شکر ہے کہ اتنا بھی لکھ دیا خرد نے، نہیں تو نجانے کہاں تھیں اور کیوں نہیں لکھ رہی تھیں، حالانکہ رکن بنے تو کتنا عرصہ گزر گیا۔ اور ہاں چپ چاپ سنتے رہیں، ایسا نہ ہو کہ نظر لگ جائے۔
تاہم ایک بات کا سمجھنا اب بھی دگرگوں ہے وہ یوں کہ ڈارون کے نظریہ کہ مطابق تو انسان بندر کی تہذیب یافتہ یعنی ترقی یافتہ شکل ہے جبکہ عبدالرحمان ملک کو دیکھ کر تو یوں لگتا ہے کہ جیسے یہ بندر انسان کی ترقی یافتہ شکل ہو۔
کئی چیزیں کئی چیزوں کو کھا جاتی ہیں۔ جھوٹا قسم کو، قسم جھوٹے کو، افسر رشوت کو، رشوت حق کو اور حق افسر کو۔ مرغی کیڑوں کو، انسان مرغی کو، کیڑے انسان کو، بھینس چارے کو، لاٹھی والا بھینس کو اور بے آواز لاٹھی، لاٹھی والے کو۔