جواب ۔۔۔۔۔اول: میت کی ہڈی توڑنا، اس کی زندگی میں ہڈی توڑنے کے مثل ہے۔
دوم: قبر کے ساتھ ٹیک لگانے پر فرمایا: قبر والے کو ایذا نہ دے۔
سوم: مومن کو مرنے کے بعد ایذا دینا ایسا ہی ہے جیسا کہ اس کی زندگی میں ایذا دینا۔
چہارم: جہاد میں صحابی کا ہاتھ زخمی ہوا، انہوں نے اپنا ہاتھ کاٹ لیا۔ بعد از موت ہاتھ کے بارے میں فرمایا گیا: جو تو نے بگاڑا ہے، اس کو ہم ٹھیک نہیں کریں گے۔
ان چاروں حوالہ جات میں عطیہ کرنے کا بیان کہیں نہیں آتا۔
عطیہ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ آپ نے اپنے آپ کو تکلیف دی لیکن اس لیے دی تاکہ کسی دوسرے کا بھلا ہو جائے۔
کیا ایسی کوئی حدیث یا قرآنی آیت آپ کے علم میں ہے جو اس بات کی کوئی مثال پیش کرتی ہو؟
ہمارے سامنے ایک ایسی مثال موجود ہے۔ کافی مشہور مثال ہے۔ میرے پاس حوالہ نہیں لیکن مثال اتنی مشہور ہے کہ حوالے کی ضرورت بھی نہیں۔
ایک جنگ میں موت کے قریب، جاں بہ لب صحابہ(یا دیگر اللہ والے ) پانی مانگ رہے تھے۔ کسی نے پانی دیا تو دوسری طرف سے آواز آئی کہ مجھے پانی پلا دو۔ پانی جسے پلانے لگے تھے، اس نے کہا اُسے پہلے دے دو۔ پلانے والا اس طرف چلا گیا۔ وہاں بھی یہی ہوا۔ پانی پلانے لگے تو پھر آواز آئی پانی پلا دو۔ انہوں نے بھی یہی کہا کہ اس کو پلا دو۔ وہ تیسرے کی طرف گئے تو وہ جان سے گزر چکا تھا۔ واپس آئے تو دوسرا اور پھر واپس گئے تو پہلا بھی اللہ کے حضور جا چکا تھا۔
ہم مانتے ہیں یہاں اعضا عطیہ کرنے کی بات نہیں ہو رہی۔ لیکن اگر آپ کو معلوم ہو کہ پانی نہ پینے سے آپ مر سکتے ہیں، آپ پھر بھی پانی دوسرے کو دے دیں تو کیا دلائل کی رو سے یہ خودکشی نہیں ہے؟ اگر ہے تو کیا اس پر آپ خودکشی کا حکم عائد کریں گے؟ انہوں نے تو عطیہ دینے کے لیے جان گنوا دی۔ اعضا دینا تو چھوٹی سی بات ہے جس سے تکلیف پہنچتی ہے مردے اور جاندار دونوں کو، لیکن دوسروں کے لیے جان دے دینا کیا ہے؟ خودکشی؟
معذرت کے ساتھ یہ بھی کہنا چاہتا ہوں کہ میں آپ کے دلائل کے خلاف نہیں ہوں، لیکن بات کو سمجھنے کے لیے یہ ایک سوال ہے جس کا جواب ضروری ہے۔ اس سے پہلے کہ اعضاء عطیہ کرنے کے بارے میں جائز یا ناجائز ہونے کی رائے دی جائے۔
آپ کس اسلام کے مسلمان ہیں اور اس معاملے میں جو بہت سارے اختلافات ہیں کوئی دو تین ہی بتائیں ؟کونسے اسلام کے رونے رو رہے ہیں؟ اس معاملے میں تو کافی اختلاف پایا جاتا ہے۔
سیستانی کے نزدیک اعضاء عطیہ کئے جا سکتے ہیں۔ اسلام کیو اے کے نزدیک بھی جائز ہے اور اس لنک پر کئی اسلامی تنظیموں کے نام ہیں جن کے مطابق جائز ہے۔اس معاملے میں جو بہت سارے اختلافات ہیں کوئی دو تین ہی بتائیں ؟
