باذوق
محفلین
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
امام بخاری (رح) کی کتاب "الادب المفرد" کے حوالے سے
علامہ البانی (رح) پر ڈاکٹر طاہر القادری کی تنقید اور اس کا جواب
امام بخاری (رح) کی کتاب "الادب المفرد" کے حوالے سے
علامہ البانی (رح) پر ڈاکٹر طاہر القادری کی تنقید اور اس کا جواب
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ !
تمہید :
محترم جناب ڈاکٹر طاہر القادری نے اپنی ایک نشست میں عصرِ حاضر کے محدثِ کبیر علامہ ناصر الدین البانی (رحمۃ اللہ علیہ) کی شخصیت و علمیت پر تنقید کی ہے۔ ڈاکٹر صاحب محترم کے معتقدین نے یوٹیوب پر اس تنقیدی نشست کی ویڈیوز فراہم کر رکھی ہیں جو ذیل کے روابط پر دیکھی جا سکتی ہیں :
ڈاکٹر طاہر القادری کی علامہ البانی پر تنقید بحوالہ یوٹیوب ویڈیوز :
ہم نے ڈاکٹر صاحب کے معتقدین سے ادباً گذارش کی تھی کہ اس کو تحریری قالب میں بھی ڈھال کر پیش کیا جائے تاکہ ہمیں جواب دینے میں آسانی ہو ، مگر ہماری گذارش کو قابل اعتنا نہ سمجھا گیا۔
ہمارے ایک دوست نے اس کام کا بیڑا اٹھایا اور ان تین ویڈیوز کے مواد کو تحریری صورت میں کمپوز کر ڈالا جسے ذیل میں ملاحظہ کیا جا سکتا ہے۔
ڈاکٹر قادری صاحب کی اس تنقید کو کمپوزنگ و پروف ریڈنگ کے مرحلوں سے گزارنے کے باوجود غلطی / غلطیوں کا امکان ہو سکتا ہے لہذا ڈاکٹر صاحب موصوف کے معتقدین سے گذارش ہے کہ جہاں تصحیح کی ضرورت ہو اس کا بلاجھجھک اظہار فرمائیں ، غلطی درست کر دی جائے گی ان شاءاللہ۔
~~~~~~
اب جو یہ ہاتھ چومنے اور پاؤں چومنے کی حدیثیں ہیں، امام بخاری لائے۔ وہ میری پڑھی ہوئی تھیں بڑی مدت پہلے تقریبا 30 سال یا اس سے بھی زیادہ پہلے پڑھی ہوئی تھیں، جب " الادب المفرد" میں نے اپنے والد گرامی سے پڑھی، یہ بڑے زمانے پہلے کی بات ہے، اس کے کئی نسخے پڑھے تھے تو یہ کتاب اب میرے سامنے تو تھی۔میں ایک عرب ملک میں گيا، نام نہیں لوں گا، تو مکتبہ سے کتابیں خرید رہا تھا تو یہ کتاب میری نظر سے گذری تو بے دھیانی سے میں نے اسے "صحیح الادب المفرد" پڑھا اور صحیح نہیں پڑھا تو میں نے سمجھا کہ یہ امام بخاری کی نئی تحقیق کے ساتھ "الادب المفرد" آئی ہے۔
یہ غالباً 3 جلدوں میں ہے، تو میں نے خرید لی، اور رکھ لی، اتفاق نہیں ہوا پڑھنے کا، میں نے سوچا اس میں نئي تحقیق آئی ہوگی نئی تخریج کے ساتھ، ایسے ہی میں نے ایک روز کھولا جو: "الادب المفرد" سمجھ کرنئی اٹھا کر لے آيا، اٹھا کے جو میں نے متعلقہ باب کھولا (باب نمبر 484، ہاتھ چومنے کا بیان) اسی کی حدیث 972 دیکھی تو اس میں ہے کوئی نہیں، حدیث ہی نکال دی گئی، حدیث 972 ہی نکال دی گئی ۔۔۔
