فلک شیر
محفلین
بہت خوب فلک شیر بھائی،مجھے تو لگتا ہے آپ خود بھی اُردو ادب میں ماسٹر ہیں ۔اتنی مشکل اُردو کہاں سے سیکھی آپ نے
اور بہت شکریہ
ماسٹر نہیں آپا! ’’ماشٹر ضرور ہوں..............
‘‘ اردو بھی کہیں مشکل ہوتی ہے بھلا..........
بہت خوب فلک شیر بھائی،مجھے تو لگتا ہے آپ خود بھی اُردو ادب میں ماسٹر ہیں ۔اتنی مشکل اُردو کہاں سے سیکھی آپ نے
اور بہت شکریہ
سدابہار تحریرایسے بھی محتاط لوگ ہیں جو پیکار و فشارِ زیست سے بچنے کی خاطر خود کو بے عملی کے حصارِ عافیت میں قید رکھتے ہیں۔ یہ بھاری و قمیتی پردوں کی طرح لٹکے لٹکے ہی لیر لیر ہوجاتے ہیں۔
کچھ گم صم گمبھیر لوگ اس دیوار کی مانند تڑختے ہیں جس کی مہین سی دراڑ جو عمدہ پینٹ یا کسی آرائشی تصویر سے با آسانی چھپ جاتی ہے، اس بات کی غمّازی کرتی ہے کہ نیو اندر ہی اندر کسی صدمے سے زمین میں دھنس رہی ہے۔
بعض لوگ چینی کے برتن کی طرح ٹوٹتے ہیں، کہ مسالے سے آسانی سے جڑ تو جاتے ہیں مگر وہ بال اور جوڑ پہلے نظر آتا ہے، برتن بعد میں۔
اس کے برعکس کچھ ڈھیٹ اور چپکو لوگ ایسے اٹوٹ مادّے کے بنے ہوتے ہیں کہ چیونگ گم کی طرح کتنا ہی چباؤ ٹوٹنے کا نام نہیں لیتے۔کھینچنے سے کھنچتے ہیں، چھوڑے سے جاتے ہیں سکڑ، آپ انھیں حقارت سے تھوک دیں تو جوتے سے اس بری طرح چپکتے ہیں کہ چھٹائے سے نہیں چھوٹتے۔ رہ رہ کر خیال آتا ہے کہ اس سے تو دانتوں تلے ہی بھلے تھے کہ پپول تو لیتے تھے۔ یہ چیونگ گم لوگ خود آدمی نہیں، پر آدم شناس ہیں۔ یہ کامیاب و کامران کامگار لوگ ہیں۔ یہ وہ ہیں جنھوں نے انسانوں کو دیکھا، پرکھا اور برتا ہے اور جب اسے کھوٹا پایا تو خود بھی کھوٹے ہوگئے۔ وقت کی اٹھتی موج نے اپنے حباب کا تاج ان کے سر پہ رکھا اورساعت گزران نے اپنے تختِ رواں پہ بٹھایا۔
اور کچھ ایسے بھی ہیں کہ کار کے ونڈ اسکرین کی مانند ہوتے ہیں۔ ثابت و سالم ہیں تو سینہ عارف کی طرح شفاف کہ دو عالم کا نظارہ کرلو۔ اور یکا یک ٹوٹے تو ایسے ٹوٹے کہ نہ بال پڑا نہ دَر ،کہ نہ تڑخے۔ یکبارگی ایسے ریزہ ریزہ ہوئے کہ ناعارف رہا، نہ دو عالم کی جلوہ گری، نہ آئینے کا پتا کہ کہاں تھا، کدھر گیا۔ نہ حذررہا نہ خطر رہا، جورہی سو بےخبری رہی۔
