الادب المفرد للبخاری اور {علامہ البانی vs ڈاکٹر طاہر القادری}

باذوق

محفلین
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم


امام بخاری (رح) کی کتاب "الادب المفرد" کے حوالے سے
علامہ البانی (رح) پر ڈاکٹر طاہر القادری کی تنقید اور اس کا جواب

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ !

تمہید :

محترم جناب ڈاکٹر طاہر القادری نے اپنی ایک نشست میں عصرِ حاضر کے محدثِ کبیر علامہ ناصر الدین البانی (رحمۃ اللہ علیہ) کی شخصیت و علمیت پر تنقید کی ہے۔ ڈاکٹر صاحب محترم کے معتقدین نے یوٹیوب پر اس تنقیدی نشست کی ویڈیوز فراہم کر رکھی ہیں جو ذیل کے روابط پر دیکھی جا سکتی ہیں :

ڈاکٹر طاہر القادری کی علامہ البانی پر تنقید بحوالہ یوٹیوب ویڈیوز :

ہم نے ڈاکٹر صاحب کے معتقدین سے ادباً گذارش کی تھی کہ اس کو تحریری قالب میں بھی ڈھال کر پیش کیا جائے تاکہ ہمیں جواب دینے میں آسانی ہو ، مگر ہماری گذارش کو قابل اعتنا نہ سمجھا گیا۔
ہمارے ایک دوست نے اس کام کا بیڑا اٹھایا اور ان تین ویڈیوز کے مواد کو تحریری صورت میں کمپوز کر ڈالا جسے ذیل میں ملاحظہ کیا جا سکتا ہے۔
ڈاکٹر قادری صاحب کی اس تنقید کو کمپوزنگ و پروف ریڈنگ کے مرحلوں سے گزارنے کے باوجود غلطی / غلطیوں کا امکان ہو سکتا ہے لہذا ڈاکٹر صاحب موصوف کے معتقدین سے گذارش ہے کہ جہاں تصحیح کی ضرورت ہو اس کا بلاجھجھک اظہار فرمائیں ، غلطی درست کر دی جائے گی ان شاءاللہ۔

~~~~~~
اب جو یہ ہاتھ چومنے اور پاؤں چومنے کی حدیثیں ہیں، امام بخاری لائے۔ وہ میری پڑھی ہوئی تھیں بڑی مدت پہلے تقریبا 30 سال یا اس سے بھی زیادہ پہلے پڑھی ہوئی تھیں، جب " الادب المفرد" میں نے اپنے والد گرامی سے پڑھی، یہ بڑے زمانے پہلے کی بات ہے، اس کے کئی نسخے پڑھے تھے تو یہ کتاب اب میرے سامنے تو تھی۔
میں ایک عرب ملک میں گيا، نام نہیں لوں گا، تو مکتبہ سے کتابیں خرید رہا تھا تو یہ کتاب میری نظر سے گذری تو بے دھیانی سے میں نے اسے "صحیح الادب المفرد" پڑھا اور صحیح نہیں پڑھا تو میں نے سمجھا کہ یہ امام بخاری کی نئی تحقیق کے ساتھ "الادب المفرد" آئی ہے۔
یہ غالباً 3 جلدوں میں ہے، تو میں نے خرید لی، اور رکھ لی، اتفاق نہیں ہوا پڑھنے کا، میں نے سوچا اس میں نئي تحقیق آئی ہوگی نئی تخریج کے ساتھ، ایسے ہی میں نے ایک روز کھولا جو: "الادب المفرد" سمجھ کرنئی اٹھا کر لے آيا، اٹھا کے جو میں نے متعلقہ باب کھولا (باب نمبر 484، ہاتھ چومنے کا بیان) اسی کی حدیث 972 دیکھی تو اس میں ہے کوئی نہیں، حدیث ہی نکال دی گئی، حدیث 972 ہی نکال دی گئی ۔۔۔
پھر میں بڑا حیران ہوگيا، اور یہ جو تحقیق کرنے والے عصر عالم ہیں، پتہ نہیں فوت ہوگئے ہیں، البانی صاحب اس کو کہتے ہیں، محمد ناصر الدین البانی، عرب کے ہر ملک میں جائيں تو تفسیر کی ہر کتاب میں ان کی تحقیق و تخریج ملے گی، ہر ایک کے نیچے اس نے حوالے بتادیے ہیں، جو عقیدے کے خلاف ہے وہ سب موضوع کردیا، ضعیف بنادیا، اور جو اس کے عقیدے کے مطابق ہے اس کو صحیح کردیا۔
پھر میں نے آگے دیکھا تو آگے جو حدیثيں بتائي ہیں (حدیث نمبر 974 ، جس میں تابعین نے صحابہ کے ہاتھ چومے تھے) وہ اگلی حدیث جس میں تابعی نے حضرت انس رضی اللہ عنہ کے ہاتھ چومے تھے وہ بھی نکال دی، اور پھر میں نے آگے دیکھا (حدیث نمبر 975 پاؤں چومنے کا باب) تو وہ سارا باب ہی نکال دیا، وہ سارا عنوان ہی نکال دیا، اس میں جو حدیثيں ہیں وہ 2 لائے تھے(حدیث 975 اور 976) دو حدیثيں امام بخاری کی وہ دونوں نکال دیں۔
یہ تو میں صرف ایک مقام بیان کررہا ہوں، اور میں نے جب غور سے دیکھا تو باب جو (حدیث 484 ہاتھ چومنے کا بیان) والا پورا باب ہی نکال دیا اور جو باب ان کے عقیدے کے خلاف تھے وہ سارے ابواب ہی نکالتے چلے گئے، اور آگے دیکھا تو (باپ کا بیٹی کو چومنے والا باب) یہ باب نمبر 443، تو نکالتے نکالتے انہوں نے یہ بیٹی کوچومنے والا باب ثابت رکھا اور اس باب کا نمبر 389 ہے، یعنی یہاں تک پہنچتے پہنچتے وہ 389، 11 یہ ہوتے ہیں اور 43 اوپر ہوگئے اور یہ ہوگئے 54 باب، اس حدیث تک پہنچتے پہنچتے امام بخاری کی "الادب المفرد" میں سے 54 ابواب نکال دیے، پھر میں حدیث کے نمبر دیکھے، تکبیر الرجع پر پہنچتے 972 تو حدیث نمبر 747 رہ گئی ان کے ہاں، اور 747 امام بخاری کی حدیث نمبر 973 تھی، تو کتنی حدیثيں نکل چکی ہیں؟ 226 حدیثيں امام بخاری کی "الادب المفرد" سے نکال دیں۔
اب میں آپ کو End بتاتا ہوں اس کا، یہ البانی صاحب ہیں، جو عالم عرب میں سب سے بڑے محدث گردانے جاتے ہیں، اب امام بخاری کی "الادب المفرد" کو End کردوں۔
(باب نمبر 684 ختم الرعیت) الادب المفرد جو اصل ہے، اس کے کتنے باب ہیں؟ 684 ابواب ہیں امام بخاری کی اصل الادب المفرد میں، یہ کوئی عام کتاب نہیں ہے، سارے جہاں میں ملتی ہے، جہاں سے چاہو لے لو، الادب المفرد تو آپ کو ہر مکتبہ سے مل جائے گی، عرب و عجم، اور ہر عالم کے پاس ہے، اور یہ جو البانی صاحب کی ہے اس کا نام" تحقیق التخریج" رکھا ہے۔
تخریج کا مطلب ہے حوالہ جات دینا، کہاں کہاں یہ حدیث ہے، اور یہ کام مخرج کا ہوتا ہے۔ مگر یہ اخراج ہے، البانی صاحب نے بجائے تخریج کے خارج کردیے، مخرج تو الٹا اندر سے نکالتا ہے حوالہ جات۔
اب ان کا آخری باب 561 پہ ختم ہوا، تو گویا اس نے 83 ابواب امام بخاری کی الادب الفمرد سے نکال دیے پورے کے پورے، تخریج کے نام پر 83 ابواب نکال دیے، اور امام بخاری کی آخری حدیث الادب المفرد میں 1322 نمبر پر ہے، اور اس البانی صاحب کی "الادب المفرد" کی آخری حدیث 993 پہ ہے۔ تواس کا مطلب کہ 330 حدیثيں امام بخاری کی الادب المفرد میں سے نکال دیں تو چھوٹے امام بچارے کہاں بچيں گے؟
تو امام بخاری کو کون مانتا ہے؟ اس کو تو تب مانیں جب وہ ان کے مطابق لکھے، اور خدا کا شکر ہے ابھی صحیح بخاری پر ان کا ہاتھ نہیں پڑا، اب یہاں ایک نقطہ بیان کروں، پہلے تو میں بہت پریشان ہوا، کچھہ سمجھ میں نہیں آيا، یعنی یہ بد دیانتی کی انتہا ہے، اگر یہ کام حدیث کی کتابوں سے نہ شروع ہوگيا تو 100 یا 200 سالوں میں تو۔۔۔۔استغفراللہ الامان۔۔۔۔۔۔۔۔

اب میں نے یہ ٹوہ لگایا کہ انہوں نے جو یا ماجرا امام بخاری کے ساتھ کیا، امام بخاری پہ بھی ہاتھ ڈال دیا، ان کو بھی نہیں چھوڑا، تو جہاں بات امام بخاری کی بھی اپنے عقیدے کے مطابق نہ ملی اسے نکال دی، پھر جاکے بات سمجھہ آئی کہ امام بخاری نے اپنی اس شرح کا نام لکھا تھا "الادب المفرد"۔
اب بڑی لطیف بات ہے، لکھنے والے نے ڈنڈی مارنے کے لیے، حدیثيں نکالنے کے لے، ابواب نکالنے کے لیے، کچھ تو کرنا تھا نا!!!
الادب المفرد کتاب کوئی ایسی غیر معروف تو ہے نہیں، تو اس کے اوپر "صحیح" لکھ دیا پہلے، "صحیح الادب المفرد" یعنی جو امام بخاری کی "الادب المفرد" تھی وہ صحیح بھی تھی ، ضعیف بھی تھی اور معروف بھی تھی، اب البانی صاحب امام بخاری کو بھی صحیح کررہے ہیں، یہ تو صحیح کرنے پہ آئيں تو ، تو ان کا مطلب ہے کہ امام بخاری بھی غلط ہیں۔
اب میں دوسری معنوں میں لے رہا ہوں کہ امام بخاری کے پاس بھی بقول ان کے ضعیف حدیثيں ہیں، اور غیر صحیح اور موضوع ہیں، تو انہوں نے کہا کہ جو امام بخاری کی صحیح حدیث تھیں وہ اس میں ہے اور جو صحیح نہیں تھی وہ سب نکال دیں، تو یہ امام بخاری کےاستاذ بن گئے، یہ امام بخاری کے شیخ ہوئے، اگر آج امام بخاری حیات ہوتے تو خدا جانے ان پہ کیا گذرتی!
اب ان سے یہ پوچھیے کہ چلو امام بخاری کی جوصحیح احادیث نہیں ہیں وہ آپ نے نکال دیں تو کیا آپ امام بخاری سے بھی بڑے جرح امام ہیں، امام بخاری نے تو ابواب قائم کیے تھے، اور باب جو قائم کرتا ہے محدث وہ اس کا عقیدہ ہوتا ہے، وہ اس کا مسلک ہوتا ہے، اس باب اور اپنے مسلک کی تائيد میں حدیث لاتا ہے، تو تم نے سنديں ضعیف کرکے، موضوع کرکے معاذاللہ امام بخاری پر ظلم کیا، کاٹ ڈالا، نکال دیا۔
مگر انہوں نے ابواب بنائے تھے کہ یہ عقیدہ صحیح ہے، آپ نے وہ ابواب بھی نکال دیے، اتنے ابواب نکالے؟ 83 باب نکال دیے، گویا جو امام بخاری نے اپنے عقائد بیان کیے تھے اس کی 83 شاخيں کاٹ ڈالیں۔ اس کا مطلب کہ امام بخاری نے جو باب بنایا (پاؤں چومنے کے لیے) اس کا مطلب کہ اکابر کے پاؤں چومنے جائز ہیں، اس کا مطلب کہ ان کے ابواب نکال کر ان کی حدیثيں ضعیف کردیں اور ان کا عقیدہ بھی غیر صحیح کردیا۔
یہ امام بخاری، یہ امام مسلم اور ابو داؤد ہیں سب، اور یہ دونوں امام بخاری، اور امام مسلم کے استاذ امام ابی شیبہ ہیں، ان کا عقیدہ دیکھیے:
الحافظ امام ابوبکر الشیبہ 235ھ میں ان کی وفات ہوگئی، دونوں اماموں کی اس وقت جوانی تھی جب یہ شیخ اپنی آخری عمر میں پہنچ کر وصال پاگئے۔ تو انہوں نے بھی حدیث پہ ایک کتاب لکھی "کتاب الادب" اور ان کی تصنیف ابن( یا) ابی شیبہ بھی ہے، یا کتاب دین کا ادب سکھاتی ہے کہ دین کا ادب کیا ہے۔
ہر امام کی کتاب میں کتاب الادب ہے، اور کچھ اماموں نے الگ کتابیں بھی لکھی ہیں جیسے امام بخاری کی " الادب المفرد" اور شیخ ابی شیبہ کی "کتاب الادب"-
تو انہوں نے اس کتاب کے پہلے باب کی شروعات ہی کس چيز سے کی" بزرگوں کے ہاتھ چومنے کا بیان" سے کی۔
اتنی تو اہمیت تھی ان کے نزدیک ائمہ کی، تو یہ خود کیا تھے!
اور آج اس چيز کو شرک و بدعت تصور کرتے ہیں، اگر کوئی ہاتھ چومتا دیکھے تو کہتے ہیں یہ بدعت ہے، مگر جو اماموں کے شیخ ہیں وہ اپنی کتاب الادب کی شروعات ہی بزرگوں کے ہاتھ چومنے سے کرتے ہیں اور اس میں وہ 5 حدیثيں لائے ہیں، تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں بس میں نے 5 بتادیں، تو یہ 5 حدیثيں امام بخاری بھی لے چکے ہیں، ابن عمر کی روایت سے، ابن ماجہ بھی لے چکے ہیں، ابوداؤد بھی لے چکے ہیں ابن عمر کی روایت سے، امام ترمذی بھی سنن میں لے چکے ہیں اور امام احمد بن حنبل بھی لے چکے ہیں۔
اور اس کے بعد اگلا باب لائے ہیں (ہاتھ اور پاؤں چومنے کا باب) حدیث نمبر 3 ہیں، جس میں نبی پاک (صلی اللہ علیہ وسلم) کی محفل میں جب کچھ یہودی آتے ہیں اور آپ(صلی اللہ علیہ وسلم) کے ہاتھ بھی چومتے ہیں اور پاؤں بھی چومتے ہین اور نہ انہیں صحابہ روکتے ہیں کہ یہ کیا کر رہے ہو سجدہ کررہے ہو اور نہ ہی آپ(صلی اللہ علیہ وسلم) نے روکا۔
آج کل اگر کوئی پاؤں چومے تو کہتے ہیں کہ سجدہ کررہا ہے!
میرے ساتھ بھی ایک واقعہ ہوا، ( میں کرسی پر بیٹھا تھا کہ ایک آدمی ایسے ہی تھوڑا سا نیچے ہوکر میری بات سن رہا تھا، مصاحفہ بھی نہیں کیا اس نے تو اسی وقت ایک عالم صاحب کے روپ میں آدمی آیا اور اس نے دیکھ لیا اور کہا : سحدہ کررہے ہو تم ؟!

