یوسفی اقتباسات یوسفی

نیلم

محفلین
پڑگئےبیمار بائےمشتاق احمد
آئیے ، ایک اور مہربان سے آپ کو ملواؤں ۔ ان کی تکنیک قدرے مختلف ہے ۔ میری صورت دیکھتے ہی ایسے ہراساں ہوتے ہیں کہ کلیجہ مُنہ کو آتا ہے ۔ ان کا معمول ہے کہ کمرے میں بغیر کھٹکھٹائے داخل ہوتے ہیں اور میرے سلام کا جواب دئیے بغیر تیمار داروں کے پاس پنجوں کے بل جاتے ہیں ۔ پھر کُھسر پُھسر ہوتی ہے ۔ البتہ کبھی کبھی کوئی اچٹتا ہوا فقرہ مجھے بھی سنائی دے جاتا ہے ۔ مثلاً :

" صدقہ دیجئے۔ جمعرات کی رات بھاری ہوتی ہے ۔ "
" پانی حلق سے اتر جاتا ہے؟"
" آدمی پہچان لیتے ہیں؟"

یقین جانئے یہ سُن کر پانی سر سے گزر جاتا ہے اور میں تو رہا ایک طرف ، خود تیمار دار میری صورت نہیں پہچان سکتے ۔
سرگوشیوں کے دوران ایک دو دفعہ میں نے خود دخل دے کر بقائمیِ ہوش و حواس عرض کرنا چاہا کہ میں بفضلِ تعالٰی چاق و چوبند ہوں ۔ صرف پہچیدہ دواؤں میں مبتلا ہوں ۔ مگر وہ اس مسئلہ کو قابلِِ دست اندازی مریض نہیں سمجھتے اور اپنی شہادت کی انگلی ہونٹوں پر رکھ کر مجھے خاموش رہنے کا اشارہ کرتے ہیں ۔ میرے اعلانِ صحت اور ان کی پُر زور تردید سے تیمار داروں کو میری دماغی صحت پر شُبہ ہونے لگتا ہے ۔ یوں بھی اگر بخار سو ڈگری سے اوپر ہو جائے تو میں ہزیان بکنے لگتا ہوں جسے بیگم ، اِقبال گناہ اور رشتے دار وصیّت سمجھ کر ڈانٹتے ہیں اور بچّے ڈانٹ سمجھ کر سہم جاتے ہیں ۔ میں ابھی تک فیصلہ نہیں کر سکا کہ یہ حضرت مزاج پُرسی کرنے آتے ہیں یا پُُرسا دینے ۔ ان کے جانے کے بعد میں واقعی محسوس کرتا ہوں کہ بس اب چل چلاؤ لگ رہا ہے ۔ سانس لیتے ہوئے دھڑکا لگا رہتا ہے کہ روایتی ہچکی نہ آ جائے ۔ ذرا گرمی لگتی ہے تو خیال ہوتا ہے کہ شائد آخری پسینہ ہے اور طبعیت تھوڑی بحال ہوتی ہے تو ہڑ بڑا کر اُٹھ بیٹھتا ہوں کہ کہیں سنبھالا نہ ہو ۔

