اصلاح درکار"" فاعلاتن فَعِلن فاعلاتن فَعِلن""

پھول مانگے تو مقدر نے دلائے پتھر
یار میرے ہی مرے واسطے لائے پتھر

لوگ پھولوں کو مسل دیتے ہیں بے دردی سے
ہم نے ہیں گود میں شفقت سے اٹھائے پتھر

تیری بستی کو نہ جانیں تو کسے ہم جانیں
ہم پہ سو بار ترے کوچے سے آئے پتھر

جانے کس کھوہ میں ہیں آج مسلمان چھپے
پھر سے اسلام پہ بوجہل کے آئے پتھر
 

سید عاطف علی

لائبریرین
ہم نے ہیں گود میں شفقت سے اٹھائے پتھر
یہاں "ہیں " کی جگہ تو بہتر ہوسکتا ہے۔ہیں کی وجہ سے روانی کچھ متاثر ہو تی ہے۔
جانے کس کھوہ میں ہیں آج مسلمان چھپے
یہاں کھوہ کا وزن فاع کی بجائے فع کے وزن پر موزوں کیا جائے تو بہتر ہو۔
نیز بحر کے افاعیل اس طرح ہیں۔
فاعلاتن فعلاتن فعلاتن فعلن
 
یہاں "ہیں " کی جگہ تو بہتر ہوسکتا ہے۔ہیں کی وجہ سے روانی کچھ متاثر ہو تی ہے۔

یہاں کھوہ کا وزن فاع کی بجائے فع کے وزن پر موزوں کیا جائے تو بہتر ہو۔
نیز بحر کے افاعیل اس طرح ہیں۔
فاعلاتن فعلاتن فعلاتن فعلن
شکریہ
 

الف عین

لائبریرین
کھوہ کی جگہ غار استعمال ہو سکتا ہے۔
گود میں بٹھانا محاورہ ہوتا ہے ویسے۔ بجائے ’ہیں اٹھائے‘ کی ناگواری کے، یوں کہیں تو؟
ہم نے گودی میں محبت سے اٹھائے پتھر
منصور محبوب چوہدری شاید تقطیع کے اصولوں سے ہی واقف نہیں ہیں۔ اچھے بھلے مصرع کو اپنی اصلاح سے بحر سے خارج کر دیتے ہیں!!
 
کھوہ کی جگہ غار استعمال ہو سکتا ہے۔
گود میں بٹھانا محاورہ ہوتا ہے ویسے۔ بجائے ’ہیں اٹھائے‘ کی ناگواری کے، یوں کہیں تو؟
ہم نے گودی میں محبت سے اٹھائے پتھر
منصور محبوب چوہدری شاید تقطیع کے اصولوں سے ہی واقف نہیں ہیں۔ اچھے بھلے مصرع کو اپنی اصلاح سے بحر سے خارج کر دیتے ہیں!!
شکریہ سر آپ کے وقت کا بہت شکریہ
 
کھوہ کی جگہ غار استعمال ہو سکتا ہے۔
گود میں بٹھانا محاورہ ہوتا ہے ویسے۔ بجائے ’ہیں اٹھائے‘ کی ناگواری کے، یوں کہیں تو؟
ہم نے گودی میں محبت سے اٹھائے پتھر
منصور محبوب چوہدری شاید تقطیع کے اصولوں سے ہی واقف نہیں ہیں۔ اچھے بھلے مصرع کو اپنی اصلاح سے بحر سے خارج کر دیتے ہیں!!
حضور - آپ کی سرپرستی رہی تو سیکھ جاؤں گا۔براہ کرم یہ ذرا سمجھا دیجئے۔

پھول مانگے | فاعلاتن ہے شاید

مانگے "علاتن" ہے تو کیا پھول "فا" ہے؟

نیا ہوں - اس سے کم درجہ کوئی فورم ہے تو وہاں چلا جاتا ہوں - گستاخی معاف
 
حضور - آپ کی سرپرستی رہی تو سیکھ جاؤں گا۔براہ کرم یہ ذرا سمجھا دیجئے۔

پھول مانگے | فاعلاتن ہے شاید

مانگے "علاتن" ہے تو کیا پھول "فا" ہے؟

نیا ہوں - اس سے کم درجہ کوئی فورم ہے تو وہاں چلا جاتا ہوں - گستاخی معاف
پھول: فاع
مانگے: لاتن
 
شکریہ قریشی صاحب نشاندہی کا-

اس خاکسار نے کہیں پڑھا تھا کہ فاعلاتن میں پہلا رکن سبب ہوتا ہے - اب فاعلاتن کو اس طرح بھی دیکھوں گا-

اور اس حساب سے "پھول چاہے" بھی بحر سے باہر نہیں - استاد الف عین محترم شاید میرے دوسرے مصرعے کے ترتیب تبدیل کرنے پہ خفا ہیں - درست فرمارہے ہیں - "میرے ہی مرے" کچھ اچھا نہیں لگ رہا تو تبدیل کیا - گستاخی معاف
 

الف عین

لائبریرین
شکریہ قریشی صاحب نشاندہی کا-

اس خاکسار نے کہیں پڑھا تھا کہ فاعلاتن میں پہلا رکن سبب ہوتا ہے - اب فاعلاتن کو اس طرح بھی دیکھوں گا-

