اس ہفتے کے مہمان شاعر

طاھر جاوید

محفلین
السلام و علیکُم ورحمتہ اللہ و برکاتہ
محترم جناب محمد خلیل الرحمن صاحب کا مشکور ہوں کہ اُنہوں نے اس قابل سمجھا۔ میں خود کو اس لائق نہیں سمجھتا کہ یہاں کسی نام چین شخصیت کا حق بنتا ہے۔ میں ایک گمنام سا آدمی ہوں
نام : اظہر م
تعلق: راولپنڈی پاکستان سے
مقیم : دوحہ قطر
پیشہ : مزدوری ۔ کچھ بھی ہو بس اللہ رب العزت محتاج نہ کرے کسی کا :battingeyelashes:
شوق: یہاں اوقات سے بڑھ گیا ہوں ۔ شاہانہ سے شوق ہیں ۔ اب یہی شاعری دیکھ لیجیے۔۔۔ '' کتھے مہر علی، کتھے تیری ثنا '' اس کے علاوہ تیززززززززززز گاڑی بھگانا، لفنٹری کرنا ( آوارہ گردی) مرحومہ والدہ صاحبہ فرمایا کرتی تھیں، اللہ انہیں کروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائے، تین برس قبل دبئی میں انتقال ہوا اور وہیں مدفون ہیں
اُردو سے مجھے نفرت تھی، شائد اس لیے کہ ہمارے مدرسے میں اُردو کی برائے نام ایک کلاس ہوتی تھی اور اُردو بولنا عمومی طور پر معیوب سمجھا جاتا تھا :atwitsend: ۔ کیوں؟ اس کا کوئی جواب نہیں میرے پاس۔ پھر ایکدم چار برس پہلے اُردو سیکھنے کا شوق اچانک ہی پیدا ہوا، اور اب اپنے اساتذہ جناب محترم الف عین صاحب اور جناب رفیع اللہ صاحب کی محبتوں ، عنایتوں ، نوازشوں میں ڈوبا یہاں تک پہنچا ہوں کہ اُردو لکھ پڑھ سکوں ۔ سفر طویل ہے، چلتے رہنا ہے۔۔ جہاں تک ہوا چلے :sneaky:
بی
 

طاھر جاوید

محفلین
اک نیا سلسلہ بعنوان آج کے مہمان شاعر شروع کیا جارہا ہے، جس میں محفل کے شاعروں کا تعارف پیش کیا جائے گا اور محفلین کو دعوت دی جائے گی کہ وہ مہمان شاعر سے ان کی شاعری و دیگر موضوعات پر بات کر سکیں۔

ہمارے آج کے مہمان، اصلاح سخن کی لڑی کی رونق، خوبصورت الفاظ اور ترکیبوں کے خالق، جناب محمد اظہر نذیر ہیں جن کی ایک تازہ غزل کے چند اشعار پیشِ خدمت ہیں۔

دلرُبا اور دلنشیں ہوں گے
دل میں عاشق کے جو مکیں ہوں گے

بزم جب جب سجے گی یاروں کی
ہم جو زندہ ہوئے ، وہیں ہوں گے

ہم نہ ہوں گے تو کیا نہیں ہو گا
دوست دشمن سبھی یہیں ہوں گے

داستاں کوئی لکھ رہو ہو گا
ہم ہوئے بھی، کہیں کہیں ہوں گے

جب اُٹھیں گے گماں سے کچھ پردے
ڈگمگاتے وہا ں یقیں ہوں گے

خاک سے ہی خمیر تھا اظہر
خاک میں ہی کہیں نشیں ہوں گے
سب سے پہلے ہم جناب اظہر نذیر کو دعوت دیتے ہیں کہ وہ اپنی شخصیت اورشاعری کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کریں۔​
بہت خوب جی
 
’’عمر، ڈگریاں اور حیثیت سب ادب کی محفل سے باہر کی باتیں ہیں، ادب میں انسان کا قد بُت، عمر، حیثیت اور مرتبہ صرف ادب کی خدمت کی بنیاد پر ہوتا ہے ‘‘
آپ کا یہ جملہ بے حد پسند آیا جو ایک مسلمہ حقیقت ہے۔۔۔ کاش ہم اسے درک کر لیں۔۔۔۔۔۔
 