پھر میں بڑا حیران ہوگيا، اور یہ جو تحقیق کرنے والے عصر عالم ہیں، پتہ نہیں فوت ہوگئے ہیں، البانی صاحب اس کو کہتے ہیں، محمد ناصر الدین البانی، عرب کے ہر ملک میں جائيں تو تفسیر کی ہر کتاب میں ان کی تحقیق و تخریج ملے گی، ہر ایک کے نیچے اس نے حوالے بتادیے ہیں، جو عقیدے کے خلاف ہے وہ سب موضوع کردیا، ضعیف بنادیا، اور جو اس کے عقیدے کے مطابق ہے اس کو صحیح کردیا۔
پھر میں نے آگے دیکھا تو آگے جو حدیثيں بتائي ہیں (حدیث نمبر 974 ، جس میں تابعین نے صحابہ کے ہاتھ چومے تھے) وہ اگلی حدیث جس میں تابعی نے حضرت انس رضی اللہ عنہ کے ہاتھ چومے تھے وہ بھی نکال دی، اور پھر میں نے آگے دیکھا (حدیث نمبر 975 پاؤں چومنے کا باب) تو وہ سارا باب ہی نکال دیا، وہ سارا عنوان ہی نکال دیا، اس میں جو حدیثيں ہیں وہ 2 لائے تھے(حدیث 975 اور 976) دو حدیثيں امام بخاری کی وہ دونوں نکال دیں۔
یہ تو میں صرف ایک مقام بیان کررہا ہوں، اور میں نے جب غور سے دیکھا تو باب جو (حدیث 484 ہاتھ چومنے کا بیان) والا پورا باب ہی نکال دیا اور جو باب ان کے عقیدے کے خلاف تھے وہ سارے ابواب ہی نکالتے چلے گئے، اور آگے دیکھا تو (باپ کا بیٹی کو چومنے والا باب) یہ باب نمبر 443، تو نکالتے نکالتے انہوں نے یہ بیٹی کوچومنے والا باب ثابت رکھا اور اس باب کا نمبر 389 ہے، یعنی یہاں تک پہنچتے پہنچتے وہ 389، 11 یہ ہوتے ہیں اور 43 اوپر ہوگئے اور یہ ہوگئے 54 باب، اس حدیث تک پہنچتے پہنچتے امام بخاری کی "الادب المفرد" میں سے 54 ابواب نکال دیے، پھر میں حدیث کے نمبر دیکھے، تکبیر الرجع پر پہنچتے 972 تو حدیث نمبر 747 رہ گئی ان کے ہاں، اور 747 امام بخاری کی حدیث نمبر 973 تھی، تو کتنی حدیثيں نکل چکی ہیں؟ 226 حدیثيں امام بخاری کی "الادب المفرد" سے نکال دیں۔
اب میں آپ کو End بتاتا ہوں اس کا، یہ البانی صاحب ہیں، جو عالم عرب میں سب سے بڑے محدث گردانے جاتے ہیں، اب امام بخاری کی "الادب المفرد" کو End کردوں۔
(باب نمبر 684 ختم الرعیت) الادب المفرد جو اصل ہے، اس کے کتنے باب ہیں؟ 684 ابواب ہیں امام بخاری کی اصل الادب المفرد میں، یہ کوئی عام کتاب نہیں ہے، سارے جہاں میں ملتی ہے، جہاں سے چاہو لے لو، الادب المفرد تو آپ کو ہر مکتبہ سے مل جائے گی، عرب و عجم، اور ہر عالم کے پاس ہے، اور یہ جو البانی صاحب کی ہے اس کا نام" تحقیق التخریج" رکھا ہے۔
