مہوش علی
لائبریرین
باب ٢[FONT=Thorndale, Times New Roman, serif]: [/FONT]کیا رسول اللہ [FONT=Thorndale, Times New Roman, serif]([/FONT]ص[FONT=Thorndale, Times New Roman, serif]) [/FONT]ہماری مدد کر سکتے ہیں اور کیا ہمیں کوئی فائدہ پہنچا سکتے ہیں؟
اہلحدیث حضرات کا دعویٰ ہے کہ رسول اللہ (ص) نی ہماری کوئی مدد کر سکتے ہیں اور نہ ہی کوئی فائدہ پہنچا سکتے ہیں۔ اور اگر کوئی مسلمان رسول اللہ (ص) سے مدد اور فائدہ طلب کرتا ہے تو وہ مشرک بن جائے گا۔ اور ثبوت کے طور پر وہ یہ آیت پیش کرتے ہیں۔
إِيَّاكَ نَعْبُدُ وإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ
(القران ١:٥) ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں۔
اور اسی طرح یہ آیت
إِيَّاكَ نَعْبُدُ وإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ
(القران ١:٥) ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں۔
اور اسی طرح یہ آیت
قُلْ أَنَدْعُو مِن دُونِ اللّهِ مَا لاَ يَنفَعُنَا وَلاَ يَضُرُّنَا
(القران ٦:٧١) تو کیا ہم اللہ کے سوا ایسوں کو پکاریں جو کہ ہمیں کوئی فائدہ پہنچا سکیں اور نہ کوئی نقصان۔
اہلحدیث حضرات کی اس تفسیر میں مندرجہ ذیل خامیاں ہیں:
١) یہ قران اور سنت کا صرف وہ حصہ لیتے ہیں جو کہ ان کے عقائد اور خواہشات کے مطابق ہوتا ہے جبکہ قران و سنت کا وہ حصہ جو کہ ان کی خواہشات کے خلاف جا رہا ہوتا ہے، اسے یہ صاف نظر انداز کر جاتے ہیں یا چھپا جاتے ہیں۔
در حقیقت ایسی اور بہت سی قرانی آیات اور احادیث ہیں جو کہ یہ ثابت کر رہی ہیں کہ ایک مسلمان کو اللہ کی طرف سے اس بات کی اجازت ہے (بلکہ ترغیب دی گئی ہے) کہ وہ رسول اللہ (ص) اور اولیاء اللہ اور شعائر اللہ سے بھی مدد اور فائدہ طلب کرے۔
٢) دوسرا یہ کہ اہلحدیث حضرات یہ یقین رکہتے ہیں کہ پورا قران صرف ظاہر ہے اور اس میں کوئی مجاز نہیں ہے۔ جب کی حقیقت یہ ہے کہ قران میں دونوں قسم کے ظاہری اور مجازی کلمات پائے جاتے ہیں۔ اس لیے اللہ تعالیٰ کے ان مقدس الفاظ کی تفسیر اس فرق کو ملحوظَ خاطر رکہ کر کرنی پڑے گی۔ اور اگر ہم ایسا نہیں کریں گے تو قران میں کئی جگہ تضاد پیدا ہو جائے گا۔
یہ بہت اہم ہے کہ ہم اوپر بیان کیے گئے ان دو نکات کو اچھی طرح سمجھ لیں۔ آئیے اس بات کو مزید اچھی طرح سمجھنے کے لیے قران سے کچھ مثالیں دیکھتے ہیں۔
موت کے وقت کون روحیں قبض کرتا ہے؟(القران ٦:٧١) تو کیا ہم اللہ کے سوا ایسوں کو پکاریں جو کہ ہمیں کوئی فائدہ پہنچا سکیں اور نہ کوئی نقصان۔
اہلحدیث حضرات کی اس تفسیر میں مندرجہ ذیل خامیاں ہیں:
