بابا بلھے شاہ اس کے استعاراتی معانی سمجھا دیں ۔۔۔ !

نور وجدان

لائبریرین
کلام بابا بُلھے شاہ )
بلھا کی جاناں میں کون
نہ میں مومن وچ مسیت آں
نہ میں وچ کفر دی ریت آں
نہ میں پاکاں وچ پلیت آں
نہ میں موسٰی، نہ فرعون
بلھا کی جاناں میں کون
نہ میں اندر بید کتاباں
نہ وچ بھنگاں، نہ شراباں
نہ رہنا وچ خراباں
نہ وچ جاگن، نہ سون
بلھا کی جاناں میں کون
نہ وچ شادی نہ غمناکی
نہ میں وچ پلیتی پاکی
نہ میں آبی نہ میں خاکی
نہ میں آتش نہ میں پون
بلھا کی جاناں میں کون
نہ میں عربی، نہ لاہوری
نہ میں ہندی شہر رنگوری
نہ ہندو نہ ترک پشوری
نہ میں رہنا وچ ندون
بلھا کی جاناں میں کون
نہ میں بھیت مذہب دا پایاں
نہ میں آدم حوا جایا
نہ میں اپنا نام دھرایا
نہ وچ بھٹن، نہ وچ بھون
بلھا کی جاناں میں کون
اول آخر آپ نوں جاناں
نہ کوئی دوجا پچھاناں
میتھوں ہور نہ کوئی سیانا
بلھا! او کھڑا ہے کون؟
بلھا کی جاناں میں کون
 

نایاب

لائبریرین
انسان کے باطن میں ہر لمحہ برپا "خود آگہی " بارے کشمکش کا بیان ہے ۔
ہر حساس روح اپنے " خلق " ہونے کی حقیقت کو جاننا چاہتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔
پنجابی زبان پر عبور رکھنے والے اساتذہ ہی استعاراتی معنی بتا سکیں گے ۔۔۔۔۔
بہت خوب شراکت
بہت دعائیں
 
میرے خیال میں تو اس میں کیفیات ہجر کا ہی بیان کیا گیا ہے ایک انداز میں۔۔۔
لیکن درست روشنی استاد محترم محمد یعقوب آسی صاحب ہی ڈال سکتے ہیں۔
صوفیائے کرام اور ان کے مریدوں سے معذرت۔ کہ یہاں بات کرنے سے ڈر لگتا ہے، پتہ نہیں کون کس بات کو کیا معانی پہنا دے۔
 

نایاب

لائبریرین
صوفیائے کرام اور ان کے مریدوں سے معذرت۔ کہ یہاں بات کرنے سے ڈر لگتا ہے، پتہ نہیں کون کس بات کو کیا معانی پہنا دے۔
استاد محترم
آپ نے اک کھلی حقیقت بیان کر دی کہ
اساتذہ کا یہ ڈر ہی معاشرے کو گٹوں گوڈوں سے لے بیٹھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بہت دعائیں
 
استاد محترم
آپ نے اک کھلی حقیقت بیان کر دی کہ
اساتذہ کا یہ ڈر ہی معاشرے کو گٹوں گوڈوں سے لے بیٹھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بہت دعائیں
یہاں میرے آگے پیچھے زیادہ بلھے شاہی آٹو مُکا نَک رہتے ہیں۔ اور میرا ایسی عمر میں گئیر باکس ری پلیس کروانے کا کوئی موڈ نہیں ہے، جب کہ بندے کا برانڈ بھی آؤٹ ڈیٹ ہو چکا ہو۔
نو مور 1953 ماڈل سپیئر پارٹس!
:bomb::hurryup::clock::coffeecup::umbrella::skull:
 
آخری تدوین:

نایاب

لائبریرین
یہاں میرے آگے پیچھے زیادہ بلھے شاہی آٹو مُکا نَک رہتے ہیں۔ اور میرا ایسی عمر میں گئیر باکس ری پلیس کروانے کا کوئی موڈ نہیں ہے، جب کہ بندے کا برانڈ بھی آؤٹ ڈیٹ ہو چکا ہو۔
نو مور 1953 ماڈل سپیئر پارٹس!
:bomb::hurryup::clock::coffeecup::umbrella::skull:
سچ ہی ہوا نا کہ
جو ڈر گیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بہت دعائیں سدا سلامت رہیں ہنسیں مسکرائیں آمین
 

