الٰہی تصور کائنات

صرف علی

محفلین
فہرست
الٰہی تصور کائنات
تصور کائنات
عالم محسوس اور معرفت کائنات
مختلف تصور ہائے کائنات
سائنسی تصور کائنات
فلسفی تصور کائنات
مذہبی تصور کائنات
ایک اچھے تصور کائنات کا معیار
الٰہی تصور کائنات
اسلامی تصور کائنات
حقیقت بین تصور کائنات
خدا واقعیت مطلق اور مبدائے ہستی
۱۔ محدودیت
۲۔ تغیر و تبدل
۳۔ وابستگی
۴۔ محتاجی
۵۔ نسبیت
صفات خدا
وحدانیت خدا
عبادت و پرستش
عبادت کی تعریف
روح عبادت و پرستش
توحید کے درجات اور مراتب
۱۔ توحید ذاتی
۲۔ توحید صفاتی
۳۔ توحید افعالی
۴۔ توحید در عبادت
انسان اور توحید تک رسائی
(الف) مادیت
(ب) عینیت
شرک کے مراتب و درجات
(الف) شرک ذاتی
(ب) شرک در خالقیت
(ج) شرک صفاتی
(د) شرک در پرستش
توحید اور شرک کی حدود
صدق و اخلاص
وحدت عالم
غیب و شہادت
دنیا اور آخرت
حکمت بالغہ اور عدل الٰہی
(الف) اصول غنا اور اصول کمال ذات حق
(ب) اصول ترتیب
(ج) اصول کلیت
اسلامی ثقافت میں اصول عدل کی مختصر تاریخ
 

صرف علی

محفلین
تصور کائنات
بہرحال ہر فلسفہ حیات اور مسلک و مکتب کائنات کے بارے میں ایک طرح کی تفسیر و تحلیل اور رائے و بصیرت پر استوار ہوتا ہے۔ ایک مکتب‘ کائنات کے بارے میں جس طرح کے طرز فکر اور فہم و شعور سے آگاہ کرتا ہے اسے ہی اس مکتب کی فکری اساس اور بنیاد قرار دیا جاتا ہے اور اسی فکری اساس و بنیاد کو تصور کائنات یا جہان بینی کہا جاتا ہے۔
ہر دین و مذہب اور اجتماعی فلسفہ ایک طرح کے تصور کائنات پر منحصر ہوتا ہے۔ ایک مکتب و مذہب جن اہداف و مقاصد کی طرف دعوت دیتا ہے‘ جس راہ و روش کو متعین کرتا ہے‘ جس طرح چاہئے اور نہیں چاہئے‘ کو وجود میں لاتا ہے اور جن ذمہ داریوں کو بیان کرتا ہے وہ سب اسی تصور کائنات کے لازمی نتیجہ کی مانند ہوتا ہے جو وہ مکتب پیش کرتا ہے۔
حکماء حکمت کو حکمت نظری اور حکمت عملی میں تقسیم کرتے ہیں۔ حکمت نظری عالم ہستی کو اس طرح پہچاننے کا نام ہے کہ جیسے وہ ہے جب کہ حکمت عملی‘ زندگی کی جو راہ متعین ہونی چاہئے اسی کے فہم و شعور کا نام ہے۔ لہٰذا جو کچھ کسی کا تصور ہو گا‘ اسی کے ماتحت وہ چاہے گا حکم لگائے گا‘ خصوصاً وہ ہست و وجود کہ جس کا بیان فلسفہ اولیٰ اور حکمت مابعدالطبیعات کے ذمہ ہے۔
عالم محسوس اور معرفت کائنات
جہان بینی کے لفظ سے کہ جس میں لفظ ”بینی“ آیا ہے جو دیکھنے کے معنی میں آیا ہے‘ غلط معنی مراد لیتے ہوئے‘ جہان بینی کو معرفت کائنات کے معنی میں نہیں لینا چاہئے‘ معرفت کائنات کے معنی میں جہان بینی یا تصور کائنات معرفت کے موضوع سے مربوط ہے جو انسان کے امتیازات میں سے ہے جب کہ اس کے برخلاف احساس انسان اور دیگر حیوانات کے درمیان مشترک ہے۔ اس بناء پر معرفت کائنات انسان کی خصوصیات میں سے ہے اور اس کا تعلق اس کی فکری صلاحیت اور عقلی قوت سے ہے۔
بہت سے حیوانات دنیا کو محسوس کرنے کے اعتبار سے انسان سے زیادہ ترقی یافتہ ہوتے ہیں یا یہ کہ حیوانات بعض ایسے حواس کے حامل ہوتے ہیں جن سے انسان عاری ہوتا ہے اور جیسا کہ کہا جاتا ہے‘ بعض پرندے ریڈار کی مانند ایک طرح کی حس رکھتے ہیں یا انسان کے ساتھ مشترک حواس میں انسان کی نسبت زیادہ حساس ہوتے ہیں۔ جیسا کہ عقاب کی بصارت‘ کتے اور چیونٹی میں سونگھنے کی قوت اور چوہے کی قوت سماعت میں دیکھا جا سکتا ہے۔ دوسرے حیوانات پر انسان کی برتری‘ کائنات کی معرفت کے اعتبار سے ہے یعنی انسان کائنات کے بارے میں ایک طرح کے گہرے شعور کا حامل ہوتا ہے۔ حیوان صرف کائنات کو محسوس کرتا ہے لیکن انسان کائنات کو محسوس کرنے کے علاوہ کائنات کی تفسیر بھی کرتا ہے۔
علم و معرفت سے کیا مراد ہے؟ احساس اور معرفت کے درمیان کس قسم کا رابطہ ہے؟ معرفت میں حسی عناصر کے علاوہ اور کون سے عناصر موجود ہوتے ہیں؟ وہ عناصر کہاں سے اور کس طرح ذہن میں داخل ہوتے ہیں؟ علم و معرفت کے عمل کا نظام (Mechanism) کیا ہے؟ صحیح اور غلط معرفت میں فرق کا معیار کیا ہے؟ یہ ایسے مسائل ہیں کہ ان کے لئے ایک الگ کتاب کی ضرورت ہے‘ ہم فی الحال اس بحث میں نہیں پڑ سکتے۔ جو چیز مسلم ہے‘ وہ یہ ہے کہ احساس اور معرفت میں فرق ہے۔ ایک چیز کو دیکھتے تو سب ہیں اور دیکھنے میں سب برابر ہیں لیکن گنتی کے چند افراد اس کی تفسیر کرتے ہیں اور کبھی ان کی تفسیر مختلف بھی ہوتی ہے۔
مختلف تصور ہائے کائنات
مجموعی طور پر کائنات کے بارے میں انسان کی تعبیر و تفسیر تین قسم کی ہو سکتی ہے یعنی اس کے تین مآخذ ہو سکتے ہیں: سائنس‘ فلسفہ اور دین۔ پس تصور کائنات بھی تین طرح کا ہے: سائنسی‘ فلسفی اور مذہبی تصور کائنات۔
(اس موضوع پر استاد شہید مطہری کی ایک کتاب ”شناخت در قرآن“ بھی فارسی میں منظرعام پر آ چکی ہے)
سائنسی تصور کائنات
اب ہم دیکھتے ہیں کہ سائنس ہمیں کس طرح اور کس حد تک بصیرت اور آگاہی عطا کرتی ہے۔ سائنس کی بنیاد دو چیزوں پر استوار ہے: ایک مفروضہ‘ دوسرا تجربہ۔ ایک سائنس دان کے ذہن میں کسی چیز کی تفسیر یا اسے کشف کرنے کے لئے سب سے پہلے مفروضہ قائم ہوتا ہے‘ اس کے بعد مفروضے کا عمل کے میدان یا لیبارٹری میں تجربہ کیا جاتا ہے۔ اگر تجربہ اس کی تائید کر دے تو ایک سائنسی اصول کی حیثیت سے اسے قبول کر لیا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ کوئی اس سے بھی زیادہ جامع مفروضہ سامنے آ جائے اور بہتر تجربات اس کی تائید کر دیں‘ وگرنہ اس سائنسی اصول کا اعتبار اپنی جگہ پر باقی رہے گا لیکن جونہی کوئی اس سے بھی زیادہ جامع مفروضہ سامنے آ جائے تو یہ اصول اس کی جگہ خالی کر دے گا۔
یوں سائنس تجربے کے ذریعے عمل و اسباب اور ان کے آثار اور مسببات کو کشف کرتی ہے یا سائنسی تجربہ کسی چیز کی علت یا کسی چیز کے اثر یا معلول کو کشف کرتا ہے اور یہ سلسلہ یہیں پر تمام نہیں ہوتا بلکہ اس کے بعد بھی سائنس یا سائنسی تجربہ اس علت یا معلول کا پتہ لگانے کی کوشش کرتا ہے اور حتی الامکان اپنے سلسلہ انکشاف کو جاری رکھتا ہے۔
سائنس کی تجربے پر استوار ہونے کے لحاظ سے کچھ خصوصیات بھی ہیں اور کچھ حدود بھی۔ سائنسی انکشافات کی سب سے بڑی خصوصیت اس کا دقیق‘ سنجیدہ اور مشخص و معین ہونا ہے۔ سائنس ایک جزوی مخلوق کے بارے میں ہزاروں معلومات انسان کے حوالے کرنے پر قادر ہے۔ سائنس درخت کے ایک پتے کے بارے میں علم کا ایک دفتر بنا سکتی ہے۔ سائنس کی دوسری خصوصیت یہ ہے کہ چونکہ یہ انسان کو ہر موجود کے خاص قوانین سے آگاہ کرتی ہے لہٰذا اس انسان کو اس پتے یا چیز پر تصرف و تسلط حاصل کرنے کی راہ بھی بتا دیتی ہے اور اسی راستے سے صنعت و حرفت اور ٹیکنالوجی وجود میں آتی ہے۔
لیکن سائنس جہاں دقیق‘ مشخص اور سنجیدہ ہونے کے ساتھ ساتھ ہر جزوی چیز کے بارے میں ہزاروں مسائل لکھانے پر قادر ہے وہاں اس کا دائرہ محدود بھی ہے اور یہ محدودیت تجربے کے اعتبار سے ہے۔ سائنس اس حد تک آگے بڑھ جاتی ہے کہ عملاًچیز کا تجربہ کرنے کی کوشش کرنے لگتی ہے لیکن کیا پوری کائنات اور اس کے تمام پہلوؤں کو تجربے کی قید میں لایا جا سکتا ہے۔ مثلاً سائنس عمل و اسباب یا اثرات و مسببات کی تلاش میں عملاً ایک خاص اور معین حد تک آگے بڑھتی ہے لیکن اس کے بعد ”مجھے علم نہیں“ کی منزل سے ہمکنار ہو جاتی ہے۔ سائنس ایک وسیع عالم ظلمت میں روشنی کے ایک ایسے سرچشمے کی مانند ہے جو ایک محدود حلقے کو منور کرتا ہے۔ اپنی اس حد سے پرے کی وہ کوئی خبر نہیں دے سکتی۔ کیا سائنس کائنات کے آغاز اور انجام کو تجربے کے ذریعے ثابت کر سکتی ہے یا کائنات کا دونوں اطراف سے لامتناہی ہونا قابل تجربہ ہے‘ یا یہ کہ جب ایک سائنس دان اس مقام تک پہنچتا ہے تو شعوری یا لاشعوری طور پر فلسفہ کے پروں پر بیٹھ کر اظہار نظر کرتا ہے؟
سائنس کی نظر میں کائنات ایک ایسی پرانی کتاب کی مانند ہے جس کا پہلا اور آخری صفحہ پھٹ چکا ہے‘ نہ اس کا اول معلوم ہے اور نہ ہی آخر۔ یہی وجہ ہے کہ سائنسی تصور کائنات جزئیات کا علم ہے نہ کہ معرفت کل‘ سائنس ہمیں کائنات کے بعض اجزاء سے آشنا کرتی ہے‘ نہ کہ کائنات کی پوری شخصیت اور شکل و صورت سے‘ سائنس دانوں کا سائنسی تصور کائنات ایسا ہے جیسے بعض لوگوں نے ہاتھی کو رات کی تاریکی میں چھو کر اور ٹٹول کر پہچانا ہو‘ جس نے ہاتھی کے کان کو چھوا اس نے ہاتھی کو ہاتھ سے جھلنے والے پنکھے کی مانند تصور کیا اور جس نے ہاتھی کے پاؤں کو ہاتھ لگایا اس نے اسے ایک ستون سمجھا اور جس نے اس کی پیٹھ کو چھوا اس نے اسے ایک تختہ سمجھا۔
ایک مکتب فکر یا نظریہ کائنات کے لئے سائنسی تصور کائنات پر انحصار کے حوالے سے اس کی نارسائی کا ایک رخ یہ ہے کہ نظری اعتبار سے سائنس کسی حقیقت کو جیسی کہ وہ ہے اور حقیقت ہستی کی کیفیت پر ایمان لانے پر مائل کرنے کے اعتبار سے ناپائیدار اور غیر مستحکم ہے۔ سائنسی نقطہ نظر سے کائنات کا چہرہ روز بروز تغیر و تبدل سے دوچار ہوتا رہتا ہے‘ کیوں کہ سائنس مفروضے اور تجربے پر استوار ہوتی ہے نہ کہ بدیہی اور ابتدائی عقلی اصولوں پر۔ مفروضے اور تجربے کی قدر و قیمت وقتی حیثیت کی حامل ہوتی ہے۔ اسی لئے سائنسی تصور کائنات متزلزل اور بے ثبات ہونے کی بناء پر ایمان و اعتقاد کی بنیاد نہیں بن سکتا۔
