اعضا عطیہ کرنے میں مسلمانوں کی پریشانیاں!

اول: میت کی ہڈی توڑنا، اس کی زندگی میں ہڈی توڑنے کے مثل ہے۔
دوم: قبر کے ساتھ ٹیک لگانے پر فرمایا: قبر والے کو ایذا نہ دے۔
سوم: مومن کو مرنے کے بعد ایذا دینا ایسا ہی ہے جیسا کہ اس کی زندگی میں ایذا دینا۔
چہارم: جہاد میں صحابی کا ہاتھ زخمی ہوا، انہوں نے اپنا ہاتھ کاٹ لیا۔ بعد از موت ہاتھ کے بارے میں فرمایا گیا: جو تو نے بگاڑا ہے، اس کو ہم ٹھیک نہیں کریں گے۔
ان چاروں حوالہ جات میں عطیہ کرنے کا بیان کہیں نہیں آتا۔
عطیہ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ آپ نے اپنے آپ کو تکلیف دی لیکن اس لیے دی تاکہ کسی دوسرے کا بھلا ہو جائے۔
کیا ایسی کوئی حدیث یا قرآنی آیت آپ کے علم میں ہے جو اس بات کی کوئی مثال پیش کرتی ہو؟
ہمارے سامنے ایک ایسی مثال موجود ہے۔ کافی مشہور مثال ہے۔ میرے پاس حوالہ نہیں لیکن مثال اتنی مشہور ہے کہ حوالے کی ضرورت بھی نہیں۔
ایک جنگ میں موت کے قریب، جاں بہ لب صحابہ(یا دیگر اللہ والے ) پانی مانگ رہے تھے۔ کسی نے پانی دیا تو دوسری طرف سے آواز آئی کہ مجھے پانی پلا دو۔ پانی جسے پلانے لگے تھے، اس نے کہا اُسے پہلے دے دو۔ پلانے والا اس طرف چلا گیا۔ وہاں بھی یہی ہوا۔ پانی پلانے لگے تو پھر آواز آئی پانی پلا دو۔ انہوں نے بھی یہی کہا کہ اس کو پلا دو۔ وہ تیسرے کی طرف گئے تو وہ جان سے گزر چکا تھا۔ واپس آئے تو دوسرا اور پھر واپس گئے تو پہلا بھی اللہ کے حضور جا چکا تھا۔
ہم مانتے ہیں یہاں اعضا عطیہ کرنے کی بات نہیں ہو رہی۔ لیکن اگر آپ کو معلوم ہو کہ پانی نہ پینے سے آپ مر سکتے ہیں، آپ پھر بھی پانی دوسرے کو دے دیں تو کیا دلائل کی رو سے یہ خودکشی نہیں ہے؟ اگر ہے تو کیا اس پر آپ خودکشی کا حکم عائد کریں گے؟ انہوں نے تو عطیہ دینے کے لیے جان گنوا دی۔ اعضا دینا تو چھوٹی سی بات ہے جس سے تکلیف پہنچتی ہے مردے اور جاندار دونوں کو، لیکن دوسروں کے لیے جان دے دینا کیا ہے؟ خودکشی؟
معذرت کے ساتھ یہ بھی کہنا چاہتا ہوں کہ میں آپ کے دلائل کے خلاف نہیں ہوں، لیکن بات کو سمجھنے کے لیے یہ ایک سوال ہے جس کا جواب ضروری ہے۔ اس سے پہلے کہ اعضاء عطیہ کرنے کے بارے میں جائز یا ناجائز ہونے کی رائے دی جائے۔
جواب ۔۔۔۔۔
آپ کی رائے میں ""عطیہ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ آپ نے اپنے آپ کو تکلیف دی لیکن اس لیے دی تاکہ کسی دوسرے کا بھلا ہو جائے::
پہلی بات تو یہ ہے کہ آ پ عطیہ اور ایثار کے فرق کو سمجھ نہیں پائے مذکورہ پانی والا واقعہ ایثار صحابہ کی مثال ہے نہ کے عطیہ کی جس کے بارے میں قرآن مدح سرا ہے ""یوثرون علیٰ انفسھم ؛ وہ دوسروں کو اپنے نفسوں پر ترجیح دیتے ہیں ۔نیز بات جسمانی اعضا کی ہو رہی ہے نہ کے پانی ،کیا پانی بھی انسانی جسم کا حصہ ہے ؟اور الفاظ حدیث اگر ملاحظہ کریں تو وہ کچھ یوں ہیں پہلے اس کو دو اُسے زیادہ ضرورت ہے مطلب یہ کے پانی مجھے بھی ضرورت ہے لیکن اس کو دو اس کے بعد مجھے دینا یعنی موت کا علم یقینی انھیں بھی نہیں تھا کے پانی کے واپس پہنچنے تک ہم دارفانی سے کوچ کر جائیں گے جبکہ عطیہ میں ایسا نہیں ہے وہ ایک اختیاری امر ہے لیکن ایسی چیز کا جس کا انسان خود مالک نہیں انسان اپنے وجود کا مالک نہیں ہے یہی اصل نکتہ بحث ہے اگر یہ سمجھ اآجائے تو عطیہ کئ مکمل بحث سمجھ آسکتی ہے ۔
انسان کا جسم وجان خالص اللہ تعالیٰ کی ملک ہے، ایک حدیث شریف میں اس بات کی تصریح موجود ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اعضاء وجوارح میں سے کسی چیز کا ہمیں مالک نہیں بنایا، یہی وجہ ہے کہ دیت (خون بہا) کا تعین شریعت کرتی ہے، انسان خود نہیں کرتا، لہٰذا انسان اپنی جان میں کوئی ایسا تصرف نہیں کرسکتا جس کی شریعت نے اسے اجازت نہ دی ہو، اسی لیے خودکشی کرنے یا اپنے اعضاء کو کاٹنے کا اختیار نہ تو خود آدمی کو ہے اور نہ دوسرا کوئی شخص اس کی اجازت سے ایسا کرسکتا ہے، کیونکہ یہ ملک ِ خداوندی میں بے جا تصرّف، صنعت ِالٰہی کے عظیم شاہکار کی تخریب کاری اور حرمت ِ انسانی کی پامالی کے ساتھ ساتھ تقدیرِ ربّانی میں دخل اندازی کی لاحاصل کوشش بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر کام کا ایک وقت مقرر کیا ہوا ہے، اور یہ شخص اس طرح مالکانہ تصرف کرکے بزعم خویش اس وقت سے سبقت کرنے کی ناجائز کوشش کرتا ہے۔
 