تخریج کا مطلب ہے حوالہ جات دینا، کہاں کہاں یہ حدیث ہے، اور یہ کام مخرج کا ہوتا ہے۔ مگر یہ اخراج ہے، البانی صاحب نے بجائے تخریج کے خارج کردیے، مخرج تو الٹا اندر سے نکالتا ہے حوالہ جات۔
اب ان کا آخری باب 561 پہ ختم ہوا، تو گویا اس نے 83 ابواب امام بخاری کی الادب الفمرد سے نکال دیے پورے کے پورے، تخریج کے نام پر 83 ابواب نکال دیے، اور امام بخاری کی آخری حدیث الادب المفرد میں 1322 نمبر پر ہے، اور اس البانی صاحب کی "الادب المفرد" کی آخری حدیث 993 پہ ہے۔ تواس کا مطلب کہ 330 حدیثيں امام بخاری کی الادب المفرد میں سے نکال دیں تو چھوٹے امام بچارے کہاں بچيں گے؟
تو امام بخاری کو کون مانتا ہے؟ اس کو تو تب مانیں جب وہ ان کے مطابق لکھے، اور خدا کا شکر ہے ابھی صحیح بخاری پر ان کا ہاتھ نہیں پڑا، اب یہاں ایک نقطہ بیان کروں، پہلے تو میں بہت پریشان ہوا، کچھہ سمجھ میں نہیں آيا، یعنی یہ بد دیانتی کی انتہا ہے، اگر یہ کام حدیث کی کتابوں سے نہ شروع ہوگيا تو 100 یا 200 سالوں میں تو۔۔۔۔استغفراللہ الامان۔۔۔۔۔۔۔۔
اب میں نے یہ ٹوہ لگایا کہ انہوں نے جو یا ماجرا امام بخاری کے ساتھ کیا، امام بخاری پہ بھی ہاتھ ڈال دیا، ان کو بھی نہیں چھوڑا، تو جہاں بات امام بخاری کی بھی اپنے عقیدے کے مطابق نہ ملی اسے نکال دی، پھر جاکے بات سمجھہ آئی کہ امام بخاری نے اپنی اس شرح کا نام لکھا تھا "الادب المفرد"۔اب بڑی لطیف بات ہے، لکھنے والے نے ڈنڈی مارنے کے لیے، حدیثيں نکالنے کے لے، ابواب نکالنے کے لیے، کچھ تو کرنا تھا نا!!!
الادب المفرد کتاب کوئی ایسی غیر معروف تو ہے نہیں، تو اس کے اوپر "صحیح" لکھ دیا پہلے، "صحیح الادب المفرد" یعنی جو امام بخاری کی "الادب المفرد" تھی وہ صحیح بھی تھی ، ضعیف بھی تھی اور معروف بھی تھی، اب البانی صاحب امام بخاری کو بھی صحیح کررہے ہیں، یہ تو صحیح کرنے پہ آئيں تو ، تو ان کا مطلب ہے کہ امام بخاری بھی غلط ہیں۔
اب میں دوسری معنوں میں لے رہا ہوں کہ امام بخاری کے پاس بھی بقول ان کے ضعیف حدیثيں ہیں، اور غیر صحیح اور موضوع ہیں، تو انہوں نے کہا کہ جو امام بخاری کی صحیح حدیث تھیں وہ اس میں ہے اور جو صحیح نہیں تھی وہ سب نکال دیں، تو یہ امام بخاری کےاستاذ بن گئے، یہ امام بخاری کے شیخ ہوئے، اگر آج امام بخاری حیات ہوتے تو خدا جانے ان پہ کیا گذرتی!