١) یہ قران اور سنت کا صرف وہ حصہ لیتے ہیں جو کہ ان کے عقائد اور خواہشات کے مطابق ہوتا ہے جبکہ قران و سنت کا وہ حصہ جو کہ ان کی خواہشات کے خلاف جا رہا ہوتا ہے، اسے یہ صاف نظر انداز کر جاتے ہیں یا چھپا جاتے ہیں۔
در حقیقت ایسی اور بہت سی قرانی آیات اور احادیث ہیں جو کہ یہ ثابت کر رہی ہیں کہ ایک مسلمان کو اللہ کی طرف سے اس بات کی اجازت ہے (بلکہ ترغیب دی گئی ہے) کہ وہ رسول اللہ (ص) اور اولیاء اللہ اور شعائر اللہ سے بھی مدد اور فائدہ طلب کرے۔
٢) دوسرا یہ کہ اہلحدیث حضرات یہ یقین رکہتے ہیں کہ پورا قران صرف ظاہر ہے اور اس میں کوئی مجاز نہیں ہے۔ جب کی حقیقت یہ ہے کہ قران میں دونوں قسم کے ظاہری اور مجازی کلمات پائے جاتے ہیں۔ اس لیے اللہ تعالیٰ کے ان مقدس الفاظ کی تفسیر اس فرق کو ملحوظَ خاطر رکہ کر کرنی پڑے گی۔ اور اگر ہم ایسا نہیں کریں گے تو قران میں کئی جگہ تضاد پیدا ہو جائے گا۔
یہ بہت اہم ہے کہ ہم اوپر بیان کیے گئے ان دو نکات کو اچھی طرح سمجھ لیں۔ آئیے اس بات کو مزید اچھی طرح سمجھنے کے لیے قران سے کچھ مثالیں دیکھتے ہیں۔
آیت ٣٩:٤٢ میں اللہ کہہ رہا ہے کہ یہ وہ ہے جو موت کے وقت روحیں قبض کرتا ہے۔
اللَّهُ يَتَوَفَّى الْأَنفُسَ حِينَ مَوْتِهَا
(آیت ٣٩:٤٢) یہ اللہ ہے جو موت کے وقت (انسانوں) کی روحیں قبض کرتا ہے۔
مگر دوسری جگہ اللہ، اسی قران میں یہ فرما رہا ہے کہ یہ فرشتے ہیں جو کہ موت کے وقت روحیں قبض کرتے ہیں۔
إِنَّ الَّذِينَ تَوَفَّاهُمُ الْمَلآئِكَةُ ظَالِمِي أَنْفُسِهِمْ
(آیت ٤:٩٧) اور جب فرشتے ان کی روحوں کو قبض کرتے ہیں اس حالت میں کہ وہ اپنی جانوں پر ظلم کر رہے تھے۔۔۔۔
تو کیا یہ شرک ہو گا اگر یہ کہا جائے کہ یہ فرشتے ہیں جو کہ ہماری روحوں کو قبض کرتے ہیں؟ یا پھر ہم یہ یقین کریں کہ معاذ اللہ قران میں تضاد ہے؟
یقیناً ایسا نہیں ہے۔ مگر اس بات کو سمجھنے کے لیے ہمیں مندرجہ ذیل اصول کو یاد رکہنا پڑے گا۔
اصول: یہ شرک ہے اور نہ ہی قران میں تضاد، بلکہ جب اللہ کہہ رہا ہے کہ یہ وہ ہے جو کہ موت کے وقت روحیں قبض کرتا ہے تو اس میں فرشتے پہلے سے ہی مجازی طور پر شامل ہیں اور وہ اللہ کی اجازت سے روحیں قبض کرتے ہیں۔
اسی طرح کا مسئلہ رسول اللہ (ص) سے مدد اور فائدہ طلب کرنا بھی ہے۔ قران کی کچھ آیات ہیں جن میں اللہ کہہ رہا ہے کہ وہ مطلقاً معنوں میں اکیلا مددگار ہے اور یہ کہ وہ بطور مددگار کافی ہے۔ اہلحدیث حضرات صرف یہ آیات نقل کر کے دعویٰ کرتے ہیں کہ رسول اللہ (ص) سے مدد اور فائدہ طلب کرنا شرک ہے۔
