پہلے پہل جب شاعری سے واسطہ صرف پڑھنے اور امتحان پاس کرنے تک تھا تو مجھے مرزا غالب پر شدید حیرت اور کبھی کبھی غصہ بھی آتا تھا کہ یہ کیا وظیفہ خوار ہیں۔ برے حال ہیں مگر کام وام نہیں کرتے وغیرہ وغیرہ ۔ میری ان سے توقعات بہت زیادہ تھیں کہ اتنا عقلمند شخص کیسے لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلا سکتا ہے! جب ہماری استاد (جو کہ خود بھی صاحب کتاب شاعرہ تھیں اور جن سے متاثر ہو کر ہم نے بھی اپنی پہلی دو غزلیں فٹافٹ لکھ ڈالیں!) یہ کہتی تھیں غالب جیسا شاعر ہونا کسی بھی شاعر کا خواب ہو سکتا ہے یا غالب کا ایک شعر پوری داستاں سموئے ہوئے ہوتا ہے۔ تو اور بھی عجیب لگتا تھا کہ اتنے قابل اور سمجھدار انسان کچھ چھوٹی موٹی نوکری ہی کر لیتے۔ مگر اب سمجھ آتا ہے کہ درد وہی اچھے سے لکھ سکتا ہے جس نے درد سہا ہو، رسوائی اصل میں وہی جانتا ہے جو رسوا ہوا ہو۔ عشق اسے ہی معلوم ہے جس نے کیا ہو! مجھے اب اس بات پر یقین ہو چلا ہے کہ غالب شاید ولی ہی ہوتے اگر بادہ خوار نہ ہوتے! انہوں نے شاعری سے عشق کیا اور جم کر کیا۔ ہم جیسے اسمارٹ لوگ اپنے فالتو وقت میں شاعری کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور نتیجتا ً ناغالب ہی رہتے ہیں۔ غالب کی جگہ خالی ہی رہی گی کہ اتنا کچھ ہر کوئی سہہ ہی نہیں سکتا۔غم و حزن کی شاعری بالکل بھی رد کیے جانے کے قابل نہیں ہے۔ غم کا احساس، چاہے وہ غم ہستی ہو یا غم دنیا، انسانی زندگی کا لازمی جزو ہے۔ ان احساسات کا شعری و نثری سطح پر اظہار ہر بڑے شاعر و ادیب کے ہاں مل جاتا ہے۔ تاہم یہ بھی نہیں ہونا چاہیے کہ شاعر و ادیب ہمہ وقت اسی ایک کیفیت کا اظہار کرتا رہے وگرنہ قنوطیت کا رنگ گہرا ہو جائے گا۔
چچا غالب کا ایک شعر یاد آ گیا۔
غم ہستی کا اسدؔ کس سے ہو جز مرگ علاج
شمع ہر رنگ میں جلتی ہے سحر ہوتے تک
لکھتے وقت چھٹی حس کی نہ سنی جو بار بار کہہ رہی تھی مہدی حسن نہیں ہیں ۔ اللہ نے اس غزل کو صحیح سے سننے کی توفیق اور موقع دیا ہی نہیں!معذرت ! میں تو بھول ہی گیا تھا کہ زنانہ غزل ہے ۔
حامد کی ٹوپی محمود کے سر تو سنتے آئے تھےلیکن اب آپ کی برکت سے ایک نئی ضرب المثل ایجاد ہوگئی ۔ غلام علی کا سُر ، مہدی حسن کے سَر
بھئی کسی دن بات کرنے کا دل چاہنے لگا ہے اب!جیتی رہیے پروردگار شاد و آباد رکھے آمین ۔آپ سب کی محبت ہمارا قیمتی اثاثہ ہے صابرہ بٹیا بہت سارا پیار اور ڈھیروں دعائیں ۔۔۔
اخاہ ! نور وجدان ۔۔ کیسی ہیں آپ ۔ آپ کو دیکھ کر بہت اچھا لگا!معذرت ! میں تو بھول ہی گیا تھا کہ زنانہ غزل ہے ۔
حامد کی ٹوپی محمود کے سر تو سنتے آئے تھےلیکن اب آپ کی برکت سے ایک نئی ضرب المثل ایجاد ہوگئی ۔ غلام علی کا سُر ، مہدی حسن کے سَر