تو میں نے اس سے پوچھا کہ سجدے کی شرعی تائيد کیا ہے؟ سجدہ کیسے بنتا ہے؟ یہ بندہ تو صرف ایسے ہی سر جھکا کے بات سن رہا تھا تو آپ اسے سجدہ کیسے کہ رہے ہیں، خدا کا خوف کرو اور شرم کرو، سجدہ ایسے ہی شریعت میں ہوتا ہے!!!
صحابہ نبی پاک(صلی اللہ علیہ وسلم) کے قدم چومتے تھے اور وہ سجدہ نہیں ہوتا تھا اور آپ سر جھکا کر حجر اسود کو چومتے ہیں تو کیا وہ سجدہ بن جاتا ہے؟؟؟ خدا کا خوف ہونا چاہیے آپ کو۔
یہودیوں نے چوما، اور اسی حدیث کو امام ترمذی نے، نسائی نے، اور ابن ماجہ نے بھی روایت کی ہے، حجت ہے یہ حدیث۔ اور امام طبرانی نے بھی روایت کیا ہے اس کو۔ مگر جن کو مرض ہے، کم علم ہے، غصہ ہے، اپنے عقیدے کے برعکس ہے تو اس کو شرک اور بدعت کہدو اور اگر حدیث ہے تو اس کو ضعیف کہدو، تو وہ یہ کہیں گے وہ تو یہودی تھے تو ان کا عمل کیسے سنت بن گيا؟
نادان اس قسم کا بھی اعتراض کرتے تو میں بھی ان کو جواب دیتا ہوں، کہ آپ کو بغض میں چومنے والے تو دکھائی دیتے ہیں مگر وہ دکھائی نہیں دے رہا جس کے قدم چومے جارہے ہيں؟ اور وہ دکھائی نہیں دے رہا جو منع بھی نہیں کررہا ہے؟
تواس کا مطلب کہ قدم چموا رہے ہیں سنت ہوگئی اور کسے سنت کہتے ہیں؟ پوری مجلس میں صحابہ رضی اللہ عنہم دیکھ رہے ہيں اور منع بھی نہیں کر رہے ہیں تو اس کو سنت نہیں کہتے تو اور کیا کہتے ہیں؟!

اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ ہر کوئی مشائخ، استاذ، عالم اپنے پاؤں چمواتا رہے، ہر کسی کی ایک حد ہے اور ادب یہ ہے کہ مشائخ و عالم، استاذ و بزرگ خدا کا خوف رکھ کر للچائے اور چھوٹا ادب سے اس کے پاؤں چومتا رہے، یہ دین کے ادب ہیں۔
وکیل کی روایت ہے امام سفیان سے ابن ماجہ میں کہ ابو عبیدہ بن جراح گورنر شام کہتے ہیں کہ " جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ ان کی طرف سفر کرکے آئے تو وہ ان کے ہاتھ چومتے تھے۔" اس کا مطلب کہ یہ سنت ہے اور ہر امام نے جاری رکھی۔
اور یہ ہی نہیں بلکہ امام مسلم نے امام بخاری سے اجازت طلب کی کہ " مجھے اجازت دو کہ میں آپ کے قدم چوموں" اور امام بخاری کا عقیدہ کیا ہے؟ انہوں نے اپنے استاذ امام ابن اسحا‍ق رحمۃ اللہ علیہ سے کہا : کیا آپ مجھے اجازت دیتے ہیں میرا دل کرتا ہےکہ میں آپ کے قدم چوموں ؟
اور اب البانی نے یہاں تک کی ساری حدیثيں نکال دیں، امام بخاری کے قائم کردہ ابواب نکال دیے۔
عرض کرنے کا مقصد یہ تھا کہ یہ ائمہ کے عقائد تھے مگر اس کو نکالنے والے نے نہیں دیکھا اور صحیح کہنے کے لیے جو کہ عقیدہ کے خلاف تھے ان کی کتابوں سے نکال دیے۔
اب معیار یہ بن گيا کہ حقیقت میں صحیح اور غیر صحیح کا، صحیح ضعیف اور موضوع کا اور درست اور غلط کا پیمانہ نہ قرآن ہے نہ حدیث ہے، نہ اصول ہے نہ فن ہے نہ علم ہے، جو عقیدہ بن گيا، جس پر قائم ہیں وہ ہی عقیدہ ہے، جو عقیدے کے مطابق ہوئی وہ قبول کیا اور جو عقیدے کے خلاف ہوئی رد کیا۔
 

باذوق

محفلین
محترم ڈاکٹر طاہر القادری کی تنقید کا جواب

امام بخاری کی کتاب "الادب المفرد" دو عدد MS-Word فائلوں میں دستیاب ہے۔ اس کتاب کا نسخہ محمد فواد الباقی کا مرتب کردہ ہے۔
علامہ ناصر الدین البانی نے اسی مرتب کردہ نسخے کی تحقیق و تخریج کر کے اس کو دو حصوں میں تقسیم و شائع کیا ہے۔ یعنی :
صحیح الادب المفرد اور ضعیف الادب المفرد
صحیح الادب المفرد اور ضعیف الادب المفرد بھی دو عدد MS-Word فائلوں میں دستیاب ہے۔
اس ربط سے آپ چاروں کتب ڈاؤن لوڈ کر سکتے ہیں۔

جیسا کہ سب کو علم ہے کہ حضرت الامام بخاری علیہ الرحمۃ نے اپنی صحیح بخاری میں بھی "کتاب الادب" کو شامل کیا ہے۔
صحیح بخاری یہاں سے دو عدد ورڈ فائلوں کی شکل میں ڈاؤن لوڈ کیجئے۔

صحیح بخاری کی کتاب الادب ، حدیث نمبر 5625 سے شروع ہوتی ہے اور 5872 پر ختم ہوتی ہے اور یہ کل احادیث 248 ہوئیں اور اس میں 128 ابواب ہیں۔
دوسری طرف امام بخاری نے جب کتاب "الادب المفرد" تحریر کی تو اس میں "ادب" سے متعلق 1322 احادیث (بحوالہ "الادب المفرد" نسخہ فواد الباقی) جمع فرمائیں۔

اب سوچنے کی بات ہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے "صحیح بخاری" میں 248 احادیث بیان کی ہیں تو اپنی کتاب "الادب المفرد" میں 1322 احادیث کیوں بیان کی ہیں؟
سادہ سی حقیقت صرف اتنی ہے کہ : امام بخاری نے جو کتاب "الادب المفرد" مرتب کی تو اس میں انہوں نے ادب کے بارے میں ہر قسم کی احادیث تحریر کردیں جس میں صحیح ، حسن اور حسن سے کم درجے کی احادیث بھی شامل تھیں لیکن چونکہ صحیح بخاری میں ان کا معیار بہت اونچا تھا اس لیے اس میں وہی احادیث شامل کی گئیں جو سند کے اعتبار سے اعلیٰ پایہ کی تھیں-
یہ بات ڈاکٹر قادری صاحب کے علم میں نہیں آئی اور انہوں نے کتاب "الادب المفرد" کی ساری احادیث کو صحیح بخاری کے درجے پر رکھ دیا۔ حالانکہ اگر صحیح بخاری کی "کتاب الادب" پر وہ ایک لمحہ کے لیے بھی غور کرلیتے تو فوراً فرق معلوم ہوجاتا۔

