گُلِ یاسمیں
لائبریرین
ریختہ صفحہ 336
میری غیرت قبول کرتی ہے نہ آنکھ چار ہوتی ہے۔ میں نے آپ کا بڑا لحاظ کیا جو رک رہا ورنہ اب میں یہاں کھڑے پانی نہ پیتا اور ایک آن نہ ٹہرتا۔ افسوس ہے اماں جان نے مجھ کو ایسا ذلیل و حقیر بے گھر بے درا سمجھ لیا کہ جو باتیں نہ کہنا چاہئیے تھیں وہ کہیں۔نہ عزیزداری کا پاس نہ قرابت کا خیال نہ رشتے کی غیرت۔ افوہ کلیجہ ہل جاتا ہے جب یاد آتا ہے کہ اللہ ہم بلا کر اس جھوکم جھوکا کے قابل ہو گئے۔ کس منہ سے بلایا تھا اور کس دل سے اول فول سنایا۔ تمام دن میں گھر میں رہتا ہوں۔ کچھ دن رہے البتہ باہر چلا جاتا ہوں تو وہ بھی کہیں دور نہیں۔ دروازے پر ایک میر صاحب رہتے ہیں ۔ پہلے مجھ سے پوچھتیں ، منع کرتیں، اگر میں عمل نہ کرتا تو جو چاہتیں فرماتیں۔ انھوں نے بے پوچھے گچھے میرے لتّے لے ڈالے۔ دھریاں اڑا دیں۔ نہ میرے کان ان باتوں کے آشنا ہیں نہ میں عادی۔ سارے کنبے میں بانکا مشہور ہوں۔ سب سے بڑھ کر مجھے غم اس کا ہوا کہ آپ کے سامنے ذلیل کیا اور پھر بے خطا۔ اگر بختاور ڈیوڑھی ہی میں سے آواز دے دے تو مجھے خبر ہو جائے۔ اتنی نزدیک بیٹھتا ہوں مگر کہوں کس سےپوچھے کس کی بلا دن بھر بیٹھے بیٹھے جی گھبرا جاتا ہے۔ کبوتر وہاں بٹیر وہاں مولوی صاحب کی بدنامی کے خیال سے کنکّوا نہیں اڑاتا۔ خالی رہنے سے دم خفا ہوتا ہے۔ الجھ کر وہاں دو گھڑی جا بیٹھتا ہوں۔ میری کیا شامت تھی اگر اس روز سیہ کا حال معلوم ہوتا تو میں کیوں جاتا نہ ربط بڑھتا نہ ملاقات کرتا۔ انھوں نے چھیڑ چھیڑ کر صاحب سلامت کی ۔ آتے جاتے ٹوکا۔ دماغ کی تو مجھے لینا نہیں آتی۔ آنے جانے لگا۔ لیجئیے نشست
ریختہ صفحہ 337
ہوئی ۔ پانچ چار دن سے ان کے ہاں ایک مہمان کاکوری آ کر اترے تھے۔ ان کو شاعری کا خبط ہے۔ تنکے سے ناپ ناپ تقطیع کرتے ہیں۔ ان کی مسخری باتیں اورشعر سننے میں دیر ہو جاتی تھی۔ کل وہ چلے گئے میں آٹھ بجے کے بعد اٹھ آیا۔ یہاں آ کر میں اپنی سزا کو پہنچا۔ میں نے کہا بھائی تم دل گھبرانے کا تو اس قدر گلا کرتے ہو اور کتاب نہیں دیکھتے جس کے دیکھنے سے دل بھی بہلے گا اور چار باتیں اچھی ذہن پر چڑھیں گی۔ کہا حضرت میرے ساتھ کوئی کتاب نہیں ۔ گھر پر کبھی کبھی یہ شغل بھی رہتا تھا۔ میں نے کہا تمہیں بٹیر کنکّوے کبوتر سے کہاں مہلت ملتی ہو گی جو تم کتاب دیکھتے ہو گے۔ ہاں تم نے اپنے پیچھے کیا کیا بلائیں لگائی ہیں ۔ غیرت تو ماشاء اللہ مزاج میں اس قدر اور شوق ایسے برے جنھیں غیرت سے کچھ لگاؤ ہی نہیں ۔ کیا معلوم تم نے یہ کس دل سے کہا کہ کنکّوا میں یہاں اڑا نہیں سکتا ۔ مولوٰ صاحب کی بدنامی کا اس میں خیال ہے اور جب بٹیر ہاتھ میں لے کر نکلو گے۔ اس وقت کیا ہو گا۔ تم تو لکھنے پڑھنے کا شوق کر بھی نہیں سکتے۔ دو ہی تو ہاتھ ہیں۔ بٹیر کس میں لو گے اور کتاب کس میں لے کر دیکھو گے میں جانتی ہوں کہ شاید یہ فقرہ تم نے اوپری دل سے کہہ دیا۔ تمہیں مولوی صاحب کا بالکل خیال نہیں۔ اگر ہوتا تو شادی کے قبل کی وضع آج تم نہ اختیار کرتے۔کنکّوے ہی کی طرح سے تو آپ کی ٹوپی اور گھٹنا اور اونچی چولی کا انگرکھا بھی ہے کیا اس میں مولوی صاحب نہ بدنام ہوں گے۔ اور مولوی صاحب کیسے آدمی کو اپنی ناموری کا خیال چاہئیے۔ وہ وضع کبھی نہ اختیار کرے جو اپنے
ریختہ صفحہ 338
خاندان یا اپنی شان کے خلاف ہو۔ کیا غضب ہے کہ مولوی صاحب کی بدنامی یا آزردگی کا خیال کرو اور خدا کا نام لہی نہ لو۔ لہو ولعب کی خدا نے بھی تو ممانعت کی ہے۔ بے زبانوں کا ستانا کھیل کود میں وقت گنوانا بڑی خراب بات ہے۔ کہا اچھا بھابی جان پھر کون سی وضع اختیار کروں ۔ میں نے کہا چوگوشیہ ٹوپی نیچی چولی کا انگرکھا بر کے پائنچے کا پائجامہ سفید یا سرخ بوٹ سفید کرتا سفید رومال ۔ کہا بہت اچھا۔ آپ کا فرمانا بسر و چشم قبول کیا۔ ان شاء اللہ اب آپ اس وضع سے مجھےنہ دیکھئیے گا اور نہ بے وضع بدلے میں یہاں سے جاؤں گا ۔ کھانا کھا کر کہا کہ اور سب باتوں پر تو میرا دل اٹھتا ہے نیچی چولی کے انگرکھے پر رُچ نہیں ہوتی۔ کچھ اور بتائیے۔میں نے کہا بیٹھو بھی۔ تم تو اس طرح پوچھ رہے ہو گویا ابھی تیاری کرنے جاتے ہو۔ کہا تو کیا اس میں آپ کو کچھ شک بھی ہے۔ آپ نے سمجھایا ہی اس طرح سے ہے کہ میرے دل میں چبھ گیا۔ ایک اماں جان نے سمجھایا تھا معلوم ہوتا تھا پتھر کھینچ مارا۔ میں نے کہا اب بات بات ر ان بیچاری کا کیوں ذکر کرتے ہو،۔ وہ سیدھی آدمی ہیں۔ نہ سات پانچ جانیں نہ اونچ نیچ دیکھیں۔ اس کے علاوہ اپنی اپنی بات چیت کا طرز ہے وہ تمہاری میری دونوں کی بڑی ہیں۔ گذری بات کا بار بار ذکر سوا اپنا دل دکھانے اور جی بہلانے کے اور کسی کام کا نہیں۔ مطلب کی بات کہو تو ہاں تمہیں نیچی چولی کا انگرکھا نہیں پسند۔ کہا کہ جی پسند کیوں نہیں ہے مگر ایک دل اس پر نہیں اٹھتا۔ میں نے کہا تو اچھا چکن پہنا کرو۔ چاہے پردے دار چاہے سادی مگر چولی
ریختہ صفحہ 339
نیچی ہو کہا بہت اچھا بہت خوب۔ میں نے پان بنا کر میاں بیوی کو دئیے ۔ وہ کوٹھے پر گئے ۔ میں اماں جان کے پاس گئی۔ بیٹھی رہی کھانا کھایا سو رہی۔ صبح کو کھانا کھا کر شہر یار دولھا گھر پر گئے۔ ڈور کنکّوا چھوٹے بھائی کو دیا بٹیر ایک گہرے دوست کے یہاں بھجوا دئیے۔ کبوتر محلے والوں پر تقسیم کئے۔ تین چار درزی بٹھا کر جوڑا سلوایا اور اسے پہن کر چار گھڑی دن رہے گھر میں آئے۔ بے تکان جو صحنچی میں چلے آئے ۔ بدلی ہوئی وضع سے پہلے تو میں جھجکی پھر پہچان کر مسکرائی جو سہی تو آپ نے جھک کے تسلیم کی مجھے ان کے اس کہا ماننے اور اچھا برا جاننے پر ان سے نہایتت محبت ہو گئی اور جو کچھ دل میں تھا اسی وقت نکل گیا۔ بالکل بے کھٹکے ہو کر اپنے حقیقی بھائی کی طرح ملنے لگی۔ شرم و لحاظ تو جو تھا وہ باقی رکھا۔ مگر دل نہیں صاف تھا اسے صاف کر لیا۔ جب انھوں نے اپنے شوق دور کرنے کی خبر سنائی اس وقت تو مجھے اور زیادہ ان کی غیرت داری پر بھروسہ ہو گیا۔ دعا دے کر میں نے ان کو مبارک باد دی اور کہا کہ اب کپڑے بدلے ہیں تو چہرے کو بھی رعب دار بناؤ۔ داڑھی منڈوانا بڑا گناہ ہے۔ کہا بھابی میں کیا کروں داڑھی کسی طرح سے نکل ہی نہیں چکتی۔ فقط ٹھڈی پر تھوڑے سے بال ہیں۔ انھیں رکھتے شرم اتی ہے۔ لوگ پھبتیاں کستے ہیں۔ اس کے حصے کے سب بال مونچھوں کو مل گئے۔ میں نے کہا لوگوں کی پھبتیاں اچھی مگر فرشتوں کی لعنت بُری۔ داڑھی خدا کا نور ہے اس کا رکھنا ضرور ہے۔ جب حکم خدا کے خلاف کوئی کرتا ہے تو فرشتے اس پر ملامت کرتے ہیں۔ یہ تو تم خود بھی جانتے ہو میرے
ریختہ صفحہ 340
کہنے کی کیا ضرورت۔ صرف اس خیال سے کہ جب تک کچکچا کے داڑھی نہ نکلے منڈوانا اور گناہ بے لذت کرنا کیسی بری بات ہے۔ مونچھوں پر تمہاری مجھے غصہ آتا ہے اور جی چاہتا ہے کہ اس با اختیار ایرانی کی مونچھ کی طرح سے (جس کو ایک عالم نے قینچی سے بالکل کاٹ ڈالا تھا) میں بھی تمہاری مونچھیں کاٹ ڈالوں۔ آپ خود کیوں تکلیف فرمائیے۔ آئینہ اور قینچی مجھے دیجئیے میں انھیں خاک سیاہ کر دوں۔ میں نے کہا تم سے حد نہ درست رہے گی۔ ضرور ہاتھ بہکے گا۔ کل جمعہ ہے نائی سے کتروا لینا۔ یہ سن کر بہت اچھا کہتے ہوئے وہ اپنے کوٹھے پر چلے گئے اور میں اپنے خیال و تصور پر بار بار لعن طعن کرنے لگی۔ ساجدہ بیگم کے خوش نصیب ہونے پر خدا کا شکر ادا کیا کہ بار الٰہا تو نے اپنے فضل و کرم سے عجب نیک باطن اور خوش خو دولھا اس کو دیا ہے۔ اپنے صدقے سے ہمیشہ اس کی طبیعت میں یہ نیکی رکھنا اور ہر بلا سے بچانا۔ وہ بری وضع تھی کہ اپنے بیگانے دیکھ کر عذر کرتے تھےاور وہ دل ایسا پاک صاف خدا نے بنایا تھا۔ رنگے ہوئے سیاروں اور بد نفس ریاکاروں یا بے عمل عالموں اور برے نام کاملوں سے تو ایسے جاہل ان پڑھ ظاہر کر کے برے اور باطن کے نیک ہزار درجے اچھے، نہ ان میں فریب و دغا کی جراءت نہ دغل فصل کی عادتنہ علم پر ناز نہ اچھی بات مان لینے سے احتراز۔ جو دل خدا کا گھر اس میں اسی کا ڈر۔ نہ علم کے ساتھ فخر نہ عبادت کے ساتھ ریا نہ روزے کے لئے بیمار بنیں نہ عیاری کے واسطے یار۔ نہ طبیعت میں فساد نہ طینت میں عناد نہ گھٹی میں مکر و زور اور نہ خمیر میں
