arifkarim
معطل
رمضان کے مہینے کی آمد آمد ہے اور اس موقعے پر برطانیہ میں کئی ہسپتال مسلمان شہریوں کو اس بات پر آمادہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ وہ انسانی اعضا عطیہ کرنے کے بارے میں غور کریں۔
برطانیہ میں تقریباً 27 لاکھ مسلمان ہیں اور ان کو گردوں یا جگر کے لیے اوسطً غیر مسلموں کے مقابلے میں زیادہ انتظار کرنا پڑتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایسے افراد کے لیے نسلی طور پر جوڑ کا شخص دھونڈنا مشکل ہوتا ہے جو کہ اعضا عطیہ کرے۔ یہ مسئلہ صرف برطانیہ تک محدود نہیں۔ ہمارے ساتھی جان مکمینس نے اس کے معاملے کو پرکھا۔
برطانیہ میں زیادہ تر مسلمان نسلی طور پر جنوبی ایشیا سے تعلق رکھتے ہیں۔ بھارت، پاکستان اور بنگلہ دیش سے تارکینِ وطن بہت سے اہم شہروں میں مقیم ہیں جیسے کہ برمنگھم جہاں کی 21 فیصد آبادی مسلمان ہے۔
اور اگرچہ یہ لوگ عام طور پر اقلیت ہیں، ایک معاملے میں یہ سب سے آگے ہیں اور وہ ہے اعضا کے ٹرانسپلانٹ کے لیے انتظار کا وقت۔ برطانیہ میں مسلمان مریضوں کو اعضا کے لیے اوسطً ایک سال زیادہ انتظار کرنا پڑتا ہے مگر ڈاکٹر عدنان شریف کا کہنا ہے کہ برمنگھم میں تو یہ وقت چار اور پانچ سال زیادہ ہے۔
کوئین الزبتھ ہسپتال میں رینال وارڈ میں ڈائیئیلسز کے مریضوں کا علاج ڈاکٹر عدنان شریف ہی کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’اس بات میں کوئی شک نہیں کہ مسلمانوں کو ڈائیئیلسز پر زیادہ وقت گزارنا پڑتا ہے۔
غیر یقینی صورتحال
ڈاکٹر عدنان کہتے ہیں ’ہمارے کچھ مسلمان مریض اعضا کا انتظار کرتے کرتے ہی جان کھو بیٹھیں گے‘
ڈاکٹر عدنان کہتے ہیں ’ہمارے کچھ مسلمان مریض اعضا کا انتظار کرتے کرتے ہی جان کھو بیٹھیں گے کیونکہ انھیں گردے نہیں ملے۔ اور میرے خیال میں یہ تعداد بڑھ رہی ہے۔‘
موضوع نسلی ڈونرز کی کمی کی وجہ یہ ہے کہ اس بات پر مختلف رائے پائی جاتی ہے کہ کیا اسلام اعضا کو عطیہ کرنے کی اجازت دیتا ہے یا نہیں۔ کچھ علما کی رائے میں اس کی اجازت ہے جب کہ دیگر کے خیال میں یہ ممنوع ہے۔
اعضا عطیہ کرنے کی دو صورتیں ہوتی ہیں۔ ایک جس میں عطیے کرنے والا شخص اس کے بعد زندہ ہو یا پھر دوسری ایسا کہ کسی کے مر جانے کی صورت میں ان کے اعضا کو استعمال کر لیا جائے۔ اس آپریشن میں کامیابی کے لیے نسلی طور پر اور جینیاتی طور پر مریض اور عطیہ کرنے والے شخص کا جوڑ ہونا انتہائی اہم ہوتا ہے۔
ڈاکٹر یاسر مصطفیٰ مساجد میں جا کر لوگوں سے اعضا کو عطیے کرنے کے بارے میں بات کرتے ہیں اور انھیں اس بات پر مائل کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ وہ ایک ایسا کارڈ اپنے ساتھ رکھیں جس کی پر یہ تحریر ہوتا ہے کہ ہلاک ہونے کی صورت میں ان کے اعضا عطیہ کر دیے جائیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ہر بار ان سے ایک ہی سوال پوچھا جاتا ہے۔
