افغانستان سے امریکی فوجی سامان کی منتقلی

افغانستان سے امریکی فوجی سامان کی منتقلی
Nate Rawlings
امریکا اور اتحادیوں کے پاس اب 23 ماہ بچے ہیں، جن میں اُنہیں اپنے فوجی اور تمام ساز و سامان افغانستان سے نکالنا ہے۔ امریکا کے ۶۶ ہزار فوجی افغانستان میں ہیں۔ ان سب کا انخلا ۲۰۱۴ء کے آخر تک ہونا ہے۔ کرنل اینڈریو رالنگ امریکا کی ۱۷۳ ویں ایئر بورن بریگیڈ کے سربراہ ہیں۔ انہیں اندازہ ہے کہ افغانستان سے فوجی اور سامان نکالنا کس قدر مصیبت کا کام ہے۔ وہ اپنے پیرا ٹروپرز کے ساتھ فارورڈ آپریٹنگ بیس شینک میں ہیں جو افغانستان میں امریکا کا تیسرا سب سے بڑا فوجی اڈا ہے۔ کرنل رالنگ کے سامنے ۶ میٹر لمبے کنٹینرز کا ایک سمندر سا تھا۔ ان کنٹینرز میں امریکی فوج کا وہ سامان تھا جو گیارہ برسوں کے دوران منگوایا گیا ہے۔ بہت سا سامان جمنازیم، اسکریپ یارڈ اور سڑکوں پر کھڑے ہزاروں کنٹینرز میں پڑا تھا۔ جب گنتی کی گئی تو ایک دو نہیں بلکہ پورے آٹھ ہزار کنٹینرز پڑے تھے۔ ان میں وہ گولہ بارود اور ہتھیار بھی تھے جن کی گمشدگی کی رپورٹس لکھوائی گئی تھیں۔ سیکڑوں ٹوائلیٹ سیٹس اور ۳۰ ٹوٹی ہوئی ٹریڈ ملز بھی تھیں۔ کرنل رالنگ نے ۶ ماہ میں تین ہزار سے زائد کنٹینرز میں سامان بھر کر امریکا کے لیے روانہ کیا ہے۔ جنگ کے لیے جو سامان لایا گیا تھا اس میں سے ہر کارآمد چیز واپس لے جائی جائے گی۔ سامان ایسا نہیں کہ سب کا سب پھینک دیا جائے۔ اربوں ڈالر مالیت کے آلات، پرزے، مشینیں اور گاڑیاں ہیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق افغانستان میں امریکی فوج کے زیر استعمال گاڑیوں کی تعداد پچاس ہزار ہے۔ تعمیراتی سامان بھی ہے۔ کیبل، چھوٹے موٹے ہتھیار، گولہ بارود، راؤنڈ اور دوسری بہت سی چیزیں ہیں جنہیں امریکا بھیجنے پر کم و بیش ۵؍ ارب ۷۰ کروڑ ڈالر خرچ ہوں گے۔
جنگ ختم کرنے کی تاریخ دی جاچکی ہے مگر جنگ تو ابھی جاری ہے۔ بہت کچھ ہے جو واپس بھیجنا ہے مگر فوجیوں کی ضرورت کا سامان رہنے دینا بھی ہے۔ معاملات میں توازن رکھنا لازم ہے۔ چھانٹی کا عمل دن رات جاری ہے۔ یہ اندازہ لگانا ہوتا ہے کہ فوجیوں کو مزید ڈیڑھ پونے دو سال کس سامان کی ضرورت پڑے گی۔ سینٹ کام مٹیریل ریکوری ایلیمنٹ کے کرنل ڈگلس مک برائڈ کہتے ہیں کہ لڑائی چونکہ جاری ہے، اِس لیے فوجیوں کو بہت سے سامان کی ضرورت رہے گی۔ چھانٹی کے دوران یہ طے کرنا بہت دشوار ہوتا ہے کہ فوجیوں کے لیے کون سا سامان رہنے دیا جائے اور کون سا وطن بھیجا جائے اور اس سے بھی بڑا سوال یہ کہ کس سامان کو تلف کردیا جائے۔ بہت سا سامان پھینکنے ہی کے قابل ہوتا ہے۔
گیارہ برسوں کے دوران زمینی فوج کو امریکی ایئر فورس نے غیر معمولی سطح پر مدد فراہم کی ہے۔ ہتھیار، گولہ بارود، خوراک، پانی، ادویہ، آلات اور دوسرا بہت سا سامان لڑائی میں مصروف فوجیوں کے لیے طیاروں اور ہیلی کاپٹرز سے گرایا جاتا رہا ہے۔
میجر ایڈم لیکی کہتے ہیں کہ جب ذہنیت یہ ہو کہ جنگ لامحدود مدت تک جاری رہے گی، تب یہی ہوتا ہے، یعنی سامان کا ڈھیر لگتا جاتا ہے۔ امریکا سے بہت بڑے پیمانے پر گاڑیاں، اسلحہ، خوراک، ادویہ، بنیادی سہولتیں اور دوسری بہت سی چیزیں منگوائی جاتی رہیں۔ اب اس میں سے بہت سا سامان، جو کارآمد ہے، واپس بھیجنا ہے کیونکہ یہ سب کچھ امریکیوں کے دیے ہوئے ٹیکسز سے خریدا گیا ہے۔ لوگوں کی محنت کی کمائی سے خریدی ہوئی چیزیں وطن واپس جانی چاہئیں۔ تمام کارآمد اشیا کو دوسرے کسی کام میں استعمال کیا جاسکتا ہے۔
چھوٹے فوجی اڈوں سے سامان بڑے اڈوں تک لے جایا جاتا ہے تاکہ وہاں چھانٹی ہو اور کارآمد اشیا امریکا روانہ کی جائیں۔ مشرقی افغانستان میں بگرام ایئر بیس امریکا کا سب سے بڑا فوجی اڈا ہے۔ اس اڈے پر چھانٹی کی جاتی ہے کہ کون سی اشیا رکھنی ہیں، کون سی پھینکنی ہیں، کونی سی تلف کرنی ہیں اور کون سی اشیا افغانوں کو دینی ہیں۔ چار ضرب چار فٹ کے ’’ککر باکس‘‘ میں کم و بیش دو لاکھ ڈالر مالیت کی اشیا سماتی ہیں۔ انہیں امریکا بھیجنے پر تقریباً بارہ سو ڈالر خرچ ہوتے ہیں۔ آٹھ ماہ قبل تک ہر ہفتے ۲۶۰ کنٹینر امریکا بھیجے جارہے تھے۔ اب یہ تعداد ۳۰۰ کنٹینر فی ہفتہ ہوگئی ہے۔ سول کنٹریکٹرز دن رات چھانٹی میں مصروف رہتے ہیں۔ امریکا سے چھ ماہ کے مشن پر بھیجے جانے والے کنٹریکٹرز روزانہ ۱۲ گھنٹے اور ہفتے میں ۶ دن کام کرتے ہیں۔ اگر یہ لوگ اس قدر محنت نہ کریں تو افغانستان سے سامان کی امریکا ترسیل انتہائی دشوار ہو جائے۔ ۴۵۵ ویں ایکسپیڈیشنری ایریئل پورٹ اسکواڈرن کے پورٹ ڈاگز کو بھی بھاری ذمہ داری سونپی گئی ہے۔ یہ ادارہ روزانہ ۱۳۰۰ فوجی اور ۶۰۰ ٹن سامان امریکا بھیجتا ہے۔ لیفٹیننٹ کنرل لوتھر کنگ کا کہنا ہے کہ اگر اس قدر جاں فشانی سے کام نہ کیا جائے تو لاجسٹک کا شعبہ کمزور پڑ جائے اور آنے والوں کو شدید الجھن کا سامنا کرنا پڑے۔
نقل و حمل کے نقطۂ نظر سے دیکھیے تو افغانستان ایک ڈراؤنا خواب ہے۔ ایک تو یہ ملک چاروں طرف سے خشکی سے گھرا ہوا ہے۔ دوسرے یہ کہ راستے سخت دشوار گزار ہیں۔ دشمن ضدی اور سخت جان ہے اور پھر کرپٹ اور خود سر بیورو کریسی کا بھی سامنا ہے۔
امریکی فرسٹ انفینٹری ڈویژن کے لیے ڈپٹی کمانڈنگ جنرل کا کردار ادا کرنے والے برطانوی ایکسچینج افسر بریگیڈیئر فیلکس گیڈنی کا کہنا ہے کہ ہم نے ایک ایسے کام کو آسان بنانے کی کوشش کی ہے جو تقریباً ناممکن دکھائی دیتا تھا۔
امریکی فوج نے افغانستان میں جو گیارہ سال گزارے ہیں، وہ سامان کا ڈھیر لگانے کا باعث بنے ہیں۔ یہ ڈھیر کس طور ٹھکانے لگایا جاتا ہے، یہ دیکھنا دلچسپی سے خالی نہ ہوگا۔ افغانستان سے سامان کی ترسیل آسان نہیں۔ امریکی فوج کو یہ معرکہ جیت کر دکھانا ہے۔ دیکھیے، سامان کا پہاڑ ٹھکانے لگ پاتا ہے یا نہیں۔
("Return to Sender"... "Time Magazine". March 18th, 2013)

