اقبال ڈے کے موقع پر

ناعمہ عزیز

لائبریرین
السلام علیکم سب کو ۔
اقبال ڈے کے موقع پر ہمارے کالج میں ایک تقریب کا اہتمام ہو رہا ہے ۔ اور اس کی تمام ذمہ داری میرے سر ہے ۔ کمپئرنگ مجھے کرنی ہے اس کے لئے لڑکیوں کو تقریروں کے لئے مواد بھی مجھے ہی مہیا کرنا ہے ۔ آپ سب سے گزارش ہے کہ کم سے کم کمپئرنگ کے لئے ہی میری مدد کر دیں ۔ اور اس کے لئے آپ یہاں علامہ اقبال کے اشعار ضرور پوسٹ کریں ۔
والسلام
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
کتابیں نہیں دیکھ سکتی ابھی لالہ ۔ بہت شارٹ نوٹس پر سارے کام کرنے ہیں ۔ ورنہ میں خود سارا میٹریل اکٹھا کر لوں ۔
 

قرۃالعین اعوان

لائبریرین
کبھی دریا سے مشلِ موج ابر کر​
کبھی دریا کے سینے میں اتر کر​
کبھی دریا کے ساحل سے اتر کر​
مقام اپنی خودی کا فاش تر کر​
 
خودي کے ساز ميں ہے عمر جاوداں کا سراغ
خودي کے سوز سے روشن ہيں امتوں کے چراغ
يہ ايک بات کہ آدم ہے صاحب مقصود
ہزار گونہ فروغ و ہزار گونہ فراغ!
ہوئي نہ زاغ ميں پيدا بلند پروازي
خراب کر گئي شاہيں بچے کو صحبت زاغ
حيا نہيں ہے زمانے کي آنکھ ميں باقي
خدا کرے کہ جواني تري رہے بے داغ
ٹھہر سکا نہ کسي خانقاہ ميں اقبال
کہ ہے ظريف و خوش انديشہ و شگفتہ دماغ
 
ديار عشق ميں اپنا مقام پيدا کر
نيا زمانہ ، نئے صبح و شام پيدا کر
خدا اگر دل فطرت شناس دے تجھ کو
سکوت لالہ و گل سے کلام پيدا کر
اٹھا نہ شيشہ گران فرنگ کے احساں
سفال ہند سے مينا و جام پيدا کر
ميں شاخ تاک ہوں ، ميري غزل ہے ميرا ثمر
مرے ثمر سے مےء لالہ فام پيدا کر
مرا طريق اميري نہيں ، فقيري ہے
خودي نہ بيچ ، غريبي ميں نام پيدا کر
 

قرۃالعین اعوان

لائبریرین
تو رہ نوردِ شوق ہے منزل نہ کر قبول​
لیلی بھی ہمنشیں ہو تو محمل نہ کر قبول​
اے جوئے آب بڑھ کے ہو دریائے تندوتیز​
ساحل تجھے عطا ہو تو ساحل نہ کر قبول​
 

ترے صوفے ہيں افرنگي ، ترے قاليں ہيں ايراني
لہو مجھ کو رلاتي ہے جوانوں کي تن آساني
امارت کيا ، شکوہ خسروي بھي ہو تو کيا حاصل
نہ زور حيدري تجھ ميں ، نہ استغنائے سلماني
نہ ڈھونڈ اس چيز کو تہذيب حاضر کي تجلي ميں
کہ پايا ميں نے استغنا ميں معراج مسلماني
عقابي روح جب بيدار ہوتي ہے جوانوں ميں
نظر آتي ہے اس کو اپني منزل آسمانوں ميں
نہ ہو نوميد ، نوميدي زوال علم و عرفاں ہے
اميد مرد مومن ہے خدا کے راز دانوں ميں
نہيں تيرا نشيمن قصر سلطاني کے گنبد پر
تو شاہيں ہے ، بسيرا کر پہاڑوں کي چٹانوں ميں
 

قرۃالعین اعوان

لائبریرین
کبھی اے نوجواں مسلم تدبر بھی کیا تو نے​
وہ کیا گردوں تھا تو جس کا ہے اک ٹوٹا ہوا تارا​
تجھے اس قوم نے پالا ہے آغوشِ محبت میں​
کچل ڈالا تھا جس نے پاؤں میں تاج سردارا​
تجھے آباء سے اپنی کوئی نسبت ہو نہیں سکتی​
کہ تو گفتار وہ کردار تو ثابت وہ سیارا​
 
بچہء شاہيں سے کہتا تھا عقاب سالخورد
اے تيرے شہپر پہ آساں رفعت چرخ بريں
ہے شباب اپنے لہو کي آگ ميں جلنے کا نام
سخت کوشي سے ہے تلخ زندگاني انگبيں
جو کبوتر پر جھپٹنے ميں مزا ہے اے پسر!
وہ مزا شايد کبوتر کے لہو ميں بھي نہيں
 
Top