اعراب لگا کر عربی عبارت پیش کیجیے

ربیع م

محفلین
جی بالکل صحیح۔۔۔
اعراب کی وجہ بیان کر بھی دی جائے تو بغیر صرف نحو سیکھے کسی کی سمجھ میں کیسے آسکتی ہے؟؟؟
اصل میں وجوہات بہت مختصر سی ہوتی ہیں
یا مرفوعات میں سے ہو گا یا منصوبات میں سے یا مجرورات میں سے
باقی صرف اعراب کی بھی کون سا کسی کو سمجھ آتی ہے
خیر یہ یہ محض ایک رائے تھی.
 
آج کل فیس بُک پر المتنبی کا یہ شعر گردش میں ہے، اعراب بھی لگائیں اور ترجمہ بھی کریں (درس نظامی والے دوستوں سے خصوصی درخواست):

الم الم الم الم بدائہ
ان آن آن آن آن اوانہ
:)
أَلَمٌ أَلَمَّ أَلَمْ أُلِمَّ بِدَائِهِ
إِنْ آنَ آنٌ آنَ آنُ أوَانِه

ایسے درد نے مجھے آگھیرا ہے کہ جس کے مرض کا مجھے اس سے پہلے کچھ علم نہیں تھا۔ سو اب اگر کوئی زمانہ آنا ہے تو وہ اسی بیماری کا زمانہ ہے۔
أَلَمٌ: درد
أَلَمَّ: (صیغہ ماضی) درد یا بیماری کا لاحق ہونا۔
أَلَمْ: ہمزہ استفہام اور لم صیغۂ نفی۔
أُلِمَّ: صیغہ مضارع، منفی بہ لم، (فعل جحد) مجھے معلوم نہ تھا۔
بِدَائِهِ: داء بمعنی بیماری۔
إِنْ: اگر۔ حرف شرط۔
آنَ: کسی وقت کا آنا، صیغہ ماضی۔
آنٌ: وقت، زمانہ، دور۔
آنَ
: کسی وقت کا آنا، صیغہ ماضی۔
آنُ: وقت، زمانہ، دور۔
أوَانِه: وقت۔

یہ تو ہوا ترجمہ۔ باقی یہ شعر جیسا کہ آپ کو اندازہ ہو گیا ہوگا کسی فیسبکی متنبی کا تو ہوسکتا ہے، ابو الطیب المتنبی کا ہرگز نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ ایک تو اس میں اس معنویت کا کوئی پرتو نہیں جو متنبی کا خاصہ ہے۔ دوسرے اس میں تمام تر لفظی تکلفات سے قطع نظر عربیت کی واضح غلطی ہے کہ پہلے مصرع میں "ہمزہ استفہام" بے معنی طور پر محض وزن کے ساتھ زور زبردستی کرنے کے لیے لایا گیا ہے۔ واللہ اعلم
 

محمد وارث

لائبریرین
أَلَمٌ أَلَمَّ أَلَمْ أُلِمَّ بِدَائِهِ
إِنْ آنَ آنٌ آنَ آنُ أوَانِه

ایسے درد نے مجھے آگھیرا ہے کہ جس کے مرض کا مجھے اس سے پہلے کچھ علم نہیں تھا۔ سو اب اگر کوئی زمانہ آنا ہے تو وہ اسی بیماری کا زمانہ ہے۔
أَلَمٌ: درد
أَلَمَّ: (صیغہ ماضی) درد یا بیماری کا لاحق ہونا۔
أَلَمْ: ہمزہ استفہام اور لم صیغۂ نفی۔
أُلِمَّ: صیغہ مضارع، منفی بہ لم، (فعل جحد) مجھے معلوم نہ تھا۔
بِدَائِهِ: داء بمعنی بیماری۔
إِنْ: اگر۔ حرف شرط۔
آنَ: کسی وقت کا آنا، صیغہ ماضی۔
آنٌ: وقت، زمانہ، دور۔
آنَ
: کسی وقت کا آنا، صیغہ ماضی۔
آنُ: وقت، زمانہ، دور۔
أوَانِه: وقت۔

