۔

اجازت دیجئے کہ میں‌ اپنے سوچنے کے اندازکو واضح‌کروں ۔
1۔ میں قرآن کو، قران کے اپنے الفاظ میں، ‌مفصل اور مکمل یقین کرتا ہوں۔ لہذا جو کتاب مکمل ہو اور مفصلل ہو وہ اپنے الفاظ کے معانی خود بیان کرتی ہے۔
2، ہر روایت کو آپ ضوء القرآن میں دیکھیں گے تاکہ صحیح سنت یعنی مستند سنت واضح ہو کر سامنے آئے۔ بیشتر، جی! زیادہ تر روایات میں‌ مستند سنت موجود ہے۔
3۔ قرآن یقینی طور پر رسول اکرم نے صحابہ کو سمجھایا۔ لیکن خلاف قرآن اور غیر القرآن ( قران سے باہر)‌ نہیں‌سمجھایا۔ لہذا صحابہ سے منسوب وہ روایات جو خلاف قرآن اور غیر القرآن ہوں ان کو ضوء القرآن یعنی قرآن کی آیات کی روشنی میں‌پرکھنا بہتر ہے۔

اب آئیے اس لفظ کی طرف جو میرے بھائی یہاں زیر بحث ہے۔ لَھْوَ الْحَدِيثِ - اس کی تعریف بھائی عادل سہیل کے الفاظ میں عبد اللہ ابن مسعود نے "غناء " کی ہے۔ لَھْوَ الْحَدِيثِ کا استعمال قرآن میں‌دیکھئے۔

[ayah]6:32[/ayah] [arabic] وَمَا الْحَيَاةُ الدُّنْيَا إِلاَّ لَعِبٌ وَلَهْوٌ وَلَلدَّارُ الْآخِرَةُ خَيْرٌ لِّلَّذِينَ يَتَّقُونَ أَفَلاَ تَعْقِلُونَ [/arabic]
اور دنیوی زندگی (کی عیش و عشرت) کھیل اور تماشے کے سوا کچھ نہیں، اور یقیناً آخرت کا گھر ہی ان لوگوں کے لئے بہتر ہے جو تقویٰ اختیار کرتے ہیں، کیا تم (یہ حقیقت) نہیں سمجھتے

[ayah]47:36 [/ayah] [arabic]إِنَّمَا الْحَيَاةُ الدُّنْيَا لَعِبٌ وَلَهْوٌ وَإِن تُؤْمِنُوا وَتَتَّقُوا يُؤْتِكُمْ أُجُورَكُمْ وَلَا يَسْأَلْكُمْ أَمْوَالَكُمْ [/arabic]
بس دنیا کی زندگی تو محض کھیل اور تماشا ہے، اور اگر تم ایمان لے آؤ اور تقوٰی اختیار کرو تو وہ تمہیں تمہارے (اعمال پر کامل) ثواب عطا فرمائے گا اور تم سے تمہارے مال طلب نہیں کرے گا

[ayah]57:20[/ayah] [arabic]اعْلَمُوا أَنَّمَا الْحَيَاةُ الدُّنْيَا لَعِبٌ وَلَهْوٌ وَزِينَةٌ وَتَفَاخُرٌ بَيْنَكُمْ وَتَكَاثُرٌ فِي الْأَمْوَالِ وَالْأَوْلَادِ كَمَثَلِ غَيْثٍ أَعْجَبَ الْكُفَّارَ نَبَاتُهُ ثُمَّ يَهِيجُ فَتَرَاهُ مُصْفَرًّا ثُمَّ يَكُونُ حُطَامًا وَفِي الْآخِرَةِ عَذَابٌ شَدِيدٌ وَمَغْفِرَةٌ مِّنَ اللَّهِ وَرِضْوَانٌ وَمَا الْحَيَاةُ الدُّنْيَا إِلَّا مَتَاعُ الْغُرُورِ [/arabic]
جان لو کہ دنیا کی زندگی محض کھیل اور تماشا ہے اور ظاہری آرائش ہے اور آپس میں فخر اور خود ستائی ہے اور ایک دوسرے پر مال و اولاد میں زیادتی کی طلب ہے، اس کی مثال بارش کی سی ہے کہ جس کی پیداوار کسانوں کو بھلی لگتی ہے پھر وہ خشک ہو جاتی ہے پھر تم اسے پک کر زرد ہوتا دیکھتے ہو پھر وہ ریزہ ریزہ ہو جاتی ہے، اور آخرت میں (نافرمانوں کے لئے) سخت عذاب ہے اور (فرمانبرداروں کے لئے) اللہ کی جانب سے مغفرت اور عظیم خوشنودی ہے، اور دنیا کی زندگی دھوکے کی پونجی کے سوا کچھ نہیں ہے