مگر افسوسناک بات یہ ہے کہ ایسا کرتے ہوئے وہ دوسری تمام قرانی آیات اور احادیث کو بال چھپا جاتےہیں یا پھر بالکل نظر انداز کر جاتے ہیں جو کہ یہ بیان کر رہی ہیں کہ اللہ نے مسلمانوں کو یہ اجازت دی ہے کہ وہ اولیاء اللہ اور شعائر اللہ سے مدد اور فائدہ طلب کریں اور چیزیں اللہ کے حکم اور اجازت سے مسلمانوں کی مدد کر سکتی ہیں اور فائدہ پہنچا سکتی ہیں۔ اور ان کے وسیلے سے مدد طلب کرنا حقیقی معنوں میں اللہ سے ہی مدد طلب کرنا ہے۔
اہلحدیث حضرات جان بوجھ کر ان آیات اور احادیث کو چھپاتے ہیں کیونکہ یہ آیات اور احادیث ان کے عقائد کی بالکل ضد ہیں۔
کیا اللہ اکیلا ولی ہے اور کیا وہ بطور ولی کافی ہے اور کیا اس کے باوجود رسول (ص) کو ولی ماننا شرک ہے؟اللَّهُ يَتَوَفَّى الْأَنفُسَ حِينَ مَوْتِهَا
(آیت ٣٩:٤٢) یہ اللہ ہے جو موت کے وقت (انسانوں) کی روحیں قبض کرتا ہے۔
مگر دوسری جگہ اللہ، اسی قران میں یہ فرما رہا ہے کہ یہ فرشتے ہیں جو کہ موت کے وقت روحیں قبض کرتے ہیں۔
إِنَّ الَّذِينَ تَوَفَّاهُمُ الْمَلآئِكَةُ ظَالِمِي أَنْفُسِهِمْ
(آیت ٤:٩٧) اور جب فرشتے ان کی روحوں کو قبض کرتے ہیں اس حالت میں کہ وہ اپنی جانوں پر ظلم کر رہے تھے۔۔۔۔
تو کیا یہ شرک ہو گا اگر یہ کہا جائے کہ یہ فرشتے ہیں جو کہ ہماری روحوں کو قبض کرتے ہیں؟ یا پھر ہم یہ یقین کریں کہ معاذ اللہ قران میں تضاد ہے؟
یقیناً ایسا نہیں ہے۔ مگر اس بات کو سمجھنے کے لیے ہمیں مندرجہ ذیل اصول کو یاد رکہنا پڑے گا۔
اصول: یہ شرک ہے اور نہ ہی قران میں تضاد، بلکہ جب اللہ کہہ رہا ہے کہ یہ وہ ہے جو کہ موت کے وقت روحیں قبض کرتا ہے تو اس میں فرشتے پہلے سے ہی مجازی طور پر شامل ہیں اور وہ اللہ کی اجازت سے روحیں قبض کرتے ہیں۔
اسی طرح کا مسئلہ رسول اللہ (ص) سے مدد اور فائدہ طلب کرنا بھی ہے۔ قران کی کچھ آیات ہیں جن میں اللہ کہہ رہا ہے کہ وہ مطلقاً معنوں میں اکیلا مددگار ہے اور یہ کہ وہ بطور مددگار کافی ہے۔ اہلحدیث حضرات صرف یہ آیات نقل کر کے دعویٰ کرتے ہیں کہ رسول اللہ (ص) سے مدد اور فائدہ طلب کرنا شرک ہے۔
مگر افسوسناک بات یہ ہے کہ ایسا کرتے ہوئے وہ دوسری تمام قرانی آیات اور احادیث کو بال چھپا جاتےہیں یا پھر بالکل نظر انداز کر جاتے ہیں جو کہ یہ بیان کر رہی ہیں کہ اللہ نے مسلمانوں کو یہ اجازت دی ہے کہ وہ اولیاء اللہ اور شعائر اللہ سے مدد اور فائدہ طلب کریں اور چیزیں اللہ کے حکم اور اجازت سے مسلمانوں کی مدد کر سکتی ہیں اور فائدہ پہنچا سکتی ہیں۔ اور ان کے وسیلے سے مدد طلب کرنا حقیقی معنوں میں اللہ سے ہی مدد طلب کرنا ہے۔
