افسانچہ: بلا عنوان

تیشہ

محفلین
تصویریں پسند کرنے کا بہت بہت شکریہ اپیا۔ لیکن یہ آپ نے کوٹ کیا کر لیا۔ :grin:




جی کل میں جب دیکھ رہی تھی تو اسوقت یہاں سارہ کی رپلائی بھی پڑھ رہی تھی ۔ تو آپکا نام نظر آیا تو اسی کو کوٹ کرکے لکھ گئی تھی ۔ سوچا اب کون ذ پ کرے ۔ لہذا ادھر ہی لکھ گئی ۔ میں نے جب کسی سے بھی کوئی سوال جواب بات کرنی ہو ، تو جو پیغام نظر کے سامنے آجائے میں وہی پے لکھ جاتی ہوں ۔
اسکا کوئی مقصد ، کوئی مطلب نہیں ہوتا ، بس جو سامنے آجائے وہی لکھ جاتی ہوں :happy:
 

مغزل

محفلین
سعود بھائی اسے ایک ساتھ جمع کریں تاثر خراب ہوتا ہے ۔ پھر ہی ہم کچھ کہیں گے ۔ والسلام
 

محمداحمد

لائبریرین
محفل سے غائب رہنے کے بہت سے مضمرات اور محرومیوں کے ساتھ ساتھ بہت سی قابلِ ذکر چیزیں‌بھی مطالعے میں آئے بغیر ماضی کا حصہ بن جاتی ہیں۔

یہی دیکھ لیجے کہ آپ کی اتنی خوبصورت تحریر آج پڑھنے کا موقع ملا۔

ماشاءاللہ۔ بہت اچھا خیال اور بیان بھی بہت اعلیٰ۔

خاص طور پر انجام۔

اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ۔

خوش رہیے۔ :rose:
 
مغل بھائی بہت بہت شکریہ میں خود کچھ کرتا ہوں یا اس خطے کے موڈریٹرز سے کہہ کر جمع کراتا ہوں ان شاء اللہ۔

اصل میں یہ اس وقت پوسٹ کیا تھا جب محفل میں بالکل نیا نیا وارد ہوا تھا اور ایک پیراگراف گھنٹے بھر میں ٹائپ ہو پاتا تھا۔
 

محمد نعمان

محفلین
بہت خوب کہا۔۔۔۔
اساتذہ کی رائے اپنی جگہ ، بہت اچھا لجھا اور بہت بہتر لگا پڑھ کر۔۔۔۔۔تعریف کی مستحق ہے یہ تحریر۔
 

گل بانو

محفلین
ایک قصہ ہے جس کے کئی عنوان ہیں ۔۔۔

قسم کی لاج
علم کی تڑپ
تذبذب
آٹھ آنے کی چوری
وغیرہ وغیرہ ۔۔۔

لہٰذا اسے بلا عنوان لکھتا ہوں۔

کہانی ہے ایک چھوٹے سے بچے کی، عمر کوئی 6 سال، ابتدائی درجات کا متعلم ہے۔ جس کے پیٹھ پر ایک آہنی ارادوں والی ماں کا ہاتھ ہے۔ تنگ دستی کے ایام ہیں، ماں گاؤں میں کپڑوں کی سلائی کرکے اپنے خوابوں کے تعبیر کی تلاش میں سرگرداں ہے۔ کبھی کبھار تو دیر رات تک ایک معمولی سے چراغ کی زرد روشنی میں بھی دیدہ ریزی جاری رہتی ہے۔

اس ماں کو یہ تو پتہ نہیں ہے کی اسکا بیٹا پڑھ لکھ کر کیا کچھ بن سکتا ہے، پر اکثر کہتی رہتی ہے کی میرا بیٹا بڑا ہو کر “کچھ” بنے گا۔ اور وہ بچہ بھی کبھی ماں کو مایوس نہیں کرتا ہے، درجے میں ہمیشہ اپنی امتازی پہچان بنائے رکھتا ہے۔

گرمی کے ایام ہیں آم کے پیڑوں میں ننھے ننھے پھل آگئے ہیں۔ اس بچے نے ابھی ابھی گیلی مٹی سے ایک گاڑی اور اسکے پہئے وغیرہ بنا کے دھوپ میں سوکھنے کو ڈال دیئے ہیں، اور اب شدید دھوپ سے بچنے کے لئے تین چار دوستوں کی ایک ٹولی کے ہمراہ دو مکانوں کی درمیانی گلی میں بیٹھا کچھ نیا کرنے کی تدبیر میں مگن ہے۔