نور وجدان

لائبریرین
یہاں میرے آگے پیچھے زیادہ بلھے شاہی آٹو مُکا نَک رہتے ہیں۔ اور میرا ایسی عمر میں گئیر باکس ری پلیس کروانے کا کوئی موڈ نہیں ہے، جب کہ بندے کا برانڈ بھی آؤٹ ڈیٹ ہو چکا ہو۔
نو مور 1953 ماڈل سپیئر پارٹس!
:bomb::hurryup::clock::coffeecup::umbrella::skull:

میں ابھی تک سوچ رہی ہوں اس کے جواب میں کیا کہنا ہے ۔۔۔ پھر سوچا کچھ نہیں کہنا
 

شاکرالقادری

لائبریرین
اس میں ڈرنے والی کون سی بات ہے
من عرف نفسہ فقد عرف ربہ ۔۔۔۔ جس نے اپنے آپ کو پہچان لیا اس نے خدا کو پہچان لیا
معرفت نفس ہی عرفان الہی کا زینہ ہے
بلہے شاہ اس کلام میں اپنے آپ کو پہچاننے کی کوشش کر رہے ہیں ۔۔ اور وہ مراقبہ معرفت نفس میں مشغول ہیں
ایسے ہی جیسے سورہ انعام میں حضرت ابراہیم کا حال بیان کیا گیا ہے:
۔یہ کہ جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے تارے کو دیکھ کر کہا یہ میرا رب ہے یا جب چاند اور سورج کو دیکھ کر انہیں اپنا رب کہا ۔ پھر جب تارا ماند پڑگیا تو اس کی ربوبیت سے انکار کر دیا اسی طرح جب سورج غروب ہو گیا تو اس کی ربوبیت کا انکار کر دیا ۔۔۔
بلہے شاہ بھی اپنے آپ کو مختلف مقامات پر دیکھتے ہیں
کیا میں ایک ایسا مومن ہوں جو مسجد کو ٹھکانا بنائے رکھتا ہے اس کے علاوہ اسے کوئی کام نہیں
نہیں ۔۔۔۔ اچھا تو کیا
پھر میں ایسا شخص ہوں جو کفریہ عقاید اور رسوم و رواج میں ڈوبا ہوا ہوں
نہیں ۔۔ تو پھر میں کون ہوں ۔۔۔ مجھے معلوم نہیں میں کون ہوں
لیکن وہ اس پر اکتفا نہیں کرتے کہ مجھے معلوم نہیں
وہ ایک بار پھر نا معلوم سے معلوم کی طرف جاکر اس پر غور کرتے ہیں
تو کیا میں پاک لوگوں میں سے ہوں
پھر میری حقیقت کیا ہے میں کون ہوں
وَالتِّينِ وَالزَّيْتُونِ ﴿۱﴾ ۔وَطُورِ سِينِينَ ﴿۲﴾وَهَذَا الْبَلَدِ الْأَمِينِ ﴿۳﴾لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنسَانَ فِي أَحْسَنِ تَقْوِيمٍ ﴿۴﴾
ثُمَّ رَدَدْنَاهُ أَسْفَلَ سَافِلِينَ
۔
انسان کی تقویم میں حسن کمال بھی ہے ۔۔ اور اسفل ترین صفات بھی ہیں
کسی ایک صفت کے جلوہ گر ہونے سے تو انسان کے تمام جہات سامنے نہیں آتے ۔ انسان یا تو کبھی موسی بن کر نمودار ہوتا ہے کبھی فرعون بن کر
کبھی یہ حسینیت کے روپ میں جلوہ گر ہوتا ہے اور کبھی یزیدیت کے عفریت کی صورت میں ظلم و جبر کی علامت بن جاتا ہے
کبھی یہ چراغ مصطفوی ہوتا ہے تو کبھی یہ شرار بولبی بن جاتا ہے
۔۔۔۔۔۔
لیکن میں اصل میں کون ہوں
میری حقیقت کیا ہے
میں نیکی کی علامت ہوں؟
یا میں بدی کا استعارہ ہوں؟ میں کیا ہوں
========
بلکہ میں تو
نہ عرب ہوں نہ عجمی
میرے لیے علاقائی سر حدیں کوئی معنی نہیں رکھتیں
میں ہی اول ہوں اور میں ہی آخر ہوں
======
نظم کے آخری حصہ کو پڑھیں تو آپ کو معرفت نفس سے شروع ہونے والا سفر ۔۔۔ معرفت خدا کی طرف لے جاتا ہوا صاف نظر آتا ہے