اہلحدیث حضرات جان بوجھ کر ان آیات اور احادیث کو چھپاتے ہیں کیونکہ یہ آیات اور احادیث ان کے عقائد کی بالکل ضد ہیں۔
بیشک اللہ مطلقاً معنوں میں اکیلا ولی ہے اور بیشک وہ بطور ولی کافی ہے۔
لَّيْسَ بِأَمَانِيِّكُمْ وَلا أَمَانِيِّ أَهْلِ الْكِتَابِ مَن يَعْمَلْ سُوءًا يُجْزَ بِهِ وَلاَ يَجِدْ لَهُ مِن دُونِ اللّهِ وَلِيًّا
(القران ٤:١٢٣) ۔۔۔ اور جو کوئی بھی برا کام کرے گا، بہرحال اسے اس کی سزا ملے گی اور وہ اللہ کے سوا نہ پائے گا کوئی ولی۔۔۔۔
اسی طرح یہ آیت:
وَاللّهُ أَعْلَمُ بِأَعْدَائِكُمْ وَكَفَى بِاللّهِ وَلِيًّا
(القران ٤:٤٥) اور اللہ کو تمہارے دشمنوں کی خوب خبر ہے۔ اور اللہ بطور ولی کافی ہے۔
مگر اللہ اسی قران میں دوسری جگہ فرما رہا ہے کہ وہ ولی ہے اور اس کے ساتھ اس کا رسول بھی مسلمانوں کا ولی ہے اور وہ صالح مومنین بھی ولی ہیں جو کہ حالت۔ رکوع میں زکوۃ دیتے ہیں (اشارہ ہے مولا علی علیہ الصلوۃ و السلام کی طرف جب انہوں نے حالت۔ رکوع میں سائل کو اپنی انگوٹھی زکوۃ میں دی تھی)۔
إِنَّمَا وَلِيُّكُمُ اللّهُ وَرَسُولُهُ وَالَّذِينَ آمَنُواْ الَّذِينَ يُقِيمُونَ الصَّلاَةَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَهُمْ رَاكِعُونَ
(القران ٥:٥٥) تمہارا ولی تو بس اللہ ہے، اور اس کا رسول اور وہ جو ایمان رکہتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں اور حالت۔ رکوع میں زکوۃ ادا کرتے ہیں۔
اسی طرح آیت ملاحظہ فرمائیے:
وَمَن يَتَوَلَّ اللّهَ وَرَسُولَهُ وَالَّذِينَ آمَنُواْ فَإِنَّ حِزْبَ اللّهِ هُمُ الْغَالِبُونَ
(القران ٥:٥٦) اور جو اللہ کو اور اس کے رسول کو اور مومنین کو اپنا ولی بناتے ہیں تو بیشک اللہ کی جماعت ہی غالب آنے والی ہے۔
تو ان آیات کی موجودگی میں کیا یہ کہنا اللہ کی ذات میں شرک کرنا ہو گا کہ رسول اللہ (ص) اور دوسرے ایمان والے بھی اللہ کے ساتھ ساتھ ہمارے ولی ہیں؟
اور کیا ان کو ولی بنانے سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ اللہ بطور ولی کافی نہ تھا، اسی لیےاللہ کو ضرورت پڑی کہ اپنے ساتھ ساتھ دوسروں کو بھی ھمارا ولی قرار دے؟
اس سوال کا آسان اور سیدھا جواب یہ ہے کہ اہلحدیث حضرات کے دعویٰ کے برخلاف کہ پورا قران ظاہر ہے، بیشک قران میں کچھ آیات ایسی بھی ہیں جن کے مجازی معنی بھی ہیں اور اگر ان کو مجازی معنوں میں نہ سمجھا جائے تو یقیناً قران میں تضاد پیدا ہو جائے گا۔
اصول: جب اللہ کہہ رہا ہے کہ وہ اکیلا ولی ہے اور بطور ولی کے کافی ہے، تو رسول (ص) اور مومنین بھی مجازی طور پر اس میں شامل ہیں۔