ایمان و اعتقاد ایک ایسے مستحکم اور ناقابل تبدیل سہارے کی ایک ایسی بنیاد کا خواہاں ہوتا ہے جس میں ابدی رنگ پایا جاتا ہو۔
سائنسی تصور کائنات اپنی اس محدودیت کی بناء پر جس سائنسی وسائل (مفروضہ اور تجربہ) سائنس کے لئے جبراً وجود میں لائے ہیں‘ معرفت کائنات سے متعلق بعض بنیادی مسائل کا جواب دینے سے قاصر ہے جب کہ بہرحال ایک نظریہ کائنات یا مکتب فکر کے لئے ان کا قطعی جواب ضروری ہے مثلاً کائنات کہاں سے آئی ہے؟ اور کس طرف جا رہی ہے؟ ہم اس مجموعی کائنات میں کس نقطہ اور مقام پر کھڑے ہیں؟ کیا کائنات زمان کے اعتبار سے اول و آخر رکھتی ہے یا نہیں؟ اسی طرح مکانی لحاظ سے کائنات کی کیا صورت ہے؟ کیا ہستی اپنی مجموعی حیثیت میں صحیح ہے یا غلط؟ حق ہے یا بے ہودہ اور باطل؟ خوبصورت ہے یا بدصورت؟ کیا کائنات پر ضروری اور ناقابل تبدیل سنتیں حاکم ہیں یا کوئی بھی ناقابل تبدیل سنت حاکم نہیں ہے؟ کیا عالم ہستی اپنی مجموعی حیثیت میں ایک زندہ اور باشعور چیز ہے یا مردہ اور بے شعور ہے اور انسان کا وجود ایک استثنائی اور حادثاتی وجود ہے؟ کیا موجود معدوم ہو جائے گا؟ کیا معدوم وجود میں آ سکتا ہے؟ کیا اعادہ معدوم ممکن ہے یا محال؟ کیا کائنات اور تاریخ ہوبہو اگرچہ کئی ارب سال کے بعد قابل تکرار ہے؟ جیسا کہ ڈورو کور کا کہنا ہے: کیا واقعاً کائنات پر وحدت کا راج ہے یا کثرت حاکم ہے؟ کیا کائنات مادی اور غیر مادی دونوں پہلوؤں کی حامل ہے اور اس کا غیر مادی حصہ پوری کائنات کا ایک چھوٹا سا جزو ہے؟ کیا کائنات ہدایت یافتہ اور بابصیرت ہے یا اندھی اور نابینا؟ کیا کائنات انسان کے ساتھ دست و گریبان ہے؟ کیا کائنات بھی انسان کے نیک اور برے اعمال کے مقابلے میں اچھا یا برا ردعمل دکھاتی ہے؟ کیا اس حیات فانی کے بعد کوئی باقی رہ جانے والی حیات بھی موجود ہے؟ اور اسی طرح کے دوسرے سوالات۔
 

صرف علی

محفلین
سائنس ان تمام سوالات کا جواب دینے سے عاجز ہے کیوں کہ انہیں تجربہ گاہ میں نہیں لے جایا جا سکتا۔ سائنس محدود اور جزوی مسائل کا جواب دیتی ہے‘ لیکن کائنات کی مکمل تصویر پیش کرنے سے عاجز ہے۔ ایک مثال کے ذریعے اس طرح وضاحت کی جا سکتی ہے۔
ممکن ہے کسی شخص کے پاس تہران کے بارے میں علاقائی اور مقامی معلومات موجود ہوں۔ مثلاًیہ تہران یا اس کے بعض حصوں سے اچھی طرح واقف ہو‘ یہاں تک کہ وہ اس علاقے کی سڑکوں‘ گلیوں حتیٰ گھروں کو بھی اپنے ذہن میں تصور کر سکتا ہے۔ اسی طرح ممکن ہے کوئی دوسرا شخص کسی دوسرے علاقے کو اسی انداز میں پہچانتا ہو‘ اسی طرح ممکن ہے کوئی تیسرا‘ چوتھا اور پانچواں شخص‘ بعض اور دوسرے علاقوں سے واقف ہو‘ اس طرح سے کہ اگر ان تمام معلومات کو یکجا کیا جائے تو تہران کے مختلف حصوں کے بارے میں بقدر کافی معلومات جمع ہو جائیں گی۔ لیکن اگر تہران کو اس انداز میں پہچان لیا جائے‘ تو کیا اس کا مطلب یہ ہو گا کہ ہم نے تہران کو ہر پہلو سے پہچان لیا ہے؟ کیا ہم اس ذریعے سے تہران کی مجموعی اور مکمل تصویر پیش کرنے پر قادر ہیں یعنی تہران اپنی مجموعی حیثیت میں کس شکل و صورت کا حامل ہے؟ کیا دائرے کی شکل میں ہے یا مربع کی؟ کیا درخت کے پتے کی مانند ہے؟
اگر برگ و درخت کی مانند ہے تو یہ کونسا درخت ہے؟ علاقوں کا آپس میں ایک دوسرے سے کیا رابطہ ہے؟ بسوں کے راستے جو کئی علاقوں کو ایک دوسرے سے ملاتے ہیں‘ کس نوعیت کے ہیں؟ کیا تہران اپنی مجموعی حیثیت میں خوبصورت شجر ہے یا بدصورت؟ نہیں اس طرح سے ان چیزوں کا جواب نہیں مل سکتا۔ اگر ہم اس سلسلے میں معلومات اکٹھی کرنا چاہتے ہیں مثلاًہم معلوم کرنا چاہتے ہیں کہ تہران کی شکل و صورت کیسی ہے؟ کیا تہران خوبصورت ہے؟ تو ہمیں ہوائی جہاز پر سوار ہو کر اور بلندی سے مجموعی لحاظ سے شہر کا جائزہ لینا ہو گا۔
یہی وجہ ہے کہ سائنس ایک تصور کائنات کے لئے ضروری اور نہایت بنیادی مسائل مثلاً کائنات کی مجموعی حیثیت کا جواب دینے سے عاجز ہے۔