تذکرہ آب حیات میں لکھا ہے کہ 1842 میں جب کہ دہلی کالج نئے اصولوں پر قائم کیا گیا، مسٹر ٹامس سیکرٹری گورنمنٹ ہند، جو آخر میں اضلاعِ شمال و مغرب میں لیفٹیننٹ گورنر بن گئے تھے، مدرسین کے امتحان کے لیے دلی میں آئے اور چاہا کہ جس طرح سو روپے ماہوار کا ایک عربی مدرس کالج میں مقرر ہے، اسی طرح ایک فارسی کا مدرس مقرر کیا جائے۔ لوگوں نے مرزا، مومن خان اور مولوی امام بخش کا ذکر کیا۔ سب سے پہلے مرزا صاحب کو بلایا گیا۔ مرزا پالکی میں سوار ہو کر سیکرٹری صاحب کے ڈیرے پر پہنچے، صاحب کو اطلاع ہوئی، انہوں نے فوراً بلایا۔ مگر یہ پالکی سے اتر کو اس انتظار میں کھڑے رہے کہ دستور کے موافق سیکرٹری صاحب انہیں لینے کے لیے آئیں گے۔ جب بہت دیر ہو گئی اور صاحب کو معلوم ہوا کہ اس وجہ سے نہیں آئے تو وہ خود باہر چلے آئے اور مرزا سے کہا کہ جب آپ دربار گورنری میں تشریف لائیں گے تو آپ کا اسی طرح استقبال کیا جائے گا، لیکن اس وقت آپ نوکری کے لیے آئے ہیں، اس موقع پر وہ برتاؤ نہیں ہو سکتا۔ مرزا صاحب نے کہا کہ گورنمنٹ کی ملازمت کا ارادہ اس لیے کیا ہے کہ اعزاز کچھ زیادہ ہو، اس لیے نہیں کہ موجودہ اعزاز میں بھی فرق آئے۔ صاحب نے کہا: ہم قاعدے سے مجبور ہیں۔ مرزا صاحب نے کہا کہ مجھ کو اس خدمت سے معاف رکھا جائے، اور یہ کہہ کر چلے آئے۔برے حال ہیں مگر کام وام نہیں کرتے وغیرہ وغیرہ ۔
یہی بات میں نے بھی پچھلی سالگرہ پہ "اردو محفل میں خواتین سے امتیازی برتاؤ " میں کہی تھی۔خبردار 😡"بکرا" نہیں "بکری" کہنا چاہیے تھا 😂😂😂
کیا یہاں ہم طرح مصرع کی مثال دے سکتے ہیں؟ ایک ہی طرح مصرع کئی شعراء کے اشعار میں استعمال ہوتا ہے تو ہر شعر مکمل یا جزوی طور پہ علیحدہ مضمون بیان کر رہا ہوتا ہے۔اگرچہ شعر کا تخلیقی محرک بہت سارے شعرا کے لیے ایک سا ہوسکتا ہے لیکن ہر شاعر اپنے زاویۂ نظر اور اپنے مخصوص اسلوب کے باعث شعر کو ایک الگ رنگ عطا کرتا ہے
تو کیا شاعر اپنی شاعری میں بس بہادری دکھائے؟ کیا وہ ملمع کاری کرے اگر وہ خود کو بزدل، کمزور، کم ہمت سمجھ رہا ہے۔ اگر وہ صبر نہیں کر سکتا، بعض اوقات دکھ برداشت کرنے کی سکت نہیں پاتا تو چیخنے کی بجائے ضبط کرے؟پہلے مصرع میں دن رات کہنے سے تو ظاہر ہوتا ہے کہ آنکھوں سے ہر وقت ہی آنسو ٹپکتے رہتے ہیں ۔ یہ تو کمزوری کی علامت ہوئی ۔ سخن کا دلِ ناکام میں چپ چاپ سسکنا صبر وضبط کی عکاسی کرتا ہے ۔
یہ ہمی ہیں کہ ترا درد چھپا کر دل میں
یہ بہت مزے کی بات ہے۔ کیا اس کی اور مثالیں مل سکتی ہیں؟میں اس شعر کے حوالے سے ایک تکنیکی گُر بیان کرنا چاہوں گا جو بیانیے کو بہتر اور مؤثر بنانے کے لیے شاعری میں اکثر استعمال کیا جاتا ہے اور وہ ہے غیر مرئی شے کی تجسیم ۔
یعنی کسی غیر مرئی شے کوایک شخصیت یا کردار کا روپ دے دینا
آپ نے مثال بہت اچھی دی ہے۔صرف سپاٹ پن ختم ہوا بلکہ ایسا لگا کہ تانبے کے پرانے برتن پر قلعی کر دی گئی ہو۔ زبردست بنا دیا ہے اس شعر کو آپ نے