کسی نے تجویز رکھی کہ کیوں نہ مٹی کا ایک سنیما بنایا جائے۔ جس میں ایک طرف کی دیوار میں دو تین شیشے لگے ہوں جس سے اندر جھانکا جا سکے اور کاغذ کے پنوں کو چپکا کر ایک لمبی ریل بنا کر اس میں طرح طرح کے نقش بنا دیئے جائیں۔ جنہیں دو عمودی چھڑیوں میں لپیٹا جا سکے جنکے سرے اوپر کی جانب نکلے ہوں۔ خیر تھوڑے سے ترمیم و اضافے کے بعد اس تجویز پر سبھی متفق ہو جاتے ہیں۔

پر اس تجویز کے اتمام میں کچھ رقم درکار ہے۔ لہٰذا فیصلہ یہ ہوتا ہے کہ سبھی اپنے اپنے پاس سے تھوڑے تھوڑے پیسے لائیں گے تاکہ شیشے وغیرہ کا انتظام کیا جا سکے۔ باقیوں کے لئے تو یہ کوئی ایسا مسئلہ نہیں ہے پر وہ بچہ جس کی زندگی میں جیب خرچ جیسی کسی شئے کا تصور ہی نہیں ہے، ایک دوراہے پر کھڑا ہے۔ گھر کی جانب تو چل پڑا ہے مگر قدم سست ہیں، ننہے سے ذہن میں سوچوں کی یلغار ہے۔

ایک جانب دوستوں کا فیصلہ اور دلفریب پراجکٹ ہے تو دوسری جانب منہ چڑاتی تنگدستی۔

ایک طرف دوستوں میں اپنی حالات کا بھرم رکھنا ہے تو دوسری جانب اس ماں کا چہرا گھوم رہا ہے جو اکثر سوچتی رہتی ہے کہ اگر کچھ اور رقم جمع ہو جائے تو میں اپنے بچے کو دس کے بجائے پندرہ روپے کی چپل پہنا سکوں۔

اک بڑا سا سوالیہ نشان یہ بھی ہے کی کیا اماں کے پاس کچھ پیسے ہونگے بھی؟ کیا ان سے کچھ پیسوں کی درخواست مناسب ہو گی؟ اور اگر ماںگا جائے تو کیا کہہ کے؟

ٹھیک دوپہر کا وقت ہے۔ لوگ گھروں میں آرام کر رہے ہیں۔ وہ ماں بھی کچے مکان میں ہاتھ میں دستی پنکھا لئے سوئی ہوئی ہے، جو وقفے وقفے سے حرکت میں آجاتا ہے جیسے جھلستی دوپہر کی گرمی سے بے چین ہو اٹھا ہو۔ برامدے میں سلائی مشین رکھی ہے جس کے آس پاس کپڑوں کے کترن بکھرے پڑے ہیں۔ وہ بچہ گھر میں داخل ہوتا ہے اور سلائی مشین سے منسلک دراز کھولتا ہے تو اس میں دو چونیاں پڑی ہوتی ہیں۔ شاید گھر کی کل موجودہ نقد رقم۔

ضمیر کی ہزار ملامتوں اور دوستوں کے ساتھ کیے گئے خاموش وعدے سے لڑتا ہوا وہ بچہ ماں کو بیدار کرکے پیسے مانگنے کی ہمت نہیں جٹا پاتا ہے اور یوں ایک بڑی جنگ ہار جاتا ہے۔ ایک طرح کے خوف اور پشیمانی میں لپٹا ان دو سکوں کے ساتھ گھر سے نکل پڑتا ہے۔ چند قدم آگے جا کے واپس پلٹ پڑتا ہے کچھ سوچتا ہے اور پھر آگے بڑھ جاتا ہے۔ راستے بھر کئ بار مڑ مڑ کے گھر کی جانب دیکھتا ہے اور بلآخر دوستوں میں سب سے کم پیسوں کے ساتھ جا ملتا ہے۔