ان تمام چیزوں کے علاوہ تصور کائنات کی قدر و قیمت سائنسی اور فنی ہے‘ نظری نہیں۔ جو چیز کسی مکتب فکر کا سہارا بن سکتی ہے اسے نظری قدر و قیمت کا حامل ہونا چاہئے نہ کہ عملی۔ سائنس کی نظری قدر و اہمیت یہ ہے کہ وہ اپنے آئینے میں کائنات کی حقیقت کو جیسی کہ وہ ہے‘ پیش کرے جب کہ اس کی فنی و عملی قدر و قیمت یہ ہے کہ سائنس خواہ حقیقت نما ہو یا نہ ہو‘ عمل کے میدان میں انسان کو توانائی عطا کر دے اور اس کے لئے ثمر بخش ہو‘ آج کی صنعت اور ٹیکنالوجی سائنس کی عملی و فنی قدر و قیمت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
آج کی دنیا میں سائنس کے بارے میں ایک تعجب انگیز امر یہ ہے کہ جہاں اس کی عملی و فنی اہمیت میں اضافہ ہوا ہے‘ وہاں اس کی نظری حیثیت کم ہو گئی ہے۔ جو لوگ گہری نگاہ سے جائزہ نہیں لیتے‘ ان کا یہ خیال ہے کہ حقیقت و واقعیت کے سلسلے میں (کہ جو ایسی ہے‘ جیسا کہ سائنس بیان کرتی ہے)۔ اطمینان اور ایمان پیدا کرنے اور انسانی ضمیر کو روشن کرنے کے اعتبار سے بھی سائنسی ترقی و پیشرفت عملی ترقی کے شانہ بشانہ ہے‘ ناقابل انکار ہے‘ جب کہ حقیقت حال اس کے بالکل برعکس ہے۔(۱)
یہاں تک جو کچھ بیان کیا جا چکا ہے اس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ ایک مکتب فکر ایک طرح کے ایسے تصور کائنات کا محتاج ہے جو اولاً تو معرفت کائنات سے متعلق ان بنیادی مسائل کا جواب دے جن کا تعلق پوری کائنات سے ہے نہ کہ اس کے کسی خاص جزو سے۔ دوسرا یہ کہ یہ مکتب فکر ایک پائیدار اعتماد اور دائمی معرفت کا باعث بنتا ہو‘ نہ یہ کہ وقتی اور جلد زائل ہو جانے والی معرفت کا موجب ہو‘ تیسرا یہ کہ مکتب فکر جو کچھ پیش کرے اسے نظری حیثیت کا حامل ہونا چاہئے اور حقیقت کو بیان کرنا چاہئے نہ کہ صرف عملی و فنی حیثیت کا حامل ہو‘ اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی واضح ہو گیا کہ سائنسی تصور کائنات دوسری جہات سے اپنی تمام تر خصوصیات کے باوجود مذکورہ بالا تینوں خصوصیات سے عاری ہے۔
فلسفی تصور کائنات
ہرچند فلسفی تصور کائنات اپنے عمیق و معین ہونے کے اعتبار سے سائنسی تصور کائنات کی مانند نہیں ہے لیکن اس کے عوض بعض ایسے اصولوں پر استوار ہے جو اولاً تو بدیہی اور ذہن کے لئے ناقابل انکار ہیں اور برہانی و استدلالی روش کے تحت آگے بڑھتے ہیں اور ثانیاً عام اور ہمہ گیر ہیں (فلسفی اصطلاح میں ان کا تعلق موجود بماھو موجود کے احکام سے ہے) اسی لئے قدرتی طور پر ایک طرح کے یقین کے حامل ہیں اور جو ناپائیداری اور بے ثباتی سائنسی تصور کائنات میں دیکھنے کو ملتی ہے وہ فلسفی تصور کائنات میں نہیں ہے اسی طرح سائنسی تصور کائنات کی طرح محدودیت بھی نہیں رکھتے۔
فلسفی تصور کائنات انہی مسائل کا جواب دہ ہے جن پر مختلف نظریات کا انحصار ہوتا ہے۔ فلسی تصور کائنات طرز فکر کائنات کے چہرے کو اس کی کلی حیثیت میں مشخص و معین کرتا ہے۔
سائنسی تصور کائنات اور فلسفی تصور کائنات دونوں عمل کے لئے مقدمہ ہیں‘ لیکن دونوں کی صورتیں مختلف ہیں۔ سائنسی تصور کائنات اس اعتبار سے مقدمہ عمل ہے کہ انسان کو کائنات پر تصرف اور اسے تبدیل کرنے کی قوت و توانائی عطا کرتا اور اسے عالم طبیعت پر مسلط کر دیتا ہے تاکہ وہ عالم طبیعت کو اپنے ارادہ و خواہش کے مطابق اپنے کام میں لا سکے‘ لیکن کہیں فلسفی تصور کائنات اس اعتبار سے مقدمہ عمل اور عمل میں موثر ہے کہ وہ انسان کے لئے جہت عمل اور زندگی کے انتخاب کی راہ متعین کرتا ہے۔ فلسفی تصور کائنات‘ عالم طبیعت کے مقابل انسان کے ردعمل اور طرزعمل میں موثر ہوتا ہے اور کائنات کے بارے میں انسان کے طرز فکر کو مشخص کرتا ہے نیز کائنات اور عالم ہستی کے سلسلے میں اس کی نگاہ کو ایک خاص زاویہ عطا کرتا ہے‘ انسان کو ایک نظریہ اپنانے میں مدد دتیا ہے یا کوئی نظریہ اس سے چھین لیتا ہے اس کی حیات کو بامعنی اور بامقصد یا بے ہودہ اور فضول قرار دے دیتا ہے۔ اسی لئے ہم کہتے ہیں کہ سائنس انسان کو ایک ایسے تصور کائنات سے آگاہ نہیں کر سکتی جسے کسی مکتب فکر کی بنیاد قرار دیا جا سکے لیکن یہ کام فلسفہ کر سکتا ہے۔
مذہبی تصور کائنات
اگر کائنات اور عالم ہستی کے بارے میں ہر قسم کے کلی اظہار نظر کو فلسفی تصور کائنات سے تعبیر کیا جائے (البتہ اس چیز سے قطع نظر کہ اس کائنات کا مبداء قیاس‘ برہان یا استدلال ہے یا عالم غیب سے وحی کا تھا) تو مذہبی تصور کائنات کو ایک طرح کا فلسفی تصور کائنات سمجھنا چاہئے۔ مذہبی تصور کائنات اور فلسفی تصور کائنات کا دائرئہ کار ایک ہی ہے‘ جب کہ سائنسی تصور کائنات اس کے برخلاف ہے‘ لیکن اگر معرفت و شناخت کے مبداء پر نظر رکھی جائے تو مسلمہ طور پر مذہبی تصور کائنات اور فلسفی تصور کائنات دونوں کو مختلف انواع میں شمار کیا جائے گا۔