اہلحدیث پالیسی: آپ دیکہیں گے کہ اہلحدیث حضرات صرف وہ آیات نقل کر رہے ھوں گے جس میں اللہ کہہ رھا ہے کہ وہ اکیلا ولی ہے یا پھر یہ کہ وہ بطور ولی کے کافی ہے۔ اور یہ آیات نقل کرنے کا (اور دوسری آّیات کو چھپانے کا) مقصد یہ ہوتا ہے اہلحدیث حضرات یہ تاثر قائم کرنا چاہتے ہیں کہ یہ شرک ہے کہ رسول اللہ (ص) کو ولی بنایا جائے۔
بدقسمتی سے ھمارے وہ مسلمان بھائی اور بہنیں جو کہ قران پر اتنا عبور نہیں رکہتے، وہ اہلحدیث حضرات کے اس دھوکے کا آسانی سے شکار ہو جاتے ہیں اور خیال کرنا شروع کر دیتے ہیں کہ ولی تو صرف اللہ ہے اور وہ مسلمان برادران جو کہ رسول کو بھی ولی بناتے ہیں، وہ شرک کر رہے ہیں۔
کیا مولا علی (ع) کو مولا کہنا شرک ہے؟لَّيْسَ بِأَمَانِيِّكُمْ وَلا أَمَانِيِّ أَهْلِ الْكِتَابِ مَن يَعْمَلْ سُوءًا يُجْزَ بِهِ وَلاَ يَجِدْ لَهُ مِن دُونِ اللّهِ وَلِيًّا
(القران ٤:١٢٣) ۔۔۔ اور جو کوئی بھی برا کام کرے گا، بہرحال اسے اس کی سزا ملے گی اور وہ اللہ کے سوا نہ پائے گا کوئی ولی۔۔۔۔
اسی طرح یہ آیت:
وَاللّهُ أَعْلَمُ بِأَعْدَائِكُمْ وَكَفَى بِاللّهِ وَلِيًّا
(القران ٤:٤٥) اور اللہ کو تمہارے دشمنوں کی خوب خبر ہے۔ اور اللہ بطور ولی کافی ہے۔
مگر اللہ اسی قران میں دوسری جگہ فرما رہا ہے کہ وہ ولی ہے اور اس کے ساتھ اس کا رسول بھی مسلمانوں کا ولی ہے اور وہ صالح مومنین بھی ولی ہیں جو کہ حالت۔ رکوع میں زکوۃ دیتے ہیں (اشارہ ہے مولا علی علیہ الصلوۃ و السلام کی طرف جب انہوں نے حالت۔ رکوع میں سائل کو اپنی انگوٹھی زکوۃ میں دی تھی)۔
إِنَّمَا وَلِيُّكُمُ اللّهُ وَرَسُولُهُ وَالَّذِينَ آمَنُواْ الَّذِينَ يُقِيمُونَ الصَّلاَةَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَهُمْ رَاكِعُونَ
(القران ٥:٥٥) تمہارا ولی تو بس اللہ ہے، اور اس کا رسول اور وہ جو ایمان رکہتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں اور حالت۔ رکوع میں زکوۃ ادا کرتے ہیں۔
اسی طرح آیت ملاحظہ فرمائیے:
وَمَن يَتَوَلَّ اللّهَ وَرَسُولَهُ وَالَّذِينَ آمَنُواْ فَإِنَّ حِزْبَ اللّهِ هُمُ الْغَالِبُونَ
(القران ٥:٥٦) اور جو اللہ کو اور اس کے رسول کو اور مومنین کو اپنا ولی بناتے ہیں تو بیشک اللہ کی جماعت ہی غالب آنے والی ہے۔
تو ان آیات کی موجودگی میں کیا یہ کہنا اللہ کی ذات میں شرک کرنا ہو گا کہ رسول اللہ (ص) اور دوسرے ایمان والے بھی اللہ کے ساتھ ساتھ ہمارے ولی ہیں؟
