بہترین اقدام ہے۔ حکومت کی معاشی پالیسیوں سے متعلق ۲۴ گھنٹے افواہیں پھیلانے والوں سے سرکاری اشتہارات و لفافوں کی امداد کے بغیر اپنے میڈیا ہاؤسز نہیں چل رہے۔ اتنے معاشی تیس مار خان ہیں تو سرکاری خزانہ میں نقب لگائے بغیر اپنا ذاتی بزنس چلا کر دکھائیں۔
یعنی پچھلی حکومت میڈیا کو حکومتی لائن پر چلانے کیلئے 50 ارب روپے کے اشتہارات بطور رشوت سرکاری خزانے سے دیتی تھی۔
ڈان کے بڑے بڑے معاشی تجزیہ نگار ڈان کی معیشت درست نہ کر سکے۔ آخری حل یہی نکالا کہ عدالت سے سرکاری اشتہارات کی بھیک مانگی جائے
اس زمانہ میں نیک نامی صحافی حامد میر نے شریف خاندان کے لندن فلیٹس پکڑ کر اخبار میں چھاپ دئے تھے اور پھر اگلے ہی دن نواز شریف نے ان کو پی ایم ہاؤس بلوا کر "خاطر تواضع" کی تھی۔ تب سے موصوف ایک بڑا سا لفافہ ہمہ وقت اپنی جیب میں رکھتے ہیں۔ اور کسی کو لندن فلیٹس یاد دلوانے کی کوشش نہیں کرتے کیونکہ وہ تو لفافہ ملنے کے بعد اسٹیبلشمنٹ کی سازش سے بنے تھے۔جنگ گروپ کا یہی حال نوے کی دہائی میں میاں نواز شریف صاحب کی حکومت نے کیا تھا اور بعد ازاں انہیں اس کا خمیازہ بھگتنا پڑا۔ کیا اب نتائج مختلف نکلیں گے؟
بالکل صحیح کہا۔ ڈان اخبار 24 گھنٹے اس حکومت کو بھکاری کہتا ہے اور پھر اسی سے سرکاری اشتہارات کی بھیک بھی مانگتا ہے۔ ایسی بے شرم صحافت کو اب میں کیا کہوں؟بھکاری سے بھیک مانگنا یقیناً شرم کا مقام ہے۔
سرکاری اشتہارات بھیک نہیں ہوتے ہیں۔ اس کے اجراء کا باقاعدہ طریقہء کار ہوتا ہے جس کا زیادہ تر انحصار اس پر ہوتا ہے کہ یہ اخبار کس بڑی تعداد میں چھپتا ہے۔ عدالت میں کیس گیا ہے جس کا ممکنہ نتیجہ یہ ہو سکتا ہے کہ حکومت کو پابند کیا جائے کہ ڈان اخبار کو سرکاری اشتہارات میں سے حصہ بمقدار جثہ دیا جائے۔ اسے بھیک کہنا یا سمجھنا غلط ہے۔بالکل صحیح کہا۔ ڈان اخبار 24 گھنٹے اس حکومت کو بھکاری کہتا ہے اور پھر اسی سے سرکاری اشتہارات کی بھیک بھی مانگتا ہے۔ ایسی بے شرم صحافت کو اب میں کیا کہوں؟
میرے تو خیال میں یہ طریقہ کار ہی درست نہیں کہ حکومت کوکسی اخبار کی سرکولیشن کے حساب سے پابند کیا جائے کہ وہ لازما اسے سرکاری اشتہارات سے نوازے۔ کیونکہ پھروہ نجی اخبار اس سرکاری کمائی کا غلط فائدہ اٹھاتے ہوئے اسے اپنے بل بوتے پر چلانے کی بجائے حکومت پر انحصار کرنے لگے گا۔ اور یہاں ہو بہو یہی ہوا ہے۔سرکاری اشتہارات بھیک نہیں ہوتے ہیں۔ اس کے اجراء کا باقاعدہ طریقہء کار ہوتا ہے جس کا زیادہ تر انحصار اس پر ہوتا ہے کہ یہ اخبار کس بڑی تعداد میں چھپتا ہے۔ عدالت میں کیس گیا ہے جس کا ممکنہ نتیجہ یہ ہو سکتا ہے کہ حکومت کو پابند کیا جائے کہ ڈان اخبار کو سرکاری اشتہارات میں سے حصہ بمقدار جثہ دیا جائے۔ اسے بھیک کہنا یا سمجھنا غلط ہے۔
سرکولیشن اخبار خود بڑھاتا ہے میاں جی، نہ کہ حکومت اخبار بھی خریدنے پر لگ جاتی ہے۔ اپنے بل بوتے پر ہی سرکولیشن بڑھائی جا سکتی ہے۔ تاہم، جب سرکولیشن بڑھ جائے تو سرکاری اشتہارات پر حق بھی بنتا ہے کیونکہ سرکاری اشتہار ان اخبارات پر ہی چھپنے ضروری ہوتے ہیں جو عامۃ الناس تک پہنچ پائیں۔میرے تو خیال میں یہ طریقہ کار ہی درست نہیں کہ حکومت کوکسی اخبار کی سرکولیشن کے حساب سے پابند کیا جائے کہ وہ لازما اسے سرکاری اشتہارات سے نوازے۔ کیونکہ پھروہ نجی اخبار اس سرکاری کمائی کا غلط فائدہ اٹھاتے ہوئے اسے اپنے بل بوتے پر چلانے کی بجائے حکومت پر انحصار کرنے لگے گا۔ اور یہاں ہو بہو یہی ہوا ہے۔