آپ ان میں سے کسی بھی آیت پر کلک کیجئے اور دیکھئے کہ لھو الحدیث کو کس طور پھیلا کر غناء‌بنایا جارہا ہے۔ یا تو قران میں اس لفظ کا استعمال غلط ہے یا پھر ان صحابی سے یہ بات کسی نے اپنی ذاتی خواہشات کی تکمیل کے لئے منسوب کی ہے۔

اس دنیاوی زندگی کو کھیل اور تماشا قرار دیتے ہوئے اللہ تعالی نے اس کو کھیل(‌ لعب )‌ اور لھو (تماشہ)‌ کے معنوں میں رکھا ہے۔ اب یا تو اللہ تعالی کا اس لفظ کا تماشہ کے معنوں‌میں استعمال کرنا درست ہے یا پھر جن صاحب نے ایک جلیل القدر صحابی سے منسوب کرکے اس کے معنی گانا رکھے ہیں وہ درست ہیں۔ لگتا یہ ہے کہ کسی شخص نے ان صحابی سے یہ بات کسی نے اپنی ذاتی خواہشات کی تکمیل کے لئے منسوب کی ہے۔

[ayah]31:6[/ayah] [arabic]وَمِنَ النَّاسِ مَن يَشْتَرِي لَهْوَ الْحَدِيثِ لِيُضِلَّ عَن سَبِيلِ اللَّهِ بِغَيْرِ عِلْمٍ وَيَتَّخِذَهَا هُزُوًا أُولَئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ مُّهِينٌ [/arabic]
اور لوگوں میں سے کچھ ایسے بھی ہیں جو بیہودہ کلام خریدتے ہیں تاکہ بغیر سوجھ بوجھ کے لوگوں کو اﷲ کی راہ سے بھٹکا دیں اور اس (راہ) کا مذاق اڑائیں، ان ہی لوگوں کے لئے رسوا کن عذاب ہے
یہ آیت اس بے کار و بے معنی کلام کے بارے میں ہے جو اللہ کی راہ سے ہٹا دے، اللہ کی راہ کا تعین قرآن حکیم اللہ کے الفاظ کرتے ہیں اور اس سے بھٹکانے والی کتب بہت ہی واضح ہیں جو غیر القرآن اور خلاف القران پر یقین رکھنے کا کہتی ہیں۔ دعا یہ ہے کہ ہم سب قرآن کی طرف آئیں اور غیر القران اور خلاف القرآن روایات کو رسول اکرم کی ہدایت کے مطابق تلف کردیں۔


ایسا کیوں؟ اس لئے کہ وہ روایات موجود ہیں جن میں غناء کو رسول اکرم نے سنا۔ دوست نے اس پر بہت محنت سے معلومات فراہم کیں۔
اگر غناء کے بارے میں قرآن میں نہیں ہے تو پھر کیا کیا جائے؟ خومخواہ کے سوالات سے گریز کیا جائے۔ اور اپنی صوابدید پر فیصلہ کیا جائے۔ یہ فیصلہ ذاتی نہیں بلکہ اجتماعی ہوگا۔ دیکھئے۔

