یاز

محفلین
کھول آنکھ زمیں دیکھ، فلک دیکھ، فضا دیکھ
مشرق سے ابھرتے ہوئے سورج کو ذرا دیکھ


اس شعر میں شاعر نے فلموں کی بابت اپنی چوائس پہ روشنی ڈالی ہے اور سامعین کو نصیحت کی ہے کہ جونہی مشرق سے سورج ابھرا یعنی صبح ہو گئی تو لمبی تان کے سونے کے بعد جیسے ہی آنکھ کھلے تو سب سے پہلے اجے دیوگن کی مشہور فلم "زمین" دیکھ لیں۔ عمدہ کہانی ہے اور ساتھ میں امرتا اروڑا کا آئٹم سانگ "دلی کی سردی" مزید کمال شمال کرتا ہے۔ اس کے بعد وہ مووی دیکھیں جس کا گانا ہے "فلک دیکھوں زمیں دیکھوں تیرا چہرہ حسیں دیکھوں" اور آخر میں شاعر نے کہا ہے کہ اپنے سیشن کا اختتام ایک سپرہٹ فلم یعنی "فضا" سے کریں۔ ریتک روشن، کرشمہ کپور کی بہترین اداکاری کے ساتھ ساتھ "محبوب مرے محبوب مرے" پر سشمیتا سین کا رقص دیکھنے لائق ہے۔
بعض محققین دوسرے مصرعے میں سورج کو "سورج برجاتیہ" سے بھی منسوب کرتے ہیں جنہوں نے ہم آپکے ہیں کون، میں نے پیار کیا جیسی بے مثال فلمیں بنائیں۔
 
آخری تدوین:

ہادیہ

محفلین
کھول آنکھ زمیں دیکھ، فلک دیکھ، فضا دیکھ
مشرق سے ابھرتے ہوئے سورج کو ذرا دیکھ

اس شعر میں شاعر نے فلموں کی بابت اپنی چوائس پہ روشنی ڈالی ہے اور سامعین کو نصیحت کی ہے کہ جونہی مشرق سے سورج ابھرا یعنی صبح ہو گئی تو لمبی تان کے سونے کے بعد جیسے ہی آنکھ کھلے تو سب سے پہلے اجے دیوگن کی مشہور فلم "زمین" دیکھ لیں۔ عمدہ کہانی ہے اور ساتھ میں مرتا اروڑا کا آئٹم سانگ "دلی کی سردی" مزید کمال شمال کرتا ہے۔ اس کے بعد وہ مووی دیکھیں جس کا گانا ہے "فلک دیکھوں زمیں دیکھوں تیرا چہرہ حسیں دیکھوں" اور آخر میں شاعر نے کہا ہے کہ اپنے سیشن کا اختتام ایک سپرہٹ فلم یعنی "فضا" پہ کریں۔ ریتک روشن، کرشمہ کپور کی بہترین اداکاری کے ساتھ ساتھ "محبوب مرے محبوب مرے" پر سشمیتا سین کا رقص دیکھنے لائق ہے۔
بعض محققین دوسرے مصرعے میں سورج کو "سورج برجاتیہ" سے بھی منسوب کرتے ہیں جنہوں نے ہم آپکے ہیں کون، میں نے پیار کیا جیسی بے مثال فلمیں بنائیں۔
آپ کی اس تشریح سے تو یہ پتہ چل رہا آپ فلمیں بہت دیکھتے ہیںP:
 

یاز

محفلین
یہ آرزو تھی تجھے گل کے روبرو کرتے
ہم اور بلبلِ بے تاب گفتگو کرتے
(حیدر علی آتش)