جملہ معترضہ ۔۔۔ بلہے شاہ رحمہ اللہ علیہ کے فکر و فلسفہ پر پی ایچ ڈی کے مقالے لکھے جا چکے ہیں وہ ایک عظیم صوفی بزرگ تھے انکا نام اس قدر تضحیک سے لینا اور" بلہے شاہی آٹو مکانک" جیسے الفاظ کا استعمال خود آپ کی کیا قدر و قیمت متعین کرتے ہیں؟ کیا یہ ایسے ایسے شخص کا کلام ہو سکتا ہے جسے لوگ اردو فارسی کا شاعر ادیب محقق اور نہ جانے کیا کیا سمجھتے ہوں اور لوگوں کی زبانیں انہیں استاد محترم کہتے ہوئے نہ تکھتی ہوں ۔۔۔۔ نہیں ہرگز اکابر علما کے ساتھ اس قسم کا رویہ ایک شاعر ایک ادیب اور ایک صاحب علم شخص کا نہیں ہو سکتا
 

نایاب

لائبریرین
اس میں ڈرنے والی کون سی بات ہے
من عرف نفسہ فقد عرف ربہ ۔۔۔۔ جس نے اپنے آپ کو پہچان لیا اس نے خدا کو پہچان لیا
بہت شکریہ بہت دعائیں استاد محترم شاکر القادری بھائی
اللہ سوہنا آپ پر اپنا کرم سدا جاری رکھےآمین
 
اس میں ڈرنے والی کون سی بات ہے
من عرف نفسہ فقد عرف ربہ ۔۔۔۔ جس نے اپنے آپ کو پہچان لیا اس نے خدا کو پہچان لیا
معرفت نفس ہی عرفان الہی کا زینہ ہے
بلہے شاہ اس کلام میں اپنے آپ کو پہچاننے کی کوشش کر رہے ہیں ۔۔ اور وہ مراقبہ معرفت نفس میں مشغول ہیں
ایسے ہی جیسے سورہ انعام میں حضرت ابراہیم کا حال بیان کیا گیا ہے:
۔یہ کہ جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے تارے کو دیکھ کر کہا یہ میرا رب ہے یا جب چاند اور سورج کو دیکھ کر انہیں اپنا رب کہا ۔ پھر جب تارا ماند پڑگیا تو اس کی ربوبیت سے انکار کر دیا اسی طرح جب سورج غروب ہو گیا تو اس کی ربوبیت کا انکار کر دیا ۔۔۔
بلہے شاہ بھی اپنے آپ کو مختلف مقامات پر دیکھتے ہیں
کیا میں ایک ایسا مومن ہوں جو مسجد کو ٹھکانا بنائے رکھتا ہے اس کے علاوہ اسے کوئی کام نہیں
نہیں ۔۔۔۔ اچھا تو کیا
پھر میں ایسا شخص ہوں جو کفریہ عقاید اور رسوم و رواج میں ڈوبا ہوا ہوں
نہیں ۔۔ تو پھر میں کون ہوں ۔۔۔ مجھے معلوم نہیں میں کون ہوں
لیکن وہ اس پر اکتفا نہیں کرتے کہ مجھے معلوم نہیں
وہ ایک بار پھر نا معلوم سے معلوم کی طرف جاکر اس پر غور کرتے ہیں
تو کیا میں پاک لوگوں میں سے ہوں
پھر میری حقیقت کیا ہے میں کون ہوں
وَالتِّينِ وَالزَّيْتُونِ ﴿۱﴾ ۔وَطُورِ سِينِينَ ﴿۲﴾وَهَذَا الْبَلَدِ الْأَمِينِ ﴿۳﴾لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنسَانَ فِي أَحْسَنِ تَقْوِيمٍ ﴿۴﴾
ثُمَّ رَدَدْنَاهُ أَسْفَلَ سَافِلِينَ
۔
انسان کی تقویم میں حسن کمال بھی ہے ۔۔ اور اسفل ترین صفات بھی ہیں
کسی ایک صفت کے جلوہ گر ہونے سے تو انسان کے تمام جہات سامنے نہیں آتے ۔ انسان یا تو کبھی موسی بن کر نمودار ہوتا ہے کبھی فرعون بن کر
کبھی یہ حسینیت کے روپ میں جلوہ گر ہوتا ہے اور کبھی یزیدیت کے عفریت کی صورت میں ظلم و جبر کی علامت بن جاتا ہے
کبھی یہ چراغ مصطفوی ہوتا ہے تو کبھی یہ شرار بولبی بن جاتا ہے
۔۔۔۔۔۔
لیکن میں اصل میں کون ہوں
میری حقیقت کیا ہے
میں نیکی کی علامت ہوں؟
یا میں بدی کا استعارہ ہوں؟ میں کیا ہوں
========
بلکہ میں تو
نہ عرب ہوں نہ عجمی
میرے لیے علاقائی سر حدیں کوئی معنی نہیں رکھتیں
میں ہی اول ہوں اور میں ہی آخر ہوں
======
نظم کے آخری حصہ کو پڑھیں تو آپ کو معرفت نفس سے شروع ہونے والا سفر ۔۔۔ معرفت خدا کی طرف لے جاتا ہوا صاف نظر آتا ہے