اور ایک انا ہے کہ یوں ٹوٹتی ہے جیسے جابر سلطانوں کا اقبال یا حضرت سلیمانؑ کا عصا جس کی ٹیک لگائے وہ کھڑے تھے کہ روح قفس عنصری سے پرواز کرگئی۔ لیکن ان کا قالب بے جان ایک مدت تک اسی طرح استادہ رہا اور کسی کو شبہ تک نہ گزرا کہ وہ رحلت فرما چکے ہیں۔ وہ اسی طرح بے روح کھڑے رہے اور ان کے اقبال اوررعب و دبدبے سے کاروبارِ سلطنت حسبِ معمولِ سابق چلتا رہا۔ ادھر عصا کو دھیرے دھیرے گھن اندر سے کھاتا رہا، یہاں تک کہ ایکدن وہ چٹاخ سے ٹوٹ گیا اور حضرت سلیمان کا جسدِ خاکی فرشِ زمین پر آرہا۔ اس وقت ان کی امّت اور رعیت پر کھلا کہ وہ دنیا سے پردہ فرماچکے ہیں۔
مشتاق احمد یوسفی کی کتاب ” آبِ گم ” کے مضمون ” حویلی ” سے اقتباس
کیا کہنے واہ واہشکریہ نیلم۔
میں ایک تھریڈ شروع کرنا چاہتا تھا جس میںسب یوسفی صاحب کی تحاریر سے اقتباسات شئیر کر سکیں۔ اب آپ نے یہ تھریڈ شروع کر دیا ہے تو اسی کو اس مقصد کےلیے آگے بڑھایا جا سکتا ہے۔ امید کرتا ہوں کہ آپ اس کی مناسبت سے عنوان میں تبدیلی کا برا نہیں مانیں گی۔ سب سے پہلے میں یوسفی صاحب کی زبان میں ابولکلام آزاد کی نثر کی تعریف و توصیف پیش کر رہا ہوں جو کہ میں پہلے بھی ایک جگہ پوسٹ کر چکا ہوں۔ باقی دوست بھی اسی مناسب سے اپنے پسند کے اقتباسات پیش کر سکتے ہیں۔
سچ تو یہ ہے کہ فارسی شعر کی مار آج کل کے قاری سہی نہیں جاتی۔ بالخصوص اس وقت جب وہ بے محل ہو۔ مولانا ابولکلام آزاد تو نثر کا آرائشی فریم صرف اپنے پسندیدہ اشعار ٹانگنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ ان کے اشعار بے محل نہیں ہوتے۔ ملحقہ نثر بے محل ہوتی ہے۔ وہ اپنی نثر کا تمام تر ریشمی کوکون (کویا) اپنے گھاڑے گھاڑے لعاب دہن سے فارسی شعر کے گرد بنتے ہیں۔ لیکن یاد رہے کہ ریشم حاصل کرنے کا زمانہ قدیم سے ایک ہی طریقہ چلا آتا ہے۔ کوئے کو ریشم کے زندہ کیڑے سمیت کھلوتے پانی میں ڈال دیا جاتا ہے۔ جب تک وہ مر نہ جائے ریشم ہاتھ نہیں آتا۔
آگے چل کر یوسفی صاحب ابولکلام کی نثر کی چند مثالیں پیش کرتے ہیں۔
مولانا بولکلام آزاد اپنا سن پیدائش اس طرح بتاتے ہیں
“یہ غریب الدّیار عہد، ناآشنائے عصر، بیگانہ خویش، نمک پروردہ ریش، خرابہ حسرت کہ موسوم بہ احمد، مدعو بابی الکلام 1888 ء مطابق ذولحجہ 1305 ء میں ہستی عدم سے اس عمد ہستی میں وارد ہوا اور تہمت حیات سے متہم۔“
اب لوگ اس طرح نہیں لکھتے۔ اس طرح پیدا بھی نہیں ہوتے۔ اتنی خجالت، طوالت و اذیت تو آج کل سیزیرین پیدائش میں بھی نہیں ہوتی۔
اسی طرح نو طرز مرصع کا ایک جملہ ملاحظہ فرمائیے۔
“جب ماہتاب عمر میرے کا بدرجہ جہاردوسالگی کے پہنچا، روز روشن ابتہاج اس تیرہ بخت کا تاریک تر شب یلدہ سے ہوا، یعنی پیمانہ عمر و زندگانی مادروپدر بزرگوار حظوظ نفسانی سے لبریز ہو کے اسی سال دست قضا سے دہلا۔“
