اقتباسات اشفاق احمد

نایاب

لائبریرین
بہت خوب شراکت محترم بہنا
" اک دن مر جانا ہے ہمیں " یہ آگہی جہاں کچھ انسانوں کو " بابر بہ عیش کوش " پر ابھارتے " خواہش آرزو اور تمناؤں " کے جال میں الجھا " بے قراری و بے چینی میں مبتلا کرتی ہے ۔ وہیں کچھ انسان اس آگہی کے نور سے روشن ہوتے اس حقیقت کو پاتے کہ " موت تو عارضی نیند اور اصل زندگی میں داخلے کا دروازہ ہے " اپنی خواہشات و تمناؤں کو خود پر حاوی نہیں ہونے دیتے اور " موتو قبل انت موت " کی عملی صورت بن جاتے ہیں ۔۔۔۔
" در جوانی توبہ کردن شیوہ پیغمبری "
 
''میں نے زندگی میں ایک بڑی عجیب و غریب بات دیکھی ہے کہ اگر آپ کسی کو دیتے ہیں تو وہ لوٹ کر آپ کے پاس آتا ہے۔یہ صداےُ باز گشت ہے جو کہ لوٹ کر واپس آتی ہے۔
حضرت مجدد الف ثانی بہت سخت اور اصولی بزرگ تھے،لیکن ایک بات میں انکی کبھی نہیں بھولتا۔انہوں نے فرما یا جو شخص تجھ سے مانگتا ہے اس کو دے۔کیا یہ تیری انا کے لیے کم ہے کہ کسی نے اپنا دستِ سوال تیرے آگے دراز کیا۔بڑے آدمی کی کیا بات ہے اس سلسلے میں ایک حدیث بھی ہے اور وہی سرچشمہ ہے۔پھر فرماتے ہیں عجیب و غریب انہوں نے یہ بات کی ہے کہ جو حق دار ہے اس کو بھی دے اور جو نا حق کا مانگنے والا ہے اس کو بھی دے تا کہ تجھے جو نا حق کا مل رہا ہے کہیں وہ ملنا بند نہ ہو جاےُ۔دیکھیں نہ ہم کو کیا نا حق کا مل رہا ہے۔اُسکی ساری مہربانیاں ہیں،کرم ہے اور ہمیں اس کا شعور نہیں ہے کہ ہمیں کہاں کہاں نا حق کا مل رہا ہے۔کبھی آرام سے بیٹھ کر اپنی زندگی کو ،اپنے کام کو بیلنسنگ شیٹ بنانے کی کوشش کریں،تو آپ کو پتہ چلے گا 80-90 فیصد تو ایسے ہی آ رہا ہے۔یہ میرا استحقاق نہیں بنتا،لوگ ایسے ہی روتے ہیں کہ میرا حق،اور میں اپنے حق کی خاطر لڑوں گا،مروں گا،یہ کر دوں گا،وہ کر دوں گا۔ایسا کبھی نہیں ہوتا بعض اوقات ایسی جگہ سے آ جاتا ہے جہاں آدمی تصور بھی نہیں کر سکتا بلکہ بیشتر ایسا ہوتا ہے اور آتا چلا جاتا ہے،لیکن آدمی گبھراتا ہے کہ اگر میں کچھ دے دوں گا اور دتّے میں سے دے دوں گا تو کمی ہو جاےُ گی لیکن حقیقت میں ہوتی نہیں لیکن اکثر ہمارے جیسے پڑھے لکھے سیّانے لوگ یہ بات کرتے ہیں''۔
اشفاق احمد کے ''زاویہ'' سے
 
با با کی تعریف؛
''بابا وہ شخص ہوتا ہے جو دوسرے انسان کو آسانی عطا کرے'' یہ بابا کی تعریف ہے۔
آپ کے ذہن میں آتا ہو گا کہ بابا ایک بھاری فقیر ہے۔اس نے سبز رنگ کا کرتا پہنا ہوا ہے گلے میں منکوں کی مالا ہے۔ہاتھ میں اسکے لوگوں کو سزا دینے کا تازیانہ پکڑا ہوا ہے اور آنکھوں میں سرخ رنگ کا سرمہ ڈالا ہوا ہے۔
ایک تھری سوٹ پہنے ہوےُ اعلیٰ درجے کی سرخ رنگ کی ٹائی لگائی ہے۔بیچ میں ایک سونے کا پن لگاےُ ہوےُ ایک بہت اعلیٰ درجے کا بھی بابا ہوتا ہے۔اس میں جنس کی بھی قید نہیں ہے۔مرد،عورت،بچہ،بوڑھا،ادھیڑ نوجوان یہ سب لوگ کبھی نہ کبھی اپنے وقت میں بابے ہوتے ہیں،اور ہو گزرتے ہیں۔لمحاتی طور پر ایک دفعہ آسانی عطا کرنے کا کام کیا اور کچھ مستقلاّ اختیار کر لیتے ہیں اس شیوے کو،اور ہم ان کا بڑا احترام کرتے ہیں۔میری زندگی میں بابے آےُ ہیں اور میں حیران ہوتا تھا کہ یہ لوگوں کو آسانی عطا کرنے کا فن کس خوبی سے کس سلیقے سے جانتے ہیں۔
اشفاق احمد
 