جملہ معترضہ ۔۔۔ بلہے شاہ رحمہ اللہ علیہ کے فکر و فلسفہ پر پی ایچ ڈی کے مقالے لکھے جا چکے ہیں وہ ایک عظیم صوفی بزرگ تھے انکا نام اس قدر تضحیک سے لینا اور" بلہے شاہی آٹو مکانک" جیسے الفاظ کا استعمال خود آپ کی کیا قدر و قیمت متعین کرتے ہیں؟ کیا یہ ایسے ایسے شخص کا کلام ہو سکتا ہے جسے لوگ اردو فارسی کا شاعر ادیب محقق اور نہ جانے کیا کیا سمجھتے ہوں اور لوگوں کی زبانیں انہیں استاد محترم کہتے ہوئے نہ تکھتی ہوں ۔۔۔۔ نہیں ہرگز اکابر علما کے ساتھ اس قسم کا رویہ ایک شاعر ایک ادیب اور ایک صاحب علم شخص کا نہیں ہو سکتا
شکریہ جناب محترم شاکر القادری صاحب اس قدر تفصیل اور وضاحت کے ساتھ تشریح فرمانے کے لیے۔
 

نور وجدان

لائبریرین
من عرف نفسہ فقد عرف ربہ ۔۔۔۔ جس نے اپنے آپ کو پہچان لیا اس نے خدا کو پہچان لیا
معرفت نفس ہی عرفان الہی کا زینہ ہے
بلکہ میں تو
نہ عرب ہوں نہ عجمی
میرے لیے علاقائی سر حدیں کوئی معنی نہیں رکھتیں
میں ہی اول ہوں اور میں ہی آخر ہوں
======

سب سے پہلے تو بے حد شکریہ کہ آپ نے قران پاک کی سورت کا حوالہ دیا ۔۔۔۔ لفظی معانی تو آسانی سے سمجھ آجاتے ہیں ۔۔۔۔ غور کرنے پر معلوم ہوا ۔۔۔۔۔ بات تو بہت گہری ہے یعنی پرت در پرت کی بات ہے
سبحان اللہ سبحان االلہ سبحان اللہ

جو تشریح اس سورت کی میں نے پڑھی بعد محترم گرامی شاکر القادری کے بتانے کے وہ یہاں پیسٹ کر رہی ہوں



اس کا موضوع ہے جزا و سزا کا اثبات۔ اس غرض کے لیے سب سے پہلے جلیل القدر انبیاء کے مقامات ظہور کی قسم کھا کر فرمایا گیا ہے کہ اللہ تعالٰی نے انسان کو بہترین ساخت پر پیدا کیا ہے۔ اگرچہ اس حقیقت کو دوسرے مقامات پر قرآن مجید میں مختلف طریقوں سے بیان کیا گیا ہے۔ مثلاً کہیں فرمایا کہ انسان کو خدا نے زمین میں اپنا خلیفہ بنایا اور فرشتوں کو اس کے آگے سجدہ کرنے کا حکم دیا۔ ۔ کہیں فرمایا کہ انسان اُس امانتِ الٰہی کا حامل ہوا ہے جسے اٹھانے کی طاقت زمیںو آسمان اور پہاڑوںمیں بھی نہ تھی ۔ کہیں فرمایا کہ ہم نے بنی آدم کو عزت بخشی اور اپنی بہت سی مخلوقات پر فضیلت عطا کی ۔ لیکن یہاں خاص طور پر انبیاء کے مقاماتِ ظہور کی قسم کھا کر یہ فرمانا کہ انسان کو بہترین ساخت پر پیدا کیا گیا ہے، یہ معنی رکھتا ہے کہ نوع انسانی کو اِتنی بہتر ساخت عطا کی گئی کہ اس کے اندر نبوت جیسے بلند ترین منصب کے حامل لوگ پیدا ہوئے جس سے اونچا منصب خدا کی کسی دوسری مخلوق کو نصیب نہیں ہوا۔

اس کے بعد یہ بتایا گیا کہ انسان میں دو قسمیں پائی جاتی ہیں، ایک وہ جو اس بہترین ساخت پر پیدا ہونے کے بعد برائی کی طرف مائل ہوتے ہیں اور اخلاقی پستی میں گرتے گرتے اُس انتہاء کو پہنچ جاتے ہیں جہاں ان سے زیادہ نیچ کوئی دوسری مخلوق نہیں ہوتی، دوسرے وہ جو ایمان و عمل صالح کا راستہ اختیار کر کے اس گراوٹ سے بچ جاتے ہیں اور اُس مقامِ بلند پر قائم رہتے ہیں جو اُن کے بہترین ساخت پر پیدا ہونے کا لازمی تقاضا ہے۔ نوع انسانی میں اِن دو قسموں کے لوگوں کا پایا جانا ایک ایسا امر واقعی ہے جس سے انکار نہیں کیا جا سکتا، کیونکہ اس کا مشاہدہ انسانی معاشرے میں ہر جگہ ہر وقت ہو رہا ہے۔

آخر میں اس امر واقعی سے یہ استدلال کیا گیا ہے کہ جب انسانوں میں یہ دو الگ الگ اور ایک دوسرے سے قطعی مختلف قسمیں پائی جاتی ہیں تو پھر جزائے اعمال کا کیسے انکار کیا جا سکتا ہے۔ اگر پستی میں گرنے والوں کو کوئی سزا اور بلندی پر چڑھنے والوں کو کوئی اجر نہ ملے، اور انجامِ کار دونوں کا یکساں ہو، تو اس کے معنی یہ ہیں کہ خدا کی خدائی میں کوئی انصاف نہیں ہے۔ حالانکہ انسانی فطرت اور انسان کی عقلِ عام یہ تقاضا کرتی ہے کہ جو شخص بھی حاکم ہو وہ انصاف کرے۔ پھر یہ کیسے تصور کیا جا سکتا ہے کہ اللہ، جو سب حاکموں سے بڑا حاکم، ہے، وہ انصاف نہیں کرے گا۔


ب بہتریں
شکل تو انسان کی انبیاء کرام ہیں اور ان سے متعلقہ جائے عبادات کے مقامات کی قسم کھائی گئی ہے


اختلف المفسرون هاهنا على أقوال كثيرة فقيل:المراد بالتين مسجد دمشق. وقيل:هي نفسها. وقيل:الجبل الذي عندها.

وقال القرطبي:هو مسجد أصحاب الكهف .

وروى العوفي، عن ابن عباس:أنه مسجد نوح الذي على الجودي.

وقال مجاهد:هو تينكم هذا.

چونکہ عربی میں عالم فاضل نہیں مگر یہ پتا چل رہا پہلا مقام جس کی قسم کھائی گئی ہے وہ دمشق ہے ،اور اصحاب کہف ہیں جو نو سو سے زائد سال تک ایک غار میں سکونت اختیار کیے رکھے ، نیند کے غلبے کی وجہ سے

( وَالزَّيْتُونِ ) قال كعب الأحبار، وقتادة، وابن زيد، وغيرهم:هو مسجد بيت المقدس.

