اسٹیبلشمنٹ سے مذاکرات ہوئے تو پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے ہوں گے، فضل الرحمان

جاسم محمد

محفلین
اسٹیبلشمنٹ سے مذاکرات ہوئے تو پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے ہوں گے، فضل الرحمان
ویب ڈیسک

November 13, 2020


پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ سے بات کرنا پی ڈی ایم کامشترکہ فیصلہ ہوگا، کسی ایک جماعت کا نہیں۔

ڈیرہ اسماعیل خان میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ اصلاحات کی طرف جانے کےلیے ذمہ دار ہی سے بات کرنی ہوگی، بلاول اور مریم کے الفاظ میں تعبیر کا فرق ہوسکتا ہے مگر دھاندلی کے ذمہ دار کا نہیں۔

فضل الرحمان نے کہا کہ کچھ لوگ شخصیات کا نام لینے سے اس لیے گریز کرتے ہیں کہ اس سے ادارے کا تاثر بنتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اسٹیبلشمنٹ سے مذاکرات ہوئے تو پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے ہوں گے، بلاول اور مریم کے بیانات میں کوئی تضاد نہیں، موجودہ حکومت کا دھاندلی کی پیداوار ہونے پر دونوں کا اتفاق ہے۔

مولانا فضل الرحمان نے مزید کہا کہ آئی جی سندھ واقعے پر انکوائری میں مثبت پہلو بھی ہے، ٹرمپ ہٹ گیا مودی اور عمران کا وقت بھی آنے والا ہے، حکومتی جلسوں سے کورونا نہیں پھیلتا تو اپوزیشن کے جلسوں سے بھی نہیں پھیلے گا، پی ڈی ایم کے جلسے ہر صورت ہوں گے۔
 

جاسم محمد

محفلین
اسٹیبلشمنٹ سے مذاکرات ہوئے تو پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے ہوں گے، فضل الرحمان
۷۳ کے آئین کے تناظر میں افواج پاکستان وزارت دفاع کا ذیلی محکمہ ہے۔ بھلا کسی حکومتی محکمہ کیساتھ بھی سیاسی مذاکرات ہو سکتے ہیں؟ آئینی و قانونی طور پر تو وہ محض سرکار کے ملازم ہیں:)
 
۷۳ کے آئین کے تناظر میں افواج پاکستان وزارت دفاع کا ذیلی محکمہ ہے۔ بھلا کسی حکومتی محکمہ کیساتھ بھی سیاسی مذاکرات ہو سکتے ہیں؟ آئینی و قانونی طور پر تو وہ محض سرکار کے ملازم ہیں:)
لوگ ہزاروں کلومیٹر دور ایک جمہوری معاشرے میں رہتے ہوئے بھی ان ک دم بھریں اور مولانا اس بہتر سال کی حقیقت کو جھٹلا دیں؟

یہ بھی مان لیجیے کہ ملک کا ہر سویلین غدار نہیں، غدار وہی ہے جسے عدالت نے غدار قرار دیا!
 
آخری تدوین:

جاسم محمد

محفلین
مولانا اس بہتر سال کی حقیقت کو جھٹلا دیں؟
فوج سے “مذاکرات” کر کے ہی تو اس ملک میں بہتر سالوں سے حکومتیں اقتدار میں آ رہی ہیں۔ ضیا کی ہلاکت کے بعد بینظیر نے جرنیلوں سے مذاکرات کر کے اقتدار سنبھالا۔ ۱۹۹۰ میں نواز شریف آئی ایس آئی سے مذاکرات کر کے حکومت میں آئے۔ ۲۰۰۷ میں بینظیر اور مشرف کے مابین اگلے الیکشن سے متعلق مذاکرات ہوئے۔ ۲۰۱۳ الیکشن سے قبل شہباز شریف جی ایچ کیو گیٹ نمبر ۴ مذاکرات کی غرض سے جایا کرتے تھے۔ ۲۰۱۴ دھرنے کے دوران عمران خان آرمی چیف جنرل راحیل شریف سے مذاکرات کیلئے دھرنا چھوڑ کر سب کے سامنے گئے تھے۔
یہ سب بتانے کا مقصد یہ ہے کہ اگر فوج سے مذاکرات کر کے مقتدرہ سے آزادی مل سکتی تو یہ کام بہت پہلے ہو جاتا۔ اب کی بار بھی پی ڈی ایم والے مذاکرات کر کے دیکھ لیں۔ ان کا نتیجہ بھی پہلے سے کچھ مختلف نہیں نکلنا۔ مقتدرہ سے اقتدار چھینے بغیر یہ بہتر سالا مسئلہ حل ہونے والا نہیں۔ اس کیلئے کسی نہ کسی جمہوری انقلابی کو شیخ مجیب جتنا بہادر اور ثابت قدم بننا پڑے گا۔
 