اس شعر میں شاعر نے ڈیٹ لگانے کی انوکھی ترکیب بیان کی ہے۔ شاعر چونکہ شادی شدہ ہے اور بیگم کے ہاتھوں پٹنے سے بھی بچنا چاہتا ہے، لیکن اسی کے ساتھ ساتھ حسرتِ دیدار بھی دل میں لئے بیٹھا ہے۔ تو انوکھی ترکیب کچھ یوں بیان کرتا ہے کہ میرا خیال ہے کہ بیگم کو گل احمد والوں کی آؤٹ لیٹ پہ لے جاؤں۔ وہاں آجکل کلیرنس سیل لگی ہوئی ہے (جو ویسے بھی سارا سال لگی رہتی ہے)۔ گل احمد کے کپڑوں کا بیگم کو اتنا اشتیاق ہے کہ ان کو دیکھنے میں گھنٹوں لگانا تو ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے، اور اس دوران کسی اور چیز کا ہوش ہی نہیں رہتا جیسے۔ تو بیگم کو گل یعنی گل احمد کے روبرو کر کے ہم کسی کونے میں جا دبکیں گے جہاں ہم نے اپنے "اصلی پیار" کو پہلے سے بلا رکھا ہو گا۔ شاعر کو اپنے اصلی پیار سے اس قدر پیار ہے کہ اس کے لئے بلبل بلکہ بلبلِ بے تاب کا استعارہ استعمال کیا ہے۔
اس شعر سے یہ سبق ملتا ہے کہ شادی شدہ افراد نے اگر ڈیٹ لگانی ہے تو اس کے لئے بیگم کی شاپنگ کا خرچہ برداشت کرنا ہی پڑے گا۔
 
آخری تدوین:

ہادیہ

محفلین
کھول آنکھ زمیں دیکھ، فلک دیکھ، فضا دیکھ
مشرق سے ابھرتے ہوئے سورج کو ذرا دیکھ
اس شعر میں شاعر قوم کو صبح جلدی اٹھنے کی تلقین کر رہے ہیں۔خاص کر ان لوگوں کو جو رات گئے تک نیٹ گردی کرتے ہیں:p
(مجھ سے تو اتنی ہی بنیo_O۔پتہ نہیں اتنی لمبی کیسے بنا لیتے ہیں)
 

یاز

محفلین
کھول آنکھ زمیں دیکھ، فلک دیکھ، فضا دیکھ
مشرق سے ابھرتے ہوئے سورج کو ذرا دیکھ
اس شعر میں شاعر قوم کو صبح جلدی اٹھنے کی تلقین کر رہے ہیں۔خاص کر ان لوگوں کو جو رات گئے تک نیٹ گردی کرتے ہیں:p
(مجھ سے تو اتنی ہی بنیo_O۔پتہ نہیں اتنی لمبی کیسے بنا لیتے ہیں)
شروعات بری نہیں ہے۔ کچھ مشق کے بعد ہاتھ رواں ہو جائے گا۔
 

یاز

محفلین
وہ آئے بزم میں اتنا تو میر نے دیکھا
پھر اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی


اس شعر میں شاعر اپنی داستانِ غم بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ بڑی مشکل سے اپنی "سہیلی" کو ایک شادی کی تقریب میں بلایا کہ تقریب کچھ تو بہر ملاقات ہو۔ اب جو صاحبِ کلام بڑے بن ٹھن کے مقررہ وقت سے پہلے ہی وہاں جا پہنچے اور لگے انتظار کرنے۔ انتظار کرتے کرتے ایسا سوکھے کہ "انتہا ہو گئی انتظار کی۔۔آئی نہ کچھ خبر میرے یار کی" کی تجسیم دکھائی دینے لگے۔ مایوسی حد سے گزرنے ہی لگی تھی کہ ہال کا دروازہ کھلا اور "سہیلی جی" کی پہلی جھلک دکھائی دی ہی تھی کہ اچانک لوڈشیڈنگ ہو گئی۔
اب جو لوڈشیڈنگ ہو ئی تو مچا ہڑبونگ۔ کوئی یہاں گرا، کوئی وہاں گرا۔ لڑکی والوں نے لڑکے والوں کو کوسنے دینے شروع کئے کہ جنریٹر، یو پی ایس کا انتظام کیوں نہیں کیا۔ لڑکے والوں نے آپس میں لڑنا شروع کر دیا کہ دیکھا میں نے پہلے ہی کہا تھا کہ انتظام کر لو۔ اس دوران طمانچوں اور گھونسوں کی آوازیں بھی آنے لگیں۔ شاعر ابھی شش و پنج میں ہی تھا کہ جلوۂ محبوب کے لئے کیا انتظام کیا جائے کہ زوردار گھونسا منہ پہ رسید ہوا جس سے سامنے کا ایک دانت ہل گیا۔ ابھی سنبھلے بھی نہ تھے کہ پیچھے سے زوردار لات پڑی۔ اس کے بعد واقعی چراغوں میں روشنی نہ رہی۔
اس شعر سے یہ سبق ملتا ہے کہ جہاں ملنا ہو، پہلے تسلی کر لیں کہ جنریٹر یا یو پی ایس کا تسلی بخش انتظام ہے کہ نہیں۔
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
ہاہاہا۔
بہت عمدہ لڑی ہے جناب اور شاندار تشریح بیان فرمائی ہے اشعار کی۔ بہت سی غلط فہمیاں دور ہو گئی ہماری بھی اسی بہانے۔
ہمارا کام ہی فلاح و بہبود اور بھٹکے ہوئے نظریات کی درستی ہے۔ خوشی ہوئی کہ مقصد میں کامیابی ہوئی۔۔۔ شاد رہیں۔۔۔
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
کچھ پیش آزمائی ہماری جانب سے بھی

