الاخوان المسلمون دہشت گرد نہیں ہیں: ڈاکٹر ظفرالاسلام خان

الاخوان المسلمون دہشت گرد نہیں ہیں
ڈاکٹر ظفرالاسلام خان
ایڈیٹر ملی گزٹ
الاخوان المسلمون کے مصر میں ڈیڑھ سال قبل عام انتخابات جیتنے سے جہاںاسرائیل اور مغرب کے کان کھڑے ہو گئے، وہیں مصری فوج اور لبرل کلاس بھیتشویش میں مبتلاہوگیا کیونکہ الاخوان المسلمون کی حکومت کے قیام کا مطلبتھا کہ جو لوٹ گھسوٹ فوجی طبقہ مصر میں ۱۹۵۲ سے کر رہا تھا، اس کا خاتمہہوجائے گا اوراسی کے ساتھ اس لبرل طبقے کا بھی جو چند ہڈیوں کے عوض مصر میںفوجی افسروں کی حکومت کو قابل قبول بنانے کے لئے کچھ عہدوں اور معمولیامتیازات کے عوض ملک کی عزت اور قسمت سے فوجی ٹولے کو کھیلنے کی اجازت دئےہوئے تھا۔

جمال عبدالناصر کی حکومت واضح طریقے سے فوجی افسروں پر مشتمل تھی ۔ (کرنل) انور السادات اور (ایر مارشل) حسنی مبارک کے زمانے میں بھی صورت حال وہیرہی ۔ نتیجتاً ملک کی معیشت کے تقریباً ۴۵فیصد پرآج فوج کا براہ راست یابالواسطہ قبضہ ہے۔ بڑے بڑے عہدوں پر سابق فوجی افسر بیٹھے ہوئے ہیں۔

’’بہار عرب‘‘ کے نتیجے میں لگا کہ اب صورت حال بدلے گی۔ ملک میں پہلی بارآزادانہ انتخابات ہوئے اور الاخوان المسلمون کی سیاسی جماعت(فریڈم اینڈجسٹس پارٹی) اکثریت سے کامیاب ہوئی ۔ پارلیمنٹ اور مجلس شوری کے انتخاباتمیں بھی الاخوان المسلمون کو اکثریت ملی۔ اس کے زیر نگرانی بنائے ہوئے آئینکو ملک کی اکثریت نے منظور کیا۔ یہ سب کچھ ہوا لیکن درحقیقت وہ ’’خفیہحکومت ‘‘ ، جسے جدید اصطلاح میں ’’عمیق ریاست‘‘ deep state کہتے ہیں ، پوریطرح انتظامیہ پر قابض رہی۔ عدلیہ میں بھی سب وہی لوگ بیٹھے ہوئے تھے جن کوصدر حسنی مبارک نے متعین کیا تھا۔ اس خفیہ حکومت نے صدر ڈاکٹر محمد مرسیکو حکومت نہیں کرنے دیا۔ ان کے احکامات کو عدلیہ رد کرنے لگی ۔یہاں تک صرفکچھ ٹکنکل بنیادوں پر پارلیمنٹ کو بھی کالعدمقرار دیدیا گیا۔ اس کے بعدعدلیہ کا اگلا نشانہ مجلس شوری تھا جس کی وجہ سے ملک میں مکمل خلا پیداہوجاتا۔ ایسی حالت میں صدر مرسی نے صرف ایک متعینہ مدت کے لئے صدارتی فرمانجاری کیا کہ ان کے احکامات کو عدالت میں چیلنج نہیں کیا جاسکتا۔ اب کیاتھا پوری قیامت آگئی اور اندر وباہر ہر طرف الزامات عائد ہونے لگے کہ صدرمرسی اخوانیوں کی ڈکٹیٹر شپ قائم کرنا چاہتے ہیں حالانکہ ۱۹۵۲ سے لیکر ۲۰۱۲تک مصر میں کسی فرد یا جج کی ہمت نہیں تھی کہ کسی صدارتی فرمان کو چیلنجکرتا۔