[ayah]5:101 [/ayah] اے ایمان والو! تم ایسی چیزوں کی نسبت سوال مت کیا کرو (جن پر قرآن خاموش ہو) کہ اگر وہ تمہارے لئے ظاہر کر دی جائیں تو تمہیں مشقت میں ڈال دیں (اور تمہیں بری لگیں)، اور اگر تم ان کے بارے میں اس وقت سوال کرو گے جبکہ قرآن نازل کیا جا رہا ہے تو وہ تم پر (نزولِ حکم کے ذریعے ظاہر (یعنی متعیّن) کر دی جائیں گی (جس سے تمہاری صواب دید ختم ہو جائے گی اور تم ایک ہی حکم کے پابند ہو جاؤ گے)۔ اللہ نے ان (باتوں اور سوالوں) سے (اب تک) درگزر فرمایا ہے، اور اللہ بڑا بخشنے والا بردبار ہے

آپ کو جو معانی اچھے لگیں وہ دیکھئے۔ نغمہ یا غناء کے بارے میں خالق حقیقی کا کوئی واضح حکم نہیں ہے۔ یہ بات اس قدر مشکل کیوں‌لگتی ہے صاحب؟
 
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
السلام علیکم
بخاری کا حوالہ پیش خدمت ہے

[ARABIC]بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ كِتَاب الْأَشْرِبَةِ

بَاب مَا جَاءَ فِيمَنْ يَسْتَحِلُّ الْخَمْرَ وَيُسَمِّيهِ بِغَيْرِ اسْمِهِ
وَقَالَ هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ حَدَّثَنَا صَدَقَةُ بْنُ خَالِدٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ يَزِيدَ بْنِ جَابِرٍ حَدَّثَنَا عَطِيَّةُ بْنُ قَيْسٍ الْكِلَابِيُّ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ غَنْمٍ الْأَشْعَرِيُّ قَالَ حَدَّثَنِي أَبُو عَامِرٍ أَوْ أَبُو مَالِكٍ الْأَشْعَرِيُّ وَاللَّهِ مَا كَذَبَنِي سَمِعَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ لَيَكُونَنَّ مِنْ أُمَّتِي أَقْوَامٌ يَسْتَحِلُّونَ الْحِرَ وَالْحَرِيرَ وَالْخَمْرَ وَالْمَعَازِفَ وَلَيَنْزِلَنَّ أَقْوَامٌ إِلَى جَنْبِ عَلَمٍ يَرُوحُ عَلَيْهِمْ بِسَارِحَةٍ لَهُمْ يَأْتِيهِمْ يَعْنِي الْفَقِيرَ لِحَاجَةٍ فَيَقُولُونَ ارْجِعْ إِلَيْنَا غَدًا فَيُبَيِّتُهُمْ اللَّهُ وَيَضَعُ الْعَلَمَ وَيَمْسَخُ آخَرِينَ قِرَدَةً وَخَنَازِيرَ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ
[/ARABIC]

باقی گانے بجانے کی حرمت پر یہ حوالہ بھی چیک کریں " مفتی رشید احمد صاحب رحمہ اللہ " اور "مولانا یوسف لدھیانوی شہید رحمہ اللہ "



اللہ اکبر کبیرا
 
یہ بخاری کا حوالہ نہیں میرے بھائی۔ بخاری نے یہ نہیں‌لکھا،
یہ ابن حجار کا اضافہ ہے ۔ اوپر لکھ چکا ہوں۔ جو مفتی یہاں‌نہیں آسکتے ان سے کیسے بحث ہو؟
[arabic]أَبُو عَامِرٍ أَوْ أَبُو مَالِكٍ الْأَشْعَرِيُّ [/arabic]
ان دونوں‌میں سے کس نے کہا؟ یہ بھی پتہ نہیں‌ہے یہاں۔ لہذا یہ روایت معلق رہی۔
 