اور کیا ان کو ولی بنانے سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ اللہ بطور ولی کافی نہ تھا، اسی لیےاللہ کو ضرورت پڑی کہ اپنے ساتھ ساتھ دوسروں کو بھی ھمارا ولی قرار دے؟
اس سوال کا آسان اور سیدھا جواب یہ ہے کہ اہلحدیث حضرات کے دعویٰ کے برخلاف کہ پورا قران ظاہر ہے، بیشک قران میں کچھ آیات ایسی بھی ہیں جن کے مجازی معنی بھی ہیں اور اگر ان کو مجازی معنوں میں نہ سمجھا جائے تو یقیناً قران میں تضاد پیدا ہو جائے گا۔
اصول: جب اللہ کہہ رہا ہے کہ وہ اکیلا ولی ہے اور بطور ولی کے کافی ہے، تو رسول (ص) اور مومنین بھی مجازی طور پر اس میں شامل ہیں۔
اہلحدیث پالیسی: آپ دیکہیں گے کہ اہلحدیث حضرات صرف وہ آیات نقل کر رہے ھوں گے جس میں اللہ کہہ رھا ہے کہ وہ اکیلا ولی ہے یا پھر یہ کہ وہ بطور ولی کے کافی ہے۔ اور یہ آیات نقل کرنے کا (اور دوسری آّیات کو چھپانے کا) مقصد یہ ہوتا ہے اہلحدیث حضرات یہ تاثر قائم کرنا چاہتے ہیں کہ یہ شرک ہے کہ رسول اللہ (ص) کو ولی بنایا جائے۔
بدقسمتی سے ھمارے وہ مسلمان بھائی اور بہنیں جو کہ قران پر اتنا عبور نہیں رکہتے، وہ اہلحدیث حضرات کے اس دھوکے کا آسانی سے شکار ہو جاتے ہیں اور خیال کرنا شروع کر دیتے ہیں کہ ولی تو صرف اللہ ہے اور وہ مسلمان برادران جو کہ رسول کو بھی ولی بناتے ہیں، وہ شرک کر رہے ہیں۔
لوگ ھم پر اعتراض کرتے ہیں کہ ہم علی (ع) کو مولا کیوں کہتے ہیں۔ اور وہ اپنے اس اعتراض کی بنیاد یہ قرانی آیت قرار دیتے ہیں
لَّيْسَ بِأَمَانِيِّكُمْ وَلا أَمَانِيِّ أَهْلِ الْكِتَابِ مَن يَعْمَلْ سُوءًا يُجْزَ بِهِ وَلاَ يَجِدْ لَهُ مِن دُونِ اللّهِ وَلِيًّا
(القران ٤:١٢٣) ۔۔۔ اور جو کوئی بھی برا کام کرے گا، بہرحال اسے اس کی سزا ملے گی اور وہ اللہ کے سوا نہ پائے گا کوئی ولی۔۔۔۔
ہماری تو اللہ سے دعا ہے کہ اللہ ان حضرات کو توفیق عطا فرمائے کہ یہ لوگ قران اور احادیث کے دوسرے حصے کو نظر انداز کرنے کی بجائے اس سے بھی ہدایت حاصل کریں۔
حقیقت میں علی (ع) کو مولا کہنا تو سنتِ رسول ہے جب آپ (ص) نے غدیرِ خم کے مقام پر فرمایا تھا:
من کنت مولاہ فھذا علیا مولا
جس جس کا میں مولا، اُس اُس کا یہ علی مولا
چنانچہ ھم تو صرف سنتِ رسول کی ادائیگی کر رہے ھوتے ہیں جب ہم علی مولا کہتے ہیں۔ اور اگر یہ حضرات پھر بھی ہمیں مشرک بنانا چاہیں تو انصاف تو یہ ہے کہ یہ حضرات پہلے رسول اللہ (ص) پر شرک کا فتویٰ جاری کریں۔
کیا اللہ کے علاوہ کوئی ھماری شفاعت کر سکتا ہے؟لَّيْسَ بِأَمَانِيِّكُمْ وَلا أَمَانِيِّ أَهْلِ الْكِتَابِ مَن يَعْمَلْ سُوءًا يُجْزَ بِهِ وَلاَ يَجِدْ لَهُ مِن دُونِ اللّهِ وَلِيًّا
