ایک اور....
پھر وہی دل تھا، وہی ماتم، وہی درد و قلق
خواب تھا جو کچھ کہ دیکھا جو سنا افسانہ تھا
یہ شعر قلق میرٹھی کا ہے
میں کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کرؤں
ایک تو اس کو مکمل کر ے اور یہ بھی بتا دے یہ شعر کس کا ہے
قیس جنگل میں اکیلا ہے مجھے جانے دو
خوب گزرے گی جو مل بیٹھیں گے دیوانے دو
یہ شعر غالب کے شاگرد میاں داد خان سیاح کا ہے
اور یہ مصرع۔۔ اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں، میں نے یہاں محفل میں ہی بار بار استعمال ہوتے دیکھا تھا۔ یہ کس طرح پاکستان میں مقبول ہوا ، علم نہیں، شاعر تو معروف نہیں اور نہ شعر ہی ایسا خاص ہے۔
اور یہ شعر کس کا ہے، اس کا بھی مجھے علم تھا اب یاد نہیں آ رہا
غزلاں تم تو واقف ہو کہو مجنوں کے مرنے کی
دوانہ مر گیا آخر تو ویرانے پہ کیا گزری