اقوال زریں حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام

اقوال زریں
حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام
1 فتنہ و فساد میں اس طرح رہو جس طرح اونٹ کا وہ بچہ جس نے ابھی اپنی عمر کے دو سال ختم کئے ہوں کہ نہ تو اس کی پیٹھ پر سواری کی جاسکتی ہے اور نہ اس کے تھنوں سے دودھ دوہا جاسکتا ہے
2 جس نے طمع کو اپنا شعار بنایا ,اس نے اپنے کو سبک کیا اور جس نے اپنی پریشان حالی کا اظہار کیا وہ ذلت پر آمادہ ہوگیا ,اور جس نے اپنی زبان کو قابو میں نہ رکھا ,اس نے خود اپنی بے وقعتی کا سامان کر لیا .
3 بخل ننگ و عار ہے اور بزدلی نقص و عیب ہے اورغربت مرد زیرک و دانا کی زبان کو دلائل کی قوت دکھانے سے عاجز بنا دیتی ہے اور مفلس اپنے شہرمیں رہ کر بھی غریب الوطن ہوتا ہے اور عجز ودرماندگی مصیبت ہے اور صبر شکیبائی شجاعت ہے اور دنیا سے بے تعلقی بڑی دولت ہے اور پرہیز گاری ایک بڑی سپر ہے .
4 تسلیم و رضا بہترین مصاحب اور علم شریف ترین میراث ہے اور علمی و عملی اوصاف خلعت ہیں اور فکر صاف شفاف آئینہ ہے .
5 عقلمند کا سینہ اس کے بھیدوں کا مخزن ہوتا ہے اور کشادہ روئی محبت و دوستی کا پھندا ہے اور تحمل و برد باری عیبوں کا مدفن ہے . (یا اس فقرہ کے بجائے حضرت نے یہ فرمایا کہ )صلح صفائی عیبوں کو ڈھانپنے کا ذریعہ ہے .
6 جو شخص اپنے کو بہت پسند کرتا ہے وہ دوسروں کو ناپسند ہوجاتا ہے اور صدقہ کامیاب دوا ہے ,اور دنیا میں بندوں کے جو اعمال ہیں وہ آخرت میں ان کی آنکھوں کے سامنے ہوں گے
7 یہ انسان تعجب کے قابل ہے کہ وہ چربی سے دیکھتا ہے اور گوشت کے لوتھڑے سے بولتا ہے اور ہڈی سے سنتا ہے اور ایک سوراخ سے سانس لیتا ہے.
8 جب دنیا (اپنی نعمتوں کو لے کر)کسی کی طرف بڑھتی ہے تو دوسروں کی خوبیاں بھی اسے عاریت دے دیتی ہے .اور جب اس سے رخ موڑ لیتی ,تو خود اس کی خوبیاں بھی اس سے چھین لیتی ہے .
9 لوگوں سے اس طریقہ سے ملو کہ اگر مرجاؤ تو تم پر روئیں اور زند ہ رہو تو تمہارے مشتاق ہوں .
10 دشمن پر قابو پاؤ تو اس قابو پانے کا شکرانہ اس کو معاف کر دینا قرار دو .
11 لوگوں میں بہت درماندہ وہ ہے جو اپنی عمر میں کچھ بھلائی اپنے لیے نہ حاصل کرسکے ,اور اس سے بھی زیادہ درماندہ وہ ہے جو پاکر اسے کھو دے .
12 جب تمہیں تھوڑی بہت نعمتیں حاصل ہوں تو ناشکری سے انہیں اپنے تک پہنچنے سے پہلے بھگا نہ دو .
13جسے قریبی چھوڑ دیں اسے بیگانے مل جائیں گے .
14 ہر فتنہ میں پڑ جانے والا قابل عتاب نہیں ہوتا .
15سب معا ملے تقدیر کے آگے سر نگوں ہیں یہاں تک کہ کبھی تدبیر کے نتیجہ میں موت ہوجاتی ہے .
16پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حدیث کے متعلق کہ بڑھاپے کو (خضاب کے ذریعہ)بدل دو .اور یہود سے مشابہت اختیار نہ کرو .آپ علیہ السّلام سے سوال کیاگیا ,تو آپ علیہ السّلام نے فرمایا کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ اس موقع کے لیے فرمایا تھا .جب کہ دین (والے) کم تھے اور اب جب کہ اس کا دامن پھیل چکا ہے اور سینہ ٹیک کر جم چکا ہے تو ہر شخص کو اختیار ہے .
17 ان لوگوں کے بارے میں کہ جو آپ کے ہمراہ ہوکر لڑنے سے کنارہ کش رہے .فرمایا ان لوگوں نے حق کو چھوڑدیا اور باطل کی بھی نصرت نہیں کی .
18جو شخص امید کی راہ میں میں بگ ٹُٹ دوڑتا ہے وہ موت سے ٹھوکر کھاتا ہے .
19بامروت لوگو ں کی لغزشوں سے درگزر کرو .(کیونکہ )ان میں سے جو بھی لغزش کھا کر گرتا ہے تو اللہ اس کے ہاتھ میں ہاتھ دے کر اسے اوپر اٹھالیتا ہے .
20 خوف کا نتیجہ ناکامی اور شرم کانتیجہ محرومی ہے اور فرصت کی گھڑیاں (تیزرو) ابر کی طرح گزر جاتی ہیں .لہٰذا بھلائی کے ملے ہوئے موقعوں کو غنیمت جانو.
«»«21 ہمارا ایک حق ہے اگر وہ ہمیں دیا گیا تو ہم لے لیں گے .ورنہ ہم اونٹ کے پیچھے والے پٹھوں پر سوار ہوں گے .اگرچہ شب روی طویل ہو .
22 جسے اس کے اعمال پیچھے ہٹا دیں اسے حسب و نسب آگے نہیں بڑھا سکتا .
23 کسی مضطرب کی داد فریاد سننا ,اور مصیبت زدہ کو مصیبت سے چھٹکارا دلا نا بڑے بڑے گناہوں کا کفارہ ہے .
24 اے آدم علیہ السّلام کے بیٹے جب تو دیکھے کہ اللہ تجھے پے درپے نعمتیں دے رہا ہے اور تو اس کی نافرمانی کررہا ہے تو اس سے ڈرتے رہنا .
25جس کسی نے بھی کوئی بات دل میں چھپا کہ رکھنا چاہی وہ اس کی زبان سے بے ساختہ نکلے ہوئے الفاظ اور چہرہ کے آثار سے نمایاں ضرور ہو جاتی ہے .
26 مرض میں جب تک ہمت ساتھ دے چلتے پھرتے رہو .
27 بہترین زہد، زہد کا مخفی رکھنا ہے .
28 جب تم (دنیا کو ) پیٹھ دکھا رہے ہو .اور موت تمہاری طرف رخ کئے ہوئے بڑھ رہی ہے تو پھر ملاقات میں دیر کیسی ؟
29 ڈرو !ڈرو !اس لیے کہ بخدا اس نے اس حد تک تمہاری پردہ پوشی کی ہے ,کہ گویا تمہیں بخش دیا ہے .
30 حضرت علیہ السّلام سے ایمان کے متعلق سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا .ایمان چار ستونوں پر قائم ہے .صبر ,یقین ,عدل اور جہاد . پھرصبر کی چار شاخیں ہیں .اشتیاق ,خوف ,دنیا سے بے اعتنائی اور انتظار .اس لیے کہ جو جنت کا مشتاق ہو گا ,وہ خواہشوں کو بھلا دے گا اور جو دوزخ سے خوف کھائے گا وہ محرمات سے کنارہ کشی کرے گا اور جو دنیا سے بے اعتنائی اختیار کر ے گا ,وہ مصیبتوں کو سہل سمجھے گا اور جسے موت کا انتظار ہو گا ,وہ نیک کاموں میں جلدی کرے گا .اور یقین کی بھی چار شاخیں ہیں .روشن نگاہی ,حقیقت رسی ,عبرت اندوزی اور اگلوں کا طور طریقہ .چنانچہ جو دانش و آگہی حاصل کرے گا اس کے سامنے علم و عمل کی راہیں واضح ہو جائیں گی .اور جس کے لیے علم وعمل آشکار ہو جائے گا ,وہ عبرت سے آشنا ہوگا وہ ایسا ہے جیسے وہ پہلے لوگوں میں موجود رہا ہو اور عدل کی بھی چار شاخیں ہیں ,تہوں تک پہنچنے والی فکر اور علمی گہرائی اور فیصلہ کی خوبی اور عقل کی پائیداری .چنانچہ جس نے غور و فکر کیا ,وہ علم کی گہرائیوں میں اترا ,وہ فیصلہ کے سر چشموں سے سیراب ہوکر پلٹا اور جس نے حلم و بردباری اختیار کی .اس نے اپنے معاملات میں کوئی کمی نہیں کی اور لوگوں میں نیک نام رہ کر زندگی بسر کی اورجہاد کی بھی چار شاخیں ہیں .امر بالمعروف ,نہی عن المنکر ,تمام موقعوں پر راست گفتاری اور بدکرداروں سے نفرت .چنانچہ جس نے امر بالمعروف کیا ,اس نے مومنین کی پشت مضبوط کی ,اور جس نے نہی عن المنکر کیا اس نے کافروں کو ذلیل کیا اور جس نے تمام موقعوں پر سچ بولا ,اس نے اپنا فرض اداکردیا اور جس نے فاسقوں کو براسمجھا اور اللہ کے لیے غضبناک ہوا اللہ بھی اس کے لیے دوسروں پر غضبناک ہو گا اور قیامت کے دن اس کی خوشی کا سامان کرے گا.
31 کفر بھی چار ستونوں پر قائم ہے .حد سے بڑھی ہوئی کاوش ,جھگڑا لُو پن ,کج روی اور اختلاف .تو جو بے جا تعمق و کاوش کرتا ہے , وہ حق کی طرف رجوع نہیں ہوتا اور جو جہالت کی وجہ سے آئے دن جھگڑے کرتا ہے , وہ حق سے ہمیشہ اندھا رہتا ہے اور جو حق سے منہ موڑ لیتا ہے .وہ اچھائی کو برائی اور برائی کو اچھائی سمجھنے لگتا ہے اور گمراہی کے نشہ میں مدہوش پڑا رہتا ہے اور جو حق کی خلاف ورزی کرتا ہے , اس کے راستے بہت دشوار اور اس کے معاملات سخت پیچیدہ ہو جاتے ہیں اور بچ نکلنے کی راہ اس کے لیے تنگ ہو جاتی ہے ,شک کی بھی چار شاخیں ہیں ,کٹھ حجتی خوف سرگردانی اور باطل کے آگے جبیں سائی .چنانچہ جس نے لڑائی جھگڑ ے کو شیوہ بنالیا ,اس کی رات کبھی صبح سے ہمکنار نہیں ہو سکتی اور جس کو سامنے کی چیزوں نے ہول میں ڈال دیا ,وہ الٹے پیر پلٹ جاتا ہے اور جو شک و شبہہ میں سر گرداں رہتا ہے .اسے شیاطین اپنے پنجوں سے روند ڈالتے ہیں اور جس نے دنیا و آخرت کی تباہی کے آگے سر تسلیم خم کردیا.وہ دوجہاں میں تباہ و برباد ہوا .
32 نیک کام کر نے والا خود اس کام سے بہتر اور برائی کا مرتکب ہونے والا خود اس برائی سے بدتر ہے .
33 سخاوت کرو ,لیکن فضول خرچی نہ کرو اور جز رسی کرو ,مگر بخل نہیں .
34 بہتر ین دولت مند ی یہ ہے کہ تمناؤں کو ترک کرے.
35 جو شخص لوگوں کے بار ے میں جھٹ سے ایسی باتیں کہہ دیتا ہے جو انہیں ناگوار گزریں ,تو پھر وہ اس کے لیے ایسی باتیں کہتے ہیں کہ جنہیں وہ جانتے نہیں .
36 جس نے طول طویل امیدیں باندھیں ,اس نے اپنے اعمال بگاڑ لیے .
37 امیرالمومنین علیہ السّلام سے شام کی جانب روانہ ہو تے وقت مقام انبار کے زمینداروں کا سامنا ہوا ,تو وہ آپ کو دیکھ کر پیادہ ہو گئے اور آپ کے سامنے دوڑنے لگے .آپ نے فرمایا یہ تم نے کیا کیا ؟انہوں نے کہا کہ یہ ہمارا عام طریقہ ہے .جس سے ہم اپنے حکمرانوں کی تعظیم بجالا تے ہیں .آپ نے فرمایا .خدا کی قسم اس سے تمہارے حکمرانوں کو کچھ بھی فائدہ نہیں پہنچتا البتہ تم اس دنیا میں اپنے کو زحمت و مشقت میں ڈالتے ہو ,اور آخرت میں اس کی وجہ سے بدبختی مول لیتے ہو ,وہ مشقت کتنی گھاٹے والی ہے جس کا نتیجہ سزائے اخروی ہو , اور وہ راحت کتنی فائدہ مند ہے جس کا نتیجہ دوزخ سے امان ہو .
38 اپنے فرزند حضرت حسن علیہ السلام سے فرمایا مجھ سے چار, اور پھر چار باتیں یاد رکھو .ان کے ہوتے ہوئے جو کچھ کرو گے ,وہ تمہیں ضرر نہ پہنچائے گا سب سے بڑی ثروت عقل و دانش ہے اور سب سے بڑی ناداری حماقت و بے عقلی ہے اور سب سے بڑی وحشت غرور خود بینی ہے اور سب سے بڑا جوہر ذاتی حسن اخلاق ہے .
اے فرزند !بیوقوف سے دوستی نہ کرنا کیونکہ وہ تمہیں فائدہ پہنچانا چاہے گا ,تو نقصان پہنچائے گا .اور بخیل سے دوستی نہ کرنا کیونکہ جب تمہیں اس کی مدد کی انتہائی احتیاج ہوگی ,وہ تم سے دور بھاگے گا .اور بدکردار سے دوستی نہ کرنا ,وہ تمہیں کوڑیوں کے مول بیچ ڈالے گا اور جھوٹے سے دوستی نہ کرنا کیونکہ وہ سراب کے مانند تمہارے لیے دور کی چیزوں کو قریب اور قریب کی چیزوں کو دور کر کے دکھائے گا .
39 مستحبات سے قرب الہی نہیں حاصل ہوسکتا ,جب کہ وہ واجبات میں سدراہ ہوں .
40 عقل مند کی زبان اس کے دل کے پیچھے ہے اور بے قوف کا دل اس کی زبان کے پیچھے ہے .
»«
42 اپنے ایک ساتھی سے اس کی بیماری کی حالت میں فرمایا .اللہ نے تمہارے مرض کو تمہارے گناہوں کو دور کرنے کا ذریعہ قرار دیا ہے .کیونکہ خود مرض کا کوئی ثواب نہیں ہے .مگر وہ گناہوں کو مٹاتا ,اور انہیں اس طرح جھاڑ دیتا ہے جس طرح درخت سے پتے جھڑتے ہیں. ہاں ! ثواب اس میں ہوتا ہے کہ کچھ زبان سے کہا جائے اور کچھ ہاتھ پیروں سے کیا جائے ,اورخدا وند عالم اپنے بندوں میں سے نیک نیتی اور پاکدامنی کی وجہ سے جسے چاہتا ہے جنت میں داخل کرتا ہے .
43 جناب ابن ارت کے بارے میں فرمایا .خدا خباب ابن ارت پر رحمت اپنی شامل حال فرمائے وہ اپنی رضا مند ی سے اسلام لائے اور بخوشی ہجرت کی اور ضرور ت بھر قناعت کی اور اللہ تعالیٰ کے فیصلوں پر راضی رہے اور مجاہد انہ شان سے زندگی بسر کی .
44 خوشا نصیب اس کے جس نے آخرت کو یاد رکھا ,حساب و کتاب کے لیے عمل کیا .ضرورت بھر قناعت کی اور اللہ سے راضی و خوشنود رہا .
45 اگر میں مومن کی ناک پر تلواریں لگاؤں کہ وہ مجھے دشمن رکھے ,تو جب بھی وہ مجھ سے دشمنی نہ کرے گا .اور اگر تمام متاعِ دنیا کافر کے آگے ڈھیر کر دوں کہ وہ مجھے دوست رکھے تو بھی وہ مجھے دوست نہ رکھے گا اس لیے کہ یہ وہ فیصلہ ہے جو پیغمبر امی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زبان سے ہو گیا ہے کہ آپ نے فرمایا :
اے علی علیہ السّلام ! کوئی مومن تم سے دشمنی نہ رکھے گا اور کوئی منافق تم سے محبت نہ کرے گا.
46 وہ گناہ جس کا تمہیں رنج ہو اللہ کے نزدیک اس نیکی سے کہیں اچھا ہے جو تمہیں خود پسند بنا دے.
47 انسان کی جتنی ہمت ہو اتنی ہی اس کی قدر و قیمت ہے اور جتنی مروت اور جوانمردی ہوگی اتنی ہی راست گوئی ہو گی ,اور جتنی حمیت و خودداری ہو گی اتنی ہی شجاعت ہو گی اور جتنی غیرت ہوگی اتنی ہی پاک دامنی ہو گی .
48 کامیابی دور اندیشی سے وابستہ ہے اور دور اندیشی فکر و تدبر کو کام میں لانے سے اور تدبر بھیدوں کو چھپاکر رکھنے سے .
49 بھوکے شریف اور پیٹ بھرے کمینے کے حملہ سے ڈرتے رہو .
50 لوگوں کے دل صحرائی جانور ہیں ,جو کہ ان کو سدھائے گا ,اس کی طرف جھکیں گے .
51 جب تک تمہارے نصیب یاور ہیں تمہارے عیب ڈھکے ہوئے ہیں.
52 معاف کر نا سب سے زیادہ اسے زیب دیتا ہے جو سزادینے پر قادر ہو.
53 سخاوت وہ ہے جو بن مانگے ہو ,اور مانگے سے دینا یا شرم ہے یا بدگوئی سے بچنا .
54 عقل سے بڑھ کر کوئی ثروت نہیں اور جہالت سے بڑھ کر کوئی بے مائیگی نہیں .ادب سے بڑھ کر کوئی میراث نہیں اور مشورہ سے زیادہ کوئی چیز معین و مددگار نہیں .
55 صبر دو طرح کا ہوتاہے ایک ناگوار باتوں پر صبر اور دوسرے پسندیدہ چیزوں سے صبر.
56 دولت ہو تو پردیس میں بھی دیس ہے اور مفلسی ہو تو دیس میں بھی پردیس
57 قناعت وہ سرمایہ ہے جو ختم نہیں ہو سکتا.
»«58 مال نفسانی خواہشوں کا سر چشمہ ہے .
59 جو (برائیوں سے )خوف دلائے وہ تمہارے لیے مژدہ سنانے والے کے مانند ہے .
60 زبان ایک ایسا درندہ ہے کہ اگر اسے کھلا چھوڑ دیا جائے تو پھاڑ کھائے .
61 عورت ایک ایسا بچھو ہے جس کے لپٹنے میں بھی مزہ آتا ہے .
62 جب تم پرسلام کیا جائے تو اس سے اچھے طریقہ سے جواب دو .اور جب تم پر کوئی احسان کرے تو اس سے بڑھ چڑھ کر بدلہ دو ,اگرچہ اس صورت میں بھی فضیلت پہل کرنے والے ہی کی ہوگی .
63 سفارش کرنے والا امیدوار کے لیے بمنزلہ پرد بال ہوتا ہے .
64 دنیا والے ایسے سواروں کے مانند ہیں جو سو رہے ہیں اور سفر جاری ہے .
65 دوستوں کو کھو دینا غریب الوطنی ہے .
66 مطلب کا ہاتھ سے چلا جانا اہل کے آگے ہاتھ پھیلانے سے آسان ہے .
67 نااہل کے سامنے حاجت پیش کرنے سے جو شرمندگی حاصل ہوتی ہے وہ محرومی کے اندوہ سے کہیں زیادہ روحانی اذیت کا باعث ہوتی ہے .اس لیے کے مقصد سے محرومی کو برداشت کیا جاسکتا ہے .مگر ایک دنی و فر و مایہ کی زیر باری ناقابل برداشت ہوتی ہے .چنانچہ ہر باحمیت انسان نا اہل کے ممنون احسان ہونے سے اپنی حرمان نصیبی کو ترجیح دے گا ,اور کسی پست و دنی کے آگے دست سوال دراز کرنا گوارا نہ کرے گا .
67 تھوڑا دینے سے شرماؤ نہیں کیونکہ خالی ہاتھ پھیرنا تو اس سے بھی گری ہوئی بات ہے .
68عفت فقر کا زیور ہے اور شکر دولت مندی کی زینت ہے .
69 اگر حسب منشا تمہارا کام نہ بن سکے تو پھر جس حالت میں ہو مگن رہو .
70 جاہل کو نہ پاؤ گے مگر یا حد سے آگے بڑھا ہو ,اور یا اس سے بہت پیچھے .
71 جب عقل بڑھتی ہے ,تو باتیں کم ہو جاتی ہیں .
72 زمانہ جسموں کو کہنہ و بوسیدہ اور آرزوؤں کو دور کرتا ہے .جو زمانہ سے کچھ پا لیتا ہے .وہ بھی رنج سہتا ہے اور جو کھو دیتا ہے وہ تو دکھ جھیلتا ہی ہے .
73 جو لوگوں کا پیشوا بنتا ہے تو اسے دوسروں کو تعلیم دینے سے پہلے اپنے کو تعلیم دینا چاہیے اور زبان سے درس اخلا ق دینے سے پہلے اپنی سیرت و کردار سے تعلیم دینا چاہیے .اورجو اپنے نفس کی تعلیم و تادیب کرلے ,وہ دوسروں کی تعلیم و تادیب کرنے والے سے زیادہ احترام کا مستحق ہے .
74 انسان کی ہر سانس ایک قدم ہے جو اسے موت کی طرف بڑھائے لیے جارہا ہے.
75 جوچیز شمار میں آئے اسے ختم ہونا چاہیے اور جسے آنا چاہیے ,وہ آکر رہے گا .
76 جب کسی کام میں اچھے برے کی پہچان نہ رہے توآغاز کو دیکھ کر انجام کو پہچان لینا چاہیے .
77 جب ضرار ابن ضمرۃ صنبائی معاویہ کے پاس گئے اور معاویہ نے امیرالمومنین علیہ السّلام کے متعلق ان سے سوال کیا ,تو انہوں نے کہاکہ میں اس امر کی شہادت دیتا ہوں کہ میں نے بعض موقعوں پر آپ کو دیکھا جب کہ رات اپنے دامن ظلمت کو پھیلا چکی تھی .تو آپ محراب عبادت میں استادہ ریش مبارک کو ہاتھوں میں پکڑے ہوئے مار گزیدہ کی طرح تڑپ رہے تھے اورغم رسیدہ کی طرح رو رہے تھے اور کہہ رہے تھے .
اے دنیا ! اے دنیا دور ہو مجھ سے .کیامیرے سامنے اپنے کو لاتی ہے؟ یا میری دلدادہ و فریفتہ بن کر آئی ہے .تیرا وہ وقت نہ آئے (کہ تو مجھے فریب دے سکے)بھلا یہ کیونکر ہو سکتا ہے ,جاکسی اور کو جل دے مجھے تیری خواہش نہیں ہے .میں تو تین بار تجھے طلاق دے چکا ہوں کہ جس کے بعد رجوع کی گنجائش نہیں .تیری زندگی تھوڑی , تیری اہمیت بہت ہی کم اور تیری آرزو ذلیل و پست ہے افسوس زادِ راہ تھوڑا , راستہ طویل سفر دور دراز اور منزل سخت ہے .
78 ایک شخص نے امیرالمومنین علیہ السلام سے سوال کیا کہ کیا ہمارا اہل شام سے لڑنے کے لیے جانا قضا و قدر سے تھا؟ تو آپ نے ایک طویل جواب دیا .جس کا ایک منتخب حصہ یہ ہے .
خدا تم پر رحم کرے شاید تم نے حتمی و لازمی قضاء و قدر سمجھ لیا ہے (کہ جس کے انجام دینے پر ہم مجبور ہیں )اگر ایسا ہوتا تو پھر نہ ثواب کا کوئی سوال پیدا ہوتا نہ عذاب کا نہ وعدے کے کچھ معنی رہتے نہ وعید کے .خدا وند عالم نے تو بندوں کو خود مختار بناکر مامو ر کیا ہے اور (عذاب سے )ڈراتے ہوئے نہی کی ہے۔ اُس نے سہل و آسان تکلیف دی ہے اور دشواریوں سے بچائے رکھا ہے وہ تھوڑے کئے پر زیادہ اجر دیتا ہے .ا س کی نافرمانی اس لیے نہیں ہوتی کہ وہ دب گیا ہے اور نہ اس کی اطاعت اس لیے کی جاتی ہے کہ اس نے مجبور کر رکھا ہے اس نے پیغمبروں کو بطور تفریح نہیں بھیجا اور بندوں کے لیے کتابیں بے فائدہ نہیں اتاری ہیں اور نہ آسمان و زمین اور جو کچھ ان دونوں کے درمیان ہے ان سب کو بیکار پیدا کیا ہے .یہ تو ان لوگوں کا خیال ہے .جنہوں نے کفر اختیار کیا آتش جہنم کے عذاب سے
79 حکمت کی بات جہاں کہیں ہو ,اسے حاصل کرو ,کیونکہ حکمت منافق کے سینہ میں بھی ہوتی ہے .لیکن جب تک اس (کی زبان)سے نکل کر مومن کے سینہ میں پہنچ کر دوسر ی حکمتوں کے ساتھ بہل نہیں جاتی تڑپتی رہتی ہے .
80 حکمت مومن ہی کی گمشدہ چیز ہے اسے حاصل کرو ,اگرچہ منافق سے لینا پڑے .
81 ہرشخص کی قیمت وہ ہنر ہے ,جو اس شخص میں ہے .
82 تمہیں ایسی پانچ باتوں کی ہدایت کی جاتی ہے. کہ اگر انہیں حاصل کرنے کے لیے اونٹوں کو ایڑ لگا کر تیز ہنگاؤ, تو وہ اسی قابل ہوں گی .تم میں سے کوئی شخص اللہ کے سوا کسی سے آس نہ لگائے اور اس کے گناہ کے علاوہ کسی شے سے خو ف نہ کھائے اور اگر تم میں سے کسی سے کوئی ایسی بات پوچھی جائے کہ جسے و ہ نہ جانتا ہو تو یہ کہنے میں نہ شرمائے کہ میں نہیں جانتا اور اگر کوئی شخص کسی بات کو نہیں جانتا تو اس کے سیکھنے میں شرمائے نہیں ,اور صبر و شکیبائی اختیار کرو کیونکہ صبر کو ایمان سے وہی نسبت ہے جو سر کو بدن سے ہوتی ہے.اگر سر نہ ہو تو بدن بیکار ہے ,یونہی ایمان کے ساتھ صبر نہ ہو تو ایمان میں کوئی خوبی نہیں .
83 ایک شخص نے آپ کی بہت زیادہ تعریف کی حالانکہ وہ آپ سے عقیدت و ارادت نہ رکھتا تھا ,تو آپ نے فرمایا جو تمہاری زبان ہر ہے میں اس سے کم ہوں اور جو تمہارے دل میں ہے اس سے زیادہ ہوں.
84 تلوار سے بچے کھچے لوگ زیادہ باقی رہتے ہیں اور ان کی نسل زیادہ ہوتی ہے .
»«
86 بوڑھے کی رائے مجھے جوان کی ہمت سے زیادہ پسند ہے (ایک روایت میں یوں ہے کہ بوڑھے کی رائے مجھے جوان کے خطرہ میں ڈٹے رہنے سے زیادہ پسند ہے )
87 اس شخص پر تعجب ہوتا ہے کہ جو توبہ کی گنجائش کے ہوتے ہوئے مایوس ہو جائے
88 ابو جعفر محمد ابن علی الباقر علیہ السلام نے روایت کی ہے کہ امیرالمومنین علیہ السّلام نے فرمایا .
»«89 جس نے اپنے اور اللہ کے مابین معاملات کو ٹھیک رکھا ,تو اللہ اس کے اور لوگوں کے معاملات سلجھائے رکھے گا اور جس نے اپنی آخرت کو سنوار لیا .تو خدا اس کی دنیا بھی سنوار دے گا اور جو خود اپنے کو وعظ و پند کرلے ,تو اللہ کی طرف سے اس کی حفاظت ہوتی رہے گی.
90 پورا عالم و دانا وہ ہے جو لوگوں کو رحمت خدا سے مایو س او ر اس کی طرف سے حاصل ہونے والی آسائش و راحت سے نا امید نہ کرے ,اور نہ انہیں اللہ کے عذاب سے بالکل مطمئن کر دے .
91 یہ دل بھی اسی طرح اکتا جاتے ہیں جس طرح بدن اکتا جاتے ہیں۔لہٰذا (جب ایسا ہوتو)ان کے لیے لطیف حکیمانہ نکات تلاش کرو۔
92 وہ علم بہت بے قدروقیمت ہے جو زبان تک رہ جائے، اور وہ علم بہت بلند مرتبہ ہے جو اعضا و جوارح سے نمودار ہو.
»94 آپ سے دریافت کیا گیا کہ نیکی کیاچیز ہے توآپ نے فرمایا کہ نیکی یہ نہیں کہ تمہارے مال و اولاد میں فراوانی ہوجائے۔بلکہ خوبی یہ ہے کہ تمہارا علم زیادہ اور حلم بڑا ہو، اور تم اپنے پروردگار کی عباد ت پر ناز کرسکو اب اگر اچھا کام کرو۔تو اللہ کا شکر بجالاؤ، اور اگر کسی برائی کا ارتکاب کرو۔تو توبہ و استغفار کرو، اور دنیا میں صرف دو شخصوں کے لیے بھلائی ہے۔ایک و ہ جو گناہ کرے تو توبہ سے سے اس کی تلافی کرے اور دوسرا وہ جو نیک کام میں تیز گام ہو.
95 جو عمل تقوی ٰ کے ساتھ انجام دیا جائے وہ تھوڑا نہیں سمجھا جاسکتا، اور مقبول ہونے والا عمل تھوڑ اکیونکر ہوسکتا ہے ؟
96 انبیاء سے زیادہ خصوصیت ان لوگوں کو حاصل ہوتی ہے جو ان کی لائی ہوئی چیزوں کازیادہ علم رکھتے ہوں (پھر آپ نے اس آیت کی تلاوت فرمائی)ابراہیم سے زیادہ خصوصیت ان لوگوں کی تھی جو ان کے فرمانبردار تھے۔اور اب اس نبی اور ایمان لانے والوں کو خصوصیت ہے۔(پھرفرمایا)حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دوست وہ ہے جو اللہ کی اطاعت کرے اگرچہ ان سے کوئی قرابت نہ رکھتا ہو، اور ان کا دشمن وہ ہے جو اللہ کی نافرمانی کرے، اگرچہ نزدیکی قرابت رکھتا ہو۔
97 ایک خارجی کے متعلق آپ علیہ السّلام نے سنا کہ وہ نماز شب پڑھتا ہے اور قرآن کی تلاوت کرتا ہے توآپ نے فرمایا یقین کی حالت میں سونا شک کی حالت میں نماز پڑھنے سے بہتر ہے۔
98 جب کوئی حدیث سنو تو اسے عقل کے معیار پر پرکھ لو,صرف نقل الفاظ پر بس نہ کرو، کیونکہ علم کے نقل کرنے والے تو بہت ہیں اور اس میں غور کرنے والے کم ہیں۔
»«
100 کچھ لوگوں نے آپ علیہ السّلام کے روبرو آپ علیہ السّلام کی مدح و ستائش کی، تو فرمایا۔اے اللہ! تومجھے مجھ سے بھی زیادہ جانتا ہے، اور ان لوگوں سے زیادہ اپنے نفس کومیں پہچانتا ہوں۔اے خدا جو ان لوگوں کاخیال ہے ہمیں اس سے بہتر قرار دے اور ان (لغزشوں )کو بخش دے جن کا انہیں علم نہیں.
 
