اقوال زریں
حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام
1 فتنہ و فساد میں اس طرح رہو جس طرح اونٹ کا وہ بچہ جس نے ابھی اپنی عمر کے دو سال ختم کئے ہوں کہ نہ تو اس کی پیٹھ پر سواری کی جاسکتی ہے اور نہ اس کے تھنوں سے دودھ دوہا جاسکتا ہے
2 جس نے طمع کو اپنا شعار بنایا ,اس نے اپنے کو سبک کیا اور جس نے اپنی پریشان حالی کا اظہار کیا وہ ذلت پر آمادہ ہوگیا ,اور جس نے اپنی زبان کو قابو میں نہ رکھا ,اس نے خود اپنی بے وقعتی کا سامان کر لیا .
3 بخل ننگ و عار ہے اور بزدلی نقص و عیب ہے اورغربت مرد زیرک و دانا کی زبان کو دلائل کی قوت دکھانے سے عاجز بنا دیتی ہے اور مفلس اپنے شہرمیں رہ کر بھی غریب الوطن ہوتا ہے اور عجز ودرماندگی مصیبت ہے اور صبر شکیبائی شجاعت ہے اور دنیا سے بے تعلقی بڑی دولت ہے اور پرہیز گاری ایک بڑی سپر ہے .
4 تسلیم و رضا بہترین مصاحب اور علم شریف ترین میراث ہے اور علمی و عملی اوصاف خلعت ہیں اور فکر صاف شفاف آئینہ ہے .
5 عقلمند کا سینہ اس کے بھیدوں کا مخزن ہوتا ہے اور کشادہ روئی محبت و دوستی کا پھندا ہے اور تحمل و برد باری عیبوں کا مدفن ہے . (یا اس فقرہ کے بجائے حضرت نے یہ فرمایا کہ )صلح صفائی عیبوں کو ڈھانپنے کا ذریعہ ہے .
6 جو شخص اپنے کو بہت پسند کرتا ہے وہ دوسروں کو ناپسند ہوجاتا ہے اور صدقہ کامیاب دوا ہے ,اور دنیا میں بندوں کے جو اعمال ہیں وہ آخرت میں ان کی آنکھوں کے سامنے ہوں گے
7 یہ انسان تعجب کے قابل ہے کہ وہ چربی سے دیکھتا ہے اور گوشت کے لوتھڑے سے بولتا ہے اور ہڈی سے سنتا ہے اور ایک سوراخ سے سانس لیتا ہے.
8 جب دنیا (اپنی نعمتوں کو لے کر)کسی کی طرف بڑھتی ہے تو دوسروں کی خوبیاں بھی اسے عاریت دے دیتی ہے .اور جب اس سے رخ موڑ لیتی ,تو خود اس کی خوبیاں بھی اس سے چھین لیتی ہے .
9 لوگوں سے اس طریقہ سے ملو کہ اگر مرجاؤ تو تم پر روئیں اور زند ہ رہو تو تمہارے مشتاق ہوں .
10 دشمن پر قابو پاؤ تو اس قابو پانے کا شکرانہ اس کو معاف کر دینا قرار دو .
11 لوگوں میں بہت درماندہ وہ ہے جو اپنی عمر میں کچھ بھلائی اپنے لیے نہ حاصل کرسکے ,اور اس سے بھی زیادہ درماندہ وہ ہے جو پاکر اسے کھو دے .
12 جب تمہیں تھوڑی بہت نعمتیں حاصل ہوں تو ناشکری سے انہیں اپنے تک پہنچنے سے پہلے بھگا نہ دو .
13جسے قریبی چھوڑ دیں اسے بیگانے مل جائیں گے .
14 ہر فتنہ میں پڑ جانے والا قابل عتاب نہیں ہوتا .
15سب معا ملے تقدیر کے آگے سر نگوں ہیں یہاں تک کہ کبھی تدبیر کے نتیجہ میں موت ہوجاتی ہے .
16پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حدیث کے متعلق کہ بڑھاپے کو (خضاب کے ذریعہ)بدل دو .اور یہود سے مشابہت اختیار نہ کرو .آپ علیہ السّلام سے سوال کیاگیا ,تو آپ علیہ السّلام نے فرمایا کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ اس موقع کے لیے فرمایا تھا .جب کہ دین (والے) کم تھے اور اب جب کہ اس کا دامن پھیل چکا ہے اور سینہ ٹیک کر جم چکا ہے تو ہر شخص کو اختیار ہے .
17 ان لوگوں کے بارے میں کہ جو آپ کے ہمراہ ہوکر لڑنے سے کنارہ کش رہے .فرمایا ان لوگوں نے حق کو چھوڑدیا اور باطل کی بھی نصرت نہیں کی .
18جو شخص امید کی راہ میں میں بگ ٹُٹ دوڑتا ہے وہ موت سے ٹھوکر کھاتا ہے .
19بامروت لوگو ں کی لغزشوں سے درگزر کرو .(کیونکہ )ان میں سے جو بھی لغزش کھا کر گرتا ہے تو اللہ اس کے ہاتھ میں ہاتھ دے کر اسے اوپر اٹھالیتا ہے .
20 خوف کا نتیجہ ناکامی اور شرم کانتیجہ محرومی ہے اور فرصت کی گھڑیاں (تیزرو) ابر کی طرح گزر جاتی ہیں .لہٰذا بھلائی کے ملے ہوئے موقعوں کو غنیمت جانو.
«»«21 ہمارا ایک حق ہے اگر وہ ہمیں دیا گیا تو ہم لے لیں گے .ورنہ ہم اونٹ کے پیچھے والے پٹھوں پر سوار ہوں گے .اگرچہ شب روی طویل ہو .
22 جسے اس کے اعمال پیچھے ہٹا دیں اسے حسب و نسب آگے نہیں بڑھا سکتا .
23 کسی مضطرب کی داد فریاد سننا ,اور مصیبت زدہ کو مصیبت سے چھٹکارا دلا نا بڑے بڑے گناہوں کا کفارہ ہے .
24 اے آدم علیہ السّلام کے بیٹے جب تو دیکھے کہ اللہ تجھے پے درپے نعمتیں دے رہا ہے اور تو اس کی نافرمانی کررہا ہے تو اس سے ڈرتے رہنا .
25جس کسی نے بھی کوئی بات دل میں چھپا کہ رکھنا چاہی وہ اس کی زبان سے بے ساختہ نکلے ہوئے الفاظ اور چہرہ کے آثار سے نمایاں ضرور ہو جاتی ہے .
26 مرض میں جب تک ہمت ساتھ دے چلتے پھرتے رہو .
27 بہترین زہد، زہد کا مخفی رکھنا ہے .
28 جب تم (دنیا کو ) پیٹھ دکھا رہے ہو .اور موت تمہاری طرف رخ کئے ہوئے بڑھ رہی ہے تو پھر ملاقات میں دیر کیسی ؟
29 ڈرو !ڈرو !اس لیے کہ بخدا اس نے اس حد تک تمہاری پردہ پوشی کی ہے ,کہ گویا تمہیں بخش دیا ہے .