یہ حکومت جس میڈیا گروپ کے اشتہار کم یا بند کر تی ہے وہ روتے دھوتے عدالت پہنچ جاتے ہیں۔ ملک کے دیگر معاشی سیکٹرز جیسے ایکسپورٹرزکا بھی یہی حال ہے۔ حکومت اگر ان کیلئے سبسڈیز کم کر دے یا ٹیکس بڑھا دے تو وہ ہڑتال پر نکل جاتے ہیں۔
حق سے زیادہ اہم یہ بات ہے کہ حکومتی اشتہارات اخبار کے سیاسی موقف پر دینا یا نہ دینا انتہائی غلط ہے۔ انہیں ایسے اخبارات کو دیا جاتا ہے جن سے وہ مطلوبہ آڈینس تک پہنچ جائیں جو کہ زیادہ سرکولیشن والے اخبار ہی ہوں گےسرکولیشن اخبار خود بڑھاتا ہے میاں جی، نہ کہ حکومت اخبار بھی خریدنے پر لگ جاتی ہے۔ اپنے بل بوتے پر ہی سرکولیشن بڑھائی جا سکتی ہے۔ تاہم، جب سرکولیشن بڑھ جائے تو سرکاری اشتہارات پر حق بھی بنتا ہے کیونکہ سرکاری اشتہار ان اخبارات پر ہی چھپنے ضروری ہوتے ہیں جو عامۃ الناس تک پہنچ پائیں۔
درست کہا۔ اول تو لفظ سرکاری ہی عجیب سا ہے۔ پبلک کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔ پبلک کنٹریکٹ کرتے وقت اس بات کا خیال رکھا جاتا ہے کہ زیادہ سے زیادہ عوامی حصہ اور ادارے اس سے مستفید ہوں۔ حکومت اور حکومتی ذمہ داریاں کسی پارٹی کی میراث نہیں ہوتیں۔ اگر کوئی ادارہ یا عوام کا حصہ کسی پارٹی کے خلاف ہے تب بھی حکومتی ذمہ داری ہے کہ منصفانہ طریقے سے اس ادارے سے متعلق اپنی ذمہ داری پوری کرے۔سرکاری اشتہارات بھیک نہیں ہوتے ہیں۔ اس کے اجراء کا باقاعدہ طریقہء کار ہوتا ہے جس کا زیادہ تر انحصار اس پر ہوتا ہے کہ یہ اخبار کس بڑی تعداد میں چھپتا ہے۔ عدالت میں کیس گیا ہے جس کا ممکنہ نتیجہ یہ ہو سکتا ہے کہ حکومت کو پابند کیا جائے کہ ڈان اخبار کو سرکاری اشتہارات میں سے حصہ بمقدار جثہ دیا جائے۔ اسے بھیک کہنا یا سمجھنا غلط ہے۔
کیا پاکستان میں صرف ایک اخبار یا میڈیا گروپ حکومت مخالف خبریں چلا رہا ہے؟ اگر یہ دلیل درست مان لی جائے کہ حکومت مخالف خبریں چلانے پر ڈان کے سرکاری اشتہار بند کر دئے تو پھر ہر اخبار و میڈیا گروپ کے ساتھ یہی سلوک ہونا چاہیے تھا جبکہ حقیقت میں ایسا کچھ نہیں ہوا۔حق سے زیادہ اہم یہ بات ہے کہ حکومتی اشتہارات اخبار کے سیاسی موقف پر دینا یا نہ دینا انتہائی غلط ہے۔ انہیں ایسے اخبارات کو دیا جاتا ہے جن سے وہ مطلوبہ آڈینس تک پہنچ جائیں جو کہ زیادہ سرکولیشن والے اخبار ہی ہوں گے
حکومت مخالف خبریں چلانے پر کوئی اعتراض تھا نہ ہے۔بے شمار اخبارات اور ٹی چینلز اوّل دن سے حکومت مخالف کمپین چلا رہے ہیں اور اس کے باوجود ان کو بدستور اشتہارات بھی مل رہے ہیں۔اگر کوئی ادارہ یا عوام کا حصہ کسی پارٹی کے خلاف ہے تب بھی حکومتی ذمہ داری ہے کہ منصفانہ طریقے سے اس ادارے سے متعلق اپنی ذمہ داری پوری کرے۔
بنگلہ دیش کی شیخ حسینہ ماڈل کو کاپی کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ باجوہ ڈاکٹرائن کے مطابق اس ماڈل نے بنگلہ دیش کو معاشی استحکام دیا ہے اس لئے اگلے دس سال اسی پر چلنا ہوگاموجودہ حکومت کا گھناؤنا ایجنڈا ہر مخالفانہ آواز کو کچل دینا ہے، چاہے وہ فری پریس کی غیر جانبدارانہ رائے ہو، کسی جج کا منصفانہ فیصلہ ہو یا عوام کے کسی بھی نمائندے کی آزادانہ رائے ہو!
CPJ calls on government to lift suspension of ads to Dawn and Jang media groups - Pakistan - DAWN.COMموجودہ حکومت کا گھناؤنا ایجنڈا ہر مخالفانہ آواز کو کچل دینا ہے، چاہے وہ فری پریس کی غیر جانبدارانہ رائے ہو، کسی جج کا منصفانہ فیصلہ ہو یا عوام کے کسی بھی نمائندے کی آزادانہ رائے ہو!