کونسے اسلام کے رونے رو رہے ہیں؟ اس معاملے میں تو کافی اختلاف پایا جاتا ہے۔
آپ کس اسلام کے مسلمان ہیں اور اس معاملے میں جو بہت سارے اختلافات ہیں کوئی دو تین ہی بتائیں ؟
دو جملوں میں بحث سمٹ سکتی ہے اگر عقل ہو تو
1-اخلاقی اعتبار سے یہ بطور انسان بڑا عظیم کام ہے اور قابل تحسین جذبہ اور میں اس جذبے والے ہر شخص کو عظیم سمجھتا ہوں ۔
2-لیکن اخلاقی قدروں سے شریعت کے مسائیل تبدیل کرنا بڑی حماقت ہے ۔سب لوگ اخلاق کے اُصولوں پے شریعت کا وزن کرنے میں مصروف ہیں یہ سوچے بغیر کے اگر یہ کام اتنا ہی اہم تھا تو جس ہستی کے اخلاق کی قسم قرآن کھاتا ہے اُس ذات نے کیوں اس کی تعلیم نہ دی ۔ عقلمند کے لئے ۔۔۔۔۔۔کافی ہے ،
 

زیک

مسافر

زیک

مسافر
گر یہ کام اتنا ہی اہم تھا تو جس ہستی کے اخلاق کی قسم قرآن کھاتا ہے اُس ذات نے کیوں اس کی تعلیم نہ دی ۔
اگر یہی طریقہ ہے تو پھر اسی قرآن نے غلامی کی تعلیم بھی دی۔ لہذا آپ کے لاجک کے تحت غلامی ختم کرنا انتہائی غلط فعل تھا۔
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
جواب ۔۔۔۔۔
آپ کی رائے میں ""عطیہ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ آپ نے اپنے آپ کو تکلیف دی لیکن اس لیے دی تاکہ کسی دوسرے کا بھلا ہو جائے::
پہلی بات تو یہ ہے کہ آ پ عطیہ اور ایثار کے فرق کو سمجھ نہیں پائے مذکورہ پانی والا واقعہ ایثار صحابہ کی مثال ہے نہ کے عطیہ کی جس کے بارے میں قرآن مدح سرا ہے ""یوثرون علیٰ انفسھم ؛ وہ دوسروں کو اپنے نفسوں پر ترجیح دیتے ہیں ۔نیز بات جسمانی اعضا کی ہو رہی ہے نہ کے پانی ،کیا پانی بھی انسانی جسم کا حصہ ہے ؟اور الفاظ حدیث اگر ملاحظہ کریں تو وہ کچھ یوں ہیں پہلے اس کو دو اُسے زیادہ ضرورت ہے مطلب یہ کے پانی مجھے بھی ضرورت ہے لیکن اس کو دو اس کے بعد مجھے دینا یعنی موت کا علم یقینی انھیں بھی نہیں تھا کے پانی کے واپس پہنچنے تک ہم دارفانی سے کوچ کر جائیں گے جبکہ عطیہ میں ایسا نہیں ہے وہ ایک اختیاری امر ہے لیکن ایسی چیز کا جس کا انسان خود مالک نہیں انسان اپنے وجود کا مالک نہیں ہے یہی اصل نکتہ بحث ہے اگر یہ سمجھ اآجائے تو عطیہ کئ مکمل بحث سمجھ آسکتی ہے ۔
انسان کا جسم وجان خالص اللہ تعالیٰ کی ملک ہے، ایک حدیث شریف میں اس بات کی تصریح موجود ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اعضاء وجوارح میں سے کسی چیز کا ہمیں مالک نہیں بنایا، یہی وجہ ہے کہ دیت (خون بہا) کا تعین شریعت کرتی ہے، انسان خود نہیں کرتا، لہٰذا انسان اپنی جان میں کوئی ایسا تصرف نہیں کرسکتا جس کی شریعت نے اسے اجازت نہ دی ہو، اسی لیے خودکشی کرنے یا اپنے اعضاء کو کاٹنے کا اختیار نہ تو خود آدمی کو ہے اور نہ دوسرا کوئی شخص اس کی اجازت سے ایسا کرسکتا ہے، کیونکہ یہ ملک ِ خداوندی میں بے جا تصرّف، صنعت ِالٰہی کے عظیم شاہکار کی تخریب کاری اور حرمت ِ انسانی کی پامالی کے ساتھ ساتھ تقدیرِ ربّانی میں دخل اندازی کی لاحاصل کوشش بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر کام کا ایک وقت مقرر کیا ہوا ہے، اور یہ شخص اس طرح مالکانہ تصرف کرکے بزعم خویش اس وقت سے سبقت کرنے کی ناجائز کوشش کرتا ہے۔