فاروق صاحب میں کبھی کوئی اختلافی بات نہیں کرنا چاہتا اور نہ ہی کسی کی ذاتیات پر جاتا ہوں پرویز کے حوالے سے صرف ایک بات کہ بارے میں معلومات لینی تھی کیونکہ مجھے نہیں پتہ کہ وہ صحیح ہے یا غلط اس لئے میری کوئے رائے نہیں جبکہ تصدیق نہ ہو۔
میرا یہ جو سوال ہے کہ
"قرآن کی ترتیب نزولی کیوں نہیں"
یہ سوال صرف آپ سے ہے کسی اور سے نہیں لہٰذا میں کوئی دھاگہ شروع کرنے می ضرورت نہیں آپ صرف جواب دیکر قصے کو ختم کریں باقی یہ نہ سمجھنا کہ میں قرآن میں تحریف کے حوالے سے کوئی بات کررہاہوں کیوں کہ رب العزت نے اس کی حفاظت کا خود ہی ذمہ اٹھا یا ہے
ملاحظہ ہو
إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ ‌[15-9]
بےشک یہ (کتاب) نصیحت ہمیں نے اُتاری ہے اور ہم ہی اس کے نگہبان ہیں
صرف ترتیب کے حوالے سے سوال ہے اور میرا یہ بھی عقیدہ نہیں کہ یہ ترتیب نہیں ہونی چاہیے صرف سوال ہے کہ یہ والی ترتیب کیوں ہے؟
 
برادر من، سلام
اس سلسلے میں میری معلومات صفر ہیں آپ اس پر روشنی ڈال سکتے ہیں۔ اس پر میرے پاس کوئی بیرونی حوالہ نہیں ہے سوائے اس کے کہ رسول اللہ اس کو اس ترتیب میں لکھاتے تھے۔ قرآن کا حوالہ آپ نے نقل کردیا۔ اس جگہ سے میرا ایمان شروع ہوتا ہے کہ یہ اللہ کی مرضی کی ترتیب ہے۔
 
برادر من، سلام
اس سلسلے میں میری معلومات صفر ہیں آپ اس پر روشنی ڈال سکتے ہیں۔ اس پر میرے پاس کوئی بیرونی حوالہ نہیں ہے سوائے اس کے کہ رسول اللہ اس کو اس ترتیب میں لکھاتے تھے۔ قرآن کا حوالہ آپ نے نقل کردیا۔ اس جگہ سے میرا ایمان شروع ہوتا ہے کہ یہ اللہ کی مرضی کی ترتیب ہے۔
اگر میری معلومات ہوتی تو آپ سے کیوں پوچھتا۔ اب یہاں پر لامحالہ بیرون حوالے کی ضرورت ہے جس کو شاید حدیث کہتے ہیں شاید وہاں سے مل جائے؟ کیا خیال ہے؟
ملاحظہ ہوں
وَمَا يَنطِقُ عَنِ الْهَوَى ‌[53-3]
اور نہ خواہش نفس سے منہ سے بات نکالتے ہیں
﴿3﴾
إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَى ‌[53-4]
یہ (قرآن) تو حکم خدا ہے جو (ان کی طرف) بھیجا جاتا ہے
﴿4﴾
اب آپ کا اختلاف کیا ہوگا، یہی نا کہ احادیث کے جمع کرنے کا اور یہاں تک پہنچنے کا۔
 
بھائی ظہور سولنگی۔سلام
آپ میرے بارے میں کسی مغالطہ کا شکار ہیں۔سنت رسول سے کس کافر کو انکار ہے؟ میں یہ آپ کو پہلے بھی عرض کر چکا ہوں کہ وہ روایات جو قرآن کے مطابق ہیں، ان میں سنت رسول موجود ہے۔ یہ قول خود رسول اکرم کا ہے کہ غیر قرآنی روایات کو ان کی ذات سے منسوب نہیں کیا جائے۔ کئی جگہ اس کا تذکرہ کیا ہے۔ اگر کتب روایات کی حفاظت بھی اسی طرح کی گئی ہوتی جیسا کہ ان کا حق ہے تو یقیناً یہ صورتحال نہ ہوتی کہ بہت سی روایات کا سراغ بھی قران میں نہیں ملتا ہے۔

