نیلم
محفلین
پڑگئےبیمار بائےمشتاق احمد
آئیے ، ایک اور مہربان سے آپ کو ملواؤں ۔ ان کی تکنیک قدرے مختلف ہے ۔ میری صورت دیکھتے ہی ایسے ہراساں ہوتے ہیں کہ کلیجہ مُنہ کو آتا ہے ۔ ان کا معمول ہے کہ کمرے میں بغیر کھٹکھٹائے داخل ہوتے ہیں اور میرے سلام کا جواب دئیے بغیر تیمار داروں کے پاس پنجوں کے بل جاتے ہیں ۔ پھر کُھسر پُھسر ہوتی ہے ۔ البتہ کبھی کبھی کوئی اچٹتا ہوا فقرہ مجھے بھی سنائی دے جاتا ہے ۔ مثلاً :
" صدقہ دیجئے۔ جمعرات کی رات بھاری ہوتی ہے ۔ "
" پانی حلق سے اتر جاتا ہے؟"
" آدمی پہچان لیتے ہیں؟"
یقین جانئے یہ سُن کر پانی سر سے گزر جاتا ہے اور میں تو رہا ایک طرف ، خود تیمار دار میری صورت نہیں پہچان سکتے ۔
سرگوشیوں کے دوران ایک دو دفعہ میں نے خود دخل دے کر بقائمیِ ہوش و حواس عرض کرنا چاہا کہ میں بفضلِ تعالٰی چاق و چوبند ہوں ۔ صرف پہچیدہ دواؤں میں مبتلا ہوں ۔ مگر وہ اس مسئلہ کو قابلِِ دست اندازی مریض نہیں سمجھتے اور اپنی شہادت کی انگلی ہونٹوں پر رکھ کر مجھے خاموش رہنے کا اشارہ کرتے ہیں ۔ میرے اعلانِ صحت اور ان کی پُر زور تردید سے تیمار داروں کو میری دماغی صحت پر شُبہ ہونے لگتا ہے ۔ یوں بھی اگر بخار سو ڈگری سے اوپر ہو جائے تو میں ہزیان بکنے لگتا ہوں جسے بیگم ، اِقبال گناہ اور رشتے دار وصیّت سمجھ کر ڈانٹتے ہیں اور بچّے ڈانٹ سمجھ کر سہم جاتے ہیں ۔ میں ابھی تک فیصلہ نہیں کر سکا کہ یہ حضرت مزاج پُرسی کرنے آتے ہیں یا پُُرسا دینے ۔ ان کے جانے کے بعد میں واقعی محسوس کرتا ہوں کہ بس اب چل چلاؤ لگ رہا ہے ۔ سانس لیتے ہوئے دھڑکا لگا رہتا ہے کہ روایتی ہچکی نہ آ جائے ۔ ذرا گرمی لگتی ہے تو خیال ہوتا ہے کہ شائد آخری پسینہ ہے اور طبعیت تھوڑی بحال ہوتی ہے تو ہڑ بڑا کر اُٹھ بیٹھتا ہوں کہ کہیں سنبھالا نہ ہو ۔
مشتاق احمد یوسفی
آئیے ، ایک اور مہربان سے آپ کو ملواؤں ۔ ان کی تکنیک قدرے مختلف ہے ۔ میری صورت دیکھتے ہی ایسے ہراساں ہوتے ہیں کہ کلیجہ مُنہ کو آتا ہے ۔ ان کا معمول ہے کہ کمرے میں بغیر کھٹکھٹائے داخل ہوتے ہیں اور میرے سلام کا جواب دئیے بغیر تیمار داروں کے پاس پنجوں کے بل جاتے ہیں ۔ پھر کُھسر پُھسر ہوتی ہے ۔ البتہ کبھی کبھی کوئی اچٹتا ہوا فقرہ مجھے بھی سنائی دے جاتا ہے ۔ مثلاً :
" صدقہ دیجئے۔ جمعرات کی رات بھاری ہوتی ہے ۔ "
" پانی حلق سے اتر جاتا ہے؟"
" آدمی پہچان لیتے ہیں؟"
یقین جانئے یہ سُن کر پانی سر سے گزر جاتا ہے اور میں تو رہا ایک طرف ، خود تیمار دار میری صورت نہیں پہچان سکتے ۔
سرگوشیوں کے دوران ایک دو دفعہ میں نے خود دخل دے کر بقائمیِ ہوش و حواس عرض کرنا چاہا کہ میں بفضلِ تعالٰی چاق و چوبند ہوں ۔ صرف پہچیدہ دواؤں میں مبتلا ہوں ۔ مگر وہ اس مسئلہ کو قابلِِ دست اندازی مریض نہیں سمجھتے اور اپنی شہادت کی انگلی ہونٹوں پر رکھ کر مجھے خاموش رہنے کا اشارہ کرتے ہیں ۔ میرے اعلانِ صحت اور ان کی پُر زور تردید سے تیمار داروں کو میری دماغی صحت پر شُبہ ہونے لگتا ہے ۔ یوں بھی اگر بخار سو ڈگری سے اوپر ہو جائے تو میں ہزیان بکنے لگتا ہوں جسے بیگم ، اِقبال گناہ اور رشتے دار وصیّت سمجھ کر ڈانٹتے ہیں اور بچّے ڈانٹ سمجھ کر سہم جاتے ہیں ۔ میں ابھی تک فیصلہ نہیں کر سکا کہ یہ حضرت مزاج پُرسی کرنے آتے ہیں یا پُُرسا دینے ۔ ان کے جانے کے بعد میں واقعی محسوس کرتا ہوں کہ بس اب چل چلاؤ لگ رہا ہے ۔ سانس لیتے ہوئے دھڑکا لگا رہتا ہے کہ روایتی ہچکی نہ آ جائے ۔ ذرا گرمی لگتی ہے تو خیال ہوتا ہے کہ شائد آخری پسینہ ہے اور طبعیت تھوڑی بحال ہوتی ہے تو ہڑ بڑا کر اُٹھ بیٹھتا ہوں کہ کہیں سنبھالا نہ ہو ۔
مشتاق احمد یوسفی