30 حضرت علیہ السّلام سے ایمان کے متعلق سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا .ایمان چار ستونوں پر قائم ہے .صبر ,یقین ,عدل اور جہاد . پھرصبر کی چار شاخیں ہیں .اشتیاق ,خوف ,دنیا سے بے اعتنائی اور انتظار .اس لیے کہ جو جنت کا مشتاق ہو گا ,وہ خواہشوں کو بھلا دے گا اور جو دوزخ سے خوف کھائے گا وہ محرمات سے کنارہ کشی کرے گا اور جو دنیا سے بے اعتنائی اختیار کر ے گا ,وہ مصیبتوں کو سہل سمجھے گا اور جسے موت کا انتظار ہو گا ,وہ نیک کاموں میں جلدی کرے گا .اور یقین کی بھی چار شاخیں ہیں .روشن نگاہی ,حقیقت رسی ,عبرت اندوزی اور اگلوں کا طور طریقہ .چنانچہ جو دانش و آگہی حاصل کرے گا اس کے سامنے علم و عمل کی راہیں واضح ہو جائیں گی .اور جس کے لیے علم وعمل آشکار ہو جائے گا ,وہ عبرت سے آشنا ہوگا وہ ایسا ہے جیسے وہ پہلے لوگوں میں موجود رہا ہو اور عدل کی بھی چار شاخیں ہیں ,تہوں تک پہنچنے والی فکر اور علمی گہرائی اور فیصلہ کی خوبی اور عقل کی پائیداری .چنانچہ جس نے غور و فکر کیا ,وہ علم کی گہرائیوں میں اترا ,وہ فیصلہ کے سر چشموں سے سیراب ہوکر پلٹا اور جس نے حلم و بردباری اختیار کی .اس نے اپنے معاملات میں کوئی کمی نہیں کی اور لوگوں میں نیک نام رہ کر زندگی بسر کی اورجہاد کی بھی چار شاخیں ہیں .امر بالمعروف ,نہی عن المنکر ,تمام موقعوں پر راست گفتاری اور بدکرداروں سے نفرت .چنانچہ جس نے امر بالمعروف کیا ,اس نے مومنین کی پشت مضبوط کی ,اور جس نے نہی عن المنکر کیا اس نے کافروں کو ذلیل کیا اور جس نے تمام موقعوں پر سچ بولا ,اس نے اپنا فرض اداکردیا اور جس نے فاسقوں کو براسمجھا اور اللہ کے لیے غضبناک ہوا اللہ بھی اس کے لیے دوسروں پر غضبناک ہو گا اور قیامت کے دن اس کی خوشی کا سامان کرے گا.
31 کفر بھی چار ستونوں پر قائم ہے .حد سے بڑھی ہوئی کاوش ,جھگڑا لُو پن ,کج روی اور اختلاف .تو جو بے جا تعمق و کاوش کرتا ہے , وہ حق کی طرف رجوع نہیں ہوتا اور جو جہالت کی وجہ سے آئے دن جھگڑے کرتا ہے , وہ حق سے ہمیشہ اندھا رہتا ہے اور جو حق سے منہ موڑ لیتا ہے .وہ اچھائی کو برائی اور برائی کو اچھائی سمجھنے لگتا ہے اور گمراہی کے نشہ میں مدہوش پڑا رہتا ہے اور جو حق کی خلاف ورزی کرتا ہے , اس کے راستے بہت دشوار اور اس کے معاملات سخت پیچیدہ ہو جاتے ہیں اور بچ نکلنے کی راہ اس کے لیے تنگ ہو جاتی ہے ,شک کی بھی چار شاخیں ہیں ,کٹھ حجتی خوف سرگردانی اور باطل کے آگے جبیں سائی .چنانچہ جس نے لڑائی جھگڑ ے کو شیوہ بنالیا ,اس کی رات کبھی صبح سے ہمکنار نہیں ہو سکتی اور جس کو سامنے کی چیزوں نے ہول میں ڈال دیا ,وہ الٹے پیر پلٹ جاتا ہے اور جو شک و شبہہ میں سر گرداں رہتا ہے .اسے شیاطین اپنے پنجوں سے روند ڈالتے ہیں اور جس نے دنیا و آخرت کی تباہی کے آگے سر تسلیم خم کردیا.وہ دوجہاں میں تباہ و برباد ہوا .
32 نیک کام کر نے والا خود اس کام سے بہتر اور برائی کا مرتکب ہونے والا خود اس برائی سے بدتر ہے .
33 سخاوت کرو ,لیکن فضول خرچی نہ کرو اور جز رسی کرو ,مگر بخل نہیں .
34 بہتر ین دولت مند ی یہ ہے کہ تمناؤں کو ترک کرے.
35 جو شخص لوگوں کے بار ے میں جھٹ سے ایسی باتیں کہہ دیتا ہے جو انہیں ناگوار گزریں ,تو پھر وہ اس کے لیے ایسی باتیں کہتے ہیں کہ جنہیں وہ جانتے نہیں .
36 جس نے طول طویل امیدیں باندھیں ,اس نے اپنے اعمال بگاڑ لیے .
37 امیرالمومنین علیہ السّلام سے شام کی جانب روانہ ہو تے وقت مقام انبار کے زمینداروں کا سامنا ہوا ,تو وہ آپ کو دیکھ کر پیادہ ہو گئے اور آپ کے سامنے دوڑنے لگے .آپ نے فرمایا یہ تم نے کیا کیا ؟انہوں نے کہا کہ یہ ہمارا عام طریقہ ہے .جس سے ہم اپنے حکمرانوں کی تعظیم بجالا تے ہیں .آپ نے فرمایا .خدا کی قسم اس سے تمہارے حکمرانوں کو کچھ بھی فائدہ نہیں پہنچتا البتہ تم اس دنیا میں اپنے کو زحمت و مشقت میں ڈالتے ہو ,اور آخرت میں اس کی وجہ سے بدبختی مول لیتے ہو ,وہ مشقت کتنی گھاٹے والی ہے جس کا نتیجہ سزائے اخروی ہو , اور وہ راحت کتنی فائدہ مند ہے جس کا نتیجہ دوزخ سے امان ہو .
38 اپنے فرزند حضرت حسن علیہ السلام سے فرمایا مجھ سے چار, اور پھر چار باتیں یاد رکھو .ان کے ہوتے ہوئے جو کچھ کرو گے ,وہ تمہیں ضرر نہ پہنچائے گا سب سے بڑی ثروت عقل و دانش ہے اور سب سے بڑی ناداری حماقت و بے عقلی ہے اور سب سے بڑی وحشت غرور خود بینی ہے اور سب سے بڑا جوہر ذاتی حسن اخلاق ہے .
اے فرزند !بیوقوف سے دوستی نہ کرنا کیونکہ وہ تمہیں فائدہ پہنچانا چاہے گا ,تو نقصان پہنچائے گا .اور بخیل سے دوستی نہ کرنا کیونکہ جب تمہیں اس کی مدد کی انتہائی احتیاج ہوگی ,وہ تم سے دور بھاگے گا .اور بدکردار سے دوستی نہ کرنا ,وہ تمہیں کوڑیوں کے مول بیچ ڈالے گا اور جھوٹے سے دوستی نہ کرنا کیونکہ وہ سراب کے مانند تمہارے لیے دور کی چیزوں کو قریب اور قریب کی چیزوں کو دور کر کے دکھائے گا .
39 مستحبات سے قرب الہی نہیں حاصل ہوسکتا ,جب کہ وہ واجبات میں سدراہ ہوں .
40 عقل مند کی زبان اس کے دل کے پیچھے ہے اور بے قوف کا دل اس کی زبان کے پیچھے ہے .
»«
42 اپنے ایک ساتھی سے اس کی بیماری کی حالت میں فرمایا .اللہ نے تمہارے مرض کو تمہارے گناہوں کو دور کرنے کا ذریعہ قرار دیا ہے .کیونکہ خود مرض کا کوئی ثواب نہیں ہے .مگر وہ گناہوں کو مٹاتا ,اور انہیں اس طرح جھاڑ دیتا ہے جس طرح درخت سے پتے جھڑتے ہیں. ہاں ! ثواب اس میں ہوتا ہے کہ کچھ زبان سے کہا جائے اور کچھ ہاتھ پیروں سے کیا جائے ,اورخدا وند عالم اپنے بندوں میں سے نیک نیتی اور پاکدامنی کی وجہ سے جسے چاہتا ہے جنت میں داخل کرتا ہے .
43 جناب ابن ارت کے بارے میں فرمایا .خدا خباب ابن ارت پر رحمت اپنی شامل حال فرمائے وہ اپنی رضا مند ی سے اسلام لائے اور بخوشی ہجرت کی اور ضرور ت بھر قناعت کی اور اللہ تعالیٰ کے فیصلوں پر راضی رہے اور مجاہد انہ شان سے زندگی بسر کی .
44 خوشا نصیب اس کے جس نے آخرت کو یاد رکھا ,حساب و کتاب کے لیے عمل کیا .ضرورت بھر قناعت کی اور اللہ سے راضی و خوشنود رہا .