یہ تو ہوا ترجمہ۔ باقی یہ شعر جیسا کہ آپ کو اندازہ ہو گیا ہوگا کسی فیسبکی متنبی کا تو ہوسکتا ہے، ابو الطیب المتنبی کا ہرگز نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ ایک تو اس میں اس معنویت کا کوئی پرتو نہیں جو متنبی کا خاصہ ہے۔ دوسرے اس میں تمام تر لفظی تکلفات سے قطع نظر عربیت کی واضح غلطی ہے کہ پہلے مصرع میں "ہمزہ استفہام" بے معنی طور پر محض وزن کے ساتھ زور زبردستی کرنے کے لیے لایا گیا ہے۔ واللہ اعلم
شکریہ انصاری صاحب قبلہ۔

ویسے عربی زبان سے عقیدت کی وجہ سے سمجھتا تھا کہ عربی والے وہ حرکتیں اپنے شعرا کے ساتھ نہیں کرتے جو ہم اردو والے فراز و اقبال کے ساتھ کرتے ہیں لیکن آپ کی بات نے یہ بت پاش پاش کر دیئے۔ :)

تصویر دیکھیے:

72954233_1340959522740355_1687916546690646016_n.jpg
 

محمد وارث

لائبریرین
ایک اور اسی طرح کا "شغل"، فیس بُک کے "مشاغل" ہی میں سے۔ :)

تین کافوں کے تلفظ کے بعد اوپر تلے پانچ کافوں کا تلفظ ہے:

ما رایت کککا کککککم

72253635_1342550399247934_1818920071490174976_n.jpg
 

سید عاطف علی

لائبریرین
اسی طرح ایک بیت یہ بھی معروف ہے ۔ اس میں کوئی بھی حرف دوسرے سے ملتا نہیں ۔ ترجمہ اور اعراب ماہرین جانیں ۔
زُرْ دَارَ وُدٍّ إنْ أرَدْتَ وُرُوْدَا
زَادُوْكَ وُدَّاً أنْ رَأوْكَ وَدُوْدَا
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
"من" متعدد معانی میں استعمال ہوتا ہے۔ اس لیے ان کے پیش نظر مختلف معانی ذہن میں آرہے تھے۔ مذکورہ معنی اچھا لگا تھا اس لیے پیش کردیا۔
عبید بھائی ، ترجمہ تو آپ نے ظاہر ہے بالکل ٹھیک ہی لکھا تھا ۔ جملے کا اصل مدعا بلکہ لب لباب آ گیا تھا ترجمے میں ۔ لیکن شکوہ میرا آپ سے یہی تھاکہ آپ نے اختصار سے کام لیا اور لب لباب پر ہی ٹرخادیا ۔ خواہش تھی کہ مَنْ مَنَّ ، مِنْ مَنٍّ اور مُنَّ مِنَ الْمَنَّانِ تینوں ٹکڑوں کاایسا ترجمہ ہوجاتا کہ جو لطف اصل عربی مقولے کا ہے وہ اردو میں بھی کچھ عیاں ہوتا ۔ ہم جیسے مبتدیوں کو بھی معلوم ہوتا کہ اعراب کی تبدیلی سے ایک ہی لفظ من اسم بھی ہوسکتا ہے ، حرف بھی اور فعل بھی ۔ بلکہ فعل کے دو مختلف صیغوں کو ظاہر کرسکتا ہے ۔ یعنی عربی کتنی عظیم الشان زبان ہے اور کتنی وسعت اپنے اندر رکھتی ہے ۔ سبحان اللہ ۔اب میں ہی لفظی ترجمہ کردیتا ہوں ۔ اگر ضرورت ہو تو آپ تصحیح فرمائیے گا ۔
مَنْ مَنَّ : جس نے بھی کسی کو نوازا (عطا کیا ، احسان کیا)
مِنْ مَنٍّ: نوازشات میں سے (مال و متاع ، عطایا وغیرہ میں سے)
مُنَّ مِنَ الْمَنَّانِ : وہ نوازا جائے گا منان کی جانب سے ( یعنی اللہ سبحانہ و تعالیٰ)
ویسے آپ نے کمال کیا ۔ ماشاء اللہ لاحول ولا قوۃ الا باللہ العظیم ۔ اللہ کریم آپ کے علم و فضل میں ترقی عطا فرمائے اور منبعِ فیضِ عام بنائے ۔ آمین۔
گر یہ بھی ٹھیک نہیں ہے تو کولر کا ڈھکن اپنے پاس ہی رکھیں۔ میں اس پر پلیٹ رکھ لوں گا۔ :)
ارے نہیں عبید بھائی ۔ یہ ڈھکن بھی آپ ہی کا ہے۔ آپ ہی لے جائیے ۔ اور پلیٹ ادھر میری طرف بھجوادیجئے ۔ بس یہ خیال رہے کہ خالی نہ ہو ۔ :D
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
ویسے عربی زبان سے عقیدت کی وجہ سے سمجھتا تھا کہ عربی والے وہ حرکتیں اپنے شعرا کے ساتھ نہیں کرتے جو ہم اردو والے فراز و اقبال کے ساتھ کرتے ہیں لیکن آپ کی بات نے یہ بت پاش پاش کر دیئے۔ :)