اور دوسرا مقام یہودیوں کی عبادت گاہ یعنی قبلہ اول ہے اور بالخصوص یہ عیسی ابن مریم علیہ اسلام سے متعلق ہے

( وَطُورِ سِينِينَ ) قال كعب الأحبار وغير واحد:هو الجبل الذي كلم الله عليه موسى.


وہ پہاڑ جس پر تجلی ہوئی ۔۔۔ جب حضرت موسی علیہ اسلام نے رب باری تعالیٰ سے کہا کہ مولی کریم میں تجھے دیکھنا چاہتا ہوں ،، حضرت موسی علیہ السلام سے متعلق ہے

والثالث:مكة، وهو البلد الأمين الذي من دخله كان آمنا، وهو الذي أرسل فيه محمدا صلى الله عليه وسلم.

اور سب سے بلند ترین مقام مکہ معظمہ ہے ۔۔۔ یہاں پر حضور پاکٖ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا ذکر ہے اور میرا خیال ان کے جد امجد حضرت ابراہیم علیہ اسلام اور حضرت اسماعیل علیہ اسلام نے بھی بطور جائے عبادت یعنی خانہ کعبہ یہاں پر بنایا ۔۔۔اور حضرت آدم علیہ اسلام نے سب سے پہلے اس کو تعمیر کیا

اگر یہ ایسا ہے تو محترم شاکر القادری ۔۔۔قران پاک کی ایک سورت کا ترجمہ کھولنے کا آپ کو نا جانے کتنا ثواب ہوگا ۔۔۔ کہ مجھ ناچیز کو کچھ کچھ پتا چل گیا

انسان برا بھی ہے اور اچھا بھی ہے
اب اس بات کو کلام بابا بلھے شاہ سے مربوط کروں تو سمجھ بھی آجاتی ہے
کہ برے انسانوں کو ذکر بھی ہے ۔۔۔ جیسا کہ ابو لہب ۔۔۔ جو آپ نے بولبی کہا ۔۔ فرعون ۔۔۔ وغیرہ


اس کو لیتے ہوئے سورت ال نشرح کی طرف دیکھوں ۔۔ جہاں سینہ کھول دینے کی بات ہوئی ۔۔۔ جہاں نبوت کے بھاری بوجھ کی بات ہوئی ،،،، نبوت کا بوجھ بھاری کیونکر ہوتا گرچہ میں نہیں جانتی مگر اللہ تعالیٰ نے وہ بوجھ آپ سے اتار دیا ۔۔۔۔۔۔ سینہ کی روایات تو شاید پڑھی کہ تین دفعہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا سینہ چاک کر دیا ۔۔۔ اور فرشتوں نے نور ڈالا ۔۔۔ دل سے تمام کثافتیں نکال دیں ۔۔۔۔میں نے جو پڑھا ہے وہ لکھ رہی ہوں بس

تو سب سے بلند تریں انسان حضؤر پاک صلی اللی علیہ والہ وسلم ہوئے جن کی تیسری خصوصیت ورفعنا لک ذکرک ہے ۔۔۔

سبحان اللہ


میں نے اوپر کچھ جملے انڈر لائن کیے ۔۔۔۔ اس سے یہ اللہ تعالی کے عادل ہونے کی صفت معلوم ہوتی ہے ۔۔ بے شک اللہ تعالیٰ ان دو صورتوں میں عدل سے کام لے گا جب ارفع اور اعلی اور اسفل کو دیکھیں گے

سوال یہ ہے جو نہ اسفل ہے اور اور نہ ارفع ۔۔۔ اس کے ساتھ فضل ہوگا یا عدل؟
اگر عدل ہوگا تو شفاعت کس کی ہوگی ۔۔۔۔ اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا جس کے دل میں جو کے برابر ، یا رتی بھر ایمان بھی ہوگا اس کو بخش دوں گا ۔۔۔۔۔ اس کے ساتھ جو کلمہ گوہ ۔۔ان کو بھی

پھر جنت اور دوذخ کے درمیان ایک مقام ہے یا ان کو وہاں رکھا جائے گا ۔۔۔۔ یہ بات اس لیے پوچھ لی کچھ اپنی فکر لگ گئی ۔۔۔۔۔