قمر صاحب بہت عمدہ سلسلہ شروع کیا ہے مگر ایک ساتھ اتنا علم جذب نہ ہوگا۔

آپ ایسا کریں روز ایک ایک قول لکھیں اور اس پر کچھ بحث کریں تاکہ سب کو پوری طرح سمجھ آ جائے اور لوگ مستفید ہو سکیں۔

اقوال علی پر میں آپ کے ساتھ ہوں انشاءللہ بس ذرا ہاتھ ہلکا رکھیے گا تاکہ یہ سلسلہ روزانہ جاری رہے۔
 

زونی

محفلین
بہت خوب اور محب نے صحیح کہا کہ روزانہ ایک یا دو قول پیش کیے جایئں تو پڑھنے میں بھی آسانی ہو گی۔
 
السلام و علیکم،

جناب حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے ایک یا دو قول روز پیش کروں‌گا تو زندگی یہیں‌تمام ہو جائے گی۔ آپ ہمت کریں‌اور اس علم کے سمندر کو اپنے پاس محفوظ کرنا شروع کریں۔ اللہ تعالیٰ‌ہمت اور توفیق عطا کرے گا۔ ایک ساتھ بڑا مضمون اس لئے پیش کرتا ہوں تاکہ آپ لوگ اس کو اپنے اپنے کمپیوٹرز میں‌محفوظ کر لیں۔ کل کا کیا پتہ یہ نوکری نصیب ہو نا ہو۔ امید ہے میری مجبوری آپ سمجھ لیں‌گے۔

والسلام و دعا گو
 

شاکرالقادری

لائبریرین
قمر بخاري!
جزاک اللہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دانش و حکمت کا يہ سلسلہ جاري رہنا چاہيے
آپ کي رفتار ميں کمي نہيں آنا چاہيئے بلکہ اسے اور بڑھنا چاہيئے
اور رہا روزانہ ايک قول والا مشورہ
تو يہ مشورہ قاري کو ديا جا سکتا ہے کہ ہر قاري اس دھاگے کو کھول کر کم از کم ايک قول سے ضرور استفادہ کريں اسے سمجھيں اس ميں پوشيدہ حکمتوں کے خزانے دريافت کريں اور پھر اگلے روز اس خزانے سے ايک اور درآبدار حاصل کريں
موتيوں کي يہ لڑي ٹوٹنے نہ پائے
شکريہ
 
السلام و علیکم،
شکریہ شاکر برادر، اب مجھے کہنا پڑے گا جزاک اللہ۔ اس موقعہ پر ایک اور قول خدمت میں‌عرض ہے کہ حکمت مومن کی گمشدہ میراث ہے۔ جہاں‌ملے لے لو۔

والسلام و دعا گو
 
100 کچھ لوگوں نے آپ علیہ السّلام کے روبرو آپ علیہ السّلام کی مدح و ستائش کی، تو فرمایا۔اے اللہ! تومجھے مجھ سے بھی زیادہ جانتا ہے، اور ان لوگوں سے زیادہ اپنے نفس کومیں پہچانتا ہوں۔اے خدا جو ان لوگوں کاخیال ہے ہمیں اس سے بہتر قرار دے اور ان (لغزشوں )کو بخش دے جن کا انہیں علم نہیں.
101حاجت روائی تین چیزوں کے بغیر پائدار نہیں ہوتی۔اسے چھوٹا سمجھاجائے تاکہ وہ بڑی قرار پائے اسے چھپایا جائے تاکہ وہ خود بخود ظاہر ہو، اور اس میں جلدی کی جائے تاکہ وہ خوش گوار ہوں۔
102 لوگوں پر ایک ایسا زمانہ بھی آئے گا جس میں وہی بارگاہوں میں مقرب ہوگا جو لوگوں کے عیوب بیان کرنے والا ہو, اور وہی خوش مذاق سمجھا جائے گا, جو فاسق و فاجر ہو اور انصا ف پسند کو کمزور و ناتواں سمجھا جائے گا صدقہ کو لوگ خسارہ اور صلہ رحمی کو احسان سمجھیں گے اور عبادت لوگوں پر تفو ق جتلانے کے لیے ہوگی۔ایسے زمانہ میں حکومت کا دارومدار عورتوں کے مشورے، نو خیز لڑکوں کی کار فرمائی اور خواجہ سراؤں کی تدبیر و رائے پر ہوگا.
103 آپ کے جسم پر ایک بوسیدہ اور پیوند دار جامہ دیکھا گیا تو آپ سے اس کے بارے میں کہاگیا، آپ نے فرمایا !اس سے دل متواضع اور نفس رام ہوتا ہے اور مومن اس کی تاسی کرتے ہیں۔دنیا اورآخرت آپس میں دو ناساز گار دشمن اور دو جدا جدا راستے ہیں۔چنانچہ جو دنیا کو چاہے گا اور اس سے دل لگائے گا۔وہ دونوں بمنزلہ مشرق و مغرب کے ہیں اور ان دونوں سمتوں کے درمیان چلنے والا جب بھی ایک سے قریب ہوگا تو دوسرے سے دور ہونا پڑے گا۔پھر ان دونوں کا رشتہ ایسا ہی ہے جیسا دو سوتوں کاہوتا ہے۔
104 نوف ابن فضالہ بکالی کہتے ہیں کہ میں نے ایک شب امیرالمومنین علیہ السلام کو دیکھاکہ وہ فرش خواب سے اٹھے ایک نظر ستاروں پر ڈالی اور پھر فرمایا اے نوف !سوتے ہو یا جاگ رہے ہو ؟میں نے کہا کہ یا امیرالمومنین علیہ السّلام جاگ رہا ہوں۔فرمایا ! اے نوف!
خوشانصیب ان کے کہ جنہوں نے دنیا میں زہد اختیار کیا، اور ہمہ تن آخرت کی طرف متوجہ رہے۔یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے زمین کو فرش، مٹی کو بستر اور پانی کو شربت خوش گوار قرار دیا۔قرآن کو سینے سے لگایا اور دعا کو سپر بنایا. پھر حضرت مسیح کی طرح دامن جھاڑ کر دنیا سے الگ ہوگئے.
اے نوف ! داؤد علیہ السلام رات کے ایسے ہی حصہ میں اٹھے اور فرمایا کہ یہ وہ گھڑی ہے کہ جس میں بندہ جو بھی دعا مانگے مستجاب ہوگی سوا اس شخص کے جو سرکاری ٹیکس وصول کرنے والا، یا لوگوں کی برائیاں کرنے والا، یا ( کسی ظالم حکومت کی) پولیس میں ہو یا سارنگی یا ڈھول تاشہ بجانے والا ہو.
105 اللہ نے چند فرائض تم پرعائد کئے ہیں انہیں ضائع نہ کرو۔اورتمہارے حدود کار مقرر کر دیئے گئے ہیں ان سے تجاوز نہ کرو.اس نے چند چیز وں سے تمہیں منع کیا ہے اس کی خلاف ورزی نہ کرو، اور جن چند چیزوں کا اس نے حکم بیان نہیں کیا، انہیں بھولے سے نہیں چھوڑ دیا.لہٰذا خواہ مخواہ انہیں جاننے کی کوشش نہ کرو.
106 جو لوگ اپنی دنیا سنوارنے کے لیے دین سے ہاتھ اٹھالیتے ہیں تو خدا اس دنیاوی فائدہ سے کہیں زیادہ ان کے لیے نقصان کی صورتیں پیدا کردیتا ہے۔
107 بہت سے پڑھے لکھوں کو (دین سے) بے خبری تباہ کردیتی ہے اورجوعلم ان کے پاس ہوتا ہے انہیں ذرا بھی فائدہ نہیں پہنچاتا۔
108 اس انسان سے بھی زیادہ عجیب وہ گوشت کا ایک لوتھڑا ہے جو اس کی ایک رگ کے ساتھ آویزاں کردیاگیا ہے اور وہ دل ہے جس میں حکمت و دانائی کے ذخیرے ہیں اور اس کے برخلاف بھی صفتیں پائی جاتی ہیں اگر اسے امید کی جھلک نظر آتی ہے تو طمع اسے ذلت میں مبتلا کر تی ہے اور اگر طمع ابھرتی ہے تو اسے حرص تباہ وبرباد کردیتی ہے۔اگر ناامیدی اس پر چھا جاتی ہے تو حسرت و اندوہ اس کے لیے جان لیوا بن جاتے ہیں اور اگر غضب اس پر طاری ہوتا ہے تو غم و غصہ شدت اختیار کرلیتا ہے اور اگر خوش و خوشنود ہوتا ہے تو حفظ ماتقدم کو بھول جاتاہے اور اگر اچانک اس پر خوف طاری ہوتاہے تو فکر و اندیشہ دوسری قسم کے تصورات سے اسے روک دیتا ہے۔اگر امن امان کا دور دورہ ہوتا ہے تو غفلت اس پر قبضہ کرلیتی ہے اور اگر مال دولتمند ی اسے سرکش بنادیتی ہے اور اگر اس پر کوئی مصیبت پڑتی ہے تو بے تابی و بے قرار ی اسے رسوا کر دیتی ہے۔اور اگر فقر و فاقہ کی تکلیف میں مبتلا ہو۔تو مصیبت و ابتلاء اسے جکڑلیتی ہے اور اگر بھوک اس پر غلبہ کرتی ہے۔ ناتوانی اسے اٹھنے نہیں دیتی اور اگر شکم پری بڑھ جاتی ہے تو یہ شکم پری اس کے لیے کرب و اذیت کا باعث ہوتی ہے کوتاہی اس کے لیے نقصان رساں اور حد سے زیادتی اس کے لیے تباہ کن ہوتی ہے۔
109 ہم (اہلبیت )ہی وہ نقطہ اعتدال ہیں کہ پیچھے رہ جانے والے کو اس سے آکر ملنا ہے اور آگے بڑھ جانے والے کو اس کی طرف پلٹ کر آنا ہے۔
110 حکم خدا کا نفاذ وہی کر سکتا ہے جو (حق معاملہ میں) نرمی نہ برتے عجز و کمزوری کا اظہار نہ کرے اور حرص و طمع کے پیچھے نہ لگ جائے۔
111سہل ابن حنیف انصار ی حضرت کو سب لوگو ں میں زیادہ عزیز تھے یہ جب آپ کے ہمراہ صفین سے پلٹ کر کوفہ پہنچے تو انتقال فرماگئے جس پر حضرت نے فرمایا.
اگر پہاڑبھی مجھے دوست رکھے گا تووہ بھی ریزہ ریزہ ہو جائے گا۔
112 جو ہم اہل بیت سے محبت کرے اسے جامہ فقر پہننے کے لیے آمادہ رہناچاہیے۔
113 عقل سے بڑھ کر کوئی مال سود مند اور خود بینی سے بڑھ کر کوئی تنہائی وحشتناک نہیں اور تدبر سے بڑھ کر کوئی عقل کی بات نہیں اور کوئی بزرگی تقویٰ کے مثل نہیں اور خوش خلقی سے بہتر کوئی ساتھی اور ادب کے مانند کوئی میراث نہیں اور توفیق کے مانند کوئی پیشرو اور اعمال خیر سے بڑھ کر کوئی تجارت نہیں اور ثواب کا ایسا کوئی نفع نہیں اور کوئی پرہیز گاری شبہات میں توقف سے بڑھ کر نہیں اور حرام کی طرف بے رغبتی سے بڑھ کر کوئی زہد اور تفکر اور پیش بینی سے بڑھ کر کوئی علم نہیں اور ادائے فرائض کے مانند کوئی عبادت اور حیا و صبر سے بڑھ کر کوئی ایمان نہیں اور فروتنی سے بڑھ کر کوئی سرفرازی نہیں اور علم کے مانند کوئی بزرگی وشرافت نہیں حلم کے مانند کوئی عزت اور مشورہ سے مضبوط کوئی پشت پناہ نہیں
114 جب دنیا اور اہل دنیا میں نیکی کا چلن ہو، اور پھر کوئی شخص کسی ایسے شخص سے کہ جس سے رسوائی کی کوئی بات ظاہر نہیں ہوئی سؤِ ظن رکھے تو اس نے اس پر ظلم و زیادتی کی اور جب دنیا واہل دنیا پر شر و فساد کا غلبہ ہو اور پھر کوئی شخص کسی دوسرے شخص سے حسن ظن رکھے تو اس نے (خود ہی اپنے کو ) خطرے میں ڈالا.
115 امیر المومنین علیہ السلام سے دریافت کیا گیا کہ آپ علیہ السّلام کا حال کیسا ہے ؟ تو آپ علیہ السّلام نے فرمایا کہ ا س کا حال کیا ہوگا جسے زندگی موت کی طرف لیے جارہی ہو، اور جس کی صحت بیماری کا پیش خیمہ ہو اور جسے اپنی پناہ گاہ سے گرفت میں لے لیا جائے۔
116 کتنے ہی لوگ ایسے ہیں جنہیں نعمتیں دے کر رفتہ رفتہ عذاب کا مستحق بنایا جاتا ہے اور کتنے ہی لوگ ایسے ہیں جو اللہ کی پردہ پوشی سے دھوکا کھائے ہوئے ہیں اور اپنے بارے میں اچھے الفاظ سن کر فریب میں پڑ گئے ہیں اور مہلت دینے سے زیادہ اللہ کی جانب سے کوئی بڑی آزمائش نہیں ہے۔
117 میرے بارے میں دو قسم کے لوگ تباہ و برباد ہوئے۔ایک وہ چاہنے والا جو حد سے بڑھ جائے اور ایک وہ دشمنی رکھنے والا جو عداوت رکھے۔
118 موقع کو ہاتھ سے جانے دینا رنج و اندوہ کا باعث ہوتا ہے۔
119 دنیا کی مثال سانپ کی سی ہے جو چھونے میں نرم معلوم ہوتا ہے مگر اس کے اندر زہر ہلاہل بھرا ہوتا ہے، فریب خوردہ جاہل اس کی طرف کھینچتا ہے اور ہوشمند و دانا اس سے بچ کر رہتا ہے۔
120 حضرت سے قریش کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا کہ (قبیلہ)بنی مخزوم قریش کا مہکتا ہوا پھول ہیں، ان کے مردوں سے گفتگو اور ان کی عورتوں سے شادی پسندیدہ ہے اور بنی عبد شمس دور اندیش اور پیٹھ پیچھے کی اوجھل چیزوں کی پوری روک تھا م کرنے والے ہیں لیکن ہم (بنی ہاشم )توجو ہمارے ہاتھ میں ہوتا ہے اسے صرف کر ڈالتے ہیں، اور موت آنے پر جان دیتے ہیں۔ بڑے جوانمرد ہوتے ہیں اور یہ بنی (عبد شمس )گنتی میں زیادہ حیلہ باز اور بدصورت ہوتے ہیں اور ہم خوش گفتار خیر خواہ اور خوب صورت ہوتے ہیں۔
121 ان دونوں قسم کے عملوں میں کتنا فرق ہے ایک وہ عمل جس کی لذت مٹ جائے لیکن اس کا وبال رہ جائے اور ایک وہ جس کی سختی ختم ہوجائے لیکن اس کا اجر وثواب باقی رہے .

122 حضرت ایک جنازہ کے پیچھے جارہے تھے کہ ایک شخص کے ہنسنے کی آواز سنی جس پر آپ نے فرمایا.
گویا اس دنیا میں موت ہمارے علاوہ دوسروں کے لیے لکھی گئی ہے او رگویا یہ حق (موت )دوسروں ہی پر لاز م ہے اور گویا جن مرنے والوں کو ہم دیکھتے ہیں ,وہ مسافر ہیں جو عنقریب ہماری طرف پلٹ آئیں گے .ادھر ہم انہیں قبروں میں اتارتے ہیں ادھر ان کا ترکہ کھانے لگتے ہیں گویا ان کے بعد ہم ہمیشہ رہنے والے ہیں .پھر یہ کہ ہم نے ہر پندو نصیحت کرنے والے کو وہ مرد ہو یا عور ت بھلا دیا ہے اور ہر آفت کا نشانہ بن گئے ہیں .

123 خوشانصیب اس کے کہ جس نے اپنے مقام پر فروتنی اختیا ر کی جس کی کمائی پاک و پاکیزہ نیت نیک اورخصلت و عادت پسندیدہ رہی جس نے اپنی ضرورت سے بچا ہو امال خداکی راہ میں صرف کیا بے کار باتوں سے اپنی زبان کو روک لیا ,مردم آزادی سے کنارہ کش رہا ,سنت اسے ناگوار نہ ہوئی اور بدعت کی طرف منسوب نہ ہوا .
سید رضی کہتے ہیں .
کہ کچھ لو گوں نے اس کلام کو اور اس سے پہلے کلام کو رسول اللہ صلی علیہ وآلہ وسلم کی طرف منسوب کیا ہے .

124 عورت کا غیر ت کر نا کفر ہے ,اور مرد کا غیور ہونا ایمان ہے .

125 میں اسلام کی ایسی صحیح تعریف بیان کر تا ہوں جو مجھ سے پہلے کسی نے بیان نہیں کی .اسلام سر تسلیم خم کر نا ہے اور سر تسلیم جھکانا یقین ہے اور یقین تصدیق ہے اور تصدیق اعتراف فرض کی بجاآوری ہے اور فرض کی بجاآوری عمل ہے .

126 مجھے تعجب ہوتا ہے بخیل پر کہ وہ جس فقرو ناداری سے بھاگنا چاہتا ہے ,ا س کی طرف تیزی سے بڑھتا ہے اور جس ثروت و خوش حالی کا طالب ہوتا ہے وہی اس کے ہاتھ سے نکل جاتی ہے وہ دنیا میں فقیروں کی سی زندگی بسر کرتا ہے اورآخرت میں دولت مندوں کا سا اس سے محاسبہ ہوگا ,اور مجھے تعجب ہوتا ہے .متکبر و مغرور پر کہ جس کل ایک نطفہ تھا ,او ر کل کو مردا ر ہوگا .اور مجھے تعجب ہے اس پر جو اللہ کی پیدا کی ہوئی کائنات کو دیکھتا ہے اورپھر اس کے وجود میں شک کرتا ہے اور تعجب ہے اس پر جو مرنے والوں کو دیکھتا ہے اور پھر موت کو بھولے ہوئے ہے .اور تعجب ہے اس پر کہ جو پہلی پیدائش کو دیکھتا ہے اور پھر دوبارہ اٹھاءے جانے سے انکار کرتاہے اور تعجب ہے ا س پر جو سرائے فانی کو آباد کرتا ہے اور منزل جاودانی کو چھوڑ دیتا ہے .

127 جو عمل میں کوتاہی کرتا ہے ,وہ رنج و اندوہ میں مبتلا رہتا ہے اور جس کے مال و جان میں اللہ کا کچھ حصہ نہ ہو اللہ کو ایسے کی کوئی ضرورت نہیں .

128 شروع سردی میں سردی سے احتیاط کرو اور آخر میں اس کاخیر مقدم کر و ,کیونکہ سردی جسموں میں وہی کرتی ہے ,جو وہ درختو ںمیں کرتی ہے کہ ابتدائ میں درختوں کو جھلس دیتی ہے ,اور انتہا میں سرسبز و شاداب کرتی ہے.

129 اللہ کی عظمت کا احساس تمہاری نظروں میں کائنات کو حقیر و پست کردے.

130 صفین سے پلٹتے ہوئے کوفہ سے باہر قبرستان پر نظر پڑی تو فرمایا:
اے وحشت افزا گھروں ,اجڑے مکانوں اور اندھیری قبروں کے رہنے والو!اے خاک نشینو !اے عالم غربت کے ساکنوں اے تنہائی اور الجھن میں بسر کرنے والو !تم تیز رو ہو جو ہم سے آگے بڑھ گئے ہو اور ہم تمہارے نقش قدم پر چل کر تم سے ملا چاہتے ہیں .اب صورت یہ ہے کہ گھروں میں دوسرے بس گئے ہیں بیویوں سے اوروں نے نکاح کر لیے ہیں اور تمہار ا مال و اسباب تقسیم ہوچکا ہے یہ تو ہمارے یہاں کی خبر ہے .اب تمہارے یہاں کی کیا خبر ہے.
(پھر حضرت اپنے اصحاب کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا)اگر انہیں بات کرنے کی اجازت دی جائے .تو یہ تمہیں بتائیں گے کہ بہترین زاد راہ تقویٰ ہے .

131 ایک شخص کو دنیا کی برائی کرتے ہوئے سنا تو فرمایا !اے دنیا کی برائی کرنے والے اس کے فریب میں مبتلا ہو نے والے !اور غلط سلط باتوں کے دھوکے میں آنے والے !تم اس پر گرویدہ بھی ہوتے ہو ,اور پھر اس کی مذمت بھی کرتے ہو .کیا تم دنیا کو مجرم ٹھہرنے کا حق رکھتے ہو؟یا وہ تمہیں مجرم ٹھہرائے تو حق بجانب ہے ؟دنیا نے کب تمہارے ہوش وحواس سلب کئے اور کس بات سے فریب دیا ؟کیا ہلاکت و کہنگی سے تمہارے باپ دادا کے بے جان ہو کر گر نے سے یا مٹی کے نیچے تمہاری ماؤں کی خواب گاہوں سے ؟کتنی تم نے بیماروں کی دیکھ بھال کی ,اور کتنی دفعہ تو خود تیمار دار ی کی اس صبح کو کہ جب نہ دوا کارگر ہوتی نظر آتی تھی ,اور نہ تمہارا رونا دھونا ان کے لیے کچھ مفید تھا . تم ان کے لیے شفا کے خواہشمند تھے اور طبیبوں سے دوا دارو پوچھتے پھرتے تھے ان میں سے کسی ایک کے لیے بھی تمہارا اندیشہ فائدہ مند ثابت نہ ہو سکا اور تمہارا اصل مقصد حاصل نہ ہوا اوراپنی چارہ سازی سے تم موت کو ا س بیمار سے نہ ہٹا سکے تو دنیا نے تو اس کے پردے میں خود تمہار ا انجا م اور اس کے ہلاک ہونے سے خود تمہاری ہلاکت کا نقشہ تمہیں دکھایا دیا بلاشبہ دنیا اس شخص کے لیے جو باور کرے ,سچائی کا گھر ہے اور جو اس کی ان باتوں کو سمجھے اس کے لیے امن و عافیت کی منزل ہے اور اس سے زادراہ حاصل کرلے ,اس کے لیے دولتمندی کی منزل ہے اور جو اس سے نصیحت حاصل کر ے ,اس کے لیے وعظ ونصیحت کا محل ہے .وہ دوستان خدا کے لیے عبادت کی جگہ ,اللہ کے فرشتوں کے لیے نماز پڑھنے کا مقام وحی الہی کی منزل اور اولیاء اللہ کی تجارت گاہ ہے انہوں نے اس میں فضل و رحمت کا سودا کیا اور اس میں رہتے ہوئے جنت کو فائدہ میں حاصل کیا تو اب کون ہے جو دنیا کی برائی کرے ,جب کہ اس نے اپنے جدا ہونے کی اطلاع دے دی ہے چنانچہ اس نے اپنی ابتلاء سے ابتلائ کا پتہ دیا ہے اور اپنی مسرتوں سے آخرت کی مسرتو ں کا شوق دلایا ہے ,وہ رغبت دلانے اور ڈرانے خوفزدہ کرنے اور متنبہ کرنے کے لیے شام کو امن و عافیت کا اور صبح کو درد و اندوہ کا پیغام لے کر آتی ہے توجن لوگوں نے شرمسار ہوکر صبح کی وہ اس کی برائی کرنے لگے .اور دوسرے لوگ قیامت کے دن اس کی تعریف کریں گے کہ دنیا نے ان کو آخرت کی یاد دلائی تو انہو ں نے یاد رکھا اور اس نے انہیں خبر دی تو انہوں نے تصدیق کی اور اس نے انہیں پند و نصیحت کی تو انہوں نے نصیحت حاصل کی .

132 اللہ کا ایک فرشتہ ہر روز یہ ندا کر تا ہے .کہ موت کے لیے اولاد پیدا کرو ,برباد ہونے کے لیے جمع کرو اور تباہ ہونے کے لیے عمارتیں کھڑی کرو .

133 »دنیا «اصل منز ل قرار کے لیے ایک گزرگاہ ہے .اس میں دو 2قسم کے لوگ ہیں :ایک وہ جنہوں نے اس میںاپنے نفس کو بیچ کر ہلاک کر دیا اورایک وہ جنہوں نے اپنے نفس کو خریدکرآزاد کردیا.

134 دوست اس وقت تک دوست نہیں سمجھا جاسکتا جب تک کہ وہ اپنے بھائی کی تین موقعوں پر نگہداشت نہ کرے , مصیبت کے موقع پر اس کے پس پشت اور اس کے مرنے کے بعد :.

135 جس شخص کو چار چیزیں عطا ہوئی ہیں وہ چار چیزوں سے محروم نہیں رہتا ,جو دعا کرے وہ قبولیت سے محروم نہیں ہوتا . جسے توبہ کی توفیق ہو ,وہ مقبولیت سے ناامید نہیں ہوتا جسے استغفار نصیب ہو وہ مغفرت سے محروم نہیں ہوتا .اور جوشکرکرے وہ اضافہ سے محروم نہیں ہوتا اور اس کی تصدیق قرآن مجید سے ہوتی ہے .چنانچہ دعا کے متعلق ارشاد الہی ہے:تم مجھ سے مانگو میں تمہاری دعا قبول کروںگا .اور استغفار کے متعلق ارشاد فرمایا ہے .جو شخص کوئی برا عمل کرے یا اپنے نفس پر ظلم کرے پھر اللہ سے مغفرت کی دعا مانگے تو وہ اللہ کو بڑا بخشنے والا اور رحم کرنے والا پائے گا .اور شکر کے بارے میں فرمایا ہے اگر تم شکر کرو گے تو میں تم پر (نعمت میں )اضافہ کروں گا .اور توبہ کے لیے فرمایا ہے .اللہ ان ہی لوگوں کی توبہ قبول کرتا ہے جو جہالت کی بناء پر کوئی بری حرکت نہ کر بیٹھیں پھر جلدی سے توبہ کر لیں تو خدا ایسے لوگوں کی توبہ قبول کرتا ہے اور خدا جاننے والا اور حکمت والاہے .

136 نماز ہر پرہیز گار کے لیے باعث تقرب ہے اور حج ہر ضعیف و ناتواں کا جہاد ہے .ہر چیز کی زکوٰۃ ہوتی ہے ,اور بدن کی زکوٰۃ روزہ ہے اور دعوت کا جہاد شوہر سے حسن معاشرت ہے .

137 صدقہ کے ذریعہ روزی طلب کرو .

138 جسے عوض کے ملنے کا یقین ہو وہ عطیہ دینے میں دریا دلی دکھاتا ہے .

139 جتنا خرچ ہو .اتنی ہی امداد ملتی ہے .

140 جو میانہ روی اختیار کرتاہے وہ محتاج نہیں ہوتا .

141متعلقین کی کمی دو قسموں میں سے ایک قسم کی آسودگی ہے .

142 میل محبت پیدا کر نا عقل کا نصف حصہ ہے .

143 غم آدھا بڑھاپا ہے .

144 مصیبت کے اندازہ پر اللہ کی طرف صبر کی ہمت حاصل ہوتی ہے .جو شخص مصیبت کے وقت ران پر ہاتھ مارے اس کا عمل اکارت ہوجاتا ہے .

145 بہت سے روزہ دار ایسے ہیں جنہیں روزوں کا ثمرہ بھوک پیاس کے علاوہ کچھ نہیں ملتا اور بہت سے عابد شب زندہ دار ایسے ہیں جنہیں عبادت کے نتیجہ میں جاگنے اور زحمت اٹھانے کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا .زیرک و دانا لوگوں کا سونا اور روزہ نہ رکھنا بھی قابل ستائش ہوتا ہے.

146 صدقہ سے اپنے ایمان کی نگہداشت کرو ,او ر دعا سے مصیبت و ابتلائ کی لہروں کو دور کرو .

147 کمیل ابن زیاد نخعی کہتے ہیں کہ :
امیرالمومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام نے میرا ہاتھ پکڑا اور قبر ستان کی طرف لے چلے جب آبادی سے باہر نکلے تو ایک لمبی آہ کی .پھر فرمایا:
اے کمیل !یہ دل اسرار و حکم کے ظروف ہیں ان میں سب سے بہتر وہ ہے جو زیادہ نگہداشت کرنے والا ہو .لہٰذا تو جو میں تمہیں بتاؤں اسے یاد رکھنا .
دیکھو!تین قسم کے لو گ ہوتے ہیں ایک عالم ربانی دوسرا متعلم کہ جو نجات کی راہ پر برقرار رہے اور تیسرا عوام الناس کا وہ پست گروہ ہے کہ جو ہر پکارنے والے کے پیچھے ہولیتا ہے اور ہر ہو اکے رخ پر مڑ جاتا ہے .نہ انہوں نے نور علم سے کسب ضیا کیا ,نہ کسی مضبوط سہارے کی پناہ لی .
اے کمیل !یا د رکھو,کہ علم مال سے بہتر ہے (کیونکہ)علم تمہاری نگہداشت کرتا ہے اورمال کی تمہیں حفاظت کرنا پڑتی ہے اور مال خرچ کرنے سے گھٹتا ہے لیکن علم صرف کرنے سے بڑھتا ہے ,اورمال و دولت کے نتائج و اثرات مال کے فنا ہونے سے فنا ہوجاتے ہیں .
اے کمیل !علم کی شناسائی ایک دین ہے کہ جس کی اقتدا کی جاتی ہے اسی سے انسان اپنی زندگی میں دوسروں سے اپنی اطاعت منواتا ہے اور مرنے کے بعد نیک نامی حاصل کرتا ہے .یاد رکھو کہ علم حاکم ہو تا ہے اور مال محکوم .
اے کمیل !مال اکٹھا کرنے والے زندہ ہونے کے باوجود مردہ ہوتے ہیں اور علم حاصل کرنے والے رہتی دنیا تک باقی رہتے ہیں , بے شک ان کے اجسام نظروں سے اوجھل ہوجاتے ہیں .مگر ان کی صورتیں دلوں میں موجود رہتی ہیں (اس کے بعد حضرت نے اپنے سینہ اقدس کی طر ف اشارہ کیا اورفرمایا)دیکھو!یہاں علم کا ایک بڑا ذخیرہ موجود ہے کا ش اس کے اٹھانے والے مجھے مل جاتے ,ہاں ملا ,کوئی تو,یا ایسا جو ذہین تو ہے مگر ناقابل اطمینان ہے اور جودنیا کے لیے دین کو آلہ کا ر بنا نے والاہے اور اللہ کی ان نعمتوں کی وجہ سے اس کے بندوں پر اور اس کی حجتوں کی وجہ سے اس کے دوستوں پر تفوق و برتری جتلانے والا ہے .یا جو ارباب حق و دانش کا مطیع توہے مگر اس کے دل کے گوشوں میں بصیرت کی روشنی نہیں ہے ,بس ادھر ذرا سا شبہہ عارض ہو ا کہ اس کے دل میں شکوک و شبہات کی چنگاریاں بھڑکنے لگیں تو معلوم ہونا چاہیے کہ نہ یہ اس قابل ہے اور نہ وہ اس قابل ہے یا ایسا شخص ملتا ہے کہ جو لذتوں پر مٹا ہوا ہے اور بآسانی خواہش نفسانی کی راہ پر کھنچ جانے والا ہے یا ایسا شخص جو جمع آوری و ذخیر ہ اندوزی پر جان دیئے ہوءے ہے یہ دونوں بھی دین کے کسی امر کی رعایت و پاسداری کرنے والے نہیں ہیں ان دونوں سے انتہائی قریبی شباہت چرنے والے چوپائے رکھتے ہیں .اسی طرح تو علم کے خزینہ داروں کے مرنے سے علم ختم ہوجاتا ہے
ہا ں !مگر زمین ایسے فرد خالی نہیں رہتی کہ جو خد اکی حجت کو برقرا ر رکھتا ہے چاہے وہ ظاہر و مشہور ہو ا یا خائف و پنہاں تاکہ اللہ کی دلیلیں اور نشان مٹنے نہ پائیں اور وہ ہیں ہی کتنے اور کہاں پر ہیں -؟خدا کی قسم وہ تو گنتی میں بہت تھوڑے ہوتے ہیں ,اور اللہ کے نزدیک قدرومنزلت کے لحاظ سے بہت بلند .خدا وند عالم ان کے ذریعہ سے اپنی حجتوںاور نشانیوں کی حفاظت کرتا ہے .یہاں تک کہ وہ ان کو اپنے ایسوں کے سپرد کردیں اور اپنے ایسوں کے دلوں میںانہیں بودیں .علم نے انہیں ایک دم حقیقت و بصیرت کے انکشافات تک پہنچا دیا ہے .وہ یقین و اعتماد کی رو ح سے گھل مل گئے ہیں اور ان چیز وں کو جنہیں آرام پسند لوگوں نے دشوار قرار دے رکھا تھا اپنے لیے سہل و آسان سمجھ لیا ہے اور جن چیزوں سے جاہل بھڑک اٹھتے ہیں ان سے وہ جی لگائے بیٹھے ہیں .وہ ایسے جسموں کے ساتھ دنیامیں رہتے سہتے ہیں کہ جن کی روحیں ملائ اعلیٰ سے وابستہ ہیں یہی لوگ توزمین میں اللہ کے نائب اور اس کے دین کی طرف دعوت دینے والے ہیں .ہائے ان کی دید کے لیے میرے شوق کی فراوانی (پھر حضرت نے کمیل سے فرمایا)اے کمیل !(مجھے جو کچھ کہنا تھا کہہ چکا )اب جس وقت چاہو واپس جاؤ.


148 انسان اپنی زبان کے نیچے چھپا ہو ا ہے .

149 جو شخص اپنی قدرو منزلت کو نہیں پہچانتا وہ ہلاک ہو جاتا ہے .

150 ایک شخص نے آپ سے پندو موعظت کی درخواست کی ,تو فرمایا!
تم کوان لوگوں میں سے نہ ہونا چاہیے کہ جو عمل کے بغیر حسن انجا م کی امید رکھتے ہیں اور امید یں بڑھاکر تو بہ کو تاخیر میں ڈال دیتے ہیں جو دنیا کے بارے میں زاہدوں کی سی باتیں کرتے ہیں مگر ان کے اعمال دنیا طلبوں کے سے ہوتے ہیں .اگر دنیا انہیں ملے تو وہ سیر نہیں ہوتے اور اگر نہ ملے تو قناعت نہیں کرتے جو انہیں ملاہے اس پر شکر سے قاصر رہتے ہیں اور جو بچ رہا اس کے اضافہ کے خواہشمند رہتے ہیں دوسروں کو منع کرتے ہیں اور خود باز نہیں آتے اور دوسروں کو حکم دیتے ہیں ایسی باتوں کا جنہیں خود بجانہیں لاتے نیکوں کو دوست رکھتے ہیں مگر ان کے سے اعمال نہیں کرتے اور گنہگاروں سے نفرت و عناد رکھتے ہیں حالانکہ وہ خود انہی میں داخل ہیں اپنے گناہوں کی کثرت کے باعث موت کو برا سمجھتے ہیں مگر جن گناہوںکی وجہ سے موت کو ناپسند کرتے ہیں انہی پر قائم ہیں .اگر بیمار پڑتے ہیں تو پشیمان ہوتے ہیں . جب بیماری سے چھٹکارا پاتے ہیں تواترانے لگتے ہیں .اور مبتلا ہوتے ہیں تو ان پر مایوسی چھا جاتی ہے .جب کسی سختی و ابتلا میں پڑتے ہیں تو لاچار و بے بس ہوکر دعائیں مانگتے ہیں اور جب فراخ دستی نصیب ہوتی ہے تو فریب میں مبتلا ہو کر منہ پھیر لیتے ہیں .ان کا نفس خیالی باتوں پر انہیں قابو میں لے آتا ہے اور وہ یقینی باتوں پر اسے نہیں دبالیتے .دوسروں کے لیے گناہ سے زیادہ خطرہ محسوس کرتے ہیں اور اپنے لیے اپنے اعمال سے زیادہ جزا کے متوقع رہتے ہیں .اگر مالدار ہوجاتے ہیں تو اترانے لگتے ہیں اور اگر فقیر ہوجاتے ہیں تو ناامید ہوجاتے ہیں اور سستی کرنے لگتے ہیں .جب عمل کرتے ہیں تو اس میں سستی کرتے ہیں اور جب مانگنے پرآتے ہیں تو اصرار میں حد سے بڑھ جاتے ہیں .اگر ان پر خواہش نفسانی کا غلبہ ہوتا ہے تو گناہ جلد سے جلد کرتے ہیں ,اور توبہ کو تعویق میں ڈالتے رہتے ہیں ,اگر کوئی مصیبت لاحق ہوتی ہے تو جماعت اسلامی کے خصوصی امتیازات سے الگ ہوجاتے ہیں .عبرت کے واقعات بیان کرتے ہیں مگر خود عبرت حاصل نہیں کرتے اور وعظ و نصیحت میں زور باندھتے ہیں مگر خود اس نصیحت کا اثر نہیں لیتے چنانچہ وہ بات کرنے میں تو اونچے رہتے ہیں .مگر عمل میں کم ہی کم رہتے ہیں .فانی چیزوں میں نفسی نفسی کرتے ہیں اور باقی رہنے والی چیزوں میں سہل انگاری سے کام لیتے ہیں وہ نفع کو نقصان اور نقصا ن کو نفع خیال کرتے ہیں .موت سے ڈرتے ہیں .مگر فرصت کا موقع نکل جانے سے پہلے اعمال میں جلدی نہیں کرتے .دوسرے کے ایسے گناہ کو بہت بڑا سمجھتے ہیں جس سے بڑے گناہ کو خود اپنے لیے چھوٹا خیال کرتے ہیں .اور اپنی ایسی اطاعت کو زیادہ سمجھتے ہیں جسے دوسرے سے کم سمجھتے ہیں .لہٰذا وہ لوگوں پر معترض ہوتے ہیں اور اپنے نفس کی چکنی چپڑی باتوں سے تعریف کرتے ہیں .دولتمندوں کے ساتھ طرب ونشاط میں مشغول رہنا انہیں غریبوں کے ساتھ محفل ذکر میں شرکت سے زیادہ پسند ہے اپنے حق میں دوسرے کے حق میں اپنے خلاف حکم لگاتے ہیں لیکن کبھی یہ نہیں کرتے کہ دوسرے کے حق میں اپنے خلاف حکم لگائیں .اوروں کو ہدایت کرتے ہیں اور اپنے کو گمراہی کی راہ پر لگا تے ہیں وہ اطاعت لیتے ہیں اور خود نافرمانی کرتے ہیں او رحق پوراپور ا وصول کرلیتے ہیں مگر خود انہیں کرتے .وہ اپنے پروردگا ر کو نظر انداز کر کے مخلوق سے خو ف کھاتے ہیں اور مخلوقات کے بارے میں اپنے پروردگار سے نہیں ڈرتے .

151 ہر شخص کا ایک انجام ہے۔ اب خواہ وہ شیریں ہو یا تلخ۔
152 ہر آنے والے کے لیے پلٹنا ہے اور جب پلٹ گیا تو جیسے کبھی تھا ہی نہیں۔
153 صبر کرنے والا ظفرو کامرانی سے محروم نہیں ہوتا، چاہے اس میں طویل زمانہ لگ جائے.
154 کسی جماعت کے فعل پر رضا مند ہونے والا ایسا ہے جیسے اس کے کام میں شریک ہو۔ اور غلط کام میں شریک ہو نے والے پر دو گناہ ہیں۔ ایک اس پر عمل کرنے کا اور ایک اس پر رضا مند ہونے کا۔
155 عہد و پیمان کی ذمہ داریوں کو ان سے وابستہ کرو جو میخوں کے ایسے (مضبوط) ہوں۔
156 تم پر اطاعت بھی لازم ہے ان کی جن سے ناواقف رہنے کی بھی تمہیں معافی نہیں۔
157 اگر تم دیکھو، تو تمہیں دکھایا جاچکا ہے اور اگر تم ہدایت حاصل کرو تو تمہیں ہدایت کی جاچکی ہے اور اگر سننا چاہو تو تمہیں سنایا جاچکا ہے۔
158 اپنے بھائی کو شرمندہ احسان بنا کر سر زنش کرو اور لطف و کرم کے ذریعہ سے اس کے شر کو دور کرو۔
159 جوشخص بدنامی کی جگہوں پر اپنے کو لے جائے تو پھر اسے برا نہ کہے جو اس سے بدظن ہو.
160 جو اقتدار حاصل کرلیتا ہے جانبدار ی کرنے ہی لگتا ہے۔
161 جو خود رائی سے کام لے گا، وہ تباہ و برباد ہو گا اور جو دوسروں سے مشورہ لے گا وہ ان کی عقلوں میں شریک ہو جائے گا۔
162 جو اپنے راز کو چھپائے رہے گا اسے پورا قابو رہے گا۔
163 فقیری سب سے بڑی موت ہے۔
164 جو ایسے کا حق ادا کرے کہ جو اس کا حق ادا نہ کرتا ہو، تو وہ اس کی پرستش کرتا ہے۔
165 خالق کی معصیت میں کسی مخلوق کی اطاعت نہیں ہے۔
166 اگر کوئی شخص اپنے حق میں دیر کرے تو اس پر عیب نہیں لگایا جاسکتا۔ بلکہ عیب کی بات یہ ہے کہ انسان دوسرے کے حق پر چھاپا مارے۔
167 خود پسندی ترقی سے مانع ہوتی ہے.
168 آخرت کا مرحلہ قریب اور (دنیا میں) باہمی رفاقت کی مدت کم ہے۔
169 آنکھ والے کے لیے صبح روشن ہوچکی ہے۔
170 ترک گناہ کی منزل بعد میں مدد مانگنے سے آسان ہے۔
»«171بسا اوقات ایک دفعہ کا کھانا بہت دفعہ کے کھانوں سے مانع ہوجاتا ہے۔
172 لوگ اس چیز کے دشمن ہوتے ہیں جسے نہیں جانتے۔
173 جو شخص مختلف رایوں کا سامنا کرتا ہے وہ خطا و لغزش کے مقاما ت کو پہچان لیتا ہے۔
174 جو شخص اللہ کی خاطر سنان غضب تیز کرتا ہے، وہ باطل کے سورماؤں کے قتل پر توانا ہو جاتا ہے۔
175 جب کسی امر سے دہشت محسوس کرو تو اس میں پھاند پڑو، اس لیے کہ کھٹکا لگا رہنا اس ضرر سے کہ جس کا خوف ہے، زیادہ تکلیف دہ چیز ہے۔
176 سر برآوردہ ہونے کا ذریعہ سینہ کی وسعت ہے۔
177 بد کار کی سر زنش نیک کو اس کا بدلہ دے کر کرو۔
178 دوسرے کے سینہ سے کینہ و شرکی جڑ اس طرح کاٹو کہ خود اپنے سینہ سے اسے نکال پھینکو.
179 ضد اور ہٹ دھرمی صحیح رائے کو دور کردیتی ہے۔
180 لالچ ہمیشہ کی غلامی ہے۔
181 کوتاہی کا نتیجہ شرمندگی اوراحتیاط و دور اندیشی کا نتیجہ سلامتی ہے.
182 حکیمانہ بات سے خاموشی اختیار کرنے میں بھلائی نہیں جس طرح جہالت کی بات میں کوئی اچھائی نہیں۔
183 جب دو مختلف دعوتیں ہوں گی, تو ان میں سے ایک ضرور گمراہی کی دعوت ہوگی۔
184 جب سے مجھے حق دکھایا گیا ہے میں نے اس میں کبھی شک نہیں کیا۔
185 نہ میں نے جھوٹ کہا ہے نہ مجھے جھوٹی خبر دی گئی ہے نہ میں خود گمراہ ہوا، نہ مجھے گمراہ کیا گیا۔
186 ظلم میں پہل کرنے والا کل (مذامت سے) اپنا ہاتھ اپنے دانتوں سے کاٹتا ہوگا۔
187 چل چلاؤقریب ہے۔
188 جو حق سے منہ موڑ تا ہے، تباہ ہوجاتا ہے۔
189 جسے صبر رہائی نہیں دلاتا، اسے بے تابی و بے قرار ی ہلاک کر دیتی ہے۔
190 العجب کیا خلافت کا معیار بس صحابیت اور قرابت ہی ہے۔
191دنیا میں انسان موت کی تیر اندازی کا ہدف اور مصیبت و ابتلاء کی غارت گری کی جولانگاہ ہے جہاں ہر گھونٹ کے ساتھ اچھو اور ہر لقمہ میں گلو گیر پھندا ہے اور جہاں بندہ ایک نعمت اس وقت تک نہیں پاتا جب تک دوسری نعمت جدا نہ ہو جائے اور اس کی عمر کا ایک دن آتا نہیں جب تک کہ ایک دن اس کی عمر کا کم نہ ہوجائے ہم موت کے مددگار ہیں اور ہماری جانیں ہلاکت کی زد پر ہیں تو اس صورت میں ہم کہاں سے بقا کی امید کر سکتے ہیں جب کہ شب و روز کسی عمارت کو بلند نہیں کرتے مگر یہ کہ حملہ آور ہو کر جو بنایا ہے اسے گراتے اور جو یکجا کیا ہے اسے بکھیر تے ہوتے ہیں۔
192 اے فرزند آدم علیہ السّلام! تو نے اپنی غذا سے جو زیادہ کمایا ہے اس میں دوسرے کا خزانچی ہے۔
193 دلوں کے لیے رغبت و میلان، آگے بڑھنا اور پیچھے ہٹنا ہوتا ہے۔ لہٰذا ان سے اس وقت کام لو جب ان میں خواہش و میلان ہو، کیونکہ دل کو مجبور کرکے کسی کام پر لگایا جائے تو اسے کچھ سجھائی نہیں دیتا۔
194 جب غصہ مجھے آئے تو کب اپنے غصہ کو اتاروں کیا اس وقت کہ جب انتقام نہ لے سکوں اور یہ کہا جائے کہ صبر کیجئے۔ یا اس وقت کہ جب انتقام پر قدرت ہو اور کہا جائے کہ بہتر ہے درگزر کیجئے۔
195 آپ کا گزر ہوا ایک گھورے کی طر ف سے جس پر غلاظتیں تھیں۔ فرمایا۔ یہ وہ ہے جس کے ساتھ بخل کرنے والوں نے بخل کیا تھا.ایک اور روایت میں ہے کہ اس موقع پر آپ نے فرمایا :یہ وہ ہے جس پر تم لوگ کل ایک دوسرے پر رشک کرتے تھے۔
196 تمہار ا وہ مال اکارت نہیں گیا جو تمہارے لیے عبرت و نصیحت کا باعث بن جائے۔
197 یہ دل بھی اسی طرح تھکتے ہیں جس طرح بدن تھکتے ہیں۔ لہٰذا (جب ایسا ہو تو )ان کے لیے لطیف حکیمانہ جملے تلاش کرو
»«
199 بازاری آدمیوں کی بھیڑ بھاڑ کے بارے میں فرمایا: یہ وہ لوگ ہوتے ہیں کہ مجتمع ہوں تو چھا جاتے ہیں۔ جب منتشر ہوں تو پہچانے نہیں جاتے۔ ایک قول یہ ہے کہ آپ نے فرمایا :کہ جب اکٹھا ہوتے ہیں تو باعث ضرر ہوتے ہیں اور جب منتشر ہوجاتے ہیں تو فائدہ مند ثابت ہوتے ہیں لوگوں نے کہا کہ ہمیں ان کے مجتمع ہونے کا نقصان تو معلوم ہے مگر ان کے منتشر ہونے کا فائدہ کیا ہے؟ آپ نے فرمایا کہ پیشہ ور اپنے اپنے کاروبار کی طرف پلٹ جاتے ہیں تو لوگ ان کے ذریعہ فائدہ اٹھاتے ہیں جیسے معمار اپنی (زیر تعمیر )عمار ت کی طرف جولاہا اپنے کاروبار کی جگہ کی طرف اور نانبائی اپنے تنور کی طرف.
 