میرا ایک سوال ۔۔۔ ۔ کہ آپ شاعری میں جدیدیت کے حوالے سے کیا کہیں گے؟
محترم جناب ذوالفقار نقوی صاحب
شاعری میری ناقص رائے میں اُس مضراب سے مشابہت رکھتی ہے جو دل کے تاروں کو چھیڑ دے، اس میں جدت یا قدامت کا سوال نہیں اُٹھنا چاہئے، ہاں البتہ جیسا کہ غزل جن کی ایجاد ہے اُن کا ایک خاص مقصد تھا ہمیں ہرممکن کوشش کرنا چاہئے کہ غزل اُنہی حدود و قیود کے درمیان کھیلنے کا نام ہو۔ ہم اگر مضامین میں ترمیم کرنا چاہیں یا اسلوب بدلنا چاہیں تو اُسے اپنی کا پسند کا کوئی اور نام کیوں نہ دیں؟ ہمیں کیوں اصرار ہو کہ ہم اُس نئی روش کو بھی غزل ہی کہ کر پکاریں؟
مان لیتے ہیں کہ مضامین پامال ہو چکے ہیں، اسلوب تو نہیں؟ انداز تو نہیں؟ کیا ہم سب کچھ نئے سرے سے کہنے کے لائق بھی نہیں؟
یہ جو جدت کے نام پر قبروں میں لیٹے مردوں تک کی باتیں کی جاتی ہیں ، یہ نامناسب ہیں میرے خیال سے، جدت مادر پدر آزاد نہیں ہونا چاہئے
رہا سوال کہ لوگ لکھ رہے ہیں جدید انداز میں، کچھ بُرائی نہیں اس میں کہ آخر میں عزت اور ذلت تو اللہ کے ہاتھ میں ہے اور مقبولیت جس انداز کو حاصل ہو گی وہ پائندہ رہے گا، باقی گرد آلود کتابوں میں دفن ہو جانا ہے۔ :angel:
 
محمد اظہر نذیر صاحب۔۔ بعض شعرا جدیدیت کو لیکر بہت ہنگامہ کھڑے کئے ہوئے نظر آتے ہیں۔۔ اور ایسوں میں بعض کے ہاں تو صرف کچھ نیا کرنے یا کہنے کی دھن میں بے معنی بھی در آئی ہے۔ میں نے فیس بک پر ایک گروپ بنا کر چند نامور شعرا جن میں محترم عرفان ستار صاحب، جناب رفیق راز صاحب، جناب رحمان حفیظ، جناب ادریس آزاد ، جناب ایاز رسول نازکی ، وغیرہ وغیرہ شامل ہیں ، کے انٹرویو بھی لئے ، جو اب بھی میرے پاس محفوظ ہیں۔اور میں اِن تمام سے یہ سوال کیا لیکں سب سے مختلف جواب پایا۔
 
محمد اظہر نذیر صاحب۔۔ بعض شعرا جدیدیت کو لیکر بہت ہنگامہ کھڑے کئے ہوئے نظر آتے ہیں۔۔ اور ایسوں میں بعض کے ہاں تو صرف کچھ نیا کرنے یا کہنے کی دھن میں بے معنی بھی در آئی ہے۔ میں نے فیس بک پر ایک گروپ بنا کر چند نامور شعرا جن میں محترم عرفان ستار صاحب، جناب رفیق راز صاحب، جناب رحمان حفیظ، جناب ادریس آزاد ، جناب ایاز رسول نازکی ، وغیرہ وغیرہ شامل ہیں ، کے انٹرویو بھی لئے ، جو اب بھی میرے پاس محفوظ ہیں۔اور میں اِن تمام سے یہ سوال کیا لیکں سب سے مختلف جواب پایا۔
ذوالفقار نقوی صاحب
ہم دیسیوں کے ساتھ ایک بہت بڑی مشکل ہے، یا شائد یوں کہوں تو بہتر ہو گا کہ میری ناقص رائے میں ایسا ہے کہ جانچ پڑتال کے اصول و ضوابط وضع کرنے کے بعد بھی پرکھنے پہ جب آتے ہیں تو اپنی اپنی ذاتی کسوٹیوں سے پرکھے بغیر کسی بھی زیر پرکھ موضوع کو پزیرائی نہیں بخشتے، آپ نے جن مشاہیر کا نام لیا ہے وہ سب کے سب اگر کسی ایک مستند تحریر کو بھی پرکھیں گے تو اُن کا نتیجہ ایک دوجے سے یکسر مختلف ہو گا۔
گوروں کے ہاں یہ بات نہیں ہوتی اور اگر ہوتی ہے تو صرف بند کمروں میں احباب کے درمیان۔ گویا اعلانیہ جب وہ پرکھتے ہیں کسی بھی شے کو تو صرف اور صرف مروج معلوم کسوٹیوں پر اور رائے دیتے وقت کہیں بھی '' میں '' دکھائی نہیں دیتی
 
