بات گرچہ بے سلیقہ ہو کلیم ، بات کرنے کا سلیقہ چاہیے
تمام لوگوں کے تبصرہ جات پڑھ لیے ، ہر کوئی یہاں ناصح اور مشفق نیز” مصلح“ ہی نظر آیااور یہ میری خوش قسمتی ہے ۔ بات یہ نہیں ہے کہ جس کے تحت آپ تمام ممبران مجھ پرچڑھ دوڑے ہیں ، بات یہ ہے کہ ”بات کچھ بھی نہیں ہے“۔ اس سے قبل بھی محمد خلیل الرحمن کے تبصرہ سے یہی” کیفیت “ قائم ہوئی تھی ۔ میں نے آج کو ئی غلط اور ناروا تبصرہ ان کے جواب میں نہیں کیا ہے ۔ میں نے تو ان کا شکریہ ادا کیا ، لیکن انہوں نے اپنی علمیت بگھارنے کے لیے تلخ شعرکا لقمہ دے دیا پھر کیا تھا راجپوت خون کا جوش میں آنالازمی تھا ۔ جان لیجئے !اردو کسی کے باپ کی جاگیر نہیں ہے، یہ اردو ہے ، اس کا کوئی مکان اور زمان نہیں ہے۔یہ ہماری خوش نصیبی ہے ؛بلکہ ہمیں اس پر فخر ہے کہ ”ہم ہندوستانی ہیں اور ہماری زبان اردوہے “ ۔ ہمیں اہل زبان کہلانے کے لیے کسی غیر ملکی اور غیر اہل زبان کی ”ہبہ “ کردہ سند کی ضرورت نہیں ہے ۔اردو کی پیدائش کے متعلق جیسا کہ ادب کا ادنیٰ سے ادنیٰ طالب علم بھی جانتا ہے کہ:”یہ زبان ہندوستان کی مشترکہ تہذیب کی ”یافت “ ہے ،اور اردو ہندوستان کی زبان ہے“ ۔ مشہور شاعر و افسانہ نگار راجندر سنگھ بیدی نے بھی کہا ہے اور اس ذیل میں مشہور ہندو شاعر اور جدیدیت کے علمبردار بلراج کومل کا بھی قول ہے کہ یہ زبان ہندوستانیوں کی ہے ۔ یہ زبان ادب ، فلسفہ ، ثقافت ، محبت ، عشق ،وارفتگی ، جنون ، حدت ِشوق اور مساوات و اخوت کی زبان ہے ۔یہی اردو ہے جس کی وجہ سے میں اس فورم تک آیا ہوں ، ورنہ تو مجھے دشمنوں کی ’ ’صف “ میں آنے کی ضرورت ہی کیا تھی ؟ وہ بھی اہل زبان کہلانے کے زعم میں غلطاں اور پیچاں ہیں ، جن کی زبان سندھی ، پنجابی ، سرائیکی ،ہزاروی وغیرہ وغیرہ زبان کی کثافت سے آلودہ ہے ۔ وہ بھی اہل زبان ہونے کا اعلان کرتا ہے ، جس کا ادیب و شاعر ”کافِر“ کو ”کافَر“ بفتح الفاء، کہتا اور لکھتا ہے ۔اس ذیل میں کئی مثالیں ہیں جنہیں میں پیش کرسکتا ہوں۔ ویسے ہندوستان کا دامن اہل علم سے خالی نہیں ہے ، جن میں راحت اندوری ، منظر بھوپالی، اور خود ہمارے استاد مکرم قبلہ اعجاز عبید مدظلہ العالی (للہ تعالیٰ ان کا” ظل ہما “ہم پر قائم و دائم رکھے ، آمین)بھی ہیں ۔
خیر ! میں یہاں کیوں آیا؟ یہ سوال اہم ہے۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ مجھے شاعری کا شوق ہی نہیں ؛بلکہ اس کا جنون بھی ہے ۔بات صاف ہے کہ ولی دکنی سے لے کر جوش ملیح آبادی تک ، اور اختر شیرانی سے لے کر جاں نثار اختر اور اسرار الحق مجاز تک یا پھر فیض کی شاعری کا تجزیہ کرلیں ، کسی نہ کسی گوشہ میں شاعری کے پس منظر میں عشق کی سرگرانی اور اس کی ’کارفرمائی‘ نظر آئے گی، چناں چہ میرے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔ کسی کی چشم کافر نے مجھے اس ”کافری“ کی راہ میں ڈال دیا! ۔ تمام قدماءو متا¿خرین کے دستیاب دیوان پڑھے ،کسی حد تک فارسی سے بھی شدبد ہے ، بنابریں حافظ ، مولانا، سعدی اور امیرخسرو وغیرہ کو بھی پڑھنے لگا ، اب بھی پڑھتا ہوںبلکہ ان سے استفادہ کرنا اپنی خوش نصیبی تصور کرتا ہوں ۔ ان تمام صوفیا کی غزلوں میں جو حلاوت اورطمانیت ملتی ہے ، وہ کہیں اور نہیں ملتی ۔اردو کے میر اور سراج اورنگ آبادی کی شاعری میں یہ اجزائے ترکیبی یعنی ”عشق “ کا وجود ہے؛ لیکن سب کو معلوم ہے کہ :”میر اور سراج اورنگ آبادی امرد پرست شاعر تھے ، اور ہاں ! اس ذیل میں پاکستانی شاعر افتی نسیم نامی شاعر بھی بدنام ہے ۔ اس پر الزام ہے کہ وہ ہم جنس پرستی کا دلدادہ اور اس کا حامی بھی تھا ، یہ بھی اڑتی ہوئی خبر ہے کہ اس نے لندن یا پھر امریکہ میں ہم جنس پرستوں کے حقوق کے لیے آواز بھی بلند کی تھی۔ مجھے نہیں پتہ اس تعلق سے سچائی کیا ہے ۔ واللہ اعلم بالصواب ۔ اگر افتی نسیم اس عادتِ بد کے شکار تھاتو چوں کہ اب وہ فوت ہوچکا ہے ، اللہ تعالیٰ اس کی بخشش کرے ، ویسے وہ بیچارہ مسلمان بھی تھا یا نہیں ؟ میرے لیے یہ بھی قابلِ تفتیش ہے !۔
آ مدم برسر مطلب ! میں نے اس سے قبل بھی کہا ہے اور اب بھی کہتا ہوںکہ :” نثر میرے لیے جتنا آسان ہے اسی طرح شعر گوئی میرے لیے مشکل ؛بلکہ مشکل ترین ہے ۔یہ میرا جنون ہی ہے کہ میں شعر گوئی کی مشکلات کو گرمی عشق اور شوق کی کامجوئیوں کی وجہ سے برداشت کر رہاہوں ، کیا پتہ ایک دن قدرت کے خزانے سے مجھے میرا مطلوب حاصل ہوجائے ۔شاعری کے لیے بحروں کی تفہیم اصل ہے ، اور میں اب تک بحروں کی تفہیم اوراس کے مکمل ادراک و شعور سے محروم ہوں ۔ میں نے تو ان چرواہوں کو بھی دیکھا ہے جس کے گیت سے ایک سماں بندھ جاتا ہے ۔ میں یہاں اصلاح کے لیے اپنے کلام کیوں پیش کرتا ہوں ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ :’ مجھے اپنے غزلیہ کلام کسی کے روبرو اصلاح کے لیے پیش کرنے میں شرم اور جھجھک محسوس ہوتی ہے ‘۔ یہی جھجھک ہے کہ اس فورم کا ممبر بنا ہوں ۔اس فورم میں آنے کے بعد یوں لگا کہ میں اپنی اس تصوارتی دنیا میں آگیا ہوں ، جس کے خواب میں دیکھا کرتا تھا ۔ اس فورم کا یہ احسان ہے کہ فخر ِ روزگار حضرت الف عین (اعجاز عبید ) صاحب ادام ظلہ اللہ جیسی شخصیت ’مفت‘ میں مل گئی ۔(الحمد للہ علیٰ ذالک) جس کا میں گمان نہیں کرسکتا تھا ۔
یہ اردو محفل فورم ہے ، یہاں شائستگی کا اظہار لازمی ہے ۔ ہر کسی کو تنقید و تبصرہ کا حق ہے؛کیوں کہ ہر کسی کو ’ ’آزادی ظہار“ کا حق حاصل ہے ۔ تبصرہ کیجئے ، لیکن آپ کا تبصرہ اور آپ کی تنقید تعمیری ہونی چاہیے ، تخریبی نہیں۔ اگر میرے کسی تبصرہ سے کسی کی دل آزاری ہوئی ہو تو میں معافی چاہوں گا ۔ اس سلسلے کو یہیں تمام سمجھیں ، دوسرے لنک میں ایک نئی غزل پیش کرتا ہوں۔