مشتاق احمد یوسفی
 

نیلم

محفلین
بشارت کا تقرر تو بطور اردو ٹیچر ہوا تھا، لیکن انہیں ٹیچروں کی کمی کے سبب تقریباً سبھی مضامین پڑھانے پڑتے تھے، سوائے دینیات کے۔جامع مسجد دھیرج گنج کے پیش امام نے یہ فتوٰی دیا تھا کہ جس شخص کے گھر میں کتا ہو، وہ اگر دینیات پڑھائے تو پڑھنے والوں پر غسل واجب ہو جاتا ہے۔بشارت کی ریاضی، جو میٹری اور انگریزی بہت کمزور تھی، لیکن وہ اس ہینڈی کیپ سے ذرا جو پریشان ہوتے ہوں۔پڑھانے کا گر انہوں نے اپنے استاد ماسٹر فاخر حسین سے سیکھا تھا۔ماسٹر فاخر حسین کااپنا مضمون (بزعمِ خود) تاریخ تھا۔لیکن انہیں اکثر ماسٹر مینڈی لال، انگلش ٹیچر کی کلاس بھی لینی پڑھتی تھی۔ماسٹر مینڈی لال کا گردہ اور گریمر دونوں جواب دے چکے تھے۔اکثر دیکھا کہ جس دن نویں دسویں کلاس کی گریمر کی کلاس ہوتی، وہ گھر بیٹھ جاتا۔
اس کے گردے میں گریمر کا درد اٹھتاتھا۔سب ٹیچر اپنے مضمون کے علاوہ کوئی اور مضمون پڑھانے سے کچیاتے تھے۔ماسٹر فاخر حسین واحد استاد تھے جو ہر مضمون پڑھانے کے لیےہر وقت تیار رہتے تھے۔ حالانکہ انھوں نے بی-اے ‘‘وایا بٹھنڈہ“ کیا تھا۔ مطلب یہ کہ پہلے منشی فاضل کیا۔انگلش گریمر انھیں بالکل نہیں آتی تھی۔ وہ چاہتے تو انگریزی کا سارا گھنٹہ ہنس بول کر یا پند و نصائح میں گزار سکتے تھے۔لیکن ان کا ضمیر اس دفع الوقتی کی اجازت نہیں دیتا تھا۔دوسرے استادوں کی طرح لڑکوں کو مصروف رکھنے کی غرض سے وہ املا بھی لکھوا سکتے تھے۔مگر اس حیلے کو وہ اپنے تبحّرِ علمی اور منصبِ عالمانہ کے خلاف سمجھتے تھے۔چنانچہ جس بھاری پتھر کو سب چوم کر چھوڑ دیتے، اسے یہ گلے میں ڈال کر بحرِ علوم میں کود پڑتے۔ پہلے گریمر کی اہمیت پر لیکچر دیتے ہوئے یہ بنیادی نکتہ بیان کرتے کہ ہماری گائیکی کی بنیاد طبلے پر ہے۔ گفتگو کی بنیاد گالی پر۔اسی طرح انگریزی کی اساس گریمر ہے۔اگر کمال حاصل کرنا ہے تو پہلے بنیاد مضبوط کرو۔ماسٹر فاخر حسین کی اپنی انگریزی کی عمارت فن تعمیر کا نادر نمو نہ اور یکے از ہفت عجائباتِ عالم تھی۔مطلب یہ کہ بغیر نیو کے تھی۔ بیشتر جگہ تو چھت بھی نہیں تھی اور جہاں تھی، اسے چمگادڑ کی طرح اپنے پیروں کی اڑواڑ سے تھام رکھا تھا۔اس زمانے میں انگریزی بھی اردو میں پڑھائی جاتی تھی۔ لہٰذا کچھ گرتی ہوئی دیواروں کو اردو اشعار کے بر محل پشتے تھامے ہوئے تھے۔ بہت ہی منجھے اور گھسے ہوئے ماسٹر تھے۔ سخت سے سخت مقام سے آسان گزر جاتے۔ مثلا” “پارسنگ“ کروا رہے ہیں۔ اپنی دانست میں نہایت آسان سوال سےابتدا کرتے-بورڈ پر “ٹو گو“ لکھتے اور پوچھتے، اچھا بتاؤ یہ کیا ہے؟ ایک لڑکا ہاتھ اٹھا کر جواب دیتا, “سمپل انفیٹیو“ ، اثبات میں گردن ہلاتے ہوئے فرماتے، بالکل ٹھیک، لیکن دیکھتے کہ دوسرا اٹھا ہوا ہاتھ ابھی نہیں گرا۔اس سے پوچھتے، آپ کو کیا تکلیف ہے؟ وہ کہتا، نہیں سر! “ناؤن انفیٹیو“ فرماتے، اچھا آپ اس لحاظ سے کہہ رہے ہیں۔ اب کیا دیکھتے ہیں کہ کلاس کا سب سے ذہین لڑکا ابھی تاک ہاتھ اٹھائے ہوئے ہے۔ اس سے کہتے، آپکا سگنل ابھی تک ڈاؤن نہیں ہوا، کہیے، کہیے! وہ کہتا ہے ''جیرینڈئیل انفینیٹو“ ہے جو ''ریفلیکسیو ورب“ سے مختلف ہوتا ہے۔ ''نیسفیلڈ“ گریمرمیں لکھا ہے۔ اس مرحلے پر ماسٹر فاخر حسین پر واضح ہو جاتا کہ۔۔۔۔۔گہرے سمندروں میں سفر کر رہے ہیں ہم۔۔۔۔۔۔لیکن بہت سہج اور نکتہ فہم انداز میں فرماتے، اچھا! تو گویاآپ اس لحاظ سے کہہ رہے ہیں! اتنے میں نظر اس لڑکے کے اٹھے ہوئے ہاتھ پر پڑی جو ایک کانوینٹ سے آیا تھا اور فر فر انگریزی بولتا تھا۔ اس سے پوچھا “ویل!ویل!ویل!“ اس نے جواب دیا۔ “سر! آئی ایم افریڈ، دِ س از این انٹرانسیٹیو ورب“ فرمایا، اچھا! تو گویا آپ اس لحاظ سے کہہ رہے ہیں! پھر آئی ایم افریڈ کے محاورے سے نا واقفیت کے سبب بڑے مشفقانہ انداز میں پوچھا
عزیزِ من! اس میں ڈرنے کی کیا بات ہے؟
موصوف اکثر فرماتے کہ انسان کو علمی تحقیق و تفحّص کا دروازہ ہمیشہ کھلا رکھنا چاہیے۔ خود انھوں نے ساری عمر بارہ دری میں گزاری۔اب ایسے استاد کہاں سے لائیں جن کی لا علمی پر بھی پیار آتا تھا۔
ماسٹر فاخر حسین سادہ دلانِ سلف اور اساتذہ پیشین کا حاضر جوابی کا آخری نمونہ تھے۔ ہر چند کہ ان کا علم مستحضر نہیں تھا، لیکن کبھی ایسا نہیں ہوا کہ طبیعت حاضر نہ ہو۔
بشارت اکثر کہتے ہیں ‘‘ ماسٹر فاخر حسین کا مبلغ علم مجھ جیسے نالائق شاگردوں تک سے پوشیدہ نہ تھا۔ میں زندگی میں بڑے بڑے پروفیسروں اور جید عالموں سے ملا ہوں۔ لیکن مجھے آج بھی چوائس دی جائے تو میں ماسٹر فاخر حسین سے ہی پڑھنا پسند کروں گا۔ صاحب!وہ آدمی تھا۔کتاب نہیں زندگی پڑھاتا تھا۔‘‘