قمر صاحب اتنا بڑا مضمون پڑھ کر ہضم کرنا مشکل ہوتا ہے اس چیز کو بھی تو سمجھیں۔

ایک دو کی بجائے چار پانچ کر لیں روزانہ یا پہلے گن لیں کہ کل کتنے اقوال ہیں۔ ہزاروں سے زائد نہ ہوں گے اور ان اقوال پر تحقیق بھی کریں کہ یہ اقوال کن کتب میں درج ہیں اور ان کی سند کیا ہے۔
 
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبارکہ!
الصلوہ والسلام علیک و آلک واصحابک یا رسول اللہ
ماشاء اللہ عزوجل کیا خوب سلسلہ شروع کیا آپ نے جزاک اللہ خیر۔
مولا کائنات حضرت علی وجہہ الکریم کے صدقے اللہ عزوجل ہمارے دونوں جہاں کا بیڑا پار لگائے (امین)
خدا آپ کو جزاء خیر عطا فرمائے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سلسلہ کافی تویل ہے لیکن امید ہے انشاءاللہ عزوجل جاری و ساری رہے گا۔
والسلام
 
200 آپ کے سامنے ایک مجرم لایا گیا جس کے ساتھ تماشائیوں کا ہجوم تھا توآ پ نے فرمایا :ان چہروں پر پھٹکار کہ جو ہر رسوائی کے موقع پر ہی نظر آتے ہیں۔
201ہر انسان کے ساتھ دو فرشتے ہوتے ہیں جو اس کی حفاظت کرتے ہیں اور جب موت کا وقت آتا ہے تو وہ اس کے اور موت کے درمیان سے ہٹ جاتے ہیں اور بے شک انسان کی مقررہ عمر اس کے لیے ایک مضبوط سپر ہے.
202 طلحہ وزبیر نے حضرت سے کہا کہ ہم اس شرط پر آپ کی بیعت کرتے ہیں کہ اس حکومت میں آپ کے ساتھ شریک رہیں گے۔ آپ نے فرمایا کہ نہیں بلکہ تم تقویت پہنچانے اور ہاتھ بٹانے میں شریک اور عاجزی اور سختی کے موقع پر مددگار ہو گے.
203 اے لوگو! اللہ سے ڈرو کہ اگر تم کچھ کہو تو وہ سنتا ہے اور دل میں چھپاکر رکھو تو وہ جان لیتا ہے اس موت کی طر ف بڑھنے کا سرو سامان کرو کہ جس سے بھاگے تو وہ تمہیں پالے گی اور اگر ٹھہرے تو وہ تمہیں گرفت میں لے لے گی اور اگر تم اسے بھول بھی جاؤ تو وہ تمہیں یاد رکھے گی۔
204 کسی شخص کا تمہارے حسن سلوک پر شکر گزا ر نہ ہونا تمہیں نیکی اور بھلائی سے بددل نہ بنا دے اس لیے کہ بسا اوقات تمہاری اس بھلائی کی وہ قدر کرے گا، جس نے اس سے کچھ فائدہ بھی نہیں اٹھایا اور اس ناشکرے نے جتنا تمہاراحق ضائع کیا ہے، اس سے کہیں زیادہ تم ایک قدردان کی قدر دانی سے حاصل کرلو گے اور خدا نیک کام کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔
205 ہر ظرف اس سے کہ جو اس میں رکھا جائے تنگ ہوتا جاتا ہے، مگر علم کا ظرف وسیع ہوتا جاتا ہے۔
206 بردبار کو اپنی بردباری کا پہلا عوض یہ ملتا ہے۔ کہ لوگ جہالت دکھانے والے کے خلاف اس کے طرفدار ہوجاتے ہیں۔
207 اگر تم بردبار نہیں ہو تو بظاہر برد بار بننے کی کوشش کرو، کیونکہ ایسا کم ہوتا ہے کہ کوئی شخص کسی جماعت سے شباہت اختیار کرے اور ان میں سے نہ ہو جائے۔
208 جو شخص اپنے نفس کا محاسبہ کرتا ہے وہ فائدہ اٹھاتا ہے اور جو غفلت کرتا ہے وہ نقصان میں رہتا ہے جو ڈرتا ہے وہ (عذاب سے )محفوظ ہو جاتا ہے اور جو عبرت حاصل کرتا ہے وہ بینا ہوجاتا ہے اور جو بینا ہوجاتا ہے وہ بافہم ہوجاتا ہے اور جو بافہم ہوتا ہے اسے علم حاصل ہوتا ہے۔
209 یہ دنیا منہ زور ی دکھانے کے بعد پھر ہماری طرف جھکے گی جس طرح کاٹنے والی اونٹنی اپنے بچے کی طرف جھکتی ہے۔ اس کے بعد حضرت نے اس آیت کی تلاوت فرمائی۔ ہم یہ چاہتے ہیں کہ جو لوگ زمین میں کمزور کردیئے گئے ہیں، ان پر احسان کریں اور ان کو پیشوا بنائیں اور انہی کو اس زمین کا مالک بنائیں۔
»«210 اللہ سے ڈرو اس شخص کے ڈرنے کے مانند جس نے دنیا کی وابستگیوں کو چھوڑ کر دامن گردان لیا اور دامن گردان کر کوشش میں لگ گیا اور اچھائیوں کے لیے اس وقفہ حیات میں تیز گامی کے ساتھ چلا اور خطروں کے پیش نظر اس نے نیکیوں کی طرف قدم بڑھایا اور اپنی قرار گاہ اور اپنے اعمال کے نتیجہ اور انجام کار کی منزل پر نظر رکھی۔
211 سخاوت عزت آبر و کی پاسبان ہے بُرد باری احمق کے منہ کا تسمہ ہے، درگزر کرنا کامیابی کی زکوٰۃ ہے، جو غداری کرے اسے بھول جانا اس کا بدل ہے۔ مشورہ لینا خود صحیح راستہ پا جانا ہے جو شخص رائے پر اعتماد کرکے بے نیاز ہوجاتا ہے وہ اپنے کو خطرہ میں ڈالتا ہے۔ صبر مصائب و حوادث کا مقابلہ کرتا ہے۔ بیتابی و بیقرار ی زمانہ کے مدد گاروں میں سے ہے۔ بہتر ین دولتمندی آرزوؤں سے ہاتھ اٹھا لینا ہے۔ بہت سی غلام عقلیں امیروں کی ہوا و ہوس کے بارے میں دبی ہوئی ہیں۔ تجربہ و آزمائش کی نگہداشت حسن توفیق کا نتیجہ ہے دوستی و محبت اکتسابی قرابت ہے جو تم سے رنجیدہ و دل تنگ ہو اس پر اطمینا ن و اعتماد نہ کرو۔
212 انسان کی خود پسندی اس کی عقل کے حریفوں میں سے ہے۔
213 تکلیف سے چشم پوشی کر و۔ ورنہ کبھی خوش نہیں رہ سکتے۔
214 جس (درخت) کی لکڑی نرم ہو اس کی شاخیں گھنی ہوتی ہیں۔
215 مخالفت صحیح رائے کو برباد کردیتی ہے۔
216 جو منصب پالیتا ہے دست درازی کرنے لگتا ہے۔
217 حالات کے پلٹوں ہی میں مردوں کے جوہر کھلتے ہیں۔
218 دوست کا حسد کرنا دوستی کی خامی ہے۔
219 اکثر عقلوں کا ٹھوکر کھا کر گرنا طمع و حرص کی بجلیاں چمکنے پرہوتا ہے۔
220 یہ انصاف نہیں ہے کہ صرف ظن و گمان پر اعتماد کرتے ہوئے فیصلہ کیا جائے۔
221 آخرت کے لیے بہت برا توشہ ہے بندگا ن خدا پر ظلم و تعدی کرنا۔
222 بلند انسان کے بہتر ین افعال میں سے یہ ہے کہ وہ ان چیزوں سے چشم پوشی کرے جنہیں وہ نہیں جانتا ہے۔
223 جس پر حیا نے اپنا لباس پہنا دیا ہے اس کے عیب لوگوں کی نظروں کے سامنے نہیں آسکتے۔
224 زیادہ خاموشی رعب و ہیبت کا باعث ہوتی ہے۔ اور انصاف سے دوستوں میں اضافہ ہوتا ہے لطف و کرم سے قدر و منزلت بلند ہوتی ہے جھک کر ملنے سے نعمت تمام ہوتی ہے۔ دوسروں کا بوجھ بٹانے سے لازماً سرداری حاصل ہوتی ہے اور خوش رفتاری سے کینہ ور دشمن مغلوب ہوتا ہے اور سر پھر ے آدمی کے مقابلہ میں بردباری کرنے سے اس کے مقابلہ میں اپنے طرفدار زیادہ ہوجاتے ہیں۔
225 تعجب ہے کہ حاسد جسمانی تندرستی پر حسد کرنے سے کیوں غافل ہوگئے.
226 طمع کرنے والا ذلت کی زنجیروں میں گرفتار رہتا ہے۔
227 آپ سے ایمان کے متعلق پوچھا گیا تو فرمایا کہ ایمان دل سے پہچاننا، زبان سے اقرار کرنا اور اعضا سے عمل کرنا ہے.
228 جو دنیا کے لیے اندوہناک ہو وہ قضا و قدر الہی سے ناراض ہے اور جو اس مصیبت پر کہ جس میں مبتلا ہے شکوہ کرے تو وہ اپنے پروردگار کا شاکی ہے اور جو کسی دولت مند کے پاس پہنچ کر اس کی دولتمندی کی وجہ سے جھکے تو اس کا دو تہائی دین جاتا رہتا ہے اور جو شخص قرآن کی تلاوت کرے پھر مر کر دوزخ میں داخل ہو تو ایسے ہی لوگوں میں سے ہوگا، جو اللہ کی آیتوں کا مذاق اڑاتے تھے اور جس کا دل دنیا کی محبت میں وارفتہ ہوجائے تو اس کے دل میں دنیا کی یہ تین چیزیں پیوست ہوجاتی ہیں۔ ایسا غم کہ جو اس سے جدا نہیں ہوتا اور ایسی حرص کہ جو اس کا پیچھا نہیں چھوڑتی اور ایسی امید کہ جو بر نہیں آتی۔
»«230 جس کی طرف فراخِ روزی کئے ہوئے ہو اس کے ساتھ شرکت کرو، کیونکہ اس میں دولت حاصل کرنے کا زیادہ امکان اور خوش نصیبی کا زیادہ قرینہ ہے۔
231خدا وند عالم کے ارشاد کے مطابق کہ اللہ تمہیں عدل و احسان کا حکم دیتا ہے۔ فرمایا ! عدل انصاف ہے اور احسان لطف و کرم۔
232 جو عاجز و قاصر ہاتھ سے دیتا ہے اسے بااقتدار ہاتھ سے ملتا ہے۔
233 اپنے فرزند امام حسن علیہ السّلام سے فرمایا :
کسی کو مقابلہ کے لیے خود نہ للکارو۔ ہاں اگر دوسرا للکارے تو فورا ًجواب دو۔ اس لیے کہ جنگ کی خود سے دعوت دینے والا زیادتی کرنے والا ہے، اور زیادتی کرنے والا تباہ ہوتا ہے۔
234 عورتوں کی بہتر ین خصلتیں وہ ہیں جو مردوں کی بدترین صفتیں ہیں۔ غرور، بزدلی اور کنجوسی اس لیے کہ عورت جب مغرور ہوگی، تو وہ کسی کو اپنے نفس پر قابو نہ دے گی اور کنجوس ہوگی تو اپنے اور شوہر کے مال کی حفاظت کرے گی اور بزدل ہوگی تو وہ ہر اس چیز سے ڈرے گی جو پیش آئے گی۔
235 آپ علیہ السّلام سے عرض کیاگیا کہ عقلمند کے اوصاف بیان کیجئے۔ فرمایا! عقلمند وہ ہے جو ہر چیز کو اس کے موقع و محل پر رکھے۔ پھر آپ سے کہا گیا کہ جاہل کا وصف بتایئے تو فرمایا میں بیان کر چکا۔
236 خد ا کی قسم تمہاری یہ دنیا میرے نزدیک سور کی انتڑیوں سے بھی زیادہ ذلیل ہے جو کسی کوڑھی کے ہاتھ میں ہوں۔
237 ایک جماعت نے اللہ کی عبادت ثواب کی رغبت و خواہش کے پیشِ نظر کی، یہ سودا کرنے والوں کی عبادت ہے اور ایک جماعت نے خوف کی وجہ سے اس کی عبادت کی، اور یہ غلاموں کی عبادت ہے او ر ایک جماعت نے ازروئے شکر و سپاس گزاری اس کی عبادت کی، یہ آزادوں کی عبادت ہے۔
238 عورت سراپا برائی ہے اور سب سے بڑی برائی اس میں یہ ہے کہ اس کے بغیر چارہ نہیں۔
239 جو شخص سستی و کاہلی کرتاہے وہ اپنے حقوق کو ضائع وبرباد کردیتا ہے اور جو چغل خور کی بات پر اعتماد کر تا ہے، وہ دوست کو اپنے ہاتھ سے کھو دیتا ہے.
240 گھر میں ایک غصبی پتھر اس کی ضمانت ہے کہ وہ تباہ و بربا د ہوکر رہے گا۔
241 مظلوم کے ظالم پر قابو پانے کا دن اس دن سے کہیں زیادہ ہوگا جس میں ظالم مظلوم کے خلاف اپنی طاقت دکھاتا ہے۔
242 اللہ سے کچھ تو ڈرو، چاہے وہ کم ہی ہو، اور اپنے اور اللہ کے درمیان کچھ تو پردہ رکھو، چاہے وہ باریک ہی سا ہو۔
243 جب (ایک سوال کے لیے) جوابات کی بہتات ہوجائے توصحیح بات چھپ جایا کرتی ہے۔
244 بے شک اللہ تعالیٰ کے لیے ہر نعمت میں حق ہے تو جو اس حق کو ادا کرتا ہے، اللہ اس کے لیے نعمت کو اوربڑھاتا ہے۔ اور جو کوتاہی کرتا ہے وہ موجودہ نعمت کو بھی خطرہ میں ڈالتا ہے۔
245 جب مقدرت زیادہ ہوجاتی ہے تو خواہش کم ہوجاتی ہے۔
246 نعمتوں کے زائل ہونے سے ڈرتے رہو کیونکہ ہر بے قابو ہوکر نکل جانے والی چیز پلٹا نہیں کرتی۔
247 جذبہ کرم رابطہ قرابت سے زیادہ لطیف و مہر بانی کا سبب ہوتا ہے۔
248 جو تم سے حسن ظن رکھے، اس کے گمان کو سچاثابت کرو۔
249 بہترین عمل وہ ہے جس کے بجالانے پر تمہیں اپنے نفس کو مجبور کرنا پڑے۔
250 میں نے اللہ سبحانہ کو پہچانا ارادوں کے ٹوٹ جانے,نیتوں کے بدل جانے، اور ہمتوں کے پست ہوجانے سے۔
251 دنیا کی تلخی آخرت کی خوشگواری ہے اور دنیا کی خوشگواری آخرت کی تلخی ہے۔
252 خداوند عالم نے ایمان کا فریضہ عائد کیا شرک کی آلودگیوں سے پاک کرنے کے لیے۔ اور نماز کو فرض کیا رعونت سے بچانے کے لیے اور زکوۃ کو رزق کے اضافہ کا سبب بنانے کے لیے، اور روزہ کو مخلوق کے اخلاص کو آزمانے کے لیے اور حج کو دین کو تقویت پہنچانے کے لیے، اور جہاد کو اسلام کو سرفرازی بخشنے کے لیے، اور امر بالمعروف کو اصلاحِ خلائق کے لیے اور نہی عن المنکر کو سرپھروں کی روک تھام کے لیے اور حقوقِ قرابت کے ادا کرنے کو (یار و انصار کی) گنتی بڑھانے کے لیے اور قصاص کو خونریزی کے انسداد کے لیے اور حدود شرعیہ کے اجراء کو محرمات کی اہمیت قائم کرنے کے لیے اور شراب خوری کے ترک کو عقل کی حفاظت کے لیے اور چوری سے پرہیز کو پاک بازی کا باعث ہونے کے لیے اور زنا سے بچنے کو نسب کے محفوظ رکھنے کے لیے اور اغلام کے ترک کو نسل بڑھانے کے لیے اور گواہی کو انکارِ حقوق کے مقابلہ میں ثبوت مہیا کرنے کے لیے اور جھوٹ سے علحیدگی کو سچائی کا شرف آشکارا کرنے کے لیے اور قیامِ امن کو خطروں سے تحفظ کے لیے اور امانتوں کی حفاظت کو امت کا نظام درست رکھنے کے لیے اور اطاعت کو امامت کی عظمت ظاہر کرنے کے لیے
253 آپؑ فرمایا کرتے تھے کہ اگر کسی ظالم سے قسم لینا ہو تو اس سے اس طرح حلف اٹھواؤ کہ وہ اللہ کی قوت و توانائی سے بری ہے؟ کیونکہ جب وہ اس طرح جھوئی قسم کھائے گا تو جلد اس کی سزا پائے گا اور جب یوں قسم کھائے کہ قسم اُس اللہ کی جس کے علاوہ کوئی معبود نہیں تو جلد اس کی گرفت نہ ہو گی، کیونکہ اُس نے اللہ کو وحدت و یکتائی کے ساتھ یاد کیا ہے۔
254 اے فرزندِ آدم! اپنے مال میں اپنا وصی خود بن اور جو تو چاہتا ہے کہ تیرے بعد تیرے مال میں سے خیر خیرات کی جائے، وہ خود انجام دے دے۔
255 غصہ ایک قسم کی دیوانگی ہے کیونکہ غصہ ور بعد میں پشیمان ضرور ہوتا ہے اور اگر پشیمان نہیں ہوتا تو اُس کی دیوانگی پختہ ہے۔
256 حسد کی کمی بدن کی تندرستی کا سبب ہے۔
257 کمیل ابن زیاد نخعی سے فرمایا: اے کمیل! اپنے عزیز و اقارب کو ہدایت کرو کہ وہ اچھی خصلتوں کو حاصل کرنے کے لیے دن کے وقت نکلیں اور رات کو سو جانے والے کی حاجت روائی کو چل کھڑے ہوں ۔ اُس ذات کی قسم جس کی قوتِ شنوائی تمام آوازوں پر حاوی ہے، جِس کسی نے بھی کسی کے دل کو خوش کیا تو اللہ اُس کے لیے اُس سرور سے ایک لطفِ خاص خلق فرمائے گا کہ جب بھی اُس پر کوئی مصیبت نازل ہو تو وہ نشیب میں بہنے والے پانی کی طرح تیزی سے بڑھے اور اجنبی اونٹوں کو ہنکانے کی طرح اس مصیبت کو ہنکا کر دور کر دے۔
