نے وہاں اتنی دیر میں موا منہ شیشہ پانی اور بالو سے بھر کر ڈانٹ لگا کر لکھیا لیا اور کپرے سے پانی پونچھ کر کمرے کے اندر رکھ چھوڑا۔ کچھ گوگل، کچھ بال، کچھ چمڑا آگ پر رکھا جس کی چراہند اور بدبو نے سارا گھر سڑا دیا۔ میر صاحب جو آئے تو دماغ کے لالے پڑے۔ ناک بند کیے کمرے میں پہونچے، دیکھا کہ بڑی بی کچھ سینت سمیٹ رہی ہیں۔ اشارہ سے انہیں آنے کو منع کیا۔ وہ الٹے قدم باہر گئے۔ رات کو بڑی بی اس شیشے کو دونوں ہاتھ سے پکڑے کلیجے سے لگائے باہر نکلیں۔ پیٹ میں سانس نہیں سماتی تھی۔ بوجھ سے مری جاتی تھیں۔ باہر نکل کر کرسی پر لا کر دے مارا اور کہا کہ موئے کو جلا بھنا کر خاک میں ملا دیا۔ سارا زور کم کر ڈالا۔ اس پر اتنی بھاری لاش ہے کہ کمرے سے یہاں تک آتے آتے شل ہو گئی۔ گومتی پار جانے میں تو مر مر جاؤں گی۔ میر صاحب کے دل میں آیا کہ ذرا میں بھی تو دیکھوں۔ بڑی بی نے ہنس کر کہا کہ تمہارا بھی جی چاہتا ہے۔ اچھا آنکھوں پر پٹی باندھ کر یا منہ پھیر کر اٹھا دیکھو۔ وہ دل کی بات پہچان جانے سے اور بھی گرویدہ ہو کر مرید بن جانے پر تیار ہو گئے۔ غرض کہ اس شیشے کو اسی طرح سے اٹھایا۔ بڑی بی کو اس کی ڈانٹ پر لپیٹنے کو کچھ نہ ملا۔ ان کا رومال پڑا تھا وہی لے کر اس پر انہوں نے لپیٹ دیا۔ مکہ معظمہ سے وہ رومال لائے تھے۔ میں نے اس کے ایک کونے پر پھول بنا کر ان کا نام کاڑھ دیا تھا۔ اسی طرح ہر رومال پر ایک ایک نام کڑھا تھا۔ بڑی بی نے
ان سے پوچھا کیوں کچھ بھاری ہے۔ ایک تو آتشی شیشہ، دوسرے بلب پانی سے بھرا ہوا۔ کیونکر بھاری نہ ہوتا۔ میر صاحب کے اعتقاد نے اسے اور وزنی کر دیا۔ کہا کہ جی ہاں بہت بھاری ہے۔ بولیں دیکھو۔ یہ سن اور یہ بھوجھ اٹھا کر اتنی دور لے جانا۔ پھر نہ مزدوری نہ دھتوری۔ یہ کہہ کر بٹوا کھولکر چکنی کا چورا اور تمباکو کھایا۔ ایک صافی میں پانچ چار گلوریاں لپٹی تھیں۔ انہیں کھولا، چوما، چاٹا، آنکھوں سے لگایا، پھر بند کر دیا۔ پھر آپ ہی پوچھا کہ پان گھاؤ گے۔ دیکھو کیا یاد کرو گے۔ عمر بھر تو نہ کھائے ہوں گے۔ تمہاری خاطر ہے وہ بیچارے پان کا مزا اور ذائقہ کیا جانیں۔ جو دے دیا وہ کھا لیا۔ دوسرے تمباکو نہ کھاتے تھے۔ فقط دو وقت کھانے کے بعد پان کے عادی تھے۔ اس گلوری کا کھانا تھا کہ پسینہ آ گیا۔ پانچ سات بیگمی پان کتھا چونا، ڈھیروں الائچی، چکنی کا چور، کیوڑے اور مشک کی خوشبو۔ وہ مزا ملا کہ پان ہو چکنے کے بعد بھی ہونٹ چاٹا کیے۔ بڑی بی جب جانے لگیں تو چار گلوریاں ان کے پاس اور تھیں وہ بھی لے لیں اور اس شرط سے کہ روز دیا کرنا۔ یہ نہیں کہ مزا ڈلوا کے الگ ہو جاؤ۔ بری بی نے کہا کہ روپیہ خرچ ہونے سے بھی یہ پان نہیں نصیب ہوتے۔ بہو بیٹیوں کے ہاتھ کے ہیں کہ باتیں انہوں نے پوچھا معلوم ہوا کہ بڑی بی کی چاہیتی جمیل النسا بیگم صاحب کی بنائی ہوئی گلوریاں تھیں۔ ادھر تو بڑی بی میر صاحب سے رخصت ہوئیں، دریا کے بہانے بیری والے مکان میں ہمسائی کے ہاں پہونچیں اور ادھر عابدہ بیگم نازل
ہوئیں۔ دالان میں پردے کے اندر اک درے کے دروازے سے لگی ہوئی یہ بیٹھی ہیں او رادھر جمیل النسا اور بڑی بی بیٹھی راز و نیاز کر رہی ہیں۔ آج انہوں نے پورا قصہ بیان کیا۔ مگر کچھ نام و نشان کسی کا نہ تھا۔ بعد اس کے شیشہ دیا کہ اسے کہیں اچھی جگہ رکھ کر بھول جاؤں۔ انہوں نے کوٹھری میں لے جا کر الماری کے ادھر چور خانے میں اندروار کو دیوار سے لگا کر آڑ میں رکھ دیا۔ پھر پاؤں کی بات چیت ہوئی۔ تیل کا ذکر آیا جن کو بند کرنے کا حال کہا۔ جتنی دیر عابدہ بیگم بیٹھی رہیں یہی باتیں سنا کیں۔ چلتے وقت گلے سے لگا کر بڑی بی نے تسلی دی اور کہا کہ گھبرانا نہیں۔ فقط آنکھوں کی سوئیاں باقی رہ گئی ہیں۔ میں سب اپنا کام کر چکی۔ وہ ایسا کچھ شرمیلا مردوا ہے کہ کسی طرح نہیں سے کھل ہی نہیں چکتا۔ قصد کرتا ہے اور رہ جاتا ہے۔ کل میں الائچیاں پڑھوا کر لاؤں گی۔ وہی پان میں تم دیا کرنا۔ دو ہی چار دن میں یہ ساری شرم جاتی رہے گی۔ میں ابھی کہہ کر چھیڑ سکتی ہوں لیکن اچھا نہیں۔ مزا تو جب ہے کہ وہ کہے اور میں انکار کروں۔ ہاں ہاں کہہ کر جمیل النسا نے انہیں رخصت کیا۔ کنڈی بند کی پھر سیدھی کھڑکی کی راہ ہماری طرف آئیں۔ جب عابدہ کو ادھر نہ دیکھا تو پھر اپنے ہاں گئیں اور دالان میں اک درے کے قریب انہیں بیٹھا دیکھ کے حواس جاتے رہے۔ گھبرا کر پوچھا کہ ہائیں تم یہاں کب سے بیٹھی ہو۔ ان صاف گو نے کہہ دیا کہ بڑی دیر ہوئی۔ جمیل النسا کے دل پر ایک چوٹ پڑی اور دیر تک حیرت و سکوت
میں کھڑی رہیں۔ اس پر عابدہ بیگم نے کہا بھی کہ کیوں میرا بیٹھنا کچھ ناگوار ہو تو میں چلی جاؤں۔ وہ ایسی بےخود تھیں کہ اس کا بھی کچھ جواب نہ دیا۔ عابدہ بیگم ان کی یہ بےجا حرکت خلاف عادت دیکھ کر یہ کہتی اور مسکراتی اٹھیں کہ اے لو بیوی تم خفا نہ و میں جاتی ہوں۔ ان باتوں نے ان کی حیرت کو اور زیادہ بڑھا دیا۔ عابدہ کھڑکی سے نکل کر کنڈی لگا کر وہیں کھڑی ہو رہیں۔ اور کسی خیال سے نہیں فقط اس وجہ سے کہ دیکھوں یہ اس وقت کہیں مجھی سے تو کچھ رکی ہوئی نہیں ہیں اور اگر رکی ہیں تو کس خطا پر وہاں انہوں نے ان کا مزمہ لیا کہ سبحان اللہ تم تو خوب آدمی ہو نہ کچھ سنو نہ دیکھو۔ میں تو ادھر ممولا بیگم سے باتیں کر رہی ہوں اور تم نے عابدہ بیگم کو سر پر بٹھا رکھا۔ سیرین ہیں جو وہ سن گئی ہوں اور انہون نے کہا کہ میں کیا جانوں۔ تمہاری صحنچی میں کون ہے، کون نہیں ہے۔ تمہیں چاہیے دیکھ بھال کے باتیں کرو۔ الٹا چھُدا مجھ پر رکھتی ہو۔ مجھے کیا خبر کہ کیا ہو رہا ہے۔ ایک تو در میں پردا پڑا ہوا ہے دوسرے سنتی کم ہوں۔ دیر تک جمیل النسا بیگم بیٹھی ہوئیں ماں کو الہنہ دیا کیاں۔ پھر اپنے مقام پر کہا کہ اب یہاں رہنا صلاح نہیں افتاد سے آدمی مجبور ہے۔ آمد و رفت لگی رہے گی۔ خدا خدا کر کے تو ممولا بی آتی ہیں۔ مہینوں میں اتنا سہارا ملا ہے۔ آسرا لگائے آج تک بیٹھے تھے، اٹھ ہی جانا مصلحت ہے۔ نہ آنکھ جھیپے گی نہ راہ رسم میں فتور پڑے گا۔ آپ ہی دیوار میں چھید کیا، راہ کھولی، آپ ہی چھوپا لگائیں۔ یہ بھلا کوئی بات ہے منع نہیں کر سکتے
اپنے ہاتھ سے اینچن چھوڑ گھسیٹن میں پڑنا، میل ملاپ میں بیر مول لینا کس خدا نے کہا ہے۔ یہاں کے رہنے میں کام ادھورا رہے گا، بدنامی اٹھائیں، رسوا ہوں اور پھر بےکار نہ بیل منڈے چڑھے نہ آنسو پچھیں۔ وہ سنتی نہیں قرنا پھونکا جائے سارا محلہ سنے۔ جب انہیں خبر ہو اباجان آئیں۔ آج ہی تو پیام دیتی ہوں کہ یہاں سے اٹھ چلیے۔ عابدہ بیگم یہ سب منصوبے سن کر ہونٹ لٹکائے منہ تھوتھائے میرے پاس آئیں۔ میں نے کہا خیر تو ہے کیا ہوا۔ کہا جی کچھ نہیں شاید ہمسائی کو اس وقت میرا جانا ناگوار گذرا۔ کہتی ہیں کہ اٹھ جاؤں ی۔ میں نے کہا کہ یہ کیا بات یا تو وہ زورا زوری یا یہ بےنمکی۔ ابھی تھوڑی دیر ہوئی کہ جمیل النسا بیگم تمہیں پوچھنے کو یہاں آئی تھیں۔ تمہارے ان کے کچھ بات چیت ہوئی۔ سہی سہا کا معاملہ تھا کیا تھا کیا کہا کہ جی کچھ بھی نہیں۔ میں ان کی اماں جان پاس بیٹھی ہوئی تھی ایک بڑی بی ممولا بیگم برقع اوڑھے وہاں آئیں اور دیر تک ان سے باتیں کیا کیں کہ میں نے یوں الو بنایا اور یوں روپیہ لیا۔ تمہارے ہاتھ کے پان کھلائے، گنڈے تعویذ دیے، شیشے میں جن کو بند کیا، جن کو سچ مچ جن سمجھے۔ حالاں کہ اس میں پانی اور بالوتھی۔ تمہاری تعریف کرتے کرتے میں نے ان کو مدہوش کر دیا۔ سو روپیہ چلہ کھنچنے کے نام سے لے لیے۔ چیزیں وہ اڑنگ بڑنگ لکھوا دیں کہ ان کے فرشتوں کے ہاتھ نہ لگیں۔ اب کچھ دیر نہیں فقط حجاب ٹوٹنے
کا عرصہ ہے (میں خاک نہیں سمجھی کہ ماندہ کون تھا، علاج کس کا ہوا، الو کون بنا، جن کیسا، شیشہ کہاں کا، پان کس نے بنائے، کس نے کھائے۔ سنا بےشک سب کچھ لیکن جب سمجھ ہی میں نہ آیا تو سنا نہ سنا برابر۔ وہ جو ادھر سے گئیں مجھ کو بیٹھے دیکھ کر تصویر ہو کر رہ گئیں۔ جس سے صاف کھل گیا کہ ہمیں سے چھپانا منظور تھا تو ہماری ہی باتیں بھی تھیں لیکن میں نے اس پر بھی کچھ نہیں کہا۔ مسکراتی ہوئی اپنے گھر چلی آئی۔ ہاں یہ ضرور کہا کہ تمہیں میرا بیٹھنا گوارا نہیں ہے تو لو میں جاتی ہوں۔ اے لیجیے وہاں تو بات ہی یہی نکلی۔ کھڑکی بند کر کے ٹھہری رہی۔ انہوں نے میرا بدلا اپنی امی سے لیا۔ وہ تو دھرے اڑاتیں مگر باہر آواز نکلنے اور بھید کھلنے کے خیال سے وہ بیٹھیں۔ اب تو یقین ہو گیا کہ دال میں کالا ہے۔ آپ کا میرا اور اسی گھر کا ذکر تھا۔ عجب نہیں جو دولہا ابا سے وہ بڑھیا ملی ہو۔ میں نے کہا کہ نہیں بہن ان بےچارے سے کیا مطلب۔ کہا واہ مطلب کیوں نہیں۔ جتنی باتیں اس نے اشارے کنایہ میں کیں، میں جانتی ہوں سب انہیں کی تھیں۔ بھلا آپ کاغذ حساب کا تو دیکھیے۔ سو روپیے اگر کسی تاریخ میں لکھے ہوں تو وہ ممولا ہی لے گئی ہے۔ میں ہنس کے چپ ہو رہی۔ دوسرے دن صبح کو کھڑکی کھولی گئی اور جمیل النسا آئیں۔ میں نے ان سے کہا کہ بہن کسی نے تمہارے بہنوئی کو ابھار دیا وہ کھڑکی کے پیچھے پڑ گئے۔ دو چار روز وہ یہاں اور ہیں۔ اگر عابدہ صابرہ تمہاری طرف نہ آئیں تو تم اور کچھ اپنے
دل میں خیال نہ کرنا۔ میں نے ان سے کھڑکی بند کرنے کو کہہ دیا ہے اس لیے ان کی بھی راہ روکی گئی ہے۔ وہ سن کر چپ ہو رہیں۔ اچھا برا کچھ نہ کہا۔ میں یقین جانتی تھی کہ میر صاحب اب گاؤں پر تشریف لے جائیں گے۔ وہاں ایک ہفتہ گذر گیا اور وہ جانے کا نام نہیں لیتے۔ باہر ممولا بیگم ہیں اور خاطر مدارات رات دن وہ جمیل النسا کی کہانی بیان کرتی ہیں اور وہ سن سن کے عش عش کرتے ہیں۔ جب روز کا یہی دکھڑا آئے دن کا یہی چرچا ٹھہرا اور آدمی بھی برابر آیا جایا چاہیں ایک دفعہ غلام علی نے بھی سنا۔ اب تو اس کو دل لگی ہو گئی۔ روز بڑی بی کے پیچھے پیچھے سایہ کی طرح رہنے لگا۔ سب بھید لے کر ایک دن اس نے رحمت کو بلایا اور کہا کہ بوا جی صاحبزادی کو کچھ خبر بھی ہے۔ مردار ممولا روز یہاں آ کر میاں کو ورغلانتی ہے۔ پہلے دعا تعویذ کا حیلہ تھا اب پوری کٹنی ہو کر نسبت ٹھہراتی ہے۔ پہر دن پڑوسن کی لڑکی کی باتیں کیا کرتی ہے۔ سنتے سنتے وہ بھی پھسل چلے ہیں۔ ایسا نہ ہو کہ اس کے پھندے میں پھنس جائیں۔ بلا کی عورت ہے۔ رحمت نے کہا کہ بھیا میں تیرے صدقے ذرا مجھ سے ان کی ملاقات کروا دینا۔ میں اپنی لڑکی کا حال پوچھوں گی مگر میرا پتا نشان نہ بتانا۔ اور تمہاری بات میں سب آج ہی تو بیوی سے کہتی ہوں کہ آپ بیٹھی کن خیالوں میں ہیں۔ ذرا روک تھام کیجیے۔ غلام علی نے چلتے وقت بڑھیا سے کہا کہ ایک عورت تم سے ملنا چاہتی ہے اور بڑا ضروری کام ہے
ذرا ٹھہر جاؤ تو میں اسے لے آؤں۔ بڑھیا کو بُتا دے کر غلام علی نے کمرے میں بند کیا اور دولت کو پکار کر چپکے سے رحمت کو بلوایا اور چیخ کر کہا کہ ذرا تم پردے پاس کھڑی رہو میں ابھی آیا۔ ممولا پنجرے میں بند تھیں۔ خبر نہیں کہ کیا ہو رہا ہے۔ وہ تھوڑی دیر پھاٹک میں کھڑا رہا۔ جب بوا رحمت کو آتے دیکھا، پھاٹک کھول ساتھ ہو لیا۔ کمرے میں لے گیا۔ دونوں کو ملوایا۔ ہماری رحمت بھی علامۂ روزگار تھیں۔ جن کی نوکر تھیں بےنام بتائے ان کی برائیاں شروع کر کے اپنی بیٹی کا حال کہا۔ ایک روپیہ چڑھایا درپردہ میرے مزاج بدلنے کی درخواست کی۔ پوچھا کس کی نوکر ہو۔ کہا بیوی ایک شہزادی ہیں۔ تم میرا کام کر دو تو میں تمہیں وہاں بھی لے چلوں۔ انہیں دو باتوں کی بڑی آرزو ہے۔ ایک چندا سا میاں دوسرا پھندنا سا بچا۔ جو کہو گی وہ کریں گی۔ جو مانگو گی وہ دیں گی۔ یہاں کہاں آتی ہو۔ اس نے اجنبی جان کر دبی زبان سے کچھ کہا مگر گول گول۔ رحمت نے کہا کہ معقول وہاں بھی بات چیت ہو چکی ہے اور ادھر تم بھی ٹانگیں توڑ رہی ہو مگر میرے نزدیک تو بےکار کی دوڑ دھوپ ہے۔ اللہ رکھے ان کے کر و فر، مال تال کے آگے دوسرے کو میر صاحب کیوں پوچھیں گے۔ لیکن بیوی خدا کے لیے کہیں ان سے نہ کہہ بیٹھنا ورنہ میری جان کے دشمن ہو جائیں گے اور سوا میرے دوسرا اس راز کو جانتا نہیں۔ میں ہی پھاپھا کٹنی ہوں۔ میرے روزگار پر نہ پانی پھر جائے۔ چار روپے کا سہارا ہے ایک ٹپس لگی ہے۔ لڑ نہ موئے پڑ موءے کا نقشہ ہے۔ تمہارے بڑھاپے اور روز کی محنت پر
خیال کر کے میں نے کہا کہ انہوں نے اچھی دودھڑ لگا رکھی ہے۔ ادھر ان کے پھانسنے کی تدبیر کی ہے ادھر دوسری جگہ سٹے بٹے لڑا رہے ہیں۔ اچھے آدمی معلوم ہوتے ہیں۔ بڑی بی بوا رحمت کے قدموں میں گر پڑیں اور کہا کہ بیوی میں سر آنکھوں سے تمہارا کام کر دوں گی۔ لو یہ اپنا روپیہ لو بلکہ پانچ روپیہ کی مٹھائی اور تمہیں دوں گی۔ تم آٹھ روز گاؤ گھپ میں یہ بات ٹال دو۔ پھر میں یکسوئی کر لوں گی۔ تمہارے کہنے سے آج یہ راز کھلا۔ میں بھی کہتی تھی کہ اگر سو برس کے بوڑھے کے آگے میں اس طرح سے کسی عورت کی تعریف کرتی تو وہ بھی مشتاق ہو جاتا۔ یہ بندہ خدا کیسا آدمی ہے کہ سنتا ہے اور ٹال جاتا ہے۔ کسی طرح دل نہیں پسیجتا۔ یہ سبب تھا کہ ادھر ہزاروں کے وارے نیارے ہوتے ہیں۔ پھر شاہزادی ہیں صورت کی بری نہ ہو گی۔ رحمت۔ صورت۔ صورت ان کی دس بیس ہزار میں ایک ہے۔ اور روپیہ کی تو گنتی نہیں۔ ہزاروں کیسے لاکھوں کہو۔ بڑی بی۔ میری بیوی میں صدقے۔ وہ شاہزادی ہیں۔ ان کے ہزاروں گاہک ہو جائیں گے۔ یہ ایک غریب لڑکی ہے ثواب کا کام ہے۔ تم اسی کی بات ہو جانے دو۔ رحمت واہ واہ اور میرا فائدہ جو ہاتھ سے جاتا رہے گا۔ اس کا ذمہ دار کون ہے۔ بےواسطے تو میں نے یہ کام سر پر لیا نہیں۔ کچھ تو اپنا نفع دیکھا ہو گا۔ بری بی ہاں بیوی یہ تو سچ ہے۔ ادھر تو ڈھاک کے تین پات ہیں۔ نہیں میں تم سے وعدہ کر لیتی۔ دو چار سو تک البتہ میں دلوا سکتی ہوں۔ اور سو پچاس اپنے پاس سے دے نکلوں گی۔ رحمت۔ پھر کب عاقبت
کا وعدہ کل تک میں اپنے گھر پر اور ہوں۔ پرسوں چلی جاؤں گی۔ آٹھ روز کی تو شمسی لے کر آئی تھی۔ (ممولا بیگم) میں کل ہی اس کی تدبیر کرتی ہوں۔ تم گھبراؤ نہیں۔ رحمت سر پر پاؤں رکھ کر پہلے بھاگیں اور ممولا اٹھ کر سیدھی پھر کوٹھے پر پہونچیں۔ سر پکڑ کر نڈھال ہو کر بیٹھ رہیں۔ میر صاحب ممولا کو پھولا لگا دیکھ کر گھبرائے۔ ہزار ہزار پوچھتے ہیں کچھ نہیں کہتیں۔ منت خوشامد کرا کے بولیں کہ آج مجھے بڑا غم ہے۔ میری پیاری مجھ سے بچھڑتی ہے۔ اس کے چچا نے بلا بھیجا ہے۔ وہیں شادی ٹھہرائی ہے۔ اب کاہے کو وہ چاند سی صورت دیکھوں گی۔ میں تو ساتھ چلی جاتی۔ مگر کیا کروں بےبس ہوں۔ نگوڑی ناٹھی نہیں پیچھے لٹ بھر لگی ہے۔ یہ کہہ کر رونے لگیں۔ میر صاحب نے کہا کہ آخر کوئی صورت ان کے یہاں ٹھہرنے کی بھی ہے۔ کہا کہ ہاں ہے کیوں نہیں۔ کہیں شادی ٹھہر جائے، ان کو لکھ بھیجیں کہ جس لیے بلاتے ہو وہی بات جب نہیں تو آ کر کیا کریں۔ مگر شادی کہاں ٹھہراؤں، کس کے پاس جاؤں، کون ایسا سخی داتا ہے جو اس وقت میرے آڑے آئے اور سر سے بلا ٹالے۔ میر صاحب نے کہا سخاوت کا یہاں کیا کام ہے۔ بڑھیا نے کہا کہ اس کی آتو (آتوں) اب باہر جا کر کسی رئیس کے یہاں نوکر ہوئی ہے۔ اس نے یہ بس بویا ہے وہ بھی تو آتی ہے۔ صاف صاف کہہ دیا کہ مجھے پانسو روپے انہوں نے دینے کہے ہیں۔ میر صاحب جھپ سے بول اٹھے کہ اچھا وہ روپیہ اس کو دے دو اور کہو کہ تمہیں اپنے کام سے کام ہے
بات کہی کہ وہ اپنا منہ لے کر رہ گئے اور دوبارہ کہنے کا حوصلہ نہ ہوا آٹھ سات روز بعد اُنہوں نے ایک دن پھر چھیڑا کہ دیکھو یہ جبر ظلم اچھا نہیں تم شکر کرو کہ خدا نے تمہیں بڑی نیک بہو دی ہے۔ آج کل کی بہوؤں کی زبان دیکھتی ہو کہ ساسوں کو جوتی میں پہن لیا ہے نہ ادب کرتی ہیں نہ لحاظ نہ شرم ہے نہ حجاب جب حد سے زیادہ ایک بات ہو گی تو رفتہ رفتہ پھر وہ بھی شرم و لحاظ اُٹھا دے گی اُس وقت بڑی خرابی پڑے گی چیخو پیٹو نہیں ایک قاعدے سے میری بات کا جواب دو کہ میں سچ کہتا ہوں یا جھوٹ اگر خدا نہ کروہ بتنگ ہو کر اُس نے بھی کوئی بات ایسی کہہ دی جو تمہاری آبرو یا عزت کے خلاف ہوئی جب بے کہے سُنے تم ہر وقت پیچھے پڑی رہتی ہو اور طرح طرح سے قرق بٹھاتی ہو تو اُس حالت میں ناگوار طبع ہونے سے نہیں معلوم تم اُس کا کیا جواب دے بیٹھو اور پھر وہ کیا کہے بات بے طرح بڑھے گی اور نتیجہ نہایت بُرا نکلے گا آئندہ تمہیں اختیار ہے اُس وقت نیکی کے دم میں تھیں چپ بیٹھی سُنا کیں اور مولوی صاحب سے کچھ نہ کہا دل میں لے رہیں دوسرے دن اس کا بدلا مجھ سے اس طرح لیا کہ جیسے وہ باہر گئے اور اُنہوں نے بُرے بُرے خطاب مجھے دینا شروع کئے پھر آواز بڑھا کر کہا پھر وہاں سے اُٹھ کر حوض پر آئیں تاکہ اچھی طرح تاکہ اچھی طرح میں سُنون اور بیسوا۔ شتاہ۔ مراد۔ ناشاد کہہ کر یہ الزام لگایا کہ خود الگ تھلگ رہتی ہے اور اُس موئے چودھری پگڑباز کو اُبھار دیتی ہے پھر یہ نام پے کہ اہل ہے اور بے زبان ہے ظاہر میں ایسی ننھی بنتی ہے گویا کچھ جانتی ہی
صفحہ نمبر 305
نہیں اور باطن میں وہ وہ عیب بھرے ہوئے ہیں کہ خدا کی پناہ۔ میں نے یہ سن کر اپنے دل میں کہا اس وقت اپنا جان آ جائیں تو ستم ہو جائے یہ اماں جان کو کیا ہو گیا ہے مجھے کہہ لیں اُن بیچارے نے کیا قصور کیا ہے یہ بھی نہیں سمجھتیں کہ جو جو میں اپنے میاں سے بُرائیاں اور بد زبانیاں کروں گی میرے بچے کے لیے مضر ہیں ویسی ہی خصلت بہو کی پڑے گی اور اپنے میاں کو بے حقیقت سمجھے گی لیکن نہیں معلوم اُنہیں کیسی محبت تھی محبت کے تو یہ معنی نہیں کہ اپنے کسی چہیتے کے وابستہ کو بُرے سبق پڑھائے جائیں میں اپنے دل سے یہ کہہ رہی ہوں اور وہ بنکار رہی ہیں کہ مولوی صاحب گھر میں آئے مرد تھے کہاں تک صبر کرتے اپنے کمرے تک جاتے جاتے آپے سے گذر گئے اور تھرا کر بولے کہ بس کرو بس خدا تمہیں شرمائے اب کہاں تک پیچھا لو گی بکنے کی کچھ حد بھی ہے گھوے کا دماغ کتے کا بھیجا جھینگر کی زبان ہے کسی طرح سے تار ہی نہیں ٹوٹنا چاہیے جواب دو چاہے صبر کرو زبان ہے کہ خدا کی پناہ کہیں رکتی ہی نہیں اُنہوں نے کچھ اور بگڑ کر جواب دیا مولوی صاحب کو تاب نہ رہی اور کہا کہ خدا کے لیے صبر کرو ایک رات کا اور جھگڑا ہے کل سے اور کچھ انتظام کیا جائے گا میں ابا جان کے پاس اس غرض سے چلی گئی کہ اُنہیں روکوں بلکہ ایک آدھ بات بھی کہی کہ آپ جانے دیں غصہ نہ فرمائیں وہ دوڑتی ہوئی اپنے بیٹے کے پاس گئیں اور ہاتھ پکڑ کے کھینچتی ہوئی اُنہیں باہر لائین دکھا کر کہا کہ دیکھ لکاتا جورو کیا کیا اُس
صفحہ نمبر 306
کھوسٹ کو سکھا پڑھا رہی ہے اور یہ کہہ کر اُنہیں جتا کر جو بیگم صاحب نے کہا وہ میری زبان سے ادا نہیں ہو سکتا مولوی صاحب لا حول ولا استعغفراللہ کرتے اُسی وقت باہر چھلے گئے اور وہیں رہنا اختیار کیا چار روز بعد جمعہ کو اُن کے بڑے بھائی آ کر اپنے ہاں لے گئے جھوٹ سچ کا ظاہری ایک سہارا تھا اُن کے چلے جانے سے جو کچھ مجھے قلق و اندوہ ہوا ہے اُسے بیان نہیں کر سکتی لیکن تیسرا ہی روز اس غم و غصہ کھانے کو تھا کہ اُن کے بڑے بھائی اُن کو پھر لے کر گھر میں آئے اور بھاوج کو دیر تک سمجھا کر دھیرا کیا نیک بات میں خدا نے ہمیشہ سے ایک تاثیر دی ہے اُن کے کہنے نے یہ کیا کہ پانچ چھ مہینے تک وہ بالکل سیدھی رہیں اس درمیان میں میرے ہاں صابرہ پیدا ہوئی اور ساجدہ بیگم کی شادی رچی کچھ ان دونوں شادیوں میں الجھی رہیں اور کچھ جیٹھ کے کہنے کا خیال تھا صابرہ کی چھٹی میں مرگ مارنے پر اپنے لڑکے کے خوب خوب کان بھر دیئے اماں جان بڑے حوصلے سے چھتی لے کر آئی تھیں اور چیزوں کا کیا مذکور فقط مرغیوں سے باہر والا سارا احاطہ بھر گیا تھا پانچ اشرفیاں اُنہوں معلوم ہوا تو بھری محفل میں کو لے پر ہاتھ رکھ کے اماں جان سے کہنے لگیں کہ خوان بڑا خوان پوش بڑا اندر کھول کے دیکھو تو آدھا بڑا نواسی کے لیے تو تین چار ہزار کا فقط گہنا اور داماد کو پانچ اشرفیاں اُنہوں نے کہا سمدھن ہمارا منہ دینے کے قابل کب تھا فقط تمہاری خوشی کے لیے میں نے اس کو بھی گوارا کیا اور نہیں تو مرگ کیسا اور اُس کے
صفحہ نمبر 307
مارنے کی مزدوری کیسی تم نے دو تین دفعہ کہا میں نے عذر کیا زیادہ اس لیے نہیں کہا کہ شاید تم کو پیسہ عزیر ہونے کا خیال ہوا اس لیے امجدی بیگم بیچ میں بول اُٹھیں کہ آپ کو اس سے کیا غرض کہ مرگ بھی مارا جائے داماد کو جو دینا ہے وہ دے دیا جائے گا ہمارے یہاں تو ترک رسوم کا عہد ہو چکا ہے اُس کی مزدوری بھی نہ چاہیے تھی میں نے آپ کی خاطر سے بے رسم ادا ہوئے اُس کے حاضر کرنے میں بھی تامل نہیں کیا کم و زیادہ اپنی ہمت پر موقوف ہے امجدی بیگم آ کھڑی ہوئیں اور کہا کہ بیگم صاحب مرگ مارنے میں کیا چھپن ٹکے اُٹھتے ہیں اور جب مارا ہی نہیں گیا تو جو ملا وہ پڑا ملا آپ تو شیر کے شکار کا سامان چاہتی ہیں ہم اس میں بھی باہر نہیں آپ ہی تجویز کر دیجیے حاضر کیا جائے ہمیں آپ کو ناراض کرنا تھوڑی منظور ہے میں بیٹھی ہوئی سُن رہی ہوں اور حسرت ہے کہ ان میں سے کوئی میرے قریب آئے تو اشارے کنایے سے اُسے روک دوں کہ اُن سے ہنسی دل لگی نہ کرو ایسا نہ ہو کہ بگڑ جائیں وہی ہوا میں نہ منع کرنے پائی نہ امجدی بیگم نے میری طرف دیکھا ہنس ہنس کر جو اُن سے ایسی باتیں کیں وہ بگڑ گئیں مگر ایک سے ایک بڑھ چڑھ کر بولنے والا موجود تھا کہتیں تو کیا کہتیں پی کے بیٹھ رہیں جب سب مہمان رخصت ہوئے فقط اماں جان اور لڑکیاں رہ گئیں تو ایک رات بیٹھے بیٹھے وہ ذکر پھر نکالا اور اماں جان کا خوب مزمہ لیا وہ بیٹھی ہنسا کیں بجا درست کہا کیں جب جی بھر کر دل کھول کر کہہ چکیں تو اُنہوں نے کہا کہ بیگم صاحب روپیہ کیا ہے اور اشرفی کیا ہے
صفحہ نمبر 308
ہم نے اپنی عمر بھر کی دولت آپ کے تواضع کر دی آپ اس دولت کو اگر کچھ نہ سمجھیں تو ہماری قسمت آپ کا یہ خیال کہ امجدی بیگم نے بنایا میں اُن کی طرف سے قسم کھاتی ہوں کہ وہ ایسی نہیں آپ اس بات کو سل سے نکال ڈالیے جب ہم آپ ایک ہوئے تو جیسے آپ کو بنایا ویسے ہمیں بنایا کوئی بھی اپنی ذلت آپ چاہے گا یا دنیا میں کوئی ایسا بھی آدمی نکلے گا کہ جس کے ساتھ جائے جس کا طرفدار ہو اُسی کو رسوا کرے امجدی بیگم سے عزیزوں سے زیادہ ہم سے ربط ہے بہت نیک اور خوبیوں کی بیوی ہیں ہاں ذرا ہنس مکھ ہیں۔ بیگم صاحب ہنس مکھ تو نہیں ہنستا چغل اور ہری چگ ہیں سمدھن تم ہزار اُن کا عیب چھپاؤ میں کب مانتی ہوں وہ اُس دن ضرور مجھے لالچ خوری بنا گئیں۔ (اماں جان)۔ اے نہیں سمدھن اپنے سر کی قسم اُنہوں نے لالچی نہیں بنایا آپ کی خوشی کے لیے کہا کہ جو فرمائیے وہ اب حاضر کیا جائے۔ بیگم صاحب تو کیا مجھے عنایت فرماتی تھیں۔ (اماں جان)۔ جی نہیں آپ سے کیا کام تاجدار دولہا کا ذکر تھا میں نے چپکے سے ہاتھ بڑھا کر اماں جان کے زانو کو دبایا وہ سمجھ کر چپ ہو رہیں پھر بیگم صاحب نے بہت کچھ کہا لیکن اُنہوں نے ایک بات کا جواب نہ دیا جب وہ چلی گئیں تو اماں جان نے اُن کے مزاج کی کیفیت پر کم ملنے اور کم آنے کی حالت سے خیال فرما کر مجھ سے کہا کہ طاہرہ بیگم تمہاری ساس مجھے کچھ کم عقل اور زود رنج معلوم ہوتی ہیں دوسرے اچھے بُرے کی تمیز نہیں یہ تم سے اتنے دن کیونکر نبھی کس طرح کچھ اوہر سال بھر تی کیا بیٹا میرے
صفحہ نمبر 309
تو دماغ کے کیڑے جھڑ گئے آج ساتواں دن مجھے آئے کو ہوا ہے اتنے زمانے میں اُنہوں نے بیسیوں رنگ بدل ڈالے تمہارے میان کی بھی کیا ایسی ہی خلقت ہے؟ میں نے کہا جی نہیں نہ وہ ایسی میں نہ آپ کے داماد تلون مزاج ہیں آپ کو فقط نئے سابقے کی وجہ سے ایسا معلوم ہوتا ہے آپ کی سی عادت اور خصلت دوسرے میں کیونکر ہو اپنے مزاج کے موافق نہ ڈھونڈھیے اپنی طبیعت سے جدا کر کے دیکھیے دنیا میں سب ہی طرح کے تو لوگ ہوتے ہیں اُنہیں میں سے ہیں میرے ساتھ تو آج تک اُنہوں نے کوئی بُرائی نہیں ذرا مزاج کی تیز ہیں تو مجھے کیا کچھ برابری کا تو اُن سے دعویٰ ہے نہیں کہ مقابلہ کروں اور اُن کی بدمزاجی سے مجھے کوئی صدمہ پہنچے بُڑھاپے میں سارے مزے اور بدن بھر کی طاقت زبان میں آ جاتی ہے پیٹھ پیچھے بادشاہ کو کہتے ہیں اگر اپنی جگہ کچھ کہتی بھی ہوں تو نہ میں سنتی ہوں نہ سُن کر بُرا مانتی ہوں بڑی بوڑھی ہیں جیسے آپ ویسے وہ بڑھ کر کہہ جائیں زیادتی کر جائیں بُرا کہیں بھلا کہیں تو کچھ میری عزت نہیں جاتی رہے گی ایک وقت خفا ہوں گی دوسرے وقت کلیجے سے لگائیں گی آپ کے دم کو خدا رکھے اپنے پہلو سے اُٹھا کر جس کے پہلو سے لگا دیا ہے لگے بیٹھے ہیں ہماری ںالائقی ہے جو بڑون کی بات پکڑیں یا اُس کا شکوہ کریں مجھے آپ کی طبیعت کا حال معلوم ہے کہ آپ کسی سے بُرائی کرنے یا بدلا لینے پر قادر نہیں اگر کوئی بُری بات اُن کی مجھے بُری لگتی تو آپ سے کہہ دینے میں کوئی قباحت نہ تھی میں ہر طرح نہایت خوش و خرم
صفحہ نمبر 310
ہوں اور کسی قسم کی تکلیف بے چینی ایذا نہ تھی نہ ہے ہاں آپ کے پہلو اور ابا جان کے سایہ نانا جان کی زیارت سے محروم ہوں سوا اس کے اور مجھے کسی طرح کا رنج نہیں اگر آپ نے کسی سے سُنا ہو یا اب کوئی کہے اول تو آپ اُسے سماعت نہ فرمائیے گا فاور سن کے یقین نہ مانیے گا بس اتنا ہی ہے جیسی جی چاہے مجھے قسم لے لیجیے کہ اگر مجھے کچھ بھی صدمہ ہوا ہوتا تو میں آپ سے ضرور کہہ دیتی کبھی نہ چھپاتی مجھے یقین ہے کہ آپ بے قسم کھائے بھی مجھے سچا سمجھتی ہیں۔(اماں جان)۔ خیر الحمد للہ ہمیں تمہاری خوشی اور راحت سے غرض ہے آم کھانے سے کام ہے نہ پیڑ گننے سے وہ کیسی ہی مزاج کی تیز ہوں۔ جھلّی ہوں اس کے کریدنے سے کیا مطلب فقط اس سے ہے کہ تم سے سیدھی رہیں کھڑیچ کی نہ لیں مگر طاہرہ بیگم جو جس کی خصلت اور عادت ہوتی ہے وہ کہیں جاتی بھی رہتی ہے تمہیں پورا سال گذرا ایک بدمزاجی نہیں کی ہم سے سات دن میں ستر تک کی نوبت پہنچ گئی بھلا یہ عقل میں آنے کی بات ہے تمہاری خاطر سے کہو ہاں ہاں کر دیں زبردستی مان لیں ہمارے تجربے کے تو بالکل خلاف ہے نام بڑا اور درشن تھوڑے اسی گھر کے حسبِ حال ہے مجھ کو تو ساتھ ہی دن میں تین تلوک نظر آنے لگے تم لاکھ چھپاؤ چھپ نہیں سکتا میں کیا کروں میرے دل ہی سے نہیں نکلتا مجھ سے بے واسطے خواہ مخواہ چھیڑ چھیڑ کر تو وہ لڑنے کو آئیں اور تمہیں بہو ہو کر چین سے بیٹھنے دیں میں نے کہا کہا اماں جان آپ نے شاید خیال نہیں فرمایا اُن کی بات چیت کرنے کا
صفحہ نمبر 311
ڈھنگ یہی ہے کچھ عداوت اور دشمنی سے ایسی باتیں تھوڑی کرتی ہیں۔ خلقت سے سب ہی ناچار ہیں اُن کا کیا زور اب وہ بدل سکتی ہیں آپ زیادہ رہیں گی کیوں ورنہ میرے کہنے کا حال کھل جاتا (اماں جان) خدا نہ کرے بیوی میں میں رہ کر کیا خلل دماغ لوں گی اچھا خاصا آدمی اس گھر میں آ کر تمہاری ساس کی معرفت تیسرے ہی دن تو تنکے چُننے لگے کل انشاء اللہ شب بخیر صبح کی نماز پڑھ کر تو میں جاؤں گی میں نے یہ بات کہی اسی غرض سے تھی کہ اگر وہ دس پانچ دن اور رہیں تو میں کسی نہ کسی طریقے سے سعی سفارش اُٹھوا کر بیگم صاحب کو اتنے دن کے لیے روک دوں اور یہ کہہ دوں کہ اپنے گھر کی لڑائی دوسرے گھر کی ہنسائی ہے مجھے منظور نہیں کہ آپ کی میری بدمزگی کا حال میرے میکے والوں پر کھلے جب تک اماں جان ہیں آپ تامل فرمائیں ذرا خیال رکھیے اُن کے جانے کے پھر آپ کو اختیار ہے یہاں اماں جان کو خود نہیں رہنا منظور تھا اب پیام سلام کی کیا ضرورت تھی ایک رات تو بات تھی صبح کو وہ اپنے گھر سدھاریں اور میرا راز ڈھکے کا ڈھکا رہ گیا امجدی بیگم نے بھی ایسی ہی کچھ باتیں کہی تھیں میں نے اُن سے کہا کہ آپ مجھے بے غیرے سمجھتی ہیں یا غیرت دار اُنہوں نے جیسے ہی غیرت دار کہا میں نے کہا بس غیرت دار ہو کر کوئی بھی اپنی فضیحتی اُڑوائے گا اور پھر ہٹّا بنا رہے گا اور کچھ میرا زور نہیں چلتا تھا کسی کا کچھ نہیں کر سکتی تھی اپنی جان پر تو قابو تھا رنج تو کرتی دل میں کُڑھتی پھر گُھن نہ لگ جاتا