مشتاق احمد یوسفی
 

زبیر مرزا

محفلین
مشتاق احمد یوسفی جس کاکمال ہے کہ وہ قدر خوبصورت اورپُرمزاح جملہ لکھتے وہ دیر تک آپ کو مسروررکھتا ہے
مزاح کو ایک معیار عطا کیا ہے یوسفی صاحب نے
 

ابن عادل

محفلین
آپ گم میں '' مشاعرہ کیسے لوٹا گیا '' کمال کی تحریر ہے ہم افسردگی میں اس کا تذکرہ کرکے مسرت کا سامان کرتے ہیں ۔
نیلم باجی ! موقع ملے تو ذرا ادھر بھی نظر کیجیے گا۔
 

نبیل

تکنیکی معاون
مشاعرہ کیسے لُوٹا گیا
لوگ بڑی دیر سے اُ کتائے بیٹھے تھے۔ ساغر جالونوی کے دھماکا خیز اعتراض سے اونگھتے مشاعرے میں جان ہی نہیں، ہیجان آگیا۔ اس وقت کسے ہوش تھا کہ اعتراض کی صحت پر غور کرتا۔ ہمارے ہاں ناچ گانا، حکمرانی اور مشاعرہ اکل کھرے فن ہیں۔ انکا سارا مزہ اور بنیاد ہی solo performance پر ہے۔ اسی لیے سیاست میں نعرے اور جلوس اور مشاعرے میں داد اور ہوٹنگ ہماری ضرورت، روایت اور سیفٹی والوو بن گئے۔ ہمارے ہاں شرکتِ سامعین ( audience participation) کی لے دے کے یہی ایک قابلِ قبول صورت ہے جس پر قدغن نہیں۔
دو ہنڈوں کا تیل پندرہ منٹ پہلے ختم ہوچکا تھا۔ کچھ ہنڈوں میں وقت پر ہوا نہیں بھری گئی۔ وہ پھُس کر کے بُجھ گئے۔ ساغر جالونوی کے اعتراض کے بعد کسی شرارتی نے باقی ماندہ ہنڈوں کو جھڑجھڑایا۔ ان کے مینٹل جھڑتے ہی اندھیرا ہوگیا۔ اب مار پیٹ شروع ہوئی۔ لیکن ایسا گھپ اندھیرا کہ ہاتھ کو شاعر سجھائی نہیں دے رہا تھا۔ چنانچہ بے قصور سامعین پٹ رہے تھے۔ کچھ لوگ نام بلکہ تخلص لے لے کر گالیاں دے رہے تھے۔ اتنے میں کسی نے صدا لگائی، بھائیو! ہٹو! بھاگو! بچو! رنڈیوں والے حکیم صاحب کی بھینس رسّی تڑا گئی ہے! یہ سنتے ہی گھمسان کی بھگڈر پڑی۔ اندھیری رات میں کالی بھینس تو کسی کو دکھائی نہیں دی، لیکن لاٹھیوں سے مسلح مگر دہشت زدہ دیہاتی سامعین نے ایک دوسرے کو بھینس سمجھ کر خوب دُھنائی کی۔ لیکن یہ آج تک سمجھ میں نہ آیا کہ چرانے والوں نے ایسے گھپ اندھیرے میں تمام نئے جوتے تلاش کیسے کر لیے -- اور جوتوں پر ہی موقوف نہیں، ہر چیز جو چُرائی جاسکتی تھی چُرا لی گئی ----- پانوں کی چاندی کی تھالی، درجنوں انگوچھے، ساغر جالونوی کی دُگنے سائز کی اچکن جس کے نیچے کرتا یا بنیان نہیں تھا، ایک جازم، تمام چاندنیاں، یتیم خانے کے چندے کی چوبی صندوقچی معِ قفلِ فولادی، یتیم خانے کا سیاہ پرچم، صدرِ مشاعرہ کا مخملی گاؤ تکیہ اور آنکھوں پر لگی عینک، ایک پٹواری کے گلے میں لٹکی ہوئی چاندی کی خلال اور کان کا میل نکالنے کی منی ڈوئی، خواجہ قمرالدین کی جیب میں پڑے ہوئے آٹھ روپے، عطر میں بسا ریشمی رومال اور پڑوسی کی بیوی کے نام مہکتا خط* ------ حد یہ کہ کوئی گستاخ ان کی ٹانگوں سے پیوست چوڑی دار کا ریشمی ازار بند ایک ہی جھٹکے میں کھینچ کر لے گیا۔ ایک شخص بجھا ہوا ہنڈا سر پر اٹھا کے لے گیا۔ مانا کہ اندھیرے میں کسی نے سر پر لے جاتے ہوئے تو نہیں دیکھا، مگر ہنڈا لے جانے کا صرف یہی ایک طریقہ تھا۔ بیمار مرغیوں کے صرف چند پر پڑے رہ گئے۔ ساغر جالونوی کا بیان تھا کہ کسی نابکار نے اس کی مونچھ تک اکھاڑ کر لے جانے کی کوشش کی جسے اس نے اپنی بر وقت چیخ سے ناکام بنادیا۔ غرض کہ قطعہ نظر اس کے کہ کار آمد ہے یا نہیں، جس کا جس چیز پر ہاتھ پڑا، اسے اُٹھا کے، اُتار کے، نوچ کے، پھاڑ کے، اُکھاڑ کے لے گیا۔ حد یہ کہ تحصیل دار کے پیش کار منشی بنواری لال ماتھر کے زیرِ استعمال ڈینچرز بھی! فقط ایک چیز ایسی تھی کہ جس کو کسی نے ہاتھ نہیں لگایا۔ شاعر اپنی اپنی بیاضیں جس جگہ چھوڑ کر بھاگے تھے، وہ دوسرے دن تک وہیں پڑی رہیں۔