میر ان نیم باز آنکھوں میں
ساری مستی شراب کی سی ہے

پہلے مصرعے میں کاتب سے غلطی ہوئی ہے یا جان بوجھ کے غلطی کی ہے۔ اصل میں یوں تھا کہ "میری ان نیم باز آنکھوں میں"
اس شعر میں شاعر اپنے مکمل ٹُن ہونے کا احوال بیان کر رہا ہے۔ شاعر جی کہتے ہیں کہ شراب دیکھ کر کبھی میری آنکھیں للچا رہی ہیں اور کبھی مجھے باز رکھنے کی کوشش کرتی ہیں۔ اس کیفیت کو فارسی میں نیم باز کہا جاتا ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ پہلے ہی پی پی کر اتنا ٹُن ہو چکا ہوں کہ اب آنکھیں نیم باز ہوتے ہوئے بھی مجھے کنٹرول کرنے میں ناکام دکھائی دے رہی ہیں۔
حالانکہ شاعر اس حقیقت کو سمجھنے سے قاصر نظر آتا ہے کہ "نشہ اگر شراب میں ہوتا تو ناچتی بوتل" وغیرہ وغیرہ
ہو سکتا ہے شاعر نے اپنی آنکھوں کو "باز" اور "نیم (درخت)" سے تشبیہ دی ہو۔۔۔ :p

بہت اعلی۔۔۔ شاندار
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
کھول آنکھ زمیں دیکھ، فلک دیکھ، فضا دیکھ
مشرق سے ابھرتے ہوئے سورج کو ذرا دیکھ


اس شعر میں شاعر نے فلموں کی بابت اپنی چوائس پہ روشنی ڈالی ہے اور سامعین کو نصیحت کی ہے کہ جونہی مشرق سے سورج ابھرا یعنی صبح ہو گئی تو لمبی تان کے سونے کے بعد جیسے ہی آنکھ کھلے تو سب سے پہلے اجے دیوگن کی مشہور فلم "زمین" دیکھ لیں۔ عمدہ کہانی ہے اور ساتھ میں امرتا اروڑا کا آئٹم سانگ "دلی کی سردی" مزید کمال شمال کرتا ہے۔ اس کے بعد وہ مووی دیکھیں جس کا گانا ہے "فلک دیکھوں زمیں دیکھوں تیرا چہرہ حسیں دیکھوں" اور آخر میں شاعر نے کہا ہے کہ اپنے سیشن کا اختتام ایک سپرہٹ فلم یعنی "فضا" سے کریں۔ ریتک روشن، کرشمہ کپور کی بہترین اداکاری کے ساتھ ساتھ "محبوب مرے محبوب مرے" پر سشمیتا سین کا رقص دیکھنے لائق ہے۔
بعض محققین دوسرے مصرعے میں سورج کو "سورج برجاتیہ" سے بھی منسوب کرتے ہیں جنہوں نے ہم آپکے ہیں کون، میں نے پیار کیا جیسی بے مثال فلمیں بنائیں۔
ہاہاہاہااا۔۔۔ بڑا کوئی فلمی علم ہے آپ کے پاس۔۔۔۔ شاندار
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
کھول آنکھ زمیں دیکھ، فلک دیکھ، فضا دیکھ
مشرق سے ابھرتے ہوئے سورج کو ذرا دیکھ
اس شعر میں شاعر قوم کو صبح جلدی اٹھنے کی تلقین کر رہے ہیں۔خاص کر ان لوگوں کو جو رات گئے تک نیٹ گردی کرتے ہیں:p
(مجھ سے تو اتنی ہی بنیo_O۔پتہ نہیں اتنی لمبی کیسے بنا لیتے ہیں)
جیسا کہ یاز نے کہا شروعات اچھی ہے۔ مشق جاری رکھیں۔ :)
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
وہ آئے بزم میں اتنا تو میر نے دیکھا
پھر اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی


اس شعر میں شاعر اپنی داستانِ غم بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ بڑی مشکل سے اپنی "سہیلی" کو ایک شادی کی تقریب میں بلایا کہ تقریب کچھ تو بہر ملاقات ہو۔ اب جو صاحبِ کلام بڑے بن ٹھن کے مقررہ وقت سے پہلے ہی وہاں جا پہنچے اور لگے انتظار کرنے۔ انتظار کرتے کرتے ایسا سوکھے کہ "انتہا ہو گئی انتظار کی۔۔آئی نہ کچھ خبر میرے یار کی" کی تجسیم دکھائی دینے لگے۔ مایوسی حد سے گزرنے ہی لگی تھی کہ ہال کا دروازہ کھلا اور "سہیلی جی" کی پہلی جھلک دکھائی دی ہی تھی کہ اچانک لوڈشیڈنگ ہو گئی۔
اب جو لوڈشیڈنگ ہو ئی تو مچا ہڑبونگ۔ کوئی یہاں گرا، کوئی وہاں گرا۔ لڑکی والوں نے لڑکے والوں کو کوسنے دینے شروع کئے کہ جنریٹر، یو پی ایس کا انتظام کیوں نہیں کیا۔ لڑکے والوں نے آپس میں لڑنا شروع کر دیا کہ دیکھا میں نے پہلے ہی کہا تھا کہ انتظام کر لو۔ اس دوران طمانچوں اور گھونسوں کی آوازیں بھی آنے لگیں۔ شاعر ابھی شش و پنج میں ہی تھا کہ جلوۂ محبوب کے لئے کیا انتظام کیا جائے کہ زوردار گھونسا منہ پہ رسید ہوا جس سے سامنے کا ایک دانت ہل گیا۔ ابھی سنبھلے بھی نہ تھے کہ پیچھے سے زوردار لات پڑی۔ اس کے بعد واقعی چراغوں میں روشنی نہ رہی۔
اس شعر سے یہ سبق ملتا ہے کہ جہاں ملنا ہو، پہلے تسلی کر لیں کہ جنریٹر یا یو پی ایس کا تسلی بخش انتظام ہے کہ نہیں۔
اس سے ثابت ہوا کہ پررونق جگہ پر "ملاقات" نہیں رکھنی چاہیے۔۔۔ :p

بہت اعلیٰ یاز صاحب ۔۔۔۔۔۔
 

نکتہ ور

محفلین

ہمارے پاؤں ہی ٹکتے نہ تھے زمیں پہ، ظفرؔ
نئے نئے جو کسی سے گلے ملے ہوئے تھے

شاعر نے ایک واقعے کو شعر میں بیان کیا ہے کہ لمبے قد والا دوست تھوڑا جھک کر شاعر سے گلے ملا تو لمبے آدمی نے شعر سنا سنا کر تنگ کرنے کے بدلے کا موقع غنیمت جانا اور اسی حالت میں اوپر اٹھا لیا توشاعر کے پاؤں زمین سے اوپر اٹھ گئے اب اس حالت میں پاؤں زمین پر کیسے ٹکائے جا سکتے ہیں اب صورتحال یہ بنی کہ چھڑانے کی کوشش کرنے پر مزید اوپر اٹھا دیا لیکن شاعر تو شاعر ہوتا ہے اس نے اسی حالت میں یہ شعر اس کے کان میں انڈیل دیا تولمبے آدمی کو چھوڑتے ہی بنی۔
 