شام کا وقت ہے۔ ماں کو کسی کام سے پیسوں کی ضرورت آن پڑتی ہے۔ دراز چیک کرنے پر پیسے ندارد۔ ماں کے لئے ایک نیا تجربہ ہے۔ اسے ٹھیک سے یاد ہے کی پیسے تو یہیں تھے پھر گئے کہاں؟ کوئی چوری کر لے، ایسا تو کبھی ہوا نہیں۔ خیر ایک واجبی سا سوال اس بچے سے بھی کیا جاتا ہے کی کیا اس نے وہ پیسے کسی کام سے لئے ہیں؟ بچے کا جواب ہوتا ہے “نہیں”۔ پر اس نہیں کے پیچھے کتنے کرب زدہ اور صبر آزما لمحات ہیں، کیسی کیسی سوچوں کی یلغار ہے اور چہرے پر کتنے رنگ ہیں۔

شک کی سوئی محلے کے بدنام ترین لڑکے کی جانب مڑ جاتی ہے۔ اور وہ بچہ راحت کی سانس لیتا ہے۔ پر جب وہ لڑکا بھی ایسا کوئی الزام قبول کرنے سے منکر ہو جاتا ہے تو ماں کو اپنے بچے کا رنگ بدلتا رنگ یاد آتا ہے، جواب دیتے ھوئے پھولتی سانسٔیں اور ہچکچاتی زبان یاد آتی ہے۔ عرق آلود پیشانی یاد آتی ہے۔ ایک بار پھر تھوڑی سختی کے ساتھ وہ بچہ سوالات کا نشانا بن کر کشمکش اور تذبذب کے لہروں کی نذر ہو جاتا ہے۔

اس ماں کو بھی شاید اب ان پیسوں کی اتنی پروا نہیں جتنی بچے کے کردار اور اپنی تربیت کا خون ہوتے دیکھ کر ہوتی ہے۔ ماں شاید آخری حربے کے ساتھ اپنے دودھ کے اخلاص کی پرکھ کا تہیہ کر لیتی ہے۔ اور بچے کو اس کی آخری پونجی سے محرومی کا قسم دیتے ہوئے کہتی ہے،

“کہو! اگر تم نے وہ پیسے لئیے ہوں تو تم پڑھائی سے محروم رہ جاؤ!”

۔۔۔ ۔۔۔ ۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔

چند ساعتوں کی خاموشی ۔۔۔ ۔
ماں کے بھنچے ہوئے ہونٹ (شاید ان خیالوں سے پریشان کہ اگر بچہ اب بھی منکر ہو گیا تو میری قسم کا کیا ہو گا ۔۔۔ ۔؟!)

۔۔۔ ۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔

اقرار میں جھکا ہو سر محبت بھری آغوش میں غوطہ زن ہو جاتا ہے۔
چار آنکھوں سے اشکوں کے باندھ تقریباً بیک وقت ٹوٹ جاتے ہیں۔ ۔۔ ۔۔۔


--
سعود ابن سعید


تمام شد!
جس تحریر میں حقیقت کا رنگ جھلکتا ہو چاہے کسی حد تک سہی اپناایک الگ ہی لطف دیتا ہے بلا شبہ عمدہ تحریر ہے اس میں کھلی نصیحت اور احساسات کی عمدہ ترجمانی کی گئی ہے اور ہر تحریر میں بہتری کی گنجائش ہمیشہ رہا ہی کرتی ہے اچھے جا رہے ہیں سعود اللہ مزید نکھار لائے آمین
 

لاریب مرزا

محفلین
دل کو چھو لینے والی خوبصورت تحریر!! :)
تحریر پڑھ کے ہم سوچ رہے تھے کہ ہمیں ایسے الفاظ ملیں جو ہمارے احساسات کی من و عن ترجمانی کر سکیں۔ الفاظ تو نہیں ملے، سو بس اتنا کہہ پائیں گے کہ تحریر پڑھ کے ہم بھی اپنے اشکوں کو قید نہیں کر پائے.. :):)
 

جاسمن

لائبریرین
ایک قصہ ہے جس کے کئی عنوان ہیں ۔۔۔

قسم کی لاج
علم کی تڑپ
تذبذب
آٹھ آنے کی چوری
وغیرہ وغیرہ ۔۔۔

لہٰذا اسے بلا عنوان لکھتا ہوں۔

کہانی ہے ایک چھوٹے سے بچے کی، عمر کوئی 6 سال، ابتدائی درجات کا متعلم ہے۔ جس کے پیٹھ پر ایک آہنی ارادوں والی ماں کا ہاتھ ہے۔ تنگ دستی کے ایام ہیں، ماں گاؤں میں کپڑوں کی سلائی کرکے اپنے خوابوں کے تعبیر کی تلاش میں سرگرداں ہے۔ کبھی کبھار تو دیر رات تک ایک معمولی سے چراغ کی زرد روشنی میں بھی دیدہ ریزی جاری رہتی ہے۔

