سید اسد محمود
محفلین
افغانستان سے امریکی فوجی سامان کی منتقلی
Nate Rawlings
امریکا اور اتحادیوں کے پاس اب 23 ماہ بچے ہیں، جن میں اُنہیں اپنے فوجی اور تمام ساز و سامان افغانستان سے نکالنا ہے۔ امریکا کے ۶۶ ہزار فوجی افغانستان میں ہیں۔ ان سب کا انخلا ۲۰۱۴ء کے آخر تک ہونا ہے۔ کرنل اینڈریو رالنگ امریکا کی ۱۷۳ ویں ایئر بورن بریگیڈ کے سربراہ ہیں۔ انہیں اندازہ ہے کہ افغانستان سے فوجی اور سامان نکالنا کس قدر مصیبت کا کام ہے۔ وہ اپنے پیرا ٹروپرز کے ساتھ فارورڈ آپریٹنگ بیس شینک میں ہیں جو افغانستان میں امریکا کا تیسرا سب سے بڑا فوجی اڈا ہے۔ کرنل رالنگ کے سامنے ۶ میٹر لمبے کنٹینرز کا ایک سمندر سا تھا۔ ان کنٹینرز میں امریکی فوج کا وہ سامان تھا جو گیارہ برسوں کے دوران منگوایا گیا ہے۔ بہت سا سامان جمنازیم، اسکریپ یارڈ اور سڑکوں پر کھڑے ہزاروں کنٹینرز میں پڑا تھا۔ جب گنتی کی گئی تو ایک دو نہیں بلکہ پورے آٹھ ہزار کنٹینرز پڑے تھے۔ ان میں وہ گولہ بارود اور ہتھیار بھی تھے جن کی گمشدگی کی رپورٹس لکھوائی گئی تھیں۔ سیکڑوں ٹوائلیٹ سیٹس اور ۳۰ ٹوٹی ہوئی ٹریڈ ملز بھی تھیں۔ کرنل رالنگ نے ۶ ماہ میں تین ہزار سے زائد کنٹینرز میں سامان بھر کر امریکا کے لیے روانہ کیا ہے۔ جنگ کے لیے جو سامان لایا گیا تھا اس میں سے ہر کارآمد چیز واپس لے جائی جائے گی۔ سامان ایسا نہیں کہ سب کا سب پھینک دیا جائے۔ اربوں ڈالر مالیت کے آلات، پرزے، مشینیں اور گاڑیاں ہیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق افغانستان میں امریکی فوج کے زیر استعمال گاڑیوں کی تعداد پچاس ہزار ہے۔ تعمیراتی سامان بھی ہے۔ کیبل، چھوٹے موٹے ہتھیار، گولہ بارود، راؤنڈ اور دوسری بہت سی چیزیں ہیں جنہیں امریکا بھیجنے پر کم و بیش ۵؍ ارب ۷۰ کروڑ ڈالر خرچ ہوں گے۔
جنگ ختم کرنے کی تاریخ دی جاچکی ہے مگر جنگ تو ابھی جاری ہے۔ بہت کچھ ہے جو واپس بھیجنا ہے مگر فوجیوں کی ضرورت کا سامان رہنے دینا بھی ہے۔ معاملات میں توازن رکھنا لازم ہے۔ چھانٹی کا عمل دن رات جاری ہے۔ یہ اندازہ لگانا ہوتا ہے کہ فوجیوں کو مزید ڈیڑھ پونے دو سال کس سامان کی ضرورت پڑے گی۔ سینٹ کام مٹیریل ریکوری ایلیمنٹ کے کرنل ڈگلس مک برائڈ کہتے ہیں کہ لڑائی چونکہ جاری ہے، اِس لیے فوجیوں کو بہت سے سامان کی ضرورت رہے گی۔ چھانٹی کے دوران یہ طے کرنا بہت دشوار ہوتا ہے کہ فوجیوں کے لیے کون سا سامان رہنے دیا جائے اور کون سا وطن بھیجا جائے اور اس سے بھی بڑا سوال یہ کہ کس سامان کو تلف کردیا جائے۔ بہت سا سامان پھینکنے ہی کے قابل ہوتا ہے۔