فوج سے “مذاکرات” کر کے ہی تو اس ملک میں بہتر سالوں سے حکومتیں اقتدار میں آ رہی ہیں۔ ضیا کی ہلاکت کے بعد بینظیر نے جرنیلوں سے مذاکرات کر کے اقتدار سنبھالا۔ ۱۹۹۰ میں نواز شریف آئی ایس آئی سے مذاکرات کر کے حکومت میں آئے۔ ۲۰۰۷ میں بینظیر اور مشرف کے مابین اگلے الیکشن سے متعلق مذاکرات ہوئے۔ ۲۰۱۳ الیکشن سے قبل شہباز شریف جی ایچ کیو گیٹ نمبر ۴ مذاکرات کی غرض سے جایا کرتے تھے۔ ۲۰۱۴ دھرنے کے دوران عمران خان آرمی چیف جنرل راحیل شریف سے مذاکرات کیلئے دھرنا چھوڑ کر سب کے سامنے گئے تھے۔
یہ سب بتانے کا مقصد یہ ہے کہ اگر فوج سے مذاکرات کر کے مقتدرہ سے آزادی مل سکتی تو یہ کام بہت پہلے ہو جاتا۔ اب کی بار بھی پی ڈی ایم والے مذاکرات کر کے دیکھ لیں۔ ان کا نتیجہ بھی پہلے سے کچھ مختلف نہیں نکلنا۔ مقتدرہ سے اقتدار چھینے بغیر یہ بہتر سالا مسئلہ حل ہونے والا نہیں۔ اس کیلئے کسی نہ کسی جمہوری انقلابی کو شیخ مجیب جتنا بہادر اور ثابت قدم بننا پڑے گا۔
ان پر دھونس جماکر ان سے اقتدار چھیننے کا نتیجہ تختۂ دار ہوتا ہے۔یاد کیجیے کہ بھٹو نے سی ایم ایل اے سے کم پوزیشن قبول نہیں کی تھی۔ اسی کی سزا دی گئی بھٹو کو۔
 

جاسم محمد

محفلین
ان پر دھونس جماکر ان سے اقتدار چھیننے کا نتیجہ تختۂ دار ہوتا ہے۔یاد کیجیے کہ بھٹو نے سی ایم ایل اے سے کم پوزیشن قبول نہیں کی تھی۔ اسی کی سزا دی گئی بھٹو کو۔
یہ سچ ہے کہ بھٹو کو بطور سویلین چیف مارشل لا ایڈمنسٹر کی کرسی مل گئی تھی۔ اس پوسٹ پر براجمان ہو کر وہ کچھ بھی کر سکتے تھے کیونکہ آئین تو ابھی وجود میں نہیں آیا تھا۔ مقتدرہ کی سیاسی قوت، اکڑ اور بدمعاشی کو ختم کرنے کا اس سے بہتر موقع موجود نہیں تھا۔ مشرقی پاکستان میں شکست کے بعد فوج کا مورال ڈاؤن تھا۔ حمود الرحمان کمیشن سقوط ڈھاکہ سانحہ پر عسکری ذمہ داروں کا تعین کر رہا تھا۔ لوہا گرم تھا اور اگر اس وقت وار کر کے فوج کو واپس بیرکوں میں بھیج دیا جاتا تو ملک کے حالات بالکل تبدیل ہو جاتے۔
بھٹو نے سب سے بڑی غلطی یہ کی کہ حمود الرحمان کمیشن کی رپورٹ بجائے پبلک کرنے کے چھپا دی۔ کیا اس میں ملک دولخت کرنے کا ذمہ دارجرنیلوں کے علاوہ بعض سیاسی کرداروں جیسے بھٹو کو بھی ٹھہرایا گیا تھا؟ آج تک یہ رپورٹ اپنی اصل حالت میں کہیں دستیاب نہیں ہے۔ اس پر کاروائی کرنا تو دور کی بات ہے۔
بھٹو نے دوسری بڑی غلطی 1977 کے الیکشن میں کچھ سیٹوں پر منظم دھاندلی کر کے کی۔ اگر وہ دھاندلی نہ بھی کرتا تو الیکشن با آسانی جیت سکتا تھا۔ مگر چونکہ دھاندلی کر چکا تھا اس لئے اپوزیشن کو خود موقع فراہم کیا کہ وہ ملک میں انتشار کریں جس کا فائدہ اٹھا کر فوج دوبارہ اقتدار پہ قابض ہو گئی۔
 