(القران ٤:١٢٣) ۔۔۔ اور جو کوئی بھی برا کام کرے گا، بہرحال اسے اس کی سزا ملے گی اور وہ اللہ کے سوا نہ پائے گا کوئی ولی۔۔۔۔
ہماری تو اللہ سے دعا ہے کہ اللہ ان حضرات کو توفیق عطا فرمائے کہ یہ لوگ قران اور احادیث کے دوسرے حصے کو نظر انداز کرنے کی بجائے اس سے بھی ہدایت حاصل کریں۔
حقیقت میں علی (ع) کو مولا کہنا تو سنتِ رسول ہے جب آپ (ص) نے غدیرِ خم کے مقام پر فرمایا تھا:
من کنت مولاہ فھذا علیا مولا
جس جس کا میں مولا، اُس اُس کا یہ علی مولا
چنانچہ ھم تو صرف سنتِ رسول کی ادائیگی کر رہے ھوتے ہیں جب ہم علی مولا کہتے ہیں۔ اور اگر یہ حضرات پھر بھی ہمیں مشرک بنانا چاہیں تو انصاف تو یہ ہے کہ یہ حضرات پہلے رسول اللہ (ص) پر شرک کا فتویٰ جاری کریں۔
اللہ قران میں ایک جگہ فرما رہا ہے کہ اس کے سوا کوئی شفیع نہیں ہے:
أَمِ اتَّخَذُوا مِن دُونِ اللَّهِ شُفَعَاء قُلْ أَوَلَوْ كَانُوا لَا يَمْلِكُونَ شَيْئًا وَلَا يَعْقِلُونَ
أَمِ اتَّخَذُوا مِن دُونِ اللَّهِ شُفَعَاء قُلْ أَوَلَوْ كَانُوا لَا يَمْلِكُونَ شَيْئًا وَلَا يَعْقِلُونَ
قُل لِّلَّهِ الشَّفَاعَةُ جَمِيعًا لَّهُ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ثُمَّ إِلَيْهِ تُرْجَعُونَ
(القران ٣٩ سورہ ، آیات ٤٣ تا ٤٤) کیا ان لوگوں نے اللہ کو چھوڑ کر دوسرے شفاعت کرنے والے اختیار کر لیے ہیں۔ تو آپ کہہ دیجئیے کی ایسا کیوں ہے چاہے یہ کوئی اختیار نہ رکہتے ہوں اور نہ ھی کسی قسم کی عقل رکہتے ہوں۔ کہہ دیجئیے کی شفاعت کا کُل اختیار تو اللہ کے ہاتھ میں ہی ہے۔۔۔
مگر اللہ اسی قران میں دوسری جگہ فرما رہا ہے کہ کچھ اولیاء اللہ ایسے بھی ہیں کہ مسلمانوں کو اجازت ہے کہ ان سے شفاعت طلب کریں کیونکہ اللہ نے انہیں ھماری شفاعت کرنے کی اجازت دی ہوئی ہے۔
لَا يَمْلِكُونَ الشَّفَاعَةَ إِلَّا مَنِ اتَّخَذَ عِندَ الرَّحْمَنِ عَهْدًا
(القران ١٩:٨٧) کسی کے پاس شفاعت کا اختیار نہیں ہے، سوائے ان کے کہ جنہوں نے خدائے رحمان سے شفاعت کا عہد لے رکہا ہے۔
اسی طرح یہ آیت مبارکہ دیکھیں:
وَلَا يَمْلِكُ الَّذِينَ يَدْعُونَ مِن دُونِهِ الشَّفَاعَةَ إِلَّا مَن شَهِدَ بِالْحَقِّ وَهُمْ يَعْلَمُونَ
(القران ٤٣:٨٦) اور جنہیں یہ (کافر) اللہ کے سوا پکارتے ہیں، ان کے پاس شفاعت کرنے کا کوئی اختیار نہیں ہے سوائے ان کے جو حق بات کی گواہی دیتے ہیں اور اسے جانتے ہیں۔
تو کیا یہ اللہ کی ذات میں شرک کرنا ہے اگر ہم یہ کہیں کہ رسول اللہ (ص) بھی مسلمانوں کی شفاعت کر سکتے ہیں؟ کیا واقعی قران میں (معاذ اللہ) تضاد ہے؟