یہ عقیدت والی بات آپ کی بالکل درست ہے ۔( اس پر کئی لطیفے یاد آکے رہ گئے )۔ لیکن حقیقت عقیدت سے کہیں مختلف ہے ۔ پچھلی تین دہائیوں سے عرب خواتین و حضرات کو یہاں امریکا میں بہت قریب سے دیکھنے کا موقع ملا ہے ۔ اور یہ حقیقت آشکار ہوئی کہ اکثر لوگ قرآن مجید درست نہیں پڑھ سکتے ۔ الٹا سیدھا جیسے چاہا پڑھ دیتے ہیں ۔ اعراب کی اتنی غلطیاں کرتے ہیں کہ دل دہل جاتا ہے ۔ اور اگر ٹوکو تو برا بھی مان جاتے ہیں ۔ معیاری عربی کہ جسے فصحیٰ کہا جاتا ہے وہ معدودے چند پڑھے لکھے لوگ ہی جانتے ہیں ۔ اس کے مقابلہ میں پاک و ہند کے مدرسوں سے سند یافتہ لوگ بدرجہا بہتر عربی جانتے ہیں ۔ یہ لوگ واقعی عربی کے زبان دان ہوتے ہیں ۔
 

بافقیہ

محفلین
اسی طرح ایک بیت یہ بھی معروف ہے ۔ اس میں کوئی بھی حرف دوسرے سے ملتا نہیں ۔ ترجمہ اور اعراب ماہرین جانیں ۔
زُرْ دَارَ وُدٍّ إنْ أرَدْتَ وُرُوْدَا
زَادُوْكَ وُدَّاً أنْ رَأوْكَ وَدُوْدَا
خوبصورت شعر ہے۔ دوسرے مصرعہ میں أن والا ھمزہ نیچے(إن) ہوناچاہئے۔۔۔

ترجمہ اپنی غیر معیاری اردو میں:۔
اگر کہیں جانا چاہیں تو ان کے ہاں جائیں جہاں پیار ومحبت ملے۔
یوں وہ بھی آپ کا جذبۂ الفت دیکھ کر آپ سے ٹوٹ کر چاہنے لگیں گے۔
 

سید عمران

محفلین
اسی طرح ایک بیت یہ بھی معروف ہے ۔ اس میں کوئی بھی حرف دوسرے سے ملتا نہیں ۔ ترجمہ اور اعراب ماہرین جانیں ۔
زُرْ دَارَ وُدٍّ إنْ أرَدْتَ وُرُوْدَا
زَادُوْكَ وُدَّاً أنْ رَأوْكَ وَدُوْدَا
اگر تم آنا چاہتے ہو تو دوست کے اور محبت والے کے گھر آؤ۔۔۔
وہ تمہیں زیادہ دوستی اور محبت دیں گے اگر تمہیں محبت کرنے والا پائیں گے ۔۔۔
ہمیں لفظی ترجمہ میں کبھی وہ لطف نہیں آتا جو بامحاورہ میں آتا ہے!!!
 
آخری تدوین:

سید عاطف علی

لائبریرین
ہمیں لفظی ترجمہ میں کبھی وہ لطف نہیں آتا جو بامحاورہ میں آتا ہے!!!
زبردست عمران بھائی:star2: ،
ویسے میری رائے میں اگر اصل زبان کا کچھ ادراک (اور ذوق) ہو تو لفظی ترجمہ بھی خوب رہتا ہے کہ اصل زبان کا لطف بھی تازہ ہوجاتا ہے ۔ لیکن بامحاورہ ترجمہ کی کایک علیحدہ لطافت ہوتی ہے ۔ شاد آباد رہیں ۔
 