ہاہاہا! یہی بات شاید عرفان علوی نے بھی کی ہے کہ کچھ دنوں کے لیے بھول جائیں اس شعر/غزل کو۔اس موقع پر یہ بھی کیا جاسکتا ہے کہ شعر کی دونوں صورتیں لکھنےکے بعد کچھ دنوں کے لیے اسے پال میں لگادیا جائے
سو فیصد متفق۔ اس لیے محمد احسن سمیع راحلؔ ! لالٹین لائیں اور روشنی فراہم کریں۔بھائی ، انکساری اپنی جگہ اور چراغ سے چراغ جلانے کا عمل اپنی جگہ ۔ میرے خیال میں اس لڑی کا مقصد ہی یہ ہے کہ اس میں نسبتاً تجربے کار اور سینئر شعرا مل جل کر کسی شعری تخلیق پر تنقیدی گفتگو اور تبصروں سے جونیئرز کے لیے رہنمائی اور روشنی فراہم کریں
۔ پہلے مصرع میں دن رات کہنے سے تو ظاہر ہوتا ہے کہ آنکھوں سے ہر وقت ہی آنسو ٹپکتے رہتے ہیں ۔ یہ تو کمزوری کی علامت ہوئی ۔ سخن کا دلِ ناکام میں چپ چاپ سسکنا صبر وضبط کی عکاسی کرتا ہے ۔
خواہرم ، بات اس لیے سمجھ میں نہیں آئی کہ آپ میرے جملے کے سیاق و سباق کو نہیں دیکھ رہیں ۔ جب دھاگے میں کئی لوگ بیک وقت مختلف موضوعات پر گفتگو کررہے ہوں تو مکالمے میں عدم تسلسل کی وجہ سے بعض دفعہ باتیں سمجھ میں نہیں آتیں۔ مکمل طور پر سمجھنے کے لیے پورے مکالمے کو دیکھنا اور پچھلی گفتگو کا تسلسل دیکھنا بہت ضروری ہے ورنہ تو سیاق و سباق سے علیحدہ ہونے کے بعد کسی بھی جملے کا مطلب کچھ سے کچھ ہو سکتا ہے ۔ اب آپ اس پورے مکالمے کو دیکھیے:تو کیا شاعر اپنی شاعری میں بس بہادری دکھائے؟ کیا وہ ملمع کاری کرے اگر وہ خود کو بزدل، کمزور، کم ہمت سمجھ رہا ہے۔ اگر وہ صبر نہیں کر سکتا، بعض اوقات دکھ برداشت کرنے کی سکت نہیں پاتا تو چیخنے کی بجائے ضبط کرے؟
یہ بات مجھے کچھ سمجھ نہیں آئی۔ ٹھیک ہے کہ ایک چیز بہتر ہے لیکن شاعری جب ہے ہی محسوسات کو بیان کرنے ، الفاظ دینے کا عمل تو پھر محسوسات تو ہمہ اقسام کے ہوتے ہیں۔
مجھے ان کی توجیہہ پسند آئی اور اسی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے میں نے جواباً کہا:آپ کا اس متبادل کے بارے میں کیا خیال ہے۔
دلِ ناکام میں دن رات سسکتی ہے غزل
صورتِ اشک اِن آنکھوں سے ٹپکتی ہے غزل
مجبور سے زیادہ ناکام شاید بہتر ہو۔ ذاتی طور پر میں کوشش کی قائل ہوں۔ مجبوری مجھے کمزوری معلوم ہوتی ہے۔ کوشش کر کے ناکام ہونا میرے نزدیک زیادہ قابل قبول ہے۔
دن رات اس لیے کہ ناکامی کی شدت اور اس کے اثرات بہت زیادہ معلوم ہوں۔
بہت خوب! دلِ ناکام کی ترکیب اور اس کے پیچھے کارفرما سوچ بہت خوب ہے۔ چونکہ یہ الفاظ آپ کی سوچ کے عکاس ہیں اس لیے کوئی اور صورت اس سے بہتر نہیں ہوسکتی۔ البتہ دن رات کا استعمال میرے نزدیک حقیقت کا عکاس نہیں ۔ پہلے مصرع میں دن رات کہنے سے تو ظاہر ہوتا ہے کہ آنکھوں سے ہر وقت ہی آنسو ٹپکتے رہتے ہیں ۔ یہ تو کمزوری کی علامت ہوئی ۔ سخن کا دلِ ناکام میں چپ چاپ سسکنا صبر وضبط کی عکاسی کرتا ہے ۔