====================
NATO کا افغانستان سے انخلا چند حقائق
=====================
افغانستان سے امریکا اور ناٹو کے نکلنے کے اعلان شدہ وقت (دسمبر ۲۰۱۴ء) کے آنے میں اب صرف ۲۲ ماہ باقی رہ گئے ہیں۔ جبکہ لاکھوں ٹن سامان انہی ۲۲ مہینوں میں نکال کر لے جانا ہے۔ اس سامان سے متعلق چند دلچسپ حقائق درج ذیل ہیں:
۔اتحادی افواج کے پاس موجود ابلاغی آلات (Communications Equipments) حساس سمجھے جاتے ہیں، یہ لازماً امریکا واپس لے جائے جائیں گے۔
۔استعمال شدہ بیٹریوں کو ری سائیکل کیا جائے گا یا ضائع کر دیا جائے گا۔
۔لکڑی کا بیشتر سامان افغانیوں کوایندھن کے لیے دے دیا جائے گا۔
۔دھات سے بنے پرزے، چھری کانٹے اور عام استعمال کی دیگر دھاتی اشیا میں سے کچھ امریکا لے جائی جائیں گی، کچھ ری سائیکل ہوں گی اور کچھ ضائع کر دی جائیں گی۔
۔افغانستان سے اشیا کی امریکا واپسی کے راستے اور متوقع اخراجات کا تخمینہ درج ذیل ہے:
(i) سب سے کم خرچ، پاکستان کے زمینی راستہ سے سامان کی منتقلی پر آتا ہے۔ مگر اس میں خدشات و خطرات بہت زیادہ ہیں۔
(ii) ناردرن ڈسٹری بیوشن نیٹ ورک (NDN)، یعنی زمینی راستے سے اُزبکستان، پھر روس سے گزار کر، لٹویا نامی چھوٹے سے ملک کی بندرگاہ رِیگا تک سامان بھیجنے پر خرچ، پاکستان کے راستے آنے والے خرچ کا تین گنا آتا ہے۔
(iii) فضائی راستے سے سامان منتقل کرنے کا خرچ کم و بیش NDN جتنا ہی آئے گا۔
۔پورے افغانستان میں ۲۰؍فٹ لمبائی کے نوے ہزار، بھرے ہوئے کنٹینرز واپسی کے منتظر ہیں۔ جبکہ پچاس ہزار گاڑیاں الگ ہیں۔
(بشکریہ: ’’ٹائم‘‘ میگزین، شمارہ: ۱۸؍مارچ ۲۰۱۳ء)
(ترجمہ بشکریہ معارف شمارہ اپریل۲۰١۳ء)
 