میری غیرت قبول کرتی ہے نہ آنکھ چار ہوتی ہے۔ میں نے آپ کا بڑا لحاظ کیا جو رک رہا ورنہ اب میں یہاں کھڑے پانی نہ پیتا اور ایک آن نہ ٹہرتا۔ افسوس ہے اماں جان نے مجھ کو ایسا ذلیل و حقیر بے گھر بے درا سمجھ لیا کہ جو باتیں نہ کہنا چاہئیے تھیں وہ کہیں۔نہ عزیزداری کا پاس نہ قرابت کا خیال نہ رشتے کی غیرت۔ افوہ کلیجہ ہل جاتا ہے جب یاد آتا ہے کہ اللہ ہم بلا کر اس جھوکم جھوکا کے قابل ہو گئے۔ کس منہ سے بلایا تھا اور کس دل سے اول فول سنایا۔ تمام دن میں گھر میں رہتا ہوں۔ کچھ دن رہے البتہ باہر چلا جاتا ہوں تو وہ بھی کہیں دور نہیں۔ دروازے پر ایک میر صاحب رہتے ہیں ۔ پہلے مجھ سے پوچھتیں ، منع کرتیں، اگر میں عمل نہ کرتا تو جو چاہتیں فرماتیں۔ انھوں نے بے پوچھے گچھے میرے لتّے لے ڈالے۔ دھریاں اڑا دیں۔ نہ میرے کان ان باتوں کے آشنا ہیں نہ میں عادی۔ سارے کنبے میں بانکا مشہور ہوں۔ سب سے بڑھ کر مجھے غم اس کا ہوا کہ آپ کے سامنے ذلیل کیا اور پھر بے خطا۔ اگر بختاور ڈیوڑھی ہی میں سے آواز دے دے تو مجھے خبر ہو جائے۔ اتنی نزدیک بیٹھتا ہوں مگر کہوں کس سےپوچھے کس کی بلا دن بھر بیٹھے بیٹھے جی گھبرا جاتا ہے۔ کبوتر وہاں بٹیر وہاں مولوی صاحب کی بدنامی کے خیال سے کنکّوا نہیں اڑاتا۔ خالی رہنے سے دم خفا ہوتا ہے۔ الجھ کر وہاں دو گھڑی جا بیٹھتا ہوں۔ میری کیا شامت تھی اگر اس روز سیہ کا حال معلوم ہوتا تو میں کیوں جاتا نہ ربط بڑھتا نہ ملاقات کرتا۔ انھوں نے چھیڑ چھیڑ کر صاحب سلامت کی ۔ آتے جاتے ٹوکا۔ دماغ کی تو مجھے لینا نہیں آتی۔ آنے جانے لگا۔ لیجئیے نشست
ریختہ صفحہ 337
ہوئی ۔ پانچ چار دن سے ان کے ہاں ایک مہمان کاکوری آ کر اترے تھے۔ ان کو شاعری کا خبط ہے۔ تنکے سے ناپ ناپ تقطیع کرتے ہیں۔ ان کی مسخری باتیں اورشعر سننے میں دیر ہو جاتی تھی۔ کل وہ چلے گئے میں آٹھ بجے کے بعد اٹھ آیا۔ یہاں آ کر میں اپنی سزا کو پہنچا۔ میں نے کہا بھائی تم دل گھبرانے کا تو اس قدر گلا کرتے ہو اور کتاب نہیں دیکھتے جس کے دیکھنے سے دل بھی بہلے گا اور چار باتیں اچھی ذہن پر چڑھیں گی۔ کہا حضرت میرے ساتھ کوئی کتاب نہیں ۔ گھر پر کبھی کبھی یہ شغل بھی رہتا تھا۔ میں نے کہا تمہیں بٹیر کنکّوے کبوتر سے کہاں مہلت ملتی ہو گی جو تم کتاب دیکھتے ہو گے۔ ہاں تم نے اپنے پیچھے کیا کیا بلائیں لگائی ہیں ۔ غیرت تو ماشاء اللہ مزاج میں اس قدر اور شوق ایسے برے جنھیں غیرت سے کچھ لگاؤ ہی نہیں ۔ کیا معلوم تم نے یہ کس دل سے کہا کہ کنکّوا میں یہاں اڑا نہیں سکتا ۔ مولوٰ صاحب کی بدنامی کا اس میں خیال ہے اور جب بٹیر ہاتھ میں لے کر نکلو گے۔ اس وقت کیا ہو گا۔ تم تو لکھنے پڑھنے کا شوق کر بھی نہیں سکتے۔ دو ہی تو ہاتھ ہیں۔ بٹیر کس میں لو گے اور کتاب کس میں لے کر دیکھو گے میں جانتی ہوں کہ شاید یہ فقرہ تم نے اوپری دل سے کہہ دیا۔ تمہیں مولوی صاحب کا بالکل خیال نہیں۔ اگر ہوتا تو شادی کے قبل کی وضع آج تم نہ اختیار کرتے۔کنکّوے ہی کی طرح سے تو آپ کی ٹوپی اور گھٹنا اور اونچی چولی کا انگرکھا بھی ہے کیا اس میں مولوی صاحب نہ بدنام ہوں گے۔ اور مولوی صاحب کیسے آدمی کو اپنی ناموری کا خیال چاہئیے۔ وہ وضع کبھی نہ اختیار کرے جو اپنے
ریختہ صفحہ 338
خاندان یا اپنی شان کے خلاف ہو۔ کیا غضب ہے کہ مولوی صاحب کی بدنامی یا آزردگی کا خیال کرو اور خدا کا نام لہی نہ لو۔ لہو ولعب کی خدا نے بھی تو ممانعت کی ہے۔ بے زبانوں کا ستانا کھیل کود میں وقت گنوانا بڑی خراب بات ہے۔ کہا اچھا بھابی جان پھر کون سی وضع اختیار کروں ۔ میں نے کہا چوگوشیہ ٹوپی نیچی چولی کا انگرکھا بر کے پائنچے کا پائجامہ سفید یا سرخ بوٹ سفید کرتا سفید رومال ۔ کہا بہت اچھا۔ آپ کا فرمانا بسر و چشم قبول کیا۔ ان شاء اللہ اب آپ اس وضع سے مجھےنہ دیکھئیے گا اور نہ بے وضع بدلے میں یہاں سے جاؤں گا ۔ کھانا کھا کر کہا کہ اور سب باتوں پر تو میرا دل اٹھتا ہے نیچی چولی کے انگرکھے پر رُچ نہیں ہوتی۔ کچھ اور بتائیے۔میں نے کہا بیٹھو بھی۔ تم تو اس طرح پوچھ رہے ہو گویا ابھی تیاری کرنے جاتے ہو۔ کہا تو کیا اس میں آپ کو کچھ شک بھی ہے۔ آپ نے سمجھایا ہی اس طرح سے ہے کہ میرے دل میں چبھ گیا۔ ایک اماں جان نے سمجھایا تھا معلوم ہوتا تھا پتھر کھینچ مارا۔ میں نے کہا اب بات بات ر ان بیچاری کا کیوں ذکر کرتے ہو،۔ وہ سیدھی آدمی ہیں۔ نہ سات پانچ جانیں نہ اونچ نیچ دیکھیں۔ اس کے علاوہ اپنی اپنی بات چیت کا طرز ہے وہ تمہاری میری دونوں کی بڑی ہیں۔ گذری بات کا بار بار ذکر سوا اپنا دل دکھانے اور جی بہلانے کے اور کسی کام کا نہیں۔ مطلب کی بات کہو تو ہاں تمہیں نیچی چولی کا انگرکھا نہیں پسند۔ کہا کہ جی پسند کیوں نہیں ہے مگر ایک دل اس پر نہیں اٹھتا۔ میں نے کہا تو اچھا چکن پہنا کرو۔ چاہے پردے دار چاہے سادی مگر چولی
ریختہ صفحہ 339
نیچی ہو کہا بہت اچھا بہت خوب۔ میں نے پان بنا کر میاں بیوی کو دئیے ۔ وہ کوٹھے پر گئے ۔ میں اماں جان کے پاس گئی۔ بیٹھی رہی کھانا کھایا سو رہی۔ صبح کو کھانا کھا کر شہر یار دولھا گھر پر گئے۔ ڈور کنکّوا چھوٹے بھائی کو دیا بٹیر ایک گہرے دوست کے یہاں بھجوا دئیے۔ کبوتر محلے والوں پر تقسیم کئے۔ تین چار درزی بٹھا کر جوڑا سلوایا اور اسے پہن کر چار گھڑی دن رہے گھر میں آئے۔ بے تکان جو صحنچی میں چلے آئے ۔ بدلی ہوئی وضع سے پہلے تو میں جھجکی پھر پہچان کر مسکرائی جو سہی تو آپ نے جھک کے تسلیم کی مجھے ان کے اس کہا ماننے اور اچھا برا جاننے پر ان سے نہایتت محبت ہو گئی اور جو کچھ دل میں تھا اسی وقت نکل گیا۔ بالکل بے کھٹکے ہو کر اپنے حقیقی بھائی کی طرح ملنے لگی۔ شرم و لحاظ تو جو تھا وہ باقی رکھا۔ مگر دل نہیں صاف تھا اسے صاف کر لیا۔ جب انھوں نے اپنے شوق دور کرنے کی خبر سنائی اس وقت تو مجھے اور زیادہ ان کی غیرت داری پر بھروسہ ہو گیا۔ دعا دے کر میں نے ان کو مبارک باد دی اور کہا کہ اب کپڑے بدلے ہیں تو چہرے کو بھی رعب دار بناؤ۔ داڑھی منڈوانا بڑا گناہ ہے۔ کہا بھابی میں کیا کروں داڑھی کسی طرح سے نکل ہی نہیں چکتی۔ فقط ٹھڈی پر تھوڑے سے بال ہیں۔ انھیں رکھتے شرم اتی ہے۔ لوگ پھبتیاں کستے ہیں۔ اس کے حصے کے سب بال مونچھوں کو مل گئے۔ میں نے کہا لوگوں کی پھبتیاں اچھی مگر فرشتوں کی لعنت بُری۔ داڑھی خدا کا نور ہے اس کا رکھنا ضرور ہے۔ جب حکم خدا کے خلاف کوئی کرتا ہے تو فرشتے اس پر ملامت کرتے ہیں۔ یہ تو تم خود بھی جانتے ہو میرے
ریختہ صفحہ 340
کہنے کی کیا ضرورت۔ صرف اس خیال سے کہ جب تک کچکچا کے داڑھی نہ نکلے منڈوانا اور گناہ بے لذت کرنا کیسی بری بات ہے۔ مونچھوں پر تمہاری مجھے غصہ آتا ہے اور جی چاہتا ہے کہ اس با اختیار ایرانی کی مونچھ کی طرح سے (جس کو ایک عالم نے قینچی سے بالکل کاٹ ڈالا تھا) میں بھی تمہاری مونچھیں کاٹ ڈالوں۔ آپ خود کیوں تکلیف فرمائیے۔ آئینہ اور قینچی مجھے دیجئیے میں انھیں خاک سیاہ کر دوں۔ میں نے کہا تم سے حد نہ درست رہے گی۔ ضرور ہاتھ بہکے گا۔ کل جمعہ ہے نائی سے کتروا لینا۔ یہ سن کر بہت اچھا کہتے ہوئے وہ اپنے کوٹھے پر چلے گئے اور میں اپنے خیال و تصور پر بار بار لعن طعن کرنے لگی۔ ساجدہ بیگم کے خوش نصیب ہونے پر خدا کا شکر ادا کیا کہ بار الٰہا تو نے اپنے فضل و کرم سے عجب نیک باطن اور خوش خو دولھا اس کو دیا ہے۔ اپنے صدقے سے ہمیشہ اس کی طبیعت میں یہ نیکی رکھنا اور ہر بلا سے بچانا۔ وہ بری وضع تھی کہ اپنے بیگانے دیکھ کر عذر کرتے تھےاور وہ دل ایسا پاک صاف خدا نے بنایا تھا۔ رنگے ہوئے سیاروں اور بد نفس ریاکاروں یا بے عمل عالموں اور برے نام کاملوں سے تو ایسے جاہل ان پڑھ ظاہر کر کے برے اور باطن کے نیک ہزار درجے اچھے، نہ ان میں فریب و دغا کی جراءت نہ دغل فصل کی عادتنہ علم پر ناز نہ اچھی بات مان لینے سے احتراز۔ جو دل خدا کا گھر اس میں اسی کا ڈر۔ نہ علم کے ساتھ فخر نہ عبادت کے ساتھ ریا نہ روزے کے لئے بیمار بنیں نہ عیاری کے واسطے یار۔ نہ طبیعت میں فساد نہ طینت میں عناد نہ گھٹی میں مکر و زور اور نہ خمیر میں