گیارہ برسوں کے دوران زمینی فوج کو امریکی ایئر فورس نے غیر معمولی سطح پر مدد فراہم کی ہے۔ ہتھیار، گولہ بارود، خوراک، پانی، ادویہ، آلات اور دوسرا بہت سا سامان لڑائی میں مصروف فوجیوں کے لیے طیاروں اور ہیلی کاپٹرز سے گرایا جاتا رہا ہے۔
میجر ایڈم لیکی کہتے ہیں کہ جب ذہنیت یہ ہو کہ جنگ لامحدود مدت تک جاری رہے گی، تب یہی ہوتا ہے، یعنی سامان کا ڈھیر لگتا جاتا ہے۔ امریکا سے بہت بڑے پیمانے پر گاڑیاں، اسلحہ، خوراک، ادویہ، بنیادی سہولتیں اور دوسری بہت سی چیزیں منگوائی جاتی رہیں۔ اب اس میں سے بہت سا سامان، جو کارآمد ہے، واپس بھیجنا ہے کیونکہ یہ سب کچھ امریکیوں کے دیے ہوئے ٹیکسز سے خریدا گیا ہے۔ لوگوں کی محنت کی کمائی سے خریدی ہوئی چیزیں وطن واپس جانی چاہئیں۔ تمام کارآمد اشیا کو دوسرے کسی کام میں استعمال کیا جاسکتا ہے۔
چھوٹے فوجی اڈوں سے سامان بڑے اڈوں تک لے جایا جاتا ہے تاکہ وہاں چھانٹی ہو اور کارآمد اشیا امریکا روانہ کی جائیں۔ مشرقی افغانستان میں بگرام ایئر بیس امریکا کا سب سے بڑا فوجی اڈا ہے۔ اس اڈے پر چھانٹی کی جاتی ہے کہ کون سی اشیا رکھنی ہیں، کون سی پھینکنی ہیں، کونی سی تلف کرنی ہیں اور کون سی اشیا افغانوں کو دینی ہیں۔ چار ضرب چار فٹ کے ’’ککر باکس‘‘ میں کم و بیش دو لاکھ ڈالر مالیت کی اشیا سماتی ہیں۔ انہیں امریکا بھیجنے پر تقریباً بارہ سو ڈالر خرچ ہوتے ہیں۔ آٹھ ماہ قبل تک ہر ہفتے ۲۶۰ کنٹینر امریکا بھیجے جارہے تھے۔ اب یہ تعداد ۳۰۰ کنٹینر فی ہفتہ ہوگئی ہے۔ سول کنٹریکٹرز دن رات چھانٹی میں مصروف رہتے ہیں۔ امریکا سے چھ ماہ کے مشن پر بھیجے جانے والے کنٹریکٹرز روزانہ ۱۲ گھنٹے اور ہفتے میں ۶ دن کام کرتے ہیں۔ اگر یہ لوگ اس قدر محنت نہ کریں تو افغانستان سے سامان کی امریکا ترسیل انتہائی دشوار ہو جائے۔ ۴۵۵ ویں ایکسپیڈیشنری ایریئل پورٹ اسکواڈرن کے پورٹ ڈاگز کو بھی بھاری ذمہ داری سونپی گئی ہے۔ یہ ادارہ روزانہ ۱۳۰۰ فوجی اور ۶۰۰ ٹن سامان امریکا بھیجتا ہے۔ لیفٹیننٹ کنرل لوتھر کنگ کا کہنا ہے کہ اگر اس قدر جاں فشانی سے کام نہ کیا جائے تو لاجسٹک کا شعبہ کمزور پڑ جائے اور آنے والوں کو شدید الجھن کا سامنا کرنا پڑے۔