خوبصورت شعر ہے۔ دوسرے مصرعہ میں أن والا ھمزہ نیچے(إن) ہوناچاہئے۔۔۔

ترجمہ اپنی غیر معیاری اردو میں:۔
اگر کہیں جانا چاہیں تو ان کے ہاں جائیں جہاں پیار ومحبت ملے۔
یوں وہ بھی آپ کا جذبۂ الفت دیکھ کر آپ سے ٹوٹ کر چاہنے لگیں گے۔
أن بفتح الھمزۃ کی توجیہ ممکن ہے۔ ایسی صورت وہاں پیش آتی ہے جہاں یہ تعلیل کے لیے مستعمل ہو۔ اس وقت یہاں لام تعلیل محذوف ہوگا۔
راجع الى قوله تعالى: أن دعوا للرحمان ولدا.
 

زیک

مسافر
یہ عقیدت والی بات آپ کی بالکل درست ہے ۔( اس پر کئی لطیفے یاد آکے رہ گئے )۔ لیکن حقیقت عقیدت سے کہیں مختلف ہے ۔ پچھلی تین دہائیوں سے عرب خواتین و حضرات کو یہاں امریکا میں بہت قریب سے دیکھنے کا موقع ملا ہے ۔ اور یہ حقیقت آشکار ہوئی کہ اکثر لوگ قرآن مجید درست نہیں پڑھ سکتے ۔ الٹا سیدھا جیسے چاہا پڑھ دیتے ہیں ۔ اعراب کی اتنی غلطیاں کرتے ہیں کہ دل دہل جاتا ہے ۔ اور اگر ٹوکو تو برا بھی مان جاتے ہیں ۔ معیاری عربی کہ جسے فصحیٰ کہا جاتا ہے وہ معدودے چند پڑھے لکھے لوگ ہی جانتے ہیں ۔ اس کے مقابلہ میں پاک و ہند کے مدرسوں سے سند یافتہ لوگ بدرجہا بہتر عربی جانتے ہیں ۔ یہ لوگ واقعی عربی کے زبان دان ہوتے ہیں ۔
برصغیر میں مدارس میں کلاسک عربی سکھائی جاتی ہے۔ مذہبی سکالرز کے علاوہ میں کسی عرب کو نہیں جانتا جو کلاسک عربی اچھی طرح جانتا ہو۔ تمام مقامی عربی ہی بولتے ہیں اور مختلف حد تک ماڈرن سٹینڈرڈ لکھنے پڑھنے سے واقف ہوتے ہیں۔ یہ سب آج ہی کی بات نہیں بلکہ میری امی، ماموں خالہ وغیرہ سب بنیادی طور پر صرف مصری عربی ہی جانتے ہیں اور مصر چھوڑے بھی ساٹھ سال ہو گئے
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
برصغیر میں مدارس میں کلاسک عربی سکھائی جاتی ہے۔ مذہبی سکالرز کے علاوہ میں کسی عرب کو نہیں جانتا جو کلاسک عربی اچھی طرح جانتا ہو۔ تمام مقامی عربی ہی بولتے ہیں اور مختلف حد تک ماڈرن سٹینڈرڈ لکھنے پڑھنے سے واقف ہوتے ہیں۔ یہ سب آج ہی کی بات نہیں بلکہ میری امی، ماموں خالہ وغیرہ سب بنیادی طور پر صرف مصری عربی ہی جانتے ہیں اور مصر چھوڑے بھی ساٹھ سال ہو گئے
اور مقامی عربی بھی ہر ملک کی الگ ۔ اور اتنا تیز بولتے ہیں کہ سب کچھ سر پر سے گزر جاتا ہے ۔ ہم لوگ مذاق میں مصری دوستوں سے کہتے ہیں کہ تم لوگ عربی نہیں بلکہ اگِپ شین بولتے ہو ۔ :)
کچھ فلسطینی تو بعض الفاظ میں "چ" کی آواز بھی بولتے ہیں ۔
 