کہنا صرف یہ چاہتے ہیں کہ کہ جب میں چودہ برس کا ہوا تو ماں باپ فوت ہو گئے۔لیکن پیرایہ ایسا گنجلک اختیار کیا کہ والدین کے ساتھ مطلب بھی فوت ہوگیا۔
لطیف پیرائے میں کیا ہوا طنز گراں نہیں گزرتا اور یوسفی کی یہ ہی خوبی ہےطنزومزاح دونوں ساتھ ساتھ چلتےہیں اوران میں بہت کم فاصلہ ہوتاہےجسےمانپناکبھی کبھی تھوڑا مشکل ہوجاتاہے
کیا کہنے ایک شاہکار تحریرہمارا سنِ پیدائش
" بینک ملازمت کے لئے انٹر ویو سے اقتباس "
اس نے غلط طرف سے سگریٹ سلگایا ۔ کارک کچھ دیر بعد خود جل
جلا ہماری گیلی درخواست پر چھن سے بُجھ گیا ۔ اس نے چھنگلیا کے اشارے سے ایک کُرسی پر بیٹھنے کو کہا ۔ ہم تعمیلاً بیٹھنے ہی والے تھے کہ ناگاہ
اس کُُرسی کی گہرائیوں سے ایک کتّا اُٹھ کھڑا ہُوا اور ہمارے شانوں پر دونوں
پنجے رکھ کر ہمارا گرد آلود مُُنہ اپنی زبان سے صاف کیا۔
"مائئی ڈاگ از ویری فرینڈلی "
کتّے سے تعارف کروانے کے بعد اس نے ایک ہی سانس میں سب کچھ
پوچھ لیا ۔
کیسے ہو ؟ ۔۔۔
کون ہو ؟؟ ۔۔۔
کیا ہو ؟؟ ۔۔۔
کیوں ہو ؟؟ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔ ۔۔۔ ۔۔
سوائے آخری سوال کے یم نے تمام سوالات کے نہایت تسلی بخش
جواب دئیے ۔
"تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ اس بینک کو میں چلا رہا ہوں مسٹر
اصفہانی نہیں ۔ تم نے معاشیات پڑھی ہے ؟ "
اس نے کہا
"*نو سر "
" حساب میں بہت اچّّھے تھے ؟؟ "
" نو سر ! حساب میں ہمیشہ رعایتی نمبروں سے پاس ہوا ، حالانکہ
انٹرمیڈیٹ سے لے کرایم۔اے تک فرسٹ ڈویژن فرسٹ آیا ۔"
حساب میں فیل ہونے کے علاوہ تمہارے پاس اس پیشے کے لئے اور کیا کوالی فیکیشن ہے ۔ ؟ "
" میں نے فلسفہ میں ایم۔اے کیا ہے "
" ہا ہا ہا ! تمہارا سوشل بیک گراؤنڈ کیا ہے ؟ کس خاندان سے تعلق
ہے ؟ "
" میرا تعلق اپنے ہی خاندان سے ہے ۔ "
" سچ بولنے کا شکریہ ۔ "
جی تو بہتیرا چاہا کہ لگے ہاتھوں یہ بھی بتا دیں کہ
بزرگ حبِِ جاہ و مال سے بے نیاز تھے ۔ فقط ہمیں
اپنی نشانی چھوڑا ۔ نادر شاہ نے تو اپنی ولدیت ،
ابنِِ شمشیر ، ابنِِ شمشیر بتا کر بد خواہوں اور مورخوں کا منہ بند کر
دیا تھا ۔ لیکن یہ فقیر ، ابنِ آدم ، ابنِ آدم کے علاوہ کیا بتاتا ؟
اس کے منہ سے ایسی لپٹ آ رہی تھی جیسی روئی کے اس پھوئے
سے آتی ہے ، جو انجکشن نقطہء اذیت پر رگڑا جاتا ہے ۔
استفسار فرمایا " تم کب اور کہا ڈلیور ہوئے تھے ؟ ہا ہا ہا ! "
وہ زور سے ہنسا ۔ ہم ذرہ چکرائے تو کہنے لگا ،