نقل و حمل کے نقطۂ نظر سے دیکھیے تو افغانستان ایک ڈراؤنا خواب ہے۔ ایک تو یہ ملک چاروں طرف سے خشکی سے گھرا ہوا ہے۔ دوسرے یہ کہ راستے سخت دشوار گزار ہیں۔ دشمن ضدی اور سخت جان ہے اور پھر کرپٹ اور خود سر بیورو کریسی کا بھی سامنا ہے۔
امریکی فرسٹ انفینٹری ڈویژن کے لیے ڈپٹی کمانڈنگ جنرل کا کردار ادا کرنے والے برطانوی ایکسچینج افسر بریگیڈیئر فیلکس گیڈنی کا کہنا ہے کہ ہم نے ایک ایسے کام کو آسان بنانے کی کوشش کی ہے جو تقریباً ناممکن دکھائی دیتا تھا۔
امریکی فوج نے افغانستان میں جو گیارہ سال گزارے ہیں، وہ سامان کا ڈھیر لگانے کا باعث بنے ہیں۔ یہ ڈھیر کس طور ٹھکانے لگایا جاتا ہے، یہ دیکھنا دلچسپی سے خالی نہ ہوگا۔ افغانستان سے سامان کی ترسیل آسان نہیں۔ امریکی فوج کو یہ معرکہ جیت کر دکھانا ہے۔ دیکھیے، سامان کا پہاڑ ٹھکانے لگ پاتا ہے یا نہیں۔
("Return to Sender"... "Time Magazine". March 18th, 2013)
====================
NATO کا افغانستان سے انخلا چند حقائق
=====================
افغانستان سے امریکا اور ناٹو کے نکلنے کے اعلان شدہ وقت (دسمبر ۲۰۱۴ء) کے آنے میں اب صرف ۲۲ ماہ باقی رہ گئے ہیں۔ جبکہ لاکھوں ٹن سامان انہی ۲۲ مہینوں میں نکال کر لے جانا ہے۔ اس سامان سے متعلق چند دلچسپ حقائق درج ذیل ہیں:
۔اتحادی افواج کے پاس موجود ابلاغی آلات (Communications Equipments) حساس سمجھے جاتے ہیں، یہ لازماً امریکا واپس لے جائے جائیں گے۔
۔استعمال شدہ بیٹریوں کو ری سائیکل کیا جائے گا یا ضائع کر دیا جائے گا۔
۔لکڑی کا بیشتر سامان افغانیوں کوایندھن کے لیے دے دیا جائے گا۔
۔دھات سے بنے پرزے، چھری کانٹے اور عام استعمال کی دیگر دھاتی اشیا میں سے کچھ امریکا لے جائی جائیں گی، کچھ ری سائیکل ہوں گی اور کچھ ضائع کر دی جائیں گی۔
۔افغانستان سے اشیا کی امریکا واپسی کے راستے اور متوقع اخراجات کا تخمینہ درج ذیل ہے:
(i) سب سے کم خرچ، پاکستان کے زمینی راستہ سے سامان کی منتقلی پر آتا ہے۔ مگر اس میں خدشات و خطرات بہت زیادہ ہیں۔
(ii) ناردرن ڈسٹری بیوشن نیٹ ورک (NDN)، یعنی زمینی راستے سے اُزبکستان، پھر روس سے گزار کر، لٹویا نامی چھوٹے سے ملک کی بندرگاہ رِیگا تک سامان بھیجنے پر خرچ، پاکستان کے راستے آنے والے خرچ کا تین گنا آتا ہے۔
(iii) فضائی راستے سے سامان منتقل کرنے کا خرچ کم و بیش NDN جتنا ہی آئے گا۔
۔پورے افغانستان میں ۲۰؍فٹ لمبائی کے نوے ہزار، بھرے ہوئے کنٹینرز واپسی کے منتظر ہیں۔ جبکہ پچاس ہزار گاڑیاں الگ ہیں۔
(بشکریہ: ’’ٹائم‘‘ میگزین، شمارہ: ۱۸؍مارچ ۲۰۱۳ء)