اب آپ کا سارا زور ہے کہ یہ ثابت کردیا جائے کہ یہ بات درست نہیں، تاکہ یہ ثابت ہو سکتے کہ غیر قرآنی روایات بھی درست ہیں۔ صاحب اس مقصد میں خلوص‌نہیں ہے۔ آپ قرآن کے احکامات اور رسول صلعم کے احکامات دونوں سے انکار کرنا چاہتے ہیں

اب آپ کے استدلال کو دیکھتے ہیں۔ آپ یہ کہتے ہیں‌کہ کچھ نہ کچھ قرآن سے باہر یعنی غیر القرآن درست ہے۔ یعنی رسول اکرم اپنی مرضی کی ہدایت دے سکتے ہیں۔ بالکل ، یہ درست ہے۔ جیسے جنگ میں لڑنے کی ہدایت، کس طرف سے حملہ کیا جائے۔ وغیرہ؟ جنگ کے بعد امن کی ہدایت، یا کہ جیسے حضرت سفیان (ر) کا گھر دارالامان ہے۔
لیکن خلاف قرآن کوئی اصول سازی ، کوئی قانون یاکوئی سنت ہے نہیں، کوئی ہدایت نہیں جو خلاف قرآن ہو۔ اسی کتاب سے انہوں نے پڑھایا اور اسی کتاب کی تعلیم دی۔

اب دیکھتے ہیں آپ کی قرآن کی ترتیب والی بات۔ تو دیکھئے میں نے کہا تھا کہ
اس پر میرے پاس کوئی بیرونی حوالہ نہیں ہے
لیکن اندرونی حوالہ یعنی قرانی حوالہ دیکھئے۔
پہلا آپ نے عطا فرمایا:
[ayah]15:9[/ayah] [arabic] إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ [/arabic]
بیشک یہ ذکرِ عظیم (قرآن) ہم نے ہی اتارا ہے اور یقیناً ہم ہی اس کی حفاظت کریں گے

تو ترتیب بھی اللہ نے ہدایت فرمائی۔ اور دوسرا حوالہ خاص‌ طور پر آپ کے لئے کہ آپ کچھ نہ کچھ کمپیوٹرز کے بارے میں جانتے ہیں۔ کبھی آپ نے ڈاؤن لوڈ کے بارے میں‌سنا ہے؟ جس کو عربی میں نازل کرنا کہتے ہیں۔ قرآن کا نزول ہوا۔ سب سے پہلے لفظ نزول کے استعمال پر غور کیجئے۔ 1500 سال پہلے یہ ڈاؤن لوڈ کرنے کا تصور بھی موجود نہ تھا۔ پھر کس پر ہوا؟ رسول اکرم پر۔ کب ہوا؟ لیلۃ القدر میں؟ کیا تمام مسلمان اس پر یقین رکھتے ہیں؟ کہ

[ayah]97:1[/ayah] [arabic]إِنَّا أَنزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ[/arabic]
یقیناً ہم ہی نے نازل کیا ہے قر آن کو شبِ قدر میں۔

[ayah]97:2[/ayah] اور کیا جانو تم کہ کیا ہے شبِ قدر؟۔
[ayah]97:3[/ayah] شبِ قدر بہتر ہے ہزار مہینوں سے۔
[ayah]97:4[/ayah] اتر تے ہیں فرشتے اور روح اس رات میں اپنے رب کے اِذن سے، ہر حکم لے کر۔
[ayah]97:5[/ayah] سراسر سلامتی ہے یہ رات طلوعِ فجرتک۔

اللہ تعالی اس سورۃ میں گواہی دیتے ہیں کہ تمام کا تمام قرآن محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ایک ہی لیلۃ القدر میں نازل یا ڈاؤن لوڈ ‌کردیا گیا تھا۔ اس نزول میں اس کی یہی اصل ترتیب یقیناً موجود تھی۔ پھر قرآن 23 برس کے عرصے میں بوقت ضرورت نازل ہوتا رہا۔ لیکن لیلۃ القدر کی گواہی اپنی جگہ موجود ہے۔