جناب رحمان حفیظ صاحب کا جواب کہ ندرت ِِ شعری یا جدت کیا ہے۔۔۔۔
’’
ﺟﺪﺕ ﻭﯾﺴﮯ ﺗﻮ ﺍﯾﮏ ﻣﻌﺮﻭﺿﯽ ﺍﺻﻄﻼﺡ ﮨﮯ ۔ ﮨﺮ
ﻗﺪﯾﻢ ﭼﯿﺰ ﮐﺒﮭﯽ ﻧﮧ ﮐﺒﮭﯽ ﺟﺪﯾﺪ ﺭﮨﯽ ﮨﻮ ﮔﯽ۔ ﻟﯿﮑﻦ
ﺷﺎﻋﺮﯼ ﻣﯿﮟ ﺟﺪﺕ ﺳﮯ ﻣﺮﺍﺩ ﮐﻠﯿﺸﮯ ﺳﮯ ﻧﺠﺎﺕ
ﮨﮯ۔
ﮐﻠﯿﺸﮯ ﺍﻥ ﺭﭨﮯ ﺭﭨﺎﺋﮯ ﺍﻟﻔﺎﻅ ﺍﻭﺭ ﻣﺮﮐﺒﺎﺕ ﺳﮯ
ﺍﻧﺪﮬﺎ
ﺩﮬﻨﺪ ﺍﺳﺘﻔﺎﺩﮮ ﮐﺎ ﻧﺎﻡ ﮨﮯ ﺟﻮ ﺍﺳﺘﻌﻤﺎﻝ ﮐﯽ ﺯﯾﺎﺩﺗﯽ
ﮐﮯ ﺑﺎﻋﺚ ﺍﭘﻨﮯ ﻣﻌﺎﻧﯽ ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﻃﺮﺡ ﺣﺴﺎﺱ ﻧﮩﯿﮟ
ﺭﮨﮯ ﮐﮧ ﺫﮨﻨﻮﮞ ﭘﺮ ﺍﺳﺼﺪﺍﻗﺖ ﺍﻭﺭ ﺷﺪﺕ ﺳﮯ ﺍﺛﺮ
ﺍﻧﺪﺍﺯ ﮨﻮﮞ ﺟﺲ ﻃﺮﺡ ﺍﭘﻨﮯ ﺍﺳﺘﻌﻤﺎﻝ ﮐﮯ ﺁﻏﺎﺯ ﻣﯿﮟ
ﺗﮭﮯ۔ ﺁﭖ ﺳﻮﭼﺌﮯ ﮐﮧ ﺟﺐ ﮐﺴﯽ ﺷﺎﻋﺮ ﻧﮯ ﺗﺎﺭﯾﺦ
ﻣﯿﮟ ﭘﮩﻠﯽ ﺑﺎﺭ ﻣﺤﺒﻮﺏ ﮐﮯ ﮨﻮﻧﭩﻮﮞ ﮐﻮ ﭘﮭﻮﻝ ﯾﺎ ﮐﻠﯽ
ﺳﮯ ﺗﺸﺒﯿﮩﮧ ﺩﯼ ﮨﻮ ﮔﯽ ﺗﻮ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺷﮩﺮﺕ ﭼﮩﺎﺭ
ﺩﺍﻧﮓِ ﻋﺎﻟﻢ ﻣﯿﮟ ﭘﮭﯿﻞ ﮔﺌﯽ ﮨﻮ ﮔﯽ۔ ﺍﯾﮏ ﻋﻤﺮ ﺗﮏ
ﻟﻮﮒ ﺍﺱ ﻟﻔﻆ ﮐﻮ ﺍﭘﻨﮯ ﻣﺤﺒﻮﺏ ﮐﮯ ﮨﻮﻧﭩﻮﮞ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ
ﺍﺳﺘﻌﻤﺎﻝ ﮐﺮﻧﮯ ﭘﺮﮨﭽﮑﭽﺎﺗﮯ ﮨﻮﮞ ﮔﮯ ﺟﯿﺴﮯ ﺍﺱ
ﻟﻔﻆ ﭘﺮ ﺍﻭﻟﯿﮟ ﺍﺳﺘﻌﻤﺎﻝ ﻭﺍﻟﮯ ﺷﺎﻋﺮ ﮐﯽ ﺣﻖ ﮐﯽ
ﻣﮩﺮ ﺛﺒﺖ ﮨﻮ ﭼﮑﯽ ﮨﻮ۔ ﭘﮭﺮ ﯾﮧ ﻟﻔﻆ ﻋﺎﻡ ﺍﺳﺘﻌﻤﺎﻝ ﮨﻮ
ﻧﺎ ﺷﺮﻭﻉ ﮨﻮ ﮔﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﺏ ﮨﺮ ﮐﻮﺋﯽ ﺍﺳﮯ ﻧﮩﺎﯾﺖ ﺑﮯ
ﺣﺴﯽ ﺳﮯ ﮐﮩﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﮐﺴﯽ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﺑﮭﯽ ﺍﺳﺘﻌﻤﺎﻝ
ﮐﺮ ﻟﯿﺘﺎ ﮨﮯ ﺗﻮ ﺍﮐﺜﺮ ﺍ ﺱ ﮐﺎ ﺍﺳﺘﻌﻤﺎﻝ ﺟﺬﺑﺎﺗﯽ ﺳﻄﺢ