اس ماں کو یہ تو پتہ نہیں ہے کی اسکا بیٹا پڑھ لکھ کر کیا کچھ بن سکتا ہے، پر اکثر کہتی رہتی ہے کی میرا بیٹا بڑا ہو کر “کچھ” بنے گا۔ اور وہ بچہ بھی کبھی ماں کو مایوس نہیں کرتا ہے، درجے میں ہمیشہ اپنی امتازی پہچان بنائے رکھتا ہے۔

گرمی کے ایام ہیں آم کے پیڑوں میں ننھے ننھے پھل آگئے ہیں۔ اس بچے نے ابھی ابھی گیلی مٹی سے ایک گاڑی اور اسکے پہئے وغیرہ بنا کے دھوپ میں سوکھنے کو ڈال دیئے ہیں، اور اب شدید دھوپ سے بچنے کے لئے تین چار دوستوں کی ایک ٹولی کے ہمراہ دو مکانوں کی درمیانی گلی میں بیٹھا کچھ نیا کرنے کی تدبیر میں مگن ہے۔

کسی نے تجویز رکھی کہ کیوں نہ مٹی کا ایک سنیما بنایا جائے۔ جس میں ایک طرف کی دیوار میں دو تین شیشے لگے ہوں جس سے اندر جھانکا جا سکے اور کاغذ کے پنوں کو چپکا کر ایک لمبی ریل بنا کر اس میں طرح طرح کے نقش بنا دیئے جائیں۔ جنہیں دو عمودی چھڑیوں میں لپیٹا جا سکے جنکے سرے اوپر کی جانب نکلے ہوں۔ خیر تھوڑے سے ترمیم و اضافے کے بعد اس تجویز پر سبھی متفق ہو جاتے ہیں۔

پر اس تجویز کے اتمام میں کچھ رقم درکار ہے۔ لہٰذا فیصلہ یہ ہوتا ہے کہ سبھی اپنے اپنے پاس سے تھوڑے تھوڑے پیسے لائیں گے تاکہ شیشے وغیرہ کا انتظام کیا جا سکے۔ باقیوں کے لئے تو یہ کوئی ایسا مسئلہ نہیں ہے پر وہ بچہ جس کی زندگی میں جیب خرچ جیسی کسی شئے کا تصور ہی نہیں ہے، ایک دوراہے پر کھڑا ہے۔ گھر کی جانب تو چل پڑا ہے مگر قدم سست ہیں، ننہے سے ذہن میں سوچوں کی یلغار ہے۔

ایک جانب دوستوں کا فیصلہ اور دلفریب پراجکٹ ہے تو دوسری جانب منہ چڑاتی تنگدستی۔

ایک طرف دوستوں میں اپنی حالات کا بھرم رکھنا ہے تو دوسری جانب اس ماں کا چہرا گھوم رہا ہے جو اکثر سوچتی رہتی ہے کہ اگر کچھ اور رقم جمع ہو جائے تو میں اپنے بچے کو دس کے بجائے پندرہ روپے کی چپل پہنا سکوں۔

اک بڑا سا سوالیہ نشان یہ بھی ہے کی کیا اماں کے پاس کچھ پیسے ہونگے بھی؟ کیا ان سے کچھ پیسوں کی درخواست مناسب ہو گی؟ اور اگر ماںگا جائے تو کیا کہہ کے؟

ٹھیک دوپہر کا وقت ہے۔ لوگ گھروں میں آرام کر رہے ہیں۔ وہ ماں بھی کچے مکان میں ہاتھ میں دستی پنکھا لئے سوئی ہوئی ہے، جو وقفے وقفے سے حرکت میں آجاتا ہے جیسے جھلستی دوپہر کی گرمی سے بے چین ہو اٹھا ہو۔ برامدے میں سلائی مشین رکھی ہے جس کے آس پاس کپڑوں کے کترن بکھرے پڑے ہیں۔ وہ بچہ گھر میں داخل ہوتا ہے اور سلائی مشین سے منسلک دراز کھولتا ہے تو اس میں دو چونیاں پڑی ہوتی ہیں۔ شاید گھر کی کل موجودہ نقد رقم۔

