طبیعت مائل بہ نغمہ و ساز تو نہیں تھی، ویسے ہی ذکر پر گانے کا ذکرِ خیر کردیا، ہاں اس ذکر، گانے، اور شامت پر یاد آیا کہ:
ہمارے بچپن میں کرایہ داروں سے مکان،عمارت، بلڈنگ، چال یا کمپاونڈ پہلے مار پیٹ
یا کورٹ کچہری سے خالی نہیں کرواتے تھے ، بلکہ وہیں یعنی کراچی شہر میں ہی ایک ہر فن مولا
گلوکارجو ہر قسم کے راگوں ، بھاگو (پکے، کچے، درمیانے،جلے سڑے) پر قدرت رکھتا تھا کی خدمات
حاصل کی جاتی تھیں ۔ یعنی انھیں وہاں لاکر بسا دیا جاتا تھا ۔
موصوف صبح صادق نہار منہ ہی ہائی پچ میں ریاض بلکہ جدہ، دمام شروع کردیتے تھے
( نہار منہ یوں کہ سب مکیں ان کا منہ بند کرنے کو اپنے گھر سے بطور رشوت کچھ نہ کچھ ناشتے کے لئے بھیجتے یا لاتے تھے )
برداشت کا مادہ بھی اللہ میاں نے سب میں یکساں نہیں رکھا ہے ، کچھ جلد ہی بھاگ جاتے تھے کچھ مکین ہوش حواس کھوکر
اور آخر میں گلوکار کو اس کے کارنامے اور سرخ روئی پر انعام و اکرام سے نواز کر رخصت کیا جاتا تھا ۔
موصوف فلمی اداکاروں سے بھی زیادہ اجرت یا معا وضہ لینےکے باوجود
مصروف رہا کرتے تھے کہ اِس قسم کے معاملات اور معاہدوں کی اُس زمانے میں کمی تھوڑی تھی ۔
۔۔ ہائے کیا زمانہ تھا