(ترجمہ بشکریہ معارف شمارہ اپریل۲۰١۳ء)
Nate Rawlings
امریکا اور اتحادیوں کے پاس اب 23 ماہ بچے ہیں، جن میں اُنہیں اپنے فوجی اور تمام ساز و سامان افغانستان سے نکالنا ہے۔ امریکا کے ۶۶ ہزار فوجی افغانستان میں ہیں۔ ان سب کا انخلا ۲۰۱۴ء کے آخر تک ہونا ہے۔ کرنل اینڈریو رالنگ امریکا کی ۱۷۳ ویں ایئر بورن بریگیڈ کے سربراہ ہیں۔ انہیں اندازہ ہے کہ افغانستان سے فوجی اور سامان نکالنا کس قدر مصیبت کا کام ہے۔ وہ اپنے پیرا ٹروپرز کے ساتھ فارورڈ آپریٹنگ بیس شینک میں ہیں جو افغانستان میں امریکا کا تیسرا سب سے بڑا فوجی اڈا ہے۔ کرنل رالنگ کے سامنے ۶ میٹر لمبے کنٹینرز کا ایک سمندر سا تھا۔ ان کنٹینرز میں امریکی فوج کا وہ سامان تھا جو گیارہ برسوں کے دوران منگوایا گیا ہے۔ بہت سا سامان جمنازیم، اسکریپ یارڈ اور سڑکوں پر کھڑے ہزاروں کنٹینرز میں پڑا تھا۔ جب گنتی کی گئی تو ایک دو نہیں بلکہ پورے آٹھ ہزار کنٹینرز پڑے تھے۔ ان میں وہ گولہ بارود اور ہتھیار بھی تھے جن کی گمشدگی کی رپورٹس لکھوائی گئی تھیں۔ سیکڑوں ٹوائلیٹ سیٹس اور ۳۰ ٹوٹی ہوئی ٹریڈ ملز بھی تھیں۔ کرنل رالنگ نے ۶ ماہ میں تین ہزار سے زائد کنٹینرز میں سامان بھر کر امریکا کے لیے روانہ کیا ہے۔ جنگ کے لیے جو سامان لایا گیا تھا اس میں سے ہر کارآمد چیز واپس لے جائی جائے گی۔ سامان ایسا نہیں کہ سب کا سب پھینک دیا جائے۔ اربوں ڈالر مالیت کے آلات، پرزے، مشینیں اور گاڑیاں ہیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق افغانستان میں امریکی فوج کے زیر استعمال گاڑیوں کی تعداد پچاس ہزار ہے۔ تعمیراتی سامان بھی ہے۔ کیبل، چھوٹے موٹے ہتھیار، گولہ بارود، راؤنڈ اور دوسری بہت سی چیزیں ہیں جنہیں امریکا بھیجنے پر کم و بیش ۵؍ ارب ۷۰ کروڑ ڈالر خرچ ہوں گے۔
جنگ ختم کرنے کی تاریخ دی جاچکی ہے مگر جنگ تو ابھی جاری ہے۔ بہت کچھ ہے جو واپس بھیجنا ہے مگر فوجیوں کی ضرورت کا سامان رہنے دینا بھی ہے۔ معاملات میں توازن رکھنا لازم ہے۔ چھانٹی کا عمل دن رات جاری ہے۔ یہ اندازہ لگانا ہوتا ہے کہ فوجیوں کو مزید ڈیڑھ پونے دو سال کس سامان کی ضرورت پڑے گی۔ سینٹ کام مٹیریل ریکوری ایلیمنٹ کے کرنل ڈگلس مک برائڈ کہتے ہیں کہ لڑائی چونکہ جاری ہے، اِس لیے فوجیوں کو بہت سے سامان کی ضرورت رہے گی۔ چھانٹی کے دوران یہ طے کرنا بہت دشوار ہوتا ہے کہ فوجیوں کے لیے کون سا سامان رہنے دیا جائے اور کون سا وطن بھیجا جائے اور اس سے بھی بڑا سوال یہ کہ کس سامان کو تلف کردیا جائے۔ بہت سا سامان پھینکنے ہی کے قابل ہوتا ہے۔