مزید اس ربط پر ملاحظہ فرمائیے۔۔
 

نیلم

محفلین
تب دیکھ بہاریں جاڑے کی

کراچی میں سردی اتنی ہی پڑتی ہے جتنی مری میں گرمی۔ اس سے ساکنان کوہ مری کی دل آذاری نہیں،بلکہ عروس البلاد کراچی کی دلداری مقصود ہے۔کبھی کبھارشہرخوباں کا درجہ حرارت جسم کے نارمل درجہ حرارت یعنی98.4 سے دو تین ڈگری نیچے پھسل جائے تو خوبان شہر لحاف اوڑھ کر ائرکنڈیشنر تیز کر دیتے ہیں۔حسن خودبین و خودآرا جب 43 نمبر کے مشمولات کا 34 نمبر کے سوئٹر میں خلاصہ کر کے آئینہ دیکھتا ہے تو حیا کی سرخی رخساروں پر دوڑ جاتی ہے جسے موسم سرما کے خون صالح پر محمول کیا جاتا ہے۔اس حسن تضاد کو کراچی کے محکمہ موسمیات کی اصطلاح میں "کولڈ ویو" (سردی کی لہر) کہتے ہیں۔یہ خوبی صرف کراچی کے متلون موسم میں دیکھی کہ گھر سے جو لباس بھی پہن کر نکلو،دو گھنٹے بعد غلط معلوم ہوتا ہے۔لوگ جب اخبار میں لاہور اور پنڈی کی سردی کی شدید خبریں پڑھتے ہیں تو ان سے بچاءو کے لیے بالو کی بھنی مونگ پھلی اور گزک کے پھنکے مارتے ہیں۔ان کے بچے بھی انھیں پر پڑے ہیں۔باد شمال اور گوشمالی سے بچنے کے لیے اونی کنٹوپ پہن کر آئسکریم کھاتے اور بڑوں کے سامنے بتیسی بجاتے ہیں۔کراچی میں پنڈی سے تین لحاف کم سردی پڑتی ہے۔نووارد حیران ہوتا ہے کہ اگر یہ جاڑا ہے تو اللہ جانے گرمی کیسی ہوتی ہوگی۔بیس سال سرد و گرم جھیلنے کے بعد ہمیں اب معلوم ہوا کہ کراچی کے جاڑے اور گرمی میں تو اتنا واضح فرق ہے کہ بچہ بہی بتا سکتا ہے۔90 ڈگری ٹمپریچر اگر مئی میں ہوتو یہ موسم گرما کی علامت ہے۔اگر دسمبر میں ہو تو ظاہر ہے کہ جاڑا پڑ رہا ہے۔البتہ جولائی میں 90 ڈگری ٹمپریچر ہو اور شام کو گرج چمک کے ساتھ بیوی برس پڑے تو برسات کا موسم کہلاتا ہے۔ تین چار سال بعد دو تین دن کے لیے سردی کا موسم آجائے تو اہل کراچی اس کا الزام "کوئٹہ ونڈ" پر دھرتے ہیں اور کوئٹہ کی سردی کی شدت کو کسی سیم تن ستر نما سوئٹر سے ناپتے ہیں۔
زرگزشت از مشتاق احمد یوسفی
 

نیلم

محفلین
آبِ گم - مشتاق احمد یوسفی

سچ تو یہ ہے کہ فارسی شعر کی مار آج کل کے قاری سے سہی نہیں جاتی۔ بالخصوص اس وقت جب وہ بےمحل بھی ہو۔
مولانا ابوالکلام آزاد تو نثر کا آرائشی فریم صرف اپنے پسندیدہ فارسی شعر ٹانگنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ ان کے اشعار بےمحل نہیں ہوتے ، ملحقہ نثر بےمحل ہوتی ہے۔ وہ اپنی نثر کا تمام تر ریشمی کوکون (کویا) اپنے گاڑھے گاڑھے لعابِ ذہن سے فارسی شعر کے گرد بنتے ہیں۔
لیکن یاد رہے کہ ریشم حاصل کرنے کا زمانۂ قدیم سے ایک ہی طریقہ چلا آتا ہے۔ کوئے کو ریشم کے زندہ کیڑے سمیت کھولتے پانی میں ڈال دیا جاتا ہے۔ جب تک وہ مر نہ جائے ، ریشم ہاتھ نہیں لگتا۔

مرزا کہتے ہیں کہ کلامِ غالب کی سب سے بڑی مشکل اس کی شرحیں ہیں۔ وہ نہ ہوں تو غالب کا سمجھنا چنداں مشکل نہیں۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ دنیا میں غالب واحد شاعر ہے جو سمجھ میں نہ آئے تو دگنا مزا دیتا ہے۔

ایک دفعہ میں نے منظور الٰہی صاحب سے عرض کیا :
آپ نے اپنی دونوں کتابوں میں فارسی کے نہایت خوبصورت اشعار نقل کیے ہیں۔ لیکن میری طرح قارئین کی نئی نسل بھی فارسی سے نابلد ہے۔ یونہی شد بد اور اٹکل سے سمجھنے کی کوشش کرتا ہوں تو مطلب فوت ہو جاتا ہے۔ اگر اگلے ایڈیشن میں بریکٹ میں ان کا مطلب اردو میں بیان کردیں تو سمجھنے میں آسانی ہوگی۔

سوچ میں پڑ گئے۔ پھر آنکھیں بند کر کے ، بند ہونٹوں سے اپنے دلآویز انداز میں مسکرائے۔ فرمایا :
مگر بھائی صاحب ، پھر مقصد فوت ہو جائے گا !
 

