افسانچہ: بلا عنوان

پیش لفظ

سابقہ افسانچہ بعنوان ژوم پر احباب کے بے تحاشہ اور مبالغہ آمیز تبصرے مختلف شکلوں میں موصول ہوئے جن کے سرور سے باہر آتے آتے یہ عرصہ گزر گیا اور یوں ایک عدد مزید کا وعدہ اب تک وعدہ ہی رہا۔ بقول شمشاد بھائی وہ وعدہ ہی کیا جو وفا ہو جائے۔ بہر کیف حالیہ امتحان سے فراغت کے فوراً بعد گاؤں کی گلیوں سے نکال کر یہ قصہ آپ کی نذر کرتا ہوں۔

یہ میری پہلی کوشش ہے جبکہ ژوم دوسری کوشش تھی۔ یہ اور بات ہے کہ رومن سے یونیکوڈ اردو تک کا سفر ژوم نے جلدی طے کر لیا بنسبت اس کے۔


--
سعود ابن سعید
 
ایک قصہ ہے جس کے کئی عنوان ہیں ۔۔۔

قسم کی لاج
علم کی تڑپ
تذبذب
آٹھ آنے کی چوری
وغیرہ وغیرہ ۔۔۔

لہٰذا اسے بلا عنوان لکھتا ہوں۔

کہانی ہے ایک چھوٹے سے بچے کی، عمر کوئی 6 سال، ابتدائی درجات کا متعلم ہے۔ جس کے پیٹھ پر ایک آہنی ارادوں والی ماں کا ہاتھ ہے۔ تنگ دستی کے ایام ہیں، ماں گاؤں میں کپڑوں کی سلائی کرکے اپنے خوابوں کے تعبیر کی تلاش میں سرگرداں ہے۔ کبھی کبھار تو دیر رات تک ایک معمولی سے چراغ کی زرد روشنی میں بھی دیدہ ریزی جاری رہتی ہے۔

اس ماں کو یہ تو پتہ نہیں ہے کی اسکا بیٹا پڑھ لکھ کر کیا کچھ بن سکتا ہے، پر اکثر کہتی رہتی ہے کی میرا بیٹا بڑا ہو کر “کچھ” بنے گا۔ اور وہ بچہ بھی کبھی ماں کو مایوس نہیں کرتا ہے، درجے میں ہمیشہ اپنی امتازی پہچان بنائے رکھتا ہے۔

گرمی کے ایام ہیں آم کے پیڑوں میں ننھے ننھے پھل آگئے ہیں۔ اس بچے نے ابھی ابھی گیلی مٹی سے ایک گاڑی اور اسکے پہئے وغیرہ بنا کے دھوپ میں سوکھنے کو ڈال دیئے ہیں، اور اب شدید دھوپ سے بچنے کے لئے تین چار دوستوں کی ایک ٹولی کے ہمراہ دو مکانوں کی درمیانی گلی میں بیٹھا کچھ نیا کرنے کی تدبیر میں مگن ہے۔

کسی نے تجویز رکھی کہ کیوں نہ مٹی کا ایک سنیما بنایا جائے۔ جس میں ایک طرف کی دیوار میں دو تین شیشے لگے ہوں جس سے اندر جھانکا جا سکے اور کاغذ کے پنوں کو چپکا کر ایک لمبی ریل بنا کر اس میں طرح طرح کے نقش بنا دیئے جائیں۔ جنہیں دو عمودی چھڑیوں میں لپیٹا جا سکے جنکے سرے اوپر کی جانب نکلے ہوں۔ خیر تھوڑے سے ترمیم و اضافے کے بعد اس تجویز پر سبھی متفق ہو جاتے ہیں۔

پر اس تجویز کے اتمام میں کچھ رقم درکار ہے۔ لہٰذا فیصلہ یہ ہوتا ہے کہ سبھی اپنے اپنے پاس سے تھوڑے تھوڑے پیسے لائیں گے تاکہ شیشے وغیرہ کا انتظام کیا جا سکے۔ باقیوں کے لئے تو یہ کوئی ایسا مسئلہ نہیں ہے پر وہ بچہ جس کی زندگی میں جیب خرچ جیسی کسی شئے کا تصور ہی نہیں ہے، ایک دوراہے پر کھڑا ہے۔ گھر کی جانب تو چل پڑا ہے مگر قدم سست ہیں، ننہے سے ذہن میں سوچوں کی یلغار ہے۔

ایک جانب دوستوں کا فیصلہ اور دلفریب پراجکٹ ہے تو دوسری جانب منہ چڑاتی تنگدستی۔

ایک طرف دوستوں میں اپنی حالات کا بھرم رکھنا ہے تو دوسری جانب اس ماں کا چہرا گھوم رہا ہے جو اکثر سوچتی رہتی ہے کہ اگر کچھ اور رقم جمع ہو جائے تو میں اپنے بچے کو دس کے بجائے پندرہ روپے کی چپل پہنا سکوں۔