تم جو بھی کام کرنے لگواس کے لیے تمہیں یہ دیکھنا چاہیے کہ اس کام میں تمہارا دل بھی ہے یا نہیں۔کام ایک وجود والی چیز ہے اور وجود کا ایک دل بھی ہوتا ہے اگر اس کا دل نہیں ہے ،پھر اس کی تلی ہے،جگر ہے،دماغ ہے تو پھر اس کو نہ کرو۔اگر اس میں دل کی منشا موجود ہے تو پھر اس میں داخل ہونے کی کوشش کرو،بہت سے کام ایسے ہوتے ہیں جو دل کے بغیر کیے جاتے ہیں اور چلتے ہیں،نہ کام میں دل ہوتا ہے نہ اس فعل میں دل ہوتا ہے نہ آپ کے آگے آنے والی چیز میں دل ہوتا ہے۔اب تو سائنسدان کہتے ہیں کہ دل مکھی سے لے کے ہاتھی تک ہر ایک میں ہوتا ہےوائرس تک میں ایک چیز ایسی ہوتی ہے جس کو آپ دل کے مشابہ کر سکتے ہیں ۔اگر اس میں دل ہے تو پھر کسی کام میں داخل ہو جاوُ۔جب تم خلوص اور نیک نیتی سے داخل ہو گے کسی بھی چھوٹے کام میں تو پھر آپ کو ایک step اور ملے گا چھوٹے انداز میں اور یہ جڑتے جائیں گےاور وہ بڑا کام جس کا تم ذکر کرتے ہو یہ ان سے بھی بڑھ جاےُ گا۔
زندگی میں کام کرنے کے لیے اپنی کریز کے اندر رہ کر کھیلنے کی ضرورت ہے۔آپ ہر وقت چھکّا نہیں مار سکتے۔ہر وقت چوکا نہیں مار سکتے لیکن آپ اپنی کریز کہ اندر رہ کر بہت محدود کریز کے اندر رہ کر بہت بڑا مظاہرہ کر سکتے ہیں۔
اشفاق احمد۔
 