میرا آفس پشاور میں جمرود روڈ کے پاس ہے
یہاں سے روز فوجی گاڑیوں سے بھرے ہوئے ٹرالر گزرتے رہتے ہیں
شہزاد بھائی، امریکیوں کو جو "سامان" پاکستان میں اپنے "اتحادیوں" کو پہنچانا ہوتا ہے وہ راستے میں "چھپر" کردیا جاتا ہے!
 

رانا

محفلین
سید اسد محمود صاحب ایک بات پوچھنا چاہتا ہوں صرف نالج کے لئے۔ پانچ ہزار کنٹینرز چوری ہونے کا اکثر ذکر سنا ہے یہاں محفل پر بھی اور ویسے بھی۔ اس بات میں کتنی صداقت ہے؟ کیا واقعی پانچ ہزار کنٹینرز چوری ہوئے تھے؟ اور اگر ہوئے تھے تو کیا اب تک بازیاب نہیں ہوئے؟ یہ میں اس لئے پوچھ رہا ہوں کہ پانچ ہزار کنٹینرز کی چوری پر یقین نہیں ہوتا کہ کنٹینرز کوئی چھوٹے سے تو ہوتے نہیں 10 فٹ والا بھی اچھا خاصا ہوتا ہے اور وہ بھی پانچ ہزار۔ کیسے چھپائے جاسکتے ہیں کسی کی نظروں میں لائے بغیر۔ کافی عرصے سے یہ تجسس ہے اگر آپ کو کچھ معلومات ہیں تو پلیز شئیر کریں۔
 
سید اسد محمود صاحب ایک بات پوچھنا چاہتا ہوں صرف نالج کے لئے۔ پانچ ہزار کنٹینرز چوری ہونے کا اکثر ذکر سنا ہے یہاں محفل پر بھی اور ویسے بھی۔ اس بات میں کتنی صداقت ہے؟ کیا واقعی پانچ ہزار کنٹینرز چوری ہوئے تھے؟ اور اگر ہوئے تھے تو کیا اب تک بازیاب نہیں ہوئے؟ یہ میں اس لئے پوچھ رہا ہوں کہ پانچ ہزار کنٹینرز کی چوری پر یقین نہیں ہوتا کہ کنٹینرز کوئی چھوٹے سے تو ہوتے نہیں 10 فٹ والا بھی اچھا خاصا ہوتا ہے اور وہ بھی پانچ ہزار۔ کیسے چھپائے جاسکتے ہیں کسی کی نظروں میں لائے بغیر۔ کافی عرصے سے یہ تجسس ہے اگر آپ کو کچھ معلومات ہیں تو پلیز شئیر کریں۔
چوری ہونا الگ بات ہے اور چوری سے کسی کو دینا الگ بات۔
اگر چوری ہوتے تو امریکی اتنی خاموشی سے نا بیٹھتے۔ دراصل انہوں نے جنہیں پہنچانے تھے ان کو ہی پہنچے ہیں۔ اور آپ اس دور میں بابر غوری کی پورٹس کی وزارت کے لیے ایم کیو ایم کی ضد، اسرار اور ہٹ دھرمی دیکھ سکھتے ہیں جو کہ آن ریکارڈ ہے۔ اور اس سلسلےمیں کسی کورٹ نے ایکشن بھی لیا تھا لیکن ساری بات پھر گھما دی گئی کنٹینر چوری سے کسٹم/ٹیکس چوری کی جانب۔
 