آپ سے متفق ہوں کہ اسلام اور شریعت کا اخلاق سے کوئی تعلق نہیں۔لیکن اخلاقی قدروں سے شریعت کے مسائیل تبدیل کرنا بڑی حماقت ہے
اگر یہی طریقہ ہے تو پھر اسی قرآن نے غلامی کی تعلیم بھی دی۔ لہذا آپ کے لاجک کے تحت غلامی ختم کرنا انتہائی غلط فعل تھا۔گر یہ کام اتنا ہی اہم تھا تو جس ہستی کے اخلاق کی قسم قرآن کھاتا ہے اُس ذات نے کیوں اس کی تعلیم نہ دی ۔
اوریجنل لنک تو نہیں ملا مگر یہ بھی دیکھ لیں:فتوی کا لنک ہے زیک بھائی؟
ایثار ۔۔ قربانی ۔۔۔ عطیہ ۔۔۔ جو بھی کہیے۔ محض اصطلاحات ہیں۔ یہاں اہم بات یہ ہے کہ جسم کے مالک ہم خود نہیں ہیں۔ لیکن مالک تو ہم کسی بھی چیز کے نہیں ہیں۔ زمین و آسمان تو سب اللہ تعالیٰ کا ہے۔ ہمارا تو کچھ بھی نہیں۔ ہاں، یہ سوال یہاں آپ کی بات سے ہی پیدا ہوا کہ دیت (خوں بہا) کا تعین شریعت کرتی ہے۔ لیکن مجھے یہ اختیار دیا گیا ہے کہ اگر میرا کوئی پیارا قتل ہوا تھا تو میں اس کے قاتل کو سزا دلواؤں یا معاف کردوں۔ کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ساتھ برائی کرنے والوں اور اپنے پیاروں کے قاتلوں کو فتح مکہ کے دن لا تثریب علیکم الیوم فرما کر معاف کردیتے ہیں۔ وہ جو زندہ بھی نہ رہے، یہاں انہوں نے بھی معاف نہ کیا ، بلکہ ان کے رشتہ داروں کو معاف کرنے کا اختیار ثابت ہو رہا ہے۔ مالکانہ تصرف کہاں کہاں جائز کہا جائے گا اور کہاں ناجائز ہوگا؟نفس سے مراد کیا صرف وہ اپنا آ پ ہے جس میں آپ کا جسم تک شامل نہیں، کیونکہ روح تو وہ چیز ہے جسے آپ چاہ کر بھی دوسروں کو عطیہ نہیں کرسکتے۔ پھر دوسروں کو اپنے نفسوں پر ترجیح دینا کیا محض اتنا ہے کہ جو چیز آپ کے پاس ہے، صرف وہی چیز دے دی جائے، جسم کا وہ عضو نہ دیا جائے جس کے جانے سے آپ کی زندگی پر کوئی فرق نہ پڑتا ہو، یا پھر آپ کے جانے کے بعد جب آپ کا جسم آپ کے تصرف میں ہی نہ رہا، روح تک نکل چکی ، تو جسم کے اعضاء عطیہ نہ کیے جائیں۔نفس سے مراد تو پھر مادی اشیاء ٹھہریں جو آپ کے تصرف میں ہیں، یا وہ جانور جو آپ قربانی یا ذبح کرکے کھانے کے طور پر استعمال کرنے کے لیے یا سواری وغیرہ کے لیے دے دیتے ہیں۔ کیا اسے ہم نفس سمجھیں؟ پانی انسانی جسم کا حصہ نہیں۔ مان لیا، موت کا یقینی علم نہیں تھا، اگر ہوتا ، اس کے باوجود پانی دے دیتے تو کیا اسلام اس سے روکتا؟ یہ سوال بھی اپنی جگہ اہم ہے۔جواب ۔۔۔۔۔
آپ کی رائے میں ""عطیہ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ آپ نے اپنے آپ کو تکلیف دی لیکن اس لیے دی تاکہ کسی دوسرے کا بھلا ہو جائے::