ایثار ۔۔ قربانی ۔۔۔ عطیہ ۔۔۔ جو بھی کہیے۔ محض اصطلاحات ہیں۔ یہاں اہم بات یہ ہے کہ جسم کے مالک ہم خود نہیں ہیں۔ لیکن مالک تو ہم کسی بھی چیز کے نہیں ہیں۔ زمین و آسمان تو سب اللہ تعالیٰ کا ہے۔ ہمارا تو کچھ بھی نہیں۔ ہاں، یہ سوال یہاں آپ کی بات سے ہی پیدا ہوا کہ دیت (خوں بہا) کا تعین شریعت کرتی ہے۔ لیکن مجھے یہ اختیار دیا گیا ہے کہ اگر میرا کوئی پیارا قتل ہوا تھا تو میں اس کے قاتل کو سزا دلواؤں یا معاف کردوں۔ کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ساتھ برائی کرنے والوں اور اپنے پیاروں کے قاتلوں کو فتح مکہ کے دن لا تثریب علیکم الیوم فرما کر معاف کردیتے ہیں۔ وہ جو زندہ بھی نہ رہے، یہاں انہوں نے بھی معاف نہ کیا ، بلکہ ان کے رشتہ داروں کو معاف کرنے کا اختیار ثابت ہو رہا ہے۔ مالکانہ تصرف کہاں کہاں جائز کہا جائے گا اور کہاں ناجائز ہوگا؟نفس سے مراد کیا صرف وہ اپنا آ پ ہے جس میں آپ کا جسم تک شامل نہیں، کیونکہ روح تو وہ چیز ہے جسے آپ چاہ کر بھی دوسروں کو عطیہ نہیں کرسکتے۔ پھر دوسروں کو اپنے نفسوں پر ترجیح دینا کیا محض اتنا ہے کہ جو چیز آپ کے پاس ہے، صرف وہی چیز دے دی جائے، جسم کا وہ عضو نہ دیا جائے جس کے جانے سے آپ کی زندگی پر کوئی فرق نہ پڑتا ہو، یا پھر آپ کے جانے کے بعد جب آپ کا جسم آپ کے تصرف میں ہی نہ رہا، روح تک نکل چکی ، تو جسم کے اعضاء عطیہ نہ کیے جائیں۔نفس سے مراد تو پھر مادی اشیاء ٹھہریں جو آپ کے تصرف میں ہیں، یا وہ جانور جو آپ قربانی یا ذبح کرکے کھانے کے طور پر استعمال کرنے کے لیے یا سواری وغیرہ کے لیے دے دیتے ہیں۔ کیا اسے ہم نفس سمجھیں؟ پانی انسانی جسم کا حصہ نہیں۔ مان لیا، موت کا یقینی علم نہیں تھا، اگر ہوتا ، اس کے باوجود پانی دے دیتے تو کیا اسلام اس سے روکتا؟ یہ سوال بھی اپنی جگہ اہم ہے۔
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
جس بات کے بارےمیں واضح احکام موجود ہیں، اس سے کوئی انکار نہیں کرسکتا، لیکن جہاں اجتہاد کی بات آتی ہے تو علماء کی آراء بھی آج کے دور میں اس قابل ہیں کہ انہیں حدیث اور قرآن کی روشنی میں پرکھ لیا جائے۔ اللہ سے دعا کی جائے کہ وہ آپ کو درست راہ پر رکھے۔ جب تک آپ مطمئن نہ ہوں، تب تک اجتہاد بھی کم از کم آج کے دور میں تو آپ کے لیے قابل قبول نہیں کیونکہ حدیث کے مطابق فتنے علما سے اٹھیں گے اور انہی میں واپس لوٹ جائیں گے۔ لہٰذا تحقیق ہمارا فرض ہے۔ ہر مسلمان کا فرض ہے کہ وہ اندھا دھند تقلید چھوڑ کر سمجھنے کی کوشش کرے کہ حق بات کیا ہے۔
 