45 اگر میں مومن کی ناک پر تلواریں لگاؤں کہ وہ مجھے دشمن رکھے ,تو جب بھی وہ مجھ سے دشمنی نہ کرے گا .اور اگر تمام متاعِ دنیا کافر کے آگے ڈھیر کر دوں کہ وہ مجھے دوست رکھے تو بھی وہ مجھے دوست نہ رکھے گا اس لیے کہ یہ وہ فیصلہ ہے جو پیغمبر امی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زبان سے ہو گیا ہے کہ آپ نے فرمایا :
اے علی علیہ السّلام ! کوئی مومن تم سے دشمنی نہ رکھے گا اور کوئی منافق تم سے محبت نہ کرے گا.
46 وہ گناہ جس کا تمہیں رنج ہو اللہ کے نزدیک اس نیکی سے کہیں اچھا ہے جو تمہیں خود پسند بنا دے.
47 انسان کی جتنی ہمت ہو اتنی ہی اس کی قدر و قیمت ہے اور جتنی مروت اور جوانمردی ہوگی اتنی ہی راست گوئی ہو گی ,اور جتنی حمیت و خودداری ہو گی اتنی ہی شجاعت ہو گی اور جتنی غیرت ہوگی اتنی ہی پاک دامنی ہو گی .
48 کامیابی دور اندیشی سے وابستہ ہے اور دور اندیشی فکر و تدبر کو کام میں لانے سے اور تدبر بھیدوں کو چھپاکر رکھنے سے .
49 بھوکے شریف اور پیٹ بھرے کمینے کے حملہ سے ڈرتے رہو .
50 لوگوں کے دل صحرائی جانور ہیں ,جو کہ ان کو سدھائے گا ,اس کی طرف جھکیں گے .
51 جب تک تمہارے نصیب یاور ہیں تمہارے عیب ڈھکے ہوئے ہیں.
52 معاف کر نا سب سے زیادہ اسے زیب دیتا ہے جو سزادینے پر قادر ہو.
53 سخاوت وہ ہے جو بن مانگے ہو ,اور مانگے سے دینا یا شرم ہے یا بدگوئی سے بچنا .
54 عقل سے بڑھ کر کوئی ثروت نہیں اور جہالت سے بڑھ کر کوئی بے مائیگی نہیں .ادب سے بڑھ کر کوئی میراث نہیں اور مشورہ سے زیادہ کوئی چیز معین و مددگار نہیں .
55 صبر دو طرح کا ہوتاہے ایک ناگوار باتوں پر صبر اور دوسرے پسندیدہ چیزوں سے صبر.
56 دولت ہو تو پردیس میں بھی دیس ہے اور مفلسی ہو تو دیس میں بھی پردیس
57 قناعت وہ سرمایہ ہے جو ختم نہیں ہو سکتا.
»«58 مال نفسانی خواہشوں کا سر چشمہ ہے .
59 جو (برائیوں سے )خوف دلائے وہ تمہارے لیے مژدہ سنانے والے کے مانند ہے .
60 زبان ایک ایسا درندہ ہے کہ اگر اسے کھلا چھوڑ دیا جائے تو پھاڑ کھائے .
61 عورت ایک ایسا بچھو ہے جس کے لپٹنے میں بھی مزہ آتا ہے .
62 جب تم پرسلام کیا جائے تو اس سے اچھے طریقہ سے جواب دو .اور جب تم پر کوئی احسان کرے تو اس سے بڑھ چڑھ کر بدلہ دو ,اگرچہ اس صورت میں بھی فضیلت پہل کرنے والے ہی کی ہوگی .
63 سفارش کرنے والا امیدوار کے لیے بمنزلہ پرد بال ہوتا ہے .
64 دنیا والے ایسے سواروں کے مانند ہیں جو سو رہے ہیں اور سفر جاری ہے .
65 دوستوں کو کھو دینا غریب الوطنی ہے .
66 مطلب کا ہاتھ سے چلا جانا اہل کے آگے ہاتھ پھیلانے سے آسان ہے .
67 نااہل کے سامنے حاجت پیش کرنے سے جو شرمندگی حاصل ہوتی ہے وہ محرومی کے اندوہ سے کہیں زیادہ روحانی اذیت کا باعث ہوتی ہے .اس لیے کے مقصد سے محرومی کو برداشت کیا جاسکتا ہے .مگر ایک دنی و فر و مایہ کی زیر باری ناقابل برداشت ہوتی ہے .چنانچہ ہر باحمیت انسان نا اہل کے ممنون احسان ہونے سے اپنی حرمان نصیبی کو ترجیح دے گا ,اور کسی پست و دنی کے آگے دست سوال دراز کرنا گوارا نہ کرے گا .
