میں اپنی شاعری کو بہتر سے بہترین کی طرف لے جانا چاہتی ہوں اور یہ سب ماہرین کی رائے جانے بغیر کیسے ممکن ہو سکتا ہے۔
شاعری میں ماہرین نہیں ہوتے۔ پہلے اساتذہ ہوا کرتے تھے ۔ اساتذہ کا کلام ان کے وسیع مطالعے ، گہری تربیت اور طویل ریاضت کے باعث دیگر شعرا کے لیے لسانی اور عروضی تقلید و تتبع کے درجہ پر فائز ہوتا ہے۔ مجھے آپ زیادہ سے زیادہ سینئر یا نسبتاً تجربہ کار شاعر کہہ لیجئے ۔ سو اپنے تجربے اور تربیت کی لو سے شمع جلانے کا عمل ہے جوکررہا ہوں ۔
شاعری کے دو بڑے پہلو ہیں یعنی فکری اور فنی ۔ فکر ہر ایک کی اپنی ہوتی ہے ، اسے سکھایا نہیں جاسکتا ۔ ہر شخص اپنی زندگی کے تجربات اور مشاہدات سے اپنی فکر و فلسفہ اخذ کرتا ہے ، اس کے خیالات وقت اور تجربے کے ساتھ ساتھ بدلتے بھی رہتے ہیں۔ (اس فکری ارتقا کی کئی مثالیں شعرائے اردو میں موجود ہیں ۔ مثلاً جگر مرادآبادی آخری عمر میں مذہب اور تصوف کی طرف راغب ہوئے تو اس کا نمایاں اثر ان کی شاعری میں بھی نظر آنے لگا) ۔اس کے برعکس شاعری کا فنی اور تکنیکی پہلو سیکھا اور سکھایا جاسکتا ہے ۔ شاعر کی فنی تربیت پیرایۂ اظہار کو بہتر اور مؤثر تر بنانے کا نام ہے۔
یعنی شعر میں ہمہ گیری ہو۔ محدود سوچ یا کیفیت نہ ہو۔
کسی بھی خیال یا تجربے کو ذاتی حوالے سے بیان کرنا کوئی بری بات نہیں ۔ بعض صورتوں میں ایسا کرنا ہی بہتر ہوتا ہے لیکن عمومی مشاہدہ یہ بتاتا ہے کہ جس خیال یا مضمون میں ہمہ گیریت یا آفاقیت کا عنصر موجود ہو وہ زیادہ قابلِ قبول ہوتا ہے ۔ قاری اپنے تجربے اور احساس کو ایسے شعر کے ساتھ بہ آسانی relate کرسکتا ہے۔ ایک مثال فوری طور پر ذہن میں آرہی ہے ۔ اگر اقبالؔ یہ کہتے کہ"ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں ۔۔ مرے عشق کے امتحاں اور بھی ہیں" تو مضمون پست ہوجاتا ۔ "مرے عشق" کی محدودیت ختم کر کے مضمون کی تعمیم کرنے سے شعری مضمون اونچا ہوگیا ہے۔
شاعری میرے نزدیک دل کی باتیں بیان کرنا ہی ہے۔
متفق۔ سچی شاعری انہی کیفیات اور محسوسات سے پھوٹتی ہے جو قلب و جاں پر گزرتے ہیں ۔ قافیہ پیمائی اور خالص شاعری میں یہی فرق ہے ۔ بقول اطہر نفیس: کوئی مہر نہیں ، کوئی قہر نہیں ، پھرسچا شعر سنائیں کیا ۔ اور فیض صاحب بھی کہہ گئے ہیں:
ہم پرورشِ لوح و قلم کرتے رہیں گے
جو دل پہ گزرتی ہے رقم کرتے رہیں گے