صفحہ نمبر 312
آج تک گھل کر بہہ نہ گئی ہوتی غم و رنج سے عدد یا کوفت اور تکلیف سے دشمن انسان کو اُس کو اُس کے اصلی حال پر بھی کہیں رہنے دیتے ہیں ذرا میں تو سُتا ہوا چہرہ خود بول اُٹھتا ہے کہ ادھر دیکھو ہماری خبر لو ہمارا حال پوچھو نہ مجھے رنج ہے نہ پریشان ہوں آپ خاطر جمع رکھیے اور میرے اسی حال پر رہنے کی خداے پاک کی جناب میں دعا کیجئے اس طرح سے میں اُنہیں بھی ٹالا تھا اماں جان اور لڑکیوں کا سوار ہونا تھا کہ وہ وجہین کے پاس آ کر بیٹھیں اور باہر والے دالان میں بیٹھ کر اُس کی تعریف میں قصیدہ شروع کیا اپنے نزدیک میری ہجو کر رہی تھیں لیکن اصل میں وہ میری تعریف تھی وجیہ النسا نے کہا کہ بیگم صاحب مجھ میں جو کچھ ذرا ظہور آدمیت ہے سب آپ کی بہو صاحبہ کے تصدق سے ہے کہ دو تین برس میں نے اُن کی خدمت کی جوتیاں کی سیدھی کیں کچھ پڑھا کچھ لکھا کچھ صحبت اُٹھائی معاذ اللہ اُن کے قدم با قدم تو نہیں کہہ سکتی ہاں تقلید کرنے والیوں میں ہوں کہا اے بیٹھ لڑکی تیری جوتی کی تو برابری کر لیں تیری گھونی گھسکی بس کی گانٹھ زہر کی پڑیا میٹھی چُھری صورت حرام گوری چٹی ہیں اپنے لیے چاند کا ٹکڑہ ہیں اپنے واسطے ہمیں صورت شکل سے کیا کام سیرت اچھہ ہونی چاہیے اس کا یہ حال ہے کہ بس دل ہی مزے اُٹھاتا ہے کلیجے میں چھید ڈال دیئے دل میں سوراخ ہو گئے دور سے بیٹھی وہ نشانہ بازی کرتی ہے کہ تو یہ ہی بھلی بھس میں چنگی ڈال جمالو دور کھڑی ہوئی لگائی بجھائی میں اُستاد جوڑ توڑ میں ایک مہیں معلوم سمدھن کے کیا کان بھر دیئے کہ وہ
صفحہ نمبر 313
چلتے وقت مجھ سے دل کھول کر اچھی طرح نہ ملیں امجدی بیگم نے رخ دے کر بات کرنا چھوڑ دی تم کو وہ پٹّی پڑھائی کہ جھوٹوں میرے پاس نہ پھٹکیں (وجیہ النساء) اوئی بیگم صاحب توبہ توبہ مجھ سے قسم لیجیے جو اُنہوں نے مجھے منع کیا ہو یا کچھ کہا ہو بات دہرانے کی اُنہیں عادت ہی نہیں وہ ایسی واہیات باتیں کیا جانیں (بیگم صاحب) اے واہ ری چھوکری تو خدا کا کلمہ کیوں پڑھتی ہے بس اُنہیں کا پڑھا کر۔(وجیہ النساء) میں میرا سارا کنبہ اُن کے محلے والے بڑے بڑے گھرانے کے لوگ اُن کا کلمہ پڑھتے ہیں نہیں معلوم آپ کیا فرماتی ہیں ایک مجھے نکال ڈالیے میں دو ہزار عورتوں سے اُن کے فرشتہ خصلت ہونے پر گواہی دلوا سکتی ہوں معاذ اللہ وہ اور ایتری یا گھونی گھسکی ہوں اُن کو تو خدا نے بڑا مرتبہ دیا ہے ایسے عیب اُن کے ہاں کی ماما اصیلوں تک میں نہیں۔بیگم صاحب۔ یہی ماما اصیلین رحمت۔ اعجوبہ ان چپڑ خندیوں کا کیا کہنا بے عیب معصوم پاک صاف چھیتا چھتی (ستیاستی) ایک نیک زن دوسری نیک چلن دونوں کی دونوں فرشتوں کی تصویروں حوروں کی مثالیں –(وجیہ النساء) یہ تو آپ فرمائیں مگر ہاں اس زمانے کے لوگوں سے اچھی ہیں جو اُن میں خوبیاں ہیں اچھے اچھے گھروں کی بیویوں میں نہیں۔ بیگم صاحب۔ بیٹھ لڑکی عقل کے ناخن لے اپنا منہ بنوا تو نے ابھی دیکھا ہی کیا ہے ایک ہفتے کاسن دودس کی منہ سے بھقر بھقر بو آتی ہے اور یہ باتیں بناتی ہے تو کیا جانے کہ اچھے لوگ کیسے ہوتے ہیں ارے ہمیں دیکھ کہ ایسی بہو کا ساتھ دے رہے ہیں
صفحہ نمبر 314
ایک دن دنیا میں جس کے ساتھ کوئی بسر نہ کر سکتا جس کے کاٹا کا منتر نہیں (وجیہ النساء) جو فرمائیے بجا ہے میں آپ کی بات دُلکھ نہیں سکتی لیکن دنیا جہاں کا دستور ہے کہ ایک کے بُرا کہے سے نہ کوئی بُرا ہو سکتا ہے نہ اچھا کہے سے اچھا جس کو ہزار جس کو ہزار اچھا کہیں وہ اچھا ہے اور ہزار بھی کیسے جو خود اچھے ہوں مجھ ایسے نکمے نہیں مجھے یہاں بھی آئے کئی دن گذرے جس کی جو عادت ہوتی ہے چھٹ نہیں جاتی میرا کچھ ڈر نہیں پڑا تھا اُن کی کچھ بڑی نہیں تھی جو ادب و لحاظ کر گئیں میں نے تو ایک بات بھی نہیں سُنی اگر یہاں آ کر اُن کا مزاج بدل جاتا یا طبیعت اور ہو جاتی تو مجھ پر پہلے ہی روز کُھل جاتا کیونکہ میں ایک مدت تک اُن کے ساتھ رہ چکی ہوں اور کس طرح سے کہ ہر وقت کا ساتھ کئی برس تک ایک دم کو بھی جدا نہیں ہوئی قدموں سے لگی رہی ایسا اندھیر ہے یا میری عقل پر پتھر پڑ گئے جو میں اُن کو بھول جاؤں گی اور احسان فراموش بنوں گی آپ جیسی ہیں اگر کوئی اس کے خلاف کہے تو کیا ہو گا جس طرح سے چاند کا داغ نہیں مٹ سکتا اسی طرح سے اُس پر خاک بھی نہیں پڑ سکتی بیگم صاحب کچھ کہنے کو تھیں کہ وہ اپنے بچے کو گود میں لے کر میرے پاس چلی آئیں اور وہ منہ کھول کر رہ گئیں پندرہ دن رہ کر وجیہ النساء اپنے گھر گئیں اس مدت میں کئی دفعہ اماں جان نے اس کو گھیرا اور اُس نے نہایت خوبی اور لیاقت سے اُن کی باتوں کے جواب دیئے وجیہ النساء کے جانے کے بعد اماں جان نے اُس کی نسبت خوب خوب زبان صاف کی کنجڑن بھشتن حلال خوری بختاور چھو چھو ان میں سے جس کو پا گئیں پکڑ لیا
صفحہ نمبر 315
اور وجیہن کا قصہ بنا کر کہنے لگیں کوئی نہ ملا دیوار پاکھون کے سامنے دہرایا سنتے سنتے کان بہرے ہو گئے کوئی دو تین مہینے ساجدہ بیگم کی شادی کو گذرے تھے کہ بیگم صاحب نے لڑکی کو اب کی دفعہ جو بلایا تھا تو سمدھن سے کہلوا بھیجا کہ بیوی ماشاء اللہ تمہارا لڑکا ہے دن میں دس دفعہ تمہارے پاس جا سکتا ہے میں اپنی لڑکی کو دیکھنے کے لیے ترس جاتی ہوں تم آزردہ نہ ہونا اور نہ اپنےدل میں کچھ اور خیال کرنا لڑکی کے ساتھ ہی لڑکے کو بھیج دینا کہ دونوں مل کر یہیں رہیں ہمارا تمہارا کوئی جدا نہیں ہے اور درحقیقت بھی ایسا ہیتھا کیونکہ بہت قریب کے عزیزوں میں ساجدہ بیاہ گئی تھیں ان بیچاری کے ان کی طرح پتال میں تو جڑ تھی نہیں یہ سُن کر بے عذر و حیلہ اُنہوں نے اپنے لڑکے کو ہمارے یہاں رہنے کے ارادے سے بھیج دیا مکان ٹھہرا ایک دو چار مرتبہ تو فوراً پردہ ہو گیا گرمیوں کے دن تھے میں تختوں پر بیٹھی ہوئی مغرب کی نماز کے لیے وضو کا ارادہ کر رہی ہوں پاؤں دھوئے ہیں کہ اُنہوں نے پکارا میں نے اشارے سے رحمت کو بلایا کہ کچھ جلدی اُٹھا کر آڑ کر لو کہ شہریار دولہا نکل جائیں میرے پاؤں گیلے ہیں جب تک رحمت جائیں اور دلائی چادر لائیں کہ اماں جان نے جان کھا لی پر وہ نہ ہوا بلائے جان ہوا جان بوجھ کر آپ ہی اُس کے آنے کے وقت توپ کے مہرے پر بیٹھیں اور آپ ہی پردے کی شق نکالی بڑے پردے والی جب لڑکے کے آنے کا وقت ہوتا ہے ادبدا کر باہر نکلتی ہے میری کیا شامت تھی کہ یہ باتیں سُن کر وہاں بیٹھی رہتی رحمت آنے نہ پائی
روپیہ لو گھر کو جاؤ۔ گویا تمہاری نسبت ٹھہرائی مل گئی (ممولا بیگم) کون دے گا۔ میر صاحب (شرما کر) ہم دیں گے (ممولا) کب (میر صاحب) کل مگر۔ (ممولا) اگر مگر کیسا۔ میر صاحب پہلے جھیپے مگر اس کے عاجز کرنے سے بول اٹھے کہ ہمارے ہی ساتھ نسبت ٹھہرا دیتا (ممولا) واہ بھلا تمہارے ساتھ وہ کیوں راضی ہونے لگیں۔ چیونٹیوں بھرے کباب دیمک لگی لکڑی تو ہو رہے ہو لیکن میں تامقدور زور لگاؤں گی۔ میر صاحب ۔ زور وور میں نہیں جانتا۔ وعدہ کرو تو اسی وقت روپیہ دیتا ہوں۔ (ممولا) روپیہ تمہاری زبان پر ہے کیا میں جانتی نہیں لیکن وعدہ کیوں کر کروں۔ نہ راضی ہوں تو جھوٹی پڑوں تم سے پھر چار آنکھیں ہو سکیں گی۔ (میر صاحب) تم چاہو گی تو سب ہی کچھ ہو جائے گا۔ نہ راضی ہونا کیا معنی (ممولا) تو اچھا کل پر رکھو۔ میں ان کے مزاج کی ذرا تھاہ لے لوں۔ (میر صاحب) چپ وہئے پھر کہا کہ میں کل پرسوں نہیں جانتا۔ جو کچھ ہو اسی وقت ہو۔ جان پر کھیل کر تو میں نے ایک بات کہی ہے۔ کل خدا معلوم یہ ارادہ رہے کہ بدل جائے۔ اس فقرے پر بری بی سمجھیں کہ بےشک دوسری جگہ بھی بات ضرور ہے۔ ایسا نہ ہو کہ وار اُچٹ جائے۔ سچ ہے جو کچھ ہو ابھی ہو۔ کہا کہ یہ تو نئی ضد ہے۔ اچھا روپیہ تو منگواؤ۔ وہ جلدی اٹھے اور الماری کھول پورے چار سو گن دیے۔ باقی کے لیے گھر میں آئے۔ مجھ سے کہا کہ سو روپیہ کی ضرورت ہے۔ میں نے کنجیاں پھینک دیں۔ خوشی خوشی روپیہ لے گئے۔ پورے پانسو لے کر
وہ ادھر کھسکیں میر صاحب گھر میں کھانا کھانے آئے۔ بڑی بی کے دل پر تو چوٹ پڑی تھی۔ اسی وقت غلام علی سے کہا کہ بھیا ذرا ان بیوی کو پھر بلا دینا وہ اسی طرح کمرے میں ان کو بند کر کے یہ کہہ کر نکلا کہ آپ بیٹھیے میں کھانے کو پوچھ لوں تو جاؤں۔ ڈیوڑھی پر جا کر بوا رحمت کو پکارا۔ وہ اس کے ساتھ باہر پہونچیں۔ بڑی بی نے پوٹلی ان کے آگے کھسکا دی کہ لو بیوی یہ تو اس وقت موجود ہے اور آگے بھی اور خدمت کی جاوے گی۔ رحمت پہلے کچھ رکیں پھر یہ کہہ کر اٹھا لیا کہ اب تو میں اقرار ہی کر چکی ہوں۔ خیر بہتر آٹھ روز تک بالکل زبان بند رکھوں گی۔ مگر اس مدت میں تم اچھی طرح راضی کر لینا کہ وہ ایک طرف ہو رہیں۔ ممولا ۔ ہاں ہاں کر کے وہاں سے رخصت ہوئیں۔ جب وہ جا لیں تو بی رحمت گھر میں آئیں اور چپکے چپکے روپیہ رکھ کر ہلکی ہوئیں۔ قابو ڈھونڈھنے لگیں کہ میر صاحب کی آواز آئی۔ کوئی دوڑا گیا۔ معلوم ہوا کہ رحمت کا گاہک ہے۔ وہ گھبرائی ہوئی گئیں ان کی لڑکی نے بلایا تھا۔ برسہا برس بیمار رہ کر میکے میں آئی تھی۔ اس کا غیر حال تھا۔ رحمت نے کچھ دیر ٹالا۔ جب میر صاحب نہ ٹلے تو رخصت لے کر سوار ہو گئیں۔ وہاں پہونچیں تو اس کا آٰخری وقت تھا۔ انہوں نے رونا شروع کیا۔ اس بیچاری نے انتقال کیا۔ وہ تو جا کر ادھر پھنسیں۔ صبح کو بختاور اور سطوت آرا بیگم پھر آئیں۔ وہی دکھڑا چھیڑا۔ میں نے وعدہ کر لیا کہ اچھا میں اب آ کر آپ کی گتھی کو
بھی سلجھا دوں گی۔ جمعہ ٹھہرایا گیا۔ دن بھر رہ کر وہ سوار ہو گئیں۔ تیسرے دن جمعہ تھا۔ میں تو ادھر گئی۔ یہاں بی ممولا جان نے میر صاحب کا عقد کرا دیا اور اتفاق سے میرے جانے کے دوسرے دن ۔ نہ دیکھا ہفتہ نہ دیکھا اتوار۔ جمعہ کا نکاح ہفتہ کا طلاق سنا تھا۔ یہاں بوکھلاہٹ کےک مارے ہفتے ہی کو نکاح ہو گیا۔ کعبہ کی نیو بھی ہفتے ہی کو پڑی تھی۔ مہر پر کچھ بات بڑھنے کو تھی کہ بی ممولا نے جمیل النسا کی مرضی سے اس بحث کو بھی موقوف کیا۔ شرعی مہر باندھا۔ جمیل النسا تو یہ خوب سمجھ چکی تھیں کہ پانچوں انگلیاں گھی میں سر کڑاہی میں ہے۔ پھر وعدہ وعید قول قرار کرنا کیسا۔ وہاں میاں صاحب فقط پندرہ روپیہ کے مالک تھے۔ اس میں سے بھی پانچ ساجدہ کے تھے اور دس ان کے ۔ میں آٹھ روز وہاں رہی اور اصغر کے ساتھ سطوت آرا بیگم کی لڑکی کی بات ٹھہرا دی۔ بڑا قصہ چکا، جمعہ کو پہر دن رہے میں گھر پر آئی تو ساجدہ بیگم کو دیکھا۔ رو کر وہ گلے ملیں اور ماندگی میں اپنے نہ پہونچنے کا عذر کیا۔ سرِ شام شہریار دولہا بھی آئے۔ ایک مدت سے نہیں آئے تھے۔ یہ سب بیٹھے ہوئے ہیں۔ دولت باہر والے کوٹھے والا کمرہ جھار کر بہت سے کاغذ لائی کہ ردی چھانٹ دیجیے تو میں گھڑے میں ڈال دوں۔ اس میں فرمائشی کاغذ نکلا جو ممولا بیگم نے میرے جھپیٹے کے علاج کے لیے لکھوایا تھا۔ میں اسے دیکھ رہی ہوں کہ غلام علی نے دولت کو پکارا۔ وہ باہر گئی۔ کہا کہ بیری والے مکان
کے کرایہ دار اٹھے جاتے ہیں۔ کچھ کرایہ تو ان کے ذمے نہیں ہے۔ عابدہ بول اتھیں کہ کیوں ہے کیوں نہیں۔ دیکھو میں کاغذ دیکھتی ہوں۔ کاغذ دیکھ کر انہوں نے کہا کہ پورے پانچ مہینے کا کرایہ ہے۔ یہ دن چھوڑ کے میں چاہتی ہوں کہ منع کروں۔ وہاں دولت اسے پیام دے آئیں۔ اس نے جا کر اسباب روکا۔ ہمسائی کا لڑکا بگڑنے لگا۔ اس کو تو زور ہی کچھ اور تھا۔ غلام علی میرے بل پر اکڑا اور کہا کہ ٹیڑھے ترچھے کسی اور سے ہونا۔ میں کھڑے کھڑے روپیہ لے لوں گا۔ اس نے کچھ سخت سست کہا۔ غلام علی نے لکڑی سیدھی کی۔ ادھر تو ان سے جھگڑا ہو رہا تھا اور ادھر عابدہ یہ کہتی ہوئی کوٹھری میں پہونچیں کہ دیکھو تو ان سب کی بےمروتی۔ آٹھ روز سے انہوں نے اسی لیے کھڑکی بند کر لی تھی۔ چلتے وقت بےاعتنائی کی کیا ضرورت پڑی تھی۔ ہائیں یہ انہوں نے منہ کیوں چھپایا۔ میں بھی یہ سن کر باہر نکلی۔ دولت سے کہا کہ ارے بوا غلام علی سے تم نے کچھ اور تو نہیں کہہ دیا۔ اس نے کہا جی نہیں جو بیوی نے بتایا تھا وہی کہا۔ میں انگنائی تک یہ سنتی ہوئی آئی ہوں کہ عابدہ ادھر سے پریشان نکلیں اور کہا کہ باجی اماں ہمسائی کے لڑکے سےہمارا کوئی آدمی لڑ رہا ہے۔ کرایہ کرایہ کئی دفعہ میں نے سنا۔ ان کی اماں جان برا پھلا کہہ رہی ہیں۔ کھڑکی ادھر سے بند ہے۔ میں نے بھائی شہریار دولہا سے کہا۔ وہ باہر گئے۔ بیچ بچاؤ کیا۔ لڑکے کو سمجھایا اور کہا کہ بھئی یا روپیہ دو یا اسباب
چھوڑ جاؤ۔ لڑائی بھڑائی کیسی۔ بھلے آدمیوں میں کہیں ایسی باتیں ہوتی ہیں۔ غلام علی تو چپ بھی ہو رہا۔ لڑکے کا غصہ کسی طرح کم نہیں ہوتا۔ شیر کی طرح سے اسے دیکھ رہا ہے۔ دور سے بیٹھا کھائے جاتا ہے۔ سر ہلاتا ہے اور کٹکٹاتا ہے۔ گھورتا ہے اور رہ جاتا ہے۔ جب غلام علی نے دو چار مرتبہ دیکھا کہ وہ رہ رہ کر ہونٹ چبا رہا ہے اس وقت پھر وہ اٹھا اور کہا کہ میاں جاؤ پندرہ روپیہ ڈھیلے کرو نہیں ساری شیخی کرکری ہو جائے گی۔ غصہ دھرا رہ جائے گا۔ میں نیلی پیلی آنکھوں سے ڈرنے والا نہں۔ دھمکیاں اپنی پھر کے لیے رہنے دو۔ کسی لونڈے لاڑھی کو دکھانا۔ وہ تتا ہو کر مزدوروں پر جھلایا کہ ارمان تم اٹھاؤ بھی بکنے دو ایسے بہت سے بھونکا کرتے ہیں۔ غلام علی بھی جھنجلایا۔ اب کی ایک ایک جھڑپ ہو گئی وہ لپاڈکی کو تیار تھا۔ پھر شہریار دولہا بیچ میں کود پڑے اور کہا کہ ارمان کچھ عجب طرح کے آدمی ہو۔ بڑے ہت چھٹ اور جھگڑالو معلوم دیتے ہو۔ تمہیں برا معلوم دیتا ہے تو روپیہ کیوں نہیں دے دیتے۔ وہ بیچارہ نوکر آدمی صاحب مکان سے جا کر کہے گا۔ خوامخواہ کی تو تو میں میں کرتے ہو۔ نہ خود سے غیرت آتی ہے نہ سمجھائے کا اثر ہوتا ہے۔ اس تھکا فضیحتی سے کیا ہو گا۔ نہ وہ طرح دے سکتا ہے نہ اس کی اختیاری بات ہے۔ بے لیے تو وہ نہیں ٹلے گا۔ اسی چوکسی کا نوکر ہے۔ تم روپیہ کے عوض اپنی آبرو بےکار بھینٹ دیتے ہو۔ کڑک بانکے نہ بنو۔ تیہا نہ دکھاؤ۔ سیدھی طرح سے
کہو ہاں کیا کہتے ہو۔ روپیہ نہ دو گے جب ایک سے دو ہوئے اس وقت وہ سٹپٹایا۔ اندر گیا۔ ماں سے کہا۔ آخر انہوں نے روپیہ دیا۔ بھائی شہریار دولہا وہ روپیہ لے کر گھر میں آئے اور ساری حقیقت بیان کی۔ غلام علی وہیں ڈٹا بیٹھا رہا۔ جب سب اسباب اٹھا گیا۔ گھر میں پہونچا۔ کھڑکی کھولی۔ دولت کو آواز دی۔ مکان کو جھاڑا، کوڑا کرکٹ پھینکا، دروازہ بند کرایا، پھر ڈیوڑھی پر آیا۔ عابدہ مکان خالی ہونے کی خبر سنتے ہی پھر ادھر گئیں۔ دل شیشے میں لگا تھا۔ چور خانے سے اسے لے کر میرے پاس آئیں۔ میں جو دیکھتی ہوں تو رومال میر صاحب کا ہے۔ کسی ضرورت سے دولت دروازے پر گئی۔ غلام علی کو دیکھا کہ بیٹھا ہوا زڑ مار رہا ہے۔ پوچھا پردےکے پاس آ کر کہا کہ بوا دولت انہوں نے تو میاں کے ساتھ اپنی لڑکی بیاہنے کی تدبیر کی تھی۔ ایک کٹنی ان کے ہاں آتی جاتی تھی جو پہلے دعا تعویذ کے بہانے گھسی پھر نسبت کا پیام دیا۔ خوب ہوا اٹھ گئے۔ بڑے پاجی معلوم ہوتے ہیں۔ اس نے آ کر مجھے خبر دی۔ یہ سنتے ہی دل پر ایک چوت لگی اور بےتردد یقین آ گیا۔ کہ آہاہا یہی باتیں اس دن عابدہ نے سنی تھیں۔ اسی سے میر صاحب نے گاؤں پر جانا چھوڑا۔ اب کہیے، آج ھال کھلا۔ کچھ دیر میں نے سکوت کیا تھا کہ ساتھ ہی اپنے تئیں پھر سنبھالا اور یہ خیال گذرا کہ جو حق بچوں کا ہے اسے بچانا چاہیے۔ میں نے ساجدہ بیگم سے کہا کہ بہن تمہارے بھائی تو خوشی خواہاں ہیں یا مہینوں گاؤں پر رہتے ہیں یا مہینوں نہیں
جاتے۔ تم اپنے میاں کو بھیج دو تو اچھا ہے۔ وہ راضی ہوئیں۔ میر صاحب اب رات کو بارہ بجے آنے لگے۔ آئے اور باہر سو رہے۔ نہ گھر سے کام نہ مجھ سے۔ دوسرے دن میں نے سب مکانوں کے کاغذ نکال کر ایک مکان اپنی لڑکیوں کو دیا اور شہریار دولہا سے کہا کہ بھائی ایسا کاغذ کرا دو کہ بعد میرے کچھ جھگڑا فساد نہ ہو اور جاتی زندگی کا کچھ اعتبار نہیں اور گاؤں کے کاغذ میں ان سب کے نام لکھ کر برابر کی تقسیم کر دو۔ انہوں نے کاغذ لکھا ۔ ایک ہفتہ کو میر صاحب نے عقد کیا، دوسرے کو یہ کاغذ لکھے گئے۔ فقط بڑا مکان جو محل سرا کے نام سے مشہور تھا وہ رہ گیا۔ جب شہریار دولہا کاغذ لکھ چکے تو بھائی سے ذکر کیا۔ انہوں نے کہا کہ شاید یہ صلاح آپ نے دی ہے۔ شہریار دولہا ۔ جی نہیں میں نے تو نہیں صلاح دی۔ ہاں آپ کی بہن نے دی ہے۔ کہا خیر کوئی ہو اچھی بات ہے۔ انہوں نے کہا تو آج آپ کو بھی ٹھہرنا ہو گا۔ رجسٹری ہو گی۔ کہا بہتر۔ لیجیے سہ پہر کو پخت و پز سے کاغذ ہو گیا۔ سب جمع ہیں کہ جمیل النسا کا بھائی آیا اور سب حال دیکھ بھال کے گھر گیا۔ ساری کیفیت بیان کر کے کہا کہ آج وہاں مکانوں کی لکھا پڑھی ہو رہی ہے۔ جمیل النسا کا تو دم نکل گیا کہ ہے ہے یہ کیا ہوا۔ جب تک میر صاحب جائیں جائیں انہوں نے اپنے تئیں گھونٹ گھونٹ کے رکھا۔ ان کا جانا تھا کہ وہ دن بھر نہ آنے کا چھدا رکھ کے ابل پڑیں (یہ آٹھ روز کی دلہن تھیں) ماں بیٹیوں نے مل کر وہ وہ تانسا
کہ بھاگتے رستہ نہ ملا۔ میر صاحب کو تو کم رغبتی اس سے ہوئی کہ نہ وہ پری نکلیں، نہ حور۔ آدمی کا بچہ تھیں۔ جوانی تھی تو وہ کے گھڑی کی۔ بیگم صاحب کو کچھ اپنی غلط تجویز پر غصہ کچھ ان مکانوں کا حال سن کے جزبہ کچھ غلام علی کے تقاضے اور زیادتی کا رنج۔ آخر کریدنیاں کر کر کے انہوں نے میر صاحب سے قبلوا کر چھوڑا کہ بیگم کی جائداد تھی انہوں نے اپنے بچوں کے نام گاؤں اور مکان لکھ دئیے۔ یہ سنتے ہی ان کے چہرے پر ہوائیاں اڑنے لگیں اور اسی وقت سے ممولا کی تلاش ہوئی۔ جب وہ پکڑ آئیں تو ان سے رو رو کر اپنے حال کا مرثیہ کہا۔ وہ اتھی ہوئی میر صاحب کے پاس گئیں اور ادھر ادھر کے جھانسے بتے دے کر اس بات پر راضی کیا کہ تم بڑا مکان لکھ دینے کا قول دو اور کچھ تنخواہ کرو۔ میر صاحب نے اپنے دس روپیہ کا نام لیا۔ ممولا چیخیں چلائیں۔ انہوں نے پندرہ کر دیے۔ پھر اچھلیں کودیں۔ بیس کیے۔ ہوتے ہوتے تیس روپیہ تک نوبت پہونچی۔ بی ممولا نے اور ہاتھ پاؤں پھیلانا چاہے تھے کہ انہوں نے قسم کھائی۔ ممولا چپ ہو رہیں۔ پھر کہا کہ اچھا دس روپیہ اپنے کھانے اور ماما کے اور بڑھا دو نہیں بہت برا ہو گا۔ میر صاحب دھمکی میں آ گئے اور وعدہ کر لیا۔ پندرہ کے مالک تو تھے ہی سات روپیہ کرایہ مکان کے آتے تھے۔ اٹھارہ کی یہ فکر کی کہ کہار اور خدمتگار چھڑا دوں۔ آخر میرے لیے نوکر ہیں۔ اول نوکر میں بیگم ہر طرح سے تنخواہ دیں گی۔ میں سوار ہو کر نکلوں چاہے جوتیاں چٹخاتا پھروں۔ بی ممولا نے ان سے کہا وہ ناک بھوں سکیڑ کر رہ گئیں
یہاں تو چو طرفہ سے سمیٹ کر چالیس کی بھرتی کی گئی وہاں خطرے میں بھی نہ آیا۔ خیر اس روز میر صاحب کو آنا نہ ملا۔ دوسرے روز پھر قید کیے گئے۔ پیر کو بڑی خرابی سے تھوڑی دیر کی رخصت ملی۔ ہنوز وہ نہیں آئے ہیں کہ رحمت آئیں۔ بندگی کر کے میری اور لڑکیوں کی بلائیں لیں پھر سیدھی اناج والی کوٹھری میں چلی گئیں۔ وہاں سے ایک مٹکی لے کر تختوں کے پاس آئیں اور روپیہ نکال کر میرے آگے رکھ کر کہا کہ ان کے ہو لوں میں۔ میری نیند بھوک اڑ گئی تھی۔ لڑکی کا مرنا رنج سب بھول گئی۔ آپ میں جان لگی تھی اور ان روپیوں میں دھیان ذرا الگ چلیے تو ان کی کہانی کہوں۔ میں نے کہا کہ یہاں کون غیر ہے تم کہو۔ وہ ساجدہ بیگم کی طرف دیکھ کر چپ ہو رہیں۔ انہوں نے اٹھنے کا قصد کیا میں نے ہاتھ پکڑ کر بٹھا لیا اور رحمت سے کہا کہ ان سے پردہ کیسا۔ رحمت نے ساری روداد بیان کی۔ ساجدہ بیگم کی تو رنگت اڑ گئی اور عابدہ صابرہ نے رونا شروع کیا۔ اتنے میں شہریار دولہا آئے۔ اب تو ساری باتیں آئینہ ہو گئیں۔ میں نے عابدہ اور صابرہ کو قسمیں دے کر گلے سےلگایا، آنسو پونچھے، تتو تھمبو کر کے ایک ایک کو روکا تھاما ہے کہ میر صاحب تشریف لائے۔ ساجدہ بیگم پٹ سے بول اٹھیں کہ بھائی صاحب آپ کہاں تھے سارے گھر کو تشویش رہی۔ کہہ جایا کیجیے۔ وہ کچھ ہاں ہوں کر کے رہ گئے۔ باہر سے کہاروں اور خدمتگاروں کو موقوف کرتے ہوئے آئے تھے
تنخواہ ان کی مجھ سے ملتی تھی۔ جب وہ برطرف ہوئے تو سلام بندگی انہوں نے کہلوا بھیجا اور کہا کہ سرکار سے کہو ہماری خطائیں بخش دیں۔ محمد خانم نے پیام دیا۔ میں لا علم تھی پوچھا ارے کس نے چھڑیا، کیوں جاتے ہیں۔ وہ پھر دوڑی گئیں کہا ابھی جانا نہیں، ٹھہر جاؤ۔ سرکار پوچھتی ہیں کس کے حکم سے جاتے ہو۔ انہوں نے بیان کیا۔ محمد خانم نے مجھ سے کہا۔ اس وقت مجھ کو کوئی چارہ نہ ہوا۔ میر صاحب سے سبب پوچھا، گریبان میں منہ ڈال کے چپ ہو رہے۔ جب دوبارہ میں نے کہا تو فرمایا مجھے پندرہ روپیہ مہینے کی ضرورت ہے اس لیے میں نے یہ تخفیف کی۔ شہریار دولہا نے ضرورت کو پوچھا۔ میں نے کہا خیر ہو گی۔ اس سے کیا مطلب۔ ،لیکن خدا نہ کرے ایسی تنگی ترشی بھی نہیں ہے کہ دس بیس روپیہ مہینے میں نہ ہو سکیں۔ پھر تمہارے لیے تم ان کو موقوف نہ کرو۔ ایک تو ڈیوڑھی کی رونق، دوسرے بےسواری کے تمہارا کہیں آنا جانا نامناسب ہے۔ ان سے کہلوا بھیجا کہ وہ نہ جائیں۔ یہ سن کر محمد خانم ادھر گئیں اور انہیں بحال و برقرار رہنے کا حکم سنایا۔ شہریار دولہا نے پھر پوچھا کہ خیر تو ہے کہ آخر دو روز آپ کہاں رہے۔ بھابھی صاحب کہتی تھیں کہ مدت بعد آپ نے پیٹ سے پاؤں نکالے ہیں۔ یہ کیا بات ہے۔ میں نے کہا تم چاہتے ہو ابھی بھانڈہ پھوٹ جائے۔ یہی ہے تو سنو ہاں صاحب یہ بی ممولا سیدانی کون صاحب ہیں۔ میں نے سنا ہے کہ بڑی صاحب کمال
ہیں۔ ذرا انہیں بلواؤ تو میں بھی دہنا قدم لوں۔ یہ کیسی سیدانی ہیں جن کے ایمان کا ٹھکانا نہیں۔ بری بوڑھی ہو کر یہ ہتکنڈے۔ سو روپیہ تم نے ان کو دیے اور انہوں نے شیشے میں آسیب اتارا۔ تمہاری سمجھ میں نہ آیا کہ یہ مکاری اور جعلسازی ہے۔ پڑھا لکھا آدمی ہو کر ایسا ناسمجھ اور نادان بن جائے۔ میں نےمردوؤں کو چھوچھکے کا مقلد نہیں دیکھا تھا، عورتیں البتہ ضعیف الاعتقاد ہیں۔ ذرا میں پھسل جاتی پڑتی ہیں۔ نہ عقل سے کام لیا نہ سونچے سمجھے۔ بھوت پریت جن آسیب کیسا بے اصل بات کو سننا ہی کیا ضرور تھا۔ کھاری کنوئیں میں روپیہ پھینک دیتے، خیرات کر دیتے وہ اچھا تھا۔ تُہکو نہ مُہکو لے چولہے میں جھونکو۔ میرا روپیہ ایسی دیسیوں اور مرداروں کے لیے تھوڑی تھا کہ تم نے اس بلا کو دے دیا۔ لے ذرا اس کی کرتوت دیکھو۔ ارے وہ شیشہ تو اٹھا لانا رومال پہنچوا کر میں نے کہا لیجیے یہ وہی جن ہے جو سو روپیہ خرچ کر کے آپ نے بند کرایا تھا۔ یہ تونّدی کے اس پار گاڑا گیا تھا۔ یہاں کیونکر آیا۔ اب آیا ہے تو کیوں بند رہے۔ لاؤ میں اسے آزاد کر دوں۔ خیر کیا یاد کرے گا یہ کہہ کر میں نے اسے انگنائی میں پھینک دیا۔ پانی جو بہا شہریار دولہا ہنس کر کہنے لگے کہ ہائیں یہ جن تھا کہ برف کا ٹکڑا۔ لیجیے وہ تو گھل کر بہہ گیا۔ میں نے ہنس کر کہا کہ جی ہاں یہ آبی جن تھا، تم نے آتشی سنے ہوں گے۔ اس کو بھی دیکھ رکھو۔ یہ کہہ کر م یں نے رحمت کو آواز دی۔ میرے حکم سے اس نے ساری روداد بیان کی۔ پھر میں نے وہ روپیہ
منگا کر رکھے۔ میر صاحب بولے کہ رحمت اب تمہیں ہوش آیا۔ پہلے تو وہ فطرت کی اور پھر یہ غفلت دکھائی۔ اس نے کہا کہ دولہا میاں خدا کی قسم مجھے وقت نہ ملا، مجبور ہو گئی۔ فرمایا کہ پھر اب کیا ہوتا ہے (مشتیکہ بعد از جنگ یاد آید برکلۂ خود باید زد) جو ہونا تھا ہو چکا۔ ساجدہ بیگم تڑپ کر بولیں کہ کیا ہو چکا۔ کہا کہ نکاح، شادی بیاہ۔ یہ سنتے ہی سب چاؤں چاؤں کرنے لگے۔ میں نے ہاتھ سے سب کو روک کر کہا کہ خدا مبارک کرے۔ جو برا مانے اس سے کہو ہم تمہاری راحت اور خوشی کے شریک ہیں۔ لے اب تو کھل گیا۔ چھپانا لا حاسل ہے۔ بیان تو کرو کیونکر ہوا، کس سے ہوا۔ میر صاحب نے از ابتدا تا انتہا ساری سرگذشت بیان کی۔ میں نے کہا اس کا تو غم نہیں کہ کیوں ہوا مگر یہ ملال ضرور ہے کہ تم نے ہمیں دشمن سمجھ کر چھپایا۔ اگر ہم پر پہلے ہی ممولا کا آنا جتا دیتے تو دھوکا نہ کھاتے۔ اب بھی کچھ نہیں گیا ہے۔ جو ہونا تھا بقول تمہارے ہو گیا۔ بیوی کو یہاں لے آؤ۔ الگ رہنے میں ممولا کا ساتھ نہ چھٹے گا۔ اور وہ بلائے بےدرماں ہے۔ بیوی تمہاری لالچی ہیں۔ گاؤں مکان، روپیہ پیسہ دیکھ کر گری ہیں۔ یہ بات گویا کہ میں اپنے کانوں سے سنی ہوئی کہتی ہوں۔ اگر وہاں بٹھا کر سو روپیہ مہینہ بھی دو گے تو نظروں میں نہ سمائے گا۔ دوسرے نام انہیں لوگوں کا ہو گا۔ چالیس پچاس روپیہ کی تو کوئی اصل نہیں۔ ایک دفعہ فقرے پر چڑھ چکے ہو دوبارہ نہ فریب کھا جاؤ۔ مجھے نہ اپنا خیال ہے نہ سوتاپے کا ملال۔ مگر جو کچھ میرے
پاس گزرگوں کا صدقہ ہے یہ عابدہ اور تمہاری سب لڑکیوں کا ہے۔ ایسا نہ ہو کہ وہ آفت روزگار تمہیں پھانس پھونس کر میرے بچوں کی حق تلفی کرائے اور تم دم دھاگے میں آ جاؤ۔ یہاں لے آنے میں نہ کسی کو بہکانے کا موقع ملے گا نہ دو عملے میں تمہارا آشیاں ہو گا، نہ مجھے اپنے بچوں کے خیال سے بے چینی رہے گی۔ آئندہ تمہیں اختیار ہے۔ مجھے بڑا کھٹکا اپنے بچوں کا ہے۔ خدا رکھے وارث ہم سب کے تم ٹھہرے۔ تمہیں جب بگڑ جاؤ گے، بھڑکانے سے دشمنی کرو گے تو دوست ہمارا کون ہو گا اور فریاد کس سے کریں گے، کون ہمارا مددگار ہو گا اور کون اس بیڑے کی ناخدائی کرے گا۔ میر صاحب نے سب سن کر قسم کھا کر کہا کہ بخدا لڑکیوں کا حق تو میں مٹانے والے پر لعنت کرتا ہوں۔ ایک ممولا نہیں ہزار ممولائیں کہیں، اب رہا تنخواہ کا دینا وہ چالیس روپے میں کہہ چکا ہوں۔ میں نے کہا اب پچاس کہہ دو مگر اس شرط سے کہ یہاں آ کر رہیں۔ میری اس بات کو سونچو سمجھو، صلاح مشورہ کرو۔ تمہاری بہن بہنوئی ہیں، ان سے پوچھو گچھو۔ جو اپنے حق میں بہتر دیکھو، کرو۔ نہیں جانے دو۔ میں نے یہ بات منہ دیکھے کی محبت سے کہی ہے نہ دنیا داری سے بلکہ تمہاری اور ان بچوں کی بہتری کے لیے۔ نانا دادا باپ ان سب نے کئی محل اور بیبیاں کیں۔ میں نے انہیں بزرگوں کی جائداد پائی، ترکہ لیا۔ یہ بات بھی اسی ترکے میں ملنا چاہیے تھی۔ اور اگر ایسا نہ بھی
ہوتا تو بھی میرا کیا زور تھا۔ تمہاری کوئی اتالیق تو ہوں نہیں۔ ہر شخص اپنی مصلحت کو نیک جانتا ہے اور جو کرتا ہے اپنے نزدیک اچھا کرتا ہے۔ اگر تم یہ خیال کرو کہ وہ کیا منہ لے کر آئیں گی تو یہ تمہارا خیال ہی خیال ہے۔ اگر میرا ان کو پاس و لحاظ ہوتا تو وہ ایسی جرأت نہ کرتیں۔ جب بہنا پا کر کے انہوں نے سوتاپا کیا تو منہ دکھانے کو کیا ہوا۔ تم الگ تھلگ رہو۔ میں جاؤں مل جل کر مہمان بلاؤں اور پھر یہاں بٹھا رکھوں۔ سب نے ہاں ہاں کی۔ میر صاحب بھی راضی ہوئے۔ دوسرے دن صبح کو میں وہاں پہونچی اور اسی طریقے اور قاعدے سے مل کر بے ملے جلے چلے آنے کا شکوہ کیا۔ سب کے سب جھیپے جھیپے ملے۔ تین بہر رہ کر میں انہیں ساتھ لے کر سوار ہوئی تو دس بجے رات تک تو وہ میرے گھر میں میرے اور ساجدہ بیگم کے پاس بیٹھی رہیں۔ جب سونے کا وقت آیا تو میں نے ان کا ہاتھ پکڑا اور جہاں ان کے لیے آرام کی جگہ بنائی تھی، وہاں لے کر آئی۔ میر صاحب کو دیکھ کر کچھ کنمنائیں، سٹ پٹائیں۔ جی نہیں آپ کہاں لے آئیں، نیچے سُر میں کہا کیں۔ میں نے سماعت نہ کی۔ ایک کا ہاتھ پکڑ کے دوسرے کے ہاتھ میں دے دیا اور پلنگ پر بٹھا کر میں چلی آئی۔ وہاں نہیں معلوم گلے شکوے ہوئے کہ ہنسی دل لگی۔ صبح کو جب سب پھر اکٹھا ہوئے تو میں نے جمیل النسا کو گلے سے لگا کر کہاکہ بیوی تمہارے شرمانے کی کیا بات ہے۔ خدا نہ کرے آنکھ لگا کے غیرت گنوا کے نہیں آئیں۔ جھیپو کیوں۔ ماں باپ نے