67 تھوڑا دینے سے شرماؤ نہیں کیونکہ خالی ہاتھ پھیرنا تو اس سے بھی گری ہوئی بات ہے .
68عفت فقر کا زیور ہے اور شکر دولت مندی کی زینت ہے .
69 اگر حسب منشا تمہارا کام نہ بن سکے تو پھر جس حالت میں ہو مگن رہو .
70 جاہل کو نہ پاؤ گے مگر یا حد سے آگے بڑھا ہو ,اور یا اس سے بہت پیچھے .
71 جب عقل بڑھتی ہے ,تو باتیں کم ہو جاتی ہیں .
72 زمانہ جسموں کو کہنہ و بوسیدہ اور آرزوؤں کو دور کرتا ہے .جو زمانہ سے کچھ پا لیتا ہے .وہ بھی رنج سہتا ہے اور جو کھو دیتا ہے وہ تو دکھ جھیلتا ہی ہے .
73 جو لوگوں کا پیشوا بنتا ہے تو اسے دوسروں کو تعلیم دینے سے پہلے اپنے کو تعلیم دینا چاہیے اور زبان سے درس اخلا ق دینے سے پہلے اپنی سیرت و کردار سے تعلیم دینا چاہیے .اورجو اپنے نفس کی تعلیم و تادیب کرلے ,وہ دوسروں کی تعلیم و تادیب کرنے والے سے زیادہ احترام کا مستحق ہے .
74 انسان کی ہر سانس ایک قدم ہے جو اسے موت کی طرف بڑھائے لیے جارہا ہے.
75 جوچیز شمار میں آئے اسے ختم ہونا چاہیے اور جسے آنا چاہیے ,وہ آکر رہے گا .
76 جب کسی کام میں اچھے برے کی پہچان نہ رہے توآغاز کو دیکھ کر انجام کو پہچان لینا چاہیے .
77 جب ضرار ابن ضمرۃ صنبائی معاویہ کے پاس گئے اور معاویہ نے امیرالمومنین علیہ السّلام کے متعلق ان سے سوال کیا ,تو انہوں نے کہاکہ میں اس امر کی شہادت دیتا ہوں کہ میں نے بعض موقعوں پر آپ کو دیکھا جب کہ رات اپنے دامن ظلمت کو پھیلا چکی تھی .تو آپ محراب عبادت میں استادہ ریش مبارک کو ہاتھوں میں پکڑے ہوئے مار گزیدہ کی طرح تڑپ رہے تھے اورغم رسیدہ کی طرح رو رہے تھے اور کہہ رہے تھے .
اے دنیا ! اے دنیا دور ہو مجھ سے .کیامیرے سامنے اپنے کو لاتی ہے؟ یا میری دلدادہ و فریفتہ بن کر آئی ہے .تیرا وہ وقت نہ آئے (کہ تو مجھے فریب دے سکے)بھلا یہ کیونکر ہو سکتا ہے ,جاکسی اور کو جل دے مجھے تیری خواہش نہیں ہے .میں تو تین بار تجھے طلاق دے چکا ہوں کہ جس کے بعد رجوع کی گنجائش نہیں .تیری زندگی تھوڑی , تیری اہمیت بہت ہی کم اور تیری آرزو ذلیل و پست ہے افسوس زادِ راہ تھوڑا , راستہ طویل سفر دور دراز اور منزل سخت ہے .
78 ایک شخص نے امیرالمومنین علیہ السلام سے سوال کیا کہ کیا ہمارا اہل شام سے لڑنے کے لیے جانا قضا و قدر سے تھا؟ تو آپ نے ایک طویل جواب دیا .جس کا ایک منتخب حصہ یہ ہے .