اب ان سے یہ پوچھیے کہ چلو امام بخاری کی جوصحیح احادیث نہیں ہیں وہ آپ نے نکال دیں تو کیا آپ امام بخاری سے بھی بڑے جرح امام ہیں، امام بخاری نے تو ابواب قائم کیے تھے، اور باب جو قائم کرتا ہے محدث وہ اس کا عقیدہ ہوتا ہے، وہ اس کا مسلک ہوتا ہے، اس باب اور اپنے مسلک کی تائيد میں حدیث لاتا ہے، تو تم نے سنديں ضعیف کرکے، موضوع کرکے معاذاللہ امام بخاری پر ظلم کیا، کاٹ ڈالا، نکال دیا۔
مگر انہوں نے ابواب بنائے تھے کہ یہ عقیدہ صحیح ہے، آپ نے وہ ابواب بھی نکال دیے، اتنے ابواب نکالے؟ 83 باب نکال دیے، گویا جو امام بخاری نے اپنے عقائد بیان کیے تھے اس کی 83 شاخيں کاٹ ڈالیں۔ اس کا مطلب کہ امام بخاری نے جو باب بنایا (پاؤں چومنے کے لیے) اس کا مطلب کہ اکابر کے پاؤں چومنے جائز ہیں، اس کا مطلب کہ ان کے ابواب نکال کر ان کی حدیثيں ضعیف کردیں اور ان کا عقیدہ بھی غیر صحیح کردیا۔
یہ امام بخاری، یہ امام مسلم اور ابو داؤد ہیں سب، اور یہ دونوں امام بخاری، اور امام مسلم کے استاذ امام ابی شیبہ ہیں، ان کا عقیدہ دیکھیے:
الحافظ امام ابوبکر الشیبہ 235ھ میں ان کی وفات ہوگئی، دونوں اماموں کی اس وقت جوانی تھی جب یہ شیخ اپنی آخری عمر میں پہنچ کر وصال پاگئے۔ تو انہوں نے بھی حدیث پہ ایک کتاب لکھی "کتاب الادب" اور ان کی تصنیف ابن( یا) ابی شیبہ بھی ہے، یا کتاب دین کا ادب سکھاتی ہے کہ دین کا ادب کیا ہے۔
ہر امام کی کتاب میں کتاب الادب ہے، اور کچھ اماموں نے الگ کتابیں بھی لکھی ہیں جیسے امام بخاری کی " الادب المفرد" اور شیخ ابی شیبہ کی "کتاب الادب"-
تو انہوں نے اس کتاب کے پہلے باب کی شروعات ہی کس چيز سے کی" بزرگوں کے ہاتھ چومنے کا بیان" سے کی۔
اتنی تو اہمیت تھی ان کے نزدیک ائمہ کی، تو یہ خود کیا تھے!
اور آج اس چيز کو شرک و بدعت تصور کرتے ہیں، اگر کوئی ہاتھ چومتا دیکھے تو کہتے ہیں یہ بدعت ہے، مگر جو اماموں کے شیخ ہیں وہ اپنی کتاب الادب کی شروعات ہی بزرگوں کے ہاتھ چومنے سے کرتے ہیں اور اس میں وہ 5 حدیثيں لائے ہیں، تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں بس میں نے 5 بتادیں، تو یہ 5 حدیثيں امام بخاری بھی لے چکے ہیں، ابن عمر کی روایت سے، ابن ماجہ بھی لے چکے ہیں، ابوداؤد بھی لے چکے ہیں ابن عمر کی روایت سے، امام ترمذی بھی سنن میں لے چکے ہیں اور امام احمد بن حنبل بھی لے چکے ہیں۔
اور اس کے بعد اگلا باب لائے ہیں (ہاتھ اور پاؤں چومنے کا باب) حدیث نمبر 3 ہیں، جس میں نبی پاک (صلی اللہ علیہ وسلم) کی محفل میں جب کچھ یہودی آتے ہیں اور آپ(صلی اللہ علیہ وسلم) کے ہاتھ بھی چومتے ہیں اور پاؤں بھی چومتے ہین اور نہ انہیں صحابہ روکتے ہیں کہ یہ کیا کر رہے ہو سجدہ کررہے ہو اور نہ ہی آپ(صلی اللہ علیہ وسلم) نے روکا۔
آج کل اگر کوئی پاؤں چومے تو کہتے ہیں کہ سجدہ کررہا ہے!
میرے ساتھ بھی ایک واقعہ ہوا، ( میں کرسی پر بیٹھا تھا کہ ایک آدمی ایسے ہی تھوڑا سا نیچے ہوکر میری بات سن رہا تھا، مصاحفہ بھی نہیں کیا اس نے تو اسی وقت ایک عالم صاحب کے روپ میں آدمی آیا اور اس نے دیکھ لیا اور کہا : سحدہ کررہے ہو تم ؟!