258 جب تنگدست ہو جاؤ تو صدقہ کے ذریعے بچو۔
259 غداروں سے وفا کرنا اللہ کے نزدیک غداری ہے اور غداروں کے ساتھ غداری کرنا اللہ کے نزدیک عین وفا ہے۔
260 کتنے ہی لوگ ایسے ہیں جنہیں نعمتیں دے کر رفتہ رفتہ عذاب کا مستحق بنایا جاتا ہے اور کتنے ہی لوگ ایسے ہیں کہ جو اللہ کی پردہ پوشی سے دھوکا کھائے ہوئے ہیں اوراپنے بارے میں اچھے الفاظ سن کر فریب میں پڑ گئے اور مہلت دینے سے زیادہ اللہ کی جانب سے کوئی بڑی آزمائش نہیں ہے۔
261 جب امیرالمومنین علیہ السلام کو یہ اطلاع ملی کہ معاویہ کے ساتھیوں نے (شہر)انبار پر دھاوا کیا تو آپ بنفس نفیس پیادہ پا چل کھڑے ہوئے۔ یہاں تک کہ نخیلہ تک پہنچ گئے، اتنے میں لوگ بھی آپ کے پاس پہنچ گئے اور کہنے لگے یا امیر المومنین علیہ السّلام ! ہم دشمن سے نپٹ لیں گے۔ آ پ کے تشریف لے جانے کی ضرورت نہیں۔ آپ نے فرمایا کہ تم اپنے سے تو میرا بچاؤ کر نہیں سکتے دوسروں سے کیا بچاؤ کرو گے۔ مجھ سے پہلے رعایا اپنے حاکموں کے ظلم و جورکی شکایت کیا کرتی تھی مگر میں آج اپنی رعیت کی زیادتیوں کا گلہ کرتا ہوں، گویا کہ میں رعیت ہوں اور وہ حاکم اور میں حلقہ بگوش ہوں اور وہ فرمانروا۔
262 بیان کیا گیا ہے کہ حارث ابن حوط حضرت کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا کہ کیا آپ کے خیال میں اس کا گمان بھی ہوسکتا ہے کہ اصحاب جمل گمراہ تھے؟
حضرت نے فرمایا کہ اے حارث !تم نے نیچے کی طرف دیکھا اوپر کی طر ف نگا ہ نہیں ڈالی، جس کے نتیجہ میں تم حیران و سر گردان ہوگئے ہو، تم حق ہی کو نہیں جانتے کہ حق والوں کو جانو اور باطل ہی کو نہیں پہچانتے کہ باطل کی راہ پر چلنے والوں کو پہچانو۔
حارث نے کہا کہ میں سعد ابن مالک اور عبداللہ ابن عمر کے ساتھ گوشہ گزیں ہوجاؤں گا۔
حضرت نے فرمایا کہ !
سعد اور عبداللہ ابن عمر نے حق کی مدد کی، اور نہ باطل کی نصرت سے ہاتھ اٹھایا۔
263 باد شاہ کا ندیم و مصاحب ایسا ہے جیسے شیر پر سوار ہونے والا کہ اس کے مرتبہ پر رشک کیا جاتا ہے وہ اپنے موقف سے خوب واقف ہے۔
264 دوسروں کے پسماندگان سے بھلائی کرو۔ تاکہ تمہارے پسماند گان پر بھی نظرشفقت پڑے۔
265 جب حکماء کا کلا م صحیح ہو تو وہ دوا ہے اور غلط ہوتو سراسر مرض ہے.
266 حضرت سے ایک شخص نے سوال کیا کہ ایمان کی تعریف کیا ہے؟ آپ نے فرمایا کہ کل میرے پاس آنا تاکہ میں تمہیں اس موقع پربتاؤں کہ دوسرے لوگ بھی سن سکیں کہ اگر تم بھول جاؤتو دوسرے یاد رکھیں۔ اس لیے کلام بھڑکے ہوئے شکار کے مانند ہوتاہے کہ اگر ایک کی گرفت میں آجاتا ہے اور دوسرے کے ہاتھ سے نکل جاتا ہے۔
»«267 اے فرزند آدم علیہ السّلام ! اس دن کی فکر کا بارجو ابھی آیا نہیں، آج کے اپنے دن پر نہ ڈال کہ جو آچکا ہے۔ اس لیے کہ اگرایک دن بھی تیری عمر کا باقی ہوگا، تواللہ تیرا رزق تجھ تک پہنچائے گا۔
268 اپنے دوست سے بس ایک حد تک محبت کرو کیونکہ شاید کسی دن وہ تمہارا دشمن ہوجائے اور دشمن کی دشمنی بس ایک حد تک رکھو ہوسکتا ہے کہ کسی دن وہ تمہار ا دوست ہوجائے۔
269 دنیا میں کام کرنے والے دو قسم کے ہیں ایک وہ جو دنیا کے لیے سر گرم عمل رہتا ہے اور اسے دنیا نے آخرت سے روک رکھا ہے۔ وہ اپنے پسماندگا ن کے لیے فقر و فاقہ کا خوف کرتا ہے مگر اپنی تنگدستی سے مطمئن ہے تو وہ دوسروں کے فائدہ ہی میں پوری عمر بسر کردیتاہے اور ایک وہ ہے جو دنیا میں رہ کر اس کے لیے عمل کرتا ہے تو اسے تگ ودو کئے بغیر دنیا بھی حاصل ہوجاتی ہے اور اس طرح وہ دونوں حصوں کو سمیٹ لیتا ہے اور دونوں گھر وں کا مالک بن جاتا ہے وہ اللہ کے نزدیک باوقار ہوتا ہے اور اللہ سے کوئی حاجت نہیں مانگتا جو اللہ پوری نہ کرے۔
270 بیان کیا گیا ہے کہ عمر ابن خطاب کے سامنے خانہ کعبہ کے زیورات اور ان کی کثرت کا ذکر ہوا تو کچھ لوگوں نے ان سے کہا کہ اگرآپ ان زیورات کو لے لیں اور انہیں مسلمانوں کے لشکر پر صرف کرکے ان کی روانگی کا سامان کریں تو زیادہ باعث اجر ہوگا، خانہ کعبہ کو ان زیورات کی کیا ضرورت ہے۔ چنانچہ عمر نے اس کا ارادہ کر لیا اور امیرالمومنین علیہ السلام سے اس کے بار ے میں مسئلہ پوچھا۔
آپ نے فرمایا کہ جب قرآن مجید نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل ہوا تو اس وقت چار قسم کے اموال تھے، ایک مسلمانوں کا ذاتی مال تھا اسے آپ نے ان کے وارثوں میں ان کے حصہ کے مطابق تقسیم کرنے کا حکم دیا۔ دوسرا مال غنیمت تھا، اسے اس کے مستحقین پر تقسیم کیا۔ تیسرا مال خمس تھا، اس مال کے اللہ تعالیٰ نے خاص مصارف مقرر کردیئے۔ چوتھے زکوٰۃ و صدقات تھے۔ انہیں اللہ نے وہاں صرف کرنے کاحکم دیا جو ان کامصرف ہے۔ یہ خانہ کعبہ کے زیورات اس زمانہ میں بھی موجود تھے لیکن اللہ نے ان کو ان کے حال پر رہنے دیا اور ایسا بھولے سے تو نہیں ہوا، اور نہ ان کا وجود اس پر پوشیدہ تھا۔ لہٰذا آپ بھی انہیں وہیں رہنے دیجئے جہاں اللہ اور اس کے رسول نے انہیں رکھاہے۔ یہ سن کر عمر نے کہا کہ اگر آپ نہ ہوتے تو ہم رسوا ہوجاتے اور زیورات ان کی حالت پر رہنے دیا۔
»
272 اگران پھسلنوں سے بچ کر میرے پرجم گئے تومیں بہت سی چیزوں میں تبدیلی کر دوں گا۔
273 پورے یقین کے ساتھ اس امر کو جانے رہو کہ اللہ سبحانہ نے کسی بندے کے لیے چاہے اس کی تدبیریں بہت زبردست اس کی جستجو شدید اور اس کی ترکیبیں طاقت ور ہوں اس سے زائد رزق قرار نہیں دیا جتنا کہ تقدیر الہی میں اس کے لیے مقرر ہوچکا ہے۔ اور کسی بندے کے لیے اس کمزوری و بے چارگی کی وجہ سے لوح محفو ظ میں اس کے مقررہ رزق تک پہنچنے میں رکاوٹ نہیں ہوتی۔ اس حقیقت کو سمجھنے والا اور اس پر عمل کر نے والا سود و منفعت کی راحتوں میں سب لوگوں سے بڑھ چڑھ کر ہے اور اسے نظر انداز کرنے اوراس میں شک و شبہ کرنے والا سب لوگوں سے زیادہ زیاں کاری میں مبتلاہے بہت سے وہ جنہیں نعمتیں ملی ہیں، نعمتوں کی بدولت کم کم عذا ب کے نزدیک کئے جارہے ہیں، اور بہت سوں کے ساتھ فقر فاقہ کے پردہ ہیں اللہ کا لطف وکرم شامل حال ہے لہٰذا اسے سننے والے شکر زیادہ اور جلد بازی کم کر اور جو تیری روزی کی حدہے اس پر ٹھہرا رہ.
274 اپنے علم کو اور اپنے یقین کو شک نہ بناؤ جب جان لیا تو عمل کرو، اور جب یقین پیدا ہوگیا تو آگے بڑھو۔
275 طمع گھاٹ پر اتارتی ہے مگر سیراب کئے بغیر پلٹا دیتی ہے۔ ذمہ داری کا بوجھ اٹھاتی ہے مگر اسے پورا نہیں کرتی۔ اور اکثر ایسا ہوتا ہے کہ پانی پینے والے کو پینے سے پہلے ہی اچھو ہوجاتا ہے۔ اور جتنی کسی مرغوب و پسندیدہ چیز کی قدر و منزلت زیادہ ہوتی ہے اتنا ہی اسے کھودینے کا رنج زیادہ ہوتا ہے۔ آرزوئیں دیدہ و بصیرت کو اندھا کردیتی ہیں اور جو نصیب میں ہوتا ہے پہنچنے کی کوشش کئے بغیر مل جاتا ہے۔
276 اے اللہ !میں تجھ سے پناہ مانگتا ہوں اس سے کہ میرا ظاہر لوگوں کی چشمِ ظاہر بین میں بہتر ہو اور جو اپنے باطن میں چھپائے ہوئے ہوں، وہ تیری نظروں میں برا ہو۔ درآں حالیکہ میں لوگوں کے دکھاوے کے لیے اپنے نفس سے ان چیزوں سے نگہداشت کروں۔ جن سب سے تو آگا ہ ہے۔ اس طرح لوگوں کے سامنے تو ظاہر کے اچھا ہونے کی نمائش کروں اور تیرے سامنے اپنی بداعمالیوں کو پیش کر تا رہوں جس کے نتیجہ میں تیرے بندوں سے تقرب حاصل کر ں، اور تیری خوشنودیوں سے دور ہی ہوتا چلاجاؤں۔
277 (کسی موقع پرقسم کھاتے ہوئے ارشاد فرمایا)اس ذات کی قسم جس کی بدولت ہم نے ایسی شبِ تار کے باقی ماندہ حصہ کو بسر کردیا۔ جس کے چھٹتے ہی روز ِدرخشاں ظاہر ہوگا ایسا اور ایسا نہیں ہوا.
278 وہ تھوڑ اعمل جو پابندی سے بجالایا جاتا ہے زیادہ فائدہ مند ہے اس کثیر عمل سے کہ جس سے دل اکتا جائے۔
279 جب مستحبات فرائض میں سدِ راہ ہوں تو انہیں چھوڑ دو.
280 جو سفرکی دوری کو پیش نظر رکھتا ہے وہ کمر بستہ رہتاہے۔
281 آنکھوں کا دیکھنا حقیقت میں دیکھنا نہیں کیونکہ آنکھیں کبھی اپنے اشخاص سے غلط بیانی بھی کرجاتی ہیں مگر عقل اس شخص کو جو اس سے نصیحت چاہے کبھی فریب نہیں دیتی۔
282 تمہارے اور پند و نصیحت کے درمیان غفلت کا ایک بڑا پردہ حائل ہے۔
283 تمہارے جاہل دولت زیادہ پاجاتے ہیں اور عالم آئندہ کے توقعات میں مبتلا رکھے جاتے ہیں۔
284 علم کا حاصل ہوجانا، بہانے کرنے والوں کے عذر کو ختم کردیتا ہے۔
285 جسے جلدی سے موت آجاتی ہے وہ مہلت کا خواہاں ہوتا ہے اور جسے مہلت زندگی دی گئی ہے وہ ٹال مٹول کرتارہتا ہے۔
»«
287 آپ سے قضا و قدر کے متعلق پوچھا گیا تو آپ علیہ السّلام نے فرمایا ! یہ ایک تاریک راستہ ہے اس میں قدم نہ اٹھاؤ.ایک گہرا سمندر ہے۔ اس میں نہ اترو اللہ کا ایک راز ہے اسے جاننے کی زحمت نہ اٹھاؤ.
288 اللہ جس بندے کو ذلیل کرنا چاہتا ہے اسے علم و دانش سے محروم کردیتاہے۔
289 عہد ماضی میں میر اایک دینی بھائی تھا اور وہ میری نظروں میں اس وجہ سے باعزت تھا کہ دنیااس کی نظروں میں پست و حقیر تھی۔ اس پر پیٹ کے تقاضے مسلط نہ تھے۔ لہٰذا جوچیز اُسے میسر نہ تھی اس کی خواہش نہ کرتا تھا اور جو چیز میسر تھی اسے ضرورت سے زیادہ صرف میں نہ لاتا تھا۔ وہ اکثر اوقات خاموش رہتا تھا اور اگر بولتا تھا تو بولنے والوں کو چپ کرادیتا تھا اور سوال کرنے والوں کی پیاس بجھا دیتا تھا۔ یوں تو وہ عاجز و کمزور تھا، مگر جہاد کا موقع آجائے تو وہ شیر بیشہ اور وادی کا اژدھا تھا۔ وہ جو دلیل و برہان پیش کرتا تھا، وہ فیصلہ کن ہوتی تھی۔ وہ ان چیزوں میں کہ جن میں عذر کی گنجائش ہوتی تھی، کسی کو سرزنش نہ کرتا تھا جب تک کہ اس کے عذر معذرت کو سن نہ لے وہ کسی تکلیف کا ذکر نہ کرتا تھا، مگر اس وقت کہ جب اس سے چھٹکارا پا لیتا تھا، وہ جو کرتا تھا، وہی کہتا تھا اور جو نہیں کرتا تھا وہ اسے کہتا نہیں تھا.اگر بولنے میں اس پر کبھی غلبہ پا بھی لیا جائے تو خاموشی میں اس پر غلبہ حاصل نہیں کیا جاسکتا تھا.وہ بولنے سے زیادہ سننے کا خواہشمند رہتا تھا اور جب اچانک اس کے سامنے دوچیزیں آجاتی تھیں تو دیکھتا تھا کہ ان دونوں میں سے ہوائے نفس کے زیادہ قریب کون ہے تو وہ اس کی مخالفت کرتا تھا۔ لہٰذا تمہیں ان عادات و خصائل کو حاصل کرنا چاہیے اور ان پر عمل پیرا اور ان کا خواہشمند رہنا چاہیے اگر ان تما م کا حاصل کرنا تمہاری قدرت سے باہر ہو تو اس بات کو جانے رہو کہ تھوڑی سی چیز حاصل کرنا پور ے کے چھوڑ دینے سے بہتر ہے۔
290 اگر خداوند عالم نے اپنی معصیت کے عذاب سے نہ ڈرایا ہوتا، جب بھی اس کی نعمتوں پر شکر کا تقاضا یہ تھا کہ اس کی معصیت نہ کی جائے۔
291 اشعث ابن قیس کو اس کے بیٹے کا پرسا دیتے ہوئے فرمایا:
اے اشعث !اگرتم اپنے بیٹے پر رنج وملال کرو تو یہ خون کا رشتہ اس کا سزا وار ہے، اور اگرصبر کرو تو اللہ کے نزدیک ہر مصیبت کا عوض ہے۔ اے اشعث !اگرتم نے صبر کیا تو تقدیر الہی نافذ ہوگی اس حال میں کہ تم اجر و ثواب کے حقدار ہو گے اور اگر چیخے چلائے، جب بھی حکم قضا کا جاری ہو کر رہے گا۔ مگر اس حال میں کہ تم پر گناہ کا بوجھ ہوگا۔ تمہارے لیے بیٹا مسرت کا سبب ہوا حالانکہ وہ ایک زحمت و آزمائش تھا اور تمہارے لیے رنج واندوہ کا سبب ہوا حالانکہ وہ (مرنے سے )تمہارے لیے اجر و رحمت کا باعث ہوا ہے۔
292 رسول اللہ صلی علیہ وآلہ وسلم کے دفن کے وقت قبر پر یہ الفاظ کہے۔
صبر عموماًاچھی چیز ہے سوائے آپ کے غم کے اور بیتابی و بے قراری عموما ًبری چیز ہے سوائے آپ کی وفات کے اور بلاشبہ آپ کی موت کا صدمہ عظیم ہے، اور آپ سے پہلے اور آپ کے بعد آنے والی مصیبت سبک ہے.
293 بے وقوف کی ہم نشینی اختیا ر نہ کرو کیونکہ وہ تمہارے سامنے اپنے کاموں کو سجا کر پیش کرے گا اور یہ چاہے گا کہ تم اسی کے ایسے ہوجاؤ.
»«»«
295 تین قسم کے تمہارے دوست ہیں اور تین قسم کے دشمن۔ دوست یہ ہیں :تمہارا دوست، تمہارے دوست کا دوست، اور تمہارے دشمن کا دشمن اور دشمن یہ ہیں :تمہار ا دشمن، تمہارے دوست کا دشمن اورتمہارے دشمن کا دوست۔
296 حضرت نے ایک ایسے شخص کو دیکھا کہ وہ اپنے دشمن کو ایسی چیز کے ذریعہ سے نقصان پہنچانے کے درپے ہے جس میں خود اس کو بھی نقصان پہنچے گا، تو آ پ نے فرمایا کہ تم اس شخص کی مانند ہوجو اپنے پیچھے والے سوار کو قتل کرنے کے لیے اپنے سینہ میں نیزہ مارے۔
297 نصیحتیں کتنی زیادہ ہیں اور ان سے اثر لینا کتنا کم ہے۔
298 جو لڑائی جھگڑے میں حد سے بڑھ جائے وہ گنہگار ہوتا ہے اور جو اس میں کمی کرے، اس پر ظلم ڈھائے جاتے ہیں اور جو لڑتا جھگڑتا ہے اس کے لیے مشکل ہوتا ہے کہ وہ خوف خدا قائم رکھے۔
299 وہ گناہ مجھے اندوہناک نہیں کرتا جس کے بعد مجھے مہلت مل جائے کہ میں دو رکعت نماز پڑھوں اور اللہ سے امن و عافیت کاسوال کروں۔
 