جس کے ساتھ چاہا بیاہ دیا۔ تمہارے سر کی اور صابرہ کی جان کی قسم، مجھے نہ تم سے رنج ہے نہ تمہارے میر صاحب سے۔ اپنا گھر سمجھ کر ہنسی خوشی رہو۔ یہ کھسیانا پن کیسا۔ اس سے تو وہی وقت اچھا تھا کہ پہلے تم اپنا گھر سمجھ کر ہر کام میں لگ جاتی تھیں۔ جب اتفاق سے سچ مچ کا گھر ہوا تو کنارہ کر بیٹھیں۔ ہنسو، بولو، چلو، پھرو اپنے گھر کا کام کاج کرو۔ یہ ندامت اور خفت کیسی۔ کچھ انوکھی تمہیں نہیں ہو، سیکڑوں لڑکیاں بیبیوں پر بیاہ گئی ہیں۔ روز یوں ہی سمجھا کر ان کو دھیرا کیا۔ وہاں تو جو کچھ تھا بناوٹ کا تھا۔ لیکن مجھے سکوت نہ کرنا چاہیے تھا اس لیے ان کودو چار روز میں کھینچ کھانچ کر قدیمی انداز پر لے آئی۔ کئی دفعہ ان کے گھر سے آدمی آیا، پھیر دیا گیا۔ آٹھویں روز میں نے ان کو ہمیشہ کے لیے رہنے کا پیام دیا اور ساتھ ہی اس کے پچاس روپیہ کا لالچ بھی دیا۔ سن کر پی گئیں۔ پھر کہہ کر میں نے ان سے جواب مانگا۔ کہا کہ میں اماں جان سے پوچھ لوں۔ میں نے کہا تعجب ہے کہ اماں جان تمہاری نفع کی بات کو نہ منظور کریں۔ کھانا کپڑا میرے ساتھ، پچاس روپیہ اس کے علاوہ لو، جو جی چاہے وہ کرو، چاہے گہنا بناؤ، چاہے لٹاؤ۔ انہوں نے پھر وہی جواب دیا۔ میں نے کہا کہ دیکھو بہن تم نہیں سمھتی ہو اس میں تمہارا سب طرح کا نفع ہے۔ تھوڑے دن میں ان شاءاللہ سر سے پاؤں تک سونے میں پیلی، موتیوں میں سفید ہو جاؤ گی اور وہاں رہنے میں تمہارے پلے کچھ نہ پڑے گا۔ پچاس روپیہ پچاس راہ ہو جائیں گے
جھوٹا کھاتے ہیں، میٹھے کے لیے سوتاپے کی جلن گوارا کرو، نرم گرم اٹھاؤ، دہری تہری اطاعت کرو اور بےکار دس روپیہ ان کو بھیج دو گی تو بھی چالیس روپیہ بچیں گے۔ پانچ سو روپیہ سال میں جو کچھ کم ہو گا وہ بھی میں دوں گی۔ انہوں نے پھر نہیں کہا۔ میں نے گلے سے لگا کر بلائیں لے کر ہاتھ جوڑے، منت کی، پیار کیا۔ اس وقت یہ کہا کہ ہم آپ سے کیوں لیں۔ میں نے کہا کہ مجھ سے اور ان سے کیسا۔ جو کچھ ہے سب ہی کا تو ہے۔ جیسے میرا ویسے ان کا ویسے ہی تمہارا۔ کہا کہ ہاں کوئی آپ سا دل کہاں سے لائے۔ ہم تو ان سے لین دار ہیں۔ میں نے کہا اے وہی تو دیں گے اور نہیں کیا میں دوں گی۔ میں کہاں سے لاؤں گی۔ جو کچھ ہے انہیں کا ہے۔کہا ان کا ہے تو ہمیں وہاں دیں۔ یہاں تو ہزار روپیہ بھی ہم نہ لیں گے۔ میر صاحب بھی سن رہے تھے۔ سنتے سنتے جل گئے اور کہا کہ بس بیگم اب کچھ نہ کہو۔ وہیں بیٹھ کر لینے دو۔ دیکھیں تو کیونکر لیتی ہیں۔ میں نے ان کو روکا کہ تمہارا بیچ نہ تم سے مطلب۔ تم بےواسطے کیوں غصہ کرتے ہو۔ میں ان سے کہتی ہوں وہ مجھے جواب دیتی ہیں۔ تمہیں خدا واسطے غصہ آ گیا۔ یہ کہہ کر میں ادھر مڑی اور کہا کہ تم اس کا سوچ سمجھ کر جواب دینا۔ کہا کہ جی بس سوچ چکی۔ جیسا کیا ویسا پایا۔ اب مجھے رخصت کیجیے۔ میرا دل گھبراتا ہے اور دم الجھتا ہے۔ میں نے کہا کہ میں تمہیں رخصت کرنے کو تھوڑی لائی ہوں کہ چار روز بعد چلتا دھندا کرو۔ بلکہ اس لیے لائی ہوں کہ گھر کی مالک بنو۔ ان بچوں کو اپنا بچہ
سمجھو، مجھ کو اور عابدہ کو اپنی بہن جانو، کبھی کبھار کھڑی سواری گھر بھی چلی جایا کرنا۔ کہا تو کیا آپ نے قید کرنے کو بلایا ہے۔ میں نے دیکھا کہ اس وقت ان کا مزاج ہاتھ سے نکل چلا ہے۔ کچھ کہنا سننا بےفائدہ ہے۔ پھر کسی وقت دیکھا جائے گا۔ طرح دے کر اٹھ گئی اور وہ گردن جھکائے بڑی دیر تک افسوس میں وہیں بیٹھی رہیں۔ پھر کچھ سوچ کر اٹھیں اور کہا کہ اجی جناب میر صاحب ذرا ڈولی کو حکم دیجیے کہ لونڈی اپنے گھر چلی جائے۔ بس سرفراز ہو چکی، خوب پھل پائے، نہال ہوئی۔ وہ چپ بیٹھے کتاب دیکھا کیے، کچھ جواب نہ دیا۔ اپنے نزدیک انہوں نے غصے کو ٹالا۔ وہاں اس خیال سے اور غصہ آیا کہ انہوں نے ہماری بات سن کر اڑا دی۔ دوڑی ہوئی گئیں اور دونوں ہاتھوں سے سر پکڑ کر اونچا کیا اور کان میں زور سے کہا کہ اجی حضرت میں آپ سے کہتی ہوں۔ اب بھی سنا کہ نہیں۔ انہیں یہ حرکت خلاف طبع گذری اور زور سے ہاتھ پکڑ کر ایک جھٹکا دیا پھر اپنا منہ چھڑا کر کہا کہ عجب بےہودہ اور نالائق ہو۔ یہ کون سا بات کا انداز ہے۔ کہا کہ جی بہت بجا ہے۔ بے ہُودہ تو آپ اور آپ کی بی گھر بسی ہیں جن کی روٹیوں پر آپ پلتے ہیں اور جو آپ کا کیا نباہتی ہیں۔ دن کی اماں جان۔ یہ سننا تھا کہ وہ تھر تھر کانپنے لگے اور بہن کو آواز دی کہ للہ اس ملعونہ شقیہ کو میرے سامنے سے دور کرو نہیں تو میں ایک منہ کے چار منہ کر دوں گا۔ وہ دوڑیں اور جلدی
سے دونوں کے بیچ میں کھڑی ہو گئیں۔ ان سے کہا کہ میرے بھیا آپ باہر چلے جائیے۔ عابدہ نے سن کر مجھے خبر دی۔ میں دوری گئی اور ہم دونوں نند بھاوجیں مل کر ان کو دالان سے باہر لے آئے۔ عابدہ اور صابرہ نے کہا کہ کوئی باہر آیا ہے۔ ان کو اس بہانے سے ادھر ٹالا۔ جمیل النسا نے چہکوں پہکوں رونا شروع کیا اور اسی میں میرے منع کرنے اور سمجھانے پر خفا ہوئیں۔ ہاتھ جھٹکا، دو ہتڑ مارا۔ اسی افراتفری میں ان کی اماں جان کی ڈولی نازل ہوئی۔ میر صاحب نے باہر ہی باہر روکا اور غلام علی سے کہا کہ رحمت کو بلا کر کہو کہ جلدی اس بلا کو گھر سے نکالو اور خبردار ڈولی نہ اترنے پائے ورنہ مجھ سے برا کوئی نہیں۔ انہوں نے جو یہ سنا، پردہ الٹ چلچلاتی ہوئی نکلیں اور گھر میں گھسیں۔ پھر تو ماں بیٹیوں نے مل کر وہ اُدھم مچایا ہے کہ خدا کی پناہ۔ کوئی دقیقہ لڑائی جھگڑے کا اٹھا نہ رکھا۔ گالیوں کی بوچھار اور کوسنوں کی بھرمار کر دی۔ سب ٹل ٹل گئے۔ میں اور رحمت بیٹھی رہ گئی۔ دروازہ بند کروا دیا تھا کہ کہیں میر صاحب یہ پیاز کے چھلکے ادھیڑتے نہ دیکھ لیں۔ سننے کا کوئی علاج نہ کر سکی۔ منع کرتی تو وہ دونوں مل کر مجھے مارتیں۔ میر صاحب باہر ٹہل رہے تھے۔ اس ہنگامہ کی صدا سنتے ہی ڈیوڑھی میں آئے اور دروازہ دھب دھپایا۔ پھر چلائے، چیخے۔ رحمت نے سنا، وہ گئی، قسمیں وسمیں دے کر انہوں نے دروازہ کھلوا لیا اور مجھے قریب بلا کر کہا سب کو
لے کر کمرے میں چلی جاؤ۔ جلدی جاؤ۔ خبردار جو یہاں ٹھہریں۔ خود باہر جا کر تینوں آدمیوں اور پانچوں کہاروں کو حکم دیا کہ اندر گھس کر ان بلاؤں کو باہر پکڑ لاؤ اور اندر سے پھاٹک بند کرا دو۔ آدمی گھس آئے اور غلام علی نے ان پر اپنا چادرا ڈال کر دونوں کو ایک میں چھپا لیا اور لپیٹ لپاٹ کھینچ کھانچ ایک ڈولی میں ٹھونس دیا۔ پردہ چھوڑ کر اپنا چادرا کھینچا۔ کہاروں کو آواز دی۔ وہ پردہ الٹ کے پھر نکلی پڑتی تھیں کہ غلام علی نے دوڑ کر باند کی ڈوری سے چوبندی کس دی۔ ڈولی ادھر گئی، میر صاحب گھر میں آئے۔ ہم سب باہر نکلے۔ گو یہ حرکت میر صاحب کی میرے خلاف طبع گذری مگر کچھ کہنا نامناسب سمجھ کر سکوت کیا۔ دیر تک سناٹا رہا اور ایک دوسرے سے نہ بولا۔ میں نے اپنے دل سے اتنی دیر میں جو باتیں کیں وہ یہ ہیں کہ افسوس ان نیک بخت بیوی نے کیا بےجا غصہ کر کے اپنا کام بگاڑا ہے۔ پہلے ہی سوچ سمجھ لیا ہوتا۔ میں نے تو کوئی دقیقہ اٹھا نہیں رکھا۔ ان کو ہر ایک بات بری ہی معلوم ہوئی۔ اب کیونکر اصلاح ہو گی۔ اس وقت تو غصہ آ گیا کل اپنی اپنی جگہ پر دونوں کو ندامت ہو گی۔ میں نے کچھ چاہا تھا اور ان کی زبان اور طبیعت نے کچھ کر دکھایا۔ اپنی آنکھوں کی قسم جو میں نے کسی اور وجہ سے ان کے یہاں رہنے کو تجویز کیا ہو۔ خدا بہتر جانتا ہے جو میرا ارادہ تھا۔ ہائے افسوس کہ وہ ناتمام رہا۔ کیا کروں جو
دونوں پھر ایک جگہ ہوں۔ کہیں وہ اپنے دل میں یہ نہ سمجھیں کہ انہوں نے اپنے گھر لے جا کر مجھے ذلیل کرایا۔ اے پاک پروردگار تو خوب واقف ہے کہ میرے دل میں بدی نہ تھی۔ انہوں نے آپ اپنا کھیل بگاڑا۔ درحقیقت دونوں کو بےطور غصہ آ گیا ہے جس کا علاج دشوار ہے۔ میں تو یوں بھی موجود ہوں کہ وہ پچاس روپیہ مہینہ مجھے دیا کریں۔ باقی سارا گھر آپ لیں۔ اگر ان کو میرا ساتھ نہ منظور ہو گا تو میں دوسرے مکان میں چلی جاؤں گی۔ ان کی خوشی مجھے ہر طرح منظور ہے۔ ایک بات کی ہے تو انجام تک پہونچائیں۔ جھوٹا کھاتے ہیں میٹھے کے لیے اس کا بھی سامان کیے دیتی ہوں۔ کنبے میں بڑی بدنامی اور رسوائی ہو گی۔ ایک تو جان بوجھ کے مکھیوں کے چھتے کو چھیڑا۔ جب شہد نکلنے کا وقت آیا تو ہاتھ کھینچا۔ ہائے کیونکر ان کے دل میں اپنا دل ڈالوں۔ میں اپنے دل سے یہ کہہ رہی ہوں اور طبیعت نہایت پریشان ہے کہ بھائی شہریار دولہا آئے۔ سب کو منتشر اور بدحواس دیکھ کر بیوی سے پوچھا ساجدہ بیگم نے سب حال دہرایا مگر چپکے چپکے۔ ایک دفعہ میر صاحب نے سر اٹھا کر اپنے بہنوئی سے کہا کہ بھئی آج عجب طرح کی واردات گذری۔ اول سے آخر تک سنا کر کہا کہ بھائی میں تو اب وہاں جاؤں گا نہیں تم کسی طرح سے جا کر ان لوگوں سے میرا چھٹکارا کرا دو بڑا احسان ہو گا۔ اپنا مہر لیں، میرا پیچھا چھوڑ دیں۔ بلا سے کچھ روپیہ زیادہ اٹھ جائے
ریختہ صفحہ 121
اسی کا بندہ۔ جس طرح لونڈی غلام پر اس کے آقا اقر مالک کو ہر طرح کا اختیار ہوتا ہے۔ اسی طرح ہم لونڈی غلام جس کے ہیں۔ اس کو ہر طرح کا اختیار ہے چاہے چھوڑے چاہے مارے جو اس کی مشیت میں آئے۔وہی بہتر ہے۔جب موت بمصالح ہر انسان کے حق میں ایک ایسی اکسیر ہے جسے وہ خود مصیبت و رنج و تکلیف و بلا وغیرہ کے وقتوں میں اپنے منہ سے آپ زندگی بھر میں ہزار بار مانگتا ہے پھر زہر کیا ہو گیا جو بے مانگے اس نے دے دی ۔ یہ سمجھنا کہ ہم نے کب مانگی اور ملی کب یہ بالکل حماقت ہے۔ تم کون اور تمہارا اجارہ کیا۔ جب وقت آیا جب مناسب جانا جب دی۔ آب حیات پی کر جو لوگ ایڑیاں رگڑ رہے ہیں اس موت کا مرتبہ ان کے دل سے پوچھو آج اگر کسی کی آئی ہوئی ہاتھ لگ جائے تو جان دے کر مول لینے کو موجود ہیں۔ اپنی چیز دینے نہ دینے کا جب ہر آدمی کو اختیار دیا گیا ہے اور وہ بھی اصل میں اس کی نہیں ہے تو پھر خدا تو مالک ہے خالق ہے مٹی کے دھوندے خاک کے پتلے کو اپنی قدرت اور صنعت کے زور سے طرح طرح کی خوبیاں اور رنگ بھر کر کیا سے کیا کر دکھاتا ہے ۔ عاقل انسان وہی ہے کہ اپنی ہستی اور حقیقت کو نہ بھولے۔ جوہر عقل اور جامہ ء انسانیت اس لئے نہیں دیا گیا ہے کہ آدمی جامے سے باہر ہو جائے۔ آنکھ کان ناک زبان دانت منہ ہاتھ پاؤں دل جگر معدہ پھیپھڑا رگ پٹھے دنیا کے کام نکلنے کی سب چیزیں کس مناسبت اور خوبی سے تال میل کے ساتھ اپنی اپنی جگہ پر بنا دی ہیں جن کی تعریف ہم تو کیا ہیں پیر پیمبر نہ کر سکے۔ ان کی قدر اس وقت ہوتی ہے جب کوئی آدمی ان میں ایک آدھ چیز کم یا زیادہ لے کر آگے آتا ہے۔ پانچ کی چھ انگلیاں ہوتے ہی چھنگن
ریختہ صفحہ 122
ہو جاتا ہے اور یہ بھی اس کی انتہائی حکمت کا فعل ہے کہ کبھی کبھار کسی نہ کسی کو ان چیزوں کی کمی و زیادتی سے عجیب الخلقت پیدا کر دیتا ہے تا کہ اندھے کو دیکھ کر آنکھیں کھلیں اور نکٹے چپٹے کو دیکھ کر اپنی ناک رکھ لیں۔ بڈھوں کو دیکھ کر بڑھاپا یاد کریں اور بچوں کو دیکھ کر رفتارِ عمر پر ہاتھ ملیں۔ حکمت کے علاوہ ایسی ہی ایسی باتوں اور صورتوں سے اس کی طاقت و قدرت کے نمونے ملتے ہیں کہ بنا اور بگڑا دونوں طرح کا بنا سکتا ہے۔ ہمیں جو عیب سے پاک اور بنا ہو بنایا نہ اس لئے کہ ہم اوروں پر ہنسیں بلکہ اس لئے کہ ڈریں اور شکر کریں۔ اگر لنگڑا لولا اندھا کوڑی بناتا تو کون اس سے کہنے جاتا۔ طاہرہ بیگم جب ہم ہمارا گوشت پوست جان روح اور سارا بدن اسی کی قدرت و طاقت کا بنایا ہوا ہے تو اسی ہی کو مٹانے کا بھی اختیار ہے۔ تمہیں بتاؤ کہ ہم میں ہماری ذاتی چیز کون سی ہے اور کہاں سے لائے ہیں۔ کس نے دی ہے۔ ہزار پھیر پھار ہوں پھر گھوم گھام کر جو کچھ ہے اسی کا ٹہرتا ہے نہ موروثی ہے نہ ذاتی۔ نہ اپنی خوشی سے ہم بنائے گئے نہ اپنی خوشی سے بگاڑے جائیں گے۔ نہ جب ہماری اجازت درکار تھی نہ اب ۔ خاک کے پتلے مٹی کے کھلونے جیسے تھے ویسے ہی ایک دن ہو جائیں گے ۔ آخر زندگی کب تک مزے مزے کی سب باتیں اچھی ہوتی ہیں ۔ جس طرح بچپنے سے جوانی اس کے بعد بڑھاپا آتا ہے اسی طرح بعد اس کے پیری کے پردے میں موت ہے۔ بے حلاوت زندگی کس کام کی ۔ طاقت روز بروز گھٹتی ہے۔ ایک ایک ؑضو برابر جواب دیتا چلا جاتا ہے۔ آج بال سفید ہوئے کل دانت گرے۔ پرسوں کمر میں خم آیا پھر لکڑی ڈھونڈتے پھرتے ہیں۔ پھر سوجھنا موقوف ہوا۔ ہل کے پانی نہیں پی سکتے۔ ہائے اور آہ پر تکیہ ہوا ۔ اٹھا جاتا ہے نہ چلا جاتا ہے۔ رفتہ رفتہ سارا بل تو
ریختہ صفحہ 123
نکل چکا۔ اب رشتہ ء حیات کیونکر نہ ٹوٹے۔شیطان کی آنت تو ہے نہیں طاہرہ بیگم یہ شرف و بزرگی خداوند عالم نے موت ہی کو عطا فرمائی ہے کہ بڑھاپے کے سو عیبوں کو ایک چادر میں چھپا دیتی ہے اور پھر کوئی دیکھ نہیں سکتا۔ اب رہا موت سے ڈرنا یہ بھی نا سمجھی کی بات ہے۔موت کچھ جوجو تو ہے نہیں جس سے ڈریں گے۔ ہاں یوں کہنا چاہئیے کہ اپنے گناہوں کی وجہ سے ڈرنا ہے کہ موت کے بہانے سے خدا کا سامنا ہونا ضرور اور گناہوں کی شرمندگی سے منہ دکھانے کی جراءت نہیں پڑتی۔ یہی سارا ڈر اور یہی ایک رونا ہے۔اس میں موت کا نام لینا سراسر بیکار ہے۔ موت تو احکم الحاکمین کا ایک پیادہ ہے مگر کڑا پیادہ جو کسی طرح کی منت خوشامد پر اعتنا نہیں کرتا ،ہزار کہو ایک نہیں سنتا۔پھر قصور وار گناہگار سرکار کا مال کھائے ہوئے اسامی پر جو شدت ہونا چاہئیے وہ تو ہو گی۔ موت کا کیا قصور۔ جیسی کرنی ویسی بھرنی۔ یہ باتیں سب جانتے ہیں اور جان بوجھ کے ننھے بنتے ہیں۔ لو بیوی اس وقت میں نے نہیں معلوم اپنی زڑ میں کیا بڑ ماری منہ خشک ہو گیا۔ اب بیٹھا نہیں جاتا۔ مجھے لٹا دو۔ میں نے جلدی سے اٹھ کر گاؤ تکیہ ہٹا لیا اور پیٹھ کا سہارا دے کر آہستہ سے لٹا دیا کہا بیوی مجھ پر چادر بھی ڈال دو۔اور تم اب نیچے جاؤ بڑی دیر سے یہاں بیٹھی ہو۔ شاید کوئی کام ہو۔ بیگم صاحب تو میری خاطر سے کبھی تم کو بلاتی نہیں ، چاہے خود کام کر لیں۔ یہ کہہ کر چپکے چپکے کچھ پڑھنے لگیں۔ میں اماں جان کے پاس گئی اور اعجوبہ سے کہا کہ بوا تم کوٹھے پر جاؤ۔ وہ فوراً اپنا گڑگودڑ لے کر استانی جی کی نماز والی چوکی پر ( جو ان کے پلنگ کے سرہانے بچھی تھی) جا بیٹھیں۔ میں وہاں کے کام دھندوں میں پھنسی اباجان نے فرمائش کی کہ طاہرہ بیگم دہی بڑے کھانے کو جی چاہتا ہے مگر تم خود پکاؤ اور میٹھے سلونے دونوں طرح کے ہوں۔ گو دن کم تھا
ریختہ صفحہ 124
لیکن ان کی خوشی کی وجہ سے مجھے اتنی دیر بھی گوارا نہ ہوئی کہ کسی کو بلواؤں اور دال نکلوا کر بھگواؤں ۔ خود گئی اور جلدی سےدال نکال کر بھگو کر دھوپ میں رکھ دی۔ دہی منگانے کے لئے آدمی بھیجا۔جب تک آدمی آئے میں اباجان کے پاس گئی اور وہ کاغذ لے کر دیکھنے لگے۔ ان باتوں کے علاوہ ایک کلمہ یہ بھی لکھا تھا کہ طاہرہ بیگم کے واسطے میں نے ایک چیز بنائی ہے اور وہ میری جا نماز میں رکھی ہے۔ یاد کر کے اس کو دے دیجئیے گا تا کہ میری بچی میرے بعد مجھے یاد کر کے بہت نہ کڑھے۔ اس کا رنج کرنا اچھا نہیں۔ اپنی محبت کی وجہ سے نہایت ہی اس وقت بیتاب ہو گی۔ وہ چیز اس کے دل ٹہرانے اور ملال برطرف کرنے کے لئے کافی ہو جائے گی۔ اگر پہلے سے دے دیجئیے گا تو نہایت مناسب ہے تا کہ اس کا اثر ہو لے۔ جب میری جدائی کی نوبت آئے۔ میں اس کاغذ کو پڑھ کر اس شے کی ایسی مشتاق ہوئی کہ اسی وقت اس کے لینے کو کوٹھے پر چلی۔ ادھر تو اباجان نے کہا کہ صاحبزادی تم کوٹھے پر نہ جاؤ تمہارے آنے کے لالے پڑ جاتے ہیں۔ اور ادھر باہر سے آدمی نے ( دہی لے جاؤ) کی صدا دی۔ میں جہاں تھی وہیں ٹھٹھک رہی۔فضیلت نے کہا کہ جب تک آپ تھوڑی دال چن کر دیجئیے گا وہ پسے گی باقی بھی دھو دی جائے گی۔ میں نے کہا اچھا لاؤ۔ وہ دال دھونے لگی اور میں اماں جان کے پاس جا کر بیٹھ گئی۔ انھوں نے کہا ابھی تو آئی تھیں کیا کچھ کام تھا جو پھر جاتی تھیں۔ میں نے کہا جی نہیں کام کاج تو نہ تھا اباجان کو آج استانی صاحبہ نے بلایا تھا (اماں جان) اے ہاں میں بھول بھی گئی۔ وہ آئے تو میں نے پوچھا تک نہیں کہ کیوں بلایا تھا۔ میں نے کہا کہ جی انھوں نے کچھ وصیتیں کی تھیں اور بھول جانے کے ڈر سے انھیں کاغذ پر
ریختہ صفحہ 125
بھی لکھ کر اباجان کو دے دیا تھا۔ وہ کاغذ میں نے ابھی یہاں آ کر دیکھا۔ اس سے معلوم ہوا کہ کوئی کاغذ میرے لئے اور بنایا ہے اور وہ جا ناماز میں ہے اسی کے دیکھنے کو جاتی تھی۔بیوی آج ماشاء اللہ دیر تک بیٹھیں۔ طاقت تو آئی نہیں بیٹھے ہی بیٹھے تھک گئیں۔ اب لیٹ رہی ہیں۔ میں نے بھی کہا اچھا ہے اگر کچھ دیر سو رہیں۔ مغرب کے وقت جگا دوں گی۔ اماں جان نے کہا کہ ہاں بیماری اور پھر بڑھاپے کی بیماری، مہینوں میں طاقت آئے گی۔ تمہیں اگر کاغذ کا اشتیاق ہے تو کسی کو بھیج کے منگا لو۔ میں چپ ہوئی۔ اماں جان نے راحت سے کہا کہ استانی جی کی جانماز میں کوٹھے پر کاغذ رکھا ہے جلدی لے تو آؤ۔ وہ جھپٹی ہوئی گئی اور دوڑی ہوئی آئی۔ بوا اعجوبہ نے پوچھا بھی کہ کیا ہے لڑکی گھبرائی ہوئی کیوں ہے۔ وہ بندی خدا کی نہ منہ سے بولی نہ ذرا ٹہری۔ الٹے پاؤں پھر آئی اور کاغذ اماں جان ک ودیا۔ انھوں نے میرے ہاتھ میں دے دیا۔ کھول کر دیکھا تو تین صٖفحے (موٹے قلم سے) لکھے ہوئے ہیں۔ میں نے پڑھنے کا ارادہ کیا۔ اماں جان نے فرمایا کہ ذرا بلند آواز سے پڑھنا۔ سر سے ان کا فرمانا قبول کر کے اور زبان سے بسم اللہ کہہ کر میں نے جو پڑھا اور بیوی نے جو لکھا تھا یہ تھا" کہ طاہرہ بیوی ہم رخصت ہوتے ہیں۔ تمہیں خدا کو سونپا۔ کہو قبول کیا۔ خبردار زنہار ہمارے ماتم اور غم میں بیتاب اور بیقرار نہ ہونا ورنہ ہماری پیٹھ قبر سے نہ لگے گی۔ ہمارے دنیا سے جانے کے بعد تمہیں بھی اس گھر سے جانا ہو گا۔ جس طرح ایک زمانے میں ہم گئے تھے۔ قدیمی محبت اور پرانا تعلق چھوٹے گا بُودا رشتہ اور نیا ناتہ جڑے گا۔ مجھ پر جو تکلیفیں ناواقفی اور کم سنی کی وجہ سے گزری تھیں ان پر اورزمانے کی بہوؤں بیٹیوں پر جو گزرتی ہیں ان پر
ریختہ صفحہ 126
خیال کر کے میں نے بڑی دقت سے یہ کاغذ لکھا جس پر تم عمل کر کے خدا کے صدقے سے کبھی کوئی دکھ نہ اٹھاؤ گی۔ تم کو چاہئیے کہ جب تمہارا وہاں جانا ہو تو جھرجھرے گھونگھٹ کے اندر سے سسرال والوں کی نگاہ سے طبیعت کا اندازہ کر کے اپنا کام کرنا۔ میاں سے کبھی دوبدو بات کرنے کا ارادہ نہ کرنا۔ مرد سے آنکھ چار کر کے کچھ نہ کہنا بڑی بے غیرتی ہے۔ دنیا جہان کی ساسیں پہلے تو محبت کے مارے چاند سی بہو کے لئے زمین آسمان کے قلابے ملاتی ہیں۔ جب آتی ہے تو بیٹے کےطرح طرح کے نقصانوں پر خیال کر کے اپنی بے علمی اور نا تجربہ کاری یا عقل نہ صرف کرنے کی وجہ سے اس سے لام باندھ دیتی ہیں ۔ پس طاہرہ بیگم تم غیر کی غیر ہی رہوگی۔ شادی ہو جانے سے تمہاری ساس کا تم میں کچھ خون تو نہ مل جائےگا اور جا خون کا پاس ہوتا ہے وہ ظاہر ہے۔ پس اگر تمہاری ساس تمہارے مقابلے میں اپنے بیٹے کی پرچک لیں یا مامی پئیں تو برا نہ ماننا ۔ بیٹا گھٹنے ہمیشہ پیٹہی کو جھکتے ہیں۔ اگر وہ نا حق پر بھی ہوں تو طرح دے جانا دوسرے وقت خود ہی ان کو ندامت ہو گی۔ رکھ پت رکھا پت مثل مشہور ہے۔ میاں بیوی کا نہایت کچا اور نازک ساتھ ہے۔ دو تین حرفوں میں جدائی واجب ہو جاتی ہے۔ اپنی آبرو اپنے ہاتھ غصہ حرام ہے۔ اس کو نہ کھانا ۔ اگر ایسا ہی موقع ہو تو اس کے بدلے غمخواری کا مزہ لینا۔ شرم حجاب پاس لحاظ حمیت غیرت خلق کرم محبت مروت سب کے صرف کرنے کے مقام ہیں، وہیں ایک قاعدے سے صرف کئے جائیں ۔ جو کچھ ملے اس پر قناعت کرنا ۔ مانگنے سے آدمی ذلیل ہو جاتا ہے۔ بدزبانی تو تمہاری لونڈیوں کا طریقہ نہیں شاید کسی وقت عاجز ہو کر محل موقع بد دعا یا کوسنے کاٹنے کا آ جائے اور دل قابو میں نہ رہے
ریختہ صفحہ 127
تو ہنس کر ٹالنا۔ ہٹ جانا ۔ کوسنے سے رزق کم ہوتا ہے اور زبان خراب ہو جاتی ہے۔ عادت کا بگاڑنا بہت بری بات ہے۔ نہ ہر اک ادنٰے اعلٰے سے ایسا میل جول رکھنا کہ لوگ چھچھوری کہیں نہ ایسی دماغ کی لینا کہ نک چڑھی کا خطاب ملے۔ چھوٹی امت کے لوگ نئی نویلی دلہنوں کے دیکھنے کو بکثرت آتے ہیں۔ ان کو قاعدے سے منہ لگانا۔ جس دن سے بیاہ جاؤ گی لوگ تمہارے عیبوں کے جویاں ہوں گے۔ تم اپنے ہنروں کے جوہر انھیں دکھانا ۔ چھوٹے بڑوں کے مرتبے کا لحاظ عقل کی بات ہے۔ اتالیقی کرنا سخت عیب ہے۔ کسی میں عیب ہوا آنکھ پھرا لی۔ ہنر ہوا تعریف کر دی۔ نہ کسی کے عیب سے نقصان نہ ہنر سے فائدہ۔ ماشاءاللہ تم خود سیرت صورت میں ایک ہو۔ میرے کہنے سننے کی کچھ ضرورت نہ تھی لیکن میرے دل نے نہ مانا اور یہ خیال آیا کہ نئی جگہ کے نئے حالات، اس بچی پر کیوں جاتے کے ساتھ ہی ظاہر ہو جائیں گے۔ یہ تو تجربہ پر موقوف ہیں۔ اس لئے میں نے یہ چند سطریں لکھ دیں۔ خلاصہ یہ کہ ہر کام کرنے سے پہلے خوب سوچ سمجھ لینا چاہئیے۔ حاضر جوابی لطیفہ سنجی ایک ہنر ہے۔ مگر بزرگوں کے آگے خلاف تہذیب اور بے ادبی موقع محل سے ہر اک بات اچھی معلوم ہوتی ہے۔ دانائی اور ہوشیاری کا مقتضا یہ ہے کہ سارے زمانے کو اپنا معرف بنائے اور چھوٹوں کو دیوانہ۔ سارے کنبے سے محبت کے دم بھروائے۔ ڈھونڈنے سے بھی کوئی دشمن نہ ہو۔ حاسد کی کچی روٹی ہےاس کا ذکر نہیں۔ محسود ہونا مبارک مگر بمجبوری ورنہ حاسد پر اپنی خوبیاں ظاہر کرنا کوئی ضرور نہیں۔ نظر بری چیز ہے۔ آٹھویں روز خیرات ضرور کرنا/صدقے سے ہزاروں بلائیں رد رہتی ہیں۔ بے بیاہے پن میں لڑکی کے دوست ماں باپ ہیں۔ بیاہ کے بعد شوہر پھر ساس نند کی دوستی پر ضرور اعتماد چاہئیے اگر بھائی بہنیں ہوں
ریختہ صفحہ 128
تو وہ بھی مگر وہیں تک اب دوستی کے قابل یہی نئے نئے لوگ ہیں اگر یہ لوگ کسی وجہ یا سبب سے دوست دلی نہ ہوں تو اس کی فکر چاہئیے نہ یہ کہ دوستوں کو کسی بدمزگی اور بے لطفی سے دشمن بنایا جائے۔ میٹھی زبان کی چھری کلیجے اور دل کو حلال کر دیتی ہے اور مجروح سامنے سے نہیں ہٹتا۔ اسی زبان کا دوسرا وار تلوار سے زیادہ کاٹتا ہے جس کا زخم جیتے جی نہیں بھرتا ۔ دنیا میں کوئی یہ چوٹ اٹھا نہیں سکتا ۔ خدا نے زبان تم کو دے دی اور اس کو گویائی عطا کی۔ تمہیں اختیار ہے جو چاہو اس سے کام لو۔ اسی سے خدا اور رسول کا نام لیا جاتا ہے۔ قران کتاب دعا سلام درود تسبیح پڑھی جاتی ہے۔ اسی سے غیبت بیہودہ باتیں جھوٹ گپ شپ گالی گلوچ ہو سکتی ہے ۔ اچھے تو اچھی ہی چیز کو اچھا کہیں گے۔ جہاں تک ہو سکے دنیا میں نیک بن کر رہے کہ آخرت میں کام آئے۔ دنیا گزرگاہ ہے اور ہر شخص سر راہ۔ خوشی ہے تو آناً فاناً غم ہے تو فانی۔ نہ راحت پر اختیار ہے نہ تکلیف پر اعتبار۔ موت ہو یا حیات ، نہ اسے بقا نہ اسے ثبات۔ جہاں تک ہو سکے نیکی کرے ۔ جو کچھ ہے نیکی ہے۔ پھول نیکی بہار نیکی۔ مشکل میں یار نیکی۔ مصیبت کے وقت یہی آڑے آئےکٹھن مہں سینہ سپر ہوجائے۔ وقت بے وقت بھی کام آتی ہے یہاں تک کہ جان بچاتی ہے۔ طاہرہ بیگم تم میں نیکی کا مادہ بہت ہے بلکہ سراسر نیکی ہی نیکی ہے۔اس کو ضائع اور برباد کرنا اس کے صرف کرنے اور کام میں لانے کا وقت تمہارے لئے آنے والا ہے ۔ دنیا بہشت اسی وقت ہو سکتی ہے کہ جب گھر کے دس آدمی ہوں تو دس اور پانچ ہوں تو پانچ۔ سب کے سب ایک دل ایک زبان ایک روح ایک جان ہوں۔ نہ کوئی کسی کی عیب جوئی کرے نہ ایک دوسرے کے لئے حسد میں مرے۔
ریختہ صفحہ129
جو ایک کے دل میں ہو وہی دوسرے کی زبان پر۔میاں کا مرتبہ بیوی سے ہزاروں درجہ بڑا ہے۔ بیوی پیروں کی جوتی میں سر کا تاج۔ آج کل کی شادی بیاہ میں یہ رسمیں کہ ٹونے ہوں اور ٹوٹکے۔ رسی پر بیٹھ کر آرسی مصحف ہو۔ بیوی میں تمہارا غلام ہوں ، بے کہے دلہن آنکھ نہ کھولے۔ اکیس پان کا بیڑا کھائے ۔ یہ سب دوسری قوم کے مہمل اور خلاف شرع رسمیں ہیں۔مہر کی شدت اور افراط اس وجہ سے ہے کہ جب مسلمانوں نے بزور تلوار اس شہر کو لیا اور یہاں کی عورتوں سے عقد و نکاح چاہا اور کچھ تو ان کا بس نہ چلا سینکڑوں سے لاکھوں پر مہر کو پہنچا دیا۔ مردوں نے اپنے نزدیک معرکہ مارا ۔ عورتوں نے اپنے نزدیک پالا جیتا۔ ان کا خلاف شرع کرنا کوئی بڑے تعجب کی بات نہیں۔ کچھ وقت کا مقتضا اور مصلحت کا اقتضا سب پر طرہ ناواقفی اور کم علمی تھی۔ اس کے بعد تو علم کا چرچا ہوا ۔ اللہ رکھے سینکڑوں ذٰ علم گھرانے اس شہر میں ہیں۔ سب جگہ قال اقوال چھانٹتے ہیں اور حدیثیں بیان ہوتی ہیں۔ جب شادی بیاہ کا موقع آیا اور وہ کایا پلٹ ہو گیا۔ عورتیں اگر بے علم ہیں تو ہوا کریں مرد تو جانتے ہیں اور جان بوجھ کر آنکھ چراتے ہیں۔ دیکھئیے یہ فضول اور خراب رسمیں ہماری قوم سے کب اٹھتی ہیں۔ مگر جب ہم ہی دنیا سے اٹھ گئے تو ہمارے بعد اصلاح ہوا کرےچاہے کہیں ہو چاہے نہ ہو۔ طاہرہ بیگم تم اس میری نیک صلاح کو حفظ کر کے یہ کاغذ بیگم صاحب اور نواب دولہا صاحب کو بھی دے دینا تا کہ وہ پڑھ کر ذرا سوچیں اور مشغول الذمہ نہ رہیں کیونکہ اس میں اکثر خطاب انھیں دونوں صاحبوں سے ہیں۔ تم کو اس میں مداخلت نہیں۔ داستان طویل ہے اور وقت قلیل۔ لہٰذا بس باقی ہوس رقیمہ فاطمہ 15 رجب 1279 ھ ۔ یہ کاغذ لپیٹ کر
ریختہ صفحہ 130
اماں جان کو میں ہاتھ بڑھا کر دے رہی ہوں کہ کوٹھے کی کبھڑکی کھلی اور بوا اعجوبہ نے رحمت راحت دولت محمدی خانم امامن سب کے نام لے لے کر پکارا کہ ذرا جدلی یہاں آؤ۔ بوا امامن قریب گئیں انھوں نے کچھ اشارے سے کہا۔ میرا ماتھا ٹھنکا ۔ امامن اماں جان کے پاس آئیں اور کہا کہ ذرا کوٹھے پر چلئیے، وہ اٹھ کھڑی ہوئیں میں ساتھ چلی۔ بوا امامن نے روکا کہ تم نہ جاؤ۔ اب تو دل پر قابو نہ رہا ۔ میں نے کہا کہ کیا ہے۔ کہا بس ایسی بات ہے کہ بچوں کو وہاں نہیں جانا چاہئیے۔ اب تابِ ضبط کہاں تھی۔ میں نے اک چیخ ماری اور زمین پر گری۔ اباجان دوڑے۔ گود میں لے کر دالان میں لائے۔ جس مشکل اور ایذا سے بیہوش ہوئی ہوں وہ حال مجھے آج یاد آنے سے روئیں کھڑے ہو جاتے ہیں اور بدن میں رعشہ پڑ جاتا ہے۔ مرنے میں تو اس سے کہیں زیادہ کرب و تعب ہوتا ہو گا۔ خداوند جانکنی کی ایذا اور نزع کی تکلیف سے بچانا اور آسانی سے دنیا چھڑانا۔ الغرض اس دن کی بے ہوشی ایسی بے ہوشی تھی کہ میں کچھ نہیں کہہ سکتی۔ہوش آنے کے بعد بھی اس قدر دماغ میں خلل رہا کہ دنیا و ما فیہا کی خبر نہ رہی۔ میری آنکھ کھلتے ہی بوا اعجوبہ اور رحمت نے کہا کہ پہلے نماز پڑھ لو۔ گرم پانی ٹھنڈا ہوتا ہے۔ میں نے وضو کیا ۔ نماز کے بعد اعجوبہ اور رحمت نے بہلانے کے طور پر دنوں کی بحث شروع کی۔ ایک نے کہا پیر ہے دوسرے نے کہا واہ پیر کب ہے۔ پیر ہوتا تو حضور کتاب نہ پڑھتے۔( اعجوبہ) ہاں سچ ہے وہ پرسوں تھا۔ (رحمت) پرسوں؟ پرسوں تو منگل تھا۔ کل بدھ کے آٹھویں روز والی صحبت باہر نہیں ہوئی تھی۔ (اعجوبہ) اے ہے آج جمعرات ہے۔ (رحمت) ہاں اور کیا۔ (اعجوبہ) بیوی آج جمعرات ہے۔ شب جمعہ کے اعمال نہ کیجئیے گا۔ میں نے کہا اچھا۔ اور اس کے بعد ان
