ان پر دھونس جماکر ان سے اقتدار چھیننے کا نتیجہ تختۂ دار ہوتا ہے۔یاد کیجیے کہ بھٹو نے سی ایم ایل اے سے کم پوزیشن قبول نہیں کی تھی۔ اسی کی سزا دی گئی بھٹو کو۔
شریف خاندان کے غلام صحافی اور کالم نگار بھی اب پریشان ہیں کہ یہ ڈائلوگ فوج سے کس آئین و قانون کے تحت ہوگا اور اس میں سے برآمد کیا ہوگا؟ زیادہ سے زیادہ نئے الیکشن ہو سکتے ہیں اور اگر دوبارہ تحریک انصاف جیت گئی تو کیا 11 اپوزیشن جماعتیں اسے قبول کر لیں گی؟
مکالمہ… کیسے؟ کیوں؟ کن کے مابین؟
خورشید ندیم
تاریخ اشاعت 2020-11-14
مکالمہ‘ ایک بار پھر مسائل کا حل قرار دیا جا رہا ہے۔
سیاسی فقہا کا مگر فتویٰ یہ ہے کہ مکالمہ صرف ڈولوں کی تعداد پر ہونا چاہیے۔ سیاست کا کنواں کیوں ناپاک ہوا؟ اس کی تہہ میں کیا نجاست ہے سرِدست اس کو نظرانداز کیا جائے۔ سب ایک میز کے گرد بیٹھ کر ڈولوں کی ایک تعداد پر اتفاق کرلیں اور اس کے بعد اس کنویں کے پاک ہونے کا فتویٰ جاری کر دیا جائے تاکہ اقتدار کے سب پیاسے‘ بغیر کسی شرمندگی اور ندامت کے‘ 'پاک‘ پانی سے اپنی پیاس بجھا لیں۔
اس میں کیا شبہ کہ سیاست مکالمے ہی کا دوسرا نام ہے۔ اہلِ سیاست مکالمے سے گریز نہیں کر سکتے اور انہیں کرنا بھی نہیں چاہیے؛ تاہم مکالمے کے متعین آداب ہیں۔ ان کا تعلق عقلِ عام سے ہے اور دنیا کی معلوم روایت سے بھی۔ مثال کے طورپر مکالمے کا ایک ایجنڈا ہوتا ہے۔ اس کے متعین فریق ہوتے ہیں۔ کسی اتفاقِ رائے تک پہنچنے کیلئے عقلِ عام‘ کسی دستاویز یاکسی معاہدے کومیزان مانا جاتا ہے۔ ایسی کوئی بنیاد موجود نہ ہوتو مکالمہ نتیجہ خیز نہیں ہوتا۔
قرآن مجید نے اہلِ کتاب کو مکالمے کی دعوت دی۔ مسلمانوں کی طرف سے ان سے کہا گیاکہ آؤ اس کلمے کی طرف جو ہمارے اور تمہارے درمیان مشترک ہے اور یہ توحید ہے۔ سب ابراہیمی ادیان توحید پرایمان رکھتے ہیں یہ الگ بات ہے کہ سب کے ماننے والوں نے اس باب میں تحریف کی۔ حالی نے ''مدوجزرِ اسلام‘‘ میں ہمارے انحراف کی کہانی منظوم کی ہے؛ تاہم توحید ان ادیان کے درمیان مکالمے کی بنیاد بن سکتی ہے کہ وہ انحراف کے باوجود اس پرایمان رکھتے ہیں۔
بھارت پاکستان سے کہتا ہے کہ آؤ کشمیرپر مذاکرات کریں۔ پاکستان کواس سے اتفاق ہے لیکن اس کاکہنا یہ بھی ہے کہ ان مذاکرات کو نتیجہ خیزبنانے کیلئے پہلے ہمیں کسی ایک بنیاد کو مان لینا چاہیے۔ اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کو بھارت اور پاکستان دونوں تسلیم کرتے ہیں۔ آئیں‘ ان کی بنیاد پرمکالمہ کرتے ہیں۔ یہ ایک معقول بات سے جس سے انکار محال ہے الا یہ کہ کوئی مکالمے کے نام پرکوئی اورکھیل کھیلنا چاہے۔
