عماد بزدار
محفلین
1957ء سے 2014ء تک جمہوریت کا سفرِ معکوس
الطاف گوہر لکھتا ہے‘ یہ شاید1957ء کی بات ہے جب مصر کے صدر جمال عبدالناصر نے نہر سویز کو مصر کی قومی ملکیت میں لینے کا فیصلہ کیا۔صدر ناصر کا یہ فیصلہ اخلاقی اور قانونی طور پر جائز تھا مگر ناصر کے اس فیصلے پر برطانیہ اور فرانس کی حکومتیں بگڑ گئیں۔ہر دو ممالک کی تجارت کے لیے نہر سویز کی کلیدی حیثیت تھی لہٰذا انہوں نے مصر پر حملہ کرنے کا اعلان کر دیا۔دو عرب ملکوں نے اپنی افواج ناصر کے سپرد کر دیں۔دنیا کے بیشتر ممالک نے برطانیہ اور فرانس کے اس اقدام کی مخالفت کی اور فوجی کارروائی کی مذمت کی۔برطانیہ نے بہرحال صدر اسکندر مرزا کو قائل کر لیا کہ مصری صدر ناصر سوویت یونین کا گماشتہ ہے اور اسے ٹھکانے لگانا ضروری ہے۔ اسکندر مرزا نے حسین شہید سہروردی (جو اس وقت پاکستان کے وزیر اعظم تھے) کو کسی نہ کسی طرح اس بات پر آمادہ کر لیا کہ وہ برطانیہ اور فرانس کی اس فوجی کارروائی کے حق میں بیان دیں۔معلوم نہیں کیسے سہروردی یہ نہ سمجھ سکے کہ اسکندر مرزا ان کو ایک بین الاقوامی سازش کا شکار بنا رہا ہے۔سہروردی نے اس دوران یہ بیان بھی دیا کہ ناصر اور اس کے حامی عرب ممالک کی فوجوں کی کیا حیثیت ہے۔برطانوی اور فرانسیسی فوجیوں کے مقابلے میں عرب افواج کیا حاصل کر سکتی ہیں؟یہ تو صفر جمع صفر جمع صفر والا معاملہ ہے۔
پاکستان کو امید تھی کہ فرانس اور برطانیہ اس کی فوجی اور مالی امداد کے لیے سرمایہ فراہم کریں گے لیکن یہ امید بھی بر نہ آ سکی کیونکہ امریکہ نے برطانوی اور فرانسیسی لشکر کشی کی پر زور مذمت کی اور اپنا وزن برطانیہ اور فرانس مخالف پلڑے میں ڈال دیا۔ صدر جمال عبدالناصر ایک فاتح بن کر ابھرے اور پوری عرب دنیا پر چھا گئے۔
سہروردی کے بیان پر پاکستان میں ایک طوفان سا مچ گیا۔ سہروردی کی شہرت ایک آزاد خیال اور اصول پسند سیاست دان کی تھی اور کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ وہ برطانیہ اور فرانس کی فوجی کارروائی کی حمایت میں بیان دیں گے۔کراچی میں ہر طرف سہروردی مردہ باد کے نعرے لگ رہے تھے۔کالجوں اور سکولوں میں احتجاجی جلسے ہو رہے تھے۔یونیورسٹی کی طلبہ یونین نے احتجاجی جلوس نکالنے کا فیصلہ کیا اور الطاف گوہر (جو اس وقت ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کراچی تھے) سے جلوس نکالنے کی اجازت مانگی‘ جو انہیں اس شرط پر دے دی گئی کہ وہ بندر روڈ سے ہوتے ہوئے کیماڑی چلے جائیں گے ۔طلبہ نے شرط تسلیم کر لی اور دوسرے روز دوپہر کو ایک بہت بڑا جلوس نکلا۔تقریروں سے جلوس کا مزاج بگڑ تا گیا۔کراچی کے انسپکٹر جنرل مسٹر کھنڈکر اور الطاف گوہر اس فکر میں تھے کہ اگر جلوس نے اپنا طے شدہ راستہ چھوڑ دیا اور ایک گلی سے نکل کر برطانوی ہائی کمیشن کی عمارت کی جانب آ گئے تو کیا بنے گا۔