چونکہ صدر مرسی اور ان کی حکومت کا صحیح معنوں میں فوج، پولیس اور خفیہمحکمہ پر کنٹرول نہیں تھا، اس لئے ایسے حالات دھیرے دھیرے بنادئے گئے جسمیںفوج کیبراہ راست دخل اندازی قابل قبول ہوگئی ۔ اس کام میں جہاں اندرونیفوجی اور لبرل طبقے کی حمایت حاصل تھی، وہیں غیر ملکی طاقتوں خصوصاًاسرائیل، امریکہ اور سعودی عرب سمیت خلیج ممالک کی پوری تاییدشامل تھی۔اسرائیل کو معلوم تھا کہ الاخوان المسلمون ہی وہ واحد طاقت ہیں جو پوری طرحاسرائیل کے خلافہے اوروہ علاقے میں اس کی غنڈہ گردی پر لگام لگائیں گے۔اسرائیل کے قیام کے بعد ۱۹۴۸میں صرف اخوان ہی تھے جنہوں نے ثابت قدمی سےیہودیملیشیات کا جنوبی فلسطین میں مقابلہ کیا تھا جبکہ عرب فوجی یا تواسرائیل کی مدد کر رہے تھے یا کھڑے سب کچھ دیکھ رہے تھے۔

مصر ی فوج کو خلیجی حکام نے پوری مدد کا یقین دلایا تھا ۔دراصل خلیجی حکامکو ڈر تھا کہ اگر الاخوان المسلمون کے پیر مصر میں جم جاتے ہیں تو ان کیخاندانی اور موروثی سلطنتیں بھی خطرےمیں پڑجائیں گی کیونکہ عصور وسطی کےنظام پر چلنے والی یہ خلیجی سلطنتیں آج بھی پوری طرح سے مطلق العنان ہیں ۔اگر چہ عوام کو معاشی سہولتیں اور تجارتی مواقع دیکر خاموش کردیا گیا ہےلیکن سارے سیاسی اور حکومتی اختیارات فردواحد یاایک خاندان کے قبضے میں ہیںجو ملکی دولت کا تصرف ایسے کرتا ہے جیسے وہ اس کی ذاتی یا حاکم خاندان کیملکیت ہو۔ یہ سارے خاندان بیرون ملک کچھ اسلامی اداروں اور افراد کی بھیمدد کرتے ہیں تاکہ کوئی ان پر تنقید کرنے کی نہ سوچے حالانکہ یہ مدد چندسکوں سے زیادہ نہیں ہوتی ہے جبکہ یہی طاقتیں مغربی سیاسی پارٹیوں اوراداروں کو بہت فراخدلی سے مدد کرتی ہیں۔ وہاں بھی مقصد ان کی زبانوں کوبندکر نا ہی ہوتا ہے۔

ان حالات میں مصری فوج نے منتخب صدر کا تختہ پلٹا،ہزاروں کو دن دھاڑےقتل کیااور صدر سمیتہزاروں اخوانی لیڈروں کو نہ صرفجیل بھیج دیا بلکہان پر غداری اور دہشت گردی کے مقدمات بھی ٹھونک دئے۔ پھر پچھلے سال ۲۵دسمبر کو الاخوان کو ’’دہشت گرد‘‘ تنظیم کہہ کرکالعدمبھی کردیا گیا۔ اباخوان کے ممبران کونہ صرف مصر کے اندر بلکہ مصر کے باہر بالخصوص خلیجیممالک میں بھی بغیر کیس جرم کے ’’دہشت گرد‘‘ قرار دے کر گرفتارکیا جا رہاہے۔مصر کی ایک عدالت نے اور بھی آگے بڑھ کر فلسطینی مزاحمتی تحریک اورغزہ پر حاکم حماس تحریک کو بھی ’’دہشت گرد‘‘ قرار دے دیدیاہے۔ اسرائیل کوان تبدیلیوں سے بہت خوشی ہے اور اس کے اعلی لیڈران متعددبیانات دیکرمصراور خطے میں ہونے والی تبدیلیوں پر خوشی کا اظہار کر چکے ہیں اور یہ بھیکہہ چکے ہیں کہ اب اسرائیل خود کو دوبارہ محفوظ سمجھتا ہے۔