لالٹین تو ہے ۔ ان سے کہیں کہ تیل لے آئیں ۔لالٹین میں تیل ختم ہورہا ہے ۔سو فیصد متفق۔ اس لیے @محمد احسن سمیع راحلؔ ! لالٹین لائیں اور روشنی فراہم کریں۔
میں اس شعر کے حوالے سے ایک تکنیکی گُر بیان کرنا چاہوں گا جو بیانیے کو بہتر اور مؤثر بنانے کے لیے شاعری میں اکثر استعمال کیا جاتا ہے اور وہ ہے غیر مرئی شے کی تجسیم ۔
تجسیم اور تمثیل کی مثالیں تو اردو شعر و نثر میں جابجا بکھری ہوئی ہیں ۔ جیسے ہی وقت ملا تو میں آپ کے اور دیگر قارئین کے استفادے کے لیے کچھ اچھی مثالیں کاپی پیسٹ کردوں گا ۔ ان شاء اللّٰہ۔یہ بہت مزے کی بات ہے۔ کیا اس کی اور مثالیں مل سکتی ہیں؟
جی ہاں ۔ یہ بھی نکتۂ زیرِ بحث کی ایک مثال ہے کہ کس طرح ایک ہی مصرع طرح سے مختلف شعرا اپنی فکر اور زاویہٌ نظر کے مطابق مختلف النوع مضامین پیدا کرتے ہیں ۔کیا یہاں ہم طرح مصرع کی مثال دے سکتے ہیں؟ ایک ہی طرح مصرع کئی شعراء کے اشعار میں استعمال ہوتا ہے تو ہر شعر مکمل یا جزوی طور پہ علیحدہ مضمون بیان کر رہا ہوتا ہے۔
وفا شعار بیوی نے یقیناً شوہرِ نامدار کی یہ خواہش پوری کردی ہوگی اور بہت جلد ایمبولینس والے گھر پر آگئے ہوں گے ۔پچپن پہ آ کے بیوی سے میں نے کہا کہ جان!
"جی چاہتا ہے اب کوئی تیرے سوا بھی ہو"
جاسمن
ساتویں شعر میں ’جذبات دھڑکنا‘ کی ترکیب میری نگاہ سے نہیں گزری . دِل بذات خود دھڑکتا ہے . اس میں کسی اور شئے کا دھڑکنا نا قابل فہم ہے ۔
ہاہاہا ۔ ۔ اس پر سنجیدہ بحث بعد میں ہو گی، ان شا اللہ ۔ ۔ مگر پراٹھے چھ ہرگز نہیں تھے!لیکن ہوا یہ کہ مکالمے میں عدم تسلسل کے باعث صابرہ امین شاعرہ خود اپنی کہی ہوئی بات بھول گئیں۔ شہر کو سیلاب میں ڈبونے کی دھمکیوں پر اتر آئیں۔
خیر ، اب اس میں اُن کا بھی کوئی قصور نہیں ہے ۔ چھ پراٹھے کھانے کے بعد کہاں کچھ یاد رہتا ہے کسی کو ۔
(اسمائیلی تین عدد)
یعنی سات تھے۔۔۔ہاہاہا ۔ ۔ اس پر سنجیدہ بحث بعد میں ہو گی، ان شا اللہ ۔ ۔ مگر پراٹھے چھ ہرگز نہیں تھے!
مگر پراٹھے چھ ہرگز نہیں تھے!
ہاہاہاہا ۔ یہ ہوا نہلے پہ دہلا ۔۔۔ ۔ بلکہ چھکیّ پہ ستّہ !یعنی سات تھے۔۔۔
آپ کے منہ میں حلوہ پوری! کیسا اچھا طریقہ بتایا ہے آپ نے ۔ آئندہ ویک اینڈ پر گنتی اسی طرح ہوگی۔جب بھی ایسی بحث ہو، گنتی بھول جائے تو بہت آسان ، کارآمد، مجرب اور آزمودہ طریقہ ہے کہ پراٹھے دوبارہ کھانے شروع کریں اور کسی کو گنتی پہ بٹھا دیں۔
اس سے بہتر طریقہ میرے پاس ہے جو حال ہی میں دیافت ہوا ہے، اور وہ یہ کہ پراٹھے دو ایک دفعہ خود پکا کر کھائیں ۔جب بھی ایسی بحث ہو، گنتی بھول جائے تو بہت آسان ، کارآمد، مجرب اور آزمودہ طریقہ ہے کہ پراٹھے دوبارہ کھانے شروع کریں اور کسی کو گنتی پہ بٹھا دیں۔
لیکن مسئلہ یہ ہے کہ جو خود پکائیں وہ پراٹھا نہیں ہوتا۔ 😐اس سے بہتر طریقہ میرے پاس ہے جو حال ہی میں دیافت ہوا ہے، اور وہ یہ کہ پراٹھے دو ایک دفعہ خود پکا کر کھائیں ۔