اصول: جب اللہ کہہ رہا ہے کہ وہ اکیلا ہمارا شفیع ہے، تو اولیاء اللہ اس میں پہلے سے ہی مجازی طور پر شامل ہیں جو کہ اللہ کے اذن اور حکم سے مسلمانوں کی شفاعت کریں گے۔
شفاعت کے معاملے میں بھی اہلحدیث حضرات وہی حربہ استعمال کرتے ہیں، یعنی صرف وہ آیات نقل کر رہے ہوتے ہیں جس میں اللہ کہہ رہا ہے کہ اس کے سوا کوئی شفیع نہیں ہے، جبکہ ایسی تمام آیات اور احادیث کو چھپانے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں جس میں اللہ فرما رہا ہے کہ اس نے اولیاء اللہ اور فرشتوں کو بھی یہ اجازت دی ہوئی ہے کہ وہ مسلمانوں کی شفاعت کر سکیں۔
(القران ٣٩ سورہ ، آیات ٤٣ تا ٤٤) کیا ان لوگوں نے اللہ کو چھوڑ کر دوسرے شفاعت کرنے والے اختیار کر لیے ہیں۔ تو آپ کہہ دیجئیے کی ایسا کیوں ہے چاہے یہ کوئی اختیار نہ رکہتے ہوں اور نہ ھی کسی قسم کی عقل رکہتے ہوں۔ کہہ دیجئیے کی شفاعت کا کُل اختیار تو اللہ کے ہاتھ میں ہی ہے۔۔۔
مگر اللہ اسی قران میں دوسری جگہ فرما رہا ہے کہ کچھ اولیاء اللہ ایسے بھی ہیں کہ مسلمانوں کو اجازت ہے کہ ان سے شفاعت طلب کریں کیونکہ اللہ نے انہیں ھماری شفاعت کرنے کی اجازت دی ہوئی ہے۔
لَا يَمْلِكُونَ الشَّفَاعَةَ إِلَّا مَنِ اتَّخَذَ عِندَ الرَّحْمَنِ عَهْدًا
(القران ١٩:٨٧) کسی کے پاس شفاعت کا اختیار نہیں ہے، سوائے ان کے کہ جنہوں نے خدائے رحمان سے شفاعت کا عہد لے رکہا ہے۔
اسی طرح یہ آیت مبارکہ دیکھیں:
وَلَا يَمْلِكُ الَّذِينَ يَدْعُونَ مِن دُونِهِ الشَّفَاعَةَ إِلَّا مَن شَهِدَ بِالْحَقِّ وَهُمْ يَعْلَمُونَ
(القران ٤٣:٨٦) اور جنہیں یہ (کافر) اللہ کے سوا پکارتے ہیں، ان کے پاس شفاعت کرنے کا کوئی اختیار نہیں ہے سوائے ان کے جو حق بات کی گواہی دیتے ہیں اور اسے جانتے ہیں۔
تو کیا یہ اللہ کی ذات میں شرک کرنا ہے اگر ہم یہ کہیں کہ رسول اللہ (ص) بھی مسلمانوں کی شفاعت کر سکتے ہیں؟ کیا واقعی قران میں (معاذ اللہ) تضاد ہے؟
اصول: جب اللہ کہہ رہا ہے کہ وہ اکیلا ہمارا شفیع ہے، تو اولیاء اللہ اس میں پہلے سے ہی مجازی طور پر شامل ہیں جو کہ اللہ کے اذن اور حکم سے مسلمانوں کی شفاعت کریں گے۔
شفاعت کے معاملے میں بھی اہلحدیث حضرات وہی حربہ استعمال کرتے ہیں، یعنی صرف وہ آیات نقل کر رہے ہوتے ہیں جس میں اللہ کہہ رہا ہے کہ اس کے سوا کوئی شفیع نہیں ہے، جبکہ ایسی تمام آیات اور احادیث کو چھپانے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں جس میں اللہ فرما رہا ہے کہ اس نے اولیاء اللہ اور فرشتوں کو بھی یہ اجازت دی ہوئی ہے کہ وہ مسلمانوں کی شفاعت کر سکیں۔