سید عمران

محفلین
جس بات کے بارےمیں واضح احکام موجود ہیں، اس سے کوئی انکار نہیں کرسکتا، لیکن جہاں اجتہاد کی بات آتی ہے تو علماء کی آراء بھی آج کے دور میں اس قابل ہیں کہ انہیں حدیث اور قرآن کی روشنی میں پرکھ لیا جائے۔ اللہ سے دعا کی جائے کہ وہ آپ کو درست راہ پر رکھے۔ جب تک آپ مطمئن نہ ہوں، تب تک اجتہاد بھی کم از کم آج کے دور میں تو آپ کے لیے قابل قبول نہیں کیونکہ حدیث کے مطابق فتنے علما سے اٹھیں گے اور انہی میں واپس لوٹ جائیں گے۔ لہٰذا تحقیق ہمارا فرض ہے۔ ہر مسلمان کا فرض ہے کہ وہ اندھا دھند تقلید چھوڑ کر سمجھنے کی کوشش کرے کہ حق بات کیا ہے۔
ساری بات درست ہے۔۔۔
واقعی اندھا دھند تقلید چھوڑ کر اپنے علم و عقل سے بھی کام لینا چاہیے۔۔
مگر اس کے لیےیقیناً معتد بہ علم کا حصول ضروری ہے۔۔۔
 
2-لیکن اخلاقی قدروں سے شریعت کے مسائیل تبدیل کرنا بڑی حماقت ہے ۔سب لوگ اخلاق کے اُصولوں پے شریعت کا وزن کرنے میں مصروف ہیں یہ سوچے بغیر کے اگر یہ کام اتنا ہی اہم تھا تو جس ہستی کے اخلاق کی قسم قرآن کھاتا ہے اُس ذات نے کیوں اس کی تعلیم نہ دی ۔ عقلمند کے لئے ۔۔۔۔۔۔کافی ہے ،

