اقتباسات از جون ایلیا

جون نے معاشرے کے دہرے رویے ۔۔ منافقانہ طرز عمل کو واضح کیا ہے ۔۔۔ کھرا سچ سب کو برا لگتا ہے:)
سارہ بہن۔ کیا اللہ کی عطا کردہ نعمتوں کے کفران اور اس کی عطا کردہ زندگی سے بیزاری کے اظہار ہی سے معاشرے کا منافقانہ طرز عمل واضع کیا جاتا ہے؟ اگر یہ کھرا سچ ہے تو ایسے نام نہاد "کھرے سچ" تو وجودِ الہی کے منکرین کئی مختلف اشکال میں بولتے ہیں۔ انہیں کے بارے میں قرآن حکیم بار بار یہ فرماتا ہے
فَبِأَيِّ آَلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
جون ایلیا کی باتیں دل کو لگتی ہیں ۔۔۔
جون ایلیا کی مشہور زمانہ طویل نظم "زرد درخت" جو کہ ان کی اپنے بیٹے "زریون ایلیا" کو وصیت ہے۔ اس میں سے یہ چند مصرعے
میں ساری زندگی کے دکھ بھگت کر کہتا ہوں
بہت دکھ دے گی تم میں فکر اور فن کی نمود مجھ کو
ہے تم کو عام شہری دیکھنے کی آرزو مجھ کو
تمہارے واسطے بے حد سہولت چاہتا ہوں میں
دوام جہل و حال استراحت چاہتا ہوں میں​
 

arifkarim

معطل
سارہ بہن۔ کیا اللہ کی عطا کردہ نعمتوں کے کفران اور اس کی عطا کردہ زندگی سے بیزاری کے اظہار ہی سے معاشرے کا منافقانہ طرز عمل واضع کیا جاتا ہے؟ اگر یہ کھرا سچ ہے تو ایسے نام نہاد "کھرے سچ" تو وجودِ الہی کے منکرین کئی مختلف اشکال میں بولتے ہیں۔ انہیں کے بارے میں قرآن حکیم بار بار یہ فرماتا ہے
فَبِأَيِّ آَلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ
آپ ہر دھاگے میں اپنا تبلیغی اسٹال کھول کر بیٹھ جاتے ہیں :)
 

سارہ خان

محفلین
جون ایلیا کی مشہور زمانہ طویل نظم "زرد درخت" جو کہ ان کی اپنے بیٹے "زریون ایلیا" کو وصیت ہے۔ اس میں سے یہ چند مصرعے
میں ساری زندگی کے دکھ بھگت کر کہتا ہوں
بہت دکھ دے گی تم میں فکر اور فن کی نمود مجھ کو
ہے تم کو عام شہری دیکھنے کی آرزو مجھ کو
تمہارے واسطے بے حد سہولت چاہتا ہوں میں
دوام جہل و حال استراحت چاہتا ہوں میں​
حساس تھا بہت جون ۔۔اس لیئے دکھ زیادہ بھگتے ۔۔
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
آج کل ایک خاص بات جو بری طرح کھٹکتی ہے وہ یہ ہے کہ بدی پہلے سے زیادہ منہ پھٹ ہو گئی ہے اور نیکی نے ہکلانا شروع کر دیا ہے۔ اگر جبر کی حالت میں نہ بولنے والے کو بھی اپنے اس گمان کا ثواب پہنچتا ہے کہ جبر نہ ہوتا تو میں ضرور بولتا تو پھر جو لوگ اختیار پا کر بولنے کے بجائے گالیاں بکنا شروع کر دیتے ہیں، ان کی کچھ سزا بھی ہونا چاہیے۔
اقتباس از "اس دوران میں"
جون ایلیا
عالمی ڈائجسٹ 1969
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
جی بہلانے کے لیے زمین پر جو کھیل کھیلے جا رہے ہیں وہ بڑے ہی بھونڈے ہیں اور نگاہوں کو جو کرتب دکھائے جا رہے ہیں وہ بڑے ہی بےڈھنگے، ساری باتیں ایسی ہیں کہ ہنستے ہنستے پھیپھڑے دکھا لیے جائیں، پر ہنسنے کی سکت کس میں ہے۔ ہر ٹولی کے بیچ زندگی پر اور زندگی کی امنگوں پر پھبتیاں کسی جا رہی ہیں۔ جس جتھے کو دیکھو اسے خوش نمائی سے بیر ہے۔ سب کچھ سیکھ لیا گیا مگر زندگی گزارنا نہ سیکھا گیا۔ کوئی پوچھنے والا بستیوں بستیوں پھرے اور پوچھے کہ لوگو بھلا تم کس ہوس میں ہو؟ کیا وہ زندگی کی ہوس ہے؟ اگر وہ زندگی کی ہوس ہے تو اس سے پناہ مانگنا چاہیے کہ اس نے زندگی کو بری طرح نڈھال اور بےحال کر ڈالا ہے۔ زندگی کی ورزش گاہوں میں زندگی کی توانائی کو تباہ کیا جا رہا ہے۔ جو رشتے زندگی کے رگ پٹھوں کو مضبوط کرتے ہیں، انہیں کمزور کر ڈالا گیا ہے۔