ڈاکٹر طاہر القادری نے جس اصل "الادب المفرد" کی بات کی ہے ، گمان اغلب ہے کہ وہ فواد الباقی ہی کی مرتب کردہ ہوگی کیونکہ یہی نسخہ ان دنوں رائج ہے اور اسی میں جملہ احادیث کی تعداد 1322 بیان ہوئی ہے۔
حال ہی میں علامہ البانی رحمۃ اللہ کی تحقیق کردہ مکمل "ادب المفرد" شائع ہوئی ہے جس کی بنیاد فواد الباقی صاحب کی ترتیب پر ہے۔ یعنی اس نئی تصنیف میں علامہ البانی نے مکمل 1322 احادیث کو پیش کیا ہے اور ان کی تحقیق و تخریج کی ہے۔
اس طرح ڈاکٹر قادری صاحب کا یہ الزام باطل ثابت ہو جاتا ہے کہ علامہ البانی نے امام بخاری کی "الادب المفرد" سے 330 احادیث کو نکال دیا ہے۔

فی الحال ہم نے قارئین کے سامنے علامہ البانی کی دونوں کتابیں یعنی : صحیح الادب المفرد اور ضعیف الادب المفرد پیش کر دی ہیں۔
اور ہمیں حیرت تو یہ ہے کہ ڈاکٹر صاحب موصوف کی نظر علامہ البانی کی صرف "صحیح الادب المفرد" پر ہی کیوں پڑی؟ "ضعیف الادب المفرد" پر کیوں نہیں پڑی؟
تنقید کا مسلمہ طریق کار یہ ہے کہ پہلے کسی شخص کے پورے کام کا جائزہ لیا جائے اور اس سے مکمل واقفیت حاصل کر کے ہی تنقید کی جائے۔ علمی دیانت کا تقاضا یہ تھا کہ ڈاکٹر صاحب "ضعیف الادب المفرد" پر تبصرہ بھی ارشاد فرما دیتے تاکہ ان کا موقف سامنے آ جاتا۔ ہم ڈاکٹر صاحب کے بارے میں یہ بدگمانی تو نہیں کرتے کہ انہوں نے جان بوجھ کر اسے چھپا لیا ہو گا۔ البتہ ہم حسن ظن سے کام لیتے ہوئے یہ کہنے کے مجاز ہیں کہ ڈاکٹر صاحب کی نظر سے شاید "ضعیف الادب المفرد" نہ گزری ہو گی۔ ان سے گزارش ہے کہ وہ اس کتاب کا مطالعہ کرنے کے بعد اپنی رائے ضرور پیش فرمائیں۔

"صحیح الادب المفرد" کے مقدمے میں علامہ البانی لکھتے ہیں:
"فواد عبدالباقی کی نمبر شماری کے مطابق ہم تک احادیث مرفوعہ اور آثار موقوفہ کی تعداد 1322 پہنچی ہے۔
۔۔۔۔ ضعیف احادیث کو الگ کر لینے کے بعد صحیح احادیث کی تعداد 998 اور ضعیف احادیث کی تعداد 215 ہے۔"
یعنی "صحیح الادب المفرد" کی 998 اور "ضعیف الادب المفرد" کی 215 احادیث کو ملایا جائے تو جملہ 1213 احادیث ہوتی ہیں۔ حالانکہ یہ صرف نمبر شماری کا مسئلہ ہے ورنہ صحیح اور ضعیف دونوں کتب کی احادیث کا تمام اصل متن وہی ہے جو امام بخاری کی "اصل الادب المفرد" کی احادیث کا متن ہے۔
ویسے یہ بھی اوپر واضح کیا جا چکا ہے کہ علامہ البانی کی نئی تحقیق کردہ "الادب المفرد" میں تمام کی تمام 1322 احادیث موجود ہیں۔

اب دیکھئے کہ علامہ البانی نے 215 احادیث کو "الادب المفرد" سے نکالا نہیں بلکہ اسے "ضعیف الادب المفرد" میں شامل کیا۔
محترم المقام ڈاکٹر صاحب نے علامہ البانی رحمۃ اللہ پر "اخراج" کا جو الزام لگایا ہے ۔۔۔ اگر اس تھیوری کو بنیاد بنایا جائے تو ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ اس ہی طرح امام بخاری کی ذات پر بھی یہی الزام لاگو ہو سکتا ہے کیونکہ اوپر یہ ثابت کیا جا چکا ہے کہ :
صحیح بخاری کی کتاب الادب میں صرف 248 احادیث ہیں جبکہ "الادب المفرد" میں امام بخاری نے 1322 احادیث جمع کی ہیں ، حالانکہ موضوع تو وہی "ادب" کا ہے۔ اگر ڈاکٹر طاہر القادری صاحب کی تھیوری کو یہاں بھی اپلائی کیا جائے تو پھر "اخراج" کا یہی الزام امام بخاری کی ذات پر بھی کیونکر نہ لگے گا ؟!

ڈاکٹر صاحب نے شائد ضعیف الادب المفرد پر نگاہ نہیں دوڑائی کہ البانی رحمۃ اللہ نے وہ حدیثيں نکال باہر نہیں کیں بلکہ ان پر ایک اور کتاب ترتیب دی ہے !!
اب انصاف پسند قارئین اندازہ لگائیں کہ نکال باہر کرنے اور الگ ترتیب دینے میں کتنا فرق ہے؟!
علامہ البانی نے امام بخاری کی کتاب "الادب المفرد" کو دو حصوں میں تقسیم کیا اور ایک کا نام "صحیح الادب المفرد" اور دوسری کا نام "ضعیف الادب المفرد" رکھا کہ عام مسلمانوں کو پتہ چلے کہ صحیح احادیث اور ضعیف احادیث کون کون سی ہیں؟
جیسے کہ خود امام بخاری نے اپنی صحیح بخاری کے "کتاب الادب" میں 1322 احادیث کے بجائے صرف 248 احادیث پر ہی انحصار کیا۔
تو اس سے پتہ چل گیا کہ علامہ البانی رحمۃ اللہ نے امام بخاری کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ان کی کتاب "الادب المفرد" پہ تخریج کرکے دو حصوں میں تقسیم کیا نہ کہ اخراج کیا۔

جیسے مثال کے طور پر ایک استاذ ایک ہی کلاس کو دو حصوں میں تقسیم کرتا ہے تو اس کو یہ نہیں کہا جاسکتا کہ انہوں نے اتنے شاگردوں کا اخراج کیا بلکہ اسے یہ کہا جائے گا کہ انہوں نے آسانی پیدا کرنے کے لیے ایک ہی کلاس کی دو کلاسیں بنادیں۔

آخری بات یہ کہ ۔۔۔۔۔
ہم لوگ علامہ البانی صاحب کے اندھے مقلد نہیں ہیں۔ البانی صاحب نے جن احادیث کو ضعیف قرار دیا ہے، وہ اگر ڈاکٹر صاحب کے خیال میں صحیح احادیث ہیں تو محدثین کے معیار کے مطابق انہیں صحیح ثابت کر دیں اور علمی انداز میں البانی صاحب کی غلطی واضح کردیں۔ ہمیں اپنی رائے سے رجوع کرنے میں ذرہ برابر ججھک محسوس نہ ہو گی۔ اگر وہ ایسا نہ کر سکیں تو ہم بلا کسی تعصب کے یہ کہنے میں حق بجانب ہوں گے کہ ان احادیث کے بارے میں البانی صاحب کی تحقیق ہی درست ہے۔
 

باذوق

محفلین
" تخریج" کیا ہے؟!