کوئین الزبتھ ہسپتال میں ہی ریحانہ صادق بھی ایک مسلمان عالما ہیں جو کہ بہت سے خاندانوں کی مشکل گھڑی میں مدد کرتی ہیں
’چاہے وہ مسلمان افریقہ کا ہو یا ایشیا کا یا برطانوی ہر مرتبہ ایک ہی سوال سامنے آتا ہے اور وہ ہے کہ کیا اسلام میں اعضا عطیہ کرنے کی اجازت ہے؟‘
اعضا عطیہ کرنے والے افراد کی کمی معاملہ صرف برطانیہ تک محدود نہیں۔ اس سال اپریل میں کراچی یونیورسٹی میں علما کا ایک اجلاس بلایا گیا تاکہ اس معاملے پر بحث کی جا سکے۔
اگرچہ بہت سے علما اعضا عطیہ کرنے کی حمایت کی۔ تاہم کونسل آف اسلامک آئیڈاولوجی کے ایک سینیئر عالم نے اس خدشے کا اظہار کیا کہ جب روزِ آخرت مسلمانوں کے جسموں کو دوبارہ زندہ کیا جائے گا تو اعضا عطیہ کرنے کا اس عمل پر کیا اثر ہوگا۔
کوئین الزبتھ ہسپتال میں ہی ریحانہ صادق بھی ایک مسلمان عالمہ ہیں جو کہ بہت سے خاندانوں کی مشکل گھڑی میں مدد کرتی ہیں۔ تاہم انھیں کا کہنا ہے کہ آج تک انھیں کسی نے اعضا عطیہ کرنے کے سلسلے میں رابطہ نہیں کیا۔
ان کا کہنا ہے کہ ’مسلم برادری میں اس معاملے پر رائے شدید منقسم ہے۔ ایک طرف لوگوں کا ماننا ہے کہ یہ لاشوں کی بے حرمتی ہے۔ اور دوسری جانب لوگوں کا ماننا ہے کہ اسلام میں کسی کی جان بچانے سے بہتر کوئی تحفہ نہیں۔‘
وہ کہتی ہیں کہ ’میں لوگوں کو یہ مشورہ نہیں دیتی کہ وہ عطیہ کریں یا نہیں۔ میں صرف ان سے یہ کہتی ہوں کہ اس معاملے پر غور کریں اور خدا سے دعا کریں۔‘
عالمی اعداد و شمار کے مطابق دنیا بھر میں مسلمان ممالک میں کم اعضا عطیہ کیے جاتے ہیں۔ شاید اس کی وجہ وسائل کی کمی یا پھر دینی مسئلہ ہو۔
پرویز حسین ایک برطانوی سابق پولیس افسر ہیں جنھیں نئے گردے کے لیے تین سال انتظار کرنا پڑا۔ ہر ہفتے ہسپتال جا کر ڈائیئیلسز کروانے سے انھیں جنوبی ایشیائیوں کے لیے اس مسئلے کی شدت کا اندازہ ہوا۔
’میرے خیال میں سو فیصد لوگ اعضا قبول تو کر لیں گے مگر شاید ان میں بہت سے عطیہ نہیں دیں گے۔‘ برطانوی سابق پولیس افسر
’جب میں وہاں جاتا تھا تو 31 بستروں میں سے 25 پر کوئی نہ کوئی اقلیتی نسل کا شخص ہوتا تھا۔‘
انھوں نے اس مسئلے کے حوالے سے اماموں اور ماہرین طبیعات سے ملاقاتیں کیں تاہم کوئی واضح حل سامنے نہیں آیا۔ ان کا خیال ہے کہ اماموں کو اپنے رتبے کا فائدہ اٹھا کر لوگوں سے اس معاملے میں بات کرنی چاہیے۔
وہ کہتے ہیں کہ امام صاحب سے وہ ہمیشہ ایک ہی سوال کرتے ہیں ’اگر آپ کو کسی عضو کی ضرورت ہو تو آپ اسے قبول کریں گے یا دین کو درمیان میں لائیں گے۔‘
’میرے خیال میں سو فیصد لوگ اعضا قبول تو کر لیں گے مگر شاید ان میں بہت سے عطیہ نہیں دیں گے۔‘