یاز

محفلین
وہ جہاں بھی گیا لوٹا تو میرے پاس آیا
بس یہی اک بات اچھی ہے میرے ہرجائی کی

شاعر کا تعلق مسلم لیگ (زید) سے ہے اور ان دنوں صوبائی صدر کے عہدے پہ فائز ہیں۔ یہ شعر اپنے ایک پرانے ساتھی کے بارے میں کہا جو کہ سیاست کے مرغِ بادنما کی سی شہرت رکھتا تھا۔ جب مسلم لیگ (بکر) پہ بہار آئی اور اس انداز سے آئی کہ مہر و ماہ تماشائی ہوئے تو ان صاحب نے بھی زید لیگ کو خیرباد کہا اور لوٹا بن کے بکر لیگ میں شامل ہونے کا "اصولی" فیصلہ کیا، جو کہ ظاہر ہے ملک و قوم کے وسیع تر مفاد وغیرہ میں تھا۔
اور پھر گزرنا ماہ و سال کا، تمام ہونا ایامِ بہار کا، اڑنا اک اک پنچھی کا زمینِ بنجر سے اور آنا خزاں کا مسلم لیگ (بکر) پہ، ساتھ ہی بیٹھنا ہما کا مسلم لیگ (زید) پہ، رش کا لگنا ان کے بوہے باریوں پہ قطار اندر قطار کا۔ تو ایسے میں شاعر کے پرانے ساتھی کے دل میں زید لیگ کی محبت یوں جاگ اٹھی جیسے ویرانے میں چپکے سے بہار آ جائے، جیسے صحرا میں ہولے سے چلے بادِ نسیم (وغیرہ وغیرہ)۔ تو اس پہ شاعر ان کے بارے میں فرماتے ہیں کہ یہ ایسا مردود ہے کہ وہ "لوٹا" جہاں بھی گیا، واپس ہمارے ہی پاس آیا۔ دوسرا مصرعہ شاعر نے دانت پیستے ہوئے کہا ہے۔
 
آخری تدوین:

ہادیہ

محفلین
وہ جہاں بھی گیا لوٹا تو میرے پاس آیا
بس یہی اک بات اچھی ہے میرے ہرجائی کی

شاعر کا تعلق مسلم لیگ (ن) سے ہے اور ان دنوں صوبائی صدر کے عہدے پہ فائز ہیں۔ یہ شعر اپنے ایک پرانے ساتھی کے بارے میں کہا جو کہ سیاست کے مرغِ بادنما کی سی شہرت رکھتا تھا۔ جب مسلم لیگ (ق) پہ بہار آئی اور اس انداز سے آئی کہ مہر و ماہ تماشائی ہوئے تو ان صاحب نے بھی ن کو خیرباد کہا اور لوٹا بن کے ق میں شامل ہونے کا "اصولی" فیصلہ کیا، جو کہ ظاہر ہے ملک و قوم کے وسیع تر مفاد وغیرہ میں تھا۔
اور پھر گزرنا ماہ و سال کا، تمام ہونا ایامِ بہار کا، اڑنا اک اک پنچھی کا زمینِ بنجر سے اور آنا خزاں کا مسلم لیگ (ق) پہ، ساتھ ہی بیٹھنا ہما کا مسلم لیگ (ن) پہ، رش کا لگنا ان کے بوہے باریوں پہ قطار اندر قطار کا۔ تو ایسے میں شاعر کے پرانے ساتھی کے دل میں ن کی محبت یوں جاگ اٹھی جیسے ویرانے میں چپکے سے بہار آ جائے، جیسے صحرا میں ہولے سے چلے بادِ نسیم (وغیرہ وغیرہ)۔ تو اس پہ شاعر ان کے بارے میں فرماتے ہیں کہ یہ ایسا مردود ہے کہ وہ "لوٹا" جہاں بھی گیا، واپس ہمارے ہی پاس آیا۔ دوسرا مصرعہ شاعر نے دانت پیستے ہوئے کہا ہے۔
اتنے سوہنے شعر کی "ایسی" تشریحP:.
آپ کا دماغ بہت تیز ہے ویسے:)
 

ہادیہ

محفلین
ہمارے پاؤں ہی ٹکتے نہ تھے زمیں پہ، ظفرؔ
نئے نئے جو کسی سے گلے ملے ہوئے تھے

شاعر نے ایک واقعے کو شعر میں بیان کیا ہے کہ لمبے قد والا دوست تھوڑا جھک کر شاعر سے گلے ملا تو لمبے آدمی نے شعر سنا سنا کر تنگ کرنے کے بدلے کا موقع غنیمت جانا اور اسی حالت میں اوپر اٹھا لیا توشاعر کے پاؤں زمین سے اوپر اٹھ گئے اب اس حالت میں پاؤں زمین پر کیسے ٹکائے جا سکتے ہیں اب صورتحال یہ بنی کہ چھڑانے کی کوشش کرنے پر مزید اوپر اٹھا دیا لیکن شاعر تو شاعر ہوتا ہے اس نے اسی حالت میں یہ شعر اس کے کان میں انڈیل دیا تولمبے آدمی کو چھوڑتے ہی بنی۔
ہاہاہاہاہاہا
کیا تشریح کی ہے مزا آگیا:)
 
Top