ایسی بات نہیں ہے۔ اور یہ منطق بھی درست نہیں ہے۔
 
Islam
+

Based on the principles and the foregoing attributes of a Muslim, the majority of Islamic legal scholars have concluded that transplantation of organs as treatment for otherwise lethal end stage organ failure is a good thing. Donation by living donors and by cadaveric donors is not only permitted but encouraged.3 Organ donation should be considered as an expression of the believer’s altruism, and Islam encourages the virtuous qualities which are supportive of organ donation: generosity, duty, charity, co-operation, etc. Accordingly, the Islamic Code of Medical Ethics stresses that human life is sacred and it must be preserved by all possible means. It is permissible within the Shariat to remove the organ from one person and transplant it into another person’s body in order to save the life of that person on the condition that such a procedure does in no way violate the dignity of the person from whose body the organ was removed.13 One of the basic aims of the Muslim faith is the saving of life: This is a fundamental aim of the Shariah and Muslims believe that Allah greatly rewards those who save others from death. Violating the human body, whether living or dead, is normally forbidden in Islam. The Shariah, however, waives this prohibition in a number of instances: firstly in cases of necessity; and secondly in saving another person’s life. It is this Islamic legal maxim al-darurat tubih al-mahzurat (necessities overrule prohibition) that has great relevance to organ donation.“Whosoever saves the life of one person it would be as if he saved the life of all mankind.”

— Holy Qur’an, chapter 5 vs. 32

“If you happened to be ill and in need of a transplant, you certainly would wish that someone would help you by providing the needed organ.”

— Sheikh Dr MA Zaki Badawi, Principal, Muslim College, London

UK Transplant14 also gives this summary of the lifesaving Fatwa (a religious edict):

The Muslim Law (Shariah) Council of Great Britain resolved that:

  • The medical profession is the proper authority to define signs of death.
  • Current medical knowledge considers brain stem death to be a proper definition of death.
  • The council accepts brain stem death as constituting the end of life for the purpose of organ transplantation.
  • The council supports organ transplantation as a means of alleviating pain or saving life on the basis of the rules of the Shariah.
  • Muslims may carry donor cards.
  • The next of kin of a dead person, in the absence of a donor card or an expressed wish to donate their organs, may give permission to obtain organs from the body to save other people’s lives.
  • Organ donation must be given freely without reward.
  • Trading in organs is prohibited.
“Whosoever helps another will be granted help from Allah.”

— Prophet Muhammed (pbuh)

Muslim scholars of the most prestigious academies are unanimous in declaring that organ donation is an act of merit and in certain circumstances can be an obligation.
These institutes all call upon Muslims to donate organs for transplantation:

  • The Shariah Academy of the Organisation of Islamic Conference (representing all Muslim countries).
  • The Grand Ulema Council of Saudi Arabia.
  • The Iranian Religious Authority.
  • The Al-Azhar Academy of Egypt.
Gatrad and Sheikh15 write this about the Fatwa in 1995 by the Muslim Law Council in support of organ donation: “Organ transplantation is now encouraged in many Arab Muslim countries, and considered by some as a ‘perpetual’ charitable act.”14

ربط
واللہ اعلم
 

طالب سحر

محفلین
فتوی کا لنک ہے زیک بھائی؟

سعودی علماء کے فتووں کا حوالہ اعضا عطیہ کرنے کے مباحث میں ایک اہم اور مشہور حیثیت رکھتا ہے۔ دیکھنے میں یہ آیا ہے کہ پاکستان میں جو لوگ اعضا عطیہ کرنے کے خلاف ہیں، وہ ان فتاویٰ سے لاعلمی کا اظہار کرتے ہیں۔

1982 اور اس کے بعد دیے گئے فتاویٰ کے عربی متن سعودی حکومت کے ادارے "المركز السعودي لزراعة الأعضا" یعنی Saudi Centre for Organ Transplantation کی ویب سائٹ پر واضح طور پر موجود ہیں۔ ربط یہ ہے:
http://scot.gov.sa/Pages/Fatwas.aspx?loc=115&loc2=114

1982 والے فتوی کا انگریزی ترجمہ مذکورہ ویب سائٹ پر اس pdf فائل میں موجود ہے:
http://www.scot.gov.sa/pdf/ok/Directory_of_the_Regulations_of_Organ_Transplantation.pdf