http://www.bbc.com/urdu/world/2015/06/150616_muslim_organ_donor_sa
زیک
برطانیہ میں تقریباً 27 لاکھ مسلمان ہیں اور ان کو گردوں یا جگر کے لیے اوسطً غیر مسلموں کے مقابلے میں زیادہ انتظار کرنا پڑتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایسے افراد کے لیے نسلی طور پر جوڑ کا شخص دھونڈنا مشکل ہوتا ہے جو کہ اعضا عطیہ کرے۔ یہ مسئلہ صرف برطانیہ تک محدود نہیں۔ ہمارے ساتھی جان مکمینس نے اس کے معاملے کو پرکھا۔
برطانیہ میں زیادہ تر مسلمان نسلی طور پر جنوبی ایشیا سے تعلق رکھتے ہیں۔ بھارت، پاکستان اور بنگلہ دیش سے تارکینِ وطن بہت سے اہم شہروں میں مقیم ہیں جیسے کہ برمنگھم جہاں کی 21 فیصد آبادی مسلمان ہے۔
اور اگرچہ یہ لوگ عام طور پر اقلیت ہیں، ایک معاملے میں یہ سب سے آگے ہیں اور وہ ہے اعضا کے ٹرانسپلانٹ کے لیے انتظار کا وقت۔ برطانیہ میں مسلمان مریضوں کو اعضا کے لیے اوسطً ایک سال زیادہ انتظار کرنا پڑتا ہے مگر ڈاکٹر عدنان شریف کا کہنا ہے کہ برمنگھم میں تو یہ وقت چار اور پانچ سال زیادہ ہے۔
کوئین الزبتھ ہسپتال میں رینال وارڈ میں ڈائیئیلسز کے مریضوں کا علاج ڈاکٹر عدنان شریف ہی کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’اس بات میں کوئی شک نہیں کہ مسلمانوں کو ڈائیئیلسز پر زیادہ وقت گزارنا پڑتا ہے۔
غیر یقینی صورتحال
ڈاکٹر عدنان کہتے ہیں ’ہمارے کچھ مسلمان مریض اعضا کا انتظار کرتے کرتے ہی جان کھو بیٹھیں گے‘
ڈاکٹر عدنان کہتے ہیں ’ہمارے کچھ مسلمان مریض اعضا کا انتظار کرتے کرتے ہی جان کھو بیٹھیں گے کیونکہ انھیں گردے نہیں ملے۔ اور میرے خیال میں یہ تعداد بڑھ رہی ہے۔‘
موضوع نسلی ڈونرز کی کمی کی وجہ یہ ہے کہ اس بات پر مختلف رائے پائی جاتی ہے کہ کیا اسلام اعضا کو عطیہ کرنے کی اجازت دیتا ہے یا نہیں۔ کچھ علما کی رائے میں اس کی اجازت ہے جب کہ دیگر کے خیال میں یہ ممنوع ہے۔
اعضا عطیہ کرنے کی دو صورتیں ہوتی ہیں۔ ایک جس میں عطیے کرنے والا شخص اس کے بعد زندہ ہو یا پھر دوسری ایسا کہ کسی کے مر جانے کی صورت میں ان کے اعضا کو استعمال کر لیا جائے۔ اس آپریشن میں کامیابی کے لیے نسلی طور پر اور جینیاتی طور پر مریض اور عطیہ کرنے والے شخص کا جوڑ ہونا انتہائی اہم ہوتا ہے۔
ڈاکٹر یاسر مصطفیٰ مساجد میں جا کر لوگوں سے اعضا کو عطیے کرنے کے بارے میں بات کرتے ہیں اور انھیں اس بات پر مائل کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ وہ ایک ایسا کارڈ اپنے ساتھ رکھیں جس کی پر یہ تحریر ہوتا ہے کہ ہلاک ہونے کی صورت میں ان کے اعضا عطیہ کر دیے جائیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ہر بار ان سے ایک ہی سوال پوچھا جاتا ہے۔