اور شاعر اس تحریکِ کو ایک سمت دینے پر کس حد تک اختیار رکھتا ہے؟
میرا خیال ہے کہ بالکل کر سکتا ہے تبھی تو ہر اچھے شاعر کا اندازِ بیاں ایک مخصوص سوچ اور کیفیت کو ظاہر کرتے ہیں۔ اگرچہ ہم جیسوں کے لیے یہ بات ابھی تو ایک خواب ہی ہے۔
متفق۔ اگرچہ شعر کا تخلیقی محرک بہت سارے شعرا کے لیے ایک سا ہوسکتا ہے لیکن ہر شاعر اپنے زاویۂ نظر اور اپنے مخصوص اسلوب کے باعث شعر کو ایک الگ رنگ عطا کرتا ہے ۔ یعنی :کہتے ہیں کہ غالب کا ہے اندازِ بیاں اور ۔ شعری تربیت کا بنیادی مقصد یہی ہے کہ شاعر تجزیئے اور ریاضت کی مدد سے اپنا اسلوب پیدا کرے۔ کسی مضمون کو اپنے مخصوص اسلوب کے ذریعے ادا کرنے کی صلاحیت قدرتِ کلام کا تقاضا کرتی ہے۔ اور قدرتِ کلام وسیع مطالعے ، تجزیے اورمشق سے پیدا ہوتی ہے۔ اور ان تمام چیزوں کے لیے لگن اور شوق کا ہونا ضروری ہے۔ یعنی فکرِ ہر کس بقدرِ ہمت اوست ۔
آپ کا اس متبادل کے بارے میں کیا خیال ہے۔
دلِ ناکام میں دن رات سسکتی ہے غزل
صورتِ اشک اِن آنکھوں سے ٹپکتی ہے غزل
مجبور سے زیادہ ناکام شاید بہتر ہو۔ ذاتی طور پر میں کوشش کی قائل ہوں۔ مجبوری مجھے کمزوری معلوم ہوتی ہے۔ کوشش کر کے ناکام ہونا میرے نزدیک زیادہ قابل قبول ہے۔
دن رات اس لیے کہ ناکامی کی شدت اور اس کے اثرات بہت زیادہ معلوم ہوں۔
ایک صورت یہ بھی ہو سکتی ہے؎
دلِ ناکام میں خاموش سسکتی ہے غزل
صورتِ اشک اِن آنکھوں سے ٹپکتی ہے غزل
آپ کی رائے کی منتظر رہوں گی۔
بہت خوب! دلِ ناکام کی ترکیب اور اس کے پیچھے کارفرما سوچ بہت خوب ہے۔ چونکہ یہ الفاظ آپ کی سوچ کے عکاس ہیں اس لیے کوئی اور صورت اس سے بہتر نہیں ہوسکتی۔ البتہ دن رات کا استعمال میرے نزدیک حقیقت کا عکاس نہیں ۔ پہلے مصرع میں دن رات کہنے سے تو ظاہر ہوتا ہے کہ آنکھوں سے ہر وقت ہی آنسو ٹپکتے رہتے ہیں ۔ یہ تو کمزوری کی علامت ہوئی ۔ سخن کا دلِ ناکام میں چپ چاپ سسکنا صبر وضبط کی عکاسی کرتا ہے ۔
یہ ہمی ہیں کہ ترا درد چھپا کر دل میں
کام دنیا کے بدستور کیے جاتے ہیں
(صؔبا اکبرآبادی)
نیز "خاموش" کی نسبت " چپ چاپ "صوتی طور پر زیادہ رواں اور تنافر سے دور ہے۔
@ظہیر بھائی، لگے ہاتھوں یہ بھی بتا دیجیے کہ ادب کو سوچا کیسے جاتا ہے؟
یہ سوال مجھے اہم لگ رہا ہے ۔ لیکن اس سوال پر مجھے آپ کی طرف سے مزید وضاحت و صراحت درکار ہوگی ۔ فی الحال اس سوال کو آئندہ کے لیے اٹھا رکھتے ہیں ۔