اس سب کے بعد حالیہ ۸ مارچکو سعودی عرب پھرفورا متحدہ عرب امارات اورکویت نے الاخوان کو ’’دہشت گرد‘‘ تحریک کہہ کر کالعدم قرار دے دیا حالانکہان خلیجی ممالک میں پہلے ہی سے اخوان کا کوئی قا نونی وجود نہیں ہے۔ زیادہسے زیادہ کچھ مصری ان ملکوں میں ایسے ہیں جو اخوانی فکر رکھتے ہیں یا کچھمقامی لوگ ہیں جو اخوانی فکر سے متاثر ہیں۔ الاخوان مصر کے باہر صرف اردناور سوڈان میں باقاعدہ طور سے بحیثیت تنظیم پائے جاتے ہیں اور ان دونوںملکوں نے الاخوان کے بارے میں اپنے موقف کو نہیں بدلا ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ الاخوان نے کبھی سعودی عرب سمیت خلیجی ممالک کے خلاف نہکچھ کہا نہ کیا، بلکہ یہ بھی تاریخی حقیقت ہے کہ ۱۹۶۰ کے دہے میں جب جمالعبدالناصرکی عرب قومیت کے طوفان کے تحت یکے بعد دیگر عرب حکومتیں ٹوٹ رہیتھیں اور عرب قومیت کا انقلاب یمن میں بھی کامیاب ہوچکا تھا اور جنوبی یمن ؍عمان کے ظفار علاقے میں کافی طاقتور جنگ جاری تھی، ایسے وقت میں الاخواننے خلیجی اور بالخصوص سعودی حکمرانوں کا پوری طرح ساتھ دیا۔ ساری دنیا میںان کے سفیر بنے اور زبان وقلم سے ان کی تایید کی۔ ۱۹۶۷ کی شکست کے بعد جمالعبدالناصر کا زور کم ہوا اور الاخوان پر بھی شکنجہ دھیرے دھیرے کمزورہوا۔اب بھاگے ہوئے اخوانی مصر واپس لوٹنے لگے اور چند سال میں انہیں اتنیآزادی مل گئی کہ صدر انور السادات کے زمانے میں اگرچہ باقاعدہ پارٹی بنانےکی اجازت توانہیں نہیں مل سکی لیکن ان کا دفتر قاہرہ میں کھل گیا، ان کاترجمان پرچہ ’’الدعوۃ ‘‘نکلنے لگا اور وہ دوسری پارٹیوں کے ٹکٹ پرپارلیمانی انتخابات میں حصہ بھی لینے لگے۔

اس پورے عرصہ میں سعودی حکومت سے الاخوان کے عمدہ تعلقات رہے اور سعودی مددبھی الاخوان کو ملتی رہی۔ لیکن الاخوان کے سیاسی طور پر جیتنے اور حکومتپر قابض ہونے سے حالات بالکل بدل گئے۔ الاخوان بہر حال ایک جمہوری اور شوریپر قائم عوامی حکومت لانے کے پابند تھے اور یہی ڈر تھا جو خلیجی حکمرانوںکو پہلے ہی دن سے لگ گیاتھا ۔ یہاں تک کہ دبئی پولیس کے چیف ضاحی خلفان نےالاخوان کے جیتتے ہی یہ کھل کر کہا تھاکہ میں اس حکومت کو گراکر دم لوں گا۔اخوان کے مصر میں برسر اقتدار آنے کے بعد ان کے مخالفین اپنی غیر قانونیدولت کے ساتھ بھاگ کر متحدہ عرب امارات میں ہی پناہ لیتے تھے۔

سعودی سمیت خلیجی حکام کے موقف میں یہ تبدیلی نہ صرف واضح طریقے سے اسلامدشمن اور جمہوریت مخالف ہے بلکہ یہ احسان فراموشی کی بھی ایکبد ترین مثالہے۔ جب ان کوشدید ضرورت تھی تو الاخوان نے ان کی پوری دنیا میں تایید کیاور وہ ماحول پیدا کیا جس میں یہ حکومتیں متزلزل نہیں ہوئیں اور جب اخوانخود اقتدار تک پہنچے تویہی لوگ اخوان کے خون کے پیاسے ہوگئے اور ان کےمخالفین کے لئے اپنی دولت کے خزانے کھول دئے۔ آج یقیناً الاخوان مشکلات میں گھرے ہوئے ہیں لیکن یہ سب ایک دن بدلے گا۔کسی عوامی تحریک کو دیر تک کچلا نہیں جاسکتا۔ اپنے اس امتحان وہ اسی طرحثابت قدم اور کھرے اتریں گے جیسے وہ جمال عبدالناصر کے ظلم کے سامنے اترےتھے اور یقیناً جب وہ دوبارہ اقتدار تک پہنچیں گے تو ان کی آنکھوں کے سامنےبہت سے غبار چھٹ چکے ہوں گے۔ خطۂ عرب کے باہر بھی مسلمانوں کو اس ظلم کےخلاف واضح موقف اختیار کرنا چاہئے۔