اردو ترجمہ دو تین جگہ چھپا ہوا دیکھا ہے۔ کوشش کروں گا کہ حوالہ دے سکوں۔
 
آخری تدوین:
جب یہ بات طے ہوئی کہ مرنے کے بعد بھی زندگی کا سلسلہ تو باقی رہتا ہے مگر اس کی نوعیت بدل جاتی ہے۔ تو اَب اس پر غور کرنا چاہئے کہ کیا آدمی کو دیکھنے کی ضرورت صرف اسی زندگی میں ہے؟ کیا مرنے کے بعد کی زندگی میں اسے دیکھنے کی ضرورت نہیں؟ معمولی عقل و فہم کا آدمی بھی اس کا جواب یہی دے گا کہ اگر مرنے کے بعد کسی نوعیت کی زندگی ہے تو جس طرح زندگی کے اور لوازمات کی ضرورت ہے اسی طرح بینائی کی بھی ضرورت ہوگی۔
استغفراللہ۔
ادھر ملا یہ کہتے تھکتے نہیں کہ موت کے بعد کا عالم اس عالم سے صریحاً مختلف ہے اور ادھر ایسی بےپر کی اڑائی جا رہی ہیں۔
دوزخ میں ڈال دو کوئی لے کر بہشت کو!​
معلوم ہوتا ہے کہ مولوی حضرات اللہ پاک کی آسانی کے لیے اس دنیا میں ہماری زندگی مشکل بنانا چاہ رہے ہیں۔ یعنی یہ نہ ہو کہ ہم مثلاً آنکھیں عطیہ کر دیں اور روزِ محشر ٹامک ٹوئیاں مارتے پھریں۔ پھر اللہ کو دوسری آنکھیں دینی پڑیں گی جو وہ ازروئے حدیث دے گا نہیں۔ بہتر ہے کہ معاملہ یہیں سلجھا لیا جائے۔ معاذ اللہ۔
تو کارِ زمیں را نکو ساختی
کہ با آسماں نیز پرداختی؟​
بھائی، قرآن کا اللہ وہ اللہ ہے جو فرماتا ہے کہ اگر وہ پہلی مرتبہ پیدا کر سکتا ہے تو دوسری بار پیدا کرنا اسے کچھ دشوار نہیں۔ آپ اس اللہ کے سامنے پیش ہونے کے لیے اعضا بچا کے رکھنا چاہ رہے ہیں؟
تو بچا بچا کے نہ رکھ اسے، ترا آئنہ ہے وہ آئینہ
کہ شکستہ ہو تو عزیز تر ہے نگاہِ آئنہ ساز میں​
کفار کا استہزا قرآن میں نقل کیا گیا ہے جو کہتے تھے کہ کیا ہم دوبارہ اٹھائے جائیں گے جب ہمارے جسم مٹی ہو جائیں گے؟ ادھر آپ فرماتے ہیں کہ اگر یہاں گردے دے دیے تو جنت میں بغیر گردوں کے پھرا کرو گے۔ فرق کیا ہے آپ کی اور ان کی منطق میں؟
ویسے اس مثال سے ایک سوال اور بھی پیدا ہوتا ہے کہ جنت میں کیا بول و براز کی حاجت اسی طرح ہو گی جیسے یہاں ہوتی ہے؟ گردے اور بڑی آنت وغیرہ ضروری ہوں گے یا ان سے یہیں جان چھڑا لی جائے؟ بینائی کی ضرورت تو آپ نے واضح فرما ہی دی ہے۔ :):)
آپ نے کبھی قبرستانوں میں بارش یا زلزلے وغیرہ سے کھل جانے والی قبروں کو دیکھا ہے؟ کون سے اعضا محفوظ نظر آتے ہیں آپ کو؟ کبھی آپ نے قبروں پر اگے ہوئے درختوں کو دیکھا ہے؟ کبھی سوچا ہے کہ یہ آپ کے پیاروں کی لاشوں سے اپنی غذا حاصل کر رہے ہیں؟ کبھی آپ نے سوچا ہے کہ جس کھیت کی گندم جناب نے تناول فرمائی ہے اس کے خوشے آج سے سیکڑوں، ہزاروں یا لاکھوں برس پہلے اس جگہ مرنے والے جانوروں اور انسانوں کی باقیات سے قوت حاصل کر رہے ہیں؟ کبھی آپ نے غور فرمایا ہے کہ آپ کے مکان کی مٹی میں کس کس انسان کی خاک ہم جنس ہو کر رہ گئی ہے؟ کبھی آپ نے تدبر فرمایا ہے کہ آپ کے اردگرد موت کا رقص جاری ہے اور آپ کی خوراک سے لے کر اوڑھنے بچھونے کے سامان تک ہر ہر جگہ مردہ انسانوں کے عناصر بکھرے ہوئے ہیں؟
اگر اللہ اس منتشر صورت سے انسان کو دوبارہ پیدا کر سکتا ہے، اور یہی ازروئے قرآن اس کی قدرت ہے، تو عطیہ کیے ہوئے اعضا سے ابا کیوں کرے گا؟
ستم کم کن کہ فردا روزِ محشر
بہ پیشِ عاشقاں شرمندہ باشی !​
زندگی میں انسانوں کو اپنے وجود اور اعضاء پر تصرف حاصل ہوتا ہے، اس کے باوجود اس کا اپنے کسی عضو کو تلف کرنا نہ قانوناً صحیح ہے، نہ شرعاً، نہ اخلاقاً۔
اللہ اکبر!
عطیہ کرنے اور تلف کرنے کا فرق معلوم نہیں جناب کو؟
داغؔ کا ایک شعر یاد آ گیا ہے۔ نقل کیے بن رہا نہیں جاتا۔ پیشگی معذرت کے ساتھ:
بات کرنی بھی نہ آتی تھی تمھیں
یہ تو میرے سامنے کی بات ہے​
 