اسلا م آباد…ایف بی آر زرائع کے مطابق لاپتہ کنٹیرز کی مجموعی تعداد تقریباً 40ہزار ہے۔ ان نیٹو، ایساف، امریکی افواج اور کمرشل کنٹینرز پر 70ارب روپے ڈیوٹی چوری کی گئی۔ایف بی آر ذرائع کے مطابق یہ کنٹینرز 2007ء سے2010ء کے دوران غائب ہوئے۔ ان میں 28 ہزار 802 کمرشل، ایساف اور نیٹو کے 3542 جب کہ امریکی فوج کے 7500 کنٹینرزہیں۔ ایف بی آر ذرائع کے مطابق نیب کے کہنے پر ہر لاپتہ کنٹینر کی الگ الگ ڈیوٹی نکالی گئی جس سے معلوم ہوا کہ مجموعی طور پر 70 ارب روپے کی ڈیوٹی چوری کی گئی ہے ۔ ڈیوٹی چوری کا ابتدائی تخمینہ 55 ارب روپے تھا۔
===== =====
1) اس خبر سے ہٹ کر جو بات آج تک سمجھ نہیں آئی جسکا مال ہے یعنی نیٹو اور امریکی وہ اپنے سامان کی گمشدگی پر کیوں خاموش رہتے ہیں؟ کنٹینرز کی مالک شپنگ کمپنیز اور انکے ایجنٹ بھی خاموش کیوں ہیں؟
2) یہ تعداد تو بہت بڑی ہے یعنی 40 ہزار کنٹینرز۔۔۔۔ سوچنے والی بات ہے کہ جب ڈیوٹی ہی 70 ارب روپے ہے تو چوری شدہ سامان کی مالیت کتنی ہوگی؟
3) کیا اتنی بڑے پیمانے پر یہ حرکت سب کی ملی بھگت سے صرف ڈیوٹی بچانے کرنے کے لئے کی جارہی ہے ؟
4) کیا افغان جنگ کی آڑ میں کوئی دوسرا گیم تو نہیں کھیلا جارہا؟ اسلحہ، ایمونیشن، اور دیگر حربی آلات اپنے حریفوں کے پاس اسٹاک کئے گئے ہوں کسی منصوبہ بندی کے تحت؟
 

رانا

محفلین
چوری ہونا الگ بات ہے اور چوری سے کسی کو دینا الگ بات۔
اگر چوری ہوتے تو امریکی اتنی خاموشی سے نا بیٹھتے۔ دراصل انہوں نے جنہیں پہنچانے تھے ان کو ہی پہنچے ہیں۔ اور آپ اس دور میں بابر غوری کی پورٹس کی وزارت کے لیے ایم کیو ایم کی ضد، اسرار اور ہٹ دھرمی دیکھ سکھتے ہیں جو کہ آن ریکارڈ ہے۔ اور اس سلسلےمیں کسی کورٹ نے ایکشن بھی لیا تھا لیکن ساری بات پھر گھما دی گئی کنٹینر چوری سے کسٹم/ٹیکس چوری کی جانب۔
آپ کو شائد حیرت ہوگی کہ میں نے یہ خبر آج تک کسی بھی اخبار یا نیوز چینل پر نہیں سنی۔:) وجہ یہ کافی عرصے اخبار اور ٹی وی سے دور رہا اب جا کہ ہفتے میں ایک دو دن کسی نیوز کی ویب سائٹ کو کھول لیتا ہوں۔ یہی وجہ تھی اصل میں پوچھنے کی کہ میں نے صرف سنا ہی ہوا تھا کہ ایسا ہوا ہے لیکن میرا خیال تھا کہ شائد بازیاب ہوچکے ہوں گے ورنہ اتنی خاموشی نہ چھائی رہتی اتنی بڑی واردات کے بعد۔ اب آپ نے تصدیق کی ہے کہ واقعی ایسا ہوا تھا۔ لیکن حیرت کی بات ہے کہ پانچ ہزار کنٹینرز کسی کو اپنی مرضی سے بھی دئیے بھی جائیں تو یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ کسی کو پتہ ہی نہ لگے۔ کنٹینرز اور وہ بھی پانچ ہزار!!! چھو منتر کرکے تو غائب کئے نہیں جاسکتے۔ آخر ایک ایک کرکے ہی لے جائے گئے ہوں گے۔ شہر کی سڑکوں پر کہیں سے گزرے ہوں گے۔ کہیں رکھنے کے لئے بھی تو جگہ چاہئے۔ یہ سب سوچ کر دماغ سن ہوجاتا ہے کہ اتنی بڑی واردات کیسے ہوسکتی ہے کہ کسی کو پتہ ہی نہ لگا ہو۔ میں نے ایک بار سوچا کہ اگر مجھے پانچ ہزار کنٹیرز چوری کرنے کا ٹاسک دیا جاتا تو میں کیا کرتا۔ مجھے ایک ہی طریقہ سمجھ میں آیا کہ پورا جہاز ہی ڈبو دیا جائے بعد میں وہاں سے نکال نکال کر لے جاتے رہیں اٹالین جاب کی طرح۔:)
لیکن جس طرف آپ اشارہ کررہے ہیں وہ امکان آخر ہماری سیکیورٹی ایجنسیوں نے سامنے نہیں رکھا ہوگا کیا؟ اس پر بھی سوالیہ نشان ہے۔ عسکری بھائی آپ کچھ روشنی ڈال سکتے ہیں اس پر؟
 