اگر الاخوان جیسی شریف، معتدل،روشن خیال، انحرافات سے پاک جماعت کو ختمہونے دیا گیا تو خود اسلام اور مسلمانوں کے لئے ایک بہت بڑا مسئلہ اوربحران پیداہوگا۔ ذراسے فائدے کے لئے جو افراد اور جماعتیں آج خلیجی ممالکاور سعودی عرب کا ساتھ دے رہی ہیں یا کم از کم خاموش ہی ہیں، انہیں اپنےموقف پر نظر ثانی کرنی چاہئے اور حق کا ساتھ دینا چاہئے۔میں ذاتی طور سے سعودی کانفرنسوں میں ۱۹۷۸ سے شریک ہوتا رہا ہوں لیکن میں نے سعودی حکومت یا سعودی حکام سے نہ کوئی امدادلی نہ کوئی ذاتی فائدہاٹھایا۔ اب ان حالات کے بعد جب مجھے پچھلی فروری میں حالیہ مارچ کے شروعمیں مکہ مکرمہ کے رابطۂ عالم اسلامی کی طرف سے ایک کانفرنس میں شرکت کے لئےمدعو کیا گیا تو میں نے جانے سے انکار کر دیا۔ پھر جب متعدد سعودی شخصیاتیکے بعد دیگرے ہمارے ملک آئیں تو بھی کئی دعوت نامے ملاقات اور عشائیہوغیرہ کے لئے آئے لیکن میں نے سب میں شرکت سے معذرت کردی۔ اس کی وجہ صرف یہتھی کہ اس وقت جب کہ الاخوان کے خلاف یہ طاقت ظلم عظیم میں ملوث ہے تو اسطرح کی کوئی بھی ملاقات ان کے ان ظالمانہ مواقف کی تایید ہی سمجھی جائے گی۔
 
جن لوگوں کو مصر کے حالات کا بذات خود اندازہ بذریعہ مشاہدہ نہ ہو وہ صرف تعصب سےکام لے کر اس قسم کے کالمز لکھ مارتے ہیں
 
جن لوگوں کو مصر کے حالات کا بذات خود اندازہ بذریعہ مشاہدہ نہ ہو وہ صرف تعصب سےکام لے کر اس قسم کے کالمز لکھ مارتے ہیں
جناب آپ کو پتہ ہونا چاہئے ڈاکٹر صاحب مشرق وسطی کے ماہر مانے جاتے ہیں ۔ جنھوں نے جامعہ الازہر اور پھر قاہرہ یونیورسٹی سے تعلیم کی ہے ۔
 
جناب آپ کو پتہ ہونا چاہئے ڈاکٹر صاحب مشرق وسطی کے ماہر مانے جاتے ہیں ۔ جنھوں نے جامعہ الازہر اور پھر قاہرہ یونیورسٹی سے تعلیم کی ہے ۔

یقینا مجھے علم نہیں ہے۔ اگر ایسا ہے تو یہ صاحب صرف ایک نقطہ نظر کے حامی ہو کر تعصب کے اسیر ہوگئےہیں۔

مصر میں یہ ممکن ہی نہیں کہ اسلامی انقلاب اسکے۔ مصر کے لوگ ادھے ادھے بٹے ہوئے ہیں۔ خود وہ لوگ جو اسلام کے دعوی دار ہیں وہ بھی اکثر منافقت کا شکار ہیں۔ یہ بات اپ ظفر صاحب سے پوچھ سکتے ہیں
 
یقینا مجھے علم نہیں ہے۔ اگر ایسا ہے تو یہ صاحب صرف ایک نقطہ نظر کے حامی ہو کر تعصب کے اسیر ہوگئےہیں۔
مصر میں یہ ممکن ہی نہیں کہ اسلامی انقلاب اسکے۔ مصر کے لوگ ادھے ادھے بٹے ہوئے ہیں۔ خود وہ لوگ جو اسلام کے دعوی دار ہیں وہ بھی اکثر منافقت کا شکار ہیں۔ یہ بات اپ ظفر صاحب سے پوچھ سکتے ہیں۔

تعصب سے بالا تر ہو کر صرف آپ بات کر رہے ہیں ۔ اور آل صعود اور اس کے حوارئین باقی ساری دنیا غلط ہے :)

پھر الیکشن میں اتنی بھاری اکثریت سے ڈاکٹر مرسی کو کیوں جتوایا لوگوں نے ۔۔۔
 

زیک

مسافر
تعصب سے بالا تر ہو کر صرف آپ بات کر رہے ہیں ۔ اور آل صعود اور اس کے حوارئین باقی ساری دنیا غلط ہے :)

پھر الیکشن میں اتنی بھاری اکثریت سے ڈاکٹر مرسی کو کیوں جتوایا لوگوں نے ۔۔۔
پہلے راؤنڈ میں مرسی کو 24.78 فیصد اور احمد شفیق کو 23.66 فیصد ووٹ ملے تھے۔ رن آف میں مرسی کو 51.73 فیصد اور شفیق کو 48.27
سورس
 