محمد سعد

محفلین
اب تک انسانی جسم کے حوالے سے جو کچھ ہم سیکھ چکے ہیں، اس کو اس موضوع کے ساتھ جوڑنے سے کافی گھما دینے والے سوالات کھڑے ہوتے ہیں۔ بدقسمتی سے علمائے دین میں اس سمت میں غور کا بہت زیادہ رجحان نہیں پایا جاتا۔
اس ویڈیو کو ہی دیکھ لیں۔ اس میں انسان کی "حدود" متعین کرنے کے سلسلے میں جو سوالات اٹھتے ہیں، ان کی روشنی میں کیا یہ معاملہ اتنا سیاہ و سفید نظر آتا ہے جو اعضاء کا عطیہ حرام قرار دینے والے بتاتے ہیں؟
یا راحیل فاروق صاحب کے نسبتاً سادہ الفاظ میں
آپ نے کبھی قبرستانوں میں بارش یا زلزلے وغیرہ سے کھل جانے والی قبروں کو دیکھا ہے؟ کون سے اعضا محفوظ نظر آتے ہیں آپ کو؟ کبھی آپ نے قبروں پر اگے ہوئے درختوں کو دیکھا ہے؟ کبھی سوچا ہے کہ یہ آپ کے پیاروں کی لاشوں سے اپنی غذا حاصل کر رہے ہیں؟ کبھی آپ نے سوچا ہے کہ جس کھیت کی گندم جناب نے تناول فرمائی ہے اس کے خوشے آج سے سیکڑوں، ہزاروں یا لاکھوں برس پہلے اس جگہ مرنے والے جانوروں اور انسانوں کی باقیات سے قوت حاصل کر رہے ہیں؟ کبھی آپ نے غور فرمایا ہے کہ آپ کے مکان کی مٹی میں کس کس انسان کی خاک ہم جنس ہو کر رہ گئی ہے؟ کبھی آپ نے تدبر فرمایا ہے کہ آپ کے اردگرد موت کا رقص جاری ہے اور آپ کی خوراک سے لے کر اوڑھنے بچھونے کے سامان تک ہر ہر جگہ مردہ انسانوں کے عناصر بکھرے ہوئے ہیں؟
اگر اللہ اس منتشر صورت سے انسان کو دوبارہ پیدا کر سکتا ہے، اور یہی ازروئے قرآن اس کی قدرت ہے، تو عطیہ کیے ہوئے اعضا سے ابا کیوں کرے گا؟
میری درخواست ہے کہ اس ویڈیو کو ضرور دیکھیے گا۔ اگرچہ یہ پہلی نظر میں یہاں زیر بحث موضوع سے پوری طرح متعلق نہیں نظر آتی۔ لیکن اگر غور کیا جائے تو اعضاء کے عطیے کے سوال کو ایک نئے اور دلچسپ انداز میں دیکھنے کا موقع ضرور پیدا کرتی ہے۔
 
Top