گیارہ برسوں کے دوران زمینی فوج کو امریکی ایئر فورس نے غیر معمولی سطح پر مدد فراہم کی ہے۔ ہتھیار، گولہ بارود، خوراک، پانی، ادویہ، آلات اور دوسرا بہت سا سامان لڑائی میں مصروف فوجیوں کے لیے طیاروں اور ہیلی کاپٹرز سے گرایا جاتا رہا ہے۔
میجر ایڈم لیکی کہتے ہیں کہ جب ذہنیت یہ ہو کہ جنگ لامحدود مدت تک جاری رہے گی، تب یہی ہوتا ہے، یعنی سامان کا ڈھیر لگتا جاتا ہے۔ امریکا سے بہت بڑے پیمانے پر گاڑیاں، اسلحہ، خوراک، ادویہ، بنیادی سہولتیں اور دوسری بہت سی چیزیں منگوائی جاتی رہیں۔ اب اس میں سے بہت سا سامان، جو کارآمد ہے، واپس بھیجنا ہے کیونکہ یہ سب کچھ امریکیوں کے دیے ہوئے ٹیکسز سے خریدا گیا ہے۔ لوگوں کی محنت کی کمائی سے خریدی ہوئی چیزیں وطن واپس جانی چاہئیں۔ تمام کارآمد اشیا کو دوسرے کسی کام میں استعمال کیا جاسکتا ہے۔
چھوٹے فوجی اڈوں سے سامان بڑے اڈوں تک لے جایا جاتا ہے تاکہ وہاں چھانٹی ہو اور کارآمد اشیا امریکا روانہ کی جائیں۔ مشرقی افغانستان میں بگرام ایئر بیس امریکا کا سب سے بڑا فوجی اڈا ہے۔ اس اڈے پر چھانٹی کی جاتی ہے کہ کون سی اشیا رکھنی ہیں، کون سی پھینکنی ہیں، کونی سی تلف کرنی ہیں اور کون سی اشیا افغانوں کو دینی ہیں۔ چار ضرب چار فٹ کے ’’ککر باکس‘‘ میں کم و بیش دو لاکھ ڈالر مالیت کی اشیا سماتی ہیں۔ انہیں امریکا بھیجنے پر تقریباً بارہ سو ڈالر خرچ ہوتے ہیں۔ آٹھ ماہ قبل تک ہر ہفتے ۲۶۰ کنٹینر امریکا بھیجے جارہے تھے۔ اب یہ تعداد ۳۰۰ کنٹینر فی ہفتہ ہوگئی ہے۔ سول کنٹریکٹرز دن رات چھانٹی میں مصروف رہتے ہیں۔ امریکا سے چھ ماہ کے مشن پر بھیجے جانے والے کنٹریکٹرز روزانہ ۱۲ گھنٹے اور ہفتے میں ۶ دن کام کرتے ہیں۔ اگر یہ لوگ اس قدر محنت نہ کریں تو افغانستان سے سامان کی امریکا ترسیل انتہائی دشوار ہو جائے۔ ۴۵۵ ویں ایکسپیڈیشنری ایریئل پورٹ اسکواڈرن کے پورٹ ڈاگز کو بھی بھاری ذمہ داری سونپی گئی ہے۔ یہ ادارہ روزانہ ۱۳۰۰ فوجی اور ۶۰۰ ٹن سامان امریکا بھیجتا ہے۔ لیفٹیننٹ کنرل لوتھر کنگ کا کہنا ہے کہ اگر اس قدر جاں فشانی سے کام نہ کیا جائے تو لاجسٹک کا شعبہ کمزور پڑ جائے اور آنے والوں کو شدید الجھن کا سامنا کرنا پڑے۔
نقل و حمل کے نقطۂ نظر سے دیکھیے تو افغانستان ایک ڈراؤنا خواب ہے۔ ایک تو یہ ملک چاروں طرف سے خشکی سے گھرا ہوا ہے۔ دوسرے یہ کہ راستے سخت دشوار گزار ہیں۔ دشمن ضدی اور سخت جان ہے اور پھر کرپٹ اور خود سر بیورو کریسی کا بھی سامنا ہے۔