الشیخ ڈاکٹر سہیل حسن حفظہ اللہ ، اپنی ایک کتاب " معجم اصطلاحات حدیث" کے صفحہ نمبر 123 پر تخریج کے بارے میں لکھتے ہیں کہ :

التخریج :

حدیث کے اصل ماخذ کا بیان، مع اس کے مختلف طرق و روایات، جن کا ذکر کرنا ضروری ہو، یعنی اس فن میں ماخذ کے ساتھ یہ بیان کرنا بھی ضروری ہے کہ سند کا دارومدار کس راوی پر ہے، اور پھر رجال سند اور متن کی تحقیق اور اس روایت پر محدثين کا کیا حکم ہے۔
اگر حکم بیان نہیں کیا گیا تو خود اس پر صحت یا ضعف کا حکم لگانا۔
صرف ماخذ کا بیان کردینا، بغیر اس کی روایت بتائے ہوئے اور بغیر حکم لگائے، تخریج نہیں کہلاتا، یہ صرف حدیث کی نسبت بتاتا ہے۔

تخریج کے 2 طریقے ہیں:

1۔ اطراف اسانید کے حوالے سے تخریج کرنا
2۔ طرق اسانید کے حوالے سے تخریج کرنا

پہلا طریقہ مندرجہ ذیل حالات میں استعمال کیا جاتا ہے:

1/ جب روایت کے تمام طرق علتوں والے ہوں۔
2/ جب متن حدیث میں کمی یا زیادتی ہو۔
3/ جب سند میں کوئی مخالفت یا ترجیح دینا مقصود ہو۔
4/ جب الفاظ حدیث میں ترجیح مطلوب ہو، چاہے وہ صحیحین ہی میں کیوں نہ ہو۔
5/ جب اصل راوی حدیث مختلط ہو۔
6/ اگر سند میں مدلس راوی ہو اور اس نے سماع کی صراحت نہ کی ہو۔
7/ اگر حدیث کے بارے میں یہ معلوم کرنا ہو کہ وہ متواتر، یا مشھور، یا غریب ہے۔
8/ اگر سند کے عالی یا نازل ہونے کے بارے میں معلوم کرنا ہو۔
9/ اگر حدیث مختلف طرق سے مرسل یا متصل یا مرفوع یا موقوف ہو۔
10/ اگر حدیث کی تقویت مطلوب ہو، متابعہ کے ذریعے سے۔

اس کے علاوہ اور بھی اسباب ہوسکتے ہیں، تاہم اہم اسباب یہی ہیں۔

دوسرا طریقہ اس وقت استعمال کیا جائے گا، جب سند یا متن میں کوئی علت نہ ہو، سند کسی ایک راوی کے گرد گھومتی ہو، اس صورت میں پہلا طریقہ استعمال کرنے کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔

دوسرے مرحلے میں یہ دیکھنا ہوگا کہ جس روایت کی تخریج مطلوب ہے، اس کی کیا حیثیت ہے؟

1/ کسی متعین کتاب سے کوئی حدیث معلوم کرنا ہو، جیسے ابوداؤد یا مسند احمد سے کسی حدیث کی تخریج کرنا ہے تو اس صورت میں وہ حدیث اس کتاب میں سے ڈھونڈنے کے بعد، اس کی سند کی تحقیق کی جائے گی اور پھر اس پر حکم لگایا جائے گا۔ اگر حدیث کی تقویت مطلوب ہے تو متابعات اور شواہد کی تلاش ہوگی، اور متن کے بارے میں دیکھا جائے گا کہ وہ منکر یا شاذ تو نہیں ہے۔

2/ کسی حدیث کو بغیرکسی تعین کے تلاش کرنا، اس صورت میں پہلے یہ حدیث اس کے ماخذ سے تلاش کی جائے گی اور تمام اسانید جمع کی جائيں گی، مذکورہ دونوں طریقوں میں سے کسی ایک طریقے کے ذریعے سے، اور اس کے بعد اس حدیث کی صحت یا ضعف کے بارے میں حکم لگایا جائے گا۔

درج بالا مقالے سے قارئین کو علم ہو گیا ہوگا کہ ۔۔۔
تخریج کیا ہےاور اس کی ضرورت کب اور کہاں ہوتی ہے اور اس کو کس طریقے سے عمل میں لایا جاتا ہے؟

اخراج کے لغوی معنی تو کسی چيز کو خارج کرنا ہیں۔
مگر
اصولِ حدیث کے تحت ، اخراج کے معنی ہیں :
کسی چيز کا درج کرنا۔
جیسے " اخرجۃ البخاری فی الادب المفرد" یعنی بخاری نے اس کو الادب المفرد میں درج کیا۔
یا "اخرجہ ابوداؤد" یعنی ابو داؤد میں درج ہے۔
یا "اخرجہ سفیان فی جامعہ" یعنی سفیان نے جامعہ میں درج کیا ہے۔

لفظ اخراج سے " تخریج" کی مناسبت یوں ہے کہ گویا ایک چيز مستور تھی، چھپی ہوئی تھی، اسے ڈھونڈ کر باہر نکالا گیا اور لوگوں کے علم میں لایا گیا۔

امید کہ قارئین کی سمجھ میں آ چکا ہوگا کہ : تخریج اور اخراج کیا ہے؟

اب انصاف سے بتائیے کہ کیا علامہ البانی نے احادیث کا اخراج کیا ہے؟؟
یقیناً نہیں !!
بلکہ سچ اور حق تو یہ ہے کہ علامہ البانی نے امام بخاری کی کتاب الادب المفرد کو دو حصوں میں تقسیم کیا جو "صحیح الادب المفرد" اور "ضعیف الادب المفرد" پر مشتمل ہیں۔
جن میں سے "ضعیف الادب المفرد" پر ڈاکٹر طاہر القادری صاحب کی نظر نہیں پڑی یا شائد ظاہر کرنا گورا نہیں کیا۔
اور پھر ۔۔۔ کیا یہ ستم ظریفی نہیں کہ اصولِ حدیث پر بات کرتے ہوئے ڈاکٹر صاحب موصوف نے "اخراج" کے لغوی معنی تو لے لیے مگر اصول حدیث کے مطابق معنی نہیں لیے ۔۔۔!!
 

باذوق

محفلین
تحقیق کیا ہے ؟!

تحقیق کے 2 طرح کے معنی ہیں :
1۔ کتاب کی نسبت مولف کی طرف صحیح ہے یا غلط ہے۔
2۔ کسی پرانی کتاب کو جس میں الفاظ کی غلطی ہے یا کسی آدمی کا نام غلط لکھا گیا تو اس کو نکال کر صحیح طریقہ سے پیش کرنا۔

محدث کی سامنے جو اصل اصول ہوتا ہے وہ علم اصول حدیث (جسے مصطلح کا علم بھی کہتے ہیں) ہے۔
اگر کسی عالم کو اس اصول کا علم ہے تو وہ محدث کہلاتا ہے۔

محدثين 2 طرح کے ہوتے ہیں :

1: ایک وہ جنہوں نے صرف حدیثوں کو جمع کیا لیکن اس کے اوپر حکم نہیں لگایا۔
2: ایک وہ جنہوں نے ہر حدیث کے اوپر کوئی حکم بھی لگایا کہ یہ صحیح ہے، یا حسن ہے۔ یا ضعیف یا مرفوع ہے۔

اب جیسے صحیح بخاری اور صحیح مسلم ہیں اس میں دونوں ائمہ محترمین نے خود کہا ہے کہ ہم نے صرف صحیح احادیث جمع کی ہیں۔
اس لیے البانی رحمۃ اللہ علیہ نے ان دونوں کتابوں کے بارے میں کچھ نہیں کہا تھا۔
باقی جو دیگر سنن کی کتابیں ہیں جیسے سنن ابی داؤد یا سنن نسائی یا سنن ابن ماجہ ۔۔۔ تو ان کتب کے متعلقہ مولفین نے یہ دعویٰ نہیں کیا کہ اس میں ہر حدیث صحیح ہے۔
امام ترمذی تو خود لکھتے ہیں کہ : یہ حدیث حسن ہے یا یہ حدیث ضعیف ہے۔

مزید یہ کہ ۔۔۔
امام بخاری نے بھی اپنی کتاب " الادب المفرد" کے بارے میں یہ دعوی قطعاً نہیں کیا کہ اس میں کوئی حدیث ضعیف نہیں ہے !!