رانا

محفلین
خدایا مجھے تو پانچ ہزار ہی ہضم نہیں ہورہے تھے آپ چالیس ہزار کی بات کررہے ہیں!!!!:eek:
آپ کی بات میں واقعی وزن ہے۔ اگر اس زاویئے سے سوچا جائے تو پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہماری سیکیورٹی ایجنسیاں کیا کررہی ہیں؟ یہ تو واقعی کسی خطرناک صورت حال کی طرف اشارے جارہے ہیں۔ اللہ تعالی بہتر کرے۔ پتہ نہیں کیا معاملات ہیں۔
 
سید اسد محمود صاحب ایک بات پوچھنا چاہتا ہوں صرف نالج کے لئے۔ پانچ ہزار کنٹینرز چوری ہونے کا اکثر ذکر سنا ہے یہاں محفل پر بھی اور ویسے بھی۔ اس بات میں کتنی صداقت ہے؟ کیا واقعی پانچ ہزار کنٹینرز چوری ہوئے تھے؟ اور اگر ہوئے تھے تو کیا اب تک بازیاب نہیں ہوئے؟ یہ میں اس لئے پوچھ رہا ہوں کہ پانچ ہزار کنٹینرز کی چوری پر یقین نہیں ہوتا کہ کنٹینرز کوئی چھوٹے سے تو ہوتے نہیں 10 فٹ والا بھی اچھا خاصا ہوتا ہے اور وہ بھی پانچ ہزار۔ کیسے چھپائے جاسکتے ہیں کسی کی نظروں میں لائے بغیر۔ کافی عرصے سے یہ تجسس ہے اگر آپ کو کچھ معلومات ہیں تو پلیز شئیر کریں۔
ایسے سوالات نہیں پوچھا کرتے ہیں۔ صرف دہشت گردوں سے ملنے والا اسلحہ یعنی سوات آپریشن یعنی ملٹری پر حملے میں استعمال ہونے والا اسلحہ وغیرہ وغیرہ ان پر اخبارات میں غور کریں کہ دہشت گردوں کی لاشوں کے پاس سےملنے والا کس ملک کا ساختہ تھا۔
 
خدایا مجھے تو پانچ ہزار ہی ہضم نہیں ہورہے تھے آپ چالیس ہزار کی بات کررہے ہیں!!!!:eek:
آپ کی بات میں واقعی وزن ہے۔ اگر اس زاویئے سے سوچا جائے تو پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہماری سیکیورٹی ایجنسیاں کیا کررہی ہیں؟ یہ تو واقعی کسی خطرناک صورت حال کی طرف اشارے جارہے ہیں۔ اللہ تعالی بہتر کرے۔ پتہ نہیں کیا معاملات ہیں۔
رانا جی آپ کی ناک بہت بیکار قسم کی ناک ہے لگتا ہے کراچی کا پانی پی پی کر آپ کی سونگھنے کی حِس ناکارہ ہوگئی ہے ارے بھائی ڈالرون کی خوشبو تو مجھے امریکہ سے آجاتی ہے کمال ہے آپ کو پاکستان میں بیٹھے بیٹھے بھی ڈالر نظر نہیں آتے ہیں۔
میں نے خود اپنی گناہگار آنکھوں سے سفید ڈالر دیکھے ہیں یعنی بغیر رنگ کے
 

عمراعظم

محفلین
خدایا مجھے تو پانچ ہزار ہی ہضم نہیں ہورہے تھے آپ چالیس ہزار کی بات کررہے ہیں!!!!:eek:
آپ کی بات میں واقعی وزن ہے۔ اگر اس زاویئے سے سوچا جائے تو پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہماری سیکیورٹی ایجنسیاں کیا کررہی ہیں؟ یہ تو واقعی کسی خطرناک صورت حال کی طرف اشارے جارہے ہیں۔ اللہ تعالی بہتر کرے۔ پتہ نہیں کیا معاملات ہیں۔
حکومت اور تمام اداروں کی ملی بھگت کے بغیر ایسا ممکن نہیں تھا۔
 