امریکی فرسٹ انفینٹری ڈویژن کے لیے ڈپٹی کمانڈنگ جنرل کا کردار ادا کرنے والے برطانوی ایکسچینج افسر بریگیڈیئر فیلکس گیڈنی کا کہنا ہے کہ ہم نے ایک ایسے کام کو آسان بنانے کی کوشش کی ہے جو تقریباً ناممکن دکھائی دیتا تھا۔
امریکی فوج نے افغانستان میں جو گیارہ سال گزارے ہیں، وہ سامان کا ڈھیر لگانے کا باعث بنے ہیں۔ یہ ڈھیر کس طور ٹھکانے لگایا جاتا ہے، یہ دیکھنا دلچسپی سے خالی نہ ہوگا۔ افغانستان سے سامان کی ترسیل آسان نہیں۔ امریکی فوج کو یہ معرکہ جیت کر دکھانا ہے۔ دیکھیے، سامان کا پہاڑ ٹھکانے لگ پاتا ہے یا نہیں۔
("Return to Sender"... "Time Magazine". March 18th, 2013)
====================
NATO کا افغانستان سے انخلا چند حقائق
=====================
افغانستان سے امریکا اور ناٹو کے نکلنے کے اعلان شدہ وقت (دسمبر ۲۰۱۴ء) کے آنے میں اب صرف ۲۲ ماہ باقی رہ گئے ہیں۔ جبکہ لاکھوں ٹن سامان انہی ۲۲ مہینوں میں نکال کر لے جانا ہے۔ اس سامان سے متعلق چند دلچسپ حقائق درج ذیل ہیں:
۔اتحادی افواج کے پاس موجود ابلاغی آلات (Communications Equipments) حساس سمجھے جاتے ہیں، یہ لازماً امریکا واپس لے جائے جائیں گے۔
۔استعمال شدہ بیٹریوں کو ری سائیکل کیا جائے گا یا ضائع کر دیا جائے گا۔
۔لکڑی کا بیشتر سامان افغانیوں کوایندھن کے لیے دے دیا جائے گا۔
۔دھات سے بنے پرزے، چھری کانٹے اور عام استعمال کی دیگر دھاتی اشیا میں سے کچھ امریکا لے جائی جائیں گی، کچھ ری سائیکل ہوں گی اور کچھ ضائع کر دی جائیں گی۔
۔افغانستان سے اشیا کی امریکا واپسی کے راستے اور متوقع اخراجات کا تخمینہ درج ذیل ہے:
(i) سب سے کم خرچ، پاکستان کے زمینی راستہ سے سامان کی منتقلی پر آتا ہے۔ مگر اس میں خدشات و خطرات بہت زیادہ ہیں۔
(ii) ناردرن ڈسٹری بیوشن نیٹ ورک (NDN)، یعنی زمینی راستے سے اُزبکستان، پھر روس سے گزار کر، لٹویا نامی چھوٹے سے ملک کی بندرگاہ رِیگا تک سامان بھیجنے پر خرچ، پاکستان کے راستے آنے والے خرچ کا تین گنا آتا ہے۔
(iii) فضائی راستے سے سامان منتقل کرنے کا خرچ کم و بیش NDN جتنا ہی آئے گا۔
۔پورے افغانستان میں ۲۰؍فٹ لمبائی کے نوے ہزار، بھرے ہوئے کنٹینرز واپسی کے منتظر ہیں۔ جبکہ پچاس ہزار گاڑیاں الگ ہیں۔
(بشکریہ: ’’ٹائم‘‘ میگزین، شمارہ: ۱۸؍مارچ ۲۰۱۳ء)
(ترجمہ بشکریہ معارف شمارہ اپریل۲۰١۳ء)