لیکن اب ان کا سامنا نہ ہو۔ عمر گذری آج تک اس مکان پر ایسا دنگا فساد نہ ہوا تھا۔ خدا شاہد ہے کہ مجھ سے سخت غلطی ہوئی۔ ممولا چڑی مارنی نے بڑا جال پھیلایا۔ بڑے سیانے کو پھنسایا۔ اس لکاتہ کے پھندے میں آ کر کیا میرا برا دُرد سا ہوا ہے۔ لاحول ولا قوۃ اپنی حماقت پر آپ رنج ہو تا ہے۔ لیکن کیا حاصل۔ شہریار دولہا نے تو چپ سادھی میں نے کہا ان باتوں کا حال کسے معلوم تھا۔ مردوں میں چار نکاح خدا کے حکم سے حلال ہیں۔ تم نے کوئی نئی بات نہیں کی تھی۔ شیطان بیچ میں کود پڑنے کو کون جانتا تھا۔ کیا بات تھی کیا ہو گیا۔ مجھے اس وقت سے یہ رنج ہے کہ میں انہیں لائی کیوں۔ ایسا نہ ہو کہ وہ اپنے دل میں یا ان کی ماں مجھے بانی فساد ٹھہرائیں۔ مجھے اس قدر ان کا پاس تھا کہ زیادہ سمجھایا بھی نہیں۔ دو ایک دفعہ کہہ کہہ کر انہیں کی عقل پر چھوڑ دیا کہ بہن تم خود غور کرو۔ اگر میری بات تمہارے حق میں سب طرح سے بہتر اور مفید ہو تو قبول کرو، نہیں جانے دو۔ خدا معلوم وہ اس میں عیب کیا سمجھیں۔ اور میرا نفع کیا دیکھا جو کسی طرح نہ سنا نہ ماننا تھا نہ مانا۔ خدا کی قسم مجھے ان کے بےپردہ کر کے نکالے جانے پر انتہا کا ملال ہے۔ بس نہ تھا کمرے میں پھڑپھڑا رہی تھی۔ اپنی بہن سے پوچھو کہ اس وقت میرے چہرے کا کیا حال تھا (ساجدہ بیگم) حال کیا دشمنوں کےمنہ پر مردنی چھائی ہوئی تھی۔ رنگ مٹی ہو گیا تھا۔ میر صاحب نے سب کی سن کر کہا کہ وہ اسی قابل تھیں جیسا ان کے ساتھ کیا گیا اور اب جو
مناسب ہو گا وہ کیا جائے گا۔ ساجدہ بیگم۔ ہاں مزاج تو ان کا کچھ ایسا ہی معلوم ہوتا ہے بھابھی جان آپ کی بلا پریشان ہو کیا مفت کی جان ہے کہ ایسی ایسی مرداروں کے لیے ہلکان کیجیے۔ ہو گا بھی (شہریار دولہا) جی ہاں کچھ اور باتیں کیجیے یہ کلمہ در دہان تھا کہ غلام علی نے پکارا۔ رحمت گئیں۔ معلوم ہوا کہ تھانیدار اور برقنداز آئے ہیں۔ شہریار دولہا اور میر صاحب باہر گئے۔ وہاں ان ماں بیٹیوں نے جو جو منہ میں ایا لکھوایا۔ پورا دفتر انہوں نے پڑھ کر سنایا۔ میر صاحب نے جو اصل بات تھی صاف صاف کہہ دی۔ انہوں نے کہا کہ ذرا آپ بھی تکلیف کر کے چلے چلیے۔ میر صاحب کچھ شرماتے تھے۔ شہریار دولہا ساتھ ہوئے۔ تھانے سے رات کو سب پھر کر آئے۔ معلوم ہوا کہ تھانہ دار نے دھوکے دھڑی دے کر پچاس روپیہ مہینہ ان سے قبلوایا۔ اس وقت نہ قبول کرنے کا سبب پوچھا وہ کیا بتائیں۔ تھانہ دار خفا ہوئے اور کہا کہ ایک عالی خاندان شخص کو آپ لوگ بدنام کرنا چاہتے ہیں۔ ہزار دفعہ غرض ہو ان کے گھر میں رہیے۔ آپ کے گھر میں ایک جھنجی نہ ملے گی۔ جاؤ جی ڈولی لے جاؤ۔ باپ بھائی بھی ساتھ تھے۔ انہوں نے سب کو دتکار بتلائی اپنا اپنا منہ لے کر وہ ادھر گئے۔ ان کو تسکین دے کر ادھر روانہ کیا۔ میر صاحب کے بار بار کہنے سے شہریار دولہا نے ان کے سسرے کو پیام دیا۔ انہوں نے جواب صاف دے کر ٹالا۔ جب طلاق اور مہر دینے کے بارے میں تھانہ کا زور ڈالا گیا تو انہوں نے مجبور ہو کر وعدہ کیا۔ دن بدا
ممولا بیگم صاحب ان کو سوار کرا کے لے چلیں۔ باپ بھائی پہلے سے کہاروں کو پتا دے کر چلے تھے۔ وہ بیٹھے بیٹھے مجبور ہو کر اٹھ آئے اور ڈولی نہ پہونچی ممولا ان کو لے کر اڑ گئیں۔ مدتوں تلاش رہی۔ ڈھونڈھیا پڑی، کہیں پتا نہ لگا۔ ماں باپ رو پیٹ کر بیٹھ رہے۔ پھر تھوڑے دن کے بعد شہریار دولہاخبر لائے کہ کسی رئیس کے گھر میں ہیں۔ ایک چلہ کھینچ کر وہاں سے بھی نکل بھاگیں۔ دربدر خاک بسر پھریں۔ نت نیا پانی دانا، روز نیا پنجرہ نیا خانہ رہا۔ آخر کو کھلے خزانے اڈا بنا کر ایک جگہ بیٹھ رہیں۔ باپ دادا کو بدنام کیا۔ نام بدل کر اپنا کام کیا۔ کسی طرح میں ان کا نہ اس جگہ کا نام لے سکتی ہوں نہ کچھ پتا دے سکتی ہوں۔ مولوی صاحب نے جو اپنے دل سے عہد کیا تھا اس کے بموجب مہر کا روپیہ الگ رکھ چھوڑا تھا۔ پورے تین برس کے بعد شہریار دولہا کی دوڑ دھوپ سے وہ مشکل حل ہوئی اور طلاق پڑھا گیا۔ تین مرد اور چوتھی عورت کے سوا کسی پر یہ حال نہ کھلا۔ جب فارغ البال ہو چکے تب مجھے معلوم ہوا وہ بھی شہریار دولہا کے ذریعے سے۔ اس ذکر سے جہاں تک نہ غیرت پکڑی جائے وہ تھوڑی ہے۔ خدا ہر بلا سے بچائے۔ اس سانحے یا حادثے کے بعد میر صاحب تھوڑے دن بہت سلامت روی سے چلے بعد چندے انہوں نے لگی ہوئی طبیعت کو اکھیڑنا اور بڑھتی ہوئی محبت کو پھر گھٹانا شروع کیا۔ پھر اگلے وہم نے قابو پا کر ان کو ستایا اور لڑکیوں کی طرف سے طرح طرح کے خیال ان کے اکھڑے دل میں پیدا کرنا شروع
کیے جس سے وہ بالکل اور ہو گئے۔ از سر نو بدل گئے۔ اگلی دفعہ سے بھی کچھ زیادہ خبط نے گھیرا۔ اسی زمانے میں دو نیک بخت ماں بیٹیاں بیری والے گھر میں کرایہ کو آ کر رہیں۔ ان کی بھولی بھالی باتوں سے سب بچوں کا نہایت دل بہلتا تھا۔ علی الخصوص صابرہ کا اور اس حالت میں کہ زکیہ کھیلتی کودتی تھتکارے (ہیضہ) میں چٹ پٹ ہو گئی تھی۔ جب عابدہ بیگم کی شادی شہریار دولہا کے چھوٹے بھائی سے ہوئی تو میں نے کوٹھے پر ان کے رہنے کے لیے کمرہ سج دیا۔ یہ کمرہ باہر والے کمرے سے ملا ہوا تھا اور دیوار میں الماریوں کے اوپر بڑی بری کھڑکیاں تھیں۔ آواز باہر نکلنے کے خوف سے جو وہاں بیٹھتا تھا بہت چپکے چپکے بات چیت کرتا تھا کہ باہر مردانے میں کوئی آواز نہ سنے۔ ایک دن صابرہ بیٹھی ہوئی ہے کہ میر صاحب کے ہم محلہ رمال کرایہ دینے کو آئے۔ ممولا بیگم تو ان کو سبق دے کر ڈھل مل یقین بنا ہی چکی تھیں۔ میر صاحب نے اپنے ہاں لڑکیاں ہونے کا شکوہ کیا وہ کچھ نجوم بھی جانتے تھے۔ میکھ گن کر کہا کہ اب بھی تو لڑکی ہی ہو گی۔ کنیا راس ہو کہ باتیں میرے صاحب کھٹ سے کہہ بیٹھے کہ میں وہ ڈربا ہی پھونک دوں گا۔ نہ کھنڈری ہو گی نہ جوئیں پڑیں گی۔ صابرہ کو یہ سن کر اس قدر قلق ہوا کہ بھرا ہوا دل لے کر ہمسائی کے ہاں گئی اور کونے میں بیٹھ کر خوب پھوٹ پھوٹ کر روئی۔ وہ دیکھ کردوڑی آئیں۔ مجھ سے کہا کہ بیوی تم نے بٹیا کو کیا کہا جو اس نے رو رو کر جل تھل بھرےہیں۔
میں نے حیرت سے کہا کہ میں کہاں وہ کہاں۔ آپ کے سر کی قسم جو میں منہ سے بھی بولی ہوں۔ وہ گھبرائیں اور کہا کہ پھر خدا نہ کرے دیوانی ہو گئی۔ خدا واسطے رو رو کرجان ہلکان کیے ڈالتی ہے۔ میں نے ہنس کر کہا کہ اس کا کیا علاج۔ میں قسم کھاتی ہوں۔ آپ کو یقین نہیں آتا اور وہ تو کوٹھے پر تھی۔بھلا اسی سے جا کر پوچھیے۔ وہ گئیں اور پھر آ کر کہا کہ نا میری جان میں نہ پوچھوں گی وہ تو یوں بلبلا اٹھی جیسےکٹے پر نمک مرچ چھڑک دیا۔ ذرا چلو تو دیکھو وہ اپنا کیا حال کر رہی ہے۔ میں گئی اور لائی پیار کیا۔ پھر آنسو پونچھے۔ پوچھا کہ کیا ہوا اس نے کچھ نہ بتایا۔ جب بڑی ہمسائی چلی گئیں تو میں نے کہا اللہ صابرہ ہم کب سے گڑگڑا رہے ہیں تم نہیں بتاتیں۔ مجھ سے نہ کہو گی تو دیوار پاکھوں سے کہو گی۔ کہا کہ جی رونا تو اسی پر آتا ہے کہ میں کہہ نہیں سکتی۔ ادھر تو آپ نے منع کیا اورادھر کتاب میں لکھا دیکھا ہے۔ ایسا نہ ہو کہ میں کہوں اور غیبت ہو جائے۔ میں نے کہا کہ تم کچھ نہ کہو اتنا بتا دو کہ کہاں تھیں اور کہاں سے سن آئیں۔ صابرہ نے کہا کہ جی کوٹھے پر تھی اور باہر کی آواز تھی۔ میں خود کوٹھے پر چلی گئی اس وقت بھی اتفاق سے وہی باتیں ہو رہی تھیں۔ میر صاحب کے کھجانے کو وہ بار بار یہی کہتے تھے کہ کتنی لڑکیاں لو گے اور وہ ہر مرتبہ وہی جواب دیتے تھے جو صابرہ سن کر گئی تھی۔ یہ کلمہ میرے دل میں بھی نشتر سا چبھا لیکن ٹال کر ہنستی ہوئی صابرہ کے پاس آئی اور کہا کہ تمہیں ان باتوں کا رنج ہے جو رمال
سے تمہارے ابا نے کہیں۔ اس نے سکوت کیا۔ میں نے اسے گلے سے لگا کر کہا کہ بتیا تم نا سمجھ ہو۔ اصل بات تمہاری سمجھ میں نہیں آئی۔ سنو لڑکیاں اپنی ماں کی بیٹیاں اور لڑکے باپ کے بیٹے ہوتے ہیں۔ ان کا حق بجانب ہے۔ اگر لڑکا ہوتا تو آج باہر کمرے میں ان کے پاس بیٹھا ہوتا۔ جس طرح تم میرے پہلو سے لگی بیٹھی ہو۔ جلسہ مجلس معرکہ اگر کہیں ہو اور وہ جائیں تو بیشک یہ دل چاہتا ہو گا کہ لڑکا ہوتا تو ہم اسے اپنے ساتھ لے جاتے۔ جس طرح میں تمہیں اکثر بیاہ شادیوں اور مجلسوں میں لے جایا کرتی ہوں۔ یہ بات اس رشک کی وجہ سے (جس کا مادہ تھوڑا بہت ہر شخص کی طینت میں ہے) پیدا ہوتی ہے۔ حق بات پر بگڑنا سچ امر پر برا ماننا نہ چاہیے۔ تمہیں غور سے دیکھ کرکہو کہ وہ سچ کہتے ہیں یا نہیں۔ مگر یہ غور انصاف سے کرو۔ بدوں میری محبت کے اگر اسے ملا کر غور بھی کرو گی تو بےکار جائے گا۔ صابرہ تمہارا نام ہے، تمہیں ہم سے بھی زیادہ صبر کرنا چاہیے۔ اس کے معنی جانتی ہو۔ صبر کرنے والی۔ وہ۔ جی ہاں۔ میں ۔ تو بس تمہیں ہر طرح کے رنج پر اس طرح برداشت کرنا چاہیے کہ کسی پر اس رنج و مصیبت کا اظہار نہ ہو۔ آئندہ سے اس کا بہت بڑا خیال رکھنا۔ تحمل ایک ایسی عمدہ صفت ہے کہ جس ہے شرافت اور آدمیت ظاہر ہوتی ہے ۔ اس بچی نے پھر دم نہ مارا۔ اسی وقت میر صاحب گھر میں آئے۔ مگر چیں با بر و تیور پر بل۔ تھوڑی دیر میں کھانے کا وقت آیا۔ کھانا کھا کر
باہر چلے گئے۔ بارہ بجے رات کو آ کر پکارا۔ سارا گھر پڑا سو رہا تھا۔ میں نے جا کر قفل کھولا۔ اب یہی معمول کر لیا۔ پھر کچھ دن رات رات بھر غائب رہنے لگے۔ دل تو برخاستہ تھا ہی۔ پہلو بگاڑ کے ڈھونڈھتے تھے مگر ایک نہ ملتا تھا۔ جتنا وہ چھیڑتے اور ستاتے تھے میں سہتی جاتی تھی۔ آکر کو یوں بھی زور نہ چلا ۔ قابو نہ ملا۔ آپ ہی دس پندرہ روز میں تھک کر بیٹھ رہے۔ اب بات چیت چھوڑ دی۔ تن پھن شروع کی۔ میں تو خطاب کے قابل نہ تھی۔ جو کہنا ہوا کسی ماما یا لڑکی سے کہا اور خوب بدمزاجی کی۔ ٹیڑھے ترچھے ہو کر زبان بھی چلا بیٹھے۔ جاڑے کے دن اور میں اپنے لحاف میں دبکی پڑی ہوں وہ کمرے میں آ موجود ہوئے۔ خواہ مخواہ اٹھ کر دروازہ کھولنا پڑا۔ پھر آئے تو چین کے خمیر کی طرح اٹھتے ہی نہیں، پھر اٹھے تو باہر چلے گئے۔ پھاٹک بند کرنے کو خود ہی گئی۔ آدمی سوتے ہیں، کس کو جگاؤں، کسے بلاؤں۔ جاڑے میں سب اپنے اپنے گودڑ میں گھسے ہوئے ہیں۔ ہر طرح سے تکلیف ہوئی لیکن وہ زحمت اس قابل نہ تھی کہ ان کا حق یا لحاظ فراموش کیا جاتا۔ چھیڑ چھاڑ کر اس غرض سے باتیں کرتی تھی کہ ان کو اپنا ملال مجھ پر کھل جانے کا حال نہ کھلے اور میرا رنج بھی ڈھکا رہے۔ ایک دن کتاب دیکھتے دیکھتے مجھے پکارا۔ میں اماں جان والے کمرے میں رہتی تھی۔ اٹھ کر ان کے پاس بڑے دالان میں گئی۔ کہا لڑکیاں سو گئیں۔ میں نے کہا ہاں بڑی دیر ہوئی۔ کہا مجھے تم سے ایک بات پوچھنا ہے۔ میں نے کہا پوچھو۔ کہا تم کو یہ بھی
معلوم ہے کہ مدت سے مجھے ایک طرح کا رنج ہے۔ میں نے کہا مجھے نہیں معلوم۔ کہا ضرور معلوم ہے مگر چھپاتی ہو۔ بھلا میرے سر پر تو ہاتھ رکھو۔ میں نے کہا بےہاتھ رکھے میں صاف کہنے کو موجود ہوں۔ کہا پھر کیا ہے بتاؤ تمہیں نہیں معلوم۔ میں نے کہا معلوم ہے مگر اس کا اتارا یا علاج میرے امکان میں نہ تھا نہ ہے۔ اس لیے صبر و سکوت کر کے بیٹھ رہی۔ کہا اچھا ہمیں کیا رنج ہے۔ میں نے کہا لڑکیوں کی افراط کا ملال ہوتا ہے۔ کہا کیا خوب پہچانا۔ زود فہم تو بےشک ہو مگر ساتھ ہی اس کے بدقسمت۔ میں ہنس کر چپ ہو رہی۔ کہا ہنسیں کیا۔ میں نے کہا اس بات پر ہنسی کہ تم نے بدقسمت اور زود فہم کا خطاب دیا اور یہ دونوں باتیں ایسی ہیںجو میں نے آپ سے اپنے میں نہیں جمع کیں بلکہ خدا نے دی ہیں۔ جس سے میری مجبوری ظاہر ہے اور تمہارے کہنے سے یہ ثابت ہوا کہ میں مجبور نہیں ہوں۔ اسی بات پر مجھے ہنسی آئی۔ یہ سن کر آپ بھی مسکرائے اور فرمایا کہ خوش فہم ہی نہیں بلکہ خوش تقریر بھی ہو۔ میں نے کہا یہ سب تمہاری صحبت کا اثر ہے ورنہ مجھے بات کرنا تک تو آتی نہ تھی۔ اس وقت تم نے خود ہی چھیڑ کر مجھ سے پوچھا ہے ادھر ادھر کی باتوں میں کام کی بات رہ جائے گی۔ اگر اجازت دو تو میں اس کا اعادہ کروں۔ کہا شوق سے میرے بھی دل میں اس وقت کچھ یہی آ گیا۔ میں نے کہا اسی وجہ سے مجھ کو بھی حوصلہ ہوا کہ تم مخاطب بن کر بیٹھے رہو گے اور دل سے سنو گے ۔ اچھا
اب بتاؤ کہ تمہیں مجھ سے ملال کرنے کا کیا سبب ۔ کہا کچھ نہیں۔ میں نے کہا پھر کیوں تم ایک مدت سے کبیدہ اور کشیدہ ہو۔ لڑکیاں خدا نے دیں۔ سوا تمہارے میں نے آج تک اپنے اور تمہارے گھرانے میں کسی مرد کو اس قدر لڑکی سے بےزار نہیں دیکھا۔ کسی راجپوت سے بھی تم سے ایسی گہری ملاقات نہیں جس کی صحبت کا اثر پڑا۔ آخر اس کا کیا باعث۔ کہا کوئی وجہ نہیں مگر لڑکیوں کی صورت دیکھ کر مجھے تپ چڑھتی ہے اور خون اونٹتا ہے۔ اور ان کے پیدا ہونے کا ایک سبب قوی تم سے متعلق ہے۔ لہذا تم سے بھی تکدر ہوتا ہے۔ میں نے کہا کہ یہ تو دوسری بات ہے کہ ایک چیز سے دلی تنفر ہے مگر یہ بتاؤ کہ تم نے مجھ ایسی ضعیف کو سبب قوی کیوں ٹھہرایا۔ا ن کی پیدائش کا باعث یا سبب حکم قادر مطلق ہے۔ میری ذات اور میرے اختیار کا معاملہ نہیں ورنہ جس دن تمہاری رنجش کا حال مجھ پر کھلتا اسی روز پھیر بدل کر دیتی اور نوبت اس قدر طول کلام کی نہ آتی۔ کہا کہ ہاں یہ سب میں بھی جانتا ہوں مگر دل کو کیا کروں وہ میرے قابو میں نہیں۔ ہزار ہزار چاہتا ہوں کہ اس رنج کو دل سے نکالوں۔ اس فکر کو ٹالوں لیکن میرے بنائے کچھ نہیں بنتا نہ کسے طرح کاٹےکٹتا ہے نہ مارے مرتا ہے۔ میں نے کہا اگر اس ارادے کو مضبوطی اور پائداری ہو اور حتماً ایسا عزم کر لیا ہو تو کیا مشکل ہے۔ چار دن میں طبیعت بدل جائے گی اور دل راہ پر آ جائے گا۔ میں ذمہ
کرتی ہوں کہ اس رنج و ملال کو تمہارے صاف دل سے نکال دوں گی مگر میرے کہنے پر چلو۔ اگر ایسا نہ کرو گے تو عمر بھر کی ضیق اور ہر روز کی کاہش میرے اور تمہارے لیے رکھی ہوئی ہے۔ غم نداری ہر بجز کا معاملہ ہو گا۔ لڑکیوں کے پیدا ہونے کے زمانے سے آج تک میر صاحب نے کسی کو منہ نہ لگایا تھا۔ نہ نظر بھر کے دیکھا تھا۔ عدم تعلق اور زیادتی وہم سے وہ اپنی اولاد کے دشمن ہو رہے تھے۔ اس لاعلاج مرض کی دوا بھی خدا نے مجھے مرحمت کی تھی۔ جس کے استعمال سے میں کامیاب ہوئی۔ محلے کے مرد عورت تو میرے بچوں پر جانیں نثار کریں اور نہ رخ کرے تو باپ۔ یہ عالم اسباب میں ایک سبب پیدا ہوا تھا جس کی درستی و اصلاح سے میری ناموری ہونے کو تھی اور اپنے بیگانوں میں سرخروئی۔ ادھر تو رمال نے کہا کہ تمام عمر لڑکیاں ہی پیدا ہوں گی اور کثرت ہر چیز کی بری ہوتی ہے ادھر بی جمیل النسا والا معاملہ پیش نظر تھا۔ ان دونوں باتوں نے ان کو ایسا عورتوں سے بدظن کر دیا کہ جس پر طرح طرح کی دلیلیں عقل کے زور اور وہم کی مدد سے بٹھا کر وہ ان معصوموں کے دشمن جاں ہو گئے اور ان کے ساتھ لگے ہاتھ میرے بھی خون کے پیاسے۔ لیکن باوصف ان باتوں کے اس تقریر سے بوجہ حق پسند ہونے کے وہ کچھ قائل بھی ہوئے۔ حالت مجبوری میں آخر کہہ گذرے کہ میرے بنائے کچھ نہیں بنتا۔ درحقیقت ادھر تو جمیل النسا کے
تجربے نے ان کے وہم کو ابھارا اور ادھر کثرت سے لڑکیوں کی طرح طرح کے خلجان ہوئے جس سے بوکھلا کر رہ گئے۔ مجرب قاعدے کی بات ہے کہ جب کوئی وہم کو دل میں جگہ دے گا یہ زور ہی پکڑتا چلا جائے گا۔ جب تک وہم کو نہیں نکالے گا برے برے خیالوں کو بھی نہیں مٹا سکتا۔ آخر کو میں نے سب سے پہلے اس کی فکر کی کہ ان کے وہم کا علاج کروں کیونکہ یہ سب اسی کے باندھنو ہیں۔ اس لیے میں نے راتوں کو حضرت حوّا کے ذکر سے جناب فاطمہ علیہا السلام کے ذکر تک ان سے بیان کیے پھر اور اور نیک زنوں کی یباتیں کر کے ایک رات کو اپنا اور ساجدہ کا حال دہرایا۔ ان کے ہوشیار کر دینے کو یہ بھی کہا کہ اگر جمیل النسا کی بات آنکھوں دیکھی ہے تو یہ بھی سنی سنائی نہیں۔ وہ اکیلی ہیں ادھر دو ہیں۔ اپنے کنبے اور عزیزوں کے علاوہ بھی اگر غور اور فکر سے دیکھو گے تو صاف کھل جائے گا کہ سب مرد اور عورتیں یکساں نہیں ہوتیں۔ صورتوں کی طرح سیرتوں میں بھی فرق ضرور ہے۔ انہیں میں اگر جمیل النسا ہیں تو اسی گروہ میں سلما 1 بھی تھی جس کی عفت و عصمت اور پاک دامنی کا حال قابل قدر بلکہ ہم لوگوں کے واسطے لائق فخر و ناز ہے۔ دو چاند سے بچے یوسف اور حسینہ نقد عزت پر سے قربان کیے۔ مامتا کو خاطر میں نہ لائی۔ کنوئیں میں
۔۔۔۔۔۔۔۔
1۔ دیکھو تفسیر عفت مولفہ مرزا محمد عباس حسین ہوش لکھنوی مطبوعہ بستان رضوی کا صفحہ 87 لغایت 88
گر کر اپنی آبرو بچائی۔ سب سے بڑھ کر عبرت اور حیرت کا وہ ذکر ہے جو سید بہاؤالدین رازی نے بیان کیا ہے۔ صاحب طبقات ناصری 1 میں لکھتے ہیں کہ خوارزم شاہ نے سید موصوف کو چنگیز خان کی سلطنت اور لشکر کی حالت دریافت کرنے کو شہر خطا روانہ کیا۔ جب وہ وہاں پہونچے تو حوالی خطا میں ایک برج کے نیچے ہڈیوں کا انبار پڑا دیکھا۔ چونکہ ایک مقام پر ہڈیوں کا پہاڑ دیکھ چکے تھے۔ متعجب ہو کر اس کی وجہ پوچھی۔ لوگوں نے کہا کہ جب یہ شہر فتح ہوا تو ساٹھ ہزار بن بیاہی کنواری لڑکیوں نے مغلوں کے ہاتھ سے اپنی آبرو بچا کر لال سی جانیں دیں اور برج سے زمین پر گر کے ہلاک ہوئیں۔ یہ ان کے پاک بدنوں کی ہڈیاں ہیں۔ اس ذکر سے بند بند کانپتا ہے اور روئیں کھڑے ہوتے ہیں۔ غیرت، حمیت، آبرو، عزت کے علاوہ ان کی عصمت و عفت پر تصدق ہونے کو جی چاہتا ہے کہ وہ اپنی جانیں مٹا کر ہمارے لیے دنیا پر ایک مثال چھوڑ گئیں۔ ایک کے مقابل میں ساٹھ ہزار کی کثرت دیکھو۔ اور اس سن میں ا ن کی یہ جرأت دیکھو۔ اسی طرح سے خدا خدا کر کے میں ریوڑی کے پھر سے نکلی۔ اس وہم کو ان کے دل سے نکالا جو خواہ مخواہ عورتوں کی برائی اور بدی ان کے دل میں بٹھا چکا تھا۔ ع۔ شو ایمن از زن کہ زن پارساست۔ اور ۔ ع۔ اسپ و زن و شمشیر وفادار کہ دید۔ میر صاحب اٹھتے بیٹھتے پیٹتے پڑھا کرتے تھے۔ بیسیوں نیک بختوں اور پارسا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
1۔ دیکھو مطارح الانظار مطبوعہ بمبئی کے صفحہ 154 کی سطر 13 سے 23 تک
بیبیوں کے قصے سنانے کے بعد آٹھ دس روز کی بک بک اور سر مغرن سے یہ نتیجہ پیدا ہوا کہ میر صاحب کو ان مصروعں کے بدلے ایک دن نمازصبح کے بعد یہ شعر
نہ ہر زن زن ست و نہ ہر مرد مرد
حذا پنج انگشت یکساں نہ کرد
پڑھتے سنا۔ اسی وقت میں نے دو رکعت نماز شکر کی پڑھی۔ یقین آیا کہ محنت ٹھکانے لگی۔ سرپھرانا رائگاں نہیں گیا۔ رفتہ رفتہ جب اس وہم کا بالکل خاتمہ ہو چکا تو میں نے سب سے پہلےچھوٹی لڑکی کو (جو بہت پیاری پیاری باتیں کرتی تھی) سب لڑکیوں کی طرف سے وکیل کر کے میر صاحب کے اجلاس پر پیش کیا۔ وہ ڈرتی تھی۔ میں نے اس کو چیز بست کا لالچ اور اپنی خفگی کا ڈر دلا کر بھیجا۔ سب سے پہلے پان دے آئی۔ انہوں نے اٹھا کر جیسے ہی منہ میں رکھنا چاہا اور اس نے بسم اللہ پڑھی وہ کھا چکے اور یہ تھالی لے کر بھاگی۔ آدمیوں کو سمجھا دیا کہ بچوں کے لائق جو کام ہوں وہ تم نہ کرنا۔ ان کو لگا دینا۔ جب انہوں نے کتاب، قلم، دوات، پانی، جاءنماز، آئینہ، کنگھی، رومال، جریب، تسبیح، انگوٹھیاں، کھڑاؤں وغیرہ میں سے کوئی چیز مانگی اور آمنہ عالیہ کو رحمت و دولت نے اکسایا کہ جلدی جاؤ دیکھو تمہارے ابا جان کیا مانگتے ہیں۔ کوئی دوڑی گئی اور کام کر دیا۔ دو ہی چار دن میں ڈر نکل گیا۔ کسی کے کہنے اور بھیجنے کی ضرورت نہ رہی۔ ہر وقت ایک نہ ایک باری دارنی کی طرح سے حاضر ۔ کیا مجال جو ان کی کوئی چیز قاعدے سے بےقاعدہ یا جگہ سے
بےجگہ ہو جائے وہ پھینک پھینک جاتے تھے اور بچے دھرتے اٹھاتےتھے۔ آٹھ ہی دس روز میں میر صاحب کن انکھیوں سے دیکھتےدیکھتے آنکھ بھر کر دیکھنے لگے اور چھوٹی کے مٹر سٹر چلنے اور بھدر بھدر دوڑنے پر پیار آنے لگا ۔ مگر برسوں کی نفرت ایکا ایکی دل سے کیونکر نکلتی۔ دوسرے یہ بھی خیال تھا کہ گو بچہ ہے مگر ضرور سمجھتی ہے کہ یہ باپ ہیں اور پھر کیسے باپ جنہوں نے جھوٹوں منہ نہیں لگایا۔ا گر میں بلاؤں اور وہ نہ آئے یا یہ کہہ بیٹھے کہ آج کیا ہے تو بڑی لڑکیاں شکوہ شکایت کے دفتر کھول دیں گی۔ میں نے جو آتے جاتے ان کی نظر سے محبت ٹپکتی دیکھی پھر روکنے والی چیزوں کو خیال کیا تو وہ باتیں ذہن میں آئیں جب وہ باہر گئے تو چھوتی لڑکیوں کو سمجھا دیا کہ اگر وہ بلائیں تو رک نہ جانا۔ خبردار دوڑ کر گلے سے لگ جانا۔ نہیں وہ پھر اپنے کمرے میں گھسنے نہ دیں گے اور نہ پھر کبھی چیز لا دیں گے۔ جب وہ خالی ہوا کریں تم بھی پاس جا کر بیٹھا کرو وہ وقت پیار سے باتیں بنانے کا ہے۔ جس میں ان کا دل بہلے۔ اکیلے میں گھبرائیں نہیں۔ جب کتاب دیکھتے یا لکھتے ہوں اس وقت چلی آیا کرو۔ جب پھر بلائیں دوڑ جایا کرو۔ اگر ذرا بھی کام چوری کی اور دیر ہوئی تو مجھ سے برا کوئی نہیں۔ دونوں مل کے نہیں بلکہ جدا جدا جایا کرو۔ اسی دن سے چار پلانا صابرہ کے نام کیا، پان عالیہ اور آمنہ کے سپرد کیے گئے دوسرے ہی روز صابرہ نے چار دی، عالیہ پان لے گئی۔ یا تو بھاگ آتی تھی، آج بیٹھ کر ادھر ادھر کی باتیں بگھارنے لگی پہلے
تو میر صاحب سن سن کر خوش ہوا کئے پھر اس کی طرف ہاتھ پھیلائے کہ دیکھوں آتی ہے یا نہیں۔ میں سامنے بیٹھی دیکھ رہی ہوں کہ اس کو میرا کہنا یاد ہے کہ نہیں جو وہ اتھ کر گلے سے لپٹ گئی۔ پھر تو میر صاحب کے بھی خون میں جوش آیا۔ ضبط نہ ہو سکا۔ گود میں لے کر چھ سات برس کا پیار اکٹھا کر لیا۔ آمنہ نے جو دیکھا رسائن رسائن جا کر پٹی کے پاس گوں متھوں ہو کر کھڑی ہو گئی۔ جب میر صاحب کی نظر پڑی تو اس کے چہرے سے سمجھے کہ اس کا بھی جی چاہتا ہے۔ کہا بی حرصہائی کیوں کیا ہے۔ اس نے دونوں ہاتھ بڑھا دیے اور کہا کہ ہمیں نہیں میر صاحب نے جلدی سے اسے بھی زانو پر بٹھا لیا۔ ننھی ننھی باہیں گلے میں ڈال کر وہ بھی لپٹ گئی۔ اب دونوں طرف سے میر صاحب گتھ گئے۔ کسی کام کے لیے رحمت ادھر سے گذریں۔ یہ رنگ دیکھ کر الٹے پاؤں پھریں اور زاکیہ، راضیہ کو بھی ٹھیل ٹھال اور ڈھکیل ڈھکال کر بھیجا۔ مجھ سے آ کر کہا کہ اس وقت میر صاحب خوب دل کھول کر لڑکیوں سے ماشاءاللہ پیار دلار کر رہے ہیں۔ میں نے صابرہ سے کہا کہ جاؤ تم بھی اپنی بہنوں کی شریک ہو جاؤ۔ پہلے وہ کچھ شرمائی پھر میرے کہنے سے رکتی تھمتی وہاں پہونچی۔ زاکیہ اور راضیہ دور سے کھڑی دیکھ رہی تھیں۔ جب میر صاحب کو ان کے آنسو بھری آنکھیں نظر پڑیں، بےتاب ہو گئے اور ان دونوں کو پاس بٹھا کر ان کو اشارے سے بلایا اور گود میں بٹھا کر ان کو بھی دل بھر کر پیار کیا۔ سب سے چھوٹی راضیہ تھی وہ رونے لگی
میر صاحب کا بھی دل بھر آیا۔ زاکیہ روئی، عالیہ، آمنہ نے بہنوں کا ساتھ دیا۔ صابرہ کھمبے سے لگی کھڑی تھیں، وہ روئیں۔ رحمت یہ دیکھ کر میر صاحب کے پاس گئیں اور چٹ چٹ بلائیں لے کر کہا کہ میں قربان جاؤں، بڑی صاحبزادی کو بھی گلے سے لگا لیجیے۔ میں بھی طیبہ کو انا سے لے کر وہاں جا پہونچی تھی۔ آڑ سے صابرہ کو اشارہ کیا۔ وہ خود برھی اور دوڑ کر قدموں پر لوٹنے لگی۔ یہ سیر بھی قابل دیکھنے کی تھی۔ میں بھی رینگتی ہوئی اب بالکل قریب پہونچ گئی۔ جب میر صاحب صابرہ کو بھی گلے سے لگا چکے تو میں نے طیبہ کو گرانا شروع کیا۔ جب وہ گود سے پلنگ کی طرف جھکنے لگی تو میں نےمیر صاحب سے کہا کہ ذرا اسے تو دیکھو۔ یہ اس وقت سے تمہارے پاس آنے کو لوٹی جاتی ہے۔ انہوں نے جو دیکھا تو دونوں ہاتھ لٹکائے وہ جھکی ہوئی تھی۔ جلدی سے اسے بھی مسکرا کر گود میں لے لیا۔ پھر سب کو باتوں میں لگایا۔ چاروں طرف ٹٹولا، کچھ نہ ملا تب صدوقچی سے روپیہ نکال کر ایک ایک روپیہ سب کو دیا کہ اس کی چیز کھانا۔ وہی ایک روپیہ طیبہ کو بھی دیا۔ سب نے خود سلام کیا۔ اس کا ہاتھ پکڑ کر میں نے سلام کرایا۔ اس دن سے خدا نے ان کے دل کو سب طرح کے وسوسوں سے پاک کیا اور شرم لحاظ برے وہم و خیال بالکل دل سے نکل گئے۔ تھوڑے ہی دن بعد پھر تو یہ معلوم ہوتا تھا کہ نہ وہ میر صاحب ہیں نہ وہ لڑکیاں۔ روز بروز عروج ہوا اور میر صاحب کی سرکار میں سن کے ساتھ ان کے مرتبے بھی بڑھنے لگے۔ ایک تو اپنے
بچے، دوسرے صاف شفاف نہائے دھوئے ہوئے، بھولی صورتیں، پیارے پیارے مکھڑے، مینڈھیاں گندھی ہوئیں، منا سا موباف پڑا ہوا، بالوں میں تیل، آنکھوں میں کاجل، نہ ناک میں رینٹ، نہ آنکھ میں کیچڑ، گلے میں ہیکل یا تعویذ، اس میں ننھے ننھے رومال بندھے ہوئے، نہ میل نہ کچیل، اجلے کرتے ٹوپیاں پائجامے پہنے، چھوٹی چھوٹی اوڑھنیاں اوڑھے مکان کو آباد کرتے پھرتے تھے۔ جس طرف جاتے تھے ک چھ رونق ہی اور ہو جاتی تھی۔ جب تک میر صاحب نے نہیں دیکھا تھا، نہیں دیکھا تھا۔ جب ان کا سامنا ہوا اور وہ اس ترکیب سے منہ لگے، ادھر تو خون میں جوش آیا، محبت پدری نے سر اٹھایا، ادھر ان کی صفائی اور ستھراپے نے پیار دلایا۔ درحقیقت بچوں کا بنا سنورا اور اجلا نکھرا رکھنا فقط ان کی صحت اور پھپھکنے ہی کا سبب نہیں بلکہ غیروں تک کو پیار دلانے کا ایک عمدہ ذریعہ ہے۔ ایک بات میں نے یہ بھی ضروری سمجھی کہ ان کے جوہر میرے صاحب پر کھل جائیں۔ سب سے زیادہ ماشاءاللہ ہوشیار صابرہ تھی۔ اس سے کہا کہ کبھی کبھار اپنے باپ سے جا کر اپنے سبق میں سے کچھ پوچھ لیا کرو۔ ان چاروں سے کہا کہ تم بھی اپنا سبق رٹتی ہوئی ان کے سامنے سے نکل جایا کرو۔ جب کھیلنا منظور ہو تو چاروں مل کر ان کے سامنے کھیلنا۔ یہ پٹی میں نے ایسی پڑھا دی تھی جس سے ان کی عزت بڑھنے کے علاوہ محبت کو بھی پختگی ہوئی۔ یا تو سامنے آنے کے روادار نہ تھے یا دو ڈیڑھ مہینے کے
اندر پھر تو لڑکیوں کا وہ چاہ ہوا کہ میرا آنکھ دکھانا اور ٹیڑھی نگاہ کرنا ان کی طرف میر صاحب کو برچھی کی انی معلوم ہوتا تھا۔ ایک دن عالیہ کو صابرہ نے سبق دیا۔ اونی بوٹ، جراب، گلوبند کے پھندے نکلوائے، ٹانکے بھروائے، جالی پر وضع ڈلوائی بعد اس کے کہا کہ یہ ٹکڑا رکھا ہے اس پر ایک سلک ابھارو۔ ناکے جوڑ بخیہ بھر جاؤ۔ اس نے کوئی بالشت بھر بنا کے کپڑا کہیں پھینک دیا۔ اپنے کاموں سے فرصت کر کے جب صابرہ سب کا امتحان لینے بیٹھی اور کاموں کا جائزہ ہوا تو بخیہ کا کپڑا نہ ملا۔ پوچھا کہا کہ میں بنا چکی ہوں مگر یہ یاد نہیں کہ اس کو کہاں رکھ دیا۔ صابرہ نے کہا کہ اگر تم سب چیزوں کو ایک جگہ رکھتیں تو وہ کیوں کھو جاتا۔ یہ تو آدھی کا کپڑا تھا اگر کوئی بیش قیمت چیز ہوتی تو کیا ہوتا۔ عالیہ قیمتی چیز کو ہم یوں پھینک کیوں دیتے (صابرہ) تو یہ کہو کہ جان بوجھ کر پھینک دیا۔ عالیہ چپ ہو رہی۔ صابرہ نے کہا کچھ نہیں تم نے اسے بنایا نہیں، ادھورا رہ گیا۔ ڈر کے مارے ملیا میٹ کر ڈالا کہ نہ ہوگا نہ کام سے جی چرانا کھلے گا۔ میں کچھ نہیں جانتی اگر بنایا ہے تو مجھے لا کر دکھاؤں۔ یہیں کہیں گرا ہو گا۔ گھر سے تو اڑ نہیں گیا۔ یہ باتیں ہو رہی ہیں کہ میر صاحب آئے اور پردے کے پاس ٹھٹک رہے۔ جب عالیہ ادھر ادھر دیکھ کر بیٹھ رہی تو صابرہ نے پوچھا کہ کپڑا ملا۔ کہا جی نہیں۔ تو وہ اتھی کہ بقچی سے اور کوئی ٹکڑہ نکال کر دوں، یہ سمجھی کہ مجھے مارنے کو آتی ہیں۔ نہیں باجی جان، میری بڑی باجی کہہ کر دونوں ہاتھ منہ پر رکھ کر رونا شروع کیا۔ آنکھیں تو
