استغفراللہ۔
ادھر ملا یہ کہتے تھکتے نہیں کہ موت کے بعد کا عالم اس عالم سے صریحاً مختلف ہے اور ادھر ایسی بےپر کی اڑائی جا رہی ہیں۔
دوزخ میں ڈال دو کوئی لے کر بہشت کو!
معلوم ہوتا ہے کہ مولوی حضرات اللہ پاک کی آسانی کے لیے اس دنیا میں ہماری زندگی مشکل بنانا چاہ رہے ہیں۔ یعنی یہ نہ ہو کہ ہم مثلاً آنکھیں عطیہ کر دیں اور روزِ محشر ٹامک ٹوئیاں مارتے پھریں۔ پھر اللہ کو دوسری آنکھیں دینی پڑیں گی جو وہ ازروئے حدیث دے گا نہیں۔ بہتر ہے کہ معاملہ یہیں سلجھا لیا جائے۔ معاذ اللہ۔
تو کارِ زمیں را نکو ساختی
کہ با آسماں نیز پرداختی؟
بھائی، قرآن کا اللہ وہ اللہ ہے جو فرماتا ہے کہ اگر وہ پہلی مرتبہ پیدا کر سکتا ہے تو دوسری بار پیدا کرنا اسے کچھ دشوار نہیں۔ آپ اس اللہ کے سامنے پیش ہونے کے لیے اعضا بچا کے رکھنا چاہ رہے ہیں؟
تو بچا بچا کے نہ رکھ اسے، ترا آئنہ ہے وہ آئینہ
کہ شکستہ ہو تو عزیز تر ہے نگاہِ آئنہ ساز میں
کفار کا استہزا قرآن میں نقل کیا گیا ہے جو کہتے تھے کہ کیا ہم دوبارہ اٹھائے جائیں گے جب ہمارے جسم مٹی ہو جائیں گے؟ ادھر آپ فرماتے ہیں کہ اگر یہاں گردے دے دیے تو جنت میں بغیر گردوں کے پھرا کرو گے۔ فرق کیا ہے آپ کی اور ان کی منطق میں؟
ویسے اس مثال سے ایک سوال اور بھی پیدا ہوتا ہے کہ جنت میں کیا بول و براز کی حاجت اسی طرح ہو گی جیسے یہاں ہوتی ہے؟ گردے اور بڑی آنت وغیرہ ضروری ہوں گے یا ان سے یہیں جان چھڑا لی جائے؟ بینائی کی ضرورت تو آپ نے واضح فرما ہی دی ہے۔
آپ نے کبھی قبرستانوں میں بارش یا زلزلے وغیرہ سے کھل جانے والی قبروں کو دیکھا ہے؟ کون سے اعضا محفوظ نظر آتے ہیں آپ کو؟ کبھی آپ نے قبروں پر اگے ہوئے درختوں کو دیکھا ہے؟ کبھی سوچا ہے کہ یہ آپ کے پیاروں کی لاشوں سے اپنی غذا حاصل کر رہے ہیں؟ کبھی آپ نے سوچا ہے کہ جس کھیت کی گندم جناب نے تناول فرمائی ہے اس کے خوشے آج سے سیکڑوں، ہزاروں یا لاکھوں برس پہلے اس جگہ مرنے والے جانوروں اور انسانوں کی باقیات سے قوت حاصل کر رہے ہیں؟ کبھی آپ نے غور فرمایا ہے کہ آپ کے مکان کی مٹی میں کس کس انسان کی خاک ہم جنس ہو کر رہ گئی ہے؟ کبھی آپ نے تدبر فرمایا ہے کہ آپ کے اردگرد موت کا رقص جاری ہے اور آپ کی خوراک سے لے کر اوڑھنے بچھونے کے سامان تک ہر ہر جگہ مردہ انسانوں کے عناصر بکھرے ہوئے ہیں؟
اگر اللہ اس منتشر صورت سے انسان کو دوبارہ پیدا کر سکتا ہے، اور یہی ازروئے قرآن اس کی قدرت ہے، تو عطیہ کیے ہوئے اعضا سے ابا کیوں کرے گا؟
ستم کم کن کہ فردا روزِ محشر
بہ پیشِ عاشقاں شرمندہ باشی !
اللہ اکبر!
عطیہ کرنے اور تلف کرنے کا فرق معلوم نہیں جناب کو؟
داغؔ کا ایک شعر یاد آ گیا ہے۔ نقل کیے بن رہا نہیں جاتا۔ پیشگی معذرت کے ساتھ:
بات کرنی بھی نہ آتی تھی تمھیں
یہ تو میرے سامنے کی بات ہے