ﭘﺮ ﻧﮩﯿﮟ ﮨُﻮﺍ ﮨﻮﺗﺎ۔ ﯾﮩﯽ ﺑﺎﺕ ﺍﻣﯿﺠﺮﯼ ﭘﺮ ﺻﺎﺩﻕ ﺁﺗﯽ
ﮨﮯ۔ ﺍﮔﺮﭼﮧ ﯾﮧ ﺍﯾﮏ ﺧﻮﺑﯽ ﮨﮯ ﻣﮕﺮ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﺑﻌﺾ
ﺷﻌﺮﺍ ﻣﺤﺾ ﺍﻣﯿﺠﺴﭧ ﮨﻮﺗﮯﮨﻨﮟ ﺍﻭﺭ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﺍﺗﻨﺎﺑﮭﯽ
ﻋﻠﻢ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺗﺎ ﮐﮧ ﺍﻥ ﮐﯽ ﺑﯿﺸﺘﺮ ﺍﻣﯿﺠﺰ ﭘﮩﻠﮯ ﺑﮭﯽ
ﺍﺳﺘﻌﻤﺎﻝ ﮨﻮﺗﯽ ﺁﺋﯽ ﮨﯿﮟ۔ ﺟﺪﺕ ﺩﺭ ﺍﺻﻞ ﻣﻮﺿﻮﻋﺎﺕ
ﺑﺪﻟﻨﮯ ﮐﺎ ﻧﺎﻡ ﮨﮯ ﻟﯿﮑﻦ ﭼﻮﻧﮑﮧ ﮨﻤﯿﺸﮧ ﻧﺌﮯ
ﻣﻮﺿﻮﻋﺎﺕ
ﮐﯽ ﺗﻼﺵ ﻣﻤﮑﻦ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺗﯽ ﺗﻮ ﮨﻢ ﯾﮧ ﮐﺎﻡ ﻧﺌﮯ
ﻋﻼﻣﺘﯽ ﻧﻈﺎﻡ ﮐﯽ ﺩﺭﯾﺎﻓﺖ ﺳﮯ ﻟﮯ ﺳﮑﺘﮯ ﮨﯿﮟ ، ﯾﮧ
ﺑﮭﯽ ﺁﺳﺎﻥ ﮐﺎﻡ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ ﻣﮕﺮ ﺁﺧﺮ ﮐﮩﯿﮟ ﻧﮧ ﮐﮩﯿﮟ
ﺳﮯ ﺗﻮ ﮐﻮ ﺷﺶ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﺮﻧﯽ ﮨﯽ ﭘﮍﮮ ﮔﯽ۔ ﺍﺱ
ﺳﻠﺴﻠﮯ ﻣﯿﮟ ﻇﻔﺮ ﺍﻗﺒﺎﻝ ﮐﯽ ﻣﺜﺎﻝ ﺳﺐ ﮐﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ
ﮨﮯ، ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﻏﺰﻝ ﮐﯽ ﺣﯿﺎﺕِ ﻧﻮ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﺑﯿﺮﺋﯿﺮ
ﺗﻮﮌﻧﮯ ﮐﯽ ﺗﺪﺑﯿﺮ ﮐﯽ ، ﺍﮔﺮ ﭼﮧ ﺍﻥ ﮐﮯ ﺑﻌﺾ
ﺗﺠﺮﺑﺎﺕ ﺷﺮﻭﻉ ﻣﯿﮟ ﺑﮩﺖ ﺑﮭﻮﻧﮉﮮ ﺍﻭﺭ ﻋﺠﯿﺐ ﻟﮕﺘﮯ
ﺗﮭﮯ ﻣﮕﺮ ﺁﮨﺴﺘﮧ ﺁﮨﺴﺘﮧ ﺍﻥ ﮐﯽ ﮐﭽﮫ ﻟﺴﺎﻧﯽ
ﺗﺸﮑﯿﻼﺕ ، ﮐﺌﯽ ﻓﮑﺮﯼ ﺗﺎﻭﯾﻼﺕ ﺍﻭﺭﺑﻌﺾ ﺗﻨﻘﯿﺪﯼ
ﻧﻈﺮﯾﺎﺕ ﮐﻮ ﺑﮭﯽ ﻗﺒﻮﻟﯿﺖ ﺣﺎﺻﻞ ﮨﻮ ﺭﮨﯽ ﮨﮯ ۔‘‘
    