رانا

محفلین
لگتا ہے بہت ہی حساس معاملے کو چھیڑ دیا ہے میں نے۔ اس پر پردہ ہی پڑے رہنے دیتے ہیں وقت آنے پر خود ہی اٹھ جائے گا۔:)
 

عمراعظم

محفلین
لگتا ہے بہت ہی حساس معاملے کو چھیڑ دیا ہے میں نے۔ اس پر پردہ ہی پڑے رہنے دیتے ہیں وقت آنے پر خود ہی اٹھ جائے گا۔:)
جی! شاید آئندہ چند دھائیوں تک ہمیں مزید انتظار درکار ہو گا۔وہ بھی ’اس صورت میں کہ جب ہم نے اپنی حقیقی آزادی کے حصول کی جدوجہد کی۔ آپ کنٹینرز کی بابت فکر مند ہیں یہاں تو چینی کی قیمت بڑھا دی جاتی ہے اور عدالت کے حکم کے باوجود اس میں کمی نہیں کی جاتی۔۔۔ حیرت انگیز طور پر میڈ یا سمیت کہیں سے کوئی آواز بلند نہیں ہوتی۔
 

عسکری

معطل
آپ کو شائد حیرت ہوگی کہ میں نے یہ خبر آج تک کسی بھی اخبار یا نیوز چینل پر نہیں سنی۔:) وجہ یہ کافی عرصے اخبار اور ٹی وی سے دور رہا اب جا کہ ہفتے میں ایک دو دن کسی نیوز کی ویب سائٹ کو کھول لیتا ہوں۔ یہی وجہ تھی اصل میں پوچھنے کی کہ میں نے صرف سنا ہی ہوا تھا کہ ایسا ہوا ہے لیکن میرا خیال تھا کہ شائد بازیاب ہوچکے ہوں گے ورنہ اتنی خاموشی نہ چھائی رہتی اتنی بڑی واردات کے بعد۔ اب آپ نے تصدیق کی ہے کہ واقعی ایسا ہوا تھا۔ لیکن حیرت کی بات ہے کہ پانچ ہزار کنٹینرز کسی کو اپنی مرضی سے بھی دئیے بھی جائیں تو یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ کسی کو پتہ ہی نہ لگے۔ کنٹینرز اور وہ بھی پانچ ہزار!!! چھو منتر کرکے تو غائب کئے نہیں جاسکتے۔ آخر ایک ایک کرکے ہی لے جائے گئے ہوں گے۔ شہر کی سڑکوں پر کہیں سے گزرے ہوں گے۔ کہیں رکھنے کے لئے بھی تو جگہ چاہئے۔ یہ سب سوچ کر دماغ سن ہوجاتا ہے کہ اتنی بڑی واردات کیسے ہوسکتی ہے کہ کسی کو پتہ ہی نہ لگا ہو۔ میں نے ایک بار سوچا کہ اگر مجھے پانچ ہزار کنٹیرز چوری کرنے کا ٹاسک دیا جاتا تو میں کیا کرتا۔ مجھے ایک ہی طریقہ سمجھ میں آیا کہ پورا جہاز ہی ڈبو دیا جائے بعد میں وہاں سے نکال نکال کر لے جاتے رہیں اٹالین جاب کی طرح۔:)
لیکن جس طرف آپ اشارہ کررہے ہیں وہ امکان آخر ہماری سیکیورٹی ایجنسیوں نے سامنے نہیں رکھا ہوگا کیا؟ اس پر بھی سوالیہ نشان ہے۔ عسکری بھائی آپ کچھ روشنی ڈال سکتے ہیں اس پر؟
مجھے اس بارے میں کچھ نہیں پتہ جناب
 

طالوت

محفلین
پہلے امریکی عوام کے ٹیکسوں سے سامان خریدو پھر اسے ٹرانسپورٹ کرو ، منصوبہ بندی خراب ، اب یہ سامان چونکہ امریکی عوام کے ٹیکسوں کا ہے اور واپس جانا چاہیے اور پھر امریکی عوام کے ٹیکسوں کو لگاؤ اور واپس لے کر جاؤ۔ ان کی اس حرکت سے مجھے سوشلسٹ یاد آتے ہیں جب وہ ان کی اس واردات کو بیان کرتے ہیں۔
 