اور اس حساب سے "پھول چاہے" بھی بحر سے باہر نہیں - استاد الف عین محترم شاید میرے دوسرے مصرعے کے ترتیب تبدیل کرنے پہ خفا ہیں - درست فرمارہے ہیں - "میرے ہی مرے" کچھ اچھا نہیں لگ رہا تو تبدیل کیا - گستاخی معاف
یار میرے۔ فاعلاتن
میرے یار۔ فاعلات ، اگر میرِیا تقطیع کریں تو
تو فاعلاتن فعلاتن فعلاتن فعلن
میں میرے یار کس طرح شروع میں آ سکتا ہے۔ اس لا علمی کی وجہ سے مجھے غلط فہمی (؟) ہوئی کہ تقطیع سے واقف نہیں۔ اور جسے میرے خفا ہونے کی تعبیر کی جا رہی ہے۔
 
یار میرے۔ فاعلاتن
میرے یار۔ فاعلات ، اگر میرِیا تقطیع کریں تو
تو فاعلاتن فعلاتن فعلاتن فعلن
میں میرے یار کس طرح شروع میں آ سکتا ہے۔ اس لا علمی کی وجہ سے مجھے غلط فہمی (؟) ہوئی کہ تقطیع سے واقف نہیں۔ اور جسے میرے خفا ہونے کی تعبیر کی جا رہی ہے۔

خضور ایک اور نکتہ سمجھا دیجئے - مہربانی آپ کی

یہاں "یار میرے" کو فاعلاتن تعبیر ہو رہا ہے
ایک اور جگہ

"بھلا میں نے" کو مفاعیلن تعبیر ہو رہا ہے - کیا "یار میرے" بھی مفاعیلن ہی تصور کیا جانا چاہئے؟ اصول واضح کر دیں - بہت مشکور ہو آپ کا-
 
خضور ایک اور نکتہ سمجھا دیجئے - مہربانی آپ کی

یہاں "یار میرے" کو فاعلاتن تعبیر ہو رہا ہے
ایک اور جگہ

"بھلا میں نے" کو مفاعیلن تعبیر ہو رہا ہے - کیا "یار میرے" بھی مفاعیلن ہی تصور کیا جانا چاہئے؟ اصول واضح کر دیں - بہت مشکور ہو آپ کا-
یار میرے فاعلاتن ہی رہے گا اور بھلا میں نے مفاعیلن۔ عروضی ویری ایبلز سپیس اینڈ ٹائم انڈیپینڈنٹ ہیں صرف حروف علت کا اسقاط انھیں بدل سکتا ہے۔
 

الف عین

لائبریرین
فاعلاتن کو
2122
سمجھیں اور مفاعیلن کو
1222
سمجھیں۔ 1 سے مراد ایک حرفی سمجھیں اور 2 سے مراد دو حرفی۔ اس یں تقطیع کے اصول کا خیال رکھیں جیسے نون غنہ، دو چشمی ھ وغیرہ بطور حرف نہیں گنے جاتے، اور اسقاط کو بھی شامل کریں۔ یار میرے اور بھلا میں نے میں کوئی اسقاط نہیں۔ اسی مثال سے سمجھیں،
 
اب یہاں سب کو محبت ہو گئی ہے
کچھ یہاں رب کی عنایت ہو گئی ہے

بڑی مُشکل سے ھُوا ھُوں بے دین میں
اب سہولت ھی سہولت ہو گئی ہے

بادشاہوں کی حفاظت کیسے کی جائے
اب فقیروں کی حکومت ہو گئی ہے

تُم سے بدلے میں وفا کیوں مانگتے ہم
کیا وفا کوئی تجارت ہو گئی ہے

آپ نے لوٹ آنے میں تاخِیر کی ہے
اب مجھے خود سے محبت ہو گئی ہے
 

الف عین

لائبریرین
عے چلو اس غزل کو مکمل لے لوں۔ پچھلی غزل پر مکمل بات نہیں ہوئی تھی، کچھ مختلف باتیں نکل آئی تھیں ورنہ اس کا مطلع ہی غلط تھا۔ ایطا کا شکار۔
اب یہ غزل
اب یہاں سب کو محبت ہو گئی ہے
کچھ یہاں رب کی عنایت ہو گئی ہے
÷÷÷دونوں مصرعوں میں ’یہاں‘ کی تکرار اچھی نہیں لگ رہی۔
یوں ہو تو؟
غالباً رب کی۔۔۔۔۔

بڑی مُشکل سے ھُوا ھُوں بے دین میں
اب سہولت ھی سہولت ہو گئی ہے
÷÷÷پہلا مصرع وزن میں نہیں۔

بادشاہوں کی حفاظت کیسے کی جائے
اب فقیروں کی حکومت ہو گئی ہے
÷÷÷درست

تُم سے بدلے میں وفا کیوں مانگتے ہم
کیا وفا کوئی تجارت ہو گئی ہے
÷÷÷درست

آپ نے لوٹ آنے میں تاخِیر کی ہے
اب مجھے خود سے محبت ہو گئی ہے
یہ بھی درست ہے۔ اگرچہ دونوں مصرعے ’ہے‘ پر ختم ہونا اچھے نہیں لگتے۔
الفاظ بدلیں۔ ویسے مفہوم بھی سمجھ میں نہیں آیا۔ اس کی کچھ وجہ؟​
 
اب یہاں سب کو محبت ہو گئی ہے
غالباً رب کی عنایت ہو گئی ہے

سخت مشکل سے ھُوا ھُوں بے دین میں تو
اب سہولت ھی سہولت ہو گئی ہے

بادشاہوں کی حفاظت کیسے کی جائے
اب فقیروں کی حکومت ہو گئی ہے

تُم سے بدلے میں وفا کیوں مانگتے ہم
کیا وفا کوئی تجارت ہو گئی ہے

آپ نے لوٹ آنے میں تاخِیر کی جو
اب مجھے خود سے محبت ہو گئی ہے

سر کیا اب
الف عین
 
Top