ضمیر کی ہزار ملامتوں اور دوستوں کے ساتھ کیے گئے خاموش وعدے سے لڑتا ہوا وہ بچہ ماں کو بیدار کرکے پیسے مانگنے کی ہمت نہیں جٹا پاتا ہے اور یوں ایک بڑی جنگ ہار جاتا ہے۔ ایک طرح کے خوف اور پشیمانی میں لپٹا ان دو سکوں کے ساتھ گھر سے نکل پڑتا ہے۔ چند قدم آگے جا کے واپس پلٹ پڑتا ہے کچھ سوچتا ہے اور پھر آگے بڑھ جاتا ہے۔ راستے بھر کئ بار مڑ مڑ کے گھر کی جانب دیکھتا ہے اور بلآخر دوستوں میں سب سے کم پیسوں کے ساتھ جا ملتا ہے۔

شام کا وقت ہے۔ ماں کو کسی کام سے پیسوں کی ضرورت آن پڑتی ہے۔ دراز چیک کرنے پر پیسے ندارد۔ ماں کے لئے ایک نیا تجربہ ہے۔ اسے ٹھیک سے یاد ہے کی پیسے تو یہیں تھے پھر گئے کہاں؟ کوئی چوری کر لے، ایسا تو کبھی ہوا نہیں۔ خیر ایک واجبی سا سوال اس بچے سے بھی کیا جاتا ہے کی کیا اس نے وہ پیسے کسی کام سے لئے ہیں؟ بچے کا جواب ہوتا ہے “نہیں”۔ پر اس نہیں کے پیچھے کتنے کرب زدہ اور صبر آزما لمحات ہیں، کیسی کیسی سوچوں کی یلغار ہے اور چہرے پر کتنے رنگ ہیں۔

شک کی سوئی محلے کے بدنام ترین لڑکے کی جانب مڑ جاتی ہے۔ اور وہ بچہ راحت کی سانس لیتا ہے۔ پر جب وہ لڑکا بھی ایسا کوئی الزام قبول کرنے سے منکر ہو جاتا ہے تو ماں کو اپنے بچے کا رنگ بدلتا رنگ یاد آتا ہے، جواب دیتے ھوئے پھولتی سانسٔیں اور ہچکچاتی زبان یاد آتی ہے۔ عرق آلود پیشانی یاد آتی ہے۔ ایک بار پھر تھوڑی سختی کے ساتھ وہ بچہ سوالات کا نشانا بن کر کشمکش اور تذبذب کے لہروں کی نذر ہو جاتا ہے۔

اس ماں کو بھی شاید اب ان پیسوں کی اتنی پروا نہیں جتنی بچے کے کردار اور اپنی تربیت کا خون ہوتے دیکھ کر ہوتی ہے۔ ماں شاید آخری حربے کے ساتھ اپنے دودھ کے اخلاص کی پرکھ کا تہیہ کر لیتی ہے۔ اور بچے کو اس کی آخری پونجی سے محرومی کا قسم دیتے ہوئے کہتی ہے،

“کہو! اگر تم نے وہ پیسے لئیے ہوں تو تم پڑھائی سے محروم رہ جاؤ!”

۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔

چند ساعتوں کی خاموشی ۔۔۔۔
ماں کے بھنچے ہوئے ہونٹ (شاید ان خیالوں سے پریشان کہ اگر بچہ اب بھی منکر ہو گیا تو میری قسم کا کیا ہو گا ۔۔۔۔؟!)

۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔

اقرار میں جھکا ہوا سر محبت بھری آغوش میں غوطہ زن ہو جاتا ہے۔
چار آنکھوں سے اشکوں کے باندھ تقریباً بیک وقت ٹوٹ جاتے ہیں۔ ۔۔ ۔۔۔


--
سعود ابن سعید

تمام شد!​

ہائے میں نے اپنے آنسو بڑی مشکل سے روکے ہیں۔یہی حالات ہم نے بھی دیکھے ہیں۔
ایسی ماؤں کو اللہ دونوں دنیاؤں میں ہر طرح کی راحت اور آسانیاں عطا کرے۔ اولاد کو آنکھوں کی ٹھنڈک بنائے۔ آمین!
 
Top