الف عین

لائبریرین
نیلم، زرگزشت اور خاکم بدہن سے کچھ ٹائپ کر سکو تو مزا آ جائے۔ میں یہاں موجود مواد کی برقی کتابیں بنانے والا ہوں۔ جو اس سے پہلے آب گم اور چراغ تلے پر کاپی رائٹ کے باعث کمپوز کیا ہوا مواد تقریبإ بیکار پڑا تھا لائبریری کے لئے۔ اسی ماہ دھیرج گنج کا مشاعرہ کو ایک الگ کتاب کی حیثیت سے شائع کر دوں گا۔ اسی طرح ارادہ ہے سکول ماسٹر کا خواب کو بھی الگ کتاب کی صورت میں ’شائع کر‘ دوں، اور چراغ تلے اور ’آبَ گم‘ کے مضامین کو دو تین برقی مجموعوں میں شامل کر دوں۔ اگر خاکم بدہن کے مضامین بھی مل جائیں تو ان کو بھی ان مجموعوں کی زینت بنا دیا جائے۔
 

نیلم

محفلین
نیلم، زرگزشت اور خاکم بدہن سے کچھ ٹائپ کر سکو تو مزا آ جائے۔ میں یہاں موجود مواد کی برقی کتابیں بنانے والا ہوں۔ جو اس سے پہلے آب گم اور چراغ تلے پر کاپی رائٹ کے باعث کمپوز کیا ہوا مواد تقریبإ بیکار پڑا تھا لائبریری کے لئے۔ اسی ماہ دھیرج گنج کا مشاعرہ کو ایک الگ کتاب کی حیثیت سے شائع کر دوں گا۔ اسی طرح ارادہ ہے سکول ماسٹر کا خواب کو بھی الگ کتاب کی صورت میں ’شائع کر‘ دوں، اور چراغ تلے اور ’آبَ گم‘ کے مضامین کو دو تین برقی مجموعوں میں شامل کر دوں۔ اگر خاکم بدہن کے مضامین بھی مل جائیں تو ان کو بھی ان مجموعوں کی زینت بنا دیا جائے۔
جی ضرور میں کوشش کرتی ہوں
 

نیلم

محفلین
لیکن اس سال سارے ریکارڈ ٹوٹ گئے - بارش اور ایسی بارش ! ایسی بارش ہم نے صرف مسوری میں اپنی شادی کے دن دیکھی تھی کہ پلاؤ کی دیگوں میں بیٹھ کر دلہن والے آ ، جا رہے تھے خود ہمیں ایک کفگیر پر بیٹھا کر قاضی کے سامنے پیش کیا گیا - پھر نہ ہم نے ایسی حرکت کی ، نہ بادل ایسا ٹوٹ کے برسا - عجب سماں تھا - جدھر دیکھو پانی ہی پانی - اس دن سوائے دلہن کی آنکھ کے ہمیں کوئی چیز خشک نظر نہیں آئی - ہم نے ٹہوکا دیا کہ رخصتی کے وقت دلہن کا رونا رسومات میں شامل ہے - انھوں نے بہت پلکیں ٹپٹپائیں ، مگر ایک آنسو نہ نکلا - پھر کار میں سوار کراتے وقت ہم نے سہرا اپنے چہرے سے ہٹایا - خوب پھوٹ پھوٹ کر روئیں -