 

جاسمن

لائبریرین
محمد خلیل الرحمٰن بھائی۔ آپ نے اچھا سلسلہ شروع کیا ہے۔ محمد اظہر نذیر کی شاعری خوبصورت ہے۔ اور جو انھوں نے لِکھا وہ اور بھی زیادہ خوبصورت۔ :applause: اِس سے محسوس ہو رہا ہے کہ وہ نثر بھی اچھی لکھ سکتے ہیں۔:waiting:
جناب میں جب خود کو دیکھتا ہوں اور دوسروں سے اپنا موازنہ کرتا ہوں تو اپنا لکھا بہت کمتر محسوس ہوتا ہے، دنیا میں ایک سے ایک عالم موجود ہے اور یہی حال شاعری میں بھی ہے۔ ابھی تک جو میں لکھتا ہوں اُس میں بےشمار اغلاط ہوتی ہیں، اور اُن کا اندازہ میرے محترم اُستاد کی توجہ سے پہلے ہی مجھے ہونا شروع ہو جاتا ہے جب میں ایک ناقدانہ نگاہ اپنی ہی ارسال کردہ کاوش پر ڈالتا ہوں۔ کوشش ہوتی ہے کہ اُستاد محترم کے دیکھنے سے پہلے اُسے کسی حد تک قابل قبول بنا لوں۔
پابند بحور شاعری میں انشا اللہ جب میرے اُستاد مجھے اجازت دیں گے، اُس کے بعد لگانا شروع کروں گا جی
عاجزی و انکساری۔۔۔۔اُستاد کا ادب۔ماشاءاللہ۔
 