تو میں نے اس سے پوچھا کہ سجدے کی شرعی تائيد کیا ہے؟ سجدہ کیسے بنتا ہے؟ یہ بندہ تو صرف ایسے ہی سر جھکا کے بات سن رہا تھا تو آپ اسے سجدہ کیسے کہ رہے ہیں، خدا کا خوف کرو اور شرم کرو، سجدہ ایسے ہی شریعت میں ہوتا ہے!!!صحابہ نبی پاک(صلی اللہ علیہ وسلم) کے قدم چومتے تھے اور وہ سجدہ نہیں ہوتا تھا اور آپ سر جھکا کر حجر اسود کو چومتے ہیں تو کیا وہ سجدہ بن جاتا ہے؟؟؟ خدا کا خوف ہونا چاہیے آپ کو۔
یہودیوں نے چوما، اور اسی حدیث کو امام ترمذی نے، نسائی نے، اور ابن ماجہ نے بھی روایت کی ہے، حجت ہے یہ حدیث۔ اور امام طبرانی نے بھی روایت کیا ہے اس کو۔ مگر جن کو مرض ہے، کم علم ہے، غصہ ہے، اپنے عقیدے کے برعکس ہے تو اس کو شرک اور بدعت کہدو اور اگر حدیث ہے تو اس کو ضعیف کہدو، تو وہ یہ کہیں گے وہ تو یہودی تھے تو ان کا عمل کیسے سنت بن گيا؟
نادان اس قسم کا بھی اعتراض کرتے تو میں بھی ان کو جواب دیتا ہوں، کہ آپ کو بغض میں چومنے والے تو دکھائی دیتے ہیں مگر وہ دکھائی نہیں دے رہا جس کے قدم چومے جارہے ہيں؟ اور وہ دکھائی نہیں دے رہا جو منع بھی نہیں کررہا ہے؟
تواس کا مطلب کہ قدم چموا رہے ہیں سنت ہوگئی اور کسے سنت کہتے ہیں؟ پوری مجلس میں صحابہ رضی اللہ عنہم دیکھ رہے ہيں اور منع بھی نہیں کر رہے ہیں تو اس کو سنت نہیں کہتے تو اور کیا کہتے ہیں؟!
اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ ہر کوئی مشائخ، استاذ، عالم اپنے پاؤں چمواتا رہے، ہر کسی کی ایک حد ہے اور ادب یہ ہے کہ مشائخ و عالم، استاذ و بزرگ خدا کا خوف رکھ کر للچائے اور چھوٹا ادب سے اس کے پاؤں چومتا رہے، یہ دین کے ادب ہیں۔
وکیل کی روایت ہے امام سفیان سے ابن ماجہ میں کہ ابو عبیدہ بن جراح گورنر شام کہتے ہیں کہ " جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ ان کی طرف سفر کرکے آئے تو وہ ان کے ہاتھ چومتے تھے۔" اس کا مطلب کہ یہ سنت ہے اور ہر امام نے جاری رکھی۔
اور یہ ہی نہیں بلکہ امام مسلم نے امام بخاری سے اجازت طلب کی کہ " مجھے اجازت دو کہ میں آپ کے قدم چوموں" اور امام بخاری کا عقیدہ کیا ہے؟ انہوں نے اپنے استاذ امام ابن اسحاق رحمۃ اللہ علیہ سے کہا : کیا آپ مجھے اجازت دیتے ہیں میرا دل کرتا ہےکہ میں آپ کے قدم چوموں ؟
اور اب البانی نے یہاں تک کی ساری حدیثيں نکال دیں، امام بخاری کے قائم کردہ ابواب نکال دیے۔
عرض کرنے کا مقصد یہ تھا کہ یہ ائمہ کے عقائد تھے مگر اس کو نکالنے والے نے نہیں دیکھا اور صحیح کہنے کے لیے جو کہ عقیدہ کے خلاف تھے ان کی کتابوں سے نکال دیے۔
اب معیار یہ بن گيا کہ حقیقت میں صحیح اور غیر صحیح کا، صحیح ضعیف اور موضوع کا اور درست اور غلط کا پیمانہ نہ قرآن ہے نہ حدیث ہے، نہ اصول ہے نہ فن ہے نہ علم ہے، جو عقیدہ بن گيا، جس پر قائم ہیں وہ ہی عقیدہ ہے، جو عقیدے کے مطابق ہوئی وہ قبول کیا اور جو عقیدے کے خلاف ہوئی رد کیا۔