از مشتاق احمد یوسفی زرگزشت صفحہ ٢١٢
 

نیلم

محفلین
مانا کہ مرزا ہمارے مونس و غم خوار ہیں‘ لیکن اُن کے سامنے افشائے مرض کرتے ہوئے ہمیں ہول آتا ہے ۔اس لیے کہ وہ اپنے فقیری چٹکلوں سے اصل مرض کو تو جڑ بنیاد سے اکھیڑ پھینک دیتے ہیں‘لیکن تین چار نئے مرض گلے پڑجاتے ہیں ‘جن کے لیے پھر انہی سے رُجوع کرنا پڑتا ہے۔اور وہ ہر دفعہ اپنے علاج سے ہر مرض کو چار سے ضرب دیتے چلے جاتے ہیں۔فائدہ اس طریق علاج کا یہ ہے کہ شفائے جُزوی کے بعد جی پھر علالتِ اصلی کے رات دن ڈھونڈتا ہے۔اور مریض کو اپنے مفرد مرض کے مرحوم جراثیم بے طرح یاد آتے ہیں اور وہ اُن کی شفقتوں کو یاد کرکے روتا ہے۔


مشتاق احمد یوسفی کی کتاب “خاکم بدہن“ سے اقتباس
 

نیلم

محفلین
تاریخ پیدائش

عمر کی اس منزل پر آ پہنچا ہوں کہ اگر کوئی سن ولادت پوچھ بیٹھے تو اسے فون نمبر بتا کر باتوں میں لگا لیتا ہوں۔

اور یہ منزل بھی عجیب ہے ۔ بقول صاحب “ کسکول “ ایک وقت تھا کہ ہمارا تعارف بہو بیٹی قسم کی خواتین سے اس طرح کرایا جاتا تھا کہ فلاں کے بیٹے ہیں ۔ فلاں کے بھانجے ہیں اور اب یہ زمانہ آگیا ہے کہ فلاں کے باپ ہیں اور فلاں کے ماموں ۔ اور ابھی کیا گیا ہے ۔ عمر رسیدہ پیش رو زبان حال سے کہہ رہے ہیں کہ اس کے آگے مقامات آہ و فغاں اور بھی ہیں ،



مشتاق احمد یوسفی کی کتاب “چراغ تلے اندھیرا“ سے اقتباس
 

نیلم

محفلین
چارپائی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔”


عربی میں اونٹ کے اتنے نام ہیں کہ دور اندیش مولوی اپنے ہونہار شاگردوں کو پاس ہونے کا یہ گر بتاتے ہیں کہ اگر کسی مشکل یا کڈھب لفظ کے معنی معلوم نہ ہوں تو سمجھ لو کہ اس

سے اونٹم مراد ہے ۔ اسی طرح اردو میں چارپائی کی جتنی قسمیں ہیں اس کی مثال اور کسی ترقی یافتہ زبان میں شاید ہی مل سکے۔

کھاٹ، کھٹا،کھٹیا،کھٹولہ،اڑان کھٹولہ،کھٹولی،کھٹ، چھپر کھٹ، کھرا، کھری، جھلگا،پلنگ،پلنگڑی، ماچ، ماچا، چارپائی،نواری،مسہری،منجی۔

یہ نا مکمل سی فہرست صرف اردو کی وسعت ہی نہیں بلکہ چارپائی کی ہمہ گیری پر دال ہے اور ہماری تمدن میں اس کا مقام و مرتبہ متعین کرتی ہے۔

(مشتاق احمد یوسفی کی کتاب ” چراغ تلے اندھیرا” سے اقتباس”)
 

نیلم

محفلین
یوں لندن بہت دلچسپ جگہ ہے !
اس کے علاوہ بظاہر اور کوئی خرابی نظر نہیں آتی کہ غلط جگہ واقع ہوا ہے ۔ تھوڑی سی بےآرامی ضرور ہے۔ مثلاً مطلع ہمہ وقت ابر وکہرآلود رہتا ہے۔ صبح اور شام میں تمیز نہیں ہوتی۔ اسی لیے لوگ A.M اور P.M بتانے والی ڈائل کی گھڑیاں پہنتے ہیں۔
موسم ایسا جیسے کسی کے دل میں بغض بھرا ہو۔
گھر اتنے چھوٹے اور گرم کہ محسوس ہوتا ہے کمرہ اوڑھے پڑے ہیں۔
پھر بقول ملک الشعرا فلپ لارکن یہ کیسی مجبوری کہ :
Nowhere to go but indoors‪!
روشن پہلو یہ کہ شائستگی ، رواداری اور بردباری میں انگریزوں کا جواب نہیں۔ مذہب ، سیاست اور سیکس پر کسی اور کیسی بھی محفل میں گفتگو کرنا خلافِ تہذیب اور انتہائی معیوب سمجھتے ہیں ۔۔۔ سوائے پَب (شراب خانہ) اور بار کے!
گمبھیر اور نازک مسائل پر صرف نشے کی حالت میں اظہارِ خیال کرتے ہیں۔
بےحد خوش اطوار اور ہمدرد۔ کار والے اتنے خوش اخلاق کہ اکلوتے پیدل چلنے والے کو راستہ دینے کے لیے اپنی اور دوسروں کی راہ کھوٹی کر کے سارا ٹریفک روک دیتے ہیں۔