200 آپ کے سامنے ایک مجرم لایا گیا جس کے ساتھ تماشائیوں کا ہجوم تھا توآ پ نے فرمایا :ان چہروں پر پھٹکار کہ جو ہر رسوائی کے موقع پر ہی نظر آتے ہیں۔
201ہر انسان کے ساتھ دو فرشتے ہوتے ہیں جو اس کی حفاظت کرتے ہیں اور جب موت کا وقت آتا ہے تو وہ اس کے اور موت کے درمیان سے ہٹ جاتے ہیں اور بے شک انسان کی مقررہ عمر اس کے لیے ایک مضبوط سپر ہے.
202 طلحہ وزبیر نے حضرت سے کہا کہ ہم اس شرط پر آپ کی بیعت کرتے ہیں کہ اس حکومت میں آپ کے ساتھ شریک رہیں گے۔ آپ نے فرمایا کہ نہیں بلکہ تم تقویت پہنچانے اور ہاتھ بٹانے میں شریک اور عاجزی اور سختی کے موقع پر مددگار ہو گے.
203 اے لوگو! اللہ سے ڈرو کہ اگر تم کچھ کہو تو وہ سنتا ہے اور دل میں چھپاکر رکھو تو وہ جان لیتا ہے اس موت کی طر ف بڑھنے کا سرو سامان کرو کہ جس سے بھاگے تو وہ تمہیں پالے گی اور اگر ٹھہرے تو وہ تمہیں گرفت میں لے لے گی اور اگر تم اسے بھول بھی جاؤ تو وہ تمہیں یاد رکھے گی۔
204 کسی شخص کا تمہارے حسن سلوک پر شکر گزا ر نہ ہونا تمہیں نیکی اور بھلائی سے بددل نہ بنا دے اس لیے کہ بسا اوقات تمہاری اس بھلائی کی وہ قدر کرے گا، جس نے اس سے کچھ فائدہ بھی نہیں اٹھایا اور اس ناشکرے نے جتنا تمہاراحق ضائع کیا ہے، اس سے کہیں زیادہ تم ایک قدردان کی قدر دانی سے حاصل کرلو گے اور خدا نیک کام کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔
205 ہر ظرف اس سے کہ جو اس میں رکھا جائے تنگ ہوتا جاتا ہے، مگر علم کا ظرف وسیع ہوتا جاتا ہے۔
206 بردبار کو اپنی بردباری کا پہلا عوض یہ ملتا ہے۔ کہ لوگ جہالت دکھانے والے کے خلاف اس کے طرفدار ہوجاتے ہیں۔
207 اگر تم بردبار نہیں ہو تو بظاہر برد بار بننے کی کوشش کرو، کیونکہ ایسا کم ہوتا ہے کہ کوئی شخص کسی جماعت سے شباہت اختیار کرے اور ان میں سے نہ ہو جائے۔
208 جو شخص اپنے نفس کا محاسبہ کرتا ہے وہ فائدہ اٹھاتا ہے اور جو غفلت کرتا ہے وہ نقصان میں رہتا ہے جو ڈرتا ہے وہ (عذاب سے )محفوظ ہو جاتا ہے اور جو عبرت حاصل کرتا ہے وہ بینا ہوجاتا ہے اور جو بینا ہوجاتا ہے وہ بافہم ہوجاتا ہے اور جو بافہم ہوتا ہے اسے علم حاصل ہوتا ہے۔
209 یہ دنیا منہ زور ی دکھانے کے بعد پھر ہماری طرف جھکے گی جس طرح کاٹنے والی اونٹنی اپنے بچے کی طرف جھکتی ہے۔ اس کے بعد حضرت نے اس آیت کی تلاوت فرمائی۔ ہم یہ چاہتے ہیں کہ جو لوگ زمین میں کمزور کردیئے گئے ہیں، ان پر احسان کریں اور ان کو پیشوا بنائیں اور انہی کو اس زمین کا مالک بنائیں۔
»«210 اللہ سے ڈرو اس شخص کے ڈرنے کے مانند جس نے دنیا کی وابستگیوں کو چھوڑ کر دامن گردان لیا اور دامن گردان کر کوشش میں لگ گیا اور اچھائیوں کے لیے اس وقفہ حیات میں تیز گامی کے ساتھ چلا اور خطروں کے پیش نظر اس نے نیکیوں کی طرف قدم بڑھایا اور اپنی قرار گاہ اور اپنے اعمال کے نتیجہ اور انجام کار کی منزل پر نظر رکھی۔
211 سخاوت عزت آبر و کی پاسبان ہے بُرد باری احمق کے منہ کا تسمہ ہے، درگزر کرنا کامیابی کی زکوٰۃ ہے، جو غداری کرے اسے بھول جانا اس کا بدل ہے۔ مشورہ لینا خود صحیح راستہ پا جانا ہے جو شخص رائے پر اعتماد کرکے بے نیاز ہوجاتا ہے وہ اپنے کو خطرہ میں ڈالتا ہے۔ صبر مصائب و حوادث کا مقابلہ کرتا ہے۔ بیتابی و بیقرار ی زمانہ کے مدد گاروں میں سے ہے۔ بہتر ین دولتمندی آرزوؤں سے ہاتھ اٹھا لینا ہے۔ بہت سی غلام عقلیں امیروں کی ہوا و ہوس کے بارے میں دبی ہوئی ہیں۔ تجربہ و آزمائش کی نگہداشت حسن توفیق کا نتیجہ ہے دوستی و محبت اکتسابی قرابت ہے جو تم سے رنجیدہ و دل تنگ ہو اس پر اطمینا ن و اعتماد نہ کرو۔
212 انسان کی خود پسندی اس کی عقل کے حریفوں میں سے ہے۔
213 تکلیف سے چشم پوشی کر و۔ ورنہ کبھی خوش نہیں رہ سکتے۔
214 جس (درخت) کی لکڑی نرم ہو اس کی شاخیں گھنی ہوتی ہیں۔
215 مخالفت صحیح رائے کو برباد کردیتی ہے۔
216 جو منصب پالیتا ہے دست درازی کرنے لگتا ہے۔
217 حالات کے پلٹوں ہی میں مردوں کے جوہر کھلتے ہیں۔
218 دوست کا حسد کرنا دوستی کی خامی ہے۔
219 اکثر عقلوں کا ٹھوکر کھا کر گرنا طمع و حرص کی بجلیاں چمکنے پرہوتا ہے۔
220 یہ انصاف نہیں ہے کہ صرف ظن و گمان پر اعتماد کرتے ہوئے فیصلہ کیا جائے۔
221 آخرت کے لیے بہت برا توشہ ہے بندگا ن خدا پر ظلم و تعدی کرنا۔
222 بلند انسان کے بہتر ین افعال میں سے یہ ہے کہ وہ ان چیزوں سے چشم پوشی کرے جنہیں وہ نہیں جانتا ہے۔
223 جس پر حیا نے اپنا لباس پہنا دیا ہے اس کے عیب لوگوں کی نظروں کے سامنے نہیں آسکتے۔
224 زیادہ خاموشی رعب و ہیبت کا باعث ہوتی ہے۔ اور انصاف سے دوستوں میں اضافہ ہوتا ہے لطف و کرم سے قدر و منزلت بلند ہوتی ہے جھک کر ملنے سے نعمت تمام ہوتی ہے۔ دوسروں کا بوجھ بٹانے سے لازماً سرداری حاصل ہوتی ہے اور خوش رفتاری سے کینہ ور دشمن مغلوب ہوتا ہے اور سر پھر ے آدمی کے مقابلہ میں بردباری کرنے سے اس کے مقابلہ میں اپنے طرفدار زیادہ ہوجاتے ہیں۔
225 تعجب ہے کہ حاسد جسمانی تندرستی پر حسد کرنے سے کیوں غافل ہوگئے.
226 طمع کرنے والا ذلت کی زنجیروں میں گرفتار رہتا ہے۔
227 آپ سے ایمان کے متعلق پوچھا گیا تو فرمایا کہ ایمان دل سے پہچاننا، زبان سے اقرار کرنا اور اعضا سے عمل کرنا ہے.
228 جو دنیا کے لیے اندوہناک ہو وہ قضا و قدر الہی سے ناراض ہے اور جو اس مصیبت پر کہ جس میں مبتلا ہے شکوہ کرے تو وہ اپنے پروردگار کا شاکی ہے اور جو کسی دولت مند کے پاس پہنچ کر اس کی دولتمندی کی وجہ سے جھکے تو اس کا دو تہائی دین جاتا رہتا ہے اور جو شخص قرآن کی تلاوت کرے پھر مر کر دوزخ میں داخل ہو تو ایسے ہی لوگوں میں سے ہوگا، جو اللہ کی آیتوں کا مذاق اڑاتے تھے اور جس کا دل دنیا کی محبت میں وارفتہ ہوجائے تو اس کے دل میں دنیا کی یہ تین چیزیں پیوست ہوجاتی ہیں۔ ایسا غم کہ جو اس سے جدا نہیں ہوتا اور ایسی حرص کہ جو اس کا پیچھا نہیں چھوڑتی اور ایسی امید کہ جو بر نہیں آتی۔
»«230 جس کی طرف فراخِ روزی کئے ہوئے ہو اس کے ساتھ شرکت کرو، کیونکہ اس میں دولت حاصل کرنے کا زیادہ امکان اور خوش نصیبی کا زیادہ قرینہ ہے۔
231خدا وند عالم کے ارشاد کے مطابق کہ اللہ تمہیں عدل و احسان کا حکم دیتا ہے۔ فرمایا ! عدل انصاف ہے اور احسان لطف و کرم۔
232 جو عاجز و قاصر ہاتھ سے دیتا ہے اسے بااقتدار ہاتھ سے ملتا ہے۔
233 اپنے فرزند امام حسن علیہ السّلام سے فرمایا :
کسی کو مقابلہ کے لیے خود نہ للکارو۔ ہاں اگر دوسرا للکارے تو فورا ًجواب دو۔ اس لیے کہ جنگ کی خود سے دعوت دینے والا زیادتی کرنے والا ہے، اور زیادتی کرنے والا تباہ ہوتا ہے۔
234 عورتوں کی بہتر ین خصلتیں وہ ہیں جو مردوں کی بدترین صفتیں ہیں۔ غرور، بزدلی اور کنجوسی اس لیے کہ عورت جب مغرور ہوگی، تو وہ کسی کو اپنے نفس پر قابو نہ دے گی اور کنجوس ہوگی تو اپنے اور شوہر کے مال کی حفاظت کرے گی اور بزدل ہوگی تو وہ ہر اس چیز سے ڈرے گی جو پیش آئے گی۔
235 آپ علیہ السّلام سے عرض کیاگیا کہ عقلمند کے اوصاف بیان کیجئے۔ فرمایا! عقلمند وہ ہے جو ہر چیز کو اس کے موقع و محل پر رکھے۔ پھر آپ سے کہا گیا کہ جاہل کا وصف بتایئے تو فرمایا میں بیان کر چکا۔
236 خد ا کی قسم تمہاری یہ دنیا میرے نزدیک سور کی انتڑیوں سے بھی زیادہ ذلیل ہے جو کسی کوڑھی کے ہاتھ میں ہوں۔
237 ایک جماعت نے اللہ کی عبادت ثواب کی رغبت و خواہش کے پیشِ نظر کی، یہ سودا کرنے والوں کی عبادت ہے اور ایک جماعت نے خوف کی وجہ سے اس کی عبادت کی، اور یہ غلاموں کی عبادت ہے او ر ایک جماعت نے ازروئے شکر و سپاس گزاری اس کی عبادت کی، یہ آزادوں کی عبادت ہے۔
238 عورت سراپا برائی ہے اور سب سے بڑی برائی اس میں یہ ہے کہ اس کے بغیر چارہ نہیں۔
239 جو شخص سستی و کاہلی کرتاہے وہ اپنے حقوق کو ضائع وبرباد کردیتا ہے اور جو چغل خور کی بات پر اعتماد کر تا ہے، وہ دوست کو اپنے ہاتھ سے کھو دیتا ہے.
240 گھر میں ایک غصبی پتھر اس کی ضمانت ہے کہ وہ تباہ و بربا د ہوکر رہے گا۔
241 مظلوم کے ظالم پر قابو پانے کا دن اس دن سے کہیں زیادہ ہوگا جس میں ظالم مظلوم کے خلاف اپنی طاقت دکھاتا ہے۔
242 اللہ سے کچھ تو ڈرو، چاہے وہ کم ہی ہو، اور اپنے اور اللہ کے درمیان کچھ تو پردہ رکھو، چاہے وہ باریک ہی سا ہو۔
243 جب (ایک سوال کے لیے) جوابات کی بہتات ہوجائے توصحیح بات چھپ جایا کرتی ہے۔
244 بے شک اللہ تعالیٰ کے لیے ہر نعمت میں حق ہے تو جو اس حق کو ادا کرتا ہے، اللہ اس کے لیے نعمت کو اوربڑھاتا ہے۔ اور جو کوتاہی کرتا ہے وہ موجودہ نعمت کو بھی خطرہ میں ڈالتا ہے۔
245 جب مقدرت زیادہ ہوجاتی ہے تو خواہش کم ہوجاتی ہے۔
246 نعمتوں کے زائل ہونے سے ڈرتے رہو کیونکہ ہر بے قابو ہوکر نکل جانے والی چیز پلٹا نہیں کرتی۔
247 جذبہ کرم رابطہ قرابت سے زیادہ لطیف و مہر بانی کا سبب ہوتا ہے۔
248 جو تم سے حسن ظن رکھے، اس کے گمان کو سچاثابت کرو۔
249 بہترین عمل وہ ہے جس کے بجالانے پر تمہیں اپنے نفس کو مجبور کرنا پڑے۔
250 میں نے اللہ سبحانہ کو پہچانا ارادوں کے ٹوٹ جانے,نیتوں کے بدل جانے، اور ہمتوں کے پست ہوجانے سے۔
251 دنیا کی تلخی آخرت کی خوشگواری ہے اور دنیا کی خوشگواری آخرت کی تلخی ہے۔
252 خداوند عالم نے ایمان کا فریضہ عائد کیا شرک کی آلودگیوں سے پاک کرنے کے لیے۔ اور نماز کو فرض کیا رعونت سے بچانے کے لیے اور زکوۃ کو رزق کے اضافہ کا سبب بنانے کے لیے، اور روزہ کو مخلوق کے اخلاص کو آزمانے کے لیے اور حج کو دین کو تقویت پہنچانے کے لیے، اور جہاد کو اسلام کو سرفرازی بخشنے کے لیے، اور امر بالمعروف کو اصلاحِ خلائق کے لیے اور نہی عن المنکر کو سرپھروں کی روک تھام کے لیے اور حقوقِ قرابت کے ادا کرنے کو (یار و انصار کی) گنتی بڑھانے کے لیے اور قصاص کو خونریزی کے انسداد کے لیے اور حدود شرعیہ کے اجراء کو محرمات کی اہمیت قائم کرنے کے لیے اور شراب خوری کے ترک کو عقل کی حفاظت کے لیے اور چوری سے پرہیز کو پاک بازی کا باعث ہونے کے لیے اور زنا سے بچنے کو نسب کے محفوظ رکھنے کے لیے اور اغلام کے ترک کو نسل بڑھانے کے لیے اور گواہی کو انکارِ حقوق کے مقابلہ میں ثبوت مہیا کرنے کے لیے اور جھوٹ سے علحیدگی کو سچائی کا شرف آشکارا کرنے کے لیے اور قیامِ امن کو خطروں سے تحفظ کے لیے اور امانتوں کی حفاظت کو امت کا نظام درست رکھنے کے لیے اور اطاعت کو امامت کی عظمت ظاہر کرنے کے لیے
253 آپؑ فرمایا کرتے تھے کہ اگر کسی ظالم سے قسم لینا ہو تو اس سے اس طرح حلف اٹھواؤ کہ وہ اللہ کی قوت و توانائی سے بری ہے؟ کیونکہ جب وہ اس طرح جھوئی قسم کھائے گا تو جلد اس کی سزا پائے گا اور جب یوں قسم کھائے کہ قسم اُس اللہ کی جس کے علاوہ کوئی معبود نہیں تو جلد اس کی گرفت نہ ہو گی، کیونکہ اُس نے اللہ کو وحدت و یکتائی کے ساتھ یاد کیا ہے۔
254 اے فرزندِ آدم! اپنے مال میں اپنا وصی خود بن اور جو تو چاہتا ہے کہ تیرے بعد تیرے مال میں سے خیر خیرات کی جائے، وہ خود انجام دے دے۔
255 غصہ ایک قسم کی دیوانگی ہے کیونکہ غصہ ور بعد میں پشیمان ضرور ہوتا ہے اور اگر پشیمان نہیں ہوتا تو اُس کی دیوانگی پختہ ہے۔
256 حسد کی کمی بدن کی تندرستی کا سبب ہے۔
257 کمیل ابن زیاد نخعی سے فرمایا: اے کمیل! اپنے عزیز و اقارب کو ہدایت کرو کہ وہ اچھی خصلتوں کو حاصل کرنے کے لیے دن کے وقت نکلیں اور رات کو سو جانے والے کی حاجت روائی کو چل کھڑے ہوں ۔ اُس ذات کی قسم جس کی قوتِ شنوائی تمام آوازوں پر حاوی ہے، جِس کسی نے بھی کسی کے دل کو خوش کیا تو اللہ اُس کے لیے اُس سرور سے ایک لطفِ خاص خلق فرمائے گا کہ جب بھی اُس پر کوئی مصیبت نازل ہو تو وہ نشیب میں بہنے والے پانی کی طرح تیزی سے بڑھے اور اجنبی اونٹوں کو ہنکانے کی طرح اس مصیبت کو ہنکا کر دور کر دے۔
258 جب تنگدست ہو جاؤ تو صدقہ کے ذریعے بچو۔
259 غداروں سے وفا کرنا اللہ کے نزدیک غداری ہے اور غداروں کے ساتھ غداری کرنا اللہ کے نزدیک عین وفا ہے۔
260 کتنے ہی لوگ ایسے ہیں جنہیں نعمتیں دے کر رفتہ رفتہ عذاب کا مستحق بنایا جاتا ہے اور کتنے ہی لوگ ایسے ہیں کہ جو اللہ کی پردہ پوشی سے دھوکا کھائے ہوئے ہیں اوراپنے بارے میں اچھے الفاظ سن کر فریب میں پڑ گئے اور مہلت دینے سے زیادہ اللہ کی جانب سے کوئی بڑی آزمائش نہیں ہے۔
261 جب امیرالمومنین علیہ السلام کو یہ اطلاع ملی کہ معاویہ کے ساتھیوں نے (شہر)انبار پر دھاوا کیا تو آپ بنفس نفیس پیادہ پا چل کھڑے ہوئے۔ یہاں تک کہ نخیلہ تک پہنچ گئے، اتنے میں لوگ بھی آپ کے پاس پہنچ گئے اور کہنے لگے یا امیر المومنین علیہ السّلام ! ہم دشمن سے نپٹ لیں گے۔ آ پ کے تشریف لے جانے کی ضرورت نہیں۔ آپ نے فرمایا کہ تم اپنے سے تو میرا بچاؤ کر نہیں سکتے دوسروں سے کیا بچاؤ کرو گے۔ مجھ سے پہلے رعایا اپنے حاکموں کے ظلم و جورکی شکایت کیا کرتی تھی مگر میں آج اپنی رعیت کی زیادتیوں کا گلہ کرتا ہوں، گویا کہ میں رعیت ہوں اور وہ حاکم اور میں حلقہ بگوش ہوں اور وہ فرمانروا۔
262 بیان کیا گیا ہے کہ حارث ابن حوط حضرت کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا کہ کیا آپ کے خیال میں اس کا گمان بھی ہوسکتا ہے کہ اصحاب جمل گمراہ تھے؟
حضرت نے فرمایا کہ اے حارث !تم نے نیچے کی طرف دیکھا اوپر کی طر ف نگا ہ نہیں ڈالی، جس کے نتیجہ میں تم حیران و سر گردان ہوگئے ہو، تم حق ہی کو نہیں جانتے کہ حق والوں کو جانو اور باطل ہی کو نہیں پہچانتے کہ باطل کی راہ پر چلنے والوں کو پہچانو۔
حارث نے کہا کہ میں سعد ابن مالک اور عبداللہ ابن عمر کے ساتھ گوشہ گزیں ہوجاؤں گا۔
حضرت نے فرمایا کہ !
سعد اور عبداللہ ابن عمر نے حق کی مدد کی، اور نہ باطل کی نصرت سے ہاتھ اٹھایا۔
263 باد شاہ کا ندیم و مصاحب ایسا ہے جیسے شیر پر سوار ہونے والا کہ اس کے مرتبہ پر رشک کیا جاتا ہے وہ اپنے موقف سے خوب واقف ہے۔
264 دوسروں کے پسماندگان سے بھلائی کرو۔ تاکہ تمہارے پسماند گان پر بھی نظرشفقت پڑے۔
265 جب حکماء کا کلا م صحیح ہو تو وہ دوا ہے اور غلط ہوتو سراسر مرض ہے.
266 حضرت سے ایک شخص نے سوال کیا کہ ایمان کی تعریف کیا ہے؟ آپ نے فرمایا کہ کل میرے پاس آنا تاکہ میں تمہیں اس موقع پربتاؤں کہ دوسرے لوگ بھی سن سکیں کہ اگر تم بھول جاؤتو دوسرے یاد رکھیں۔ اس لیے کلام بھڑکے ہوئے شکار کے مانند ہوتاہے کہ اگر ایک کی گرفت میں آجاتا ہے اور دوسرے کے ہاتھ سے نکل جاتا ہے۔
»«267 اے فرزند آدم علیہ السّلام ! اس دن کی فکر کا بارجو ابھی آیا نہیں، آج کے اپنے دن پر نہ ڈال کہ جو آچکا ہے۔ اس لیے کہ اگرایک دن بھی تیری عمر کا باقی ہوگا، تواللہ تیرا رزق تجھ تک پہنچائے گا۔
268 اپنے دوست سے بس ایک حد تک محبت کرو کیونکہ شاید کسی دن وہ تمہارا دشمن ہوجائے اور دشمن کی دشمنی بس ایک حد تک رکھو ہوسکتا ہے کہ کسی دن وہ تمہار ا دوست ہوجائے۔
269 دنیا میں کام کرنے والے دو قسم کے ہیں ایک وہ جو دنیا کے لیے سر گرم عمل رہتا ہے اور اسے دنیا نے آخرت سے روک رکھا ہے۔ وہ اپنے پسماندگا ن کے لیے فقر و فاقہ کا خوف کرتا ہے مگر اپنی تنگدستی سے مطمئن ہے تو وہ دوسروں کے فائدہ ہی میں پوری عمر بسر کردیتاہے اور ایک وہ ہے جو دنیا میں رہ کر اس کے لیے عمل کرتا ہے تو اسے تگ ودو کئے بغیر دنیا بھی حاصل ہوجاتی ہے اور اس طرح وہ دونوں حصوں کو سمیٹ لیتا ہے اور دونوں گھر وں کا مالک بن جاتا ہے وہ اللہ کے نزدیک باوقار ہوتا ہے اور اللہ سے کوئی حاجت نہیں مانگتا جو اللہ پوری نہ کرے۔
270 بیان کیا گیا ہے کہ عمر ابن خطاب کے سامنے خانہ کعبہ کے زیورات اور ان کی کثرت کا ذکر ہوا تو کچھ لوگوں نے ان سے کہا کہ اگرآپ ان زیورات کو لے لیں اور انہیں مسلمانوں کے لشکر پر صرف کرکے ان کی روانگی کا سامان کریں تو زیادہ باعث اجر ہوگا، خانہ کعبہ کو ان زیورات کی کیا ضرورت ہے۔ چنانچہ عمر نے اس کا ارادہ کر لیا اور امیرالمومنین علیہ السلام سے اس کے بار ے میں مسئلہ پوچھا۔
آپ نے فرمایا کہ جب قرآن مجید نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل ہوا تو اس وقت چار قسم کے اموال تھے، ایک مسلمانوں کا ذاتی مال تھا اسے آپ نے ان کے وارثوں میں ان کے حصہ کے مطابق تقسیم کرنے کا حکم دیا۔ دوسرا مال غنیمت تھا، اسے اس کے مستحقین پر تقسیم کیا۔ تیسرا مال خمس تھا، اس مال کے اللہ تعالیٰ نے خاص مصارف مقرر کردیئے۔ چوتھے زکوٰۃ و صدقات تھے۔ انہیں اللہ نے وہاں صرف کرنے کاحکم دیا جو ان کامصرف ہے۔ یہ خانہ کعبہ کے زیورات اس زمانہ میں بھی موجود تھے لیکن اللہ نے ان کو ان کے حال پر رہنے دیا اور ایسا بھولے سے تو نہیں ہوا، اور نہ ان کا وجود اس پر پوشیدہ تھا۔ لہٰذا آپ بھی انہیں وہیں رہنے دیجئے جہاں اللہ اور اس کے رسول نے انہیں رکھاہے۔ یہ سن کر عمر نے کہا کہ اگر آپ نہ ہوتے تو ہم رسوا ہوجاتے اور زیورات ان کی حالت پر رہنے دیا۔
»
272 اگران پھسلنوں سے بچ کر میرے پرجم گئے تومیں بہت سی چیزوں میں تبدیلی کر دوں گا۔
273 پورے یقین کے ساتھ اس امر کو جانے رہو کہ اللہ سبحانہ نے کسی بندے کے لیے چاہے اس کی تدبیریں بہت زبردست اس کی جستجو شدید اور اس کی ترکیبیں طاقت ور ہوں اس سے زائد رزق قرار نہیں دیا جتنا کہ تقدیر الہی میں اس کے لیے مقرر ہوچکا ہے۔ اور کسی بندے کے لیے اس کمزوری و بے چارگی کی وجہ سے لوح محفو ظ میں اس کے مقررہ رزق تک پہنچنے میں رکاوٹ نہیں ہوتی۔ اس حقیقت کو سمجھنے والا اور اس پر عمل کر نے والا سود و منفعت کی راحتوں میں سب لوگوں سے بڑھ چڑھ کر ہے اور اسے نظر انداز کرنے اوراس میں شک و شبہ کرنے والا سب لوگوں سے زیادہ زیاں کاری میں مبتلاہے بہت سے وہ جنہیں نعمتیں ملی ہیں، نعمتوں کی بدولت کم کم عذا ب کے نزدیک کئے جارہے ہیں، اور بہت سوں کے ساتھ فقر فاقہ کے پردہ ہیں اللہ کا لطف وکرم شامل حال ہے لہٰذا اسے سننے والے شکر زیادہ اور جلد بازی کم کر اور جو تیری روزی کی حدہے اس پر ٹھہرا رہ.
274 اپنے علم کو اور اپنے یقین کو شک نہ بناؤ جب جان لیا تو عمل کرو، اور جب یقین پیدا ہوگیا تو آگے بڑھو۔
275 طمع گھاٹ پر اتارتی ہے مگر سیراب کئے بغیر پلٹا دیتی ہے۔ ذمہ داری کا بوجھ اٹھاتی ہے مگر اسے پورا نہیں کرتی۔ اور اکثر ایسا ہوتا ہے کہ پانی پینے والے کو پینے سے پہلے ہی اچھو ہوجاتا ہے۔ اور جتنی کسی مرغوب و پسندیدہ چیز کی قدر و منزلت زیادہ ہوتی ہے اتنا ہی اسے کھودینے کا رنج زیادہ ہوتا ہے۔ آرزوئیں دیدہ و بصیرت کو اندھا کردیتی ہیں اور جو نصیب میں ہوتا ہے پہنچنے کی کوشش کئے بغیر مل جاتا ہے۔
276 اے اللہ !میں تجھ سے پناہ مانگتا ہوں اس سے کہ میرا ظاہر لوگوں کی چشمِ ظاہر بین میں بہتر ہو اور جو اپنے باطن میں چھپائے ہوئے ہوں، وہ تیری نظروں میں برا ہو۔ درآں حالیکہ میں لوگوں کے دکھاوے کے لیے اپنے نفس سے ان چیزوں سے نگہداشت کروں۔ جن سب سے تو آگا ہ ہے۔ اس طرح لوگوں کے سامنے تو ظاہر کے اچھا ہونے کی نمائش کروں اور تیرے سامنے اپنی بداعمالیوں کو پیش کر تا رہوں جس کے نتیجہ میں تیرے بندوں سے تقرب حاصل کر ں، اور تیری خوشنودیوں سے دور ہی ہوتا چلاجاؤں۔
277 (کسی موقع پرقسم کھاتے ہوئے ارشاد فرمایا)اس ذات کی قسم جس کی بدولت ہم نے ایسی شبِ تار کے باقی ماندہ حصہ کو بسر کردیا۔ جس کے چھٹتے ہی روز ِدرخشاں ظاہر ہوگا ایسا اور ایسا نہیں ہوا.
278 وہ تھوڑ اعمل جو پابندی سے بجالایا جاتا ہے زیادہ فائدہ مند ہے اس کثیر عمل سے کہ جس سے دل اکتا جائے۔
279 جب مستحبات فرائض میں سدِ راہ ہوں تو انہیں چھوڑ دو.
280 جو سفرکی دوری کو پیش نظر رکھتا ہے وہ کمر بستہ رہتاہے۔
281 آنکھوں کا دیکھنا حقیقت میں دیکھنا نہیں کیونکہ آنکھیں کبھی اپنے اشخاص سے غلط بیانی بھی کرجاتی ہیں مگر عقل اس شخص کو جو اس سے نصیحت چاہے کبھی فریب نہیں دیتی۔
282 تمہارے اور پند و نصیحت کے درمیان غفلت کا ایک بڑا پردہ حائل ہے۔
283 تمہارے جاہل دولت زیادہ پاجاتے ہیں اور عالم آئندہ کے توقعات میں مبتلا رکھے جاتے ہیں۔
284 علم کا حاصل ہوجانا، بہانے کرنے والوں کے عذر کو ختم کردیتا ہے۔
285 جسے جلدی سے موت آجاتی ہے وہ مہلت کا خواہاں ہوتا ہے اور جسے مہلت زندگی دی گئی ہے وہ ٹال مٹول کرتارہتا ہے۔
»«
287 آپ سے قضا و قدر کے متعلق پوچھا گیا تو آپ علیہ السّلام نے فرمایا ! یہ ایک تاریک راستہ ہے اس میں قدم نہ اٹھاؤ.ایک گہرا سمندر ہے۔ اس میں نہ اترو اللہ کا ایک راز ہے اسے جاننے کی زحمت نہ اٹھاؤ.
288 اللہ جس بندے کو ذلیل کرنا چاہتا ہے اسے علم و دانش سے محروم کردیتاہے۔
289 عہد ماضی میں میر اایک دینی بھائی تھا اور وہ میری نظروں میں اس وجہ سے باعزت تھا کہ دنیااس کی نظروں میں پست و حقیر تھی۔ اس پر پیٹ کے تقاضے مسلط نہ تھے۔ لہٰذا جوچیز اُسے میسر نہ تھی اس کی خواہش نہ کرتا تھا اور جو چیز میسر تھی اسے ضرورت سے زیادہ صرف میں نہ لاتا تھا۔ وہ اکثر اوقات خاموش رہتا تھا اور اگر بولتا تھا تو بولنے والوں کو چپ کرادیتا تھا اور سوال کرنے والوں کی پیاس بجھا دیتا تھا۔ یوں تو وہ عاجز و کمزور تھا، مگر جہاد کا موقع آجائے تو وہ شیر بیشہ اور وادی کا اژدھا تھا۔ وہ جو دلیل و برہان پیش کرتا تھا، وہ فیصلہ کن ہوتی تھی۔ وہ ان چیزوں میں کہ جن میں عذر کی گنجائش ہوتی تھی، کسی کو سرزنش نہ کرتا تھا جب تک کہ اس کے عذر معذرت کو سن نہ لے وہ کسی تکلیف کا ذکر نہ کرتا تھا، مگر اس وقت کہ جب اس سے چھٹکارا پا لیتا تھا، وہ جو کرتا تھا، وہی کہتا تھا اور جو نہیں کرتا تھا وہ اسے کہتا نہیں تھا.اگر بولنے میں اس پر کبھی غلبہ پا بھی لیا جائے تو خاموشی میں اس پر غلبہ حاصل نہیں کیا جاسکتا تھا.وہ بولنے سے زیادہ سننے کا خواہشمند رہتا تھا اور جب اچانک اس کے سامنے دوچیزیں آجاتی تھیں تو دیکھتا تھا کہ ان دونوں میں سے ہوائے نفس کے زیادہ قریب کون ہے تو وہ اس کی مخالفت کرتا تھا۔ لہٰذا تمہیں ان عادات و خصائل کو حاصل کرنا چاہیے اور ان پر عمل پیرا اور ان کا خواہشمند رہنا چاہیے اگر ان تما م کا حاصل کرنا تمہاری قدرت سے باہر ہو تو اس بات کو جانے رہو کہ تھوڑی سی چیز حاصل کرنا پور ے کے چھوڑ دینے سے بہتر ہے۔
290 اگر خداوند عالم نے اپنی معصیت کے عذاب سے نہ ڈرایا ہوتا، جب بھی اس کی نعمتوں پر شکر کا تقاضا یہ تھا کہ اس کی معصیت نہ کی جائے۔
291 اشعث ابن قیس کو اس کے بیٹے کا پرسا دیتے ہوئے فرمایا:
اے اشعث !اگرتم اپنے بیٹے پر رنج وملال کرو تو یہ خون کا رشتہ اس کا سزا وار ہے، اور اگرصبر کرو تو اللہ کے نزدیک ہر مصیبت کا عوض ہے۔ اے اشعث !اگرتم نے صبر کیا تو تقدیر الہی نافذ ہوگی اس حال میں کہ تم اجر و ثواب کے حقدار ہو گے اور اگر چیخے چلائے، جب بھی حکم قضا کا جاری ہو کر رہے گا۔ مگر اس حال میں کہ تم پر گناہ کا بوجھ ہوگا۔ تمہارے لیے بیٹا مسرت کا سبب ہوا حالانکہ وہ ایک زحمت و آزمائش تھا اور تمہارے لیے رنج واندوہ کا سبب ہوا حالانکہ وہ (مرنے سے )تمہارے لیے اجر و رحمت کا باعث ہوا ہے۔
292 رسول اللہ صلی علیہ وآلہ وسلم کے دفن کے وقت قبر پر یہ الفاظ کہے۔
صبر عموماًاچھی چیز ہے سوائے آپ کے غم کے اور بیتابی و بے قراری عموما ًبری چیز ہے سوائے آپ کی وفات کے اور بلاشبہ آپ کی موت کا صدمہ عظیم ہے، اور آپ سے پہلے اور آپ کے بعد آنے والی مصیبت سبک ہے.
293 بے وقوف کی ہم نشینی اختیا ر نہ کرو کیونکہ وہ تمہارے سامنے اپنے کاموں کو سجا کر پیش کرے گا اور یہ چاہے گا کہ تم اسی کے ایسے ہوجاؤ.
»«»«
295 تین قسم کے تمہارے دوست ہیں اور تین قسم کے دشمن۔ دوست یہ ہیں :تمہارا دوست، تمہارے دوست کا دوست، اور تمہارے دشمن کا دشمن اور دشمن یہ ہیں :تمہار ا دشمن، تمہارے دوست کا دشمن اورتمہارے دشمن کا دوست۔
296 حضرت نے ایک ایسے شخص کو دیکھا کہ وہ اپنے دشمن کو ایسی چیز کے ذریعہ سے نقصان پہنچانے کے درپے ہے جس میں خود اس کو بھی نقصان پہنچے گا، تو آ پ نے فرمایا کہ تم اس شخص کی مانند ہوجو اپنے پیچھے والے سوار کو قتل کرنے کے لیے اپنے سینہ میں نیزہ مارے۔
297 نصیحتیں کتنی زیادہ ہیں اور ان سے اثر لینا کتنا کم ہے۔
298 جو لڑائی جھگڑے میں حد سے بڑھ جائے وہ گنہگار ہوتا ہے اور جو اس میں کمی کرے، اس پر ظلم ڈھائے جاتے ہیں اور جو لڑتا جھگڑتا ہے اس کے لیے مشکل ہوتا ہے کہ وہ خوف خدا قائم رکھے۔
299 وہ گناہ مجھے اندوہناک نہیں کرتا جس کے بعد مجھے مہلت مل جائے کہ میں دو رکعت نماز پڑھوں اور اللہ سے امن و عافیت کاسوال کروں۔
 