پہلی بات تو یہ ہے کہ آ پ عطیہ اور ایثار کے فرق کو سمجھ نہیں پائے مذکورہ پانی والا واقعہ ایثار صحابہ کی مثال ہے نہ کے عطیہ کی جس کے بارے میں قرآن مدح سرا ہے ""یوثرون علیٰ انفسھم ؛ وہ دوسروں کو اپنے نفسوں پر ترجیح دیتے ہیں ۔نیز بات جسمانی اعضا کی ہو رہی ہے نہ کے پانی ،کیا پانی بھی انسانی جسم کا حصہ ہے ؟اور الفاظ حدیث اگر ملاحظہ کریں تو وہ کچھ یوں ہیں پہلے اس کو دو اُسے زیادہ ضرورت ہے مطلب یہ کے پانی مجھے بھی ضرورت ہے لیکن اس کو دو اس کے بعد مجھے دینا یعنی موت کا علم یقینی انھیں بھی نہیں تھا کے پانی کے واپس پہنچنے تک ہم دارفانی سے کوچ کر جائیں گے جبکہ عطیہ میں ایسا نہیں ہے وہ ایک اختیاری امر ہے لیکن ایسی چیز کا جس کا انسان خود مالک نہیں انسان اپنے وجود کا مالک نہیں ہے یہی اصل نکتہ بحث ہے اگر یہ سمجھ اآجائے تو عطیہ کئ مکمل بحث سمجھ آسکتی ہے ۔
انسان کا جسم وجان خالص اللہ تعالیٰ کی ملک ہے، ایک حدیث شریف میں اس بات کی تصریح موجود ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اعضاء وجوارح میں سے کسی چیز کا ہمیں مالک نہیں بنایا، یہی وجہ ہے کہ دیت (خون بہا) کا تعین شریعت کرتی ہے، انسان خود نہیں کرتا، لہٰذا انسان اپنی جان میں کوئی ایسا تصرف نہیں کرسکتا جس کی شریعت نے اسے اجازت نہ دی ہو، اسی لیے خودکشی کرنے یا اپنے اعضاء کو کاٹنے کا اختیار نہ تو خود آدمی کو ہے اور نہ دوسرا کوئی شخص اس کی اجازت سے ایسا کرسکتا ہے، کیونکہ یہ ملک ِ خداوندی میں بے جا تصرّف، صنعت ِالٰہی کے عظیم شاہکار کی تخریب کاری اور حرمت ِ انسانی کی پامالی کے ساتھ ساتھ تقدیرِ ربّانی میں دخل اندازی کی لاحاصل کوشش بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر کام کا ایک وقت مقرر کیا ہوا ہے، اور یہ شخص اس طرح مالکانہ تصرف کرکے بزعم خویش اس وقت سے سبقت کرنے کی ناجائز کوشش کرتا ہے۔
ساری بات درست ہے۔۔۔جس بات کے بارےمیں واضح احکام موجود ہیں، اس سے کوئی انکار نہیں کرسکتا، لیکن جہاں اجتہاد کی بات آتی ہے تو علماء کی آراء بھی آج کے دور میں اس قابل ہیں کہ انہیں حدیث اور قرآن کی روشنی میں پرکھ لیا جائے۔ اللہ سے دعا کی جائے کہ وہ آپ کو درست راہ پر رکھے۔ جب تک آپ مطمئن نہ ہوں، تب تک اجتہاد بھی کم از کم آج کے دور میں تو آپ کے لیے قابل قبول نہیں کیونکہ حدیث کے مطابق فتنے علما سے اٹھیں گے اور انہی میں واپس لوٹ جائیں گے۔ لہٰذا تحقیق ہمارا فرض ہے۔ ہر مسلمان کا فرض ہے کہ وہ اندھا دھند تقلید چھوڑ کر سمجھنے کی کوشش کرے کہ حق بات کیا ہے۔
2-لیکن اخلاقی قدروں سے شریعت کے مسائیل تبدیل کرنا بڑی حماقت ہے ۔سب لوگ اخلاق کے اُصولوں پے شریعت کا وزن کرنے میں مصروف ہیں یہ سوچے بغیر کے اگر یہ کام اتنا ہی اہم تھا تو جس ہستی کے اخلاق کی قسم قرآن کھاتا ہے اُس ذات نے کیوں اس کی تعلیم نہ دی ۔ عقلمند کے لئے ۔۔۔۔۔۔کافی ہے ،