برطانیہ میں رہنے والے ایشیائیوں میں سو میں سے ننانوے ان خوبصورت درختوں کے نام نہیں بتا سکتے جو ان کے مکانوں کے سامنے نہ جانے کب سے کھڑے ہیں۔
(رہا سواں آدمی ، سو اس نے درختوں کو کبھی نوٹس ہی نہیں کیا)
نہ ان رنگ برنگے پرندوں کے نام جو منہ اندھیرے اور شام ڈھلے ان پر چہچہاتے ہیں۔
اور نہ اس گرل فرینڈ کے بالوں کا شیڈ بتا سکتے ہیں جس کے ساتھ رات بھر بڑی روانی سے غلط انگریزی بولی ۔۔۔
گولڈن آبرن ، کاپر آبرن ، ایش بلانڈ ، چیسٹ نٹ براؤن ، ہیزل براؤن ، برگنڈی براؤن ؟ ۔۔۔ کچھ معلوم نہیں۔
ان کی خیرہ نگاہیں تو ، جو کچھ بھی ہو خدا کی قسم لاجواب ہو ، کے فلمی مقام پر آ کر ٹھہر جاتی ہیں۔


(آبِ گم)
 

نیلم

محفلین
سچ تو یہ ہے کہ جہاں چارپائی ہو ، وہاں کسی فرنیچر کی ضرورت ، نہ گنجائش نہ تُک۔ انگلستان کا موسم اگر اتنا ذلیل نہ ہوتا اور انگریزوں نے بروقت چارپائی ایجاد کر لی ہوتی تو نہ صرف یہ کہ وہ موجودہ فرنیچر کی کھکھیڑ سے بچ جاتے ، بلکہ پھر آرام دہ چارپائی چھوڑ کر ، کالونیز بنانے کی خاطر ، گھر سے باہر نکلنے کو بھی ان کا دل نہ چاہتا۔ "اوور ورکڈ" سورج بھی ان کی سلطنت پر ایک صدی تک ہمہ وقت چمکتے رہنے کی ڈیوٹی سے بچ جاتا۔ اور کم از کم آج کل کے حالات میں اٹواٹی کھٹواٹی لے کر پڑ رہنے کے لیے ان کے گھر میں کوئی ڈھنگ کی چیز تو ہوتی۔
ہم نے ایک دن پروفیسر قاضی عبدالقدوس ایم-اے ، بی-ٹی سے کہا کہ بقول آپ کے ، انگریز تمام ایجادات کے موجد ہیں۔ آسائش پسند ، بےحد پریکٹکل لوگ ہیں۔ حیرت ہے چارپائی استعمال نہیں کرتے!
بولے:
ادوان کسنے سے جان چراتے ہیں!
راقم الحروف کے خیال میں ، ایک بنیادہ فرق ذہن میں ضرور رکھنا چاہئے۔ وہ یہ کہ یورپین فرنیچر صرف بیٹھنے کے لئے ہوتا ہے ، جبکہ ہم کسی ایسی چیز پر بیٹھتے ہیں نہیں جس پر لیٹ نہ سکیں۔
مثال میں دری ، گدیلے ، قالین ، جازم ، چاندنی ، چارپائی ، کوچۂ یار اور پہلوئے دلدار کو پیش کیا جا سکتا ہے۔
ایک چیز ہمارے ہاں البتہ ایسی تھی جسے صرف بیٹھنے کے لئے استعمال کیا جاتا تھا۔ اسے حکمرانوں کا تخت کہتے تھے۔ لیکن جب انہیں اسی پر لٹکا کر اور پھر لٹا کر نہلا دیا جاتا تو یہ تختہ کہلاتا تھا اور اس عمل کو تختہ الٹنا کہتے تھے۔

(آبِ گم)
 
Top