اسی طرح امام حاکم نے 373ھ بعد چوتھی صدی میں حدیثيں جمع کیں اور اپنی کتاب ترتیب دی جس کا نام ہے " المستدرک الصحیحین"۔
یعنی وہ حدیثيں جو ان کے خیال میں صحیح تھیں لیکن امام بخاری اور امام مسلم نے اپنی صحیحین میں درج نہیں کیں۔
پھر امام ذھبی نے ان کی کتاب پر حاشیہ لکھا، اور تقریبا ایک تہائی احادیث کے بارے میں امام حاکم سےاختلاف کرتے ہوئے انہیں یا تو ضعیف قرار دیا یا موضوع !
اس لیے یہ کہنا صحیح ہے کہ اگر کسی محدث نے حدیثوں کی سند بیان کردی تو وہ بری الذمہ ہوجاتا ہے بعد میں اگر کوئی دوسرا محدث آئے اور اس سند میں کسی ضعف کی کوئی نشاندھی کرے تو یہ " الدین نصیحۃ" کے بالکل مطابق ہے جیسے علامہ احمد شاکر رحمۃ اللہ جو البانی رحمۃ اللہ سے بہت پہلے کے جید محدث تھے انہوں نے "تفسیر ابن کثیر" اور "مسند امام احمد" پر تخریج کی مگر مکمل نہ کرسکے اور وفات پا گئے اس میں انہوں نے تفسیر ابن کثیر اور مسند احمد سے لاتعداد ضعیف احادیث کی نشاندہی کی تھی۔

اب اس کا یہ مطلب نہیں کہ بعد میں آنے والا محدث ایک پرانے محدث پر برتری قائم کررہا ہے
بلکہ علمی و اصولی حقیقت یہ ہے کہ :
ایک محدث نے حدیثوں کی سندیں جمع کرکے بہت بڑا کام کیا ہےتو دوسرے نے اس پر حکم لگا کر بھی ایک بہت بڑا کام کیا ہے اور دونوں بری الذمہ ہیں۔
 

باذوق

محفلین
صحیح بخاری کے ابواب اور امام بخاری کا عقیدہ ۔۔۔؟!

امام بخاری نے تو ابواب قائم کیے تھے، اور باب جو قائم کرتا ہے محدث وہ اس کا عقیدہ ہوتا ہے، وہ اس کا مسلک ہوتا ہے، اس باب اور اپنے مسلک کی تائيد میں حدیث لاتا ہے
صحیح بخاری یا صحیح مسلم میں ابواب کی بنیاد ترتیب کے لحاظ سے ہے !!

ایک مشھور فقرہ ہے " فقہ البخاری فی تراجمة "
یعنی : امام بخاری کی فقہ ، صحیح بخاری کے ابواب کے عناوین (جسے تراجم کہتے ہیں) میں ہے !

امام بخاری نے اپنی "صحیح بخاری" کے ابواب کے جو عنوان قائم کیے ہیں بعض دفعہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ متعلقہ احادیث اس باب سے مطابقت نہیں کرتیں مگر جب بڑے غور سے دیکھا جائے تو پتا چلاتا ہے کہ امام بخاری نے بالکل اسی باب پر احادیث ترتیب دی ہیں !
مثال کے طور پر:
اگر آپ صحیح بخاری کو کھولیں گے تو فہرست میں سب سے پہلے آپ کو جو باب (عنوان) ملے گا وہ ہے :
کتاب الوحی
اس کے بعد باب الایمان، اس کے بعد باب العلم، اس کےبعد باب وضو، اس کے بعد حیض، تیمم اور اس کے بعد آتا ہے صلوٰۃ۔

امام بخاری نے ترتیب کے لحاظ سے ایسا مرتب کیا ہے کہ ۔۔۔
نبی پاک (صلی اللہ علیہ وسلم) پر سب سے پہلے وحی نازل ہوئی اس کے بعد اس وحی پر ایمان لایا گیا، اس کے بعد علم آتا ہے اس کے بعد نماز، لیکن چونکہ نماز بغیر طہارت کے نہیں ہوتی اس لیے کتاب الصلوٰۃ سے پہلے طہارت، وضو، حیض، تیّمم کے ابواب لے آئے۔

اب دیکھئے کہ اس وضاحت کے مقابلے میں ڈاکٹر طاہر القادری کا بلا دلیل یہ کہنا :
اور باب جو قائم کرتا ہے محدث وہ اس کا عقیدہ ہوتا ہے
کس حد تک درست ہے؟؟

کوئی تو پوچھے ڈاکٹر صاحب سے کہ وحی اور اس پر ایمان ، علم ، وضو ، تیمم ، نماز وغیرہ۔۔۔ کیا صرف امام بخاری کا عقیدہ تھا یا یہ تمام مسلمانوں کا مشترکہ عقیدہ ہے؟؟

اور یہ سوال بھی ہمارے ذہن میں ضرور انگڑائیاں لیتا ہے کہ :
جب "غیر مقلدین" پر طعنہ زنی کرنا مقصود ہو تو فرمایا جاتا ہے کہ خواہشِ نفسانی کے یہ لوگ پرستار ہوتے ہیں کہ جو حدیث جی کو لگی لے لی اور جو سمجھ میں نہ آئی ، اسے چھوڑ دیا ۔۔۔ یعنی اتباعِ سنت کے بجائے خواہشِ نفسانی پر عمل کیا۔
اب کیا یہی سوال یہاں اٹھایا نہیں جا سکتا کہ چونکہ ہاتھ پاؤں چومنے والی احادیث آپ کو مرغوب لگتی ہیں (قطع نظر اس کے ، کہ وہ صحیح ہوں یا ضعیف) لہذا آپ ایسی احادیث پر عمل کر مقدم جانتے ہیں ۔۔۔ اور وہی امام بخاری جب اپنی "صحیح بخاری" میں رفع الیدین یا آمین بالجھر یا کھڑے ہو کر پیشاب کرنے کی (صحیح) احادیث بیان کرتے ہیں تو ۔۔۔ چونکہ وہ آپ کے اپنے مسلک کے خلاف ہوتی ہیں لہذا انہیں بآسانی صرف اتنا کہہ کر ردّ کر دیا جاتا ہے کہ یہ امام بخاری کے "اپنے عقیدے" کو بیان کرتی ہیں!
یعنی ۔۔۔۔ امام بخاری جو احادیث بیان کریں ، اس کر پرکھنے اور اس پر عمل کرنے کا معیار آپ کا اپنا نفس اور آپ کی اپنی پسند ہے ، محدثین کا قائم کردہ معیار نہیں ؟؟!!