باقی 49 فی صد
میرا خیال ہے کہ 51 فی صد میں سے اکثریت وہ نہیں چاہتی تھی جو مرسی کررہا تھا
چاہتی تھی یا نہیں چاہتی تھی اس پر کافی بحث اسی محفل میں ہو چکی ہے ۔اس موضوع پر میں آپ سے بات یوں بھی نہیں کرنا چاہتا کہ آپ کے اندر صحیح بات کو بھی صحیح تسلیم کرنے کا مادہ نہیں ہے ۔
 
چاہتی تھی یا نہیں چاہتی تھی اس پر کافی بحث اسی محفل میں ہو چکی ہے ۔اس موضوع پر میں آپ سے بات یوں بھی نہیں کرنا چاہتا کہ آپ کے اندر صحیح بات کو بھی صحیح تسلیم کرنے کا مادہ نہیں ہے ۔

یعنی اپ جج لگ گئے ہیں۔ :)

درست بات یہ ہے کہ مرسی کی حمایت خود مصر میں بہت کم ہے۔ مصرایک بیمار ملک ہے۔
 

arifkarim

معطل
اس تحریر کے مصنف یہ کیوں بھول گئے کہ جس عوام نے اخوان المسلمین کے مرسی کو مصری تخت پر بٹھا یا تھا اسی کیخلاف ایک نیا انقلاب لیکر وہ 2013 میں سڑکوں پر نکل آئے؟
http://en.wikipedia.org/wiki/Egyptian_Revolution_of_2013

یعنی حسنی مبارک کیخلاف متحد ہوکر انقلاب لانے میں تو کئی ہا برس لگ گئے لیکن محمد مرسی کیخلاف انقلاب محض ایک سال کی "جمہوری" حکومت کے بعد ہی آگیا! ہاہاہا!
 

ابن عادل

محفلین
اور یہ بات بھی کوئی ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ یہ مرسی کے خلاف آنے والا انقلاب کس کس کا اسپانسر شدہ تھا ۔ اب وہی لوگ جنہیں مرسی کے خلاف انقلاب کے لیے استعمال کیا گیا وہ اپنے کیے پر شرمندہ ہیں ۔ حیرت ہے اس عینک سے مرسی مخالفت تو نظر آتی ہے لیکن مرسی مخالف مظاہروں میں ہونے والے غیر انسانی افعال نظر نہیں آتے ۔ ان میں کتنی خواتین کی آبرویزی کی گئی ان کے انٹرویوز گوگل آپ کے سامنے لادے گا ۔ جتنے مظاہرے مرسی مخالف ہوئے وہ مرسی حمایت مظاہروں کا عشر عشیر بھی نہیں ہیں ۔ وہاں انتظار کہ اپنے پروردہ کچھ لوگ نکلیں اور سیسی مطلب براری کے لیے اقتدار پر قبضہ کرلے ۔ یہاں مظاہروں میں ثابت قدمی ، ایثار اور قربانی جس نے ثابت کیا کہ مقصد کے حصول کی خاطر پرامن طریقے سے جدو جہد میں کیا کیا قربانیاں دینی پڑتی ہیں ۔ اور قربانی رائیگاں نہیں جاتی عنداللہ اجر پاتی ہے ۔ خون پھر خون ہے ٹپکے گا تو جم جائے گا۔
خیر چھوڑیے ذرا کریمیا میں ہوالے ریفرنڈم پر گفتگو کرتے ہیں ۔ مسلمان تو خواہ مخواہ شور کرتے رہتے ہیں ۔ امریکہ بہادر نے بڑی سخت پابندیاں لگائی ہیں روس پر کہ اس نے یہ کام کیوں کیا ۔ دوبڑوں کی لڑائی ہے انہیں حق ہے کہ ایک دوسرے کے معاملات میں مداخلت پر ایک دوسرے سے ناراض ہوں ،غصہ ہوں ۔ مسلمان چپ کرکے ان بڑوں کے کہے پر عمل کریں اور جو بڑوں کی نہ مانے وہ بے ادب ہے اور بے ادب سے سختی سے نمٹنا ضروری ہے لہذا اگر کہیں ان کے خلاف اقدام کیا جاتا ہے تو اس میں ایسا غلط کیا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!!!!
 

x boy

محفلین
سوچنے والی باتیں ہیں
کون خر آب اور کون اچھا ابھی پتا نہیں لگے گا، لیکن بہت سی باتیں غلط ہیں ظلم ظلم ہے چاہے کوئی بھی کرے۔
 
Top