نزول قرآن وہ عمل ہے جو پرانے لوگوں کی سمجھ میں شاید نہ ‌ آیا ہو لیکن ان لوگوں نے اس کے باوجود اس پر ایمان رکھا۔ آج جب ہم 3 گھنٹے کی فلم ، 10 منٹ‌ میں ڈاؤن لوڈ کرلیتے ہیں تو ایک لیلۃ القدر میں نزول قرآن کا نظریہ ہم کو بہتر سمجھنا چاہئے۔ یہی وجہ ہے کہ نہ ترتیب بدلی اور نہ ہی متن۔ اور ایک رات میں نازل بھی ہوگیا۔ اگر آپ پسند کریں تو مکمل قران ابھی اسی وقت ایک رات کیا بلکہ چند منٹوں میں دنیا کی بہت سی سائٹ سے ڈاؤن لوڈ کرسکتے ہیں۔ لنک فراہم کروں :)

لہذا یہ کہنا کہ رسول اکرم کی دی ہوئی ترتیب میں مشیت الہی شامل نہیں ایک درست نظریہ نہیں۔ اور اس سے یہ ثابت کرنا کہ غیر القرآن بھی قابل قبول ہے ایک نامناسب بات ہے۔ اگر قرآن اساس نہیں تو پھر اسلام کی اساس کیا ہے میرے قابل احترام بھائی۔

جب تک آپ قرآن دل سے نہیں پڑھیں گے اس کے معترف نہیں ہونگے۔ یہ ایک بہت ہی جدید کتاب ہے۔ اس کا، انصاف پر مبنی انسانی مساوات کا سیاسی نظام۔ اس کا مالی نظام۔ اس کو حکومتی نظام، اس کا نظام عدلیہ اور نظام قانون سازی۔ مسلمانوں کے لئے مشعل راہ ہے ۔ آج کے مغربی نظام اس کے تعلیم کردہ نظاموں کے سامنے باطل ہیں۔بس مشکل یہ ہے کہ ہم بہت ہی مائکرو سکوپک باتوں میں الجھے ہوئے ہیں۔ میری استدعا یہ ہے کہ ہم سب اس کو بار بار پڑھیں۔ ہمارے مسئلے کتب روایات کے اور سنت کے مقابلہ کے نہیں ۔ آپ پڑھے لکھے انسان ہیں۔ اس کتاب کے بیان کردہ ان نظاموں‌پر غور کیجئے۔ سنت اور روایات آپ کا یا ہمارا راستہ نہیں روکتی ہیں کہ آپ انسانی مساوات کے علمبردار ہوں۔ یا ان قرآنی نظامات کے علمبردار ہوں۔ مجھے ایک طرف رکھئیے۔ کم از کم ہدایت تو اپنے رب سے لیجئے۔

والسلام۔
 

باذوق

محفلین
یہ روایت تو آپ دیکھ ہی چکے ہیں:
ایک موقع پر سیدنا صدیق اکبر حضور کے گھرمبارک میں داخل ہوئے تو دیکھا کہ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اور چند انصاری عورتیں دف پر کچھ گا رہی ہیں ۔ یہ دیکھ کر حضرت ابوبکر صدیق نے سختی سے ڈانٹ کر کہا کہ “ رسول اللہ کے گھر میں شیطانی گانا بجانا کر رہی ہو۔“ بچیاں ڈر گئیں اور سیدہ عائشہ صدیقہ بھی خاموش ہو گئیں۔ کمرے کے ایک طرف حضور نبی اکرم بھی چادر اوڑھے لیٹے تھے لیکن حضرت ابو بکر صدیق کی شاید نگاہ انکی طرف نہ پڑی تھی ۔ سیدنا صدیق اکبر کی تنبیہ پر حضور پاک نے فرمایا
“ یا ابابکر لکل قوم عیدا، وھذا یوم عیدنا“ اے ابوبکر ! ہر قوم کی ایک عید ہوتی ہے ، آج ہمارا بھی عید کا دن ہے“
محترم فاروق صاحب ، میں آپ کو دعوت دیتا ہوں کہ درج بالا حدیث کے ان جملوں پر غور کریں:
حضرت ابوبکر صدیق نے سختی سے ڈانٹ کر کہا کہ " رسول اللہ کے گھر میں شیطانی گانا بجانا کر رہی ہو۔"
حضور پاک نے فرمایا : " یا ابابکر لکل قوم عیدا، وھذا یوم عیدنا" اے ابوبکر ! ہر قوم کی ایک عید ہوتی ہے ، آج ہمارا بھی عید کا دن ہے"