بےوقوف نے پہلے ہی بند کر لی تھیں۔ نہ یہ دیکھ سکی کہ ادھر آتی ہیں نہ یہ معلوم ہوا کہ اور طرف جاتی ہیں۔ بس بیبیوں اس کا رونا تھا کہ شیر کی طرح گہک کر میر صاحب گھرمیں آئے اور چیخ ماری کہ صابرہ اور عالیہ کیسی میں اچھل پڑی۔ صابرہ ادھر بقچی ادھر کھلی ہاتھ میں لے کر رہ گئی اور عالیہ اپنی جگہ دہل کر ہک دھک بھوچکا ہو گئی۔ مڑ کر جو دیکھتی ہوں تو میر صاحب ہیں۔ بےدیکھے بھالے غصہ تو کر بیٹھے اور گھر میں آئے بھی بہت جھپٹ کر مگر عالیہ کے قریب جو کسی کو نہ دیکھا آپ ہی کچھ شرمندہ ہو کر بیچ انگنائی میں کھڑے ہو گئے۔ ان کی خفت بہت جلد یوں ظاہر ہو جاتی تھی کہ غصہ فوراً جاتا رہتا تھا اور گردن جھکا لیتے تھے۔ ان کے چپ ہو کر سناٹے میں آ جانے سے میں نے دریافت کر لیا کہ ان کو ندامت ہوئی۔ اب باز پرس کا موقع ہے۔ جلدی کمرے سے باہر آئی اور اشارے سے انہیں بلایا (مزا یہ ہوا کہ عالیہ صابرہ دونوں اپنی اپنی جگہ سہم گئیں اور یہ نہ معلوم ہوا کہ خفا کس پر ہوئے ) جب وہ کمرے میں آ کر بیٹھے، میں نےمسکرا کر پوچھا کہ تم کیوں جھنجلائے کیا سمجھے۔ کہا میں سمجھا صابرہ عالیہ کو مارتی ہے۔ میں نے کہا اول تو میرے ہاں تعلیم و تربیت میں مار پیٹ کا طریقہ ہی نہیں ہے۔ دوسرے ادب دینے یا ڈرانے کے خیال سے اگر ایسا بھی ہوتا تو کیا استاد کا حق مارنے کا نہیں ہے۔ اپنا جی جلائے سر کھپائے صبح سے دوپہر تک اپنا وقت گنواتی ہے۔ آنکھیں پھوڑتی ہے۔ بھیجا پکاتی ہے۔ اگر اتفاقاً کبھی کبھار اسے بھی غصہ آ جائے
تو بندہ بشر ہے۔ سدا مزاج کسی کا یکساں نہیں رہتا۔ بچہ ہو کہ بوڑھا، پتہ سب رکھتے ہیں۔ آج تک سوا دم دلاسے کے اس نے تو تک نہیں کہا۔ بچاروں اور چمکاریوں سے کام نکالا۔ خواہ پڑھائے خواہ سکھائے، اس مزے سے بتاتی ہے کہ شوق بڑھتا ہے اور جی لگتا ہے۔ ذرا کسی روز تم چھپ کر اس کو پڑھاتے سنو۔ گو کہ ابھی وہ نا سمجھ ہے اور آٹھ نو برس کی عمر ہی کیا ہے۔ مگر محلے کی بڑی بوڑھی اور جوان عورتوں سے ماشاءاللہ ہنر میں، سلیقے میں دوگنی تگنی ہے۔ مجھے تو نہیں یاد پڑتا کہ اس نےعالیہ یا آمنہ کو کبھی مارا ہو۔ بڑی بڑائی غصے میں کبھی ہوئی اور اس سے کام بگڑا تو اتنا کہہ دیا کہ بہن اب تم مار کھاؤ گی۔ جب یہ کام تمہیں آئے گا ہم چاہتے تھے کہ اس کی نوبت نہ آئے مگر تمہیں خود ہی اپنی مرمت منظور ہے۔ چھوٹی بہنوں کے آگے ذلیل ہو گی۔ بہتر غیرت کو رخصت کرو اتنا کہنا اس کے لیے کافی ہو جاتا ہے۔ تھرا جاتی ہے۔ نہ وہ مار کی عادی نہ جھڑکیوں کی خوگر۔ جلدی جلدی اتنی سی بات پر جو کچھ ہوا یاد کر لیا اور بنا ڈالا۔ مار ڈھاڑ تو بےغیرت بچوں کے واسطے ہے، غیرت دار کے لیے اس کی کیا ضرورت۔ بھلے آدمی کو ایک بات بھلے گھوڑے کو ایک چابک۔ تم میرے اور لڑکیوں کے لیے چاہو مزاحم ہو، جسے چاہو منع کرو، لیکن بہر خدا بچوں کے بارے میں دخل نہ دینا۔ میں نے بڑے بڑے گھروں کی بیٹیاں بیاہ جانے کے بعد سخت مصیبت اور نہایت تکلیف میں مبتلا اور روز کی کاہشوں
میں گرفتار دیکھی ہیں جن میں کی اکثر ابھی تک تو نہیں پنپیں۔ گھونگھٹ الٹتے ہی زبان کھلی اور زبان کھلتے ہی پہلے ساس بہوؤں پھر میاں بیبیوں میں رد و بدل ضدم ضدا شروع ہوئی۔ آخر کو نہ بنی یہ اپنے گھر خوش وہ اپنے گھر خوش۔ آمد و رفت، پیام سلام، حصہ بخرا، ملنا جلنا سب موقوف۔ تال میل کے بدلے کٹم کٹا کی صید ہو گئی یا باپ مارے کا بیر میں نے جہاں تک اس کی وجہ دریافت کی، لڑائی کی ابتدا چھیڑ چھار کی بنا بہوؤں کی طرف سے ہوتی ہے۔ گو بعض گھروں میں اس کے خلاف بھی ہو۔ بہر تقدیر بہو کی طرف سے ہو، خواہ ساس کی جانب سے، دونوں کی کم علمی نادانی، وہم کے پتلے وسوسے کے بندے ہونے کا پورا ثبوت ہے۔ زیادہ خیال بہوؤں کی طرف جاتا ہے کیونکہ وہ سب شباب کی وجہ جوانی کے زور سے اپنا رعب داب پہلے روز بٹھانا چاہتی ہیں۔ اور اس کا ڈھنگ نہیں معلوم، نہ ادب جانیں، نہ قاعدہ، نہ ملنا آئے نہ بگڑنا۔ محبت ہے تو بےڈھنگی اور عداوت ہے تو کاواک بالشت بھر کا دل ہاتھ بھر کی زبان، نہ آنکھوں میں حیا نہ مزاج میں غیرت۔ ہنسی ہے تو بےانتہا، پکے انار کی طرح دانت نکلے پڑتے ہیں، رونا ہے تو بےحد ذرا یوں سےووں ہوا اور لگا ٹپکا ٹپکنے چشم نم کا ۔ نہ اولتی کی حقیقت ہے نہ ریتی کی، جلنے میں ڈیبا دیا سلائی کی بے آگ جلا لو، برسنے میں کالے بادل سے لڑا لو، غصہ ناک پر دھرا ہوا، مزاج میں گلوی نیم کی طرح بل کے ساتھ کڑواہٹ، وہم، وسوسہ، خبط ہر وقت گھیرے رہتے
ہیں برے بڑے خیال آٹھ پہر پیچھا نہیں چھوڑتے، اپنا اچھا کپڑا برا ، اور کا برا اچھا، کوئی شے آنکھ میں نہیں سماتی، بےڈینگ مارے بات کرنا نہیں آتی۔ میرے تو حواس اڑ گئے جب کل دوپہر کو ایک بہو کا قصہ سنا۔ اے لو بیری والے مکان کے اس طرف ایک رفوگر رہتے ہیں، ان کے لڑکے کی شادی ہوئی۔ بہو بیاہ لائے۔ چوتھی کے دوسرے ہی روز لڑکی نے رونا شروع کیا اور رونا بھی اس طرح سے کہ عابدہ نے کوٹھے پر سے سنا۔ دوسرے روز اس کے ساتھ جو عورت آئی تھی وہسائی کے ہاں سے ادھر بھی آ نکلی۔ عابدہ بیگم نے پوچھا کہ تمہارے ہاں روتا کون تھا۔ کہا بیوی لڑکی تھی۔ کہا کیوں روتی تھیں۔ بولی کہ اللہ رکھے (خفقانی) مزاج ہے۔ نئی دولہن ٹھہری۔ آدھی رات گئے آئے، اسے اور شبہ ہوا۔ جب اس پر ظاہر ہوا، حال کھلا اور قسم اقسام ہوئی، جب جا کے اس کا دل ٹھہرا۔ آج میری بچی نے چار نوالے کھائے۔ بیوی لڑکا بھی بڑا غریب ہے۔ نہیں اس زمانے میں کون کسی کی سنتا ہے۔ روتی ہو رویا کرو، اپنے دیدے کھویا کرو۔ عابدہ سنا کی ، منہ دیکھا کی۔ جب وہ چلی گئی تو بڑی دیر تک مجھ کو اس کی باتوں پر ہنسی آیا کی اور علی الخصوص خفقانی مزاج کے ساتھ اللہ رکھے والے فقرے پر ۔ ایک ہفتے میں سبھی کچھ تو ہو گیا۔ چالے نہیں ہونے پائے شبہ بیچ میں کود پڑا۔ خدا کی شان ہے اب زمانے نے یوں پلٹا کھایا۔ ایک وہ دن تھا کہ دولہنیں ساس
سسرے کیسے اور میاں کہاں کے اپنی نندوں تک سے بات نہیں کرتی تھیں اور پھر مدتوں تک۔ ایک یہ دن آئے کہ بیاہ آتے ہی دباؤ ڈالے جاتے ہیں، قرق بٹھایا جاتا ہے، قسم اقسام ہوئی، توبہ کرائی، آپ ہی بگڑیں، آپ ہی ملیں، آپ ہی روئیں دھوئیں، آپ ہی جاگیں، آپ ہی سوئیں۔ تقدیر کے لکھے کی تو کیا خبر اور نہیں معلوم نصیبہ کیسا ہو لیکن تامقدور اس راہ رویہ پر لڑکیوں کو لگا دینا چاہیے کہ شادی کے بعد اپنا یا بیگانہ عزیز ہو کہ غیر کوئی الزام نہ دے، نام نہ رکھے۔ جب کوئی منصف مزاج بیچ میں پڑے اور دور پار چھائیں پھوئیں لڑائی بھڑائی کچھ ہو تو لڑکیاں بےخطا نکلیں۔ میں نے ابتدا اس ان کی تعلیم اور تربیت اسی ڈھنگ سے کی ہے کہ اس زمانے کی لڑکیوں کی طرح سے یہ کھل نہ کھیلیں۔ ان شاء اللہ ان کی شادی کے بعد اگر میں جیتی رہی تو امید کرتی ہوں کہ مجھ تک ان کی شکایت نہ آئے گی۔ بلکہ جو ان کی سسرات والا آئے گا شکر گزار آئے گا اور دعائیں دیتا جائے گا۔ یہ میری تعلیم کی تعریف نہیں ہے بلکہ جناب استانی صاحبہ کی تربیت کا اثر اور ان کی زبان کی برکت ہے (میر صاحب) کون استانی۔ میں نے کہا استانی فاطمہ بیگم۔ میر صاحب۔ تو ہاں ان کی تعلیم کی برکت کیا ہے اور زبان کا اثر کیسا ہے۔ میں نے کہا ان لڑکیوں میں جو جو نیک خصلتیں اور اچھی اچھی عادتیں ہیں انہیں معظمہ سے میں نے سیکھیں اور مجھ سے ان سب نے۔ آخری وقت انہوں نے ایک وصیت نامہ لکھا تھا
جس کو میں نے داخل وظیفہ کر لیا ہے۔ بعد نماز روز اس کو پڑھتی ہوں تاکہ اس کے مطلب میرے دل سے نکلنے نہ پائیں۔ پھر صابرہ کو بلا کر جاءنماز منگوائی اور وہ کاغذ نکال کر دیا۔ میر صاحب نے اس کو بڑے غور سے دیکھا اور کئی دفعہ پڑھا۔ نہایت تعریف کر کے کہا کہ مجھے اس کاغذ کے دیکھنے سے ان کے ساتھ دلی محبت ہو گئی ۔ درحقیقت عجب قابل بی بی تھیں۔ تو ہاں کیا تم نے ان سے کچھ پڑھا بھی ہے۔ میں نے کہا کچھ کیا جو کچھ پڑھا، انہیں سے پڑھا۔ اباجان سے فقط انوار سہیلی اور اخلاق محسنی پڑھی۔ پہلے انہیں نے پڑھایا۔ قرآن مجید ، دو چار اردو کی کتابیں، مسئلے مسائل، نماز روزے کے رسالے، اس کے بعد قرآن مجدی یاد کرایا، لگے ہاتھوں ضروری کام بھی سکھاتی گئیں۔ کوئی دو تین برس سے میں پڑھ رہی تھی کہ ان کے چچا مولوی حافظ یوسف علی صاحب آئے اور قرآن مجید کا امتحان لے کر ایک قلمدان مع ساز و سامان اور عمدہ جلد کی دو کتابیں (انوار سہیلی اور اخلاق محسنی) جو انہوں نے اپنے ہاتھ سے لکھی تھیں، مجھے عنایت کیں۔ وہ کتابیں اور قلمدان مولوی صاحب کی نشانی اور یہ کاغذ استانی جی کی نشانی میں نے بڑی احتیاط کے ساتھ اپنی جان سے لگا رکھی ہیں۔ بزرگوں کی دی ہوئی چیز کی قدر و منزلت کرنا چھوٹوں پر فرض ہے۔ میر صاحب۔ ذرا ہم بھی دیکھیں۔ صابرہ الماری کھول کے کتابیں اور قلمدان نکال لائیں۔ اسے دیکھ کر کہا کہ افسوس تمہارے جوہر ہم سے بالکل چھپے ہوئے تھے
آج تک ہم نے جس عزت سے تمہیں دیکھنا چاہیے تھا، نہیں دیکھا۔ اور جو قدر و منزلت تمہاری واجب تھی، نہیں کی۔ اس وقت نہایت انکسار کے ساتھ ہم تم سے عفو کے طلبگار اور معافی کے امیدوار ہیں۔ اسی کے دوسرے روز متفرق جگہ سے کلام مجید سنا اور مصافحہ کیا۔ پھر نہایت خوش ہو کر کہا اس کےبھید تو کوئی کیا جانے گا مگر ظاہر اسباب ہماری عقل ناقص میں جو بات اس وقت آئی ہے وہ یہ ہے کہ اگر تمہارے یہاں لڑکیاں نہ ہوتیں تو یہ جوہر ذاتی تمہارے بالکل ظاہر نہ ہوتے۔ سچ ہے ع ہر کسے را بہر کارے ساختند۔ یہ کہہ کر میر صاحب اٹھے، کمرے سے باہر جانے کو مڑے ہیں کہ ادھر سے عالیہ کو (اخبار النساء کا پرچہ لیے ہوئے) آتے دیکھا۔ جیسے ہی باجی جان باجی اماں کرتی وہ سامنے آئی کہ میر صاحب نے وہ اخبار اس کے ہاتھ سے لے لیا۔ یہ اخبار دلی میں چھپتا تھا اور ایسا صاف ستھرا چھپتا تھا جس کو دیکھ کر پھر ہاتھ سے رکھنے کو جی نہیں چاہتا تھا۔ عورتوں کی زبان، انہیں کے محاورے، انہیں کے مضمون۔ کیا بتاؤں کیا اچھا اخبار تھا۔ پھر ویسا اخبار دیکھنے میں نہیں آیا۔ میر صاحب نے اول سے آخر تک ااس اخبار کو بہت دل لگا کے پڑھا۔ اس میں ایک مضمون کے نیچے میرا نام لکھا تھا۔ میر صاحب اسے دیکھ کر مسکرائے اور اخبار تمام کر کے مجھ سے کہا کہ دیکھو تمہاری کسی ہمنام نے کیا عمدہ مضمون لکھا ہے۔ عالیہ جھٹ سے بول اٹھی کہ واہ ہماری امی جیتا ہی نے تو لکھا ہے۔ ہمنام کیسا ۔ باجی جان
ہم سے کہہ چکی ہیں۔ میر صاحب میری طرف پھرے اور کہا کہ سچ کہو یہ مضمون تم نے لکھا ہے؟ یا اس سے یوہیں کہہ دیا۔ میں نے کہا کہ جھوٹ کہنے سے کیا فائدہ۔ بچہ ہو یا بوڑھا ہر ایک سے سچ بولنا چاہیے۔ میر صاحب ۔ تو یہ مضمون تمہارا ہے؟ میں نے کہا ہاں۔ یہ سن کر پھر وہ مضمون دشمنی کی نگاہ سے پڑھ کر بقسم کہا کہ خوب لکھا۔ میں نے کہا ایک پنتھ دو کاج ہونے کے علاوہ یہ تو دیکھو کہ میں نے اس میں اپنے دل کی بھڑاس کس خوبی سے نکالی ہے اور ساری دنیا کی بہو بیٹیوں کو ایک قسم کی نصیحت کس طرح سے کی ہے (میاں بیوی میں لڑائی کیا) اس مضمون کی سرخی تھی۔ جس وقت میر صاحب نے اخبار مجھ تک پہونچنے کا سبب پوچھا تو میں نے کہا کہ جب استانی جی نے انتقال کیا تو ان کی مفارقت کے صدمے اور الجھن میں میرا عجب حال تھا۔ زیادہ بےچینی اس کی تھی کہ نہ میں روئی نہ دل کی آگ کم ہوئی۔ کلیجہ سلگ رہا تھا اور دنیا خاک معلوم ہوتی تھی۔ اسی تلملاہٹ میں منہ سے کچھ لفظ نکلے جو موزوں تھے۔ اباجان کو دکھائے انہوں نے فرمایا کہ مجھے تو دخل نہیں میرے ایک دوست ہیں دیکھو میں ان کے پاس بھیج کر ان کا عیب صواب دریافت کیے لیتا ہوں۔ یہ کہہ کر اپنے رقعے کے ساتھ وہ شعر میری حالت سمیت منشی مرزا محمد عباس حسین صاحب ہوش کی خدمت میں بھیج دیے۔ وہ انہیں لیے ہوئے اباجان کے پاس آئے اور اس پر ایک غزل کہہ دی جو میری تسکین کے لیے بہت بڑا سبب ہو گئی
میرا تخلص لکھ کر اباجان کو ایک کتاب سمیت دی (جس میں شاعری کے قاعدے لکھے تھے) اور کہا کہ پہلے اس کتاب کو سرے سے پڑھ جائیں پھر شعر کہیں۔ موزوں طبع ہیں بہت جلد کہنے لگیں گی۔ جب وہ میرے استاد ہو چکے تو میں نے ایک مناجات کہی جو حصۂ اول کے آخر میں ہے۔ پھر رباعیاں موزوں کیں، پھر سبیل نجات لکھی، پھر پانچ چار مضمون استاد صاحب کی فرمایش سے لکھے گئے اور انہیں کی معرفت اخبار والوں کو پہونچے۔ تھوڑے دن ہوئے کہ ایک کاغذ پر کچھ ردیف قافیے لکھ کر مجھے بھجوائے تھے جس پر غزلیں کہنے کا حکم تھا "نت نئے رنگ بدلتا ہے زمانہ کیا کیا" اور ماتم کیسا غم کیسا اور "جو جو تقدیر دکھائے گی وہ ہم دیکھیں گے" اور دو آگ ہمسایۂ درویش سے ہر گز تو نہ مانگ، گھر سے جو اٹھتا ہے اس کے وہ دھواں ہے دل کا۔ اور غزلیں تو میں نے کہہ لیں مگر آخری غزل یوہیں پڑی رہی۔ بیچ میں اور ایک بات ذہن پر چڑھی جس کو بڑی دقت سے مرتب کر کے تمام کیا اب تمہارے ذریعے اور صلاح سے وہ کتاب ان کی خدمت میں بھیجنے کو تھی لیکن وقت نہ ملا اور تمہارے منہ نہ لگانے سے حوصلہ نہ پڑا۔ اس کا تو یہ وقت بدا ہوا تھا۔ اب فرصت کے وقت اسے لیے چلے جاؤ تو بڑی بات کرو۔ زکیہ کے مرنے کی تاریخ اس غزل کے شعر اور کتاب استاد صاحب
کو دے آؤ۔ میر صاحب ذریعہ تک تو خیریت ہے مگر میری صلاح کی کیا ضرورت ہے۔ میں نے کہا کہ اس کتاب کے دوسرے حصہ میں میرا تمہارا اور تمہارے گھر کا سارا حال ہے۔ اس لیے مشورے کی ضرورت ہے۔ میر صاحب نے یہ سن کر وہ کتاب مانگی۔ صابرہ نے میری بیتی کہانی ان کے آگے رکھ دی۔ اسے دن بھر پڑھا کئے۔ جب کتاب ختم ہوئی تو صابرہ کو پکارا۔ جب وہ حاضر ہوئی تو شفقت سے اس کی طرف دیکھ کر کہا کہ تمہاری اماں جان کے ہم بڑے خطاوار ہیں۔ کہہ سن کر ہماری خطا نہیں بحل کرا دیتیں۔ پہلے تو وہ لحاظ سے چپ ہو رہی ان کے مصر ہونے پر پھر یہ جواب دیا کہ یہ آپ کیا فرماتے ہیں۔ آپ اور خطاوار ہوں یہ بات کچھ میری سمجھ میں نہیں آتی۔ پہلے اس خطا کا حال تو کھلے جو آپ کے دشمنوں سے سرزد ہوئی ہے (میر صاحب) اے ایک یہی خطا کیا کم ہے کہ جس رتبہ اور لیاقت کی وہ ہیں اور جیسی قدر و منزلت ان کی چاہیے تھی وہ ہم سے نہیں ہوئی (صابرہ) اگر آپ ان کے مرتبہ اور عزت کو جانتے ہوتے تو البتہ ایسا خیال ہو سکتا تھا اور جب آپ اس سے بالکل ناواقف تھے تو بےخطا بھی ہیں۔ بلکہ میرے نزدیک اماں جان خود آپ کی خطاوار ہیں۔ ایک یہی قصور ان سے کیا کم سرزد ہوا کہ جس جوہر و خوبی کا ظاہر کرنا ان پر فرض تھا اس کو انہوں نے چھپایا۔ میں ہاتھ جوڑ کر عرض کرتی ہوں کہ آپ خود ان کا یہ قصور بخش دیجیے۔ یہ سننا تھا کہ میر صاحب نے واہ واہ کہہ کر اس کو گلے سے
لگایا اور کہا کہ ارے میری جان یہ تو باتیں کر رہی ہے یا معاذ اللہ کوئی ولی خدا ہے۔ خدا تجھے خوش رکھے اور نظر بد سے بچائے۔ اس روز سے صابرہ کا بھی سکہ ان کے دل پر بیٹھا۔ میرا نقش تو پہلے ہی جم چکا تھا۔ تھوڑی دیر بعد میر صاحب صابرہ بیگم کو ساتھ لیے میرے پاس آئے۔ اس کی تعریف کے ساتھ میری بھی بہت کچھ توصیف کر کے کہا کہ یہ کتاب تم نے نہیں لکھی بلکہ میرے دل کی آرزو پوری کی۔ خداتمہیں جزا دے۔ سبحان اللہ ، ماشاء اللہ تمہاری ذہانت کی تعریف نہیں ہو سکتی۔ ایک بات میرے نام کی بابت بےشک مشورہ طلب تھی وہ بھی تم نے خود ہی نکال ڈالی۔ اب نہ میرا نام ہے نہ میری صلاح کا کام بلکہ میرے نزدیک صلاح کیسی، اصلاح کی بھی کچھ حاجت نہیں معلوم ہوتی۔ اگر تمہاری مرضی بھی ہو تو وہ غزل اور تاریخ جہاں مناسب جانو اسکتاب میں ضرور شامل کر دو۔ ان کی خاطر سے اسی وقت میں نے دونوں چیزیں لکھ کر کتاب انہیں یہ کہہ کر واپس دی کہ اگر ایک نظر مرزا ہوش صاحب بھی دیکھ لیں توکوئی مضائقہ نہیں۔ تم ضرور لے جاؤ۔ کہا بہتر۔ جب کتاب جا کر اصلاح ہو آئی اس وقت میں نے میر صاحب سے کہا کہ دیکھوں کس قدر اصلاح کی ضرورت نکلی، کیا کیا بڑھا اور کس قدر کم ہوا اور اسی کمی کرنے میں استاد صاحب نے اپنی غزل بھی نکال ڈالی۔ یہ سن کر دوبارہ اول سے آخر تک کتاب دیکھ کر کہا کہ درحقیقت ایسے لکھنے والے کے لیے
ایسا استاد بھی چاہیے تھا۔ گو انہوں نے وہ غزل نکال ڈالی ہے لیکن تم ضرور لکھ دو۔ ان کی خاطر سے میں نے اس شرط پر یہ کہنا قبول کیا کہ تم مرزا صاحب سے اجازت لا دو تو کیا مضائقہ۔ وہ فرض کر کے پھر اسی دن گئے اور ان سے کاغذ لکھوا لائے۔ اب ملاحظہ فرمائیے وہ غزل یہ ہے۔
کھیلتی کھاتی پالی پوسی ایک لڑکی جب میرے ہاتھ سے جاتی رہی تو میں نے اس کے مرنے کی ایک تاریخ کہی جس میں زبانی غم کا اظہار معلوم ہوتا ہے لیکن چاروں مصرع پڑھنے سے غم کے بدلے ایک طرح کی خوشی بھی پائی جاتی ہے اور وہ قطعہ تاریخ یہ ہے
قطعہ تاریخ
میری پیاری نے انتقال کیا
کم ہے جو طاہرہ تجھے غم ہو
لکھ دعائیہ سال منقوطی
داخل قصر خلد 2-13 جم جم ہو
القصہ فضل خدا اور بزرگوں کی دعا سے میں نہایت امی جمی سے ہنسی خوشی رہنے لگی۔ نہ مزاجوں کا اختلاف تھا نہ طبیعتوں کی مخالفت۔ دو دل ایک نہیں ہو سکتے، میرے گھر میں پندرہ سولہ دل اس طرح ایک تھے جیسے توڑے میں روپیہ یا خاندان میں عزیز ایک دوسرے کی باتوں سے خوش۔ ایک ایک کے کام سے راضی۔ نہ جھگڑا نہ فساد، نہ بیر نہ عناد، نہ زور نہ ہٹ، نہ کد نہ کاوش۔ بڑوں کے حکم سے چھوٹوں کی خوشی، چھوٹوں کی خوشی سے بڑوں کو غرض۔ نہ مزاج مخالف، نہ زبان برخلاف۔ ایک سے دوسرے کا دل
صاف تھا۔ گھر تھا کہ آئینہ کانہ، مکان تھا کہ عشرت کدہ، گلشن اتفاق کا پھولا ہوا، ہر ایک زمانے کی روش پر چلنا بھولا ہوا۔ سب کو اپنے کام سے کام، ایک کی راحت سے دوسرے کو آرام۔ زندگی میں بہشت کا مزا ملا کیا، ایک دوسرے کو راحت دیا کیا۔ صبح شام لطف و مسرت میں بسر ہوئی۔ دو ڈھائی برس بعد صابرہ کی شادی ٹھہری۔ پہلی بچی کے پروان چڑھنے کا خدا نے زمانہ دکھایا۔ ختم کتاب کا بہانہ ہاتھ آیا۔ میرا وعدہ پورا ہوا۔ اب اپنے بچوں کی شادی میں پھنسوں گی۔ اس لیے آپ صاحبوں سے رخصت لیتی ہوں۔ اور بندگیاں کر کے یہ نذر دیتی ہوں ۔ لے خدا حافظ ۔ کہیے قبول کیا۔
رباعی
پورا ہوا صد شکر ارادہ میرا
ضائع نہ ہوا وقت زیادہ میرا
کیا طرفہ دکھائی اس کی قدرت نے بہار
سو رنگ اور اک خیال سادہ میرا
خاتمہ الطبع از جانب مصنفہ
قربان اس خدائے پاک کے جس نے اپنے فضل و کرم سے اس کتاب کو اتمام پر پہونچایا اور مجھ کو بھی صاحب تصانیف بنایا۔ اور نثار احمد مختار و حیدر کرار کے جن کے صدقے میں میں نے یہ فیض پایا۔ مجھے امید ہے کہ میری پیاری بہنیں جب اس کتاب کو پڑھیں گی تو مجھے دعائے خیر سے ضرور یاد کریں گی اور خدا رکھے میرے استاد کو جن کے طفیل مجھے یہ نعمت ملی ہے۔ ہزاروں دعائیں دیں گی۔ اچھا لو خدا حافظ۔ تم سب کو امام ضامن کے سپرد کرتی ہوں۔ اگر زندہ رہی تو پھر ملوں گی۔ ورنہ میرا کہا سنا معاف کرنا۔ فقط
یہ مسئلہ مسلم الثبوت ہے کہ امر تعلیم میں مرد اور عورت کا حق برابر ہے۔ اور ولی دختر پر فرض ہے کہ مثل پسر کے اس کی بھی تعلیم میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہ کرے۔ ورنہ اگر لڑکی جاہل رہی تو بعد رشد اس کے امور دین میں جو جو خرابیاں پڑیں گی اور جس قدر نقائص واقع ہوں گے ان سب کا مظلمہ اس کے ولی کی طرف عائد ہو گا۔ بلکہ اس کا مشغول الذمہ اور جواب دہ پیش خدا قرار پائے گا۔ لڑکی جب علم سے بےبہرہ ہے تو اگر اس کو اپنے امور دین کی بابت کسی مسئلہ کا خیال بھی آئے تو اس کی حقیقت کے دریافت کرنے میں کیونکر کامیاب ہو۔ پردہ نشیں ہے کسی عالم کے پاس جا نہیں سکتی۔ باپ چچا وغیرہ اپنے مردان محارم سے کیونکر پوچھے، شرم دامن گیر ہے۔ ماں خالہ وغیرہ سے مسائل کے بتانے میں کس طرح مدد ملے۔ وہ بیچاریاں مثل اس کے خود جاہل ہیں۔ بموجب مثل ع او خویشتن گم است کرا رہبری کند۔ دیکھو کیسے غفلت کے پردے مردوں کے دید ہائے بصیرت کے سامنے پڑ گئے اور کیسی دلوں میں الٹی سما گئی کہ پڑھانے لکھانے سے عورت کی بیش بہا عفت میں نقصان آ جائے گا اور خاندانی عزت و شرافت میں خلل واقع ہو گا۔ یہ خیال محض غلط ہے کیونکہ جس قدر جہالت میں ارتکاب جرائم کا خوف ہے، علم میں ہر گز نہیں
جب جرم کو جرم ہی نہ جانا اور اس کی پاداش و مکافات کی خبر ہی نہیں تو پھر اس سے احتراز کس لیے ہو گا۔ عورت بیچاری کو مردوں سے زیادہ تعلیم کی ضرورت ہے کہ اس پر مذہب مقدس کی طرف سے نو برس کا سن پورا ہوتے ہی نماز و روزہ واجب ہو جاتا ہے۔ پس جب اس کو اس سن سے بوجہ تعلیم کے نماز پڑھنے کی تاکید اور ترک نماز کی عقوبت و تہدید معلوم ہو گی تو اس کم سنی کی عادت عبادت کیسا طبیعت ثانی کا مزاج حاصل کر کے آکر عمر تک اس کا ساتھ دے گی۔ اور بموجب آیت قرآنی "ان الصلوٰۃ تنہیٰ عن الفحشاء و المنکر" ارتکاب جرائم سے باز رکھنے میں کیسی مدد کرے گی۔ رہا عذر کم مایگی کہ نادار جاہل لوگ اپنی اولاد اناث کو کیونکر تعلیم دلوائیں، سو بفضلہ اس عہد دولت مہد جناب معلیٰ القاب قیصرہ ہند دام اقبالہا و زاد اجلالہا میں یہ عذر بھی مرتفع ہو گیا کہ متعدد مدارس تعلیم نسواں جاری ہو گئے اور مصنفان عالی شان کا شکریہ کہ صد ہا کتابیں خاص تعلیم نسواں کے لیے تصنیف ہو کر شائع ہو گئیں۔ حق تعالیٰ ہم لوگوں کے دلوں میں شوق تعلیم نسواں کا جو مذہب کی رو سے بھی ہم پر فرض ہے، علیٰ العموم پیدا کر دے کہ گھر گھر تعلیم کا چرچہ پھیل جائے اور ہر عورت کوئے جہالت سے نکل کر شاہراہ علم پر آ جائے۔ پھر تو کچھ مشکل ہی نہیں ہے کیونکہ ہر ایک ماں اپنی لڑکیوں کی تعلیم میں اپنے گھر ہی میں معلمہ کا کام دے گی اور دوسری جگہ بھیجنے کی ضرورت باقی نہ رہے گی۔ طریق تعلیم یہ امر ہے لڑکیوں کو
کہاں تک تعلیم دی جائے جو ان کے بکار آمد ہو۔ یہ باختیار اس کے ولی اور لڑکی کے شوق کے ہے۔ جہاں تک پڑھے گی بہتر ہے مگر ہمارے نزدیک اس سے تو کم تعلیم نہ ہو کہ لڑکی اپنے عقائد مذہبی سے اچھی طرح واقف ہو جائے اور خط کتابت میں اتنی ہو جائے کہ بلا مدد غیرے خط لکھ لے اور پڑھ لے۔ خط کا لکھ لینا اور پڑھ لینا بھی ضروری بات ہے۔ فرض کرو اس کا شوہر سفر میں ہے، پس وہ اس کو اور یہ اس کو حالات خفیہ سے اطلاع دینے میں قاصر ہیں اور اگر دیتے ہیں تو دوسرا پڑھنے والا مطلع ہوا جاتا ہے۔ پس یہ بہتر ہے کہ لڑکی کو الف بائے فارسی پڑھا کے جس کتاب کو ہم بتائیں وہ پڑھا دیجیے۔ اس کے بعد کتب مذہبی پڑھائی جائیں۔ جو کتاب ہم بتائیں گے وہ ایسی نہیں ہے جس سے لڑکی کو فقط نوشت و خواند میں مہارت ہو گی۔ نہیں نہیں اس کتاب کو ہم نے کل کتابوں سے جو تعلیم نسواں کے لیے آج تک تصنیف ہوئی ہیں، ہر امر میں منتخب کیا ہے۔ اس کتاب کو پڑھا اور دنیا بھر کی باتیں مثل تہذیب، عمدہ چال چلن، طریق نشست و فرخاست، حسن معاشرت، سینا پرونا، امورِ خانہ داری، انجام بینی، کفایت شعاری، طریق گفتگو وغیرہ وغیرہ کی حاصل ہو گئیں۔ یہ کتاب خاص عورتوں کے محاورے میں ہے۔ وہ محاورہ جو اردوئے معلیٰ کو شرماتا ہے اور خاص لکھنؤ کی شریف زادیوں اور امیر زادیوں کی بول چال ہے۔ لطف بیان اس کتاب کا ایسا ہے کہ اگر ایک صفحہ اول کا کوئی پڑھ لے پھر کیا ممکن ہے کہ بغیر تمام کتاب پڑھے
دل کو تسکین تو ہو۔ ظاہر میں تو اس کتاب کی مصنفہ معظمہ نے اپنی سوانح عمری بیان کی ہے جو دلبستگی کا وسیلہ ہے اور باطن میں ہزاروں طرح کی نصیحتوں کا مجموعہ ہے جس کی عمدگی سوائے مطالعہ کے بذریعہ تحریر ادا نہیں ہو سکتی۔ نام اس کتاب فیض انتساب کا عریضۂ طاہرہ و صحیفۂ نادرہ المشہور افسانۂ نادر جہاں ہے۔ مصنفہ مخدرہ کا نام نامی و اسم گرامی عفت مآب عصمت قباب عالمہ فاضلہ جناب طاہرہ بیگم المقلب بہ نواب فخرالنساء نادر جہاں بیگم صاحبہ ہے۔ حق تعالیٰ حضرت مصنفہ ممدوحہ کو اس محنت تصنیف کی جزائے خیر دنیا و عقبےٰ میں عطا فرمائے اور اپنے فضل و کرم سے ان کی مرادات دلی بر لائے اور عمر خضر عطا کرے۔ ہم نہایت سچے دل اور خالص اعتقاد سے ان مخڈرہ معظمہ نعنی مصنفہ ممدوحہ کا شکریہ ادا کرتے ہیں کہ ان کی اس محنت تصنیف اور مشقت تالیف کا بار احسان تمام ہندوستان کی شریف زادیوں اور خاتونوں پر ہے اور ان پر فرض ہے کہ مصنفہ ممدوحہ کے واسطے شب و روز درگارہِ جناب باری میں دست بہ دعا رہیں۔ بموجہ آیہ شریفہ "ھل جزاء الاحسان الاالاحسان" الحمد للہ کہ یہ کتاب نایاب بحصول حق تصنیف از مصنفہ ممدوحہ نہایت آب و تاب سے مطبع نامی و گرامی مشہور نزدیک و دور منشی نولکشور واقع لکھنؤ میں بار سوم حسب ایمائے منشی بشن نرائن صاحب مالک مطبع بابو موہن لال صاحب منیجر بک ڈپو نے بماہ ستمبر 1917ء مطابق ماہ زیقعد 1335 ہجری چھپوا کر شائع کی۔
اعلان۔ حق تصنیف اس کتاب کا بحق نولکشور پریس محفوظ و محدود ہے۔
صفحہ 284
اور سسرے سے اُن کی خوبیاں نیکیاں سیرت غیرت کا حال ضرور کہہ دیجیے گا تاکہ ایک عزت و وقار اُن کا اُن کی نگاہوں میں زیادہ ہو مگر نانا باوا نے مطلق ذکر نہیں کیا یا بھول گئے یا مصلحت سے نہیں لے سکتے اور کیوں کر بیاہ گئے جیسے معمولی دولہنیں بیاہ جاتی ہیں نہ ہمارے ہنر ظاہر کیے گئے نہ فن نہ ہمارے جوہر کھولے گئے نہ اوصاف ہماری سسرال والوں میں بھی باجا گاجا ریت رسمیں ٹونے ٹوٹکے نہیں ہوتے تھے اور نہ مہر لمبا چوڑا ہزاروں لاکھوں کا بندھتا تھا اس سے شادی کے اندر اور اس سے پہلے کسی طرح کی بےلطفی اور شکر رنجی نہیں ہوئی سب کچھ ہنسی خوشی طے ہو گیا چوتھی چالوں تک بھی خیریت رہی سب سے پہلے ہماری ساس نے عابدہ بیگم کا نام ٹمکنا رکھا اور کہا کہ اوئی بیوی یہ انوکھی دلہن ہے کہ گھر سے پٹھو ساتھ لے کر آئی ہے نہ بڑوں کو اس بات کا عیب سوجھا نہ چھوٹوں کو نئی ناون اور بانس کی نہرنی مہینہ ڈیڑھ مہینہ شادی کو ہو گیا اب صنچی سے نکلیں گھونگھٹ اُٹھائیں اُسی سے کیوں فرصت ملنے لگی جو اور کسی کے مرنے جینے کی خبر لیں گی رحمت اور اعجوبہ میرے ساتھ آئی تھیں۔ اُنہوں نے مکرر اُن سے یہ باتیں سنیں اور ٹال ٹال دین جب اُنہوں نے دیکھا کہ کسی طرح ان کو خبر ہی نہیں ہوتی تو فرض کر کے بطور پیغام صنچی کے پاس آ کر مجھے سنایا اور غیرت کی بہت کچھ تعریف کی میں نے
صفحہ 285
رحمت اور اعجوبہ سے کہا اُنہوں نے اقبال کیا کہ جی ہاں ہمیں بھی سنا کر کہا تھا لیکن ہم نے غیبت کی راہ سے نہیں دہرایا میں نے کہا کہ تم نے کسی کا نام نشان نہ لیا ہوتا اطلاع دے دیتیں تاکہ میرے کان کھل جاتے بات نہ بڑھتی آج اُنہوں نے عاجز ہو کر چبوترے پر کھڑے ہو کر کہا خبردار کل سویرے اُٹھکر امان جان پاس جانا اور ان سے کام پوچھ کر مجھے کہنا دو چار روز تو یہ ہوا کہ رحمت اعجوبہ کوئی چلا گیا انہوں نے ٹھنڈےپیٹوں بتا دیا انہوں نے ہنسی خوشی کام کر دیا پانچویں یا چھٹے روز جو اعجوبہ پوچھنے جاتی ہیں بگڑ گئیں اور غصے سے کہا کہ واہ جب دیکھو ایک بلا سر پر نازل میری بلا یہ سزا ولی اُٹھائے گی نماز پڑھ کر تہ دل سے نہ بیٹھنے پائی نہ پان کھایا نہ ہوش درست ہوئے نہ حواس کہ ایک نہ ایک چرخہ آ موجود صندوقچہ کھولو سبق پڑھاؤ کہا نکا روز کا جھگڑا نکالا ہے چولھے میں جائے گھر اور بھاڑ میں جاؤ تم اعجوبہ اُس وقت ٹل آئیں تھوڑی دیر بعد پھر پہونچیں بارے پان وان کھا چکنے سے ذرا طبیعت بحال تھی کہا بی بھسکو منہ اندھیرے آ کر تقاضا نہ کیا کرو اس وقت طبیعت بے قابو ہوتی ہے اُنہوں نے کہا بہت اچھا دوسرے دن وہ بیٹھی دیکھا کیں جب انہیں سب کا موں سے فرصت ہوئی ۔ انہوں نے جا کر کنجیاں دکھلا کر ہاتھ پھیلائے کہ گوشت ترکاری کے پیسے دیجیے اُن کی کنجیاں ازاربند سے کہیں کھل پڑی تھیں غصہ تو اُس کا تھا ہی اُن کا مانگنا بہت برا لگا تن پھن تو ہو ہی رہی تھیں نہ آنکھ چار کی نہ ان کی طرف دیکھا ازاربند پھر ٹٹول کے صندوقچی لی