انسانی عقل اور رضائے الٰہی۔
کسی نے پوچھا بابا یہ بتاوُ کچھ لوگ بہت امیر ہوتے ہیں اور کچھ بہت غریب ہوتے ہیں۔جو غریب ہوتے ہیں وہ شکل و صورت سے بھی اچھے ہوتے ہیں۔دانش کے اعتبار سے بھی اچھے ہوتے ہیں۔پڑھائی کے اعتبار سے بھی اچھے ہوتے ہیں اور جو لوگ امیر ہوتے ہیں بعض اوقات وہ کچھ بھی نہیں ہوتے۔ان میں نہ عقل و دانش نہ شکل و صورت،لیکن دیکھیں پھر بھی وہ کہاں سے کہاں پہنچ جاتے ہیں۔میں نے کہا یہ تخصیص اور تقسیم جو آپ نے متعین کی ہے یہ محض آپ کو بے چین رکھنے کے لیے ہے۔ہم سب کے دل میں یہ مشکل اور مصیبت قائم ہے۔ڈپریشن کی جتنی بھی بیماری چل رہی ہے محض اسی وجہ سے چل رہی ہے۔ اگر آدمی اللہ کو مان لے ،شرک کے بارے میں کہتے ہیں کہ تعویز گنڈا کرانا،قبروں پر سر جھکانا شرک ہے یہ اگر شرک ہے تو بہت معمولی درجے کا ہے ۔اصل شرک تو یہ ہے کہ بندہ اللہ کے کیے ہوےُ کام کے اندر نقص نکال کر بیٹھ جاےُ۔کہ یہ کیا ہوا؟ یہ ٹھیک نہیں ہے،فلاں کام میری مرضی کے مطابق نہیں ہوا۔اب ان بچوں کو کوئی کیسے بتاےُ کہ ایک تمہاری دانش ہے ،ایک تمہاری عقل ہے،ایک تمارے انصاف کے تقاضے ہیں،ایک اللہ کی دانش ہے،اس کے لیے دانش سے بھی بڑا لفظ چاہیے۔وہ علیم مطلق ہےوہ بہتر سمجھتا ہے کہ کیا کرنا ہے۔میں یہ عرض کر رہا تھا کہ اللہ کے بالکل واضح الفاظ ہیں اور بیشمار مرتبہ فرماتا ہے اور جگہ جگہ فرماتا ہے کہ بے شک اللہ ہی روزی دینے والا ہے اور وہی بڑی مضبوط قوت والا ہے اور اللہ جس کی چاہتا ہے روزی فراح کرتا ہےاور جس کی چاہتا ہے روزی تنگ کرتا ہے اب اس میں ہم کیا ہیں؟ایک آیت میں ہے کہ''جو لوگ ایمان لاےُ اور سچ مچ مومن ہو گئے،وہ ایسی بات نہیں کرتے،ان کے لیے ایک نشانی ہے۔''
میں یہ ساری بات اس لیے عرض کر رہا تھا کہ اگر آپ کو آسودگی کے ساتھ رہنا ہے ،خوشی کے ساتھ رہنا ہے تو اس کا ایک ہی راز ہے کہ اللہ کے کاموں میں آپ دخل نہیں دے سکتے ،کیونکہ اللہ سپریم ہے۔وہ جو کرتا اور فرماتا ہے وہی ٹھیک اور بہتر ہوتا ہے۔اگر آپ اس کی تحقیقات اپنی انسانی عقل سے کریں گے تو وہ آپ کے بس کا روگ ہیں۔۔
اللہ کو مانتے ہوئے ،اس کے احکامات کو تسلیم کرتے ہوئے،یہ مان لینا ضروری ہےکہ جو تو نے فرمایا ہے ٹھیک ہے اور اللہ کے احکامات کو بجا لانا تو خوش قسمت لوگوں کے اختیار میں ہوتا ہے اور ہوتا ایسے ہی ہے جیسے اللہ کرتا ہے۔لیکن ہم کمزور لوگ ہیں ،ہم اپنی عقل و دانش کو ضرور اس میں ٹھونسنے کی کوشش کرتے ہیں۔ہمیں اس میں معافی دی جائے اور اس کے ساتھ ساتھ ہم لالچی لوگ ہیں ہمیں سکون دیا جائے۔
اشفاق احمد۔
 
میں نے دوبارہ دیکھا ہے، میرے پاس کتاب میں ایسے ہی ہے جیسے میں نے لکھا تھا ۔ شائد کتابت کی غلطی ہو ۔
2013-03-05%2013.10.22.jpg
 

ماما شالا

محفلین
بہت خوب
اب یہ بتائیے کہ آپ میں سے کتنے لوگوں نے اس بات کا اہتمام کیا کہ کسی کی تعریف اس کے سامنے کی جائے ، کسی کا وصف اس کو بتانے اور اعتراف کرنے کا حوصلہ کیا ہو ؟
 
خواتین و حضرات!اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ''نماز پڑھو اور روزے رکھو اور نیک عمل کرو''اب میں بڑا حیران بھی ہوتا ہوں اور پھنس جاتا ہوں کہ جب میں نے نماز پڑھ لی روزہ رکھ لیا تو کیا یہ نیک عمل نہیں ہے؟اللہ تعالیٰ نے تیسری نیک عمل کی کیٹیگری کیوں بنائی ہے۔میں اب تک کشمکش میں پھنسا ہوا ہوں کہ نیک عمل کیسے کیے جائیں۔میری طرح آپ بھی جب کسی نیک عمل کی بابت سوچیں گے تو آپ کو اپنے اردگرد نظر دوڑانی ہو گی۔کیونکہ نیک عمل کے لیے آپ کو بندہ یا جاندار ڈھونڈنا ہو گا۔کسی بڑی اماں کو پاس بٹھا کہ پوچھنا ہو گا کہ ''اماں روٹی کھادی اے کہ نئیں کھادی اے۔تیرے پت نے تینوں ماریا سی ہن ماردا تے نئیں''یہ نیک عمل ہے کسی دوست سے اچھی بات کرنا نیک عمل کے زمرے میں آتا ہے۔ابا جی کے ساتھ حسنِ سلوک سے پیش آنے کا نام نیک عمل ہے۔
لیکن یہ نیک اعمال ہم نے کرنے خیر سے ہم نے چھوڑ رکھے ہیں۔
اشفاق احمد
 