کوئین الزبتھ ہسپتال میں ہی ریحانہ صادق بھی ایک مسلمان عالما ہیں جو کہ بہت سے خاندانوں کی مشکل گھڑی میں مدد کرتی ہیں
’چاہے وہ مسلمان افریقہ کا ہو یا ایشیا کا یا برطانوی ہر مرتبہ ایک ہی سوال سامنے آتا ہے اور وہ ہے کہ کیا اسلام میں اعضا عطیہ کرنے کی اجازت ہے؟‘
اعضا عطیہ کرنے والے افراد کی کمی معاملہ صرف برطانیہ تک محدود نہیں۔ اس سال اپریل میں کراچی یونیورسٹی میں علما کا ایک اجلاس بلایا گیا تاکہ اس معاملے پر بحث کی جا سکے۔
اگرچہ بہت سے علما اعضا عطیہ کرنے کی حمایت کی۔ تاہم کونسل آف اسلامک آئیڈاولوجی کے ایک سینیئر عالم نے اس خدشے کا اظہار کیا کہ جب روزِ آخرت مسلمانوں کے جسموں کو دوبارہ زندہ کیا جائے گا تو اعضا عطیہ کرنے کا اس عمل پر کیا اثر ہوگا۔
کوئین الزبتھ ہسپتال میں ہی ریحانہ صادق بھی ایک مسلمان عالمہ ہیں جو کہ بہت سے خاندانوں کی مشکل گھڑی میں مدد کرتی ہیں۔ تاہم انھیں کا کہنا ہے کہ آج تک انھیں کسی نے اعضا عطیہ کرنے کے سلسلے میں رابطہ نہیں کیا۔
ان کا کہنا ہے کہ ’مسلم برادری میں اس معاملے پر رائے شدید منقسم ہے۔ ایک طرف لوگوں کا ماننا ہے کہ یہ لاشوں کی بے حرمتی ہے۔ اور دوسری جانب لوگوں کا ماننا ہے کہ اسلام میں کسی کی جان بچانے سے بہتر کوئی تحفہ نہیں۔‘
وہ کہتی ہیں کہ ’میں لوگوں کو یہ مشورہ نہیں دیتی کہ وہ عطیہ کریں یا نہیں۔ میں صرف ان سے یہ کہتی ہوں کہ اس معاملے پر غور کریں اور خدا سے دعا کریں۔‘
عالمی اعداد و شمار کے مطابق دنیا بھر میں مسلمان ممالک میں کم اعضا عطیہ کیے جاتے ہیں۔ شاید اس کی وجہ وسائل کی کمی یا پھر دینی مسئلہ ہو۔
پرویز حسین ایک برطانوی سابق پولیس افسر ہیں جنھیں نئے گردے کے لیے تین سال انتظار کرنا پڑا۔ ہر ہفتے ہسپتال جا کر ڈائیئیلسز کروانے سے انھیں جنوبی ایشیائیوں کے لیے اس مسئلے کی شدت کا اندازہ ہوا۔
’میرے خیال میں سو فیصد لوگ اعضا قبول تو کر لیں گے مگر شاید ان میں بہت سے عطیہ نہیں دیں گے۔‘ برطانوی سابق پولیس افسر
’جب میں وہاں جاتا تھا تو 31 بستروں میں سے 25 پر کوئی نہ کوئی اقلیتی نسل کا شخص ہوتا تھا۔‘
انھوں نے اس مسئلے کے حوالے سے اماموں اور ماہرین طبیعات سے ملاقاتیں کیں تاہم کوئی واضح حل سامنے نہیں آیا۔ ان کا خیال ہے کہ اماموں کو اپنے رتبے کا فائدہ اٹھا کر لوگوں سے اس معاملے میں بات کرنی چاہیے۔
وہ کہتے ہیں کہ امام صاحب سے وہ ہمیشہ ایک ہی سوال کرتے ہیں ’اگر آپ کو کسی عضو کی ضرورت ہو تو آپ اسے قبول کریں گے یا دین کو درمیان میں لائیں گے۔‘
’میرے خیال میں سو فیصد لوگ اعضا قبول تو کر لیں گے مگر شاید ان میں بہت سے عطیہ نہیں دیں گے۔‘
http://www.bbc.com/urdu/world/2015/06/150616_muslim_organ_donor_sa
زیک