 
کوئی بری تنقید نہیں‌کرنا چاہتا۔ متن، ترتیب ، تعداد اور اسناد کا فرق مختلف جگہوں سے شائع شدہ کتب میں بہت بار پایا ہے۔ کبھی صحیح کے نام پر کبھی ضعیف کے نام پر ، یہ خلط ملط جوں جوں پیچھ جاتے جائیں مزید نمایاں ہوتا جاتا ہے ۔ حتی کے تقریباً‌500 سال کے لگ بھگ یہ کتب ہی معدوم ہوجاتی ہیں۔ اصل کتب کا سراغ بھی نہیں‌ملتا۔ یہ ایک افسوس کا مقام ہے۔ جوں جوں‌ہماری صلاحیت بڑھ رہی ہے کہ ہم دوسرے ممالک میں‌طبع شدہ کتب دیکھ سکیں۔ یہ فرق واضح‌ہوتا جارہا ہے۔ گو کہ بھائی بند مختلف جوازات پیش کردیتے ہیں لیکن مجھ جیسا معمولی طالب علم ان کتب میں یکسانیت نہیں‌پاتا۔ افسوس۔ پہلے والوں کا درست ہونا اور بعد والوں کا اس میں فرق پانا اس بات کی واضح نشاندہی کرتا ہے کہ پہلے والوں نے احتیاط وہ نہیں برتی جو ان روایات و تواریخ کی کتب کا حق تھا۔ ابن کثیر کی البدایہ و النہایہ میں‌ملنے والی ایک غلطی کی نشاندہی، کیا عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا ایک نو سال کی دلہن تھٰیں نام کے آرٹیکل میں‌کی گئی ہے۔ اب یہ معلوم نہیں‌کہ اس کتاب میں‌غلطی ابن کثیر سے ہوئی یا بعد والوں‌ اس کتاب میں‌ترمیم کی۔ میرا خیال ہے کہ یہ ترمیم بعد میں ہوئی۔ کوئی ذی الہوش شخص ایسا حساب کر نہیں سکتا کہ جیسا کہ سامنے آیا ہے۔
 

باذوق

محفلین
ہاتھ / پاؤں چومنے والی روایات کا جواب

جو میں نے متعلقہ باب کھولا (باب نمبر 484، ہاتھ چومنے کا بیان) اسی کی حدیث 972 دیکھی تو اس میں ہے کوئی نہیں، حدیث ہی نکال دی گئی، حدیث 972 ہی نکال دی گئی ۔۔۔
یہ حدیث امام بخاری کی کتاب "الادب المفرد" سے نکالی نہیں گئی بلکہ اس کو علامہ البانی نے "ضعیف الادب المفرد" میں شامل کیا ہے ، کیونکہ یہ ضعیف حدیث ہے۔
پھر میں نے آگے دیکھا تو آگے جو حدیثيں بتائي ہیں (حدیث نمبر 974 ، جس میں تابعین نے صحابہ کے ہاتھ چومے تھے) وہ اگلی حدیث جس میں تابعی نے حضرت انس رضی اللہ عنہ کے ہاتھ چومے تھے وہ بھی نکال دی، اور پھر میں نے آگے دیکھا (حدیث نمبر 975 پاؤں چومنے کا باب) تو وہ سارا باب ہی نکال دیا، وہ سارا عنوان ہی نکال دیا، اس میں جو حدیثيں ہیں وہ 2 لائے تھے(حدیث 975 اور 976) دو حدیثيں امام بخاری کی وہ دونوں نکال دیں۔
حدیث نمبر 974 میں جس میں حضرت انس رضی اللہ عنہ کا ذکر ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ کو بوسہ دیا گیا یہ ضعیف ہے ، کیونکہ اس میں "علی بن جدعان" راوی ضعیف ہے۔
حدیث نمبر 975 اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پاؤں چومنے کا بیان ہے یہودیوں سے۔ یہ حدیث بھی ضعیف ہے کیونکہ اس میں راویہ "ام ابان" مجہول ہے، مجہول اس کو کہتے ہیں جس کے حالات معلوم نہیں ہیں۔
الحافظ امام ابوبکر الشیبہ 235ھ میں ان کی وفات ہوگئی، دونوں اماموں کی اس وقت جوانی تھی جب یہ شیخ اپنی آخری عمر میں پہنچ کر وصال پاگئے۔ تو انہوں نے بھی حدیث پہ ایک کتاب لکھی "کتاب الادب" اور ان کی تصنیف ابن( یا) ابی شیبہ بھی ہے، یا کتاب دین کا ادب سکھاتی ہے کہ دین کا ادب کیا ہے۔
ہر امام کی کتاب میں کتاب الادب ہے، اور کچھ اماموں نے الگ کتابیں بھی لکھی ہیں جیسے امام بخاری کی " الادب المفرد" اور شیخ ابی شیبہ کی "کتاب الادب"-
تو انہوں نے اس کتاب کے پہلے باب کی شروعات ہی کس چيز سے کی" بزرگوں کے ہاتھ چومنے کا بیان" سے کی۔
امام ابن ابی شیبہ رحمۃ اللہ علیہ نے ایک کتاب مرتب کی جس کا نام" مصنف ابن ابی شیبہ" ہے اس کی بہت ساری جلدیں ہیں اور ہر جلد کا ایک عنوان ہے۔

1۔ ایک جلد نمبر 13 ہے جس کا عنوان ہے" الادب" جس میں امام شیبہ نے نبی پاک (صلی اللہ علیہ وسلم) کے ہاتھ اور پاؤں چومنے والی روایات ذکر کی ہیں۔
اس جلد کی تحقیق " محمد عوامہ" نے کی ہے اور اس میں 25812 سے لے کر 27260 تک صرف ادب کے بارے میں احادیث ہیں۔

2۔ اور ایک جلد نمبر 20 ہے جس کا نام" الردّ علی ابی حنیفہ" ہے اور اس میں 37202 سے لےکر 37688 تک احادیث اور 125 ابواب ہیں۔
125 ابواب میں انہوں نے ثابت کیا ہے کہ امام ابو حنیفہ نے 125 مسائل میں حدیث رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کی مخالفت کی ہے۔
یعنی 486 احادیث مرتب کرکے ثابت کیا ہے کہ امام ابو حنیفہ نے حدیث رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کی مخالفت کی ہے۔

اور ابن ابی شیبہ کی وفات 235ھ میں ہوئی یعنی وہ امام بخاری سے پہلے فوت ہوگئے جبکہ امام بخاری کی وفات 256ھ میں ہوئی یعنی ان سے 21 سال پہلے امام ابن ابی شیبہ وفات پا گئے۔
اب دیکھئے کہ محترم ڈاکٹر طاہر القادری کو مصنف ابی شیبہ کی جلد نمبر 13 فی الادب تو نظر آگئی مگر اسی مصنف ابن ابی شیبہ کی جلد نمبر 20 فی رد ابی حنیفہ نظر نہیں آئی کیونکہ اس میں امام ابن ابی شیبہ نے امام ابو حنیفہ کی حدیث میں مخالفت ظاہر کی ہے۔

کیا ڈاکٹر طاہر القادری صاحب ہمیں یہ بتانا پسند فرمائیں گے کہ :
یہ 486 احادیث بھی صحیح ہیں یا ضعیف؟

میں نے جب غور سے دیکھا تو باب جو (حدیث 484 ہاتھ چومنے کا بیان) والا پورا باب ہی نکال دیا اور جو باب ان کے عقیدے کے خلاف تھے وہ سارے ابواب ہی نکالتے چلے گئے، اور آگے دیکھا تو (باپ کا بیٹی کو چومنے والا باب) یہ باب نمبر 443، تو نکالتے نکالتے انہوں نے یہ بیٹی کوچومنے والا باب ثابت رکھا اور اس باب کا نمبر 389 ہے
پہلے یہ معلوم کرنا چاہئے کہ ہاتھ پاؤں چومنے کی جو احادیث ہیں ان کی سندیں کتنی صحیح ہیں کیونکہ اوپر اس مسئلے کی احادیث کی سندیں بیان کی جا چکی ہیں کہ وہ ضعیف ہیں۔

امام ترمذی نے ان میں سے کچھ احادیث کو حسن صحیح قرار دیا ہے مگر امام مالک نے بزرگوں کے ہاتھ پاؤں چومنے کو مکروہ قرار دیا ہے۔
یعنی :
