المانیہ او المانیہ ۔ جرمنی کی سیر ۔ تبصرے اور تجاویز

عثمان

محفلین
دلچسپ بیان ہے۔ تاہم اگر زمانہ سفر بھی لکھ دیتے تو اندازہ ہوجاتا کہ کب کی صورتحال ہے۔ :)
 

عثمان

محفلین
یہ "پیپ شو" تو کسی زمانے میں پاکستان میں بھی دستیاب تھا۔ حیرت ہے کہ لوگ یورپ جا کر بھی یہ دیکھنے کے شوقین تھے۔ :grin:
 

عثمان

محفلین
اور کوٹ سے یاد آیا کہ دس برس پہلے تک پاکستان میں سکول کالج کے لڑکے تنگ جینز کی پینٹ پہننے کے شوقین تھے۔ وہ تو یہاں آ کر معلوم ہوا کہ ادھر یہ خواتین کا لباس ہے یا پھر ہم جنس پرستوں کا۔ :noxxx:
 
دلچسپ بیان ہے۔ تاہم اگر زمانہ سفر بھی لکھ دیتے تو اندازہ ہوجاتا کہ کب کی صورتحال ہے۔ :)
جنابِ عالی! ضرور ہم سے تیکنیکی غلطی ہوگئی، لیکن جب لکھتے وقت نے ہاتھ باگ پر تھے ، نہ پا تھے رکاب میں تو یہی کچھ ہونا تھا۔ بہر حال یہ زمانہ تھا اب سے کوئی پچیس چھبیس سال پہلے ۱۹۸۵ء کا۔ اگلی قسط میں تلا فی کردی جائے گی۔ یاد دہانی اور پسند کرنے کا شکریہ قبول کیجیے۔
 
یہ "پیپ شو" تو کسی زمانے میں پاکستان میں بھی دستیاب تھا۔ حیرت ہے کہ لوگ یورپ جا کر بھی یہ دیکھنے کے شوقین تھے۔ :grin:
جی ہاں! گلی محلے میں ایک ریڑھی والا یہ پیپ شو یا ’’ تانک جھانک شو‘‘ لیکر گھومتا تھا اور اس میں پرانی پاکستانی فلموں کے ٹکڑے( ٹوٹے نہیں) دکھائے جاتے تھے۔ فرینکفرٹ ائر پورٹ پر کیا ہوتا ہے، اسے رہنے ہی دیجیے۔
 
محترم جناب محمد خلیل الرحمٰن بھائی
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آپ کی مضمون نگاری نے تو ہمیں پہلے ہی دن سے اپنا اسیر بنالیا تھا اور جہاں کہیں فورم پر خزینہ کا نام نظر آتا ہے، ہم فوراً ان کےالفاظ کے خزانے کو حاصل کرنے کے لیے لپک پڑتے ہیں۔ لیکن آج آپ کا ایک اور جوہر کھلا کہ تقریبا 25 سال قبل کیے گئے سفر کی روئیداد، مقامات کے نام، سفر کی چھوٹی چھوٹی جزئیات، وہاں ملنے والے افراد کے نام (اور نام بھی ایسے جن کی پاکستانیوں کی زبان سے ادائیگی ہی ایک کارنامہ کہلائے) پھر ہر ہر دن کی مصروفیت کا پورا احوال، یہ کسی عام حافظے کی بات نہیں ہے۔ جوں جوں آپ سے تعلق بڑھتا جارہا ہے، آپ کے نت نئے جوہر محفل کے ارکان پر کھلتے جارہے ہیں۔ جہاں تک سفرنامے پر تبصرے کا تعلق ہے تو اس کی تعریف وتوصیف کے لیے مجھ جیسا کم علم خود کو الفاظ کی ادائیگی کے معاملہ میں تہی دست پاتا ہے۔ صرف اتنا عرض کروں گا کہ آپ کی تحریروں نے مجھے اپنا اسیر کرلیا ہے اور ایک بار آپ کی جو بھی تحریر شروع کرتا ہوں تو پھر چاہے کتنا ہی ضروری کام کیوں نہ آجائے، اسے ختم کیے بغیر چین نہیں آتا۔
اللہ کرے زور قلم اور زیادہ
والسلام
 
بھائی سمیع اللہ آفاقی
وعلیکم السلام
ذرہ نوازی کا شکریہ۔ ایک مبتدی ہونے کے ناطے اتنا بھی نہیں کرسکتا کہ خوشی سے پھول کر کپا ہوجائوں ہاں البتہ آپ نے میری تحریر کو پسند کیا، میرا دل بڑا ہوگیا۔ اللہ آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے۔
جہاں تک غیر ملکی الفاظ کے تلفظ کا تعلق ہے، میں نے ہمیشہ ملک سے باہر جاکر غیر ملکیوں کو یہ بات فخریہ انداز میں بتلائی ہے کہ ہماری زبان اردو میں یہ خاصیت ہے کہ ہم ہر قوم کی آواز نکالنے پر قادر ہیں۔ ایک طرف تو عربوں کی طرح ہمارا شین قاف درست ہے تو دوسری طرف دی ہیگ کو ہم اسکے اصلی نام یعنی سخرافن ہاخ ( ڈین ہاخ) کہہ سکتے ہیں ۔ نیو مالے اس لیے کہا تھا کہ کسی کو بولتے نہیں سنا تھا کہ کس طرح تلفظ کریں گے۔ پھر نوئے میوہلے ہی ہوگیا تھا۔
اسی طرح دی ہیگ میں ساحلِ سمندر کی تفریح گاہ کا نام سخے فننگن ہے۔ اسی طرح ژاں زاک روسو کا نام ہم صحیح طور پر پرنائونس کرسکتے ہیں۔
اسی طرح پشتو کی آوازیں مثلا ’’ لاڑ شا پیخاور تا کمیص طور مالا روڑا‘‘ یعنی پشارو سے میری خاطر کالی قمیص لانا، پنجابی میں ’’ دلا ٹھر جا یار دا نظارہ لینڑ دے‘‘ ہم کہہ سکتے ہیں ۔ کیا خیال ہے۔
 
واہ جی خوش کردیا خلیل بھائی۔ خاص طور پر آپ کے قلم سے نکلے ہوئے پشتو کے ان الفاظ ’’لاڑ شہ پیخہ ور تہ قمیص تور مالا راوڑا‘‘ کا تو لطف ہی کچھ اور تھا کیوں کہ احقر کا تعلق بھی صوبہ خیبر پختون خوا کے باجوڑ ایجنسی سے ہے اور بہت عرصہ کے بعد کسی غیر پختون سے اپنی مادری زبان اتنی فصاحت سے سننے کو ملی ہے۔
والسلام
 
استاذا!
زے پختو نہ پوئگم۔ لگ لگ پویگم، خا
میرے والد صاحب اب سے کوئی ساٹھ سال پہلے باجوڑ میں کئ سال گزار چکے تھے، جیسا کہ ان کی سچی داستان ’’ فسانہ آزاد‘‘ سے آپ کو علم ہوگا۔وہ تو بہت روانی کے ساتھ پشتو بولتے تھے۔
 
حافظ سمیع اللہ بھائی! ویسے کیا یہ ممکن ہے کہ آپ پختو والے زمرے میں پشتو بولیے کا سلسلہ شروع کریں اور ہمیں پشتو سکھائیں۔
 

ابو یاسر

محفلین
معلومات سے بھرپور ہے۔
اس طرح کے سفرنامے واقعی مفید اور معلوماتی ہوتے ہیں۔ خلیل بھائی سے مزید لکھنے کی گذارش ہے۔
 
شکریہ اور جزاک اللہ الخیر۔
یقین مانیے یہ آپ کی اور تمام محفلین ہی کی عزت افزائی ہے اور آپ سب ہی کی طرف سے تحریک مل رہی ہے تو لکھ رہا ہوں۔
 
جناب عالی!
اس عزت افزائی اور قدر دانی پر دل سے مشکور ہوں۔ آپ پسند کرتے رہیں گے تو یہ ہمیچدان لکھتا رہے گا۔
جزاک اللہ الخیر
 
جس زمانے کا یہ قصہ ہے، ( غالباً پچیس سال پہلے کا) اس زمانے میں شاید ہوتی تھیں۔ اب تو نبیل بھائی ارلانگن سے خبر دے ہی سکتے ہیں کہ آجکل کیا ٹرینڈ چل رہا ہے
 

نبیل

تکنیکی معاون
جناب یہاں کیا خبر دیں، بس سرد شاموں میں نوئے میوہلے کے بس سٹاپ پر ایک خاتون بیٹھ کر 25 برس پہلے کا وقت کرکے آہیں بھرتی رہتی ہیں۔ :sneaky:
 
ارے کوئی خدا کے لیے۔ ارے نبیل بھائی! کم از کم انھیں اتنا تو بتا دیجے کہ کوئی یہاں محفل کی پچھلی نشستوں پر دبکا بیٹھا ماضی کی بھول بھلیوں میں گم ہے۔
 
Top