بافقیہ

محفلین
برصغیر میں مدارس میں کلاسک عربی سکھائی جاتی ہے۔ مذہبی سکالرز کے علاوہ میں کسی عرب کو نہیں جانتا جو کلاسک عربی اچھی طرح جانتا ہو۔ تمام مقامی عربی ہی بولتے ہیں اور مختلف حد تک ماڈرن سٹینڈرڈ لکھنے پڑھنے سے واقف ہوتے ہیں۔ یہ سب آج ہی کی بات نہیں بلکہ میری امی، ماموں خالہ وغیرہ سب بنیادی طور پر صرف مصری عربی ہی جانتے ہیں اور مصر چھوڑے بھی ساٹھ سال ہو گئے
جنابِ زیک! معاف کریں ۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ دنیا کی یہ ایک واحد زبان ہے جس میں کلاسک اور ماڈرن کا تصور ۔۔۔ یا تو نہیں ہے یا اگر ہے تو غلط ہے۔
آپ تو انگریزی اور اردو کے ماہر ہیں ماشاءاللہ۔ آپ تو جانتے ہیں کہ انگریزی ، اردو اور دیگر تمام زبانیں ماڈرن لکھی بھی جاتی ہیں۔ لیکن عربی زبان کی پڑھائی لکھائی اور تمام چیزیں عربی کلاسک میں ہوتی ہیں۔ جو الفاظ عربی زبان میں تھے وہ اب بھی ہیں۔ لیکن زمانے کی جدت طرازیوں نے نئی اصطلاحات اور نئے الفاظ کو نئے نام ضرور دئیے۔ جیسے کہ سائنس نے ہر زبان میں نئے الفاظ اور اصطلاحات کو وجود بخشا ہے۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ عربی کلاسک اور ماڈرن کا تصور صحیح ہے۔ اور عربی پڑھا لکھا ہر شخص کلاسک زبان بالعموم سمجھ سکتا ہے۔ ہاں ہر قدیم اصطلاح اور الفاظ کا سمجھ میں آنا ضروری نہیں۔ یہ اسی طرح ہے جیسے ہم بھی تمام اردو کے الفاظ نہیں جانتے۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
در اصل عربی زبان میں تلفظ اور ادائیگی کا تنوّع صوتی لحاظ سے اتنا زیادہ اختیار کر گیا ہے کہ ایک دوسرے سے بہت زیادہ متفاوت معلوم ہوتا ہے لیکن یہ بات حقیقت ہے کہ پوری عرب دنیا اسے لہجات سے زیادہ اہمیت نہیں دیتی ۔ اور زبان کے قاعدے اور اصول وہی ہیں جو کلاسیکی عربی میں متعین اور مستحکم ہیں اور کسی بھی قسم کے اختلاف ہی صورت میں انہی اصولوں سے کلام کو پرکھا جاتا ہے ۔ عربی زبان میں (یعنی لہجات میں ) حروف کا تغیر اور تبدل بہت زیادہ ہونے کی وجہ سے ایسا لگتا ہے کہ گویا (بظاہر) زبان ہی الگ ہے ۔ ان مروجہ لہجات میں نہ صرف نئے مخارج شامل ہیں بلکہ کئی الفاظ کے عربی میں ہی ایک دوسرے سے مخارج میں متبدل ہیں ۔
مثلاََ ۔گ۔ چ۔ وغیرہ کی شمولیت (بطور حرف یعنی کتابت نہیں بلکہ بطور صوتی شمولیت) ۔
کہیں بھی چ اور گ لکھا نہیں جاتا لیکن صرف بولا جاتا ہے۔کہیں کہیں ک کو س بھی بولا جاتا ہے ۔
میڈیا کی دنیا میں انٹرتینمنٹ انڈسٹری میں کیوں کہ مصری لہجہ غالب ہے اس لیے انٹرٹینمنٹ کی حد تک یہ لہجہ کئی عرب ممالک میں مشہور ہے ۔ اس میں بھی مخارج بہت تبدیل شدہ ہیں ۔جو ہماری عجمی سماعتوں پر انتہائی مشکل بلکہ مضحکہ خیز بھی بن جاتے ہیں ۔
لیکن بین الاقوامی رسمی ،سیاسی اور صحافتی ماحول میں مصری اور دیگر ممالک کے افراد بھی اصلی عرب لہجے میں کلام کرتے ہیں ۔
مصر میں جہاں تک مذہبی تقاریر کی بات ہے تو مصری شیوخ بھی مصری علاقائی آڈئینس میں اپنے ہی لہجے ہی میں کلام کرتے ہیں الا یہ کہ انہیں بین الاقوامی آڈئینس کی موجودگی میں خطاب کرنا ہو ۔
 
Top