اگر کسی کے ہاتھ پاؤں اس کی تعظیم یا اس کی بڑائی سے یعنی اس کے جاہ و جلال کے ڈر سے چومے جائيں تو مکروہ ہیں اور اگر اللہ کی قربت حاصل کرنے کے لیے یا اس کے علم کے بنیاد پر یا اس کے شرف کے وجہ سے اسے کے ہاتھ چومے جائيں تو یہ صحیح ہے۔ (مگر اس میں فتنہ کا ڈر نہ ہو تو)۔

جیسے نووی رحمۃ اللہ علیہ نے نے فرمایا ہے کہ :
قال النووي تقبيل يد الرجل لزهده وصلاحه أو علمه أو شرفه أو صيانته أو نحو ذلك من الأمور الدينية لا يكره بل يستحب فإن كان لغناه أو شوكته أو جاهه عند أهل الدنيا فمكروه شديد الكراهة وقال أبو سعيد المتولي لا يجوز
اردو ترجمہ (ڈاکٹر صھیب حسن):
آدمی کے ہاتھ کا چومنا اس کے زہد، نیکی، عمل، شرف، حفاظت دین، اور اسی طرح کے دوسرے دینی امور کی بنا پر ہو تو مکروہ نہیں بلکہ مستحب ہے، لیکن ایسا کرنا اس کی دولت یا اس کی طاقت یا اہل دنیا کے نزدیک اس کی وجاہت کی بنا پر ہو تو انتہائی مکروہ ہے، ابو سعید المتولی کہتے ہیں: جائز نہیں ہے۔
بحوالہ :
فتح الباری ، ج:11 ، باب الاخذ باليد ، حدیث :5910

اور ایک جگہ ہے کہ :
قال الأبهري وانما كرهها مالك إذا كانت على وجه التكبر والتعظم وأما إذا كانت على وجه القربة إلى الله لدينه أو لعلمه أو لشرفه فإن ذلك جائز

قال بن بطال وذكر الترمذي من حديث صفوان بن عسال أن يهوديين أتيا النبي صلى الله عليه وسلم فسألاه عن تسع آيات الحديث وفي آخره فقبلا يده ورجله قال الترمذي حسن صحيح۔

دونوں اقوال بحوالہ :
فتح الباری ، ج:11 ، باب الاخذ باليد ، حدیث :5910

ان احادیث کا مطلب ہے کہ ہاتھ اور پاؤں چومنا جائز ہیں مگر ان کی بھی کچھ شرائط ہیں جیسے کہ ان احادیث میں بیان کی گئی ہیں اور جسے اقوالِ ائمہ سے ثابت بھی کیا گیا ہے۔

علامہ البانی رحمۃ اللہ علیہ نے صرف ان احادیث کو ضعیف قرار دیا جن کی سند راویوں کے ذریعے سے ضعیف تھیں نا کہ انہوں نے ہر حدیث کو ضعیف ثابت کیا۔
مسئلہ ہاتھ اور پاؤں چومنا تو صحیح ہے مگر علامہ البانی نے صحیح احادیث کو الگ سے ترتیب دیا تاکہ صحیح اور ضعیف میں تمیز ہو جائے۔

مثال کے طور پر اسراء اور معراج کا واقعہ صحیح ہے مگر اس کے بارے میں بہت سی احادیث ضعیف ہیں اور اگر کوئی محدث ان پر حکم لگا کر ، ضعیف قرار دے کر الگ کرے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ یہ واقعہ غلط قرار دیا جا رہا ہے کیونکہ اس واقعے کے بارے میں صحیح احادیث بھی ہیں۔

تواس کا صاف مطلب یہ ہے کہ علامہ البانی رحمۃ اللہ علیہ نے صرف ان احادیث پر حکم لگایا جو باعتبار سند ضعیف تھیں نا کہ صحیح احادیث کا رد کیا ہے۔

اب صاحبان علم و شعور ذرا سنجیدگی سے غور فرمائیں کہ :
کیا یہ تعجب کی بات نہیں ہے کہ اگر شیخ البانی "الادب المفرد" کی تخریج کرکے صحیح اور ضعیف احادیث علحیدہ کردیں تو وہ موردِ الزام ٹھہریں ۔۔۔
اور اگر ڈاکٹر طاہر القادری صاحب (جو ویسے تو امام بخاری کا ظاہری دم بھرتے ہیں) جب صحیح بخاری کی وہ تمام احادیث جو فاتحہ خلف امام یا رفع الیدین وغیرہ پر موجود ہیں، ان کو سرے ہی سے نہ مانیں تو یہ کوئی قابلِ اعتراض یا قابلِ گرفت معاملہ نہیں ؟؟


کیا کوئی انصاف پسند مسلمان ہمیں یہ بتانا گوارہ فرمائے گا کہ :
کسی بزرگ کے بارے میں یہ کہنا کہ میں اس کا بہت احترام کرتا ہوں پھر پلٹ کر اس کی بات کو نہ ماننا ۔۔۔ ایسا دوغلا رویہ بزرگ کا احترام کرنا ہے یا بزرگ کی تحقیر کرنا ؟؟!!

تمام شد !!

===
تحقیق : الاستاذ الشیخ دکتور صھیب حسن حفظہ اللہ
کمپوزنگ : Slave of Allah
پروف ریڈر اور مرتب : باذوق
 

باذوق

محفلین
کوئی بری تنقید نہیں‌کرنا چاہتا۔ متن، ترتیب ، تعداد اور اسناد کا فرق مختلف جگہوں سے شائع شدہ کتب میں بہت بار پایا ہے۔ کبھی صحیح کے نام پر کبھی ضعیف کے نام پر ، یہ خلط ملط جوں جوں پیچھ جاتے جائیں مزید نمایاں ہوتا جاتا ہے ۔ حتی کے تقریباً‌500 سال کے لگ بھگ یہ کتب ہی معدوم ہوجاتی ہیں۔ اصل کتب کا سراغ بھی نہیں‌ملتا۔ یہ ایک افسوس کا مقام ہے۔ جوں جوں‌ہماری صلاحیت بڑھ رہی ہے کہ ہم دوسرے ممالک میں‌طبع شدہ کتب دیکھ سکیں۔ یہ فرق واضح‌ہوتا جارہا ہے۔ گو کہ بھائی بند مختلف جوازات پیش کردیتے ہیں لیکن مجھ جیسا معمولی طالب علم ان کتب میں یکسانیت نہیں‌پاتا۔ افسوس۔ پہلے والوں کا درست ہونا اور بعد والوں کا اس میں فرق پانا اس بات کی واضح نشاندہی کرتا ہے کہ پہلے والوں نے احتیاط وہ نہیں برتی جو ان روایات و تواریخ کی کتب کا حق تھا۔ ابن کثیر کی البدایہ و النہایہ میں‌ملنے والی ایک غلطی کی نشاندہی، کیا عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا ایک نو سال کی دلہن تھٰیں نام کے آرٹیکل میں‌کی گئی ہے۔ اب یہ معلوم نہیں‌کہ اس کتاب میں‌غلطی ابن کثیر سے ہوئی یا بعد والوں‌ اس کتاب میں‌ترمیم کی۔ میرا خیال ہے کہ یہ ترمیم بعد میں ہوئی۔ کوئی ذی الہوش شخص ایسا حساب کر نہیں سکتا کہ جیسا کہ سامنے آیا ہے۔
محترمی فاروق صاحب !!
تھریڈ کے موضوع سے متعلق بات کریں۔ جبکہ آپ کو یہ حق بھی میسر ہے کہ آپ اپنے درج بالا موضوع پر علیحدہ سے تھریڈ کھول سکتے ہیں۔

بات اصل میں یہ ہے کہ علم و اصولِ حدیث ایک باقاعدہ سائینس ہے، ریسرچ کا ایک وسیع میدان ہے۔ جب تک ہم اس سائینس کے مختلف و متنوع پہلوؤں کا مطالعہ و ادراک نہیں کر پاتے تب تک محض عقلی تُک بندیاں لڑانے سے کچھ حاصل نہیں ہو سکتا۔
 

بھائی@جان

محفلین
میرے میں اگر انہوں نے اس پر دو کتب لکھنا ضروری سمجھا تھا تو دوسری کتاب کا زکر پہلی میں ضرور کرنا چاہیے تھا
اور جہاں تک آپ ان کے بارے میں علمی جواب کا تعلق تو میں امید کرتا یوں کے وہ بھی آپ قادری صاحب یاں کسی اور کی طرف سے مل جائیگے

اور ہاں یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ہم سب میں کچھ نہ کچھ غلطیاں ہیں کیا اہلحدیث کیا اہلیسنت مگر کوئی بھی اپنے اندر کی خامیوں کو نکالنے کے ایک دوسرے سے لڑنے کو ترجیع دیتے ہیں.
مناظرے ہوتے ہیں مگر نتیجہ کچھ نہیں نکلتا
 
Top