بعض مذاہب میں مثلاًمذہب اسلام میں کائنات کے بارے میں مذہبی شعور نے خود مذہب کی گہرائیوں میں فلسفی یعنی استدلالی رنگ اپنا رکھا ہے۔ مذہب کا انحصار عقل‘ استدلال اور برہان قائم کرنے پر ہے‘ اسی لئے اسلامی تصور کائنات اپنے اسلامی اور مذہبی ہونے کے ساتھ ساتھ فلسفی اور عقلی تصور کائنات بھی ہے۔ مذہبی تصور کائنات کی ممتاز خصوصیات میں سے ایک اور خصوصیت (فلسفی تصور کائنات کی دو خصوصیات کے علاوہ یعنی ثبات و دوام اور عام اور ہمہ گیر) کہ سائنسی تصور کائنات اور خالص فلسفی تصور کائنات جس سے عاری ہے۔ اس کا تصور کائنات کے اصول کو تقدس عطا کرنا ہے۔
ایک مکتب فکر کے لئے ایمان کی ضرورت ہوتی ہے اور کسی مکتب پر ایمان تب ہی ہو سکتا ہے کہ جب اس کے اصولوں کے جاویداں اور ناقابل تغیر ہونے پر اعتقاد ہو اور خصوصاً سائنسی تصور کائنات میں یہ بات نہیں پائی جاتی۔ علاوہ ازیں کسی مکتب پر ایمان کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ اس کا احترام تقدس کی حد تک ہو۔
اس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ کوئی تصور کائنات اسی صورت میں کسی مکتب فکر اور ایمان کی بنیاد قرار پا سکتا ہے‘ جب اس میں مذہبی رنگ پایا جاتا ہو۔
گذشتہ گفتگو سے یہ نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ ایک تصور کائنات پر اسی صورت میں کسی مکتب فکر کا انحصار ہو سکتا ہے جب اس میں ایک طرف تو مستحکم اور وسیع سوچ پائی جاتی ہو اور دوسری طرف مذہبی اصول کا تقدس اور حرمت بھی۔
 

صرف علی

محفلین
ایک اچھے تصور کائنات کا معیار
ایک اچھے تصور کائنات کا معیار یہ ہے کہ اولاً تو وہ قابل اثبات و استدلال ہو۔ دوسرے الفاظ میں اسے عقل و منطق کی حمایت حاصل ہو‘ دوسرا یہ کہ حیات و زندگی کو بامقصد اور بامعنی بناتا ہو‘ اور زندگی کے بے کار‘ بے سود‘ فضول اور بے ہودہ ہونے کے تصور کو اور اس خیال کو کہ تمام راہیں نیستی اور عدم کی طرف جا پہنچتی ہیں‘ ذہنوں سے نکال دیتا ہو‘ تیسرا یہ کہ آرزو پرور‘ ولولہ انگیز اور پرامید بنانے والا ہو‘ چوتھا یہ کہ انسانی اور اجتماعی اہداف کو تقدس عطا کرنے کی قوت رکھتا ہو‘ پانچواں یہ کہ ذمہ دار اور جواب دہ بناتا ہو‘ کسی تصور کائنات کا منطقی ہونا‘ جہاں اس کے لئے عقلی حوالوں سے اور اذہان کے لئے قابل قبول بنانے کی راہ ہموار کرتا ہے‘ وہاں ان ابہامات اور تاریکیوں کو بھی برطرف کر دیتا ہے جو عمل کی راہ میں بہت بڑی رکاوٹ ہیں۔
کسی مکتب کے تصور کائنات میں پرامید بنانے کا پہلو اسے تجاذب اور قوت کشش عطا کرتا ہے اور اسے طاقت و حرارت بھی بخشتا ہے۔
تصور کائنات کسی مکتب کے اہداف و مقاصد کو تقدس عطا کرتا ہے تو اس کے باعث لوگ باآسانی اس مکتب کے اہداف و مقاصد کی راہ میں اس وقت تک ایثار و قربانی پیش کرنے لگتے ہیں‘ جب تک مکتب کے عملی نفاذ کی ضمانت فراہم نہیں ہو جاتی۔ جب کوئی کسی شخص کے لئے ذمہ دارانہ جواب دہی پیدا کرتا ہے تو اس سے انسان اپنے ضمیر و وجدان کی گہرائیوں میں ذمہ داری کا احساس کرنے لگتا ہے اور معاشرے کے سامنے بھی اپنے آپ کو ذمہ دار سمجھتا ہے۔
الٰہی تصور کائنات
ایک اچھا تصور کائنات جن خصوصیات اور اوصاف کا حامل ہوتا ہے وہ تمام خصوصیات الٰہی تصور کائنات میں بھی جمع ہیں اور صرف الٰہی تصور کائنات ہی تمام خصوصیات کا حامل ہو سکتا ہے۔
الٰہی تصور کائنات سے مراد اس چیز کا ادراک ہے کہ کائنات ایک حکیمانہ مشیت سے وجود میں آئی ہے اور نظام ہستی خیر اور جود و رحمت نیز مخلوقات کو اپنے شایان شان کمالات تک پہنچانے کی بنیاد پر استوار ہے۔ الٰہی تصور کائنات کا مطلب یہ ہے کہ کائنات کا صرف ایک ہی محور و مرکز ہے۔ الٰہی تصور کائنات کا مطلب یہ ہے کہ کائنات اسی سے ہے:
اناللّٰہ و انا الیہ راجعون ( سورہ بقرہ‘ آیت ۱۵۶)
مخلوقات جہاں ایک ہم آہنگ نظام کے تحت ایک ہی مرکز کی طرف ارتقائی منازل طے کر رہی ہیں۔ کسی بھی مخلوق کی خلقت عبث‘ بے ہودہ اور بے مقصد نہیں ہے‘ کائنات ایسے قطعی نظاموں کے تحت چل رہی ہے جنہیں ”الٰہی سننوں“ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ تمام مخلوقات میں انسان کو ایک خاص شرف و بزرگی حاصل ہے اور اس کے ساتھ ساتھ اس کے کاندھوں پر ایک خاص ذمہ داری کا بوجھ بھی ہے۔ وہ اپنی تکمیل و تربیت اور معاشرے کی اصلاح کا ذمہ دار بھی ہے۔ یہ کائنات انسان کے لئے ایک درس گاہ ہے اور خداوند تعالیٰ ہر انسان کو اس کی صحیح نیت اور کوشش کے مطابق جزا دیتا ہے۔
الٰہی تصور کائنات منطق و علم اور استدلال پر استوار ہے۔ کائنات کے ہر ذرے میں خدائے علیم و حکیم کے وجود کے دلائل موجود ہیں اور ہر برگ‘ شجر‘ معرفت پروردگار کا دفتر ہے۔ الٰہی تصور کائنات حیات و زندگی کو بامعنی و بامقصد بناتا ہے اور اسے روح عطا کرتا ہے کیوں کہ الٰہی تصور کائنات انسان کو کمال کے ایسے راستے پر ڈال دیتا ہے‘ جس کی کوئی معین حد نہیں ہوتی اور وہ ہمیشہ آگے ہی بڑھتا رہتا ہے‘ الٰہی تصور کائنات میں جو کشش اور جاذبیت پائی جاتی ہے اس سے انسان کو دل گرمی اور خوشی و مسرت حاصل ہوتی ہے‘ الٰہی تصور کائنات مقدس اور اعلیٰ و ارفع اہداف سے روشناس کراتا ہے اور ایسے افراد پیدا کرتا ہے‘ جو جذبہ ایثار اور قربانی سے سرشار ہوتے ہیں۔ صرف الٰہی تصور کائنات ہی ایسا تصور کائنات ہے جس سے انسانوں میں ایک دوسرے کی نسبت احساس ذمہ داری کی صحیح شکل سامنے آتی ہے نیز صرف یہی ایک ایسا تصور کائنات ہے جو انسان کو عدم کی پرستش اور عبث پسندی کے ہولناک گڑھے میں گرنے سے نجات دلاتا ہے۔
اسلامی تصور کائنات
اسلامی تصور کائنات دراصل الٰہی توحیدی تصور کائنات ہی ہے۔ اسلام میں توحید کو اپنی خالص اور پاک ترین شکل میں بیان کیا گیا ہے۔ اسلام کی نظر میں خدا کی کوئی مثل و نظیر نہیں ہے:
لیس کمثلہ شئی ( سورہ شوریٰ‘ آیت ۱۱)
خدا نہ تو کسی چیز سے شباہت رکھتا ہے اور نہ ہی اسے کسی چیز سے تشبیہ دی جا سکتی ہے‘ خدا مطلقاً بے نیاز ہے‘ سب اسی کے محتاج ہیں جبکہ وہ سب سے بے نیاز ہے۔
انتم الفقراء الی اللّٰہ واللّٰہ ھوالغنی الحمید ( سورہ فاطر‘ آیت ۱۵)
خدا ہر چیز سے آگاہ ہے اور ہر چیز پر قادر ہے:
انہ بکل شئی علیم ( سورہ شوریٰ‘ آیت ۱۲)
ان اللّٰہ علی کل شئی قدیر
( سورہ حج‘ آیت ۶ اور دیگر بہت سی آیات)
وہ ہر جگہ پر ہے اور کوئی جگہ اس سے خالی نہیں۔ آسمان کے بالائی حصے‘ زمین کی گہرائی کی نسبت اس کے ساتھ ایک ہی ہے۔ ہم جس طرف بھی رخ کر کے کھڑے ہوں گے تو اسی کی جانب کھڑے ہوں گے۔
فانما تولوا فثم وجہ اللّٰہ ( سورہ بقرہ‘ آیت ۱۱۵)
وہ سب کے دلوں کے بھید‘ ذہنی خیالات و نیتوں اور ارادوں سے واقف ہے:
ولقد خلقنا الانسان و نعلم ماتوسوس بنفسہ ( سورہ ق‘ آیت ۱۶)
وہ انسان کی شہ رگ سے بھی زیادہ اس سے نزدیک ہے:
نحن اقرب الیہ من حبل الورید
( سورہ ق‘ آیت ۶)
وہ تمام کمالات کا حامل ہے اور ہر نقص و عیب سے مبرا اور منزہ ہے:
وللّٰہ الاسماء الحسنی ( سورہ اعراف‘ آیت ۱۸۰)
وہ جسم نہیں ہے اور نہ ہی اسے آنکھوں سے دیکھا جا سکتا ہے:
لا تدرکہ الابصار و ھویدرک الابصار ( سورہ انعام‘ آیت ۱۰۳)
الٰہی اور اسلامی تصور کائنات کی نظر میں کائنات ایک مخلوق ہے اور اللہ کی مشیت و عنایت ہی کے ذریعے قائم ہے۔ اگر کائنات ایک لمحے کے لئے بھی اللہ کے لطف و کرم سے محروم ہو جائے تو نیست و نابود ہو جائے گی۔ اس کائنات کو عبث و باطل اور لہو و لعب کے لئے نہیں بنایا گیا۔ انسان اور کائنات کی تخلیق میں حکیمانہ مقاصد کارفرما ہیں۔ کوئی بھی چیز بے جا اور فائدہ کے بغیر پیدا نہیں کی گئی۔ موجودہ نظام‘ ایک احسن و اکمل نظام ہے‘ کائنات عدل اور حق پر قائم ہے‘ نظام عالم اسباب و سببات پر استوار ہے اور ہر نتیجے کو اس کے مخصوص مقدمے اور سبب میں تلاش کرنا چاہئے‘ ہر نتیجے اور سبب سے صرف اسی کے مخصوص اثر کی توقع رکھنی چاہئے۔
قضا و قدر الٰہی‘ ہر موجود کو اس کی خاص علت کے راستے سے وجود میں لاتی ہے۔ قضا و تقدیر الٰہی بعینہ سلسلہ عدل و اسباب کی قضا و تقدیر ہے۔
(مزید وضاحت کیلئے استاد مطہری ہی کی کتاب ”انسان اور حیوان“)
اللہ کی مشیت اور ارادہ ”سنت“ کی صورت میں یعنی ایک کلی اصول اور قانون کی صورت میں کائنات میں جاری و ساری ہے۔ الٰہی سنتیں تبدیل نہیں ہوتیں بلکہ جو چیز تبدیل ہوتی ہے وہ الٰہی سنتوں کی بنیاد پر تبدیل ہوتی ہے۔ انسان کے لئے دنیا کی اچھائی اور برائی کائنات میں اس کے طرز سلوک اور طریقہ عمل کے ساتھ مربوط ہے۔ انسان کو اچھے اور برے اعمال پر جہاں آخرت میں جزا یا سزا دی جائے گی‘ وہاں یہ اس دنیا میں بھی تاثیر سے خالی نہیں ہوں گے۔ ترویج و ارتقاء اللہ کی سنت ہے‘ کائنات انسانی ارتقاء کا گہوارہ ہے۔