دونوں افسر عمارت کے باہر کھڑے تھے اور برطانوی ہائی کمشنر مورس جیمز اندر دفتر میں تھا۔وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔جلوس نے راستہ بدل لیا اور پولیس کے لاٹھی چارج اور آنسو گیس کی شیلنگ کے باوجود برطانوی ہائی کمیشن کے گرد گھیرا ڈال لیا۔پرجوش نعرے ‘جذباتی تقریریں اور مشتعل مجمع۔ آئی جی پولیس کھنڈکر نے الطاف گوہر سے بحیثیت ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کراچی گولی چلانے کی اجازت مانگی۔یہ ایک مشکل مرحلہ تھا۔ الطاف گوہر نے ایک انتظامی ضرورت کے تحت دو چار نوجوانوں کو موت کے گھاٹ اتارنا قبول نہ کیا اور فیصلہ کیا کہ وہ طلبہ سے خطاب کرے گا۔اگر پھر بھی حالات قابو میں نہ آئے تو پھر مجبوراً گولی چلانے کی اجازت دے دی جائے گی۔پولیس کے ٹرک پر لائوڈ سپیکر لگا دیا گیا اور الطاف گوہر نے تقریر شروع کر دی۔اس نے طلبہ کے جلوس کے حق کو تسلیم کیا مگر برٹش ہائی کمیشن کو آگ لگانے کو عالمی رسوائی سے تعبیر کرتے ہوئے طلبہ کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کی مگر ناکامی ہوئی۔طلبہ نے الطاف گوہر کے خلاف نعرے بازی شروع کر دی۔طیش میں آ کر الطاف گوہر نے کہا کہ آپ لوگوں نے یہ جلوس وزیر اعظم سہروردی کے خلاف نکالا ہے۔ اگر ان میں ہمت ہے تو جائیں اور وزیر اعظم ہائوس کا محاصرہ کریں پھر الطاف گوہر نے جلوس کو کچہری روڈ سے وزیر اعظم ہائوس اور دفتر جانے کی اجازت دے دی۔ اس اعلان کا ڈرامائی اثر ہوا اور سارا ہجوم برطانوی ہائی کمیشن چھوڑ کر کچہری روڈ کی طرف نکل گیا۔
آئی جی کھنڈکر اور الطاف گوہر گلیوں سے ہوتے ہوئے پانچ دس منٹ میں وزیر اعظم کی رہائش گاہ پر پہنچ گئے۔وہاں ایک ہنگامہ مچا ہوا تھا۔سہروردی ایک آرام کرسی پر لیٹے ہوئے تھے اور ان کے وزیر اور مشیر ان کے گرد گھیرا ڈالے ہوئے تھے۔ وزیر اعظم کی صاحبزادی جسے سب بے بی کہتے تھے آنسو گیس کا ایک خالی شیل ہاتھ میں لیے چلاّ رہی تھی کہ ''ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ نے کراچی پر بم گرائے ہیں‘‘۔ ایک وزیر یہ مطالبہ کر رہا تھا کہ طالب علموں پر گولی چلانے کے بعد استعفیٰ دینے کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں۔الطاف گوہر نے وزیر اعظم کو صورتحال بتائی اور اطلاع دی کہ جلوس وزیر اعظم ہائوس کی طرف آ رہا ہے۔ لوگ شدید مشتعل ہیں اور نامناسب نعرے لگا رہے ہیں۔ تھوڑی ہی دیر میں جلوس وزیر اعظم ہائوس پہنچ گیا۔ کچہری روڈ پر تل دھرنے کی جگہ نہ رہی۔جہاں تک نظر جاتی تھی بپھرے ہوئے چہرے اور ہوا کو زدو کوب کرتے ہوئے ہاتھ تھے اور فضا میں گرجتے ہوئے اشتعال انگیز نعرے تھے۔ ''سہروردی مردہ باد‘‘ تو خیر قابل برداشت تھا مگر ہجوم نے نعرہ لگایا ''سہروردی کا نام‘ انگریز کا غلام‘‘۔ سہروردی وزیر اعظم ہائوس چھوڑ کر کسی محفوظ مقام پر جانے کے بجائے باہر نکلے اور پولیس ٹرک پر سوار ہو گئے۔لائوڈ سپیکر پر خطاب شروع کیا مگر مجمع سننے سے انکاری ہو گیا۔انہوں نے کہا ''نوجوانو‘‘ جواب آیا ''نہیں سنیں گے‘‘۔ پھر کہا ''عزیزو‘‘ آواز آئی ''پہلے معافی مانگو‘‘سہروردی ٹرک کے اگلے حصے میں انجن پر آکر کھڑے ہو گئے اور بولے۔ میں تمہیں جو خبر دینے والا ہوں وہ پاکستان میں کسی کے علم میں نہیں۔ مجمع تھوڑا خاموش ہوا۔ سہروردی بولے۔ ''یہ خبر نہیں خوشخبری ہے۔ بہت بڑی خوشخبری۔ صدر جمال ناصر نے فتح حاصل کر لی ہے‘‘۔ مجمع پکارا جمال ناصر۔ زندہ باد۔ سہروردی نے کہا آپ میرے ساتھ نعرہ لگائیں ''جمال ناصر‘‘... ''زندہ باد‘‘۔ ''عرب فوجیں‘‘... ''زندہ باد‘‘۔ ہجوم کے درمیان سے ایک گرجدار آواز آئی‘‘ حسین شہید سہروردی‘‘ اور ہجوم نے مل کر ایک زور دار جوابی نعرہ لگایا ''زندہ باد‘‘
یہ لوگ سیاست دان تھے ۔ عوام کو فیس کرنے والے۔آپ اس سارے واقعے میں مختلف پہلو دیکھیں۔ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کراچی جلوس کو وزیر اعظم ہائوس جانے کا نہ صرف مشورہ دیتا ہے بلکہ جانے کے لیے محفوظ راستہ بھی فراہم کرتا ہے اور وزیراعظم اسے او ایس ڈی نہیں بناتا۔وزیر اعظم کی صاحبزادی آنسو گیس کا شیل لیے ہوئے باپ کے سامنے چلاّتی ہے کہ شہریوں پر ظلم ہو رہا ہے۔کیا آج کے حمزہ یا مریم یہ اخلاقی جرأت دکھا سکتے ہیں؟ایک وزیر‘ وزیر اعظم کے سامنے کہتا ہے کہ حکومت کو مستعفی ہو جانا چاہیے۔کیا کوئی پرویز رشید‘خواجہ سعد رفیق‘ خواجہ آصف یا اسحاق ڈار یہ ہمت کر سکتا ہے ؟ اور کیا کوئی وزیر ایسے حالات میں بلٹ پروف گاڑی پر چڑھ کر فرار ہونے کے بجائے ٹرک کے انجن پر کھڑے ہو کر مجمعے کا سامنا کر سکتا ہے؟ہرگز نہیں۔وجہ یہ ہے کہ 1957ء میں ہماری جمہوری اقدار زیادہ مضبوط اور سیاسی قیادت زیادہ بالغ نظر تھی۔ سیاستدانوں کی تربیت سیاسی انداز میں ہوئی تھی۔حکمران لاٹری کے زور پر سیاسی جماعتوں کے قائدین نہیں بنے تھے بلکہ سیاسی عمل سے گزر کر اس منزل تک پہنچے تھے۔ان کا مزاج جمہوری تھا نہ کہ جمہوریت کے نام پر بادشاہت کا شوق۔وہ عوام کے منتخب نمائندے تھے اور عوام کا سامنا کرنے پر نہ صرف یقین رکھتے تھے بلکہ ہمت اور جرأت بھی۔سنتے ہیں ملک میں جمہوریت مضبوط ہو رہی ہے۔ 1957ء کی جمہوریت کا ایک واقعہ میں نے آپ کو سنا دیا ہے۔ آج کی جمہوریت کا تماشا آپ لوگ خوددیکھ رہے ہیں۔ ستاون سال بعد ہم کہاں کھڑے ہیں؟اگر یہ واقعہ چودھری بھکن آپ کو سناتا تو وہ آخر میں
کہتا کہ اگر جمہوریت کی ترقی ہے تو درلعنت ہے ایسی ترقی پر۔