اک بڑا سا سوالیہ نشان یہ بھی ہے کی کیا اماں کے پاس کچھ پیسے ہونگے بھی؟ کیا ان سے کچھ پیسوں کی درخواست مناسب ہو گی؟ اور اگر ماںگا جائے تو کیا کہہ کے؟

ٹھیک دوپہر کا وقت ہے۔ لوگ گھروں میں آرام کر رہے ہیں۔ وہ ماں بھی کچے مکان میں ہاتھ میں دستی پنکھا لئے سوئی ہوئی ہے، جو وقفے وقفے سے حرکت میں آجاتا ہے جیسے جھلستی دوپہر کی گرمی سے بے چین ہو اٹھا ہو۔ برامدے میں سلائی مشین رکھی ہے جس کے آس پاس کپڑوں کے کترن بکھرے پڑے ہیں۔ وہ بچہ گھر میں داخل ہوتا ہے اور سلائی مشین سے منسلک دراز کھولتا ہے تو اس میں دو چونیاں پڑی ہوتی ہیں۔ شاید گھر کی کل موجودہ نقد رقم۔

ضمیر کی ہزار ملامتوں اور دوستوں کے ساتھ کیے گئے خاموش وعدے سے لڑتا ہوا وہ بچہ ماں کو بیدار کرکے پیسے مانگنے کی ہمت نہیں جٹا پاتا ہے اور یوں ایک بڑی جنگ ہار جاتا ہے۔ ایک طرح کے خوف اور پشیمانی میں لپٹا ان دو سکوں کے ساتھ گھر سے نکل پڑتا ہے۔ چند قدم آگے جا کے واپس پلٹ پڑتا ہے کچھ سوچتا ہے اور پھر آگے بڑھ جاتا ہے۔ راستے بھر کئ بار مڑ مڑ کے گھر کی جانب دیکھتا ہے اور بلآخر دوستوں میں سب سے کم پیسوں کے ساتھ جا ملتا ہے۔

شام کا وقت ہے۔ ماں کو کسی کام سے پیسوں کی ضرورت آن پڑتی ہے۔ دراز چیک کرنے پر پیسے ندارد۔ ماں کے لئے ایک نیا تجربہ ہے۔ اسے ٹھیک سے یاد ہے کی پیسے تو یہیں تھے پھر گئے کہاں؟ کوئی چوری کر لے، ایسا تو کبھی ہوا نہیں۔ خیر ایک واجبی سا سوال اس بچے سے بھی کیا جاتا ہے کی کیا اس نے وہ پیسے کسی کام سے لئے ہیں؟ بچے کا جواب ہوتا ہے “نہیں”۔ پر اس نہیں کے پیچھے کتنے کرب زدہ اور صبر آزما لمحات ہیں، کیسی کیسی سوچوں کی یلغار ہے اور چہرے پر کتنے رنگ ہیں۔

شک کی سوئی محلے کے بدنام ترین لڑکے کی جانب مڑ جاتی ہے۔ اور وہ بچہ راحت کی سانس لیتا ہے۔ پر جب وہ لڑکا بھی ایسا کوئی الزام قبول کرنے سے منکر ہو جاتا ہے تو ماں کو اپنے بچے کا رنگ بدلتا رنگ یاد آتا ہے، جواب دیتے ھوئے پھولتی سانسٔیں اور ہچکچاتی زبان یاد آتی ہے۔ عرق آلود پیشانی یاد آتی ہے۔ ایک بار پھر تھوڑی سختی کے ساتھ وہ بچہ سوالات کا نشانا بن کر کشمکش اور تذبذب کے لہروں کی نذر ہو جاتا ہے۔

اس ماں کو بھی شاید اب ان پیسوں کی اتنی پروا نہیں جتنی بچے کے کردار اور اپنی تربیت کا خون ہوتے دیکھ کر ہوتی ہے۔ ماں شاید آخری حربے کے ساتھ اپنے دودھ کے اخلاص کی پرکھ کا تہیہ کر لیتی ہے۔ اور بچے کو اس کی آخری پونجی سے محرومی کا قسم دیتے ہوئے کہتی ہے،

“کہو! اگر تم نے وہ پیسے لئیے ہوں تو تم پڑھائی سے محروم رہ جاؤ!”

۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔

چند ساعتوں کی خاموشی ۔۔۔۔
ماں کے بھنچے ہوئے ہونٹ (شاید ان خیالوں سے پریشان کہ اگر بچہ اب بھی منکر ہو گیا تو میری قسم کا کیا ہو گا ۔۔۔۔؟!)

۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔

اقرار میں جھکا ہوا سر محبت بھری آغوش میں غوطہ زن ہو جاتا ہے۔
چار آنکھوں سے اشکوں کے باندھ تقریباً بیک وقت ٹوٹ جاتے ہیں۔ ۔۔ ۔۔۔


--
سعود ابن سعید

تمام شد!​
 

محمد وارث

لائبریرین
بہت اچھی تحریر ہے سعود صاحب، اچھا لگا پڑھ کر۔

موضوع جاندار ہے اور پلاٹ حقیقت پر مبنی، آپ کا مشاہدہ کمال ہے اور واقعہ نگاری لاجواب۔ جذبہ تو لائقِ تحسین ہے ہی۔

زبان و بیان میں بہتری کی گنجائش بہرحال موجود ہے، مختصر "مختصر افسانے" میں گو کردار نگاری ایک مشکل فن ہے لیکن چونکہ آپ کے افسانے میں فقط دو ہی کردار ہیں لہذا میرے ناقص خیال میں ان کو بھی مزید بہتر کیا جا سکتا ہے۔

امید ہے کہ میری اس انتہائی ذاتی رائے پر برا نہیں مانیں گے۔

والسلام
 
بہت شکریہ وارث بھائی!

میں خود سوچتا تھا کہ “داستان گوئی” کا انداز نا صرف یہ کہ طوالت بڑھا دیگا بلکہ زبان و بیان میں نقائص بھی رہ جائیں گے۔ پر میرے علم کے مطابق مشاہدات بیان کرنے کا سب سے اچھا اسلوب یہی ہے۔ اس کے بر عکس پچھلے افسانچے ژوم میں تین واقعات، تین کرداروں اور تین مقامات کا مثلث ترتیب دیا تھا۔ چونکہ وہ افسانچہ کلی طور پر تخیلی تھا اس لئے اس میں ابہام زیادہ تھے اور قارئین کو واقعات مربوط کرنے میں بھی دقت ہوئی ہوگی۔

ایک بار پھر شکریہ وارث بھائی۔ آپ کے تبصرے انتہائی مفید ہوتے ہیں خواہ نظم پر کئے گئے ہوں خواہ نثر پر۔ میں انشاء اللہ کوشش کروں گا کہ آپ کے مشوروں کی روشنی میں تبدیلیاں کر سکوں۔ ورنہ انشاء اللہ اگلی کوشش میں (اگر توفیق ہوئی) :)
 
وارث بھائی کی ایک خوبی یہ ہے کہ یہ غلطیوں سے آگاہ ضرور کرتے ہیں، خواہ تکلفات کے لفافے میں ہی سہی۔ حالانکہ میں مزید پوسٹ مارٹم کا منتظر ہوتا ہوں۔ کہ اس بہانے سیکھنے کو بہت کچھ مل جاتا ہے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
ذرہ نوازی ہے محترم آپ کی، مجھے بہت خوشی ہو رہی ہے کہ محفل پر دن بدن اہلِ علم، شاعر،ادیب اور لکھاری خواتین و حضرات کی تعداد میں نہ صرف اضافہ ہو رہا ہے بلکہ یہاں پر کام بھی معیاری پیش ہوتا ہے (جیسا کہ آپ کا :)) اور یہی اس محفل کی خوبصورتی کا راز ہے۔
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
بہت اچھی تحریر ہے سعود صاحب، اچھا لگا پڑھ کر۔

موضوع جاندار ہے اور پلاٹ حقیقت پر مبنی، آپ کا مشاہدہ کمال ہے اور واقعہ نگاری لاجواب۔ جذبہ تو لائقِ تحسین ہے ہی۔

زبان و بیان میں بہتری کی گنجائش بہرحال موجود ہے، مختصر "مختصر افسانے" میں گو کردار نگاری ایک مشکل فن ہے لیکن چونکہ آپ کے افسانے میں فقط دو ہی کردار ہیں لہذا میرے ناقص خیال میں ان کو بھی مزید بہتر کیا جا سکتا ہے۔

امید ہے کہ میری اس انتہائی ذاتی رائے پر برا نہیں مانیں گے۔

والسلام



السلام علیکم

وارث بھائی ، کیا آپ کے تبصرے پر رائے دی جا سکتی ہے ؟
 

محمد وارث

لائبریرین
السلام علیکم

وارث بھائی ، کیا آپ کے تبصرے پر رائے دی جا سکتی ہے ؟

جی شگفتہ بہن کیوں نہیں، آپ ضرور اپنی رائے دیجیئے، میرے خیال میں تو اس میں پوچھنے والی بھی ایسی کوئی بات نہ تھی اور نہ ہی کوئی برا ماننے والی۔ :)
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
جی شگفتہ بہن کیوں نہیں، آپ ضرور اپنی رائے دیجیئے، میرے خیال میں تو اس میں پوچھنے والی بھی ایسی کوئی بات نہ تھی اور نہ ہی کوئی برا ماننے والی۔ :)

شکریہ وارث بھائی

-------------

وارث بھائی اگر ابن سعید بھائی موجودہ تحریر میں کردار نگاری کو دوبارہ پیش کریں تو میں پڑھنا چاہوں گی ۔ البتہ مجھے جو خیال آیا تھا یہ کہ ایسا کرنے سے اس تخلیق کی صنفی حیثیت شاید برقرار نہ رہے / متاثر ہو ۔
آپ کے خیال میں کس حد تک / کس طرح ؟
 
Top