محمد خلیل الرحمٰن بھائی۔ آپ نے اچھا سلسلہ شروع کیا ہے۔ محمد اظہر نذیر کی شاعری خوبصورت ہے۔ اور جو انھوں نے لِکھا وہ اور بھی زیادہ خوبصورت۔ :applause: اِس سے محسوس ہو رہا ہے کہ وہ نثر بھی اچھی لکھ سکتے ہیں۔:waiting:

عاجزی و انکساری۔۔۔ ۔اُستاد کا ادب۔ماشاءاللہ۔
نثری کاوشیں بھی ارسال کر چکا ہوں جی :warzish: اگر فرصت ملے تو ایک نظر :chill:
http://www.urduweb.org/mehfil/threads/بادل-دھوپ-میں-جلتا-رہا.61345/
http://www.urduweb.org/mehfil/threads/دھت-ترے-کی-by-azharm.61952/
http://www.urduweb.org/mehfil/threads/اُس-کے-جوتوں-میں.63945/
http://www.urduweb.org/mehfil/threads/ادھوری-دانش-اظہر-م-کے-قلم-سے.64634/
http://www.urduweb.org/mehfil/threads/کونٹریکٹ،-اظہر-م-کے-قلم-سے.65107/
ابھی اتنے ہی کافی نا :embarrassed1:
 

جاسمن

لائبریرین
محمداظہر نذیر بھائی ! اِنشاءاللہ ضرور پڑھوں گی۔ آپ کے اِنٹرویو سے لگتا ہے (اور اِنشاءاللہ ایسا ہی ہو گا) کہ آپ میں فخر و بڑائی کی بجائے عاجزی و اِنکساری کی خوبصورت (آجکل معدوم ہوتی ہوئی )صفت پائی جاتی ہے۔ مہربانی فرما کر(پلیز کا اردو ترجمہ ذرا طنزیہ محسوس ہوتا ہے، لیکن میں اِس لفظ کو مثبت اِستعمال کرتی ہوں) اگر اپنے دستخط پر نظرِ ثانی کر لیں تو کیا ہی بات ہے۔ یہ عادت بعینہٖ مُجھ میں پائی جاتی تھی۔ اور میں ذرا سی بھی اِس طرح کی حرکت کروں، اللہ فوراً مُجھے سزا دیتا ہے۔ آپ کو کہہ رہی ہوں اور اللہ سے شرمندہ ہو رہی ہوں کہ یہ عادت ابھی تک مکمل طور پہ ختم نہیں ہو سکی۔ اللہ ہمیں اپنی نظروں میں چھوٹا اور دُوسروں کی نظر میں بڑا بنائے۔ آمین!
 
محمداظہر نذیر بھائی ! اِنشاءاللہ ضرور پڑھوں گی۔ آپ کے اِنٹرویو سے لگتا ہے (اور اِنشاءاللہ ایسا ہی ہو گا) کہ آپ میں فخر و بڑائی کی بجائے عاجزی و اِنکساری کی خوبصورت (آجکل معدوم ہوتی ہوئی )صفت پائی جاتی ہے۔ مہربانی فرما کر(پلیز کا اردو ترجمہ ذرا طنزیہ محسوس ہوتا ہے، لیکن میں اِس لفظ کو مثبت اِستعمال کرتی ہوں) اگر اپنے دستخط پر نظرِ ثانی کر لیں تو کیا ہی بات ہے۔ یہ عادت بعینہٖ مُجھ میں پائی جاتی تھی۔ اور میں ذرا سی بھی اِس طرح کی حرکت کروں، اللہ فوراً مُجھے سزا دیتا ہے۔ آپ کو کہہ رہی ہوں اور اللہ سے شرمندہ ہو رہی ہوں کہ یہ عادت ابھی تک مکمل طور پہ ختم نہیں ہو سکی۔ اللہ ہمیں اپنی نظروں میں چھوٹا اور دُوسروں کی نظر میں بڑا بنائے۔ آمین!
جی ابھی لیجئے
 
Top