پاکستان میں اقتدار کا کھیل کن آداب کے تحت کھیلا جانا چاہیے؟ یہ ہے وہ سوال ہمیں جس کا جواب تلاش کرنا ہے۔ اسی سے بحران پیدا ہوا ہے اور اسی پر مکالمہ مطلوب ہے۔ پہلا سوال یہ ہے کہ اس کے اصل فریق کون ہو سکتے ہیں؟ ہم سب جانتے ہیں کہ آئین میں اقتدارکا حق صرف عوام کے نمائندوں کیلئے ثابت ہے۔ جائز حق تو صرف سیاسی جماعتوں ہی کا ہے کہ وہ اس موضوع پرباہم مکالمہ کریں۔ کسی اورفرد یا ادارے کو اخلاق یہ حق دیتا ہے اورنہ قانون۔
مگر یہ کتابی بات ہے۔ اقتدار کامعاملہ دنیا میں کم ہی جائز اور ناجائز کی بنیاد پرطے پایا ہے۔ اسے بالفعل (De Jure) اور بالقوہ (De facto) کے اصول پرمانا گیا ہے۔ دنیا میں بارہا اقتداران ہاتھوں کو منتقل ہوجاتا ہے جو اس کا جائز حق نہیں رکھتے۔ دنیا میں بادشاہتوں اور آمریتوں کی داستان صدیوں پر محیط ہے۔ سب ان کوناجائز کہتے ہیں مگر اپنے اپنے وقت پر انہیں بالقوہ مانتے رہے ہیں۔ ہمارے بہت سے فقہا بنوامیہ اور بنوعباس کے حکمرانوں کے حقِ اقتدارکو قبول نہیں کرتے لیکن انہیں امیرالمومنین کہتے رہے ہیں۔
اس لیے مجھے اس سے اتفاق ہے کہ آج اگراقتدار کے آداب طے کرنے کیلئے مکالمہ ہوگا تو اپنی اخلاقی اورقانونی حیثیت سے قطع نظر‘ وہ سب لوگ اس میں شریک ہوں گے جو بالقوہ اقتدار کے مراکز پر قابض ہیں۔ اس سے ناجائز‘ جائز نہیں ہو جائے گا لیکن راستہ نکلنے کی عملی صورت یہی ہو گی۔
اس ضمن میں دوسرا سوال یہ ہوگا کہ ان مذاکرات میں میزان کی حیثیت کسے حاصل ہوگی؟ جب فریقین بنیادی سوال کا جواب تلاش کرنے کیلئے مکالمہ کریں گے تو میزان کسے مانیں گے؟ نزاع ہوگیا توکس کی بات مانی جائے گی؟ ظاہر ہے کہ اس معاملے میں آئین کے علاوہ کوئی ثالث‘ کوئی میزان ہو ہی نہیں سکتا۔ اب آئین اس باب میں اتنا واضح ہے کہ اس پر کچھ کہنا تحصیلِ حاصل ہے۔ آئین کی روسے حقِ اقتدار عوام کے نمائندوں کیلئے ثابت ہے۔ ہمارے ہاں آئین کا معاملہ اگرچہ وہی ہے جو ابراہیمی ادیان میں توحید کا ہے لیکن اس کے باوجود‘ ہمیں اسی کو ماننا پڑے گاکہ اس کا کوئی متبادل نہیں۔
اپوزیشن کا کہنا یہ ہے کہ 2018ء میں عوام سے انتخاب کا حق چھین لیاگیا‘ اسی سے بحران پیدا ہوا۔ اب لازم کہ اس غلطی کی اصلاح کی جائے۔ یہ بات بھی واضح ہے کہ اپوزیشن جسے غلط کہتی ہے‘ اس نے اسے عملاً قبول کرلیا ہے۔ حکومت کوتعاون کا یقین دلایا ہے لیکن حکومت اپوزیشن کے وجود کوتسلیم کرنے پرآمادہ نہیں۔ وہ کہتی ہے ''میں چھوڑوں گی نہیں‘‘۔ تیسرا سوال یہ ہے کہ یہ مطالبہ کیسے پورا ہوگا؟