صفحہ 286
اور انگنائی میں پھینک دی کہ لو بس اب تو کلیجے میں ٹھنڈک پڑی وہاں شیشیاں چورا ہو گئیں عطر خاک میں ملا صندوقچی کئی جگہ سے ٹوٹ گئی پٹرا الگ ہو گیا یہاں یہ بیچاری ہاتھ کھینچ کر سناٹے میں (کہ یہ ہوا کیا میں تو کنجیاں دیتی تھی انہیں غصہ کس بات پر آیا) بڑی دیر تک کھڑی رہیں پھر کہا کہ بیگم صاحب دیکھیے یہ کسی کی کنجیاں پیخانے میں گر پڑی تھیں میں دُھو کر اُٹھا لائی ہوں انہوں نے ہاتھ بڑھا کر کنجیاں لیں اور دیکھ کر ماتھا کو ٹا کہ اے ہے تم غارت ہو جاؤ کنجیاں لیے کھڑی رہیں اور میری صندوقچی چکنا چور کروا ڈالی موئی چھچھوندر وں اعجوبہ بیوی میں تو ملنے کے ساتھی دینے کو لائی فقط دھونے میں جو کچھ کہیے وہ دیر ہوئی ہاتھ پھیلائے دے رہی ہوں آپ نے نہ دیکھا بھالا گوشت ترکاری کا نام سن کر صندوقچی پھینک دی میری کیا خطا آپ یہی کہتیں کہ کنجیاں نہیں ہیں کوئی تدبیر کی جاتی صندوقچی پھینکنے سے کیا حاصل ہوا یہ سنتے ہی کھڑی ہو گئیں اور میرا نام لے لیکر پیٹنا شروع کیا اور یہ بین کیے کہ آپ تو الگ رہی بلاؤں کو میرے پیچھے لگا دیا ارے میری چیز مٹے میرا نقصان ہو مجھی پر الزام دیا جاتا ہے یہ کیسا غضب ہے اعجوبہ گردن جھکائے وہاں سے نکل آئیں اور اپنے دالان میں آ کر بیٹھ رہیں نہ انہوں نے مجھے کہا نہ ان حضرت کا غصہ اترا کھانے میں دیر ہو گئی سارے گھر میں دھوپ پھیل گئی ابا جان کے باہر سے آنے کا وقت آ گیا یہاں چولھے میں آگ تک نہیں پڑی کتاب دیکھتے دیکھتے ایک دفعہ میں نے جو سر اُٹھایا تو باورچی خانے میں سناٹا پڑا ہوا ہے۔
صفحہ 287
رحمت کو بلایا پوچھا انہوں نے کانوں پر ہاتھ رکھا بولا اعجوبہ کو بلا کر جو دریافت کیا تو معلوم ہوا کہ بیگم صاحب کو غصہ ہے سردست اسوقت اور کیا ممکن تھا میں نے جلدی سے آلو منگوا کر کچھ تل ڈالے آدھوں کا بھرتہ بنوا لیا اور پوریاں تلنے کے لیے رحمت کو بٹھا دیا دوہی چار پوریاں اتری تھیں کہ باپ بیٹے باہر سے کھانا مانگتے آئے دروازہ بڑے دالان کے قریب تھا ڈیوڑھی سے آتے ہی امان جان کا سامنا ہوا انہیں سے کھانے کو بھی کہا وہ ایک بار یہ سنتے ہی چلا اُٹھیں کہ کیسا کھانا تمہیں گھر کی بھی خبر ہے دیکھو صندوقچی کا کیا حال ہے صاحبزادی صاحب نے مجھ پر اپنے آدمیوں کو کڑوڑا کیا ہے۔ اب کل سے جو ہاتھ لگائے تو اُس پر تبرا تم جانو تمہاری بہو جانے دولو پکواؤ اور نذھواؤ جو چاہو ہو کرو میرا پیچھا چھوڑو ابا جان بیٹھ گئے اور کہا کہ آخر ہوا کیا کچھ معلوم تو ہو انہوں نے اُلٹا پلٹا حال کہہ کر سراسر مجھے خطا وار ثابت کیا دریافت کون کرے اور دریافت تو جب کرے جبکہ جھوٹ کا شبہہ ہو معاذاللہ بڑے بوڑھے کہیں غلط بولتے ہیں اتنا سن کر سارے گھر نے منہ پھلا لیا میں نے کچھ سنا کچھ نہیں سنا دس پندرہ پوریاں اترنا تھیں کہ دسترخوان بچھانے کو بوا رحمت سے کہا وہ سینی لیکر جیسے ہی دالان میں گئیں کہ مولوی صاحب خوش ہو کر اٹھ کھڑے ہوئے اور اپنے لڑکے کو آواز دی وہ بھی ہاتھ دھو کر آ موجود ہوئے دستر خوان بچھا بیگم صاحب کو جو بلاتے ہیں تو جواب نہیں دیتیں جب بہت کہا تو جلا بھنا یہ جواب دیا کہ تم زہر مار کرو میرا کیا چاہے نگلوں چاہے فاقے سے رہوں بہو کو پکوانا تھیں کھانا نصیب اللہ اس گھونی
صفحہ 288
بس کی گانٹھ کے فیل تو دیکھو کہ ہم نے روز کہا کہتے کہتے تھک گئے اور اس نے ہاتھ نہ لگایا اور آج جو ہمیں رنج ہوا الگ رہے تو آپ پل پڑی۔ تو کیا۔ ساجھا نہیں چاہتی۔ اف ری فیلہائی اس کی منتظر ہی بیٹھی تھی کہ ساس مروی اپنا ہاتھ کھینچے تو میں گھرداری کروں یہ کہہ کر چیخیں مار مار کر رونا شروع کیا میں گھبرا کر دوڑی گئی اور ہاتھ جوڑ کر قسمیں کھا کر عذر معذرت کی کہ دن چڑھنے کے خیال اور آپ کے ملال سے میں نے یہ ترکیب کی میری مجال ہے کہ آپ سے بیر بغض کروں اور جب آپ نے فرمایا (گو مجھ سے نہیں اپنی جگہ پر فرمایا لیکن) میں نے یہ سن کر فوراً رحمت اور اعجوبہ سے کہہ دیا کہ سویرے اماں جان سے جا کر پوچھ لیا کرو آپ رنج نہ کریں مجھے آپ کی خوشی سے کام ہے جو آپ کو فرمانا ہوا کر ے مجھے یاد کر لیا کیجیے۔ زبان سے یہ کہتی جاتی ہوں اور آنکھوں سے آنسو ٹپک رہے ہیں۔ ہاتھ جوڑے گردن جھکائے کھڑی ہوں دیر تک یہی صورت میری رہی جب انہوں نے بالکل میری معذرت نہ سنی اور خیال نہ فرمایا تو شرم نے میرے بدن کو عرق آلودہ کیا اور غیرت سے سارے جسم میں تھرتھری پڑ گئی۔ ان دونو ں نے چاہا کہ مجھے روکیں اور باز رکھیں مگر طبیعت اور عقل نے ان سے مقابلہ کر کے میری مدد کی جس سے دیر تک میں وہی صورت بنائے کھڑی رہی یہاں تک کہ اباجان کھانا کھا چکے اور ہاتھ دھونے کو جب وہاں پہونچے تو مجھ سے کہا کہ بس بٹیا بس عذر ہو چکا ان پر اس وقت شیطان چڑھا ہے وہ ایک نہ سنیں گی کیوں ہاتھ جوڑے کھڑی ہو۔
صفحہ 289
جاؤ کھانا کھاؤ میں نے عرض کی کہ جی نہیں بے اماں جان کے تو میں کھانا نہیں کھاؤں گی۔ انہوں نے میری ان کی بات چیت سنی جھلا کر بولیں کہ شیطان کی گھوڑی اور آدی میں کیا نسبت مجھ پر شیطان سوار ہے جب وہ اتریگا جب خالی ہوں گی یہ کہہ کر انہوں نے چند باتیں مولوی صاحب کو کہیں جن میں سے بوبک جھڑوس کھوسٹ نکھٹو جھڈو مجھے یاد رہ گیا ان کے بعد پھر میری گردن پکڑی اور جو جو منہ میں آیا فرمایا بازار کی مٹھائی تک بنایا نہ ان بیچارے نے جواب دیا نہ مجھ میں مجال جواب تھی اباجان نے میرے صبر و سکوت پر خیال فرما کے وہاں سے ہاتھ پکڑ کر میری صنچی میں مجھے پہونچا دیا اب میں وہاں جا کر سوچ میں بیٹھی کہ کس تدبیر سے ان کا غصہ کم کروں سارا دن اسی فکر میں کٹا شام آئی پھر کھانے کی وقت پکواتی ہوں تو وہ نہ کھائیں گی اور نہ پکواؤں تو کیوں کر نہ پکواؤں سارے گھر پر کڑاکا گذر جائے گا دو چار تو صبح سے بھوکے ہیں آخر کو میں نے ابا جان سے رحمت کی معرفت پچھوا بھیجا انہوں نے کہا کہ تم شوق سے پکواؤ بری چیز کانام لیکر کہا کہ انہیں وہ کھانے دو میں نے خوشی خوشی کھانا پکوایا جب دسترخوان بچھنے کا وقت آیا تو پھر لہو پانی ایک ہوا ۔ وہی پیٹک پھیا دہی غصہ وہی ہے ہے کھے کھے وہی ملال وہی غم وہی خیال آخر کو اباجان نے کہا کہ تمہیں منظور کیا ہے اس بک بک جھک جھک سے کیا۔ معلوم ہو گیا کہ بہو کی محبت ہو چکی روپے اور حکومت کی لالچ ہے۔ صاف صاف کیوں نہیں کہتیں اس نے تو منہ در منہ کہہ دیا کہ جو کہنا ہو مجھ سے کہیے پیٹھ پیچھے
صفحہ 290
کہنے سے کیا فائدہ تم جو کونے میں منہ ڈال کے کہتی ہو تو اسی غرض سے کہ سب اس کو الزام دیں۔ میرا حق بہ طرف لیں اب جو اس نے ہاتھ لگایا تو زہر ہو گیا اگر تمہاری خوشی یہی تھی تو کیا برا کیا خواہ مخواہ کی باتیں بناتی ہو چار دن میں تمہاری طینت اور طبیعت کا حال کھل گیا وہ تو بس کی گانٹھ نہیں ہے تمہیں فساد کی جڑ ہو یہ سننا تھا کہ جھومتے جھومتے اماں جان کھڑی ہو کر پیٹنے لگیں اور ہے ہے کرتی ننگے سر ننگے پاؤں گھر سے چلیں سب کے پہلے تیور پہچان کر میں دوڑی اور میرے ساتھ ان کی لڑکی ساجدہ بیگم دروازے کی راہ روک کر کھڑی ہوئی ۔ وہ ادھر سے مڑ کر کنوئیں کی طر ف چلیں۔ رحمت اور اعجوبہ نے تھاما وہاں سے منہ اٹھائے سیدھی روشن علی صاحب کے ہاں دہائی تہائی دیتی چلی گئیں۔ کھڑکی میں الجھ کر دوپٹہ پھٹا۔ چوٹ لگی۔ ادھر جا کر انہوں نے دوپٹہ کی لبیریں کر ڈالیں سارا گھر سناٹے میں ایک ایک دم بخود سب کو جدا جدا حیرت پھر وہاں جا کر بھی چین نہ لیا میاں کا اور میرا نام لے لیکر چیخنا شروع کیا میر صاحب بچارے اٹھکر باہر بھاگ گئے بڑا لڑکا کھانا کھا رہا تھا وہ آنکھ نیچی کر کے گھر سے نکل گیا انہوں نے زمین آسمان کے قلابے ملانا شروع کر دیے۔ ساجدہ بیگم تڑپ کر دو دفعہ کھڑکی میں گئیں اور جب زنانہ ہوا تو وہ بھی ادھر پہونچیں۔ میں بیچ انگنائی میں تصویر بن کر کھڑی کی کھڑی رہ گئی ایک کو ایک کی خبر نہ تھی جب نماز کا اول وقت ٹلنے لگا تو رحمت نے میرے پاس آ کر چپکے سے کہا کہ بیوی نماز پڑھو۔ بس کب تک کھڑی رہو گی ہو گا بھی یہاں تو روز کا یہی جھگڑا ٹھہرا رحمت کے
ریختہ صفحہ 131
اعمال میں مصروف ہوئی۔ وہ رات گئے ختم ہوتے تھے۔ آج تو نماز ہی میں دیر ہو گئی تھی۔ اعمال کرنے میں کوئی دس بج گئے۔ میں نے دیکھا بھی کہ دالان کے پردے چھوٹے اور کچھ لوگ آئے۔ دور کے رونے کی صدا کان میں آئی مگر دل دماغ کا ایسا کچھ حال تھا کہ مجھے اپنی خبر نہ تھی اور کسی کا کیا ذکر۔اعمال بھی بدقت اور غلط ادا ہوئے ۔ نہ ترتیب ٹھیک تھی نہ الفاظ صحیح تھے۔ جب اعمال ختم ہوئے تو رحمت اور اعجوبہ نے کہا کہ بیوی ذرا لیٹ رہو تو میں کمر دبا دوں۔ بڑی دیر سے بیٹھی ہو۔ میں لیٹ رہی اور رحمت نے نرم نرم ہاتھوں سے محبت کے ساتھ ہاتھ پاؤں دبائے۔ مجھے نیند آ گئی۔ سوتے سوتے صبح کی نماز کے قبل آنکھ کھلی۔ اٹھ کر دیکھا تو سارا گھر سو رہا ہے اور ایک کی ایک کو خبر نہیں۔ بوا اعجوبہ کو آواز دیتی ہوئی اماں جان کے پاس گئی۔ دیکھا تو اباجان اپنے پلنگ پر نہیں۔ بچھونا الٹا ہوا ہے۔ میں نے اماں جان کو جگایا اور چوکی پر گئی۔ وہاں خیال ہوا کہ اباجان اتنے سویرے کہاں گئے۔ کچھ سمجھ میں نہ آیا۔ ابھی تک میرا دماغ اصلاح پر نہیں آیا تھا جو قیاس کام دیتا۔ باہر نکل کر کوٹھے پر جو چلی تو دیکھا اس طرف سے دروازہ بند ہے۔ ایک آدھ آواز بھی بوا خیراتن کو نام لے کر دی مگر جواب نہ ملا۔ مایوس ہو کر پلٹی۔ وضو کر کے نماز پڑھی۔ بعد فروغت اماں جان سے کہا کہ اباجان کہاں گئے ہیں۔ انھوں نے کچھ اشارے سے بتایا۔ میں نہ سمجھی اور وہاں سے اٹھ کر پھر کوٹھے پر جانے کو دروازہ کھٹ کھٹایا۔ اب تو سارا گھر جاگ جا رہا تھا۔ اچھی طرح سے آواز دی۔ کچھ کسی کے سونے اور بے چین ہونے کا تو خیال تھا نہیں۔ جب کوٹھے پر سے بالکل
ریختہ صفحہ 132
صدا ندا نہ آئی۔ اس وقت خود بخود اس طرح وہ غفلت جاتی رہی جیسے اک پردہ تھا کہ اٹھ گیا۔ فوراً ہی خیال گزرا کہ ہائیں دو مرتبہ آ کر میں نے پکارا اور استانی جی نے جواب نہ دیا۔ کہیں خدا نہ کرے کچھ اور حادثہ تو ان کے دشمنوں پر نہیں گزرا۔ ساتھ ہی دل نے کہا کہ دشمن اور خدا نہ کرے کیا در حقیقت وہ جنت کو سدھاریں۔ وہ ہوتیں اور دروازہ بند رہتا یا پکارنے سے جواب نہ ملتا۔ انھیں کے تو سدھارنے کا اشارا بوا اعجوبہ نے کیا تھا اور اباجان بھی تو انھیں کی آخری سواری کے ساتھ گئے ہیں۔ یقین ماننا کہ دل سے یہ خبر سنتے ہی جو حال میرا ہوتا وہ کم تھا۔ کیونکہ ان کے احسان نیکیاں محبت تعلق ایسے نہ تھے جنھیں یاد کرنے سے دل نہ پھٹے اور کلیجہ نہ ٹکڑے ہو۔ کیسا ہی کمسن اور ناسمجھ ہوتا اس صدمے کی برداشت کرنا دشوار تھا مگر مجھے جہاں وہ خبر دل نے دی تھی یہ بھی حکم دیا کہ وہ دنیا سے گئیں تو ضرور مگر کچھ فرما کر گئی ہیں۔ جس پر عمل واجب ہے۔ خلاف وصیت کرنا گناہ ہے۔ یہ کہہ کر دل پتھر ہو گیا اور خوف گرمی آتش دوزخ نے میرے آنسو بالکل خشک کر دئیے۔ وہاں سے یہ کہتی ہوئی پلٹی کہ بوا اعجوبہ کیا استانی جی نے انتقال کیا۔ وہ تو چپ رہیں کچھ جواب نہ دیا۔ اماں جان بولیں ہاں بیٹا ۔ کچھ وہی اکیلی تھوڑی دنیا سے گئی ہیں۔ کچھ انھیں کے لئے یہ نئی بات نہیں ہوئی ہے۔ سبھی کے واسطے ہے۔ آج اگر انھوں نے انتقال کیا ہے تو کل ہم بھی جائیں گے۔ طاہرہ بیگم خدا نے ان کو دنیا کے مکروہات سے چھڑایا۔ آئے دکٓن کی کھیکھڑوں سے جنات دی ۔ ان فرشتہ خصلت حور سیرت جنتی بیوی کے لئے دنیا کا مکان قابل رہنے کے کب تھا۔ اب رہا ان کا آنا اس کی بظاہر دو وجہیں معلوم ہوتی ہیں۔ ایک تو ان کی ذات سے بہت سے فیض جاری ہونے کو تھے اور دوسرے دنیا کے الم و غم جور وستم
ریختہ صفحہ 133
محبت و بلا پر جوہر صبر دکھا کر راضی برضا رہنے سے خدائے پاک کو ان کا مرتبہ بڑھانا تھا۔ دونوں باتیں حاصل ہو گئیں۔ اب یہاں کیا کام تھا۔ مرتے کے ساتھی تو باغ جنت پہنچی ہوں گی۔ ایسی خوش نصیب اور نیک بخت بیویاں ہم نے نہیں دیکھیں۔ تمہاری جان سے دور تم سے ان کی محبت اور بار بار تمہاری غیرت سمجھ خوبو نیک مزاجی کی تعریف کرنااور مجھے یہ کہنا کہ جیسے تمہاری بچی کہنا مان لیتی ہے اور ایک دفعہ کے کہنے کو گرہ میں باندھ رکھتی ہے۔ یہ بات میں نے دنیا کی لڑکیوں میں بہت کم دیکھی ۔ چاہے اس کے دل پر صدمہ ہو چاہے خلاف مزاج گزرے مگر توبہ کبھی منع کی ہوئی بات کو نہ کیا ہے نہ کرے گی۔ تم کو تو یاد ہو گا ، کیا تمہارے سامنے انھوں نے یہ نہیں کہا کہ اپنے مردے پر رونے اور بےتاب و بے قرار ہونے کے لئےبار بار اسی غرض سے کہتی تھیں کہ برسوں کا تعلق ہے محبت ہے ایک جگہ کا رہنا سہنا ہے۔ دفعتاً ساتھ چُھٹے گا کیونکر اس کا ننھا سا دل نہ کڑھے گا۔کس طرح صبر ہو سکے گا۔ یہ وہ خوب جانتی تھیں کہ ایک ہی دفعہ کا سمجھا دینا کافی ہے۔ مگر اپنی اور تمہاری محبت اور دفعتاً ہمیشہ کی فرقت پر خیال کر کے دل نہ مانتا تھا۔ زبان سے سمجھایا کاغذ میں لکھ کر فہمائش کی۔ مطلب اتنا تھا کہ میں تو اس وقت رہوں گی نلہیں صدمہ اس کو ضرور ہو گا۔ لاؤ اس کے لئے یہ تدبیر کروں کہ ہر وقت اس کے سامنے میرے منع کرنے کی تصویر رہے۔ تم نے کاغذ ان کا دیکھا۔ طاہرہ بیگم مجھے امید ہے کہ تم جب جیتے جی ان کے حکم کو مانتی تھیں تو مرے پر اور زیادہ مانو گی۔ کیونکہ وصیت کے خلاف کرنا بہت بری بات ہے۔ گناہ ہوتا ہے۔ اور وصیت بھی جو شرع کے خلاف نہ ہو۔ ابھی تک تو مجھے اک سناٹا سا تھا اور منتظر تھی کہ یہ خبر سن کر سینے پر دو ہتڑ ماروں اور ہائے
ریختہ صفحہ 134
استانی جی کہہ کر پکاروں۔ یہاں تک پہنچ کر جو تقریر کے اصل مطلب پر نگاہ کی دل کانپ گیا اور بید کی طرح تھرانے لگی۔ دونوں ہاتھ جوڑ کر اماں جان سے کہا کہ جی نہیں میری کیا مجال جو آپ کے حکم اور ان کی وصیت کے خلاف کوئی امر کروں۔ انھوں نے گلے سے لگایا اور شاباش شاباش کہہ کر میرا منہ چوم کر کہا کیوں نہیں۔ ماشاء اللہ تم بڑی سمجھدار اور سعادتمند بیٹی ہو۔ تم سے ان کو نیک امید کیونکر نہ ہوتی۔ لے اب کوٹھے پر جاؤ۔ فقط اسی وجہ سے دروازہ بند کروا دیا تھا کہ پہلے تم سے دو دو باتیں ہو جائیں۔ میں وہاں سے اٹھی اور اپنے دل سے یہ باتیں کرتی ہوئی چلی کہ جب وصیت شرع کی بموجب ہے تو اس کے بر خلاف شریعت کے خلاف ہو گا اور شریعت کے خلاف گویا حکم خدا کے خلاف ہے اور خلاف حکم خدا کرنے والا کافر۔ پس اگر میں ایسا کروں تو کافر ہو جاؤں۔ خداوند دل میں جو آیا نہ تھا اس سے توبہ کرتی ہوں اور تو غفار ذنوب ہے اپنا صدقہ اس سے درگزر فرمانا اور معاف کر دینا۔ اس کے بعد میں نے اپنے گناہ اور اس کی عظمت و جلالت پر جو نظر ڈالی آپ میں نہ رہی۔ زینے تک پہنچ چکی تھی۔ اب مجھ میں دم درود باقی نہ رہا اور ہاتھ کنڈی پر رکھ کر دروازے سے لپٹ کر لکڑی ہو گئی۔ میرے جانے کے بعد اماں جان نے راحت سے اشارہ کیا تھا وہ پیچھے چلی آتی تھی۔ یہاں پہنچ کر میری جو یہ حالت دیکھی گھبرا گئی اماں جان کو پکارا کہ جلدی آئیے۔ صاحبزادی کے دشمنوں کا عجب حال ہے۔ یہ آواز ،یرے کان میں گئی مگر جواب نہ دے سکی۔ وہ ننگے پاؤں دوڑیں اور پلنگ لاؤ پلنگ لاؤ کہتی ہوئیں ارے میری بچی ہائے یہ کیا ہوا کہہ کر لپٹ گئیں۔ دالان سے کسی نے پلنگ گھسیٹ لیا/کنڈی ہاتھ سے چھڑا کر اس پر لٹا دیا۔ اب مجھے
ریختہ صفحہ 135
خبر نہین۔ وہاں تک کا سب حال معلوم تھا۔ آنکھ جب کھلی تو سرہانے اباجان اور پائینتی اماں جان کو بیٹھے دیکھا۔ ناناجان زانو پر سر لئے تھے۔ باقی محلے بھر کی عورتیں چو طرفہ چارپائی کے زمین پر بیٹھی تھیں۔ آنکھ کھلنا تھی کہ اماں جان کی طرف سے پاؤں سمیٹ کر میں اٹھ بیٹھی اور مردوں کو سلام کیا۔ سب کے بدن میں جان آ گئی۔ اپنی اپنی آنکھ کے آنسو پوچھنے لگے۔ ایک نے بلائیں لیں ایک نے سجدہ کیا۔ کوئی مبارک ہو پکارا کسی نے سر سے سر اتارا۔ کوئی دوڑ کر تیل مالش لایا کسی نے باہر صدقہ بھجوایا۔ اماں جان نے ہاتھ پھیلا کر کلیجے سے لپٹا لیا اور پیار سے پوچھا کہ کیوں مزاج کیسا ہے تمہارا دل (کچھ کہتے کہتے رک گئیں) میں نے کہا کہ جی نہیں یہ بات نہیں۔ میرا دل خواہ مخواہ رنج اٹھانے کے قابل ہو یا نہ ہو مگر اس وقت مجھے کوئی رنج کسی کے لئے نہ تھا بلکہ آپ کے حکم سے وہ سب باتیں سن کر جکوٹھے پر چلی تو اپنے گناہگار اور خدائے پاک کے قہار ہونے پر میرا دل دہل گیا۔ اس قدر ڈر معلوم ہوا کہ ضبط نہ ہو سکا۔ زینے سے لپٹ کر رہ گئی۔ آپ کی رحمت کی پلنگ گھسیٹنے کی آوازیں سنیں۔ پلنگ پر لیٹ کر پھر معلوم نہیں کہ کیا گزرا، اماں جان نے فرمایا پہر بھر سے ہم سب جان بلب ہیں ۔ اتنی ہی دیر میں خون خشک ہو گیا۔ اباجان کے لحاظ و خوف سے میں روئی نہیں ۔ دل تو ایسا بھرا ہوا تھا کہ جب تمہیں گلے سے لگایا تھا اس وقت آنسو نکل پڑے۔ نانا جان پیار کر کے دیر تک مجھے سینے سے لپٹائے رہے پھر انگنائی سے دالان میں لائے اور چھیڑ چھاڑ سوچ سوچ کر اباجان نے استانی جی کی باتیں کیں۔ میں نے سنیں مگر آنکھ کو پسیجنے نہ دیا۔ رونا اور آنسو بھر لانا کیسا۔ آدمی اپنے دل پر رکھ لے تو سب کچھ کر سکتا ہے۔ دل پر رکھنے اور جی چھوڑ دینے کی تو بات ہی اور ہے۔ بھگدڑ کے انقلاب میں ہمارے ہاں سے ایک لونڈٰ فضیلت نام
ریختہ صفحہ 136
نکل گئی تھی۔دس بارہ برس بعد وہ نیک بخت آ کر ہمارے مکان کے قریب کرائے کی حویلی میں رہی۔ ابھی استانی جی کا چالیسواں نہیں ہوا تھا ۔ اعجوبہ خیراتن میں بوا رحمت کوٹھے ہی پر رہتے تھے۔ ایک دن جیسے ہی قران شریف پڑھ کر میں نے دعا کو ہاتھ اٹھائے دیوار پر نظر گئی ایک سر نکلا ہوا دیکھا آنکھ چار ہوئی اس نے سلام کیا میں نے بھی سر پر ہاتھ رکھا۔ گئی گزری بات مجھے خیال بھی نہیں ۔ دوسرے دن شام کو جو سونے جاتی ہوں بوا اعجوبہ نے کہا بیوی ہمارے مکان کے ادھر کوئی نواب بانکے آ کر رہے ہیں ان کی بیوی زہرہ بیگم ایسی ملنسار ہیں کہ میں کیا کہوں۔ کئی دفعہ کوٹھے پر آ چکی ہیں۔اور کہتی ہیں کہ تم اپنی صاحبزادی پاس کہہ سن کر میری لڑکی کو بٹھا دو بڑا احسان ہو گا۔ دن بھر ہُڑونگا کھیلنے سے بچے گی اور کچھ نہ کچھ آ ہی جائے گا۔ میں نے کہا کیا مضائقہ۔ مگر میں اباجان سے اجازت لے لوں۔ یہ کہہ کر میں بھول گئی انھوں نے سر چڑھ کر اس قدر تقاضہ شروع کیا کہ بوا اعجوبہ ایک دو مرتبہ کہہ کر میری بھول سے عاجز ہوئیں اور اباجان سے کہہ دیا کہ میں ان سے شرماتی ہوں اور صاحبزادی بھول بھال جاتی ہیں۔ اگر آپ کہئیے تو میں ان کی لڑکی کو بلا لیا کروں۔ اباجان نے کہا کہ مجھے اس محلے کے لوگوں کی حالت اچھی طرح معلوم نہیں ۔ نواب صاحب سے کہنا۔ بوا اعجوبہ چلی گئیں ۔ میں اپنے کمرے میں چلی آئی۔ کھانے کے وقت دسترخوان بچھنے سے پہلےاباجان نے نانا باوا سے کہا کہ حضور آپ کے زیر سایہ نواب بانکے کوئی صاحب رہتے ہیں؟ (ناناجان) نواب بانکے کون۔ میں نے تو آج تک نام بھی نہیں سنا۔ تم اپنا مطلب کہو کام کیا ہے۔ (اباجان) جی ان کی ایک لڑکی ہے اس کو طاہرہ بیگم کی خدمت میں ان کی بیوی دیتی ہیں کہ یہ اسے لکھائیں پڑھائیں
ریختہ صفحہ 137
(ناناجان) مجھے تو ان کے خاندان اور چال چلن کا حال معلوم نہیں۔ دریافت کرو اگر ملنے کے قابل ہوں تو کیا مضائقہ۔ یہ فرما کر انھیں خیال رہا جس طرح اندر والے مکان میں ایک دیوار بانکے صاحب کے گھر کی تھی اسی طرح باہر بھی تھی۔ زہرہ بیگم اس دیوار پر بھی چڑھیں۔ دو چار دفعہ کے بعد ایک دن غلام علی نے بھی ان کی صورت دیکھی۔ گو ایک زمانہ گزر چکا تھا اور بیویوں کے لباس میں تھیں مگر وہ پہچان گیا۔ لیکن دل میں لے رہا۔ وہ تو لونڈی سے بیوی بنی تھیں اور بیوی نواب صاحب کی۔ پھر وہ بھی بانکے ۔ وہ اپنے رنگ دکھاتے تھے یہ اپنے رنگ جماتی تھیں۔ جس طرح عورتوں میں سبھی قسم کی عورتیں ہوتی ہیں اسی طرح عورتوں میں بھی نیک بد ہوتے ہیں۔ کوئی ناشائستہ۔ ایک روز ان کے بار بار جھانکنے اور گردن نکالنے سے باول خان کچھ کہہ بیٹھا۔ انھیں برا معلوم ہوا۔ ڈھیلے پھینکے۔ ایک اس کے لگ گیا وہ بگڑ کر تنتنا بررتا بُرا بھلا کہتا نیچے اترا اور اپنا لٹھ لے کر یہ کہتا ہوا باہر چلا کہ ساری نوابی میاں کی ابھی دیکھے لیتا ہوں۔ اپنے سانڈ کو روکیں ورنہ گھر میں گھس کر ہاتھ منہ توڑ ڈالوں گا۔ ادھر سے یہ بکتا ہوا جاتا ہے اور باہر سے اباجان آتے ہیں۔ وہ کیا ہے کیا ہے کہتے ہوئے رک گئے اور اس نے سلام کر کے ساری روداد بیان کی۔ اباجان خیر مجسم تھے۔ اسے سمجھانے لگے کہ بھائی جانے دو محلہ کا واسطہ ہے۔ ہم انھیں بلا کے سمجھا دیں گے۔ دوبارہ اگر ایسی حرکت کریں تو تمہیں اختیار ہے ۔ ابھی خبردار ایسی حرکت نہ کرنا۔ وہ چپ ہو کر گردن لٹکا کر پلٹ آیا۔ غلام علی نے یہ ساری دردی چپی کرتے وقت ناناجان سے بولی اور کہا کہ آج بادل خان کو بڑا غصہ آیا تھا۔ وہ تو دولہا میں نے آنکھ دکھائی ۔ اس سے تھم گیا نہیں تو خوب ہی
ریختہ صفحہ 138
بانکے میاں کو سیدھا کرتا۔ ( ناناجان ) ارے ہاں یہ کون بانکے میاں ہیں۔ (غلام علی) حضور یہ تو نواب بہادر مرزا صاحب کے صاحبزادے ہیں۔ بجلی کہاری کے پیٹ سے اور بیوی ان کی آپ کی لونڈی ہے (ناناجان) ہائیں بھئی میری لونڈی۔ کچھ تمہیں خیر ہے میری لونڈی کیوں ہونے لگی (غلام علی) حضور میں سچ عرض کرتا ہوں۔آپ ہی کی لونڈی ہے ( ن) کون (غلام علی) فضیلت۔ (ناناجان) ہاں یہ تمہیں کیونکر معلوم ہوا۔(غلام علی) اے حضور وہ اصطبل والی دیوار ہی پر تو دن بھر بیٹھی رہتی تھی۔ بادل خان کی وجہ سے آنا بند ہوا۔ میں نے پہلے ہی دن پہچان لیا۔ زہرہ بیگم بنیں چاہے مشتری خانم۔ وپی فضیلت ہے ظہورن کی لڑکی۔ (ناناجان) یہ کہو تم نے خوب اس وقت ذکر کر دیا۔ ارے بھئی وہ اپنی لڑکی کو پڑھنے بٹھانے کہتی تھی۔ (غلام علی) کہاں حضور؟ (ناناجان) ہماری لڑکی کے پاس۔ (غلام علی) واہ واہ معقول اس کو خبر ہی نہیں کہ یہ گھر آپ کا ہے یا یہ سمجھتی ہے کہ مجھے کوئی پہچانے گا نہیں۔ سچ ہے باندی کی عقل بھی گدّی میں ہوتی ہے۔ ناناجان نے یہ سب سن کر آرام کیا ۔ جب گھر میں تشریف لائے تو ساری کیفیت مجھ سے دہرائی۔ میں نے بوا اعجوبہ سے کہہ دیا کہ اب جو وہ تم سے کہیں تو کہہ دینا کہ بیوی میں نے ذکر کیا تھا وہ راضی نہیں ہیں۔ کہتی ہیں کہ مجھے اپنی ضرورتوں گھر کے دھندوں سے کہاں فرصت۔ خواہ مخواہ وعدہ کر کے جھوٹی پڑوں گی۔ پھر کیا ضرور بوا اعجوبہ کی زبان سے انکار سن کر وہ امید باقی نہ رہنے سے اب جو اس خدا کی بندی نے ضد اور کد شروع کی تو بیٹھنا دشوار ہو گیا۔ جو نکلا اسے پیام دیا جو آیا اس کو سلام کیا ۔ ہاتھ جوڑتی ہے منت کرتی ہے گڑگڑاتی ہے گھگھیاتی ہے ۔ کسی نے کہہ دیا کہ بیوی صبح اور ظہر کے وقت یہاں ہوتی ہیں
ریختہ صفحہ 139
تم خود آ کر کہنا ہم تو کہہ چکے۔ تمہیں یقین ہی نہیں آتا اس کا کیا علاج کریں۔ ہم نے کوئی دقیقہ نہیں اٹھا رکھا۔ تمہاری ساری دل کی باتیں کہیں اپنی طرف سے کہا۔ انھوں نے ایک بات میں فیصلہ کر دیا کہ پرائے بچے کو بلا کر بٹھا رکھنا کون سی انسانیت ہے۔ تم دیکھتی ہو کہ چار پہر مجھے سر کھجانے کی فرصت نہیں ملتی۔ جان بوجھ کے تو انجان بننے کی بات ہی اور ہے۔ بولئیے بیوی حق بات کا کیا جواب۔ ہم اپنا سا منہ لے کر رہ جاتے ہیں۔ کہیں تو کیا کہیں۔ صریحاً آنکھوں سے دیکھتے ہیں کہ وہ اور تو اور پان دو دوپہر نہیں لگا کے کھا سکتیں۔ چار چار دن کنگھی کرنا نہیں ملتی۔ اللہ رکھے سارے گھر کا ٹبر انھیں کے اوپر ہے۔ بڑی بیگم صاحب دور سے بیٹھی مہمانوں کی طرح سیر دیکھا کرتی ہیں۔ آئے دن مہمانوں کا آنا اندر باہر کا خیال آئے گئے کی خاطر۔ کھانا پکوانا کھلوانا لینا دینا حساب کتاب اک اک کا آگا تاگا اک بات ہو تو کوئی کہے۔ پھر اپنی باتوں کی پابندی نماز وظیفہ قران شریف اسی میں سینا پرونا سودا سلف منگوانا کوئی دن ایسا نہیں ہوتا کہ دو چار گھڑی بلا ناغہ دو وقت چولھے پاس بیٹھنا نہ پڑے۔ یہ ہنڈیا دیکھی وہ پتیلی دیکھی۔ اس کا نمک چکھا اس کا پانی جانچا۔ نواب صاحب کے پاس دس بیس آدمی باہر دسترخوان پر کھاتے ہیں۔ دو دو باورچی نوکر ہیں۔ مگر جب تک ان کے ہاتھ کی کوئی چیز پکی ہوئی نہ جائے ان کا دل نہیں مانتا۔ فرماتے ہیں کہ دسترخوان کی زینت نہیں ہوتی۔جس وقت اندر خاصہ کھاتے ہیں اس وقت تو زیادہ دقت کرنا پڑتی ہےقُدری کی کہ بیوی آپ فقط بیٹھی رہئیے بتائے جائیے ہم کام کریں گے۔ ماشاء اللہ ان کا ہاتھ ہی نہیں رکتا۔ ادھر کوئی چوکا اور وہ خود بڑھ گئیں۔ ان کا سا سلیقہ دیکھا بھالی نفاست کسی میں کیوں ہونے لگی۔ جس دن سے کھانے میں
ریختہ صفحہ 140
نمک پانی ان کے اندازے سے پڑنے لگا اور ان کی ترکیب پر پکنا شروع ہوا لوگ انگلیاں چاٹ چاٹ کے کھانے لگے اور تو میں نہیں جانتی پیٹ کھل گئے اور بھوکیں بڑھ گئیں۔ جس ہنڈیا میں ہاتھ لگا یا الیعی بن گئی کہ باہمن کی بیٹی ہو تو کلمہ پڑھے (زہرہ بیگم) اے بوا تم نے اس وقت مجھ کو اور دیوانہ کر دیا، یہ باتیں سن کر بھلا تمہیں بتاؤ کہ میرا دل کیونکر نہ بھربھرائے۔ ماشاءاللہ دسوں انگلیاں دسوں چراغ ہیں۔ اب تم سے نہ کہا جائے گا ٹہرو کسی دن میں خود آ کر پیروں پہ گر کے اپنا کام نکالوں گی۔ یہ کہہ کر اس دن تو وہ چلی گئیں دوسرے روز لڑکی کو ساتھ لے کر صبح سویرے ڈولی میں چڑھ کے ماما کے ہاتھ میں مٹھائی کی ٹوکری دے آ موجود ہوئیں۔ سواری آئی ہے۔ کوئی ی آواز سن کر دوڑا ۔ روز تو مہمان آیا ہی کرتے تھے اور اس دن تک پوچھنے گچنے کی رسم بھی ہمارے ہاں نہ تھی۔ وہ اتر پڑیں پردے سے نکلتے ہی مجھے پوچھا۔ دولت نے کہہ دیا کہ کوٹھے پر ہیں ۔ ان کی تمنا بھر آئی سیدھی منہ اٹھائے کوٹھے پر دولت ان کو زینہ بتا کر اپنے کام سے لگی۔ اماں جان کمرے میں تھیں ڈولی آنے کی آواز سن کر باہر نکلیں۔ پوچھا کہ ارے کون آیا تھا جو غائب ہو گیا۔ رحمت نے کہا کہ چھوٹی بیگم صاحب کے پاس کوٹھے پر گئی ہیں۔ وہ متعجب ہو کر کہ چھوٹی بیگم سے خاص ایسی ملنے کی کسے ضرورت ہے اور کیا ایسا کام ہے ۔ ٹہلتی ہوئی کوٹھے پر چلی آئیں۔ میں قران مجید پڑھ رہی تھی کہ وہ پہنچیں سلام کیا لڑکی اور مٹھائی کی ٹوکری کو میرے آگے کر دیا۔ میں نے ان کو جواب سلام دیا۔ اشارے سے لڑکی کو بیٹھنے کے لئے کہا وہ سمجھی کہ مٹھائی کھانے کو کہتی ہیں۔ صبح کا ناشتہ اللہ دے اور بندہ لے۔ جھٹ پتے پھینکنے اور دھاگہ نوچنے لگی۔ میں سجدہء واجبہ ادا کرنے کو جھکی۔ ادھر اماں جان آئیں
ریختہ صفحہ 141
