سید زبیر
محفلین
اشفاق احمد کی کتاب " زاویہ ۲ " سے اقتباس
" ہمارے نوجوان لڑکے اور لڑکیاں ڈپریشن کے مرض سے پریشان ہیں کروڑوں روپے کی ادویات سے ڈپریشن ختم کرنے کی کوششیں کی جاتی ہیں اور یہ مرض ایسا ہے کہ خوفناک شکل اختیار کرتا جا رہا ہے اور اچھوت کی بیماری لگتا ہے ۔ ہمارے بابے جن کا میں ذکر کرتا ہوں۔اور وہ بھی اس Stress یا ڈپریشن کے مرض کا علاج ڈھونڈنے میں لگے ہوئے ہیں تا کہ لوگوں کو اس موذی مرض سے نجات دلائی جائے ۔پرسوں ہی جب میں نے باباجی کے سامنے اپنی یہ مشکل پیش کی تو انہوں نے کہا کہ کیا آپ ڈپریشن کے مریض کو اس بات پر مائل کر سکتے ہیں کہ وہ دن میں ایک آدھ دفعہ
" بونگیاں ' مار لیا کرے ۔ یعنی ایسی بات کریں جس کا مطلب اور معنی کچھ نہ ہو ۔ جب ہم بچپن میں گاؤں میں رہتے تھے اور جوہڑ کے کنارے جاتے تھے اور اس وقت میں چوتھی جماعت میں پڑھتا تھا اس وقت بھی پاپ میوزک آج کل کے پاپ میوزک سے بہت تیز تھا اور ہم پاپ میوزک یا گانے کے انداز میں یہ تیز تیز گاتے تھے
' مور پاوے پیل
سپ جاوے کھڈ نوں
بگلا بھگت چک لیا وے ڈڈ نوں
تے ڈڈاں دیاں لیکھاں نوں کون موڑ دا '
( مور ناچتا ہے جبکہ سانپ اپنے سوراخ یا گڑھے میں جاتا ہے ۔ بگلہ مینڈک کو خوراک کے لیے اچک کر لے آتا ہے اور اس طرح سب اپنی اپنی فطرت پر قائم ہیں اور مینڈک کی قسمت کے لکھے کو کون ٹال سکتا ہے )
ہم کو زمانے نے اس قدر سخت اور سنجیدہ کردیا ہے کہ ہم بونگی مارنے سے بھی قاصر ہیں ۔ہمیں اس قدر تشنج میں مبتلا کردیا ہے کہ ہم بونگی بھی نہیں مار سکتے باقی امور تو دور کی بات ہے آپ خود اندازہ لگا کر دیکھیں آپ کو چوبیس گھنٹوں میں کوئی ایسا وقت نہیں ملے گا جب آپ نے بونگی مارنی کی کوشش کی ہو لطیفہ اور بات ہے وہ باقاعدہ سوچ سمجھ کر موقع کی مناسبت سے سنایا جاتا ہے جبکہ بونگی کسی بھی وقت ماری جاسکتی ہے ۔روحانی ادویات اس وقت بننی شروع ہوتی ہیں جب آپ کے اندر معصومیت کا ایک ہلکا سا نقطہ موجود ہوتا ہے یہ عام سی چیز ہے چاہے سوچ کر یا زور لگا کر ہی لائی جائے ،خوبصورت ہے ، علامہ اقبالؒ فرماتے ہیں
بہتر ہے دل کے پاس رہے پاسبا نِ عقل
لیکن کبھی کبھی اسے تنہا بھی چھوڑ دے
عقل کو رسیوں میں جکڑنا نہیں اچھا 'جب تک عقل کو تھوڑا آزاد کرنا نہیں سیکھیں گے ہماری کیفیت رہی ہے جیسی گذشتہ ۵۳ برسوں میں رہی ہے (یہ پروگرام سن ۲۰۰۰ میں نشر ہوا تھا ) صوفیائے کرام اور بزرگ کہتے ہیں کہ جب انسان آخرت میں پہنچے گا اور اس وقت ایک لمبی قطار لگی ہوئی ہوگی اللہ تعالیٰ وہاں موجود ہوں گے وہ آدمی سے کہے گا کہ ' اے بندے! میں نے تجھے جو معصومیت دے کر بھیجا تھا وہ واپس دے دے اور جنت میں داخل ہو جا '
جس طرح گیٹ پاس ہوتے ہیں اللہ یہ بات ہر شخص سے پوچھے گا لیکن ہم کہیں گے کہ یا اللہ ! ہم نے تو ایم اے ایل ایل بی یا پی ایچ ڈی بڑی مشکل سے کیا ہے لیکن ہمارے پاس وہ معصومیت نہیں ہے ' ۔خواتین و حضرات ! روحانی دوا میں معصومیت وہ اجزائے ترکیبی یا نسخہ ہے جس کا گھوٹا لگے گا تو روحانی دوا تیار ہوگی ۔ اور اس نسخے میں تھوڑی سی معصومیت درکار ہے ۔ اس دوائی کو بنانے کے لیے ڈبے ، بوتلیں وغیرہ نہیں چاہئیں بلکہ جب آپ روحانی دوا بنائیں تو سب سے پہلے ایک تھیلی بنائیں جس طرح جب ہم بڈھے لوگ سفر کرتے ہیں تو دواؤں کی ایک تھیلی اپنے پاس رکھتے ہیں ۔بہت سی ہوائی کمپنیاں ایسی ہیں جن کے ٹکٹ پر لکھا ہوتا ہے کہ
Check your passport and Visa and their validity and your medicine bag.
آپ کو ایک تھیلی بنانا پڑے گی جس کے اندر تین نیلے منکے ،یا جو بھی آپ کی پسند کا رنگ ہے اس کے منکے ، اور اعلیٰ درجے کی کوڈیاں ، ایک تتلی کا پر اگر تتلی کا پر نہ ملے تو کالے کیکر کا پھل ، کوئی چھوٹی سی آپ کی پسند کی تصویر ، چھوٹے سائز میں سورۃ رحمٰن اور اس کے اندر ایک کم از کم ۳۱ دانوں کی تسبیح ہونی چاہئیے اس تھیلی میں ایک لیمن ڈراپ ہونا چاہئیے اس تھیلی میں ایک سیٹی اور ایک پرانا بلب بھی رکھیں پھر آپ لوٹ کر معصومیت کی طرف آئیں گے ۔ یہ میری پسند کی چیزوں پر مبنی تھیلی ہے ۔ آپ اپنی پسند پر مبنی چیزیں تھیلی میں رکھ سکتے ہیں اس پر کوئی پابندی نہیں لیکن یہ تھیلی ہونی ضروری ہے ۔۔۔۔۔"