آپ اس بات پر غور کریں کہ ۔۔۔۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے "شیطانی گانا بجانا" کے الفاظ ادا کئے ، مگر اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی انکار نہیں فرمایا۔
آخر کیوں ؟؟ بقول آپ کے جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک "گانا بجانا" حرام نہیں تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو یہ کہہ کر سرزنش کیوں نہیں کی کہ :
ایک حلال چیز (بقول "غنا" کو حلال سمجھنے والوں کے) کو شیطان سے نسبت کیوں دے رہے ہو؟؟

حافظ ابن جوزی رحمة اللہ علیہ اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں :
[ARABIC]هذ الحديث حجتنا لأن أبا بكر سمى ذلك مزمور الشيطان ولم ينكر النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ على أبي بكر قوله[/ARABIC]
یہ حدیث تو ہماری (غنا کا ردّ کرنے والوں کی) دلیل ہے کیونکہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اسے شیطان کا ساز کہا مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی تردید نہیں کی۔
بحوالہ : تلبیس ابلیس ، ابن جوزی ، ص:79
بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو خود بھی کہا :
[ARABIC]قد نفخ الشيطان في منخريها[/ARABIC]
شیطان نے اس کے (گانے والی کے) نتھنوں میں پھونک ماری ہے۔
مسند احمد ، المجلد الثالث ، حديث السائب بن يزيد رضي الله تعالى عنه

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خاموشی تو عید کے موقع پر بیان جواز کے لیے تھی۔
اگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم منع فرما دیتے تو عید پر اس قسم کا اظہار ناجائز اور حرام قرار پاتا۔
جبکہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے "غنا" کی اصلیت اور حقیقت کی بنا پر اسے "شیطانی ساز" قرار دیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی تردید بھی نہ فرمائی۔

لہذا ثابت ہوا کہ خلیفۂ اول کی مذمت "غنا" کی اصل حقیقت کی بنا پر تھی اور نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) کی خاموشی خاص مواقع پر صرف بیان جواز کے لیے تھی۔

اب اس حدیث سے جو لوگ گلوکاروں کی موسیقی اور گانوں کو سند جواز دینا چاہتے ہیں ، اس سے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) اور خلیفۂ اول (رضی اللہ عنہ) قطعاً بری ہیں !!
 

سعود الحسن

محفلین
میں نے اس دھاگے کو آج ہی دیکھا اور اس اہم موضوع پر اتنی تفصیلی اور مدلل بحث دیکھ کر خوشی ہوئ۔

اصل میں ایک دوسرے کی بات تحمل سے سننا اور اپنی بات دلیل سے دینا خود ایک خوبصورت عمل ہے، جس کا کم از کم ہمارے معاشرے میں بڑا فقدان ہے۔

ہاں البتہ اس پوری بحث میں ایک کمی لگی کہ اصل فساد کی جڑ یعنی موسیقی کی اصطلاح کی تعریف اور سکوپ کو کسی نے واضح نہیں کیا ۔

مثلاً کیا اس میں ہر طرح کی موسیقی شامل ہے جیسے سازوں کے ساتھ اور بغیر آلات موسیقی کے، یا کسی بھی چیز کا ردہم میں گانا ، بجانا، سنانا وغیرہ وغیرہ۔

شاید اس سے کوئ مدد ملے؟؟؟
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top