میں نے آپ کے کچھ جملے سبز رنگ کے کیے ۔۔۔ ان کا مفہوم اخذ کرنا مقصود تھا

کیا ۔۔عرفان ذات یہ ہے ۔۔۔ خود کو غائب تصور کرتے ہوئے اس پاک رب کے پاس حضوری ۔۔۔ یا کچھ اور کیونکہ اول آخر اللہ تعالی ہیں نہ کہ انسان ۔۔۔۔ ازل تا ابد وہی ذات

اور پھر بابا بلھے شاہ کا یہ شعر اس بات کا عکاس کہ انکی ذات میں معشوق بس گیا اس کا رنگ اتنا چڑھ گیا کہ ان کا اپنا رنگ مٹ گیا۔۔یہاں پر معشوق ۔۔مرشد ہیں یا ذات باری تعالی ۔۔۔؟؟ اور اگر ذات باری تعالی ہے تو میں اس کو سمجھوں بابا بلھے شاہ کو ادھر عارف با للہ کا درجہ مل گیا ؟

رانجھا رانجھا کر دی نی میں ، آپے رانجھا ہوئی
سدّو نی مینوں دھیدو رانجھا ، ہیر نہ آکھو کوئی
رانجھا میں وچ ، میں رانجھے وچ ، ہور خیال نہ کوئی
میں نہیں اوہ آپ ہے اپنی آپ کرے دل جوئی
جو کوئی ساڈے اندر وسّے ، ذات اساڈی سو ای
رانجھا رانجھا کر دی نی میں ، آپے رانجھا ہوئی
ہتھ کھونڈی میرے اگے منگو ، موڈھے بھُورا لوئی
بلّھا ہیر سلیٹی ویکھو ، کتھّے جا کھلوئی
جس دے نال میں نیونہہ لگایا ، اوہو جیہی ہوئی
تخت ہزارے لے چل بلھیا ، سیالِیں ملے نہ ڈھوئی
رانجھا رانجھا کر دی نی میں ، آپے رانجھا ہوئی

ہم جیسے لوگ رہنمائی کے طلب گار ۔۔۔ نہ الف کا پتا نہ ب کا

اپنے علم سے مزید مستفید کریں
 
آخری تدوین:

شاکرالقادری

لائبریرین
نور سعدیہ شیخ! آپ درست سمت میں سوچ رہی ہیں ۔۔۔۔ اور اسی سوچ میں انہماک اور غور فکر کو ہی مراقبہ معرفت نفس کہا جائے گا
غور کرتی رہیئے تاکہ:
افلا تدبرون ۔۔۔ افلا تفکرون ۔۔۔ اور افلا تعقلون پر عمل ہوتا رہے
سوال علم کی کنجی ہے
سوال کرنا چاہیئے اور اس کے جواب کی طلب وجستجو میں رہناچاہیئے
اور اس طلب و جستجو کے ساتھ ساتھ اپنے
رب اکبر سے ہدایت کے علاوہ
رب زدنی علما ۔۔۔ اور ۔۔۔ رب الشرح لی صدری
کی دعائیں کرتے رہنا چاہیئے
ان شأ اللہ
عرفان کے در وا ہوتے رہیں گے
آداب
 

نایاب

لائبریرین
نور سعدیہ شیخ! آپ درست سمت میں سوچ رہی ہیں ۔۔۔۔ اور اسی سوچ میں انہماک اور غور فکر کو ہی مراقبہ معرفت نفس کہا جائے گا
غور کرتی رہیئے تاکہ:
افلا تدبرون ۔۔۔ افلا تفکرون ۔۔۔ اور افلا تعقلون پر عمل ہوتا رہے
سوال علم کی کنجی ہے
سوال کرنا چاہیئے اور اس کے جواب کی طلب وجستجو میں رہناچاہیئے
اور اس طلب و جستجو کے ساتھ ساتھ اپنے
رب اکبر سے ہدایت کے علاوہ
رب زدنی علما ۔۔۔ اور ۔۔۔ رب الشرح لی صدری
کی دعائیں کرتے رہنا چاہیئے
ان شأ اللہ
عرفان کے در وا ہوتے رہیں گے
آداب
سبحان اللہ
ماشاءاللہ
بلاشبہ اک سچی نصیحت کی ہے استاد محترم شاکر القادری بھائی
بہت شکریہ بہت دعائیں
 
Top