بہت شاندار شراکت
بانو ٖسیہ اشفاق احمد کے بارے میں کہتی ہیں
اشفاق احمد نے بڑے کرب کی زندگی گزاری ، اس کی بنیادی وجہ یہی تھی کہ وہ کسی کی دل آزاری کو سب سے بڑا گناہ سمجھتے تھے - ان پر یہ حقیقت نہ کھلی کہ دل شکنی زندگی کا ایک وصف ہے - الله تعالیٰ کبھی کسی انسان کو دوسرے انسان پر آفت بنا کر نازل کر دیتا ہے ، اور کبھی رحمت بنا دیتا ہے یہ سب اس کے کھیل ہیں - اس حقیقت کو طائف کے واقعے یا رحمت دو عالم پر کوڑا پھینکنی والی مائی کے حوالے سے سمجھنا چاہیے کہ ہمارے نبی نے کبھی ان لوگوں کو مورد الزام نہ سمجھا ۔بلکہ یہی جانا کہ بیچارے لوگ مشیت کے ہاتھ میں اس آشوب کا ہتھیار بنے ہوئے ہیں - اس کو کیا کیا جائے کہ قدم قدم پر ، ہر لمحہ ہر موسم اور ہرمقام پر دل ٹوٹتے ہیں - کبھی کسی غلط فہمی کے تحت کبھی خوش فہمی کے باعث دل شکنی ہو ہی جاتی ہے - کبھی حسد حق تلفی کا باعث بنتا ہے اور کبھی طیش -
مناست ہو گا آپ ہر مراسلہ نئے دھاگےمیں پیش کریں کیونکہ بہت سے لوگ پرانا دھاگہ سمجھ کر توجہ نہیں دیں گے
شاد و آباد رہیں
 
بہت شاندار شراکت
بانو ٖسیہ اشفاق احمد کے بارے میں کہتی ہیں
اشفاق احمد نے بڑے کرب کی زندگی گزاری ، اس کی بنیادی وجہ یہی تھی کہ وہ کسی کی دل آزاری کو سب سے بڑا گناہ سمجھتے تھے - ان پر یہ حقیقت نہ کھلی کہ دل شکنی زندگی کا ایک وصف ہے - الله تعالیٰ کبھی کسی انسان کو دوسرے انسان پر آفت بنا کر نازل کر دیتا ہے ، اور کبھی رحمت بنا دیتا ہے یہ سب اس کے کھیل ہیں - اس حقیقت کو طائف کے واقعے یا رحمت دو عالم پر کوڑا پھینکنی والی مائی کے حوالے سے سمجھنا چاہیے کہ ہمارے نبی نے کبھی ان لوگوں کو مورد الزام نہ سمجھا ۔بلکہ یہی جانا کہ بیچارے لوگ مشیت کے ہاتھ میں اس آشوب کا ہتھیار بنے ہوئے ہیں - اس کو کیا کیا جائے کہ قدم قدم پر ، ہر لمحہ ہر موسم اور ہرمقام پر دل ٹوٹتے ہیں - کبھی کسی غلط فہمی کے تحت کبھی خوش فہمی کے باعث دل شکنی ہو ہی جاتی ہے - کبھی حسد حق تلفی کا باعث بنتا ہے اور کبھی طیش -
مناست ہو گا آپ ہر مراسلہ نئے دھاگےمیں پیش کریں کیونکہ بہت سے لوگ پرانا دھاگہ سمجھ کر توجہ نہیں دیں گے
شاد و آباد رہیں
بیت شکریہ بھائی۔
 

عمراعظم

محفلین
بہت زبردست شراکت ہے ، سفینہ بہن۔
اشفاق احمد صاحب کا کمال یہ تھا کہ اچھے اعمال کی تبلیغ اس انداز سے کیا کرتے تھےجیسےزندگی کا کوئی پوشیدہ گوشہ اچانک سامنے آ جائے۔اللہ ا’ن کو بلند درجات عطا فرمائے(آمین)
 
بہت زبردست شراکت ہے ، سفینہ بہن۔
اشفاق احمد صاحب کا کمال یہ تھا کہ اچھے اعمال کی تبلیغ اس انداز سے کیا کرتے تھےجیسےزندگی کا کوئی پوشیدہ گوشہ اچانک سامنے آ جائے۔اللہ ا’ن کو بلند درجات عطا فرمائے(آمین)
آمین۔بہت شکریہ بھائی۔
 
بہت خوبصورت دھاگہ ہے اور اشفاق احمد کو پڑھ کر ہمیشہ ہی اچھا لگتا ہے.

امید ہے کہ آپ مستقبل میں لائبریری میں ایک اچھا اضافہ ثابت ہوں گی
 
Top