یہاں تک تو بات قابلِ فہم ہے لیکن سیاسی پنڈت ساتھ یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ خرابی کا ذمہ دار کوئی ایک نہیں‘ سب ہیں۔ دوسرے الفاظ میں‘ یہ سوال بے معنی ہے کہ اس کنویں کے تہہ میں کیا ہے؟ یا اس کی بھی کوئی اہمیت نہیں کہ یہ کس نے پھینکا؟ ہمیں تومعلوم نہیں۔ ممکن ہے کسی نے خود پھینکا ہو۔ یہ بھی ہو سکتا کہ کسی نے کتا مارا ہو اور کسی دوسرے نے اسے کنویں تک لانے میں اس کی مدد کی ہو۔ ممکن ہے کسی نے مشورہ دیا ہوکہ اسے کنویں میں پھینک دو۔ جب سب کردار مشکوک ہیں توکسی ایک پرفردِ جرم عائد کرنا درست نہیں۔ اس لیے مکالمے کرتے وقت بہتر ہے نجاست کی بحث نہ اٹھائی جائے اور بسم اللہ پڑھ کر ڈولوں کی تعداد پر اتفاق کر لیاجائے۔
اگر مکالمے سے یہی مراد ہے تو پھر معاف کیجیے یہ کچھ بھی ہوسکتا ہے‘ مکالمہ نہیں ہوسکتا۔ اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ ہم صرف افراد اور ان کے مفادات کے تناظر میں سوچ رہے ہیں۔ تین سال‘ پانچ سال اور بس۔ کسی کی مدتِ ملازمت‘ کسی کی مدتِ منصب۔ ایسے مکالمے افراد کے حق میں تو ہوسکتے ہیں‘ ملک و قوم کیلئے یقیناً تباہ کن ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ ایک بار پھر ظالم و مظلوم سب ایک صف میں کھڑے کر دیے جائیں اور ظالموں کو نجات دھندہ اور مسیحا بنا دیا جائے۔
مکالمہ صرف تین نکات پر مشتمل ہو تو نتیجہ خیز ہو سکتا ہے: ایک یہ کہ آئینی یا غیرآئینی‘ اعلانیہ اور غیر اعلانیہ‘ اقتدار کے مراکز پر قابض سب قوتوں کے مابین ہو۔ یعنی پارلیمان میں موجود سیاسی جماعتیں‘ مقتدرہ اور حکومت۔ سول سوسائٹی‘ جیسے سپریم کورٹ بار کونسل اس مکالمے کیلئے سہولت کار کا کردار ادا کر سکتی ہے۔ دوسرا یہ کہ اس کیلئے آئینِ پاکستان ہی میزان ہوگا۔ تیسرا یہ کہ اصل باعثِ نزاع امر 2018ء کے انتخابات پر تمام اپوزیشن کے یکساں مطالبے کو کیسے پورا کیا جائے۔ اس نکتے کاجواب نئے انتخابات ہیں۔ اگر حکومت اس مذاکراتی عمل کا حصہ بنتی ہے تو نئے انتخابات کا اعلان ہو سکتا ہے۔
میرے نزدیک یہ اگرچہ کوئی مثالی حل نہیں لیکن سیاست میں حقیقت پسند ہونے کے علاوہ چارہ نہیں ہوتا؛ تاہم حقیقت پسندی اور جائز و ناجائز کی تقسیم سے اٹھ جانا دو الگ باتیں ہیں۔ حقیقت پسندی حکمتِ عملی میں ہوتی ہے‘ بیانیے میں نہیں۔ دنیا کی کوئی حقیقت ظالم کو مظلوم قرار نہیں دے سکتی۔ ظالم اور مظلوم کو یکساں قراردینے کے لیے مکالمہ بدترین ناانصافی اورظلم ہے۔
یقیناً ماضی میں سب سے غلطیاں ہوئیں لیکن سب غلطیاں ایک سطح کی نہیں تھیں۔ اس فرق کو نظر انداز کرنا ظلم ہے۔ سیاست کو آج ایسی فقاہت کی ضرورت ہے جو ڈول نہیں کتے کو نکالنے کا درس دے کہ سیاست کا کنواں ہمیشہ کے لیے پاک ہو۔