آپ کو شائد حیرت ہوگی کہ میں نے یہ خبر آج تک کسی بھی اخبار یا نیوز چینل پر نہیں سنی۔:) وجہ یہ کافی عرصے اخبار اور ٹی وی سے دور رہا اب جا کہ ہفتے میں ایک دو دن کسی نیوز کی ویب سائٹ کو کھول لیتا ہوں۔ یہی وجہ تھی اصل میں پوچھنے کی کہ میں نے صرف سنا ہی ہوا تھا کہ ایسا ہوا ہے لیکن میرا خیال تھا کہ شائد بازیاب ہوچکے ہوں گے ورنہ اتنی خاموشی نہ چھائی رہتی اتنی بڑی واردات کے بعد۔ اب آپ نے تصدیق کی ہے کہ واقعی ایسا ہوا تھا۔ لیکن حیرت کی بات ہے کہ پانچ ہزار کنٹینرز کسی کو اپنی مرضی سے بھی دئیے بھی جائیں تو یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ کسی کو پتہ ہی نہ لگے۔ کنٹینرز اور وہ بھی پانچ ہزار!!! چھو منتر کرکے تو غائب کئے نہیں جاسکتے۔ آخر ایک ایک کرکے ہی لے جائے گئے ہوں گے۔ شہر کی سڑکوں پر کہیں سے گزرے ہوں گے۔ کہیں رکھنے کے لئے بھی تو جگہ چاہئے۔ یہ سب سوچ کر دماغ سن ہوجاتا ہے کہ اتنی بڑی واردات کیسے ہوسکتی ہے کہ کسی کو پتہ ہی نہ لگا ہو۔ میں نے ایک بار سوچا کہ اگر مجھے پانچ ہزار کنٹیرز چوری کرنے کا ٹاسک دیا جاتا تو میں کیا کرتا۔ مجھے ایک ہی طریقہ سمجھ میں آیا کہ پورا جہاز ہی ڈبو دیا جائے بعد میں وہاں سے نکال نکال کر لے جاتے رہیں اٹالین جاب کی طرح۔:)
لیکن جس طرف آپ اشارہ کررہے ہیں وہ امکان آخر ہماری سیکیورٹی ایجنسیوں نے سامنے نہیں رکھا ہوگا کیا؟ اس پر بھی سوالیہ نشان ہے۔ عسکری بھائی آپ کچھ روشنی ڈال سکتے ہیں اس پر؟
آپ کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ یہ سارا معاملہ مشرف دور میں انجام پایا، ایک تو وہ اتنا مختصر دور تھا نہیں پھر یہ بات ہر خاص و عام کے لبوں پہ ہے کہ مشرف دور میں آئی ایس آئی کے فنکشنز انتہائی حد تک محدود ہو گئے تھے، اور خاص طور پہ امریکی معاملات میں کچھ بھی نہ کرنے کی ہدایات تھیں۔ اور پھر ایم کیو ایم جو کہ مشرف کی خاص حمایتی جماعت تھی کراچی میں اسی کا اقتدار تھا اور بابر غوری کا پورٹس کے اوپر راج۔ پورٹس پہ دن میں ہزاروں کنٹینر آتے اور جاتے ہیں، اور پورٹس اور کراچی کے روڈ سارا دن کنٹینرز سے بھرے رہتے ہیں۔ اس لیے ایک عام آدمی کو اندازہ نہیں ہو پاتا کہ ایک بند کنٹینر میں پرانا چمڑہ ہے، گھی کے کین ہیں، خشک خوراک ہے، بکتر بند گاڑیاں ہیں، راکٹ لانچرز ہیں، پی وی سی کا دانہ ہے، کھاد ہے یا کیا ہے۔ کراچی بھر میں کنٹینر یارڈز ہیں جہاں ہر وقت ہزاروں کی تعداد میں کنٹینر رکھے رہتے ہیں اور آمدورفت جاری رہتی ہے۔

ذرا کراچی کے کنٹینز یارڈز اور ٹرمینلز کی روز مرہ کی ان تصویروں کو دیکھیں تو آپ کو پتہ چلے گا جہاں ہمہ وقت یہ حالت ہو تو 5 ہزار کنٹینرز نمٹانے میں کیا دیر لگے گی۔

RL0HHolXOj4nf_A3IIrPobJpDdSkOllIA6MVVvOcEM8


THlQb7PRo7-Oygvj5VAsMo8IIcEblRjo9Zj7Uj91wsY


pgSNpxfS9m3GTOL9L40E8gR3ZqHHJo0mfjoo_5lBRQk


w3yXvKh-ElJH1nfO0BRgfU1T9mViMshEX-VDRz64HxQ


_tYNwuNm4w5Dpkdh8HymVjzDBpGvnod8lWbqlZhlxKQ


یہ لیں میرا گوگل میپ اور گوگل ارتھ کا مشاہدہ


پورٹ قاسم
I2lELCxwQULY8P9RM9v31ex22-pGDDIacE6r1f6xnEc


پورٹ قاسم
bAVOfDK7Lnp2jnEHFGWa6OXUDVzOsDjaB1UhJ4KrbaY


پورٹ قاسم روڈ پہ موجود کنٹینر یارڈز اور روڈ پہ دیکھیں۔
dxRoUlhOeG6LDu0iCHtN88uio5KiuTTTDZJC-pPCVJ4