خدا تم پر رحم کرے شاید تم نے حتمی و لازمی قضاء و قدر سمجھ لیا ہے (کہ جس کے انجام دینے پر ہم مجبور ہیں )اگر ایسا ہوتا تو پھر نہ ثواب کا کوئی سوال پیدا ہوتا نہ عذاب کا نہ وعدے کے کچھ معنی رہتے نہ وعید کے .خدا وند عالم نے تو بندوں کو خود مختار بناکر مامو ر کیا ہے اور (عذاب سے )ڈراتے ہوئے نہی کی ہے۔ اُس نے سہل و آسان تکلیف دی ہے اور دشواریوں سے بچائے رکھا ہے وہ تھوڑے کئے پر زیادہ اجر دیتا ہے .ا س کی نافرمانی اس لیے نہیں ہوتی کہ وہ دب گیا ہے اور نہ اس کی اطاعت اس لیے کی جاتی ہے کہ اس نے مجبور کر رکھا ہے اس نے پیغمبروں کو بطور تفریح نہیں بھیجا اور بندوں کے لیے کتابیں بے فائدہ نہیں اتاری ہیں اور نہ آسمان و زمین اور جو کچھ ان دونوں کے درمیان ہے ان سب کو بیکار پیدا کیا ہے .یہ تو ان لوگوں کا خیال ہے .جنہوں نے کفر اختیار کیا آتش جہنم کے عذاب سے
79 حکمت کی بات جہاں کہیں ہو ,اسے حاصل کرو ,کیونکہ حکمت منافق کے سینہ میں بھی ہوتی ہے .لیکن جب تک اس (کی زبان)سے نکل کر مومن کے سینہ میں پہنچ کر دوسر ی حکمتوں کے ساتھ بہل نہیں جاتی تڑپتی رہتی ہے .
80 حکمت مومن ہی کی گمشدہ چیز ہے اسے حاصل کرو ,اگرچہ منافق سے لینا پڑے .
81 ہرشخص کی قیمت وہ ہنر ہے ,جو اس شخص میں ہے .
82 تمہیں ایسی پانچ باتوں کی ہدایت کی جاتی ہے. کہ اگر انہیں حاصل کرنے کے لیے اونٹوں کو ایڑ لگا کر تیز ہنگاؤ, تو وہ اسی قابل ہوں گی .تم میں سے کوئی شخص اللہ کے سوا کسی سے آس نہ لگائے اور اس کے گناہ کے علاوہ کسی شے سے خو ف نہ کھائے اور اگر تم میں سے کسی سے کوئی ایسی بات پوچھی جائے کہ جسے و ہ نہ جانتا ہو تو یہ کہنے میں نہ شرمائے کہ میں نہیں جانتا اور اگر کوئی شخص کسی بات کو نہیں جانتا تو اس کے سیکھنے میں شرمائے نہیں ,اور صبر و شکیبائی اختیار کرو کیونکہ صبر کو ایمان سے وہی نسبت ہے جو سر کو بدن سے ہوتی ہے.اگر سر نہ ہو تو بدن بیکار ہے ,یونہی ایمان کے ساتھ صبر نہ ہو تو ایمان میں کوئی خوبی نہیں .
83 ایک شخص نے آپ کی بہت زیادہ تعریف کی حالانکہ وہ آپ سے عقیدت و ارادت نہ رکھتا تھا ,تو آپ نے فرمایا جو تمہاری زبان ہر ہے میں اس سے کم ہوں اور جو تمہارے دل میں ہے اس سے زیادہ ہوں.
84 تلوار سے بچے کھچے لوگ زیادہ باقی رہتے ہیں اور ان کی نسل زیادہ ہوتی ہے .
»«
86 بوڑھے کی رائے مجھے جوان کی ہمت سے زیادہ پسند ہے (ایک روایت میں یوں ہے کہ بوڑھے کی رائے مجھے جوان کے خطرہ میں ڈٹے رہنے سے زیادہ پسند ہے )
87 اس شخص پر تعجب ہوتا ہے کہ جو توبہ کی گنجائش کے ہوتے ہوئے مایوس ہو جائے
88 ابو جعفر محمد ابن علی الباقر علیہ السلام نے روایت کی ہے کہ امیرالمومنین علیہ السّلام نے فرمایا .