اقتباس از سراپ
عالمی ڈائجسٹ، اگست 1974
 

سارہ خان

محفلین
یہ ایک قابلِ شرم اور الم ناک حقیقت ہے کہ آج کا انسان بھی اپنے تمام تر علم اور تہذیب کے باوصف طرح طرح کی نفرتوں، غلیظ نفرتوں میں مبتلا ہے۔ لسانی نفرت، نسلی نفرت، مذہبی نفرت، وطنی نفرت اور تہذیبی نفرت۔ ایک زمانے میں یا یوں سمجھ لو کہ دوسری جنگِ عظیم کے خاتمے کے چند سال بعد تک نفرتوں کی اتنی قسمیں نہیں پائی جاتی تھیں، جتنی قسمیں آج یعنی علم اور تہذیب کے سب سے زیادہ ارجمند دور میں پائی جاتی ہیں۔ یہ کس قدر حیران کن اور ملال انگیز حقیقت ہے کہ انسان اپنے انتہائی شاندار اوج اور عروج کے عہد میں شاید پہلے سے کہیں زیادہ کٹھل، کٹھور اور سینہ زور ہو گیا ہے۔
جون ایلیا
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
ہر نسل اپنے زمانے میں پیدا ہوتی ہے اور اپنے ہی زمانے میں سانس لے سکتی ہے۔ ہر دور کا اپنا ایک رمز ہوتا ہے۔ جس دور میں ہم زندگی گزار رہے ہیں، اس کا اپنا ایک رمز ہے، جو اس رمز سے انکاری ہیں وہ خود بھی ہلاکت میں پڑیں گے اور اپنے ساتھ دوسروں کو بھی ہلاکت میں ڈالیں گے۔ تاریخ کے نظامِ قضا و قدر کو جھٹلانا امتوں اور ملتوں کو کو کبھی راس نہیں آیا۔ یہ وہ مسخرگی ہے جو تاریخ کی کبریائی نے کبھی برداشت نہیں کی۔
اختلاف کرنے والوں کو اس امر پر تو اتفاق کرنا ہی پڑے گا کہ ہم اپنے آبا و اجداد کے زمانے میں نہیں، اپنے زمانے میں پیدا ہوئے ہیں اور اگر ہم اپنے زمانے میں پیدا نہیں ہوئے تو پھر مژدہ ہو کہ ہم پیدا ہی نہیں ہوئے۔ پچھلی نسلیں اپنا اپنا بوجھ اٹھا کر اپنے دن گزار گئیں۔ ہمیں اپنا بوجھ اٹھانا ہے اور ان کے تجربوں سے سبق حاصل کرنا ہے۔

اقتباس از "اس دوران میں"
(عالمی ڈائجسٹ، دسمبر ۱۹۶۹)
 
سارہ بہن جی۔ کیسی فہم اور کون سی فہم؟ جون ایلیا صاحب کا قلم الحاد اور کائناتِ و زندگی سے بیزار منکرِ نظام قدرت ہی کا شاہکار رہا۔ ان کی نسبت ان کے برادر جناب رئیس امروہوی مرحوم، ان سے ہر لحاظ سے بہتر اور معتبر سخنور تھے

سو فی صد غیر متفق
 
سارہ بہن۔ کیا اللہ کی عطا کردہ نعمتوں کے کفران اور اس کی عطا کردہ زندگی سے بیزاری کے اظہار ہی سے معاشرے کا منافقانہ طرز عمل واضع کیا جاتا ہے؟ اگر یہ کھرا سچ ہے تو ایسے نام نہاد "کھرے سچ" تو وجودِ الہی کے منکرین کئی مختلف اشکال میں بولتے ہیں۔ انہیں کے بارے میں قرآن حکیم بار بار یہ فرماتا ہے
فَبِأَيِّ آَلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ
ہر بات میں مزہب کو گھسیڑنا مناسب ہے کیا؟
 
Top