یہ تو نو بال یا فری ہٹ پر چھکا لگانے والی بات ہے۔آپ سے متفق ہوں کہ اسلام اور شریعت کا اخلاق سے کوئی تعلق نہیں۔
شکریہاوریجنل لنک تو نہیں ملا مگر یہ بھی دیکھ لیں:
http://www.sjkdt.org/article.asp?is...e=23;issue=4;spage=817;epage=822;aulast=Albar
قراآن نے غلام آزاد کرنے کی متعدد بار تعلیم دی ہے۔اگر یہی طریقہ ہے تو پھر اسی قرآن نے غلامی کی تعلیم بھی دی۔ لہذا آپ کے لاجک کے تحت غلامی ختم کرنا انتہائی غلط فعل تھا۔
سارے مذاہب میں اخلاق اسلام نے ہی تو سکھائے ہیں۔۔۔آپ سے متفق ہوں کہ اسلام اور شریعت کا اخلاق سے کوئی تعلق نہیں۔
’میرے خیال میں سو فیصد لوگ اعضا قبول تو کر لیں گے مگر شاید ان میں بہت سے عطیہ نہیں دیں گے۔‘ برطانوی سابق پولیس افسر
فتوی کا لنک ہے زیک بھائی؟
استغفراللہ۔جب یہ بات طے ہوئی کہ مرنے کے بعد بھی زندگی کا سلسلہ تو باقی رہتا ہے مگر اس کی نوعیت بدل جاتی ہے۔ تو اَب اس پر غور کرنا چاہئے کہ کیا آدمی کو دیکھنے کی ضرورت صرف اسی زندگی میں ہے؟ کیا مرنے کے بعد کی زندگی میں اسے دیکھنے کی ضرورت نہیں؟ معمولی عقل و فہم کا آدمی بھی اس کا جواب یہی دے گا کہ اگر مرنے کے بعد کسی نوعیت کی زندگی ہے تو جس طرح زندگی کے اور لوازمات کی ضرورت ہے اسی طرح بینائی کی بھی ضرورت ہوگی۔
اللہ اکبر!زندگی میں انسانوں کو اپنے وجود اور اعضاء پر تصرف حاصل ہوتا ہے، اس کے باوجود اس کا اپنے کسی عضو کو تلف کرنا نہ قانوناً صحیح ہے، نہ شرعاً، نہ اخلاقاً۔
میری درخواست ہے کہ اس ویڈیو کو ضرور دیکھیے گا۔ اگرچہ یہ پہلی نظر میں یہاں زیر بحث موضوع سے پوری طرح متعلق نہیں نظر آتی۔ لیکن اگر غور کیا جائے تو اعضاء کے عطیے کے سوال کو ایک نئے اور دلچسپ انداز میں دیکھنے کا موقع ضرور پیدا کرتی ہے۔آپ نے کبھی قبرستانوں میں بارش یا زلزلے وغیرہ سے کھل جانے والی قبروں کو دیکھا ہے؟ کون سے اعضا محفوظ نظر آتے ہیں آپ کو؟ کبھی آپ نے قبروں پر اگے ہوئے درختوں کو دیکھا ہے؟ کبھی سوچا ہے کہ یہ آپ کے پیاروں کی لاشوں سے اپنی غذا حاصل کر رہے ہیں؟ کبھی آپ نے سوچا ہے کہ جس کھیت کی گندم جناب نے تناول فرمائی ہے اس کے خوشے آج سے سیکڑوں، ہزاروں یا لاکھوں برس پہلے اس جگہ مرنے والے جانوروں اور انسانوں کی باقیات سے قوت حاصل کر رہے ہیں؟ کبھی آپ نے غور فرمایا ہے کہ آپ کے مکان کی مٹی میں کس کس انسان کی خاک ہم جنس ہو کر رہ گئی ہے؟ کبھی آپ نے تدبر فرمایا ہے کہ آپ کے اردگرد موت کا رقص جاری ہے اور آپ کی خوراک سے لے کر اوڑھنے بچھونے کے سامان تک ہر ہر جگہ مردہ انسانوں کے عناصر بکھرے ہوئے ہیں؟
اگر اللہ اس منتشر صورت سے انسان کو دوبارہ پیدا کر سکتا ہے، اور یہی ازروئے قرآن اس کی قدرت ہے، تو عطیہ کیے ہوئے اعضا سے ابا کیوں کرے گا؟