مجھے تو ابھی تک مغربی دنیا اور ترکی کی سیکولر فورسز کی عبداللہ گل کی اندھی مخالفت کی ایک ہی وجہ نظر آئی ہے اور وہ ہے عبداللہ گل کی شریک حیات کا سر پر سکارف لینا۔ ہو سکتا ہے کہ میری معلومات ناقص ہوں لیکن عبداللہ گل کی مخالفت میں اٹھنے والے طوفان کی واحد وجہ صرف یہی ہے تو یہ ویسٹرن میڈیا کی تنگ نظری اور جہالت کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔
اس بات کا خدشہ ہے کہ عبداللہ گل کے صدر بننے کی صورت میں کہیں ان کی اہلیہ صدارتی محل میں سر پر اسلامی سکارف پہنے نہ نظر آئیں۔
دیکھتے ہیں یہ کیا کرتا ہے۔ ویسے یہ صدر صاحب ہاتھ پیر بندھے صدر ہونگے۔ اگر چوں چاںکی تو سائیں صدارت سے اٹھا کر وہ ماریں گے۔
56 سالہ عبداللہ گُل کہتے ہیں کہ انہوں نے سیاسی اسلام سے اپنے تمام رشتے توڑ لیے ہیں۔
السلام علیکم،
ترکی والے لاکھ سیکولر بننے کی کوشش کرتے رہیں لیکن یورپی یونین والے ان کی شمولیت کو کبھی بھی قبول نہیں کریں گے۔ اس کی وجہ بظاہر انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں وغیرہ بتائی جاتی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ یورپ والے ترکی کو ایک مسلمان ملک کے طور پر دیکھتے ہیں اور اسی لیے اس کی یورپی یونین میں شمولیت پر وہ کبھی بھی راضی نہیں ہوں گے۔
والسلام
بالکل درست، لیکن فضل الرحمن صاحب کی سیاسی قلابازیوں کا کیا علاج۔میرے خیال میں Akp سے ہمارے ہاں کی مذہبی جماعتوں کو بھی کچھ سیکھنا چاہیے کہ صرف خالی خولی نعروں کے ذریعے عوام کو خوش نہیں کیا جا سکتا بلکہ اُن کی طرح عملی اقدامات کر کے اور عوام کی خدمت و خوشحالی کو اپنا شعار بنا کر اہداف حاصل کیے جا سکتے ہیں۔
مبروکبہرحال ترکی میں سیکولر ازم کی شکست عالمی طور پر اسلام پسندوں کے لیے اچھی خبر اور دنیا میں اسلامی نشاۃ ثانیہ کا ایک اہم سنگ میل بھی ہے۔
میرے پیارے بھائی الف نظامی! میں نے بھی تو یہی کہا ہے کہ انہیں اس سے سبق حاصل کرنا چاہیے، صرف فضل الرحمن کو ہی نہیں دیگر جماعتوں کو بھی۔ صرف اسلام اور قرآن کا نعرہ لگا کر عوام کو خوش نہیں کیا جا سکتا بلکہ اسلامی نظام کے لیے انہیں نہ صرف انہیں خود عملی نمونہ بن کر دکھانا ہوگا بلکہ عوام کی خوشحالی اور فلاح کے لیے بھی ویسے ہی اقدامات کرنا ہوں گے جیسے Akp اور اس سے قبل رفاہ پارٹی نے ترکی میں کیے۔ ترکی کے عوام صرف اس لیے اسلام پسند جماعتوں کو ووٹ نہیں دے رہے کہ وہ اسلام پسند ہیں، بلکہ اس لیے بھی دے رہے ہیں کہ انہیں معلوم ہے کہ سیکولر ازم کے 80 سالہ دور میں انہیں سوائے بدحالی کے کچھ نہیں ملا جبکہ 1995ء سے اب تک ترکی میں آنے والا اسلام پسندوں کا تیسرا دور حقیقی خوشحالی کے ادوار ہیں، اس لیے فوج اور سیکولر پسندوں کی تمام تر کوشش کے باوجود انتخابات میں کامیابی اسلام پسندوں ہی کو ملی۔ باقی رہی پاکستان کی بات تو فضل الرحمن کے پاس بہت اچھا موقع تھا سرحد میں حکومت کے ذریعے یہ کام کرنے کا لیکن سب ضائع کر دیا گیا، اور یقین جانیں موقع ملنے کے بعد اگر ضائع کر دیا جائے تو اس کے اثرات بہت بھیانک اور طویل عرصے تک ہوتے ہیں۔ ایک مثال کراچی میں نعمت اللہ خان کی دیکھ لیں جو کراچی کے ناظم رہ چکے ہیں، ان کے دور میں کراچی میں جو ترقیاتی کام ہوئے مخالفین بھی اس کے معترف ہوئے اور اس کا فائدہ ان کی جماعت کو ضرور پہنچے گا۔ لیکن اگر وہ اس موقع کو ضائع کرتے تو یقین جانیں کئی سالوں تک ان کو اور ان کی جماعت کو اس کے بھیانک اثرات کا سامنا رہتا۔بالکل درست، لیکن فضل الرحمن صاحب کی سیاسی قلابازیوں کا کیا علاج۔
وضاحت کرنے کا بہت شکریہ۔امید ہے آپ بات کو سمجھ گئے ہوں گے اور آئندہ میری ہر بات پر مجلس عمل کو بیچ میں نہیں لائیں گے
اسلام پسند ہونا کوئی انہونی بات نہیں ہے کہ ا سکو موضوعِ بحث بنایا جائے ۔ اسلام پسند ایک لفظ ہے جیسے ترقی پسند ، اب ترقی پسند ہونے کا یہ مقصد نہیں ہے کہ کسی نے ترقی حاصل کر لی ہو ۔ بلکہ وہ ہر اس راہ پر چلنے کو فوقیت دے گا جو ترقی کی طرف رہنمائی کرے یا گامزن ہو ۔ اسی طرح مصالحت پسند ، اور ا سکا بھی یہ مقصد ہرگز نہیں ہوگا کہ ایسا انسان ہر اُمور پر ہی مصالحت کو پسند کرے گا ، ہاں مگر یہ ضرور ہے کہ وہ مصالحت کا ہر موقع ضرور سامنے رکھے گا ۔ اب اسی طرح اسلام پسند سے یہ مراد لی جاسکتی ہے کہ ایسا انسان غیر اسلامی چیزوں پر اسلامی چیزوں کو فوقیت دے گا ۔ ان چیزوں کی ہیت اب کیسی ہی ہو مگر کوشش ہر ممکن یہی ہوگی کہ غیر اسلامی اقدار کے بجائے اسلامی اقدار کو اپنایا جائے ، فروغ دیا جائے ۔ چاہے اس شخص کی اسلامی مشق روزمرہ کے اصولوں پر نہ ہو مگر اس کی ترجیح اسلامی بنیادوں یا اقدار پر ہوگی ۔ مجھ سمیت یہاں اس فورم پر ایسے کتنے ہونگے جو شاید اسی رویے کا شکار ہوں ، جو ایک اسلام کا بول بالا تو چاہتے ہوں مگر عملی طور پر اس پر خود چلنے سے قاصر ہونگے ۔