فاخر
محفلین
غزل
حضرت الف عین صاحب سے درخواست کے ساتھ:
افتخاررحمانی فاخر ، نئی دہلی
مئے ارغوانی پلایا کروتم
سرشام قصے سنایا کروتم
محبت ، مؤدت ، لطافت ، نزاکت
جبیں پہ ، یہ عنصر سجایا کرو تم
فراواں ہیں دل میں ، الم ہائے فرقت
مرے پاس بے خو ف آیاکروتم
ہو مطرب بھی تم فن میں ممتاز بھی ہو
کوئی ساز الفت کا چھیڑا کرو تم
”فروزاں کنم ہر شب ِ غم چراغے“
دِیا چاہتوں کا، جلایاکروتم
غزل کا مجھ سے حکم:
روایت پسندی کے ہوجاؤ قائل
روایت پسندی نبھایا کروتم
کہ بحروں سے خارج ، کوئی شعر ہرگز
پیارے کبھی مت ، سنایا کروتم
غزل كى رديف میں لفظ” تم“ کچھ اٹ پٹا سا لگ رہا ہوگا ، مغربی یوپی اور اطراف دہلی میں ”تم “ کا استعمال کیا جاتا ہے ،مگر ”تم “ مجھےبھی سپاٹ سا لگ رہا ہے ، ویسے استاد محترم قبلہ جناب الف عین مدظلہ ا لعالی کی رائے کا انتظار ہے ۔ یہ الگ بحث ہے کہ روایت پسندی کیا ہے اور جدت پسندی کیا ہے ؟ یہ بحث اپنی جگہ لیکن جہاں تک میں سمجھ سکا ہوں وہ یہ ہے کہ:’ روایت پسندی یا کلاسیکیت ہماری مشرقی وراثت ہے ، ہم اس وراثت سے کلیتہً اجتناب تو نہیں کرسکتے ‘۔اسی وجہ سے راقم نے اخیر کے چار مصرعہ میں اپنی روایت پسندی کا اظہار کیا ہے ۔
تنوع و تکثریت کی رو سے جدت پسندوں کی نفی بھی نہیں کی جاسکتی ہے، کیوں کہ اس سے نظموں میں وسعت آئی ہے ۔ البتہ غزل کا جہان اس سے بھی زیادہ وسیع؛بلکہ وسیع ترہے۔ مجروح سلطان پوری کا نام کسی سے مخفی نہیں ہے، جب پہلی مرتبہ جگرمرادآبادی کی معیت میں ممبئی پہنچے تھے اورکسی فلم کے دائریکٹر یا فلم ساز نے بطور گیت کار ان کو پسند کیا تھا ،اور باضابطہ ترقی پسند حلقہ میں نشست و برخاست ہوتی رہی تو ، مجروح سلطان پوری سے تمام ترقی پسند شاعروں نے یک گونہ بعد کا اظہار کیا تھا؛كيونكہ وہ ایک غزل گو شاعر تھے ، لیکن مجروح سلطان پوری کی غزلوں نے انہیں اس قدر متاثر کیا کہ وہ بطور غزل گو شاعر مجروح سلطان پوری کو اپنے حلقہ میں شمار کرنے لگے۔
حضرت الف عین صاحب سے درخواست کے ساتھ:
افتخاررحمانی فاخر ، نئی دہلی
مئے ارغوانی پلایا کروتم
سرشام قصے سنایا کروتم
محبت ، مؤدت ، لطافت ، نزاکت
جبیں پہ ، یہ عنصر سجایا کرو تم
فراواں ہیں دل میں ، الم ہائے فرقت
مرے پاس بے خو ف آیاکروتم
ہو مطرب بھی تم فن میں ممتاز بھی ہو
کوئی ساز الفت کا چھیڑا کرو تم
”فروزاں کنم ہر شب ِ غم چراغے“
دِیا چاہتوں کا، جلایاکروتم
غزل کا مجھ سے حکم:
روایت پسندی کے ہوجاؤ قائل
روایت پسندی نبھایا کروتم
کہ بحروں سے خارج ، کوئی شعر ہرگز
پیارے کبھی مت ، سنایا کروتم
غزل كى رديف میں لفظ” تم“ کچھ اٹ پٹا سا لگ رہا ہوگا ، مغربی یوپی اور اطراف دہلی میں ”تم “ کا استعمال کیا جاتا ہے ،مگر ”تم “ مجھےبھی سپاٹ سا لگ رہا ہے ، ویسے استاد محترم قبلہ جناب الف عین مدظلہ ا لعالی کی رائے کا انتظار ہے ۔ یہ الگ بحث ہے کہ روایت پسندی کیا ہے اور جدت پسندی کیا ہے ؟ یہ بحث اپنی جگہ لیکن جہاں تک میں سمجھ سکا ہوں وہ یہ ہے کہ:’ روایت پسندی یا کلاسیکیت ہماری مشرقی وراثت ہے ، ہم اس وراثت سے کلیتہً اجتناب تو نہیں کرسکتے ‘۔اسی وجہ سے راقم نے اخیر کے چار مصرعہ میں اپنی روایت پسندی کا اظہار کیا ہے ۔
تنوع و تکثریت کی رو سے جدت پسندوں کی نفی بھی نہیں کی جاسکتی ہے، کیوں کہ اس سے نظموں میں وسعت آئی ہے ۔ البتہ غزل کا جہان اس سے بھی زیادہ وسیع؛بلکہ وسیع ترہے۔ مجروح سلطان پوری کا نام کسی سے مخفی نہیں ہے، جب پہلی مرتبہ جگرمرادآبادی کی معیت میں ممبئی پہنچے تھے اورکسی فلم کے دائریکٹر یا فلم ساز نے بطور گیت کار ان کو پسند کیا تھا ،اور باضابطہ ترقی پسند حلقہ میں نشست و برخاست ہوتی رہی تو ، مجروح سلطان پوری سے تمام ترقی پسند شاعروں نے یک گونہ بعد کا اظہار کیا تھا؛كيونكہ وہ ایک غزل گو شاعر تھے ، لیکن مجروح سلطان پوری کی غزلوں نے انہیں اس قدر متاثر کیا کہ وہ بطور غزل گو شاعر مجروح سلطان پوری کو اپنے حلقہ میں شمار کرنے لگے۔
مدیر کی آخری تدوین: