اتنے کھلا ذہن کا حامل آدمی اور اتنی دقت سے موضوع کی گہرائی میں جاکر مطلب لانا. بے انتہا مشکل کام ہے.۹۔ قانون و سنت
عالم ہستی اس جہت سے کہ علت و معلول کے نظام کے مطابق جاری و ساری ہے اور وہ نظام جیسا کہ ہم پہلے عرض کر چکے ہیں کلی ہے لہٰذا قوانین و سنن الٰہی کی بنیاد پر قائم ہے اور قرآن مجید بڑی صراحت کے ساتھ اس کی تائید کرتا ہے۔
۱۰۔ دنیا جس طرح ایک ناقابل تخلف اور کلی نظام کی حامل ہے اسی طرح اپنی ذات میں بھی ایک ناقابل تجزیہ و تقسیم اکائی ہے یعنی اپنی مجموعی حیثیت میں ایک جسم کی مانند اکائی پر مشتمل ہے پس نہ صرف شرور اور نیستی و نابودی‘ خیر و ہستی سے جدا نہیں ہو سکتی بلکہ اجزائے کائنات کا مجموعہ بھی ایک اکائی اور ایک جلوہ ہونے سے ایک دوسرے سے جدا نہیں ہو سکتے۔
مذکورہ دس اصولوں کی بنیاد پر جو چیز وجود کا امکان رکھتی ہے وہ معین کلی اور غیر متغیر نظام ہے پس امر دنیا اس بات پر منحصر ہے کہ یا تو معین نظام کے ساتھ موجود ہو یا اصلاً موجود نہ ہو لیکن یہ بات کہ خود تو موجود ہو لیکن نظام نہ رکھتا ہو یا نظام تو رکھتا ہو مگر اس نظام کی کوئی دوسری شکل ہو مثلاً علتیں معلولات کی جگہ اور معلولات علتوں کی جگہ ہوں تو یہ محال ہے۔ پس جو بات حکمت بالغہ کے حوالے سے قابل بحث ہے‘ وہ یہ ہے کہ دنیا یا تو ایک منظم نظام کے تحت موجود ہو یا کچھ بھی موجود نہ ہو۔ واضح سی بات ہے کہ حکمت افضل کا تقاضا کرتی ہے یعنی ہستی کا تقاضا کرتی ہے‘ عدم کا نہیں۔ اسی طرح وہ چیز جس کا وجود ممکن ہے وہ اشیاء کا اپنے سے جدا ہونے والے لوازم اوصاف کے ساتھ وجود رکھنا ہے اور جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ نیکیاں اور ہستیاں شر اور نیستی سے جدا ہو جائیں‘ خیال محض اور توہم محال ہے۔ پس اس اعتبار سے بھی جو چیز حکمت بالغہ کے حوالے سے زیربحث ہے وہ یہ کہ خیر و شر کا بیک وقت نہ ہونا ہے نہ کہ خیر تو موجود ہو لیکن شر موجود نہ ہو۔
اسی طرح جو چیز امکان وجود رکھتی ہے وہ ایک دوسرے کے ساتھ متصل اکائی کی صورت میں کل کائنات کا موجود ہونا ہے نہ کہ ایک جزو کا موجود ہونا اور دوسرے کا معدوم پس حکمت بالغہ کی نظر سے جو چیز قابل بحث ہے وہ کل کا ہونا یا نہ ہونا ہے کسی جزو کا ہونا اور دوسرے جزو کا نہ ہونا نہیں ہے۔
مذکورہ اصول اگر اچھی طرح سمجھ میں آ جائے تو یہ حکمت بالغہ اور عدل کامل الٰہی سے متعلق تمام شبہات اور تمام اشکالات کو ختم کر دینے کے لئے کافی ہے۔ میں ایک بار پھر اپنے پڑھنے والوں کو اپنی کتاب ”عدل الٰہی“ کی طرف رجوع کرنے کی دعوت دیتا ہوں اور اس بات کے لئے معذرت چاہوں گا کہ میں نے ضرورت کے تحت ان مسائل کو پیش کیا جو اس کتاب کی سطح سے بالاتر ہیں۔
آخر میں اس عنوان سے کہ ”عدل“ کی بحث مسلمانوں کے درمیان خاص تاریخ کی حامل ہے یہاں تک کہ اسے شیعہ مذہب کے اصول میں داخل کر دیا گیا ہے یعنی شیعہ نقطہ نظر سے عدل اصول اسلام کا حصہ ہے لہٰذا اس کی مختصر تاریخ کی طرف اشارہ بے سود نہیں ہو گا۔
اسلامی ثقافت میں اصول عدل کی مختصر تاریخ
مذہب شیعہ میں ”عدل“ اصول دین میں شامل ہے۔ ہم اپنی کتاب عدل الٰہی میں عرض کر چکے ہیں کہ اسلامی ثقافت میں عدل‘ عدل الٰہی اور عدل انسانی میں تقسیم ہوا ہے اور عدل الٰہی عدل تکوینی اور عدل تشریعی میں تقسیم ہوا ہے۔ عدل انسانی بھی اپنے مقام پر عدل انفرادی اور عدل اجتماعی میں تقسیم ہوا ہے اور جس عدل کو شیعہ مذہب کی خصوصیات میں سے شمار کیا گیا ہے‘ عدل الٰہی ہے اور عدل کی یہی قسم اسلامی تصور کائنات کا محور ہے۔
عدل الٰہی اس بات پر اعتقاد کا نام ہے کہ خداوند عالم‘ نظام تکوین میں ہو یا نظام تشریع میں‘ حق و عدل کے مطابق عمل کرتا ہے اور ظلم نہیں کرتا۔ عدل کو مذہب شیعہ کا ایک اصول قرار دینے کی وجہ یہ ہے کہ مسلمانوں میں ایک ایسا گروہ پیدا ہو گیا تھا جس نے انسان کی آزادی و اختیار سے انکار کر دیا تھا۔ ان لوگوں نے قضا و قدر الٰہی کے بارے میں ایک ایسے عقیدے کی بنیاد رکھی جو انسان کی آزادی کے بالکل منافی تھا۔ انہوں نے کائنات کے کلی نظام اور انسان کے نظام عمل میں علت و معلول اور سبب و مسبب کا انکار کر دیا اور یہ عقیدہ قائم کر لیا کہ قضائے الٰہی براہ راست اور بلاواسطہ عمل کرتی ہے اس بناء پر آگ نہیں جلاتی بلکہ خدا جلاتا ہے۔ مقناطیس کے لوہے کا اپنی طرف کھینچنے میں کوئی عمل دخل نہیں ہوتا بلکہ یہ خدا ہے کہ جو براہ راست لوہے کو مقناطیس کی طرف جذب کرتا ہے انسان اچھا یا برا کام انجام نہیں دیتا بلکہ خداوند تعالیٰ پیکر انسانی میں اچھا یا برا کام انجام دیتا ہے۔
اور یہیں سے ایک اہم مسئلہ زیربحث آتا ہے اور وہ یہ کہ اگر نظام علت و معلول بے حقیقت ہے اور اگر انسان کا اپنے کاموں کے انتخاب میں کوئی حقیقی کردار نہیں ہوتا‘ تو پھر انفرادی جزا و سزا کے مسئلے کی توجیہ کیا ہو گی؟ خدا کیوں بعض افراد کو جزا دے گا اور انہیں جنت میں داخل کرے گا اور بعض دوسرے افراد کو سزا دے گا اور دوزخ میں ڈال دے گا‘ جب کہ وہ نیک کام بھی خود انجام دیتا ہے اور برا کام بھی؟ ایسے انسانوں کو جزا و سزا دینا جو ازخود ذرہ برابر بھی آزادی و اختیار نہیں رکھتے‘ ظلم ہے اور عدل خداوندی کے قطعی اصول کے برخلاف بھی۔ شیعوں نے عمومی طور پر اہل سنت کے ایک گروہ جسے معتزلہ کہا جاتا ہے‘ کی قطعی اور عقلی و نقلی دلائل کی بناء پر انسان کے مجبور ہونے اور الٰہی قضا و قدر کے بلاواسطہ عالم میں مداخلت کی نفی کی ہے اور اسے اصول عدل کا منافی گردانا ہے اسی لئے یہ عدلیہ کے نام سے معروف ہوئے ہیں۔ یہاں سے معلوم ہوتا ہے کہ اصول عدل ہرچند ایک الٰہی اصول ہے یعنی صفات خدا میں سے ایک صفت کے ساتھ مربوط ہے لیکن ایک انسانی اصول بھی ہے کیوں کہ یہ انسان کی آزادی و اختیار سے مربوط ہے۔ پس شیعہ اور معتزلہ کے درمیان عدل سے مراد انسان کی آزادی و اختیار کے اصول‘ انسان کی ذمہ داری اور اس کی اصلاح و تعمیر پر اعتقاد ہے۔
عدل الٰہی سے متعلق زیادہ تر جس سوال نے بالخصوص اس موجودہ دور میں اذہان کو اپنی طرف متوجہ کر رکھا ہے وہ بعض معاشرتی ناہمواریوں سے متعلق ہے۔ عام طور سے یہ سوال کیا جاتا ہے کہ ایسا کیوں ہے کہ بعض لوگ بدصورت ہیں اور بعض خوبصورت‘ بعض صحت مند ہیں‘ بعض بیمار‘ بعض خوشحال ہیں اور بعض محتاج اور نیازمند‘ کیا یہ ناہمواریاں عدل الٰہی کے خلاف نہیں؟ کیا عدل الٰہی کا لازمہ یہ نہیں ہے کہ سب لوگ مال و دولت میں‘ عمر میں‘ اولاد میں‘ معاشرتی مراتب میں اور شہرت و محبوبیت میں برابر ہوں؟ اور اختلاف و تفاوت نام کی کوئی چیز موجود نہ ہو۔ کیا ان اختلافات کی ذمہ دار قضا و قدر الٰہی کے علاوہ کوئی اور چیز ہو سکتی ہے؟
اس سوال اور ابہام کی بنیاد دو چیزیں ہیں:
ایک قضا و قدر الٰہی کی کیفیت سے عدم توجہ‘ اس مقام پر سوال کرنے والا یہ خیال کرتا ہے کہ قضا قدر الٰہی کا براہ راست عمل دخل ہے (ملاحظہ فرمائیں مولف کی کتاب ”انسان اور تقدیر“ اس کتاب میں قضائے قدر الٰہی کے مسئلے پر بڑی تفصیل سے روشنی ڈالی گئی ہے)۔ مثلاً دولت و ثروت بلاواسطہ اور بغیر کسی سبب اور عامل کے غیب الٰہی کے خزانے سے لوگوں کے گھروں میں منتقل ہوتی ہے۔ اسی طرح صحت و سلامتی‘ خوبصورتی‘ قوت و طاقت‘ مقام و منصب“ مقبولیت‘ اولاد اور دیگر بخششوں کا بھی یہی حال ہے۔ جب کہ اس نکتے کی طرف توجہ نہیں کی گئی کہ رزق چاہے کسی بھی نوعیت کا ہو‘ چاہے مادی ہو یا معنوی‘ براہ راست خزانہ غیب سے تقسیم نہیں ہوتا بلکہ قضائے الٰہی نے ایک نظام کو خلق کیا ہے کہ جو قوانین و سنن کے ایک سلسلے کا حامل ہے۔ ہر شخص کے لئے ضروری ہے کہ وہ جس چیز کا بھی خواہشمند ہے اسے اسی نظام اور انہی سنن و قوانین کے تحت مانگے۔
اس انتباہ اور غلطی کی دوسری بنیاد انسان کی اس مقام و منزلت سے عدم توجہ ہے کہ جس میں وہ ایک طرف تو ایک ذمہ دار فرد کی حیثیت سے بہترین زندگی کے لئے تگ و دو کرتا ہے اور عوامل طبیعت سے برسرپیکار رہتا ہے اور دوسری طرف معاشرتی برائیوں کے عوامل اور انسانوں کے مظالم اور برے کردار کا مقابلہ کرتا ہے۔
اگر معاشرے میں بعض ناہمواریاں ہیں‘ اگر بعض لوگ نعمتوں میں زندگی بسر کر رہے ہیں اور ان کے پاس نعمتوں کی فراوانی ہے جب کہ بعض لوگ غریب و مفلس ہیں اور سخت محنت و مشقت کرنے پر مجبور ہیں تو اس کی ذمہ دار قضائے الٰہی نہیں ہے بلکہ اس نامساوی اور ناہموار صورت حال کی ذمہ داری آزادی و خود مختاری انسان پر عائد ہوتی ہے۔