Khalid Masood
الطاف گوہر لکھتا ہے‘ یہ شاید1957ء کی بات ہے جب مصر کے صدر جمال عبدالناصر نے نہر سویز کو مصر کی قومی ملکیت میں لینے کا فیصلہ کیا۔صدر ناصر کا یہ فیصلہ اخلاقی اور قانونی طور پر جائز تھا مگر ناصر کے اس فیصلے پر برطانیہ اور فرانس کی حکومتیں بگڑ گئیں۔ہر دو ممالک کی تجارت کے لیے نہر سویز کی کلیدی حیثیت تھی لہٰذا انہوں نے مصر پر حملہ کرنے کا اعلان کر دیا۔دو عرب ملکوں نے اپنی افواج ناصر کے سپرد کر دیں۔دنیا کے بیشتر ممالک نے برطانیہ اور فرانس کے اس اقدام کی مخالفت کی اور فوجی کارروائی کی مذمت کی۔برطانیہ نے بہرحال صدر اسکندر مرزا کو قائل کر لیا کہ مصری صدر ناصر سوویت یونین کا گماشتہ ہے اور اسے ٹھکانے لگانا ضروری ہے۔ اسکندر مرزا نے حسین شہید سہروردی (جو اس وقت پاکستان کے وزیر اعظم تھے) کو کسی نہ کسی طرح اس بات پر آمادہ کر لیا کہ وہ برطانیہ اور فرانس کی اس فوجی کارروائی کے حق میں بیان دیں۔معلوم نہیں کیسے سہروردی یہ نہ سمجھ سکے کہ اسکندر مرزا ان کو ایک بین الاقوامی سازش کا شکار بنا رہا ہے۔سہروردی نے اس دوران یہ بیان بھی دیا کہ ناصر اور اس کے حامی عرب ممالک کی فوجوں کی کیا حیثیت ہے۔برطانوی اور فرانسیسی فوجیوں کے مقابلے میں عرب افواج کیا حاصل کر سکتی ہیں؟یہ تو صفر جمع صفر جمع صفر والا معاملہ ہے۔
پاکستان کو امید تھی کہ فرانس اور برطانیہ اس کی فوجی اور مالی امداد کے لیے سرمایہ فراہم کریں گے لیکن یہ امید بھی بر نہ آ سکی کیونکہ امریکہ نے برطانوی اور فرانسیسی لشکر کشی کی پر زور مذمت کی اور اپنا وزن برطانیہ اور فرانس مخالف پلڑے میں ڈال دیا۔ صدر جمال عبدالناصر ایک فاتح بن کر ابھرے اور پوری عرب دنیا پر چھا گئے۔
سہروردی کے بیان پر پاکستان میں ایک طوفان سا مچ گیا۔ سہروردی کی شہرت ایک آزاد خیال اور اصول پسند سیاست دان کی تھی اور کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ وہ برطانیہ اور فرانس کی فوجی کارروائی کی حمایت میں بیان دیں گے۔کراچی میں ہر طرف سہروردی مردہ باد کے نعرے لگ رہے تھے۔کالجوں اور سکولوں میں احتجاجی جلسے ہو رہے تھے۔یونیورسٹی کی طلبہ یونین نے احتجاجی جلوس نکالنے کا فیصلہ کیا اور الطاف گوہر (جو اس وقت ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کراچی تھے) سے جلوس نکالنے کی اجازت مانگی‘ جو انہیں اس شرط پر دے دی گئی کہ وہ بندر روڈ سے ہوتے ہوئے کیماڑی چلے جائیں گے ۔طلبہ نے شرط تسلیم کر لی اور دوسرے روز دوپہر کو ایک بہت بڑا جلوس نکلا۔تقریروں سے جلوس کا مزاج بگڑ تا گیا۔کراچی کے انسپکٹر جنرل مسٹر کھنڈکر اور الطاف گوہر اس فکر میں تھے کہ اگر جلوس نے اپنا طے شدہ راستہ چھوڑ دیا اور ایک گلی سے نکل کر برطانوی ہائی کمیشن کی عمارت کی جانب آ گئے تو کیا بنے گا۔