قضا و قدر الٰہی پوری کائنات پر حاکم ہے اور انسان اسی قضا و قدر کی رو سے آزاد‘ خود مختار‘ ذمہ دار اور اپنی تقدیر پر حاکم ہے۔ انسان ذاتاً شرف و بزرگی کا حامل اور خلاف الٰہیہ کے لائق ہے۔ دنیا اور آخرت کا ایک دوسرے سے گہرا رشتہ ہے دونوں کا رابطہ کاشت کے مرحلے اور فصل کی کٹائی کے مرحلے کے درمیان پائے جانے والے رابطے کی مانند ہے یعنی ہر شخص آخرت میں وہی کاٹے گا جو دنیا میں بوئے گا۔ اس کی مثال بچپن اور بڑھاپے کے مابین رابطے کی ہے کیوں کہ بڑھاپے کی بنیاد بچپن اور جوانی ہی میں پڑتی ہے۔
 

صرف علی

محفلین
حقیقت بین تصور کائنات
اسلام ایک حقیقت بین اور واقعیت پرست دین ہے۔ اسلام کا لفظ تسلیم کے معنی میں ہے اور اس حقیقت کی نشاندہی کرتا ہے کہ مسلمان ہونے کی پہلی شرط حقائق و واقعات کے سامنے تسلیم ہونا ہے‘ کسی بھی قسم کے عناد‘ ہٹ دھرمی‘ تعصب‘ اندھی تقلید“ جانب داری اور خود خواہی چونکہ حقیقت طلبی اور واقعیت پسندی کی روح کے خلاف ہے لہٰذا اسلام نے اس کی مذمت کی ہے اور اسے مسترد کر دیا ہے۔ اسلام کی نظر میں اگر انسان حقیقت جو اور حق تک پہنچنے کی راہ میں کوشش کرنے والا ہو اور بالفرض حقیقت تک نہ پہنچے تو مغرور ہے لیکن اگر کسی کی روح میں عناد اور ڈھٹائی کا مادہ پایا جاتا ہو اور بالفرض تقلید‘ وراثت اور ان جیسی دوسری چیزوں کے وسیلے سے حقیقت کو قبول بھی کر لیتا ہے تب بھی اس کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ ایک حقیقی مسلمان چاہے وہ مرد ہو یا عورت‘ اپنی فطرت میں موجود اپنی حقیقت طلب روح کی بناء پر حکمت اور حقیقت کو جہاں سے بھی ملے‘ حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے اور حصول علم کی راہ میں تعصب سے کام نہیں لیتا‘ اگر بالفرض وہ دنیا کے دور ترین خطے میں بھی اسے پاتا ہے تو اس کی طرف تیزی سے بڑھتا ہے۔ ایک حقیقی مسلمان‘ حقیقت کی جستجو کو نہ تو اپنی عمر کے کسی خاص زمانے میں محدود کرتا ہے اور نہ ہی کسی خاص علاقے سے وابستہ کرتا ہے اور نہ ہی اسے مخصوص افراد میں منحصر سمجھتا ہے کیوں کہ اسلام کے عظیم پیشوا نے فرمایا ہے کہ حصول علم ہر مسلمان کا فریضہ ہے (چاہے وہ مرد ہو یا عورت) اسی طرح ان کا ارشاد ہے:
خذوا الحکما ولو من المشرک… الحکما ضالا المومن فلیطلبھا ولو فی ید اھل الشرک(تحف العقول‘ ص ۱۹۸)
”حکمت کو کہیں سے بھی اور چاہے جس کے ہاتھ میں بھی دیکھو اسے حاصل کرو اگرچہ وہ کسی مشرک کے ہاتھ میں کیوں نہ ہو۔“
ایک اور مقام پر فرماتے ہیں:
اطلبوا العلم ولو بالصین
”علم حاصل کرو چاہے اس کے لئے تمہیں چین جانا پڑے۔“
اس طرح سے آپ سے یہ بھی منسوب ہے کہ
اطلبوا العلم من المھد الی اللحد
”گہوارے سے گور تک علم حاصل کرو۔“
مسائل کے سلسلے میں یک طرفہ اور سطحی سوچ‘ ماں باپ کی اندھی تقلید نیز موروثی سنتوں اور روایات کے سامنے جھک جانا اسی لئے قابل مذمت ہے کہ یہ چیز روح تسلیم اور اسلام کی حقیقت طلبی کے خلاف ہے اور حقیقت سے دوری‘ انحراف اور خطا کا باعث بنتی ہے۔
خدا واقعیت مطلق اور مبدائے ہستی
انسان ایک واقعیت پسند مخلوق ہے۔ انسان کا بچہ اپنی زندگی کی ابتداء ہی سے ماں کی چھاتی کو ایک حقیقت کے عنوان سے تلاش کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ پھر جب آہستہ آہستہ بچے کی جسمانی اورذہنی نشوونما ہونے لگتی ہے تو وہ اپنے اور دیگر اشیاء کے درمیان تمیز کرنے کے قابل ہو جاتا ہے۔ وہ اشیاء کو اپنے سے باہر اور جدا سمجھتا ہے‘ اگرچہ اشیاء کے ساتھ اس کا رابطہ ذہنی خیالات کے ایک سلسلہ کے ذریعے قائم ہوتا ہے لیکن اس کے باوجود وہ ذہن سے ایک وسیلے اور رابطہ عمل کے طور پر استفادہ کرتا ہے اور وہ یہ بھی جانتا ہے کہ اشیاء کی حقیقت اس کے ذہن میں موجود افکار سے جدا ہے۔
جن حقائق اور واقعیات کا انسان اپنے حواس کے ذریعے ادراک کرتا ہے اور جس کے مجموعے کو کائنات سے تعبیر کیا جاتا ہے‘ وہ ایسے امور سے عبارت ہیں جن سے مندرجہ ذیل خصوصیات جدا نہیں ہو سکتیں:
۱۔ محدودیت
چھوٹے ترین ذرے سے لے کر بڑے ترین ستارے تک جن موجودات کو ہم محسوس کرتے ہیں اور اپنے قاعدے میں لاتے ہیں وہ محدود ہیں‘ یعنی وہ ایک خاص زمان و مکان کے حامل ہوتے ہیں اور زمان و مکان کی اس خاص حد سے باہر نہیں ہوتے‘ بعض موجودات زیادہ بڑے مکان اور زیادہ طویل زمانے پر مشتمل ہوتے ہیں اور بعض نہایت چھوٹے زمان و مکان پر مشتمل ہوتے ہیں لیکن بہرحال سب ہی زمان و مکان کے ایک خاص حلقے میں محدود ہوتے ہیں۔
۲۔ تغیر و تبدل
تمام موجودات عالم متغیر اور ناپائیدار ہیں۔ محسوس دنیا میں کوئی بھی موجود ایک حالت میں باقی نہیں رہتا یا تو اس میں رشد و تکامل ہوتا ہے یا اسے فرسودگی و انحطاط کی منزل سے گزرنا پڑتا ہے۔ ایک محسوس اور مادی وجود اپنی پوری زندگی میں خود حقیقت و واقعیت کے اندر مسلسل تبادلے کے عمل سے گزرتا ہے‘ یا تو وہ کوئی چیز حاصل کرتا ہے یا کسی کو دیتا ہے اور یا پھر حاصل بھی کرتا ہے اور دیتا بھی ہے یعنی یا تو وہ دوسری اشیاء کی حقیقت سے کچھ لے کر اپنی حقیقت کا جزو قرار دے سکتا ہے یا پھر اپنی حقیقت سے کچھ کسی اور کے حوالے کر دتیا ہے یا پھر دونوں کام انجام دیتا ہے۔ بہرحال کوئی بھی مادی مخلوق ثابت اور ایک ہی حالت میں باقی نہیں رہ سکتی اور یہ خاصیت کائنات کے تمام موجودات میں پائی جاتی ہے۔
۳۔ وابستگی
موجودات عالم کی ایک اور خصوصیت ان کی وابستگی اور محتاجی ہے۔ وجود کسی ایک یا کئی چیزوں کے ساتھ مشروط اور وابستہ ہوتا ہے اس طرح کہ اگر دوسری موجودات نہ ہوں تو یہ موجود بھی باقی نہیں رہ سکتا۔ جب بھی ہم ان موجودات کی اصل حقیقت پر غور کرتے ہیں تو انہیں کسی ایک شرط یا بہت سی شرائط کے ساتھ ملا ہوا دیکھتے ہیں لیکن ان محسوسات کے درمیان ہمیں ایسا کوئی موجود نظر نہیں آتا جو غیر مشروط اور مطلق (یعنی وہ دوسری موجودات کی قید سے اس طرح آزاد ہو کہ اس کے لئے ان کا ہونا یا نہ ہونا برابر ہو) طور پر موجود ہو سکتا ہو۔ تمام موجودات مشروط ہیں یعنی ان میں سے ہر ایک کسی دوسرے موجود کے ساتھ مشروط ہے اور دوسرا وجود بھی اپنے مقام پر ایک اور وجود کے ساتھ مشروط ہوتا ہے‘ اسی طرح یہ سلسلہ قائم رہتا ہے۔
۴۔ محتاجی
جن موجودات کو ہم محسوس کرتے ہیں اور اپنے مشاہدے میں لاتے ہیں‘ وہ اپنی وابستگی اور مشروط ہونے کی بناء پر محتاج ہیں‘ محتاج ہونے سے کیا مراد ہے؟ یعنی یہ موجودات بے شمار شرائط سے وابستہ ہیں نیز ان میں سے ہر شرط اپنے مقام پر شرائط کے ایک سلسلے کے ساتھ وابستہ ہے۔ تمام وہ موجودات جو محسوس کی جاتی ہیں‘ ان میں سے کوئی ایک بھی اپنی ذات میں آزاد نہیں ہے یعنی اپنے غیر کا محتاج ہے‘ اور اپنے غیر کے معدوم ہو جانے کی صورت میں اپنا وجود برقرار نہیں رکھ سکتا‘ پس تمام موجودات میں نیاز مندی‘ احتیاج اور فقر کا پہلو پایا جاتا ہے۔
۵۔ نسبیت
محسوس اور مشہود موجودات چاہے اپنی اصل ہستی کے اعتبار سے ہوں یا کمالات ہستی کے لحاظ سے‘ نسبی ہیں یعنی اگر مثال کے طور پر انہیں عظمت و بزرگی‘ قوت و توانائی‘ جمال و زیبائی یا قدامت حتیٰ ہستی اور ہونے سے تعبیر کیا جائے تب بھی یہ دوسری اشیاء کے ساتھ موازنہ کے اعتبار سے ہو گا‘ مثلاً اگر ہم کہتے ہیں سورج بڑا ہے‘ اس کی بزرگی تو‘ ہماری زمین اور ہمارے نظام شمسی کے ستاروں کی نسبت سے ہو گی۔ لیکن یہی سورج بعض دوسرے ستاروں کی نسبت چھوٹا ہو گا‘ اگر ہم کہتے ہیں کہ فلاں حیوان بہت طاقت ور ہے تو ایسا انسان کی قوت یا اس سے کمزور تر ہونے کے ساتھ موازنہ کرنے کے اعتبار سے ہو گا۔ اسی طرح کسی چیز کا حسن و جمال‘ علم و دانائی حتیٰ اس کی ہستی اور اس کا ہونا کسی دوسری چیز کی ہستی و ظہور کے اعتبار سے ہے۔ ہر ہستی‘ کمال‘ دانائی‘ حسن و جمال‘ عظمت و طاقت اور جاہ و جلال اپنے سے کم سطح کی نسبت سے ہے لیکن اس سے بالاتر سطح کو بھی فرض کیا جا سکتا ہے اور اس کی نسبت اس سے بھی بالاتر کا فرض ممکن ہے۔ یہ تمام صفات اپنی ضد میں تبدیل ہو جاتی ہیں۔ ہستی‘ ظہور وکمال‘ نقص و دانائی‘ جہل و جمال‘ پستی اور عظمت و جلالت اپنے بالاتر کی نسبت سے کم رنگ اور حقیر ہو جاتی ہے
انسان کی عقلی و فکری قوت حواس کے برخلاف صرف ظواہر پر ہی اکتفا نہیں کرتی‘ یہ ہستی کے باطن تک نفوذ کر جاتی ہے اور یہ فیصلہ سنا دیتی ہے کہ عالم ہستی ان محدود‘ متغیر‘ نسبی‘ مشروط اور محتاج امور تک محدود نہیں رہ سکتا۔
عالم ہستی کے جس ظاہری پہلو کو ہم اپنے ساتھ دیکھتے ہیں‘ اپنی مجموعی حقیقت میں ایستادہ اور ثابت ہے اور اپنی ذات میں مستقل ہے اس بناء پر لامحالہ ایک ایسی لامحدود‘ پائیدار‘ مطلق‘ غیر مشروط اور بے نیاز ذات موجود ہے‘ جو ہر زمانے اور ہر مکان میں موجود ہے اور جس پر تمام مخلوقات اور موجودات کا دار و مدار ہے وگرنہ عالم ہستی کا ظاہر قائم نہیں رہ سکتا تھا یعنی بنیادی طور پر عالم ہستی کا ظاہری پہلو موجود ہی نہ ہوتا بلکہ عدم اور ہستی محض ہوتا۔
قرآن کریم نے اللہ تعالیٰ کو ”قیوم“، ”غنی اور صمد“