السلام علیکم محب برادر،

یہ سارے اقوال نہج البلاغہ سے لئے گئے ہیں۔ بغیر تحقیق کئے کیسے آپ تک پہنچا سکتا ہوں۔

والسلام

وعلیکم سلام قمر بھائی ،

میں نے کب کہا کہ آپ نے تحقیق نہیں کی مگر نہج البلاغہ پر بھی تو اعتراضات ہیں اس لیے میں آپ کو ذہنی طور پر تیار کر رہا ہوں کہ ان میں سے بعض اقوال پر اعتراضات ہو سکتے ہیں اس لیے تیار رہیے گا۔
 

الف نظامی

لائبریرین
رضینا قسمۃ الجبار فینا​
لنا علم و للجھال مال​
فان المال یفنی عن قریب​
و ان العلم لیس لہ زوال​
(سیدنا علی کرم اللہ وجہہ الکریم)​
 

میر انیس

لائبریرین
ماشاء اللہ بہت ھی خوبصورت اور مفید دھاگہ۔۔

اللہ عزوجل آپ کو جزاے خیر عطا فرماے آمین
بہت بہت شکریہ وارثی صاحب اس دھاگے کو اس میں پیغام بھیج کر دوبارہ اوپر لانے کا یہ دھاگہ میری انکھوں سے اوجھل تھا۔ بخاری صاحب تو شاید کہیں گُم ہوگئے اب انشاللہ ہم اس دھاگے کو جاری رکھیں گے
 

صرف علی

محفلین
السلام علیکم
قال امیر المؤمنین علی ابن ابی طالب علیھماالسلام :
من عرف نفسہ فقط عرف ربہ
ترجمہ : جس نے اپنے نفس کو جان لیا اس نے اپنے رب کے جان لیا ۔
والسلام
 
Top