دونوں افسر عمارت کے باہر کھڑے تھے اور برطانوی ہائی کمشنر مورس جیمز اندر دفتر میں تھا۔وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔جلوس نے راستہ بدل لیا اور پولیس کے لاٹھی چارج اور آنسو گیس کی شیلنگ کے باوجود برطانوی ہائی کمیشن کے گرد گھیرا ڈال لیا۔پرجوش نعرے ‘جذباتی تقریریں اور مشتعل مجمع۔ آئی جی پولیس کھنڈکر نے الطاف گوہر سے بحیثیت ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کراچی گولی چلانے کی اجازت مانگی۔یہ ایک مشکل مرحلہ تھا۔ الطاف گوہر نے ایک انتظامی ضرورت کے تحت دو چار نوجوانوں کو موت کے گھاٹ اتارنا قبول نہ کیا اور فیصلہ کیا کہ وہ طلبہ سے خطاب کرے گا۔اگر پھر بھی حالات قابو میں نہ آئے تو پھر مجبوراً گولی چلانے کی اجازت دے دی جائے گی۔پولیس کے ٹرک پر لائوڈ سپیکر لگا دیا گیا اور الطاف گوہر نے تقریر شروع کر دی۔اس نے طلبہ کے جلوس کے حق کو تسلیم کیا مگر برٹش ہائی کمیشن کو آگ لگانے کو عالمی رسوائی سے تعبیر کرتے ہوئے طلبہ کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کی مگر ناکامی ہوئی۔طلبہ نے الطاف گوہر کے خلاف نعرے بازی شروع کر دی۔طیش میں آ کر الطاف گوہر نے کہا کہ آپ لوگوں نے یہ جلوس وزیر اعظم سہروردی کے خلاف نکالا ہے۔ اگر ان میں ہمت ہے تو جائیں اور وزیر اعظم ہائوس کا محاصرہ کریں پھر الطاف گوہر نے جلوس کو کچہری روڈ سے وزیر اعظم ہائوس اور دفتر جانے کی اجازت دے دی۔ اس اعلان کا ڈرامائی اثر ہوا اور سارا ہجوم برطانوی ہائی کمیشن چھوڑ کر کچہری روڈ کی طرف نکل گیا۔
آئی جی کھنڈکر اور الطاف گوہر گلیوں سے ہوتے ہوئے پانچ دس منٹ میں وزیر اعظم کی رہائش گاہ پر پہنچ گئے۔وہاں ایک ہنگامہ مچا ہوا تھا۔سہروردی ایک آرام کرسی پر لیٹے ہوئے تھے اور ان کے وزیر اور مشیر ان کے گرد گھیرا ڈالے ہوئے تھے۔ وزیر اعظم کی صاحبزادی جسے سب بے بی کہتے تھے آنسو گیس کا ایک خالی شیل ہاتھ میں لیے چلاّ رہی تھی کہ ''ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ نے کراچی پر بم گرائے ہیں‘‘۔ ایک وزیر یہ مطالبہ کر رہا تھا کہ طالب علموں پر گولی چلانے کے بعد استعفیٰ دینے کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں۔الطاف گوہر نے وزیر اعظم کو صورتحال بتائی اور اطلاع دی کہ جلوس وزیر اعظم ہائوس کی طرف آ رہا ہے۔ لوگ شدید مشتعل ہیں اور نامناسب نعرے لگا رہے ہیں۔ تھوڑی ہی دیر میں جلوس وزیر اعظم ہائوس پہنچ گیا۔ کچہری روڈ پر تل دھرنے کی جگہ نہ رہی۔جہاں تک نظر جاتی تھی بپھرے ہوئے چہرے اور ہوا کو زدو کوب کرتے ہوئے ہاتھ تھے اور فضا میں گرجتے ہوئے اشتعال انگیز نعرے تھے۔ ''سہروردی مردہ باد‘‘ تو خیر قابل برداشت تھا مگر ہجوم نے نعرہ لگایا ''سہروردی کا نام‘ انگریز کا غلام‘‘۔ سہروردی وزیر اعظم ہائوس چھوڑ کر کسی محفوظ مقام پر جانے کے بجائے باہر نکلے اور پولیس ٹرک پر سوار ہو گئے۔لائوڈ سپیکر پر خطاب شروع کیا مگر مجمع سننے سے انکاری ہو گیا۔انہوں نے کہا ''نوجوانو‘‘ جواب آیا ''نہیں سنیں گے‘‘۔ پھر کہا ''عزیزو‘‘ آواز آئی ''پہلے معافی مانگو‘‘سہروردی ٹرک کے اگلے حصے میں انجن پر آکر کھڑے ہو گئے اور بولے۔ میں تمہیں جو خبر دینے والا ہوں وہ پاکستان میں کسی کے علم میں نہیں۔ مجمع تھوڑا خاموش ہوا۔ سہروردی بولے۔ ''یہ خبر نہیں خوشخبری ہے۔ بہت بڑی خوشخبری۔ صدر جمال ناصر نے فتح حاصل کر لی ہے‘‘۔ مجمع پکارا جمال ناصر۔ زندہ باد۔ سہروردی نے کہا آپ میرے ساتھ نعرہ لگائیں ''جمال ناصر‘‘... ''زندہ باد‘‘۔ ''عرب فوجیں‘‘... ''زندہ باد‘‘۔ ہجوم کے درمیان سے ایک گرجدار آواز آئی‘‘ حسین شہید سہروردی‘‘ اور ہجوم نے مل کر ایک زور دار جوابی نعرہ لگایا ''زندہ باد‘‘
یہ لوگ سیاست دان تھے ۔ عوام کو فیس کرنے والے۔آپ اس سارے واقعے میں مختلف پہلو دیکھیں۔ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کراچی جلوس کو وزیر اعظم ہائوس جانے کا نہ صرف مشورہ دیتا ہے بلکہ جانے کے لیے محفوظ راستہ بھی فراہم کرتا ہے اور وزیراعظم اسے او ایس ڈی نہیں بناتا۔وزیر اعظم کی صاحبزادی آنسو گیس کا شیل لیے ہوئے باپ کے سامنے چلاّتی ہے کہ شہریوں پر ظلم ہو رہا ہے۔کیا آج کے حمزہ یا مریم یہ اخلاقی جرأت دکھا سکتے ہیں؟ایک وزیر‘ وزیر اعظم کے سامنے کہتا ہے کہ حکومت کو مستعفی ہو جانا چاہیے۔کیا کوئی پرویز رشید‘خواجہ سعد رفیق‘ خواجہ آصف یا اسحاق ڈار یہ ہمت کر سکتا ہے ؟ اور کیا کوئی وزیر ایسے حالات میں بلٹ پروف گاڑی پر چڑھ کر فرار ہونے کے بجائے ٹرک کے انجن پر کھڑے ہو کر مجمعے کا سامنا کر سکتا ہے؟ہرگز نہیں۔وجہ یہ ہے کہ 1957ء میں ہماری جمہوری اقدار زیادہ مضبوط اور سیاسی قیادت زیادہ بالغ نظر تھی۔ سیاستدانوں کی تربیت سیاسی انداز میں ہوئی تھی۔حکمران لاٹری کے زور پر سیاسی جماعتوں کے قائدین نہیں بنے تھے بلکہ سیاسی عمل سے گزر کر اس منزل تک پہنچے تھے۔ان کا مزاج جمہوری تھا نہ کہ جمہوریت کے نام پر بادشاہت کا شوق۔وہ عوام کے منتخب نمائندے تھے اور عوام کا سامنا کرنے پر نہ صرف یقین رکھتے تھے بلکہ ہمت اور جرأت بھی۔سنتے ہیں ملک میں جمہوریت مضبوط ہو رہی ہے۔ 1957ء کی جمہوریت کا ایک واقعہ میں نے آپ کو سنا دیا ہے۔ آج کی جمہوریت کا تماشا آپ لوگ خوددیکھ رہے ہیں۔ ستاون سال بعد ہم کہاں کھڑے ہیں؟اگر یہ واقعہ چودھری بھکن آپ کو سناتا تو وہ آخر میں
کہتا کہ اگر جمہوریت کی ترقی ہے تو درلعنت ہے ایسی ترقی پر۔
Khalid Masood