بی فضیلت بیگم ان سے ملنے کو اٹھیں۔ یہاں لڑکی کو ایسا وقت ملا کہ اس نے پانچ پیسے کی جلیبیاں جلدی جلدی بندر کی طرح منہ میں بھر لیں۔ میں جو سجدے سے سر اٹھا کر دیکھتی ہوں تو نذر قبول فقط پتے اور اس پر شیرہ رہ گیا۔ صاحبزادی ہاتھ منہ لتھیڑے ہوئے بیٹھی ہیں، بے اختیار کچھ ہنسی آئی مگر بچھونا لت پت دیکھ کر سات ہی اس کے اس کی حرکت ناگوار طبع بھی گزری۔ اتنے میں ان کی اماں جان مڑیں دیکھتے ہی آگ ہو گئیں اور کھڑے قد سے ایک لات ماری کہ وہ بلبلا گئی۔ ٹوکری اوندھی، رہا سہا شیرہ بھی چاندنی پر بہا اور صاحبزادی نے بھی لوٹ لوٹ کر خوب ہاتھ منہ چاندنی میں پونچھا اب شیرے کے علاوہ ناک اور آنسو تھوک اور رال اور بڑھ گئی۔ میں سناٹے میں آ کر رہ گئی کہ یہ رقصِ بسمل صبح صبح کہاں کا میری تقدیر میں لکھا تھا۔ ماما نے چاہا کہ اس لوٹن کبوتری کو اٹھا لے۔ جیسے ہی قریب گئی اس نے وہ ٹانگیں اچھالیں وہ لوٹنیاں کھائیں کہ میں ڈر گئی۔ ماما روز کی سیر دیکھنے والی تھیں۔ آنی کانی دے کر لپٹ پڑی اور پکڑ لیا۔ اب اس نے ہاتھ پاؤں روک لئے اور زبان سے کام لینا شروع کیا۔ وہ لچھے دار گالیاں دیں کہ سارا گھر حیران ہو گیا۔ ماما بھی غضب کی دیدہ دلیل تھی سب کچھ سنا مگر گود میں اسے اٹھا لیا۔ اے بیوی اس نے کچھ اس طرح ٹانگیں اڑائیں ہاتھ چلائے کہ ماما خود کھڑے قد سے گر پڑی۔ کم بخت کے چوٹ لگی سر دیوار پر پڑا اور صاحبزادی صاحب دولتیاں اچھالنے اور پچھاڑیں کھانے لگیں۔ اب اماں بی اٹھیں اور دم دلاسے اور پیار اخلاص سے روکنا سنبھالنا چاہا ۔ توبہ بھلا اس پر شیطان سوار تھا وہ کیا رکتی۔ آخر کو ماما اور بیوی دونوں نے مل کر زور لگایا اور اس تڑپتی ہوئی مچھلی کو پکڑا۔ اماں جان تو کچھ ایسی گھبرائیں کہ جیسے ہی ادھر کُشتی شروع ہوئی وہ چلی گئیں۔
ریختہ صفحہ 142
میں بغلیں جھانکتی ہوں منمناتی ہوں اور اٹھ نہیں سکتی۔ دم الجھ رہا ہے کام کا خیال وقت برباد ہونے کا ملال لیکن کیا کروں مروت آدمیت منتظر بنائے روکے ہوئے ہے۔ اصلاح کی امیدوار بیٹھی ہوں۔ کہیں ماں بیٹیاں لڑ چکیں جوڑ پھڑک لیں تو میری گلوخلاصی ہو۔ وہاں ماما بیوی ایک طرف اور وہ اکیلی جان ایک جانب۔ مگر دونوں کا نتھنوں میں دم ہو رہا ہے۔ سانسیں پھولی ہوئی ہیں کشتم کشتا میں ماما کے کپڑے لتے کر ڈالے۔ اماں بیوی کے بال نوچ لئے۔ چوٹی پکڑ کے کھینچ لی۔ اس سگھڑاپے سے موباف پڑا تھا کہ پانچ چھ برس کی لڑکی کے زور سے ایک طرف کا تو بالکل الگ ہو گیا۔ سانپ کی کینچلی اس کے ہاتھ میں رہ گئی اور چوٹی کی لٹ تیل کی چکنائی سے چمک کر الگ ہوگئی۔ دوسری طرف کا ایک آدھ بل کھلا تھا کہ انھوں نے دو ہتڑ مار کر اس کو تو ایک ہاتھ سے پکڑا دوسرے ہاتھ سے موباف چھڑا کر ذرا ہٹیں۔ اکیلی ماما رہ گئی وہ پھر تڑپ کے نکل گئی۔ نہ تو چھوڑ کے جا سکتی ہوں نہ ٹہرا جاتا ہے۔ کیا کروں کیا نہ کروں۔ عجب طرح کا تردد کہ خداوندا یہ بلائیں کہاں سے آ پڑیں۔ آج صبح کو کس کا منہ دیکھا تھا۔ اے بیوی اچھا خاصا دن چڑھ گیا اور لڑکی کا شیطان کسی طرح اترتا نہیں۔ رہ رہ کر خانہ جنگی ہو رہی ہے۔ ابھی تک تو خیریت تھی موباف نوچ کر اماں جان نے مٹھائی کی ٹوکری میں پھینکا اور ماما کو برا بھلا کہہ کر ابھارا۔ وہ پھر مردوا بن کر چلی صاحبزادی لوٹتے لوٹتے مجھ تک پہنچیں میں قران مجید لے کر کمرے میں بھاگی رحل اٹھانا بھول گئی۔ صاحبزادی نے وہاں پہنچ کر اس کو گھسیٹا اور ماما کو اس زور سے مارا کہ اس کی بھوں پھٹ گئی۔ دھل دھل خون بہنے لگا۔ جو تھا ہک دھک اور وہ ہائے مار ڈالا کہہ کے سر پکڑ کر بیٹھ رہی۔ درد کی ایذا میں جو منہ میں آیا بکنے لگی۔ اماں جان کو مامتا کے مارے برا لگا اور عذر معذرت افسوس
ریختہ صفحہ143
دلاسے کے بدلے الٹی آنتیں اس کی گردن میں ڈالیں۔ غصہ تو غصہ اِدھر بڑھا اُدھر بڑھا لیجئیے وہ تو تھا ہی تھا۔ یہ نیا گل پھولا۔ ماما اور بیوی نے وہ دھڑلے کی لڑائی ہوئی کہ غیرت کے مارے سارا گھر کٹ کٹ گیا۔ اماں جان پھر دوڑی آئیں اور مجھے اشارے سے بلا کر اپنے ساتھ لے گئیں۔ رحمت دولت اعجوبہ خیراتن محمدی خانم وزیرالنسا ؑعظیمن محبت سب کی سب کوٹھے ہی پر تھیں۔ کہا کہ ان سب کو جلدی سوار کراؤ ۔ وہاں سنئیے کہ اس غل غپاڑے کی آواز نواب بانکے صاحب نے سنی، پہلے کوٹھے پر آئے پھر بیوی کی آواز پہچان کر دیوار پر چڑھے اور ہنکار ہنکار کر ماما کو مردار بے حیا بنانے لگے۔ ان کی لفظیں تو کس زبان سے ادا ہوں اور نہیں معلوم کیا کیا وہ فرماتے بوا رحمت اور اعجوبہ نے کہا کہ میں ہم سیڑھی لگائے دیتے ہیں آپ آ کر یہ لڑائی موقوف کرائیے۔ ہمارے ہاں کےمرد تو آ نہیں سکتے کیوں زبان خراب کیجئیے اور کاہے کو اتنے بڑے رئیس کے گھر میں گالی گفتہ منہ سے نکالئیے۔ ایسا نہ ہو کہ کسی مرد کو غصہ آ جائے تو ساری شیخی کرکری ہو جائے گی۔ بارے وہ بھی نیکی کے دم میں تھے اور اس کے دفیعہ کی کوئی صورت بھی نہ تھی۔ یہ بیچاری عورتیں کیا کرتیں۔ غرض سیڑھی لگائی گئی اور نواب بانکے صاحب اترے دونوں کو جدا کیا پہلے بیوی کو سیڑھی پر چڑھایا پھر ماما کو پھر گود میں لے کر لڑکی کو آپ چڑھ گئے اور وہ ہنگامہ اس طرح فرو ہوا۔ میں مرد کی آواز سن کر کانپ رہی تھی اور اماں جان گھبرا کر چلی تھیں کہ باہر کہلوا بھیجیں ۔ بارے خیریت گزری کہ کوئی پیش خدمت ماما وہاں تھی ہی نہیں پھر پلٹ گئیں اور تھراتی کانپتی جا کر اپنے کمرے میں بیٹھ رہیں۔ اتنے میں وہ طوفان
ریختہ صفحہ 144
بے تمیزی موقوف ہوا۔ سب آدمی کوٹھے پر سے نیچے آئے۔ اباجان بھی کہیں سدھارے تھے ورنہ غضب ہو جاتا۔ ناناجان باغ میں تھے وہ یہاں سے فاصلے پر تھا۔ دو چار آدمی ڈیوڑھی پر تھے آواز سنی ان کو بانکے صاحب کے گھر کی لڑائی معلوم ہوئی۔ کان کھڑے کر کے رہ گئے۔ جب یہ لوگ کوٹحے سے اترے تو اماں جان کمرے سے نکلیں اور گھبرا کر پوچھا کہ ارے اب کیا ہوا تم سب کیوں چلے آئے۔ بوا اعجوبہ نے کہا کہ بیوی خدا نے بڑا فضل کیا کہ آپ چھوٹی صاحبزادی صاحب کو لے آئی تھیں ورنہ مفت میں ایک نا محرم کو سامنا ہوتا۔ (اماں جان) ہائیں کیونکر؟ (اعجوبہ) اے حضور وہ بانکے میاں ان کی دیوار پر چڑھ آئے تھے۔ بس یہ سننا تھا کہ اماں جان کانپنے لگیں۔ ابھی تک ان کو ان کے بیہودہ کہنے ہی پر غصہ آیا تھا اور وہ یہ سمجھی تھیں کہ وہ اپنے گھر میں سے بکتے اور چیختے تھے۔ یہ سنتے ہی آپے سے باہر ہو گئیں اور کہا کہ جاؤ کوئی باہر کہہ آئے کہ نواب صاحب کو جلدی بلاؤ۔ میں دوڑ کر قدموں پر گری اور کہا کہ اماں جان نانا باوا سے نہ فرمائیے گا ورنہ غضب ہو جائے گا۔ اس میں بڑی قباحتیں ہیں۔ بات بہت بڑھے گی اور انجام اس کا اچھا نہیں۔ اگر خدا نخواستہ آپ کا یا میرا سامنا ہو جاتا تو البتہ کہنا واجب تھا تا کہ مرد ہمارے اس نادانستہ خطا کو معاف کرتے اور جب سامنا ہی نہیں ہوا تو پھر کہنے سے سوا اس کے کہ انھیں رنج ہو اور ہم نظروں میں ذلیل ہوں اور بانکے نواب صاحب پر کچھ آفت آئے اور کوئی بات معلوم نہیں ہوتی۔ ماما تو آدمی سے کہہ آئی تھیں۔ میں نے چاہا بھی کہ اسے روکوں مگر وہ جا چکا تھا۔ میں باورچی خانے گئی۔ آج نانا کے گھر میں کھانے کا دن تھا۔ دیر ہونے سے مجھے بڑا تردد تھا ۔ ایک
ریختہ صفحہ 145
ایک کو جوت دیا ار چار پانچ چولھے سلگا کر کھانا پکانا شروع کیا۔ اماں جان سے گو میں نے عرض کر دیا تھا مگر انھوں نے میرے کہنے پر بالکل اعتنا نہ کی اور جیسے ہی اباجان آئے سارا قصہ ان سے کہہ دیا۔ خدا بخشے وہ بڑے غیرت دار اور انجام بین تھے۔ ساری داستان سن کر فرمایا کہ ت، نواب صاحب سے نہ کہنا۔ میں قرار واقعی اس کا مزمہ ان سے لے لوں گا۔ وہ سمجھا سکے ہیں کہ ناناجان آئے۔ آتے کے ساتھ ہی کھانے کو پوچھا۔ میں نے چولھے ہی پاس سے ایک آدھ کا نام لے کر کہا کہ دسترخوان لے چلو۔ سب تیار ہے۔ انھوں نے پوچھا کہ عصمت مجھے کیوں بلایا تھا۔ اماں جان نے کہا کہ جی نواب بانکے کی صاحبزادی کو ان کی بیوی زہرہ بیگم صاحب لے کر آئی تھیں۔ ان صاحبزادی کی سیر دکھانے کو بلایا تھا۔ (ناناجان) ہاں کیا وہ آئی تھی۔ (اماں جان) جی ہاں (ناناجان) عصمت تم نے پہچانا بھی کہ زہرہ بیگم کون سی تھیں۔ اماں جان نے کہا جی نہیں تو اور میں نے انھیں دیکھا ہی کہاں تھا۔ (ناناجان) عصمت تم بھول گئیں دیکھا کیوں نہیں۔ یہ ظہورن کی لڑکی فضیلت تھی۔ (اماں جان) ہائیں اے لیجئیے مجھے کیا معلوم ۔ (ناناجان) جی ہاں یہاں اس کا چلے آنا اور شرم لحاظ نہ کرنا حد کی بے غیرتی ہے۔ پھر وہ آئی تو کیا ہوا۔ (اماں جان) جی کچھ نہیں۔ طاہرہ بیگم نے لڑکی کی شوخی و شرارت دیکھ کر صاف جواب دے دیا کہ مجھے فرصت نہیں۔ اباجان وہ شاید کچھ پہر بھر ٹہری ہو لڑکی نے سارا گھر سر پر اٹھا لیا۔ اماں جان تو مٹھائی نذر دینے کے لئے لائی تھیں لڑکی نے خود کھا لی اور ٹوکری ماما کے سر پر اوندھا دی۔ سارے بچھونے پر شیرہ بہایا۔ پتے اڑائے۔ ماں نے مارا ۔ وہ برابر سے جواب دئیے ہیں کہ دانت کھٹے کر دئیے۔ تلے اوپر کی بہنیں معلوم ہوتی تھیں۔ (ناناجان) عصمت مجھے اس کے چلے آنے پر رہ رہ کے
ریختہ صفحہ 146
تعجب ہوتا ہے کہ اس کو کچھ خیال نہ آیا۔ افسوس کہ تم بالکل بھول گئیں۔ پہچان لینے پر نہیں معلوم کیا کہتی اقرار کرتی یا پھر مکر جاتی۔ یہاں اسی قدر باتیں ہو کر فرت گزشت ہو گئی۔ میں نے اباجان سے الگ ایک دن کہا کہ آپ اس مکان کے (جس میں بانکے صاحب رہتے ہیں) مالک کو دریفت کیجئیے اور ان سے کہئیے کہ مکان کے خالی رہنے سے یا کرایہ داروں کے ہاتھ سے ہم کو طرح طرح کی ایذا پہنچتی ہے یا تو آپ خود آ کر رہئیے اور یا ہمارے ہاتھ بیچ ڈالئیے۔ جہاں تک ہو اس مکان کو لینا چاہئیے۔ جب مکان اہنا ہو جائے گا اس وقت زہرہ بیگم سے کہلوا بھیجا جائے گا کہ مکان خالی کر دیں۔ آٹھ دس روز میں اٹھ جائیں۔ یہ صورت ایسی ہے کہ ان کے قدم یہاں سے نکل جائیں گے اور اماں جان بھی خوش ہوں گی۔ اباجان نے بھی اس بات کو پسند کیااور اوپری اوپر مالک مکان کو محبت سے بلا کر ساری کیفیت سنا کر مکان لینے کی حاجت ظاہر کی۔ انھوں نے شرمندہ ہو کر کہا کہ میں اور مکان دونوں آپ پر تصدق ہیں۔ جب مزاج مبارک میں آئے لکھا پڑھی ہو جائے۔ یہاں تو یہ تدبیر تھی وہاں بی زہرہ اس دن تو سر منہ لپیٹے پڑی رہیں رویا کیں ۔ ماما کے نکنلے اور محنت پڑنے سے آخر کو پچھتائیں۔ دو تین روز بعد جب کوئی گڈرخیلی اور نوکر ہو گئی وہ پھر کوٹھے پر آنے لگیں۔ میر نقش علی صاحب کے ہاں گئیں۔ ان کی بی بی سے ملیں۔ میرا ذکر کیا۔ وہاں سے ہمسائی کے ہاں چلی گئیں۔ ان کی بہو بختاور دلہن سے میری تعریف کی۔ امجدی بیگم صاحب سے میرا نام لے کر کہا کہ آپ اپنے محلے کی لڑکیاں ان کے ہاں بھیج دیجئیے وہ خوب پڑھاتی ہیں۔ سینکڑوں طرح کے ہنر ہاتھ میں ہیں سب گنوں میں پوری ہیں۔ پڑھانا لکھانا کیسا۔ اگر ان کے پاس خالی بیٹھی رہا کریں گی تو بھی آدمی ہو جائیں گی۔
ریختہ صفحہ 147
ان کا سن تو ایسا نہیں مگر سلیقہ ہے سگھڑاپا ہے کہ واہ واہ۔ آپ لوگوں کی وجہ سے میری لڑکی کے پڑھنے کی صورت بھی نکل آئے گی۔ ان سب کو برا ہی کیا تھا پہلے تو وہ بوجہ آمدورفت نہ ہونے کے کچھ سوچے سمجھے۔ جب اس نیک بخت نے روز کا یہی ذکر نکالا اور طعنے دینے شروع کئے کہ دیکھئیے پچھتائیے گا (خدا نہ کرے) سر پہ ہاتھ دھر کے روئیے گا۔ یہی وقت ہے نہ چوکئیے، کہنا مانئیے۔ سوچ بچار اچھا نہیں۔ کچھ خدا نہ کرے وہ نیچ قوم نہین۔ ذات کی ہیٹی نہیں غریب نہیں جو آپ کو جانے میں عار معلوم ہوتی ہے۔ خدا کو مان کے جائیے ۔مجھے آپ کی لڑکی سے محبت ہےاس لئے کہتی ہوں۔ اس وقت امجدی بیگم نے بختاور دلہن کو اور میر نقش علی صاحب کی بیوی کو بلایا اور ان سے زہرہ بیگم کی ساری تقریر بیان کی۔ دونوں عورتوں نے کہا کہ ہم سے بھی یہی روز ذکر رہتا ہے۔ نہیں معلوم اس نیک بخت کا فائدہ کیا ہے۔ میر نقش علی صاحب کی بیوی نے کہا کہ جب وہ بہت پیچھے پڑیں تو میں نے کہا کہ آخر تمہارا کیا مطلب ہے جو کہ لوٹ ہو رہی ہو۔ ان کو کیا پڑی ہے کہ وہ محلے بھر کی لڑکیوں کو سمیٹ کر پڑھایا کریں گی۔ ایک تو امیرزادی اس پر ایسی ہنر مند اور سگھڑ ۔ ان کو اپنے گھر کے کاموں سے کیوں مہلت ملنے لگی کہ وہ مکتب خانہ جما کر بیٹھیں گی اور ان کیڑوں کے ساتھ سر مغزن کریں گی۔ کچھ خیر مانگو۔ مجھ کو جواب دیا کہ نہیں نہیں یہ بات نہیں ہے۔ ایک لڑکی کے پڑھانے سے انھیں انکار ہے۔ دو چار ہوں تو خوشی سے پڑھائیں۔ کہتی ہیں کہ ایک کے واسطے کون درد سری مول لے۔ میں اپنی لڑکی کو لے گئی تھی نا تو انھوں نے یہی جواب دیا۔ امجدی بیگم یہ سن کر بولیں کہ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کو خود پڑھانے کا شوق ہے۔ اگر ایسا ہے تو کیا مضائقہ
ریختہ صفحہ 148
لاؤ ایک دن ہم تم سب مل کر ان کے ہاں چلے نہ چلیں۔ میر صاحب کی بیوی نے انکار کیا کہ نہیں بیوی میں غریب محتاج آدمی کیا منہ لے کر ان سے اتنی بڑی خدمت لوں گی۔ دوسرے میری لڑکی کسی قابل نہیں ۔ ہاں تم دونوں صاحب جاؤ۔ ماشاء اللہ برابر کی ٹکر دار ہو۔ دوسرے تمہاری لڑکیاں بھی نام خدا سمجھدار ہیں میری کچی روٹی۔ امجدی بیگم نے کہا کہ توبہ یہاں روپیہ پیسے اور مال تال کا نگوڑا کون سا ذکر تھا (بیگم صاحب) آپ تو بعض وقت کچھ عجب الجھی ہوئی باتیں کرتی ہیں۔چھوٹی لڑکی اگر کمسن ہے تو بڑی کے بھیجنے میں کیا مضائقہ ہے۔ وہ ہنس کر بولیں کہ اوئی بیوی یہ بوڑا ڈھونگ پڑھنے کو جائے گا نوج اس اونٹ کی اور کون سی کل سیدھی ہے جو پڑھایا لکھایا جائے گا۔ مجھے اپنے تئیں ہنسوانا منظور نہیں۔ جہاں آٹا دال ہے وہاں ایک الو بھی سہی۔ امجدی بیگم بے اختیار ہنس پڑیں اور کہا کہ آپ تو ہر بات میں ایک پے لگا دیتی ہیں۔ ضرور آپ کو چلنا ہو گا۔ وہ چپ ہوئیں۔ بختاور دلہن نے کہا کہ یوں منہ اٹھائے جانا صلاح نہیں۔ پہلے کہلوا بھیجو اگر وہ بلائیں تو چلو۔ امجدی بیگم نے اسی وقت اپنی انا امیر خانم کو بلا کر کہا کہ تم نے نواب دولہا صاحب کا نام سنا ہے(امیر خانم) ہاں۔ کہا کہ ڈولی منگوا کر تم وہاں چلی جاؤ اور ان کی صاحبزادی طاہرہ بیگم صاحب کو میرا بہت بہت سلام کہنا۔اور کہنا جب سے آپ کی باتیں سنی ہیں۔دیکھنے کو دل لوٹ ہو رہا ہے۔ اگر کوئی امر مانع نہ ہو تو ہم حاضر ہوں۔ بی زہرہ کو آئے کوئی آٹھواں دن تھا کہ غلام علی نے دروازے سے پکار کر کہا کہ ایک سواری آئی ہے۔ بوا اعجوبہ ذرا باہر آؤ ۔ وہ گئیں اور یہ کہتی ہوئی کہ کہیں دیوانی زہرہ پھر تو نہیں چلی آئیں۔ باہر جا کر کہاروں سے پوچھا کہ یہ ڈولی کہاں سے لائے ہو۔ انھوں نے کہا بوا جی اسی
ریختہ صفحہ 149
محلے سے لائے ہیں۔ وہ پردے پاس گئیں اور کہا بیوی آپ کہاں سے آئی ہیں۔ انھوں نے سب پتے دئیے۔ بوا اعجوبہ نے اندر آ کر اماں جان سے کہا۔ انھوں نے حکم دیا امیر خان م آئیں تسلیم کر کے بیٹھ گئیں۔ تھوڑی دیر بعد میں نے اپنی بقچی لے کر وہیں جا بیٹھی۔ انھوں نے مجھ سے صاحب سلامت کر کے اماں جان سے پوچھا کہ طاہرہ بیگم صاحب آپ کا نام ہے ۔ انھوں نے مسکرا کر کہا کہ ہاں۔ وہ میری طرف مڑیں اور کہا کہ بیوی نے آپ کو بہت بہت سلام کہا ہے۔ ٹولے محلے والوں سے آپ کی تعریف سن کر گھر بیٹھے عاشق ہو گئی ہیں۔ مجھے بھیجا ہے کہ حکم لاؤ تو کسی دن ہم زیارت کو چلیں۔ میں نے اماں جان سے کہا کہ یہ کہاں سے آئی ہیں۔انھوں نے فرمایا کہ ایک نئی جگہ سے آئی ہیں۔ مجھے پورے طور سے واقفیت نہیں ہے۔ کوئی میر ماشاءاللہ صاحب یہاں رہتے ہیں۔ ان کی چھوٹی صاحبزادی کی یہ انا ہیں۔ میں نے کہا کہ میری طرف سے بھی سلام کہنا اور کہنا کہ آپ کی محبت اور عنایت میں تو کوئی شک نہیں لیکن میں خود مختار نہیں ہوں۔ خدا رکھے نانا جان اور اباجان کے ہوتے ہوئے ہاں نا کا جواب نہیں دے سکتی ۔ آج کل میں ان سے پوچھ کر آپ سے عرض کرا بھیجوں گی۔ آپ میرے اس سوکھے جواب سے کچھ اور اپنے دل میں خیال نہ فرمائیے گا۔ مجھے اپنے وعدے کا ان شاء اللہ بہت اچھی طرح سے خیال رہے گا اور اگر اجازت مل گئی تو آپ کو گھر م یں بیٹھنا دشوار ہو جائے گا۔انا نے کہا میں ٹہری ہوں۔ وہ تشریف لائیں تو جاؤں ۔ میں نے کہا کہ اول تو وہ ابھی آئیں گے نہیں اور اگر آئے بھی تو نہیں معلوم عرض کرنے کی مصلحت ہو یا نہ ہو، اگر تم سے کوئی کام متعلق نہ ہو تو ایک آدھ روز رہو۔ جب وقت ملے گا اجازت لے کر تم سے کہہ دوں گی۔ امیر خانم نے کہا کہ بیوی میں بے خبر لئے تو جانے کی نہیں
ریختہ صفحہ 150
نہ میرے نہ جانے سے کوئی کام اٹکا رہے گا ۔ خالی پلنگ پر بیٹھی چارپائی کے باند توڑا کرتی ہوں ۔ میں نے کہا اس سے کیا بہتر کام کاجی آدمی خیال کر کے میں نے یہ کہا تھا۔وہ مسکرا کر میرے قریب آئیں اور جراب کے بنانے کو دیکھنے لگیں ۔ اونی جراب کشمیر کی وضع پر میں نے بنائی تھی۔ وہ گٹوں تک کی ہوتی ہے۔ میں نے اسے بالشت بھر اور بڑھا دیا تھا ۔ جاڑے کے لئے میں دو جوڑیاں ضرور بناتی تھی۔ نانا جان ان جرابوں کو بہت عزیز رکھتے تھے۔ امیر خانم نے ایک فرو جو تیار ہو چکی تھی ہاتھ میں لے کرد یکھنا شروع کیا اس کا رنگ پھول بوٹے دیکھ کر لوٹ گئیں اور بے اختیار ہو کر میرے ہاتھوں کی بلائیں لیں۔ پھر کہا کہ کہ میری آنکھوں میں خاک۔ جب ایسے ایسے ہنر آپ کے ہاتھ میں ہوں تو کہاں تک مشہور نہ ہوں اور اپنے پرایے کس طرح تعریف نہ کریں۔ میں نے کہا کہ انا جی تمہاری بیوی سے کس نے میرا نام لیا۔ انھوں نے کہا کہ ہمسائی زہرہ بیگم نے۔ میں نے چندرا کر پوچھا کون زہرا بیگم۔ کہا کہ نواب بانکے مرزا صاحب کی بیوی خدا کی قسم آپ کا نام لے کر اس قدر پھڑکتی ہیں اس قدر خوش ہوتی ہیں کہ میں کیا بتاؤں ، ایک ایک بات یاد کر کے باغ باغ ہوئی جاتی ہیں اور پھر یہ بھی کہتی ہیں کہ میں نے ان کی کاریگری کچھ دیکھی نہیں فقط سنی سنائی کہتی ہوں۔ میں نے کہا یہ ان کی خوبیاں ہیں میں تعریف و توصیف کے قابل نہیں۔ دنیا میں انسان کا آنا ہی اس غرض سے ہے کہ جبر کو اختیار کرے ۔ دل کو کہنے میں رکھے ۔ اچھی بات سیکھے ۔ بری سے پرہیز کرے۔ احدی سست بن کر بیٹھے رہنا وقت گنوانا عمر کھونا بالکل خراب بات ہے۔ سب سے بہتر اور افضل تو یہ ہے کہ خدائے برحق کی عبادت کرے گناہوں سے بچے اس کے خوف سے روئے جہنم کی یاد سے دل جلائے حمد و شکر میں زبان تر رکھے۔ اپنے
صفحہ 291
اس کہنے سے میں چونک پڑی اور وضو کر کے نماز پر کھڑی ہوئی۔ ابھی فرصت نہیں پائی ہے کہ ساجدہ بیگم آئیں اور کہا کہ بھابھی جان اگر تم ایک بات مانو تو اماں جان چلی آئیں۔ میں نے اشارہ کیا کہ ذرا ٹھہر جاؤ وہ بیٹھی رہیں۔ فراغت پا کے میں نے پوچھا کہا کہ تم کسی بات میں دخل نہ دینا نہ اچھے سے غرض نہ برے سے کام وہ چاہے گھر بھر کو فاقہ دیں اور چاہے لنگر لٹائیں دوسرے اپنے آدمیوں کو بھی منع کر دینا کہ وہ ان کے پاس نہ جائیں۔ نہ کام کو ہاتھ لگائیں۔ جس طرح پہلے گھر بھر کی مالک بنی بیٹھی رہتی تھیں جو چاہتی تھیں کرتی تھیں وہی اب بھی وہ چاہتی ہیں گو اس بات کے جواب مناسب اور بھی تھے مگر میں نے سکوت و صبر سے کام لیا سجدہ کر کے بقچی باندھی اور ان کو ساتھ لے کر ابا جان کے پاس گئی کیونکہ مجھے بھی تو ایک گواہ کی ضرورت تھی اگر بدون ان کی اطلاع کے ایسا کرتی اور الگ تھلگ رہتی تو چار روز بعد پھر چھدّا موجود تھا کتنے بڑے الزام کی بات ہے کہ خود ہاتھ نہ لگاؤں اور آدمیوں کو بھی ممانعت کر دوں حالانکہ ان کے گھر میں بختاور کے سوا دوسرا کام کرنے والا نہ تھا ایک چھو چھو تھیں۔ وہ بیچاری اندھی ہو گئی تھیں۔ اباجان کو ساجدہ بیگم کی تقریر سنوا کر میں نے کہا کہ میں آپ کے سامنے اقرار کرتی ہوں کہ کبھی ان کی مرضی اور حکم کے خلاف نہ کروں گی نہ میں ہاتھ لگاؤنگی نہ میرے آدمی وہ شوق سے تشریف لائیں یہ کہہ کر میں چلی آئی اور ساجدہ بیگم جا کر ان کو لے آئیں۔ دسترخوان پر سب نے مل کر کھانا کھایا میرا حصہ سینی میں لگا کر بھیج دیا۔ صبح کو دوسرے دن بعد نماز میں سلام کو گئی گو غصہ کے خیال سے
صفحہ 292
مجھے نہ جانا چاہیے تھا لیکن نہ جانا بھی خلاف آدمیت تھا۔ دونوں صاحبوں کو سلام کیا تھوڑی دیر بیٹھی پھر چلی آئی یہی معمول رہا۔ رفتہ رفتہ بات کرنے لگیں مگر میں نے اپنی عادت نہیں بگاڑی کچھ کہا جواب دیا نہ بولیں ملال نہ کیا کام کو کہا آنکھوں سے بجا لائی نہ کہا انگلی نہ لگائی شاید کوئی مہینہ یا کچھ زیادہ اس حال سے گزرا ایک دن میں جیسے ہی سلام کر کے بیٹھی ہوں کہ انہوں نے پھر چھیڑ نکالی اور کہا کہ اوئی لڑکی تو نے تنکا توڑنا ہاتھ لگانا تک چھوڑ دیا۔ ساری گھر داری مجھی نگوڑی کے ذمے ۔ ذرا بھول چوک ہو اور چار آئے گئے الزام دینے کو موجود ہم نے بہو بیٹیوں کے یہ وتیرے نہیں دیکھے کہ نہاری بیگ کے لونڈے بنے پھریں اور حکومت سے کام کاج لیں۔ بڑے بوڑھے خدمت لینے کو ہوتے ہیں۔ نہ خدمت کرنے کو تجھے کسی نے اچھی اُلٹی پٹی پڑھائی ہے کہ صخچی میں بیٹھی راج رجنا اور چیلی چاپڑوں سے کام لینا بات کیا ہے کہ ایک تو اپنا گھر نہیں سمجھتی دوسرے کسی کی شرکت منظور نہیں جہاں دوسرے نے ہاتھ لگایا اور تو نے اپنا پانوں نکالا پھٹک کے الگ ساجھے کی ہنڈیا چوراہے پر پورا اپنا قبضہ ہو کوئی دخل نہ دے اللہ ری تری چند فندیہ بڑھاپا اور ہر روز تکیے سے سر اٹھاتے ہی چولہے میں ہمارا منہ دینا تجھے نہیں سوجھائی دیتا ہمارے یہ دن ہیں کہ ہم بیٹھکر روز دووقتہ دنیا بھر کے کام کریں بوڑھے مردے تو اٹھا بیٹھی کیا کریں اور زندہ جوان میر فرش بنے بیٹھے رہیں یہ تقریر ایسی نہ تھی کہ جو پتہ رکھتا ہوتا اسے سنکر جواب نہ دیتا سوا میرے کہ چپ بیٹھی ہوئی سب سنا کی نہ روٹھی
صفحہ 293
نہ بگڑی نہ تیو۔ پر میل آنے دیا جب وہ فرما چکیں تو میں نے کہا کہ اماں جان گو آپ نے ساجدہ بیگم کے ذریعے سے مجھے ہر بات میں دخل دینے سے روک دیا تھا لیکن میں آپ کی محبت اور اپنی عادت کے چھوڑ دینے کو بہت بڑی مشکل خیال کر کے ہر روز اسی لیے آ بیٹھتی تھی کہ جب میں سامنے ہوں گی کوئی نہ کوئی کام لے ہی لیں گی۔ خدا آپ کو سلامت رکھے۔ آپ نے بھی جب چاہا کام لیے اب جو فرمائیے بجا لاؤں حقیقت میں آپ بجا فرماتی ہیں۔ محنت کے قابل آپ کے دشمن نہیں ہیں اور پھر خدا رکھے ساجدہ بیگم کے ہوتے ہوئے ان کے علاوہ یہ نئی لونڈی بھی تو بے عذر خدمت کو موجود ہے۔ یہ سنتے ہی انہوں نے بگڑ کر جواب دیا کہ بس لڑکی بیٹھ مجھسے دنیا سازی نہ کرنا مجھے لا جا لو جی آئے نہ میں دنیا داری کرنا جانوں صاف دو ٹوک بات کی عاشق ہوں۔ ساجدہ دو دن میں اللہ رکھے اپنے میاں کے یہاں چلی جائے گی جب تک ہے بیشک اس سے سب ہی طرح کی امید ہے جس طرح چاہوں کام لوں کان پکڑ کر اٹھاؤں کان پکڑ کر بٹھاؤں تم اپنی کہو کہ ٹیڑھی نگاہ سے نہیں دیکھ سکتی میں نے کہا کیوں میں کچھ ان سے زیادہ تھوڑی ہوں آپ ہر طرح میری بھی مختارو مالک ہیں فرمایا کہ فوج چھائیں پھوئیں مجھے اپنا سر منڈوانا تھوڑی منظور ہے تمہارے طرف خواہ سگے سو جھڑے گرو گھنٹال مولوی ہڈا صاحب جو آٹھ پہر کھٹ بڑھئی کی طرح کلیجہ کریدنے کو موجود ہیں ان کے ہوتے ہوں سے چوں کر سکتی ہوں ۔ مجال پڑی ہے طاقت ہے میں نے عرض کیا کہ میرے نزدیک وہ اور آپ
برابر ہیں جیسا آپ کو سمجھتی ہوں ویسا ہی ان کو سمجھتی ہوں۔ فرمایا کہ میری ان کی کیا نسبت وہ دوست میں دشمن ان کی محبت کی نظر میرے عداوت کے تیور اپنے بچے کا آدمی خوب سر کچل سکتا ہے تم رنگا کے آئی ہو چار چاند لگے ہیں نئی نویلی دلہن نوجوان کمسن چکنی چپڑی کھچی کھچائی بنی ٹھنی بھلا کہاں میں کہاں تم جو تمہارا خیال و پاس ہو گا وہ مجھ سڑی سانپ کا ہو سکتا ہے؟ مجھے اس کلمہ سننے کے بعد تاب قیام نہ رہی وہاں سے اُٹھ آئی ۔ سہ پہر کو فرض کر کے پھر مجھے بلا کر کہا اے بی (بہری بھنڈاس کان سن اس کان اڑانے والی) سنتی ہو کل سے تم جانو اور تمہارے سسرے یہاں جو ہاتھ اٹھا کر دیدوگی کھا لیں گے نہ دو گی بروں کی جانوں کو صبر میں نے اس کا بھی کچھ جواب نہ دیا۔ شام کو جب گھروالے میاں صخچی میں رونق افروز ہوئے تو رحمت نے اپنی محبت سے انہیں ٹٹولا کہ دیکھوں یہ بھی کچھ کہتے ہیں ۔ سارا قصہ سنا اور ان بندہ خدا نے جواب نہ دیا۔ رحمت نے پھر پوچھا پھر کہا اس وقت بولے تو یہ بولے کہ اجی میں اس جھگڑے بکھیڑے کو نہیں جانتا ہو گا بھی رحمت نے کہا اوئی میاں کوئی آپ سے یہ تھوڑی کہتا ہے کہ آپ جھگڑے میں شریک ہو جیئے تدبیر پوچھتے ہیں کہ وہ روز کہہ کر بدل جاتی ہیں ہاتھ نہ لگائیں نہ لگائیں کام کریں نہ کریں ایسی بات بتائیے کہ بات نہ بڑھے خدا نہ کرے لڑائی جھگڑا تو ہے نہیں مزاجوں کا اختلاف ہے بولے کہ میں طبیب نہیں ہوں جو کسی کا مزاج بدل دوں اور علاج کروں جو جس کو بن پڑے وہ کر ے۔ ایسے قصوں سے مجھ کو کام نہیں ۔ رحمت چپ ہو رہیں۔
صفحہ 295
میں بے کہا کہ تم ان سے کیا پوچھتی ہو بیشک ان کے اختیار سے باہر بات ہے وہ کیا کریں وہ بیٹھے ہی ہوئے تھے کہ کھانا آیا انہوں نے چاہا کہ میں بھی یہیں کھالوں میں نے کہا کہ تم دسترخوان پر جا کر کھاؤ ایسا نہ ہو اماں جان کے خلاف گذرے کہا ہو گا بھی اس وقت تو میں تھکا ہوا ہوں ہلنے کو جی نہیں چاہتا۔ میں چپ ہو رہی۔ وہ ہاتھ دھو کر کھانے کو بیٹھے ہی ہیں کہ پکار ہوئی۔ رحمت نے کہہ دیا کہ وہ یہاں نوش کرتے ہیں ۔ یہ سننا تھا کہ انہوں نے میاں سے شکایت کا دفتر کھولا اور ایک پہلو ہاتھ آتے ہی میری طرف سے لگانا بجھانا شروع کیا ۔ وہ سن رہے ہیں یہ کہہ رہیں ہیں کہ ساللن کم ہوا ایک آدمی سے دو ہو گئے ۔ رحمت پیالہ لے کر گئیں کھڑی رہیں کہ یہ با ت کر لیں تو کہوں ۔ جب وہ مڑیں تو رحمت کو دیکھ کر ایک چیخ ماری کہ در موئی چھچھوندر نخبتی تھکیل اری کیا مجھے کسی کا ڈر پڑا ہے یا چوری ہے جو جا سوسوں سے ڈر جاؤں بڑی سن گن لینے والی غارت ہوئی پچھل پائیوں پیزار پیٹیوں نے میرا گھر گھیرا ہے کہاں تقدیر کی بندو ڑین لکھی تھیں۔ ارے ہم بھی وہاں جاتے ہیں اے پھٹے سے منہ اے تھوک اے زوف بے غیرت نکٹی رحمت تو ایسی سناٹے میں آئیں کہ دال سالن سب بھولیں پیالہ لیے کی لیے رہ گئیں۔ کہیں تو کس سے کہیں اور ٹھہریں تو کیونکر وہاں غصہ تیز یوں پر ہے ہم دونوں آدمی ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں آخر رحمت نے کوئی چارہ نہ دیکھا وہ اپنی کہا کیں اور انہوں نے بختاور سے سالن نکلوا کر اپنی راہ لی۔ میاں نے کہا ارے صاحب
صفحہ 296
تم کو کچھ خبط ہے سودا ہے وہ سالن لینے آئی تھی یا سن گن مخبری اور جاسوسی کیسی باتیں کرتے دیکھ کے ٹھٹک رہی یہ بھی برا کیا کہ اجازت لینے کو ٹھہری رہی خود لے لیتی تو اس کا پیٹنا ہوتا انتظار کیا کہ تم پھرو تو حکم لے کر سالن لے اس پر تم نے کیا کیا اس کو کہا سمدھیا نے کی عورت دوسرے سمجھدار ہوشیار بہو کا پاس نہ سہی اپنی عزت کا تو خیال چاہیے۔ دوسری ہوتی تو اُلٹ کر جواب دے بیٹھتی اُس وقت قدرعافیت کھلتی چار دن کا ذکر ہے کہ اسی زبان پر جعدہ سے کیا کچھ ردوبدل ہو چکی ہے دشمنی پڑ گئی آخر اسے نکالتے ہی بنا تم اسے وہ تمہیں زہر دینے کو تیار تھی۔ یہ سننا تھا کہ انہوں نے ایک دوہتڑ مارا کہ ہے ہے یہ سمجھانا ہے کہ آدمیوں کو ابھارنا ارے جوتیاں ہاتھ میں دے دے اور کہہ کہ اس سے خبر لو ارے تم مٹو ارے تم غارت ہو میرا حق مٹانے والے میری بات بگاڑنے والے ارے یہ سبز قدم بہو میرا ہر ابھرا باغ سکھائے گی۔ ارے یہ بھن پیری میرا بھرا پرا گھر اجاڑے گی۔ رحمت مردار کا تو یہ یاس کہ سمدھیانے کی ہے کلیجے کی نکلی ہے اس کو سبق پڑھایا جاتا ہے کہ دوسری دفعہ تڑ سے منہ پر جواب دے بیٹھے اور ہماری یہ مٹی خراب مرتے ہیں مرتے پر نہ راہ چلتے پر بھاڑ میں جائے یہ گھر چولہے میں پڑے یہ ساتھ ارے تم سب سے خدا سمجھے جیسا مجھے برا کر رکھا ہے ۔ ابا جان تو سنتے ہی وہاں سے ٹل گئے اور انہوں نے ان کے طرح دے جانے سے اور زیادہ زبان کو دراز کیا کھانا کھا کر میں ہاتھ دھونے