جاسم محمد

محفلین
ان پر دھونس جماکر ان سے اقتدار چھیننے کا نتیجہ تختۂ دار ہوتا ہے۔یاد کیجیے کہ بھٹو نے سی ایم ایل اے سے کم پوزیشن قبول نہیں کی تھی۔ اسی کی سزا دی گئی بھٹو کو۔
شریف خاندان کے غلام صحافی اور کالم نگار بھی اب پریشان ہیں کہ یہ ڈائلوگ فوج سے کس آئین و قانون کے تحت ہوگا اور اس میں سے برآمد کیا ہوگا؟ زیادہ سے زیادہ نئے الیکشن ہو سکتے ہیں اور اگر دوبارہ تحریک انصاف جیت گئی تو کیا 11 اپوزیشن جماعتیں اسے قبول کر لیں گی؟

مکالمہ… کیسے؟ کیوں؟ کن کے مابین؟
خورشید ندیم
تاریخ اشاعت 2020-11-14

مکالمہ‘ ایک بار پھر مسائل کا حل قرار دیا جا رہا ہے۔
سیاسی فقہا کا مگر فتویٰ یہ ہے کہ مکالمہ صرف ڈولوں کی تعداد پر ہونا چاہیے۔ سیاست کا کنواں کیوں ناپاک ہوا؟ اس کی تہہ میں کیا نجاست ہے سرِدست اس کو نظرانداز کیا جائے۔ سب ایک میز کے گرد بیٹھ کر ڈولوں کی ایک تعداد پر اتفاق کرلیں اور اس کے بعد اس کنویں کے پاک ہونے کا فتویٰ جاری کر دیا جائے تاکہ اقتدار کے سب پیاسے‘ بغیر کسی شرمندگی اور ندامت کے‘ 'پاک‘ پانی سے اپنی پیاس بجھا لیں۔
اس میں کیا شبہ کہ سیاست مکالمے ہی کا دوسرا نام ہے۔ اہلِ سیاست مکالمے سے گریز نہیں کر سکتے اور انہیں کرنا بھی نہیں چاہیے؛ تاہم مکالمے کے متعین آداب ہیں۔ ان کا تعلق عقلِ عام سے ہے اور دنیا کی معلوم روایت سے بھی۔ مثال کے طورپر مکالمے کا ایک ایجنڈا ہوتا ہے۔ اس کے متعین فریق ہوتے ہیں۔ کسی اتفاقِ رائے تک پہنچنے کیلئے عقلِ عام‘ کسی دستاویز یاکسی معاہدے کومیزان مانا جاتا ہے۔ ایسی کوئی بنیاد موجود نہ ہوتو مکالمہ نتیجہ خیز نہیں ہوتا۔
قرآن مجید نے اہلِ کتاب کو مکالمے کی دعوت دی۔ مسلمانوں کی طرف سے ان سے کہا گیاکہ آؤ اس کلمے کی طرف جو ہمارے اور تمہارے درمیان مشترک ہے اور یہ توحید ہے۔ سب ابراہیمی ادیان توحید پرایمان رکھتے ہیں یہ الگ بات ہے کہ سب کے ماننے والوں نے اس باب میں تحریف کی۔ حالی نے ''مدوجزرِ اسلام‘‘ میں ہمارے انحراف کی کہانی منظوم کی ہے؛ تاہم توحید ان ادیان کے درمیان مکالمے کی بنیاد بن سکتی ہے کہ وہ انحراف کے باوجود اس پرایمان رکھتے ہیں۔
بھارت پاکستان سے کہتا ہے کہ آؤ کشمیرپر مذاکرات کریں۔ پاکستان کواس سے اتفاق ہے لیکن اس کاکہنا یہ بھی ہے کہ ان مذاکرات کو نتیجہ خیزبنانے کیلئے پہلے ہمیں کسی ایک بنیاد کو مان لینا چاہیے۔ اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کو بھارت اور پاکستان دونوں تسلیم کرتے ہیں۔ آئیں‘ ان کی بنیاد پرمکالمہ کرتے ہیں۔ یہ ایک معقول بات سے جس سے انکار محال ہے الا یہ کہ کوئی مکالمے کے نام پرکوئی اورکھیل کھیلنا چاہے۔