" اچھّا یہ بتاؤ کہ جس سن میں تم پیدہ ہوئے اس سال اور کونسا
بین الاقوامی سانحہ ہوا تھا ؟*"
انٹرویو کے سلسلہ میں ایک عرصہ پہلے ہم نے معلوماتِ عامہ
نا معقول سے نا معقول سوالوں کے جواب رٹ لئے تھے مثلاً
کرکٹ کی گیند کا وزن ۔۔۔ مکھی کی ٹانگوں اور بیل کے دانتوں کی
تعداد ۔۔۔ نپولین کا قد ۔۔۔ اگر بینک سے صرف 70 روپے 7 % سود
پر قرض لئے جائیں تو وہ کس طرح 250 سال میں 2،217،902،400
ہو جائیں گے ! خالص کتنے کیرٹ کا ہوتا ہے ؟ ۔۔۔ بلی کی آنتوں کی
لمبائی ۔۔۔ کتا زبان کیوں باہر نکالے رکھتا ہے ؟ ینسان منہ کھولنے سے
کیوں ڈرتا ہے ؟ ۔۔۔ اچھا خاصا "Rs اور $ " لکھ کر انہیں حرفِ غلط
کی طرح کاٹا کیوں جاتا ہے ؟۔۔۔ تخلص پر ڈوئی کیوں بنائی جاتی ہے ؟۔۔۔
شہکسپیئر کے ہاں شادی کے کتنے ماہ بعد بچہ تولد ہوا ؟ ۔۔۔ بانس پولا
کیوں ہوتا ہے ؟ ۔۔۔ وغیرہ وغیرہ ۔۔۔ ۔۔ لیکن اپنی پیدائش کے بین الاقوامی
متوازیات کی طرف ہمارا دھیان کبھی نہیں گیا تھا
ہمارا آدھا جسم جو اس کے قابل تھا بالکل ٹھنڈا ہو گیا اور ہم انتہائی بے
بسی کے عالم میں جھورنے لگے تو اس نے ہماری درخواست میں سَِ پیدائش دیکھ کر اندوہ گیں لہجے میں کہا کہ
" باٰی دی وے، جس سال تم پیدا ہوئے اسی سال میرے باپ کا انتقال ہوا ۔
بڑا منحوس تھا وہ سال "
مشتاق احمد یوسفی
بہت خوبمشاعرہ کیسے لُوٹا گیا
لوگ بڑی دیر سے اُ کتائے بیٹھے تھے۔ ساغر جالونوی کے دھماکا خیز اعتراض سے اونگھتے مشاعرے میں جان ہی نہیں، ہیجان آگیا۔ اس وقت کسے ہوش تھا کہ اعتراض کی صحت پر غور کرتا۔ ہمارے ہاں ناچ گانا، حکمرانی اور مشاعرہ اکل کھرے فن ہیں۔ انکا سارا مزہ اور بنیاد ہی solo performance پر ہے۔ اسی لیے سیاست میں نعرے اور جلوس اور مشاعرے میں داد اور ہوٹنگ ہماری ضرورت، روایت اور سیفٹی والوو بن گئے۔ ہمارے ہاں شرکتِ سامعین ( audience participation) کی لے دے کے یہی ایک قابلِ قبول صورت ہے جس پر قدغن نہیں۔
دو ہنڈوں کا تیل پندرہ منٹ پہلے ختم ہوچکا تھا۔ کچھ ہنڈوں میں وقت پر ہوا نہیں بھری گئی۔ وہ پھُس کر کے بُجھ گئے۔ ساغر جالونوی کے اعتراض کے بعد کسی شرارتی نے باقی ماندہ ہنڈوں کو جھڑجھڑایا۔ ان کے مینٹل جھڑتے ہی اندھیرا ہوگیا۔ اب مار پیٹ شروع ہوئی۔ لیکن ایسا گھپ اندھیرا کہ ہاتھ کو شاعر سجھائی نہیں دے رہا تھا۔ چنانچہ بے قصور سامعین پٹ رہے تھے۔ کچھ لوگ نام بلکہ تخلص لے لے کر گالیاں دے رہے تھے۔ اتنے میں کسی نے صدا لگائی، بھائیو! ہٹو! بھاگو! بچو! رنڈیوں والے حکیم صاحب کی بھینس رسّی تڑا گئی ہے! یہ سنتے ہی گھمسان کی بھگڈر پڑی۔ اندھیری رات میں کالی بھینس تو کسی کو دکھائی نہیں دی، لیکن لاٹھیوں سے مسلح مگر دہشت زدہ دیہاتی سامعین نے ایک دوسرے کو بھینس سمجھ کر خوب دُھنائی کی۔ لیکن یہ آج تک سمجھ میں نہ آیا کہ چرانے والوں نے ایسے گھپ اندھیرے میں تمام نئے جوتے تلاش کیسے کر لیے -- اور جوتوں پر ہی موقوف نہیں، ہر چیز جو چُرائی جاسکتی تھی چُرا لی گئی ----- پانوں کی چاندی کی تھالی، درجنوں انگوچھے، ساغر جالونوی کی دُگنے سائز کی اچکن جس کے نیچے کرتا یا بنیان نہیں تھا، ایک جازم، تمام چاندنیاں، یتیم خانے کے چندے کی چوبی صندوقچی معِ قفلِ فولادی، یتیم خانے کا سیاہ پرچم، صدرِ مشاعرہ کا مخملی گاؤ تکیہ اور آنکھوں پر لگی عینک، ایک پٹواری کے گلے میں لٹکی ہوئی چاندی کی خلال اور کان کا میل نکالنے کی منی ڈوئی، خواجہ قمرالدین کی جیب میں پڑے ہوئے آٹھ روپے، عطر میں بسا ریشمی رومال اور پڑوسی کی بیوی کے نام مہکتا خط* ------ حد یہ کہ کوئی گستاخ ان کی ٹانگوں سے پیوست چوڑی دار کا ریشمی ازار بند ایک ہی جھٹکے میں کھینچ کر لے گیا۔ ایک شخص بجھا ہوا ہنڈا سر پر اٹھا کے لے گیا۔ مانا کہ اندھیرے میں کسی نے سر پر لے جاتے ہوئے تو نہیں دیکھا، مگر ہنڈا لے جانے کا صرف یہی ایک طریقہ تھا۔ بیمار مرغیوں کے صرف چند پر پڑے رہ گئے۔ ساغر جالونوی کا بیان تھا کہ کسی نابکار نے اس کی مونچھ تک اکھاڑ کر لے جانے کی کوشش کی جسے اس نے اپنی بر وقت چیخ سے ناکام بنادیا۔ غرض کہ قطعہ نظر اس کے کہ کار آمد ہے یا نہیں، جس کا جس چیز پر ہاتھ پڑا، اسے اُٹھا کے، اُتار کے، نوچ کے، پھاڑ کے، اُکھاڑ کے لے گیا۔ حد یہ کہ تحصیل دار کے پیش کار منشی بنواری لال ماتھر کے زیرِ استعمال ڈینچرز بھی! فقط ایک چیز ایسی تھی کہ جس کو کسی نے ہاتھ نہیں لگایا۔ شاعر اپنی اپنی بیاضیں جس جگہ چھوڑ کر بھاگے تھے، وہ دوسرے دن تک وہیں پڑی رہیں۔
مزید اس ربط پر ملاحظہ فرمائیے۔۔
سدابہار تحریر
لطف آ گیا پڑھ کر
شاد و آباد رہیں
بہت شکریہ سرکیا کہنے ایک شاہکار تحریر
شریک محفل کرنے کا شکریہ
آپ کا بھی بہت شکریہسلسلہ یوسفیہ کے مریدوں کے لیے پھر سے لطف لینے کا ایک اورموقع۔
شکریہ نیلم۔
بہت شکریہچراغ تلے مجموعہ اور کہانی کا نام چارپائی اور کلچر ہے۔
کیا مزے کیا اقتباس ہے۔
بہت شکریہشاندار شراکت۔ شکریہ شیئر کرنے کے لیے۔
بےشک بھائیزندہ تحریریں ۔ جب بھی پڑھو تازہ ہی دکھیں ۔۔۔ ۔۔۔ ۔