پورٹ قاسم روڈ پہ کنٹینر یارڈز اور روڈ پہ قطاریں دیکھیں۔
IK8EmkQU5NMu2NNnmMJAiYIXBCE3kRRjsUo26KxrIjE


کراچی پورٹ
qS1O7nhtgyXpiqZ9hZk3VfgtPXpybPSwJuH42Kuc-4c


کراچی پورٹ
27BantLwbfWa5WyYnCeAxlkvZGMIeJ3CcRcQGyBVq6Q


کراچی پورٹ
rCMrGsxzinEhG3BdVMNv1KMjoK-Ftef7Ng3gR4nywms
 
جی! شاید آئندہ چند دھائیوں تک ہمیں مزید انتظار درکار ہو گا۔وہ بھی ’اس صورت میں کہ جب ہم نے اپنی حقیقی آزادی کے حصول کی جدوجہد کی۔ آپ کنٹینرز کی بابت فکر مند ہیں یہاں تو چینی کی قیمت بڑھا دی جاتی ہے اور عدالت کے حکم کے باوجود اس میں کمی نہیں کی جاتی۔۔۔ حیرت انگیز طور پر میڈ یا سمیت کہیں سے کوئی آواز بلند نہیں ہوتی۔
دھائیوں وھائیوں کی بات چھوڑیں آپ کو کیا لگتا ہے ایم کیو ایم یوں ہی خواہ مخواہ اس طرح دماغ پھیلا کر بیٹھی ہے، اور ہر دوسری بات پہ جو ان کی طرف سے دھمکی آ جاتی ہے، یوں ہی!!
اس طرح دھڑلے سے کوئی اور پارٹی دھمکیاں دے، جھوٹ بولے، دہشتگردی کرے، خرمستیاں کرے، کھلم کھلا بدمعاشی اور قتل و غارت کرے، پھر دیکھیں کیا ہوتا ہے اس کا۔

میں آپ کو ایک بات بتاؤں جو مجھے کے ایم سی کے ایک عہدے دار جو کہ میرے سسرالی عزیز بھی ہیں نے بتائی، ہماری بحث ہو رہی تھی شہر کی ترقی میں ایم کیو ایم کا کردار پہ تو انہوں نے سیدھا سا جواب دیا ایم کیو ایم والے کہتے ہیں ابھی پاکستانی خزانے سے جتنا کام کروا سکتے ہیں کروا لیں بعد میں تو اپنا خرچ ہو گا۔

ہر شہر میں لوگ بستے ہیں ہمارے باقی علاقوں میں افغانوں کی پوری پوری بستیاں آباد ہیں جن کی وجہ سے مقامی لوگوں کے روز گار پہ انتہائی منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں، صرف کراچی ہی میں ایسا کیوں کہ کبھی سندھی برے لگ رہے ہوتے ہیں، کبھی پنجابی اور کبھی پٹھان، وجہ صرف اور صرف ایک ہے وہ نہیں چاہتے یہاں ایسے لوگ رہیں جو بغاوت یا علیحدگی کے وقت مزاحمت کریں اور ان کے اور فوج کے بیچ میں ان سے لڑنے والی کوئی تیسری قوت بھی ہو۔ اسی لیے سب سے زیادہ جس قوم سے مزاحمت کی توقع ہے اسی کے خلاف سب سے زیادہ بے چینی پائی جاتی ہے ایم کیو ایم کیں یعنی پٹھان برادری۔
انہوں نے ان کو نہتا اور محدود کرنے کے لیے بہت طالبان طالبان کا شور مچایا لیکن کسی نے کان نہیں دھرے پھر اب انہوں نے کراچی میں طالبان منگوا بھی لیے تا کہ پٹھانوں پہ اور دوسری آبادی پہ فرق پڑے لیکن اب دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہو رہا ہے سب پہ کھل رہا ہے کہ لشکرِ جھنگوی، ٹی ٹی پی اور ایم کیو ایم میں کافی گہرے روابط ہیں۔ اور لشکرِ جھنگوی میں کئی ایم کیو ایم کے ہی دہشتگرد کام موجود ہیں۔
صنعتکار تقریباََ بھگا دیے ہیں انہوں نے ساری انڈسٹری آپ کی بنگلہ دیش شفٹ ہو رہی ہے کراچی کی صرف اور صرف بھتہ خوری اور جان کے خوف کی وجہ سے۔
اللہ ہمارے ملک کو اور ہم کو سب ہر قسم کے اپنے اور غیروں کے شر سے محفوظ فرمائے۔ آمین۔

آپ لوگ بھی شعور رکھتے ہیں کبھی کسی نے یہ نہیں سوچا کہ ذولفقار مرزا ایک پائے کا سیاستدان جس نے اس الیکشن میں بھی جیتنا تھا، جذبات میں بہہ کر متحدہ کے خلاف کچھ حقائق اگل کر ایک کامیاب زندگی سے اچانک گمنامی میں کیسے چلا گیا، سارے منظر نامے سے غائب کیوں ہو گیا۔
 
Top