پاکستان میں اقتدار کا کھیل کن آداب کے تحت کھیلا جانا چاہیے؟ یہ ہے وہ سوال ہمیں جس کا جواب تلاش کرنا ہے۔ اسی سے بحران پیدا ہوا ہے اور اسی پر مکالمہ مطلوب ہے۔ پہلا سوال یہ ہے کہ اس کے اصل فریق کون ہو سکتے ہیں؟ ہم سب جانتے ہیں کہ آئین میں اقتدارکا حق صرف عوام کے نمائندوں کیلئے ثابت ہے۔ جائز حق تو صرف سیاسی جماعتوں ہی کا ہے کہ وہ اس موضوع پرباہم مکالمہ کریں۔ کسی اورفرد یا ادارے کو اخلاق یہ حق دیتا ہے اورنہ قانون۔
مگر یہ کتابی بات ہے۔ اقتدار کامعاملہ دنیا میں کم ہی جائز اور ناجائز کی بنیاد پرطے پایا ہے۔ اسے بالفعل (De Jure) اور بالقوہ (De facto) کے اصول پرمانا گیا ہے۔ دنیا میں بارہا اقتداران ہاتھوں کو منتقل ہوجاتا ہے جو اس کا جائز حق نہیں رکھتے۔ دنیا میں بادشاہتوں اور آمریتوں کی داستان صدیوں پر محیط ہے۔ سب ان کوناجائز کہتے ہیں مگر اپنے اپنے وقت پر انہیں بالقوہ مانتے رہے ہیں۔ ہمارے بہت سے فقہا بنوامیہ اور بنوعباس کے حکمرانوں کے حقِ اقتدارکو قبول نہیں کرتے لیکن انہیں امیرالمومنین کہتے رہے ہیں۔
اس لیے مجھے اس سے اتفاق ہے کہ آج اگراقتدار کے آداب طے کرنے کیلئے مکالمہ ہوگا تو اپنی اخلاقی اورقانونی حیثیت سے قطع نظر‘ وہ سب لوگ اس میں شریک ہوں گے جو بالقوہ اقتدار کے مراکز پر قابض ہیں۔ اس سے ناجائز‘ جائز نہیں ہو جائے گا لیکن راستہ نکلنے کی عملی صورت یہی ہو گی۔
اس ضمن میں دوسرا سوال یہ ہوگا کہ ان مذاکرات میں میزان کی حیثیت کسے حاصل ہوگی؟ جب فریقین بنیادی سوال کا جواب تلاش کرنے کیلئے مکالمہ کریں گے تو میزان کسے مانیں گے؟ نزاع ہوگیا توکس کی بات مانی جائے گی؟ ظاہر ہے کہ اس معاملے میں آئین کے علاوہ کوئی ثالث‘ کوئی میزان ہو ہی نہیں سکتا۔ اب آئین اس باب میں اتنا واضح ہے کہ اس پر کچھ کہنا تحصیلِ حاصل ہے۔ آئین کی روسے حقِ اقتدار عوام کے نمائندوں کیلئے ثابت ہے۔ ہمارے ہاں آئین کا معاملہ اگرچہ وہی ہے جو ابراہیمی ادیان میں توحید کا ہے لیکن اس کے باوجود‘ ہمیں اسی کو ماننا پڑے گاکہ اس کا کوئی متبادل نہیں۔
اپوزیشن کا کہنا یہ ہے کہ 2018ء میں عوام سے انتخاب کا حق چھین لیاگیا‘ اسی سے بحران پیدا ہوا۔ اب لازم کہ اس غلطی کی اصلاح کی جائے۔ یہ بات بھی واضح ہے کہ اپوزیشن جسے غلط کہتی ہے‘ اس نے اسے عملاً قبول کرلیا ہے۔ حکومت کوتعاون کا یقین دلایا ہے لیکن حکومت اپوزیشن کے وجود کوتسلیم کرنے پرآمادہ نہیں۔ وہ کہتی ہے ''میں چھوڑوں گی نہیں‘‘۔ تیسرا سوال یہ ہے کہ یہ مطالبہ کیسے پورا ہوگا؟