»«89 جس نے اپنے اور اللہ کے مابین معاملات کو ٹھیک رکھا ,تو اللہ اس کے اور لوگوں کے معاملات سلجھائے رکھے گا اور جس نے اپنی آخرت کو سنوار لیا .تو خدا اس کی دنیا بھی سنوار دے گا اور جو خود اپنے کو وعظ و پند کرلے ,تو اللہ کی طرف سے اس کی حفاظت ہوتی رہے گی.
90 پورا عالم و دانا وہ ہے جو لوگوں کو رحمت خدا سے مایو س او ر اس کی طرف سے حاصل ہونے والی آسائش و راحت سے نا امید نہ کرے ,اور نہ انہیں اللہ کے عذاب سے بالکل مطمئن کر دے .
91 یہ دل بھی اسی طرح اکتا جاتے ہیں جس طرح بدن اکتا جاتے ہیں۔لہٰذا (جب ایسا ہوتو)ان کے لیے لطیف حکیمانہ نکات تلاش کرو۔
92 وہ علم بہت بے قدروقیمت ہے جو زبان تک رہ جائے، اور وہ علم بہت بلند مرتبہ ہے جو اعضا و جوارح سے نمودار ہو.
»94 آپ سے دریافت کیا گیا کہ نیکی کیاچیز ہے توآپ نے فرمایا کہ نیکی یہ نہیں کہ تمہارے مال و اولاد میں فراوانی ہوجائے۔بلکہ خوبی یہ ہے کہ تمہارا علم زیادہ اور حلم بڑا ہو، اور تم اپنے پروردگار کی عباد ت پر ناز کرسکو اب اگر اچھا کام کرو۔تو اللہ کا شکر بجالاؤ، اور اگر کسی برائی کا ارتکاب کرو۔تو توبہ و استغفار کرو، اور دنیا میں صرف دو شخصوں کے لیے بھلائی ہے۔ایک و ہ جو گناہ کرے تو توبہ سے سے اس کی تلافی کرے اور دوسرا وہ جو نیک کام میں تیز گام ہو.
95 جو عمل تقوی ٰ کے ساتھ انجام دیا جائے وہ تھوڑا نہیں سمجھا جاسکتا، اور مقبول ہونے والا عمل تھوڑ اکیونکر ہوسکتا ہے ؟
96 انبیاء سے زیادہ خصوصیت ان لوگوں کو حاصل ہوتی ہے جو ان کی لائی ہوئی چیزوں کازیادہ علم رکھتے ہوں (پھر آپ نے اس آیت کی تلاوت فرمائی)ابراہیم سے زیادہ خصوصیت ان لوگوں کی تھی جو ان کے فرمانبردار تھے۔اور اب اس نبی اور ایمان لانے والوں کو خصوصیت ہے۔(پھرفرمایا)حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دوست وہ ہے جو اللہ کی اطاعت کرے اگرچہ ان سے کوئی قرابت نہ رکھتا ہو، اور ان کا دشمن وہ ہے جو اللہ کی نافرمانی کرے، اگرچہ نزدیکی قرابت رکھتا ہو۔
97 ایک خارجی کے متعلق آپ علیہ السّلام نے سنا کہ وہ نماز شب پڑھتا ہے اور قرآن کی تلاوت کرتا ہے توآپ نے فرمایا یقین کی حالت میں سونا شک کی حالت میں نماز پڑھنے سے بہتر ہے۔
98 جب کوئی حدیث سنو تو اسے عقل کے معیار پر پرکھ لو,صرف نقل الفاظ پر بس نہ کرو، کیونکہ علم کے نقل کرنے والے تو بہت ہیں اور اس میں غور کرنے والے کم ہیں۔
»«
100 کچھ لوگوں نے آپ علیہ السّلام کے روبرو آپ علیہ السّلام کی مدح و ستائش کی، تو فرمایا۔اے اللہ! تومجھے مجھ سے بھی زیادہ جانتا ہے، اور ان لوگوں سے زیادہ اپنے نفس کومیں پہچانتا ہوں۔اے خدا جو ان لوگوں کاخیال ہے ہمیں اس سے بہتر قرار دے اور ان (لغزشوں )کو بخش دے جن کا انہیں علم نہیں.