صفحہ297
باہر آئی سنتی جو ہوں تو میرے ہی اوپر لے دے ہو رہی ہے اور اس کی نہ حد ہے نہ انتہا دوسری بہو ہوتی اپنی بے گناہی اور ان کی زیادتی پر خیال کر کے بھڑ جاتی لڑ پڑتی کلیجہ تو میرا بھی پک گیا کان جل گئے مگر جلدی سے ہاتھ دھو کر بھاگی اور اپنی صخچی میں جاکر بیٹھ رہی ۔ رحمت سے پوچھا کہ اس وقت اماں جان کس پر خفا ہو رہی ہیں ۔ انہوں نے کہا بیوی میں سالن لینے گئی تھی وہ بات کر رہی تھیں ۔ میں ٹھہری رہی کہ یہ چپ ہوں تو سالن مانگوں وہ بات کرتے کرتے مڑیں مجھے وہاں دیکھ کر سمجھیں کہ یہ ٹوہ لینے کو آئی تھی پھر کیا تھا آؤ تو جاؤ کہاں ہاتھ دھو کر میرے پیچھے پڑ گئیں ۔ وہ بات ناتمام رہی دوسرا قصہ چھڑ گیا مجھے ادھر کا خیال تھا آخر کو بختاور سے سالن نکلوا کر سر پر پاؤں رکھ کے بھاگی ۔ جب سے اس وقت تک اسی کا تار بندھا ہے بیچ میں مولوی صاحب نے سمجھایا وہ اور ستم ہو گیا۔ میں نگوڑی ماری اگر پہلے سے جانتی کہ وہ آپ کا ذکر کر رہی ہیں تو کیوں جاتی اور گئی تھی تو جلدی سے سالن لے کر چلی آتی ٹھہرتی کیوں اور پوچھنے کی ضرورت ہی کیاتھی لیکن خیر اب سے آئے گھر سے آئے آیندہ کو کان ہو گئے اب ایسی خطا نہ ہوگی ۔ میں نے کہا کہ تم کچھ بولی تو نہیں ۔ رحمت نے قسم کھا کر کہا کہ کیا میں نادان یا سڑن ہوں ۔ میں نے کہا ہاں اس کا خیال رکھنا کہ ان کو الٹ کر جواب کبھی نہ دینا گھر کا واسطہ ہے جانے کا تو عہد ہو نہیں سکتا کوئی کام نکلے گا تو کیونکر نہ جاؤ گی یہ سمجھو کہ ایک بڑی بوڑھی گھر کی مالک ہیں ۔
صفحہ 298
خدا ان کے دم کو رکھے زیادہ کاموں میں آدمی کو نرا جاتا ہے دوسرے خدا رکھے سن زیادہ گیا ہے بڑھاپے میں عقل جاتی رہتی ہے دل کمزور ہو جاتا ہے غصہ بات بات پر آتا ہے ۔ ان کے کہے کا برا نہ ماننا تم خود سمجھدار ہو مگر میں نے احتیاطاً کہہ دیا کہ بندہ بشر شاید ان کے ہر وقت کے غصے سے کبھی تم بھی بے قابو ہو جاؤ اور بگڑ بیٹھو تو ایسا نہ ہو ان کے بدلے تم مجھے کہہ لینا مگر خبردار کبھی ان سے ردو بدل نہ کرنا ۔ (رحمت) بھلا بیوی آپ کے کہنے کی یہ بات ہے ۔ میں بھی جانتی ہوں جو ان کا مرتبہ ہے وہ وہی ہیں میں میں ہی ہوں میری ان کی برابری کیا ہوئی ٹکے کی ماما جیسے آپ کی نوکر ویسے ان کی ایسا کیا غضب ہے کہ میں ان کو جواب دوں گی۔ ردوبدل برابر والوں میں ہوتی ہے یا نوکر اور آقا میں ہاں ذرا بوا اعجوبہ کو سمجھا دیجیے آج بہت اداس ہیں ۔ صبح سے کئی دفعہ جز بز ہو کر چلی تھیں میں نے روکا کہ نا بہن کہیں ایسا کام بھی نہ کرنا کیا میری بیوی کی محنت خاک میں ملاؤ گی۔ ان کے صبر کو دیکھو انہوں نے کہا کہ ہاں بہن سچ ہے تم سے سنا جائے تم بیٹھو ہم تو یہاں نہیں ٹھہر سکتے ۔ پیچ پی ہزار نعمت کھائی پیروں کے نیچے سے زمیں نکلی جاتی ہے بھلا میرے سامنے میری بچی کی دھجیاں اڑیں فضیحت ہو اور میں سنوں غضب اندھیر یہ بدزبانی اور کوسنا جو پاجیوں میں نہیں ہوتا خدا معلوم کیسے مولوی ہیں اور کیسا ان کے گھرانے کا انداز ہے ۔ میری بچی بھلا ان باتوں کی عادی کہاں نہیں معلوم کیونکر صبر کرتی ہے اور اس کے دل کا اندر سے کیا حال ہے مجھے اس کی
صفحہ 299
جان کے لالے پڑے ہیں۔ کانٹوں میں لے کر پھول کو اُلجھا دیا۔ خدا اس پر رحم کرے۔ میں نے یہ سن کر کہا کہ ذرا بوا اعجوبہ کو بلا لاؤ جب آئیں تو میں نے دیکھا کہ برنیان سوجی اور پپوٹے بھربھرائے ہوئے ہیں۔ پاس بٹھا کے پان بنا کر دیا کھانے کو پوچھا کہا کہ بھوک نہیں ہے۔ میں نے کہا کہ ہائیں صبح کو ایسا کیا کھا لیا تھا جو بھوک جاتی رہی رحمت نے کہا کہ ایک نوالہ کھا کر فقط کھا کر فقط پانی پیا ہے صبح کو کیا کھایا میں نے بہت کہا اُنہوں نے ایک نہ سنا اس وقت میں نے ان کے گلے سے لگ کر کہا کہ بوا غیر آدمیوں میں جا کر اُن کو اپنا بنانا تمہارے نزدیک کیا بچوں کا کھیل ہے میری بات ہے مجھکو ایسا ناگوار نہیں اور اگر میرے دل جلنے پر خیال کر کے تم اپنا دل جلاتی ہو تو یہ بالکل بے سود ہے ممکن ہے کہ کسی کے دل پر صدمہ ہو اور وہ ظاہر نہ ہو جائے اگر میرے دل میں ملال ہوتا تو کبھی نہ کبھی زبان سے طریقہ سے بات چیت سے ضرور ہی کھلتا جب تم پر نہیں کھلا تو معلوم ہوا کہ نہیں ہے پھر کیا وجہ جو تم بے واسطے کا رنج مول لیتی ہو گا لیان ہون یا کوسنے جو کچھ مجھے دیے جاتے ہیں اگر میں ان کی مستحق ہوں تو جا سے ویے جاتے ہیں جیسی کرنی ویسی بھرنی اور اگر بیگناہ ہو ں ان باتوں کے قابل نہیں تو دوسرا شخص اپنی زبان خراب کرتا ہے کہتے کی زبان نہیں پکڑی جاتی بھلا ہو سکتا ہےکہ جس وقت وہ کچھ کہیں تم ان کی زبان پکڑ لو اور نہ کہنے دو یہ ہرگز ممکن نہیں بلکہ محال ہے پھر محال شے کی تمنا کرنا سراسر نادانی ہے۔ اس کے علاوہ تم کو ملال کرنے کا کیا حق ملال تو مجھے ہونا چاہیے میں قسم کھا کے کہہ دوں
صفحہ 300
کہ مجھے ان کی کسی بات کا رتی زیرے برابر ملال نہیں تم بھی اپنے دل سے رنج نکال ڈالو تم مجھ سے واسطہ رکھتی ہو میرے رنج سے تمہارا رنج میری خوشی سے تمہاری خوشی ہے پھر بے میرے ملال کے ملال کیسا میرے سر کی قسم کھانا کھاؤ اور جس طرح رہتی تھیں اُسی طرح ہنسی خوشی سے رہو میں نے سنا کہ تم اکتا کر ایسی بددل ہو رہی ہو کہ گھر جانا دل پر ٹھان لیا ۔ میں تم سے پوچھتی ہوں کہ مجھے چھوڑ کر جب تم چلی گئیں تو ہر ایک اس کا سبب پوچھے گا کیا بتاؤ گی جھوٹ بولو گی نہیں پھر سچ کہہ کر کیا میرا یہاں کا رہنا چھڑاؤ گی اور وہاں سارے گھر کو کانٹوں پر لٹاؤ گی میری ایذا اور تکلیف کا حال سنکر اماں جاں کو قرار آئے گا اور پھر وہ بے بلائے چین لیں گی۔ نانا باوا کے دشمنوں کا کیا حال ہو گا اور ابا جان کوکیسا ملال آدمی بات سوچ سمجھ کر کرے تھوڑے دن میں بلاوا آئے گا ہم جائیں گے تم کو نہ آنا ہو کوئی بہانہ کر کے رہ جانا ابھی تمہارا جانا بالکل مصلحت کے خلاف ہے بوااعجوبہ میری بلائیں لے کر رونے لگیں اور کہا کہ ہا افسوس ایسی غیرت دار لالوں کی لال بچی کی اس گھر میں کیا قدر ہوئی ہے کیا نا قدروں سے پالا پڑا ہے جنہوں نے خواہ مخواہ ہوا کی طرح چراغ سے دشمنی باندھ رکھی ہے ۔ میں نے کہا کہ بوا تمہارے سر کی قسم یہ دشمنی نہیں ہے جس طرح بچے کھلونوں میں سے کبھی ببوے اور کبھی گجری کو پکڑ لیتے ہیں اور پہروں اس کا پیچھا نہیں چھوڑتے چاہے ٹوٹے چاہے پھوٹے اسی طرح بوڑھے "بوڑھا بالا برابر" گھر بھر میں ایک آدھ کو اپنا کھلونا بنا لیتے ہیں ۔ بچوں
صفحہ 301
کو کھلونوں کے ساتھ دشمنی ہوتی ہے نہ بڑوں کو بیر بغض بات صرف اتنی ہے کہ زوال عقل ہو جاتا ہے نیک و بد کی تمیز نہیں رہتی سب اعضا ء کی طرح دل بھی ضعیف ہو جاتا ہے عقل نہ ہونے سے سیدھی بات کو الٹا سمجھتے ہیں اور تمیز نہ ہونے سے نیک و بد نہیں سوچتے سمجھتے ضعف سے دل نہیں برداشت نہیں کرسکتا زبان چلا بیٹھتے ہیں چاہے کوئی برا مانے چاہے بگڑے انہیں اپنے کہہ بیٹھنے سے کام بوا اعجوبہ نے کہا ہاں بیوی جو کہو بجا ہے ہم نے تو بال دھوپ میں سفید کئے نہ بوڑھوں کو دیکھا نہ بڑوں کو راجہ دیکھے رانی دیکھی حلق میں لکڑی کہیں نہیں دیکھی میں ہنس کر چپ ہو رہی اور ٹال کر کہا کہ خیر جو کچھ ہوا وہ ہوا اب غصے کو تھوک دو زمانے کی ہمیشہ ایک چال نہیں رہتی دیکھو تو ہوتا کیا ہے تمہارا ہی کہنا سہی کہ وہ دشمن ہیں تو کیا دشمن سے مل کے چلنا گناہ ہے یا عقل کے خلاف تم تو عقلمند ہو کوئی بیوقوف بھی اس بات کو برا نہ بتائے گا کسی کل اونٹ بیٹھے ہی گا دیر آئے درست آئے جلدی ہر کام میں اچھی نہیں ہوتی وہ بیچاری چپ ہو رہیں اور جب اٹھنے لگیں تو میں نے ان سے نہ جانے کا اقرار لے لیا جو مقام ہمیں سسرال سے عنایت ہوا تھا وہ گو ایک گھر میں تھا لیکن انگنائی بہت بڑی ہونے سے بالکل جدا تھا صدر میں بیگم صاحب رہتی تھیں اُس کے سامنے یہ دہری صخچی تھی جس کے پہلو میں ایک دالان اور کمرہ تھا کمرے کے دروازے باہر تھے مردانہ بیٹھکا تھا اندر کے دالان میں اعجوبہ رحمت
صفحہ 302
عابدہ بیگم رہتی تھیں ۔ صخچی میں ہمارے رہنے کا ٹھکانہ تھا جب مولوی صاحب نے اپنے لڑکے کی شادی ٹھہرائی تو اس آدھی صخچی میں شمال رو تین دروازے لگا کر کمرہ کر دیا تھا باہر والے کمرے کے پہلو پر یہ کمرہ بنایا گیا تھا اس وجہ سے رحمت والے دالان اور اس کمرے میں کچھ فاصلہ ہو گیا تھا۔ اعجوبہ کے جانے کے بعد میں نے چراغ کے آگے کچھ کام کیا بعد ازاں لیٹ رہی کروٹیں لیکر نیند کو بلا رہی ہوں کہ صخچی میں کچھ آہٹ ہوئی رحمت نے آواز دی میں نے دلائی منہ پر سے ہٹائی دیکھا تو کسی نے چراغ پھونک دیا رحمت کے جاگنے سے مجھے اطمینان ہوا آنکھیں پھاڑ پھاڑکے دیکھا کچھ معلوم نہ ہوا صخچی میں جو دروازہ تھا اُس کے قریب اُن کا پلنگ بچھا تھا اُس وقت وہ باہر تھے اس پلنگ پر ٹٹول کے بیگم صاحب تختوں پر چڑھیں کچھ تخت چرچرائے کچھ چاپ معلوم ہوئی مگر مجھے ان کا خیال تھا نہ گمان سون کھینچے پڑی رہی وہ میری پلنگڑی پر آئیں اور دونوں پہلوؤں میں خوب ٹٹولا بھلا یہ کوئی عقل کی بات تھی آدمی کو دیکھتی تھیں یا سوئی ڈھونڈتی تھیں ۔ سرہانے پائینتی دیکھا تکیہ اٹھا کر دیکھا تکینی ہٹا کر دیکھا جب کسی کو نہ پایا اور مجھ کو سوتا سمجھیں تو صخچی سے باہر نکل کر پوچھا کہ بختاور ارے کیا لڑکا باہر ہے اس نے کہا کہ جی مجھے معلوم نہیں کہا جا دیکھ اگر ہو تو بلا لا وہ گئی آواز دی سبق پڑھ کے وہ کمرہ بند ہی کر رہے تھے بختاور کھڑی رہی جب باپ بیٹے اندر آئے تو اس نے پیام دیا۔ تھوڑی دور بڑھے تھے کہ اماں جان ملیں۔
صفحہ 303
کہا کہ سنتا ہے لڑکے خبردار جو تو آج سے یہاں سویا میں نے بڑے دالان میں پلنگ بچھاکر بچھونا کر دیا ہے ۔ وہاں جا کر آرام کر وہ کتاب لیے وہاں چلے گئے اور سو رہے اب انہوں نے یہ تدبیر کی کہ لاؤ اس طرح سے اسے ستاؤں دیکھوں کہ سر اُٹھاتی ہے یا سہہ جاتی ہے مجھے کیا تھا وہ مان وہ بیٹے میں منع کرنے والی یا بگڑنے والی کون جہان چاہتے رہتے چار پانچ روز میں ایک ایک کر کے ان کی کتابیں قلمدان صندوقچہ الماری سب وہاں منگا لیا اب یہ نوبت پہونچی کہ آٹھ آٹھ دس دس روز میں ان کی صورت دیکھنے کو ترس گئی اور وہ بھی لاکھ لاکھ چاہتے ہیں اماں جان ہمنسے نہیں دیتیں۔ روز رات کو جب وہ سو رہتے ہیں تو آپ سوتی ہیں گھر بھر میں سوا اباجان کے تھا کون جو ان کی ان باتوں پر خیال کرتا جب کئی مہینے اسی طرح سے گذرے اور اس درمیان میں پندرہ پندرہ دن میکے میں بھی جا کر میں رہ آئی اماں جان نے داماد کو کس کس للک سے بلا بھیجا مگر ان کو بیگم صاحب نے ہرگز نہ جانے دیا اور ہر دفعہ ایک نہ ایک حیلہ بہانہ کر دیا جب روز آدمی آنے لگا تو مجھے بلوا بھیجا کہ نہ یہ بہت وہاں رہے گی نہ کوئی بلانے آئے گا پھر بلایا تو اس طرح سے کہ پنیس کہا آدمی جا کر صبح سے باہر سزا دل ہوئے اور بختاور اندر سانس لینا دشوار ایک دفعہ تو کھانا کھا کر سوار ہوئی اور دو دفعہ بھوکی چلی آئی ایک دن اباجان نے ان کو الگ بلا کر پوچھا کہ بیگم یہ تم نے لڑکے کو بہو سے کیوں جدا کر لیا اس طرح سے انہوں نے ایک
ریختہ صفحہ 326
سے خیال ہوا کہ شاید ادھر کچھ باتیں میری رہتی ہیں۔ انھیں کو انھوں نے کہا ہے۔ وہاں بات ہی اور تھی۔ بیگم صاحب کا تو مزاج ایسا بدل گیا تھا کہ گرمی سے جاڑا ہو گئی تھیں۔ نہ وہ تیزی تھی نہ حرارت۔ نہ گرم انچھروں کے لوکے تھے نہ دل جلانے کی ہوائیں۔ میاں کی طرف سے ایک خدشہ تھا پھر وہ بھی کچھ ایسا نہ تھا کیونکہ ان کی طبیعت کا انداز ہمیشہ سے ایسا ہی تھا۔ اس زمانہ میں جیسا ذرا ظہور بگڑ گیا تھا ویسا پہلے بھی کئی دفعہ بگڑ چکا تھا جب ان دونوں صاحبوں کی طرف سے کوئی بات ہاتھ نہ لگی تو اور طرف ڈھونڈنے کو چلی۔ میں اس فکر میں بیٹھی ہوئی ہوں کہ شہر یار دولہا بھابھی جان بندگی عرض کہتے مسکراتے نازل ہوئے۔ چہرے کو فق رنگت کو بیقرار دیکھ کر پوچھا کیوں آپ کا مزاج کیسا ہے۔ میں نے کہا اچھی ہوں۔ پانچ چھ مہینے کے زمانے میں اب انھوں نے بیٹھ بیٹھ کر اور آ آ کر مجھ سے بات بھی کرائی اور ہواؤ بھی تڑوایا۔ زیادہ لحاظ و حجاب اس مصلحت سے نہ کیا کہ اماں جان کہیں کوئی لم نہ لگا دیں اور شرم کی بھی دو تین مہینے تو سلام کا جواب تک نہیں دیا۔ بات کیسی۔ رفتہ رفتہ سبب کچھ خود ہی کرنا پڑا۔ اب نوبت خاطر مدارت تک کی پہونچ گئی۔ پان دینا سلام لینا جواب دینا خیر خبر پوچھنا فرض ہو گیا۔ انھوں نے کھانے کے وقتوں کے علاوہ بھی دن میں ایک دو دفعہ آنا مستحب سمجھ لیا۔ کبھی گرنٹ نئی نئی وضع کی لئے چلے آتے ہیں کبھی گاچ، لاہی، شربتی، ململ دکھانے کو مستعد کھڑے ہیں۔ ڈھونڈ ڈھونڈ کر ایسی اچھی اچھی چیزیں
ریختہ صفحہ 327
لاتے ہیں کہ آدمی دیکھا کرے۔ نہ لینا ہو تو بھی لے لے۔ گو پہلے ہی روز میں نے ان سے کہہ دیا تھا کہ بھائی اللہ رکھے اماں جان کو۔ میرا کھانا کپڑا ان کے سر ہے۔ مجھے لینے دینے سے کیا۔ جیسا ان کا جی چاہے ویسا بنوا دیں۔ ایک دن ان کے اصرار سے پوچھنے پر میں نے ایک پھولام اطلس کی تعریف کی۔ اس کے پہلے ایک دن وہ یہ بھی کہہ چکے تھے کہ آپ پسند کر لیجئیے میں تولوا دوں گا۔ مجھے اس اپنے کہنے کا خیال نہ آیا وہ اطلس لئے اماں جان کے پاس گئے کہا کہ آپ کی بہو نے یہ پسند کی ہے ایک پائجامے کی لے دیجئیے۔ انھوں نے کہا ابھی روپیہ نہیں ہے۔ کہا کہ میں قرض لا دوں گا۔ وہ چپ ہو رہیں۔ یہ بیوی کو پسند کرا کے نپوا جھکوا کر ایک پائجامے کی اطلس لے آئے اور میرے آگے لا کر پھینک دی۔ میں نے قیمت پوچھی کہا آپ کو کیا میں اماں جان سے لے لوں گا۔ یہ بات ان کو نہایت ناگوار گزری اور داماد سے ایک ملال ہوا اور کیونکر ناگوار نہ ہوتا کہ داماد کا واسطہ تیس روپیہ کا پائجامہ دیتی ہیں تو نقصان عظیم ہوتا ہےنہیں دیتی ہیں تو غیرت قبول نہیں کرتی۔ طبیعت کا یہ حال کہ دوسرا برس میری شادی ہونے کو آیا اور انھوں نے جوتے تک کی خبر نہیں لی۔ جوڑے اور پوشاک کیسی۔ میں نے چار کے دکھانے اور ان لوگوں کا نام کرنے کو سو روپیہ میاں کو دے کے اباجان کی معرفت سے دلائیاں رضائیاں پانچ سات جوڑے بچوں سمیت بنوائے۔ وہ روپیہ اباجان نے بدفعات مجھے واپس دئیے لیکن بیگم صاحب کو مطلق خیال
ریختہ صفحہ 328
نہ آیا۔ ایک دفعہ مولوی صاحب نے کہا بھی تو جواب آیا کہ کیا کچھ محتاج گھر کی لڑکی ہے ننگی لچی آئی اوڑھنے پہننے کو نہیں نصیب کیا۔ دھاڑ کیا پڑی ہے بنوا دیا جائے گا۔ یونہی ٹالا یہاں تک کہ سال پلٹا دوسرا تمام ہونے کے قریب آیا اب چوتھی کے جوتے میں بھی دم نہیں رہا۔ لفافیہ تو وہ بنا ہی تھا دو سال پہننے سے جوتھڑے نکل آئے سلمہ ستارہ خاک میں مل گیا اندر سے سوت نکل کر کھوسڑا ہو گیا۔ ایک تو سجا برا دوسرے دن زیادہ کٹے مری گھونس کو کھینچتی پھرتی تھی۔ آخر اس کی یہ بے حیثیتی دیکھ کر میرے دل میں آیا کہ شہریار دولھا چیز اچھی لاتے ہیں لاؤ انھیں سے منگوا لوں۔ ساجدہ بیگم کو بلوا کر فرض کر کے میں نے دو روپے دے کر کہا کہ اپنے میاں سے ایک گیندا سی خوبصورت گرگابی منگوا دو۔ انھوں نے روپے پھیر دئیے اور کہا کہ روپیہ کی کیا جلدی پڑی ہے جب آئے اور پسند ہو جائے اس وقت دے دیجئیے گا۔ بہت کہا نہ مانا۔ میں چپ ہو رہی۔ اسی دن اس اطلس کا ٹکڑا لئے ہوئے اماں جان کے پاس گئی ۔ وہ اور ان کی بڑی بہو بڑے دالان میں بیٹھی ہوئی تھیں ۔ میں نے رومال سے وہ ٹکڑا نکال کر ان کے آگے رکھ دیا اور ساری حقیقت بیان کی پھر اسی رومال سے روپیہ کھول کر دئیے کہ آپ اپنے ہاتھ سے شہر یار دولھا کو دے دیجئیے۔ میں نے ان کی خاطر اور بار بار کے تقاضے سے تعریف کی۔ وہ سمجھے پسند ہے۔ اگر آپ کو ناگوار نہ گزرے تو یہ روپیہ حاضر ہیں ورنہ جیسا آپ مناسب جانیں۔ انھیں سے میں نے قیمت و قرض کا حال سنا۔ خدا کی قسم میں نے
ریختہ صفحہ 329
نہ فرمائش کر کے منگائی نہ کسی اور غرض سے تعریف کی۔ انھوں نے مسکرا کر میری طرف دیکھا ۔ بڑی بہو نے وہ ٹکڑا اٹھا کر بے دھڑک کہا کہ اماں جان یہ تو میں لوں گی۔ وہ بولیں کہ اچھا تمہیں لے لو ان کے تو پسند بھی نہیں ہے۔ میں نے بھی کہا کہ آپ کے پسند آئے تو حاضر ہے۔ کہا ووئی تم تو اس طرح سے کہتی ہو گویا تمہارا مال ہے۔ کما کر کہیں سے لائی ہو۔ میں چپکی وہاں سے روپیہ اور مال لے کر اٹھ آئی۔ بات کا جواب بات ہے مگر میں نے طرح دی۔ آج پہلی بسم اللہ انھوں نے یہ کی۔ اگر ٹوک دوں تو اچھی رہوں۔ لیکن میری آنکھ میں تو مروت اس قدر خدا نے دے دی تھی کہ جسے میں ہی جانتی ہوں۔ یہ صاحب ان کے بڑے لڑکے مولوی سید مجاور حسین کی بیوی تھیں جب سے شوہر ان کے مر گئے تھے چڑھی بارگاہ ہو گئی تھیں، خود مختاری کے علاوہ ذرا آزاد مزاج اور بیباک بھی تھیں۔ میں نے ان کے تیور اس وقت کی جلی کٹی سے پہچاناکہ ہئے ہئے شاید انھیں کی نسبت رحمت نے اس دن کہا تھا کہ اب مجھے بھی اس کے کھوج کی حاجت ہوئی اور جو کچھ دیکھا وہ بظاہر نا گفتہ بہ ہے مگر میں قسم کھا کر کہتی ہوں کہ سوا ایک بیباکی کے ان کے مزاج میں اور کوئی بات نہ تھی۔ ساس کی خاطر اور ان کی پاسداری دیور کی محبت سے انھوں اپنے سر بہت بھاری الزام لیا جو انھیں کے سسرال والوں کی بد نیتی پر محمول ہے۔ مجھے جس نے کہا میں نے ٹکڑا توڑ کے اس کے ہاتھ میں رکھ دیا۔ اور صاف کہا کہ کوئی قران کا جامہ بھی پہن کر آئے گا تو میں یقین نہ
ریختہ صفحہ 330
مانوں گی۔ آدمیوں کو بھی نہایت تاکید سے میں نے روکا اور حلق دبایا کہ کسی نے سانس تک نہ لی۔ کہنے والوں نے آپ ہی مجھ سے کہا آپ ہی ان کو ابھارا کہ انھیں ایسا ایسا گمان ہے انھوں نے ضد کے مارے اپنی اس محبت و حالت کو اور بڑھایا اور یہاں تک نوبت پہنچی کہ اباجان نے ایک دن بے ترکیب بات دیکھ کر اپنے لڑکے کو الگ لے جا کر ملامت کی اور سمجھا کر قسمیں دیں ۔ انھوں نے ساری کیفیت باپ سے بیان کی کہ اماں جان نے اپنی چھوٹی بہو کے جلانے کو یہ باتیں کی تھیں۔ انھیں کے طفیل سے اس حد تک اب پہنچیں کہ وہ مجھ سے ہنسنے لگیں اور آپ کو شبہ ہوا۔ اشہد باللہ کہ میں انھیں اپنی ماں جانتا ہوں اور وہ بھی مجھے اپنا چھوٹا بھائی یا فرزند سمجھتی ہیں۔ پہلے مجھ سے کہا کہ تم ان کے ساتھ عقد کر لو خدا اور رسول بھی خوش ہوں گے میری بھی خوشی ہے۔ میں نے کہا کہ جناب مجھ سے یہ بے ادبی نہ ہو گی۔ تب انھوں نے کچھ ان کے کان بھرے کچھ مجھے ابھارا۔ دونوں کو بے غیرت بنوایا اور ذلیل کرایا۔ آپ کی چھوٹی بہو بڑی نیک ہیں ورنہ غضب ہی ہو جاتا۔ سارا محلہ روشن ہوتا اور کوئی دوسرا ہوتا جھنڈے پر چڑھاتا۔ جس قدر مشہور ہوا ہماری تادیب اور تنبیہ کو کافی ہے۔ بس اب آپ انھیں ان کے گھر بھجوا دیجئیے تا کہ روز روز کی آفت اور ذلت جائے۔ اباجان نے انھیں سمجھا کر آگاہ کیا۔ وہ چلنے کو تیار ہوئیں۔ سارا قصہ ساجدہ بیگم کی زبانی میں نے سنا کہ یہ بات یوں سے یوں تھی۔، اگر خدا نہ کرے میری زبان سے کچھ نکل جاتا تو آج میں مفت
ریختہ صفحہ 331
چنی بیگم دلہن صاحب کی گنہگار ہوتی۔ چلتے وقت جب میں ملنے کو گئی انھوں نے گلے سے لگایا اور کہا تمہارا پائجامہ اماں جان پاس رکھا ہے ضرور لی لینا اور بہن خدا کے لئے میری اس دن کی نالائقی کو معاف کرنا۔ میں نے تمہیں بہت بڑھ کر ایک بات کہی تھی۔ کل اماں جان پائخانے میں تھیں ۔ اباجان نے تمہاری ساری بےگناہی کی داستان اور ان کی زیادتی کی کہانی بیان کر کے مجھ سے کہا کہ تم پر کیا پتھر پڑے تھے کہ تم نے بے سمجھے بوجھے اپنے تئیں معطون کرایا۔ اگر شہزادی بنی سے بدلا لینا ہی منظور تھا اور تمہارے نزدیک وہ ساس کے فرمانے کے بموجب قابل جلانے ہی کے تھی تو کیا دنیا میں سوا اس تدبیر کے دوسری تدبیر نہ تھی۔ خدا کی قسم بہن یہ سنتے ہی میری آنکھیں کھل گئیں اور پردے آنکھ پر سے اٹھ گئے۔ خدا کے لے میری خطا بخش دینا۔ شاید دوبارہ ملاقات نہ ہو زندگی کا کچھ اعتبار نہیں۔ میں نے ہنس کر کہا کہ ان شاء اللہ ہزار دفعہ ملاقات ہو گی۔ کہا خدا نہ کرے اب تم سے ہمیشہ کے لئے بچھڑتے ہیں۔ لے جلدی خطا معاف کرو۔ میں نے کہا کہ خطا کیسی؟ آپ نے میری خطا کیا کی اور اگر کی تو میں نے معاف کی۔ وہ پھر میرے گلے لگ کر سوار ہو گئیں۔ مجھے ان کی ایک بات پر کھٹکا ضرور ہوا مگر ساتھ ہی یہ بات بھی دل میں آئی کہ اب یہاں نہ آئیں گی۔ انھوں نے وہاں جا کر افیون کھا لی اور وہ بھی بہت سی۔ پہر بھر کسی کو معلوم نہ ہوا۔ جب حال کھلا تو ان کا غیر حال تھا۔ یہاں خبر آتے ہی میں اجازت لے کر پہنچی۔ ہینگ کاغذ جوگیا ارنڈ کی
ریختہ صفحہ 332
کو پل پانی میں پیس کر کوٹ کر پلائی مگر وہ کم بخت اپنا کام کر چکی تھی۔ خاک فائدہ نہ ہوا۔ تھوڑا دن باقی تھا کہ ان بے گناہ بیوی نے نادانی اور کم علمی کی وجہ سے اپنی لال سی جان اس کالی بلا کے ہاتھوں دے دی۔ جس مشکل اور سختی سے ان کا دم نکلا ہے اور جو کرب و تعب انھوں نے اپنے ہاتھ سے مرتے وقت اٹھایا ہے وہ دیکھا نہ جاتا تھا۔میں ایسے مقام پر بھی نہایت مضبوط اور دل کی سخت تھی مگر ان ناشاد کی بے وقت مرگ پر بے اختیار ہو کر روئی۔ افسوس ہے کہ غیرت داری کی تو اس قدر کی اور پہلے سوچ سمجھ کر کام نہ کیا پھر اتنی دلیری کی اور انجام کو نہ سوچا اگر تھوڑا سا بھی علم ہوتا تو ضرور ہی خوف خدا اتنی بڑی جرات نہ کرنے دیتا ۔ یہ حماقت اور جسارت جو ان سے سرزد ہوئی فقط ان کی بے علمی کی وجہ سے مگر افسوس اور ہزار افسوس جس وقت مجھے ان کی جان دینے کا اس وقت بھی خیال آ جاتا ہے دل تھرا جاتا ہے۔ خدا ان کی اس بیجا حرکت سے درگزرے اور وہ قصور معاف کرے ۔ ان کے تیجے تک رہ کر میں گھر پر آئی ۔ اباجان نے بڑی بہو کے مرنے کا نہایت غم کیا اور اسی غم و غصہ میں بیوی کو ان کا قاتل ٹہرایا۔ اس پر وہ بہت آزردہ ہوئیں اور کئی روز تک میاں سے لڑائی رہی، بات نہ کی۔ جب شہریار دولھا کو سسرال میں کئی مہینے گزرے تو اس محلے کے لوگوں سے میل جول ہوا ۔ مکان کے قریب کوئی شخص رمّال رہتے تھے۔ ان کے لڑکوں سے بھی راہ و رسم ہوا ۔ دو چار ہمسن ہمسن نماز مغربین کے بعد وہاں جمع ہوتے تھے۔ یہ بھی وہاں
ریختہ صفحہ 333
بیٹھنے لگے اور اس کو رفتہ رفتہ ترقی ہوئی یہاں تک کہ کھانے کا وقت ٹلنے لگا ۔ اکیلے کی وجہ سے ساجدہ بیگم کوٹھےپر نہ جاتی تھیں اور دوسرے وہ کھانا بھی کھا کے نہیں جاتے تھے۔ پانچ چار روز تو اماں جان چپ رہیں۔ ایک دن اتفاق سے وہ ٹھیک کھانے کے وقت آ گئے۔ دیکھتے کے ساتھ ہی انھوں نے آڑے ہاتھوں لیا اور الٹی سیدھی سنانی شروع کی۔ اول تو وہ اس دن سویرے آئے تھے، کہنا ہی بے موقع تھا اور اگر کہا تھا تو ایک طریقے سے کہا ہوتا جس طرح بڑے بوڑھے کہتے ہیں۔ انھوں نے تو طعنوں کے وار لگانا شروع کئے کہا کہ بس وہیں جاؤ۔ خلاف وضع کرنا کیسا۔ آج کیا ہے جو کھانے کے وقت پسلی پھڑکی خوب پیٹ سے پاؤں نکالے ۔ مجھے نہیں معلوم تھا کہ تم بھی میری جان کھانے والوں میں ہو گے۔ ایک ہی آفت توڑنے کو میری جان پر کیا کم تھی کہ تم دوسرے قہر ڈھانے کو اور نازل ہوئے کیا معلوم تھا کہ پاس رہ کر پہلو میں بیٹھ کر کلیجہ چاٹو گے۔ تم ہر گز اس قابل نہ تھے کہ سر چڑھائے جاؤ۔ ہماری محبت اور احسان دیکھو اور اپنی نالائقی اور چھچھورے پن پر نظر کرو۔ یہ آدھی آدھی رات گئے تک باہر رہنے کے کیا معنی۔ ہم نے تمہیں گھر کے لئے بلایا ہے کہ دربدر کے لئے۔ چار گھڑی دن رہا اور بن سنور کر تم اینڈتے بررتے نکل گئے۔ گئے گئے بارہ بجے آئے۔ کچھ میرا گھر بھٹیار خانہ بنایا ہے کہ جب جی چاہا آئے تن تن کر کے ہتّے مارے اور منڈیا مروڑ کے پڑ رہے۔ جب بارہ بجے تھکے تھکائے آؤ گے اپنے سر پیر کی تو خبر نہ رہتی ہوگی جورو کیسی
ریختہ صفحہ 334
اور جاتا کیسا۔ وہ بد نصیب تمہارے انتظار میں اپنی نیند بھوک کھوئے آدھی رات تک بیٹھی جاگا کرے اور تم بات نہ پوچھو۔ بڑے غیرت دار ناک والے معلوم ہوتے ہو۔ سبحان اللہ کیا کہنا ۔ خوب خوب گن پیٹ میں بھرے ہیں۔ وہ یا تو ہاتھ دھو کر آتے تھے یہ باتیں سنتے ہی الٹے پاؤں پلٹ کر کوٹھے پر جا کر سو رہے۔ بیوی نے بھی کھانا نہیں کھایا ۔ جب سب کھا چکے تو وہ ان کا کھانا لے کر گئیں مگر انھوں نے کھانا نہ کھایا۔ دونوں کے دونوں بھوکے پڑ رہے۔ مھے ساجدہ بیگم کے فاقے سے رہنے کا حال تو صبح کو معلوم ہوا لیکن شہر یار دولھا کے جلدی سے ہاتھ دھو کر آنے اور مایوس خاموش پلٹ جانے پر دیر تک اندر سے دل کڑھا کیا۔ صبح کو ساجدہ اماں جان کے پاس ہو کر میرے پاس آئیں اور کہا کہ رات کو انھوں نے کھانا نہیں کھایا بڑی دیر تک جاگا کئے اور اس وقت جانے کی تیاری کر رہے ہیں۔ میری بھابھی میں قربان جاؤں کسی ترکیب سے انھیں روک لیجئیے پھر چاہے کل یا پرسوں غصہ کم ہونے پر چلے جائیں مگر آج نہ جائیں۔ اماں جان تو بے دھڑک جو منہ میں آتا ہے نکال ڈالتی ہیں۔ داماد اور نیا داماد کیوں سننے لگا۔ میں نے کہا کہ جو تم کہو وہ میں کروں۔ ذرا کوٹھے پر میرے ساتھ چلئیے۔ میں ان کی خاطر سے کوٹھے پر گئی دیکھا تو وہ اپنی گٹھری بقچی باندھ رہے ہیں۔ میں نے کہا کیوں خیر تو ہے بھائی شہر یار دولھا اس وقت کاہے کی تیاری کر رہے ہو ۔ کہا بھابی جان بس اب یہاں رہنا بالکل نا مناسب ہے۔ رات کی بات کیا آپ بھول گئیں۔ میں نے کہا لو ابتدا تو اس بات کی مجھ آفت توڑنے والی
ریختہ صفحہ 335
ہی کے نام سے ہوئی تھی۔ تم مرد ہو کر ایک ہی دن میں ہمت ہار گئے جی چھوڑ دیا نہ بیوی کا خیال رہا نہ اپنی بات کا۔ لوگ سن کر کیا کہیں گے۔ بڑے بوڑھے یونہی دل جلا کے کہتے ہیں ۔ اگر دل نہ جلائیں تو ناگوار کیوں ہو اور بے ناگوار ہوئےکوئی اپنی عادت چھوڑے کیوں۔ جب تک تم نہیں آئے تھے کچھ کام نہ تھا۔ اب یہاں آ کر رہے جانا نہیں اچھا معلوم ہوتا۔ اگر جانا ہی منظور ہے تو دو چار روز بعد جانا ۔ ابھی نہ جاؤ۔ کہا بھابی جان دو چار روز میں تو دو چار ہزار فضیحتوں کی نوبت پہنچے گی۔ میں نے کہا نہیں میرا ذمہ کہ وہ اب کچھ نہ کہیں گی مگر تم بھی بہت رات گئے نہ آیا کرو۔وہ یہ سن کر چپ ہوئے۔ میں نے ساجدہ بیگم سے کہا کہ تم بقچی لے کر اپنے صندوق میں رکھو اور ان سے کہا کہ میں تمہارے لئے کھانا پکواتی ہوں۔ خبردار چلے نہ جانا ورنہ مجھے رنج ہو گا۔ یہ کہہ کر میں چلی اور اشارے سے ساجدہ بیگم کو بلا کر زینے پر یہ سمجھا دیا کہ تم ہاتھ جوڑ کر منت خوشامد کر کے عذر کرو۔ بالکل صاف ہو جائیں گے اور غصہ دھیرا ہو جائے گا۔ ادھر ان بیچاری نے میرا کہا کیا ادھر میں نے آ کر جلدی جلدی ان کے واسطے پراٹھے پکوائےانڈے تلے بالائی منگوائی دسترخوان بچھا کر دونوں صاحبوں کو کھانا کھلایا ۔ کھانا کھاتے میں انھوں نے آبدیدہ ہو کر کہا کہ بھابھی جان میں نے آپ کے حکم کو مانا کہ آپ نے کبھی کبھار کوئی بات فرمائی۔ عدول و انکار کیا کروں آپ کو ناگوار ہو گا لیکن آپ بھی مجھ پر اتنا احسان کیجئیے کہ جب تک میں یہاں ہوں مجھے وہاں کھانے کو نہ بلائیے گا یا کوٹھے پر بھیج دیجئیے گا یا اپنی صحنچی میں بلا کر کھلا دیجئیے گا نہ