یہاں تک تو بات قابلِ فہم ہے لیکن سیاسی پنڈت ساتھ یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ خرابی کا ذمہ دار کوئی ایک نہیں‘ سب ہیں۔ دوسرے الفاظ میں‘ یہ سوال بے معنی ہے کہ اس کنویں کے تہہ میں کیا ہے؟ یا اس کی بھی کوئی اہمیت نہیں کہ یہ کس نے پھینکا؟ ہمیں تومعلوم نہیں۔ ممکن ہے کسی نے خود پھینکا ہو۔ یہ بھی ہو سکتا کہ کسی نے کتا مارا ہو اور کسی دوسرے نے اسے کنویں تک لانے میں اس کی مدد کی ہو۔ ممکن ہے کسی نے مشورہ دیا ہوکہ اسے کنویں میں پھینک دو۔ جب سب کردار مشکوک ہیں توکسی ایک پرفردِ جرم عائد کرنا درست نہیں۔ اس لیے مکالمے کرتے وقت بہتر ہے نجاست کی بحث نہ اٹھائی جائے اور بسم اللہ پڑھ کر ڈولوں کی تعداد پر اتفاق کر لیاجائے۔
اگر مکالمے سے یہی مراد ہے تو پھر معاف کیجیے یہ کچھ بھی ہوسکتا ہے‘ مکالمہ نہیں ہوسکتا۔ اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ ہم صرف افراد اور ان کے مفادات کے تناظر میں سوچ رہے ہیں۔ تین سال‘ پانچ سال اور بس۔ کسی کی مدتِ ملازمت‘ کسی کی مدتِ منصب۔ ایسے مکالمے افراد کے حق میں تو ہوسکتے ہیں‘ ملک و قوم کیلئے یقیناً تباہ کن ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ ایک بار پھر ظالم و مظلوم سب ایک صف میں کھڑے کر دیے جائیں اور ظالموں کو نجات دھندہ اور مسیحا بنا دیا جائے۔
مکالمہ صرف تین نکات پر مشتمل ہو تو نتیجہ خیز ہو سکتا ہے: ایک یہ کہ آئینی یا غیرآئینی‘ اعلانیہ اور غیر اعلانیہ‘ اقتدار کے مراکز پر قابض سب قوتوں کے مابین ہو۔ یعنی پارلیمان میں موجود سیاسی جماعتیں‘ مقتدرہ اور حکومت۔ سول سوسائٹی‘ جیسے سپریم کورٹ بار کونسل اس مکالمے کیلئے سہولت کار کا کردار ادا کر سکتی ہے۔ دوسرا یہ کہ اس کیلئے آئینِ پاکستان ہی میزان ہوگا۔ تیسرا یہ کہ اصل باعثِ نزاع امر 2018ء کے انتخابات پر تمام اپوزیشن کے یکساں مطالبے کو کیسے پورا کیا جائے۔ اس نکتے کاجواب نئے انتخابات ہیں۔ اگر حکومت اس مذاکراتی عمل کا حصہ بنتی ہے تو نئے انتخابات کا اعلان ہو سکتا ہے۔
میرے نزدیک یہ اگرچہ کوئی مثالی حل نہیں لیکن سیاست میں حقیقت پسند ہونے کے علاوہ چارہ نہیں ہوتا؛ تاہم حقیقت پسندی اور جائز و ناجائز کی تقسیم سے اٹھ جانا دو الگ باتیں ہیں۔ حقیقت پسندی حکمتِ عملی میں ہوتی ہے‘ بیانیے میں نہیں۔ دنیا کی کوئی حقیقت ظالم کو مظلوم قرار نہیں دے سکتی۔ ظالم اور مظلوم کو یکساں قراردینے کے لیے مکالمہ بدترین ناانصافی اورظلم ہے۔
یقیناً ماضی میں سب سے غلطیاں ہوئیں لیکن سب غلطیاں ایک سطح کی نہیں تھیں۔ اس فرق کو نظر انداز کرنا ظلم ہے۔ سیاست کو آج ایسی فقاہت کی ضرورت ہے جو ڈول نہیں کتے کو نکالنے کا درس دے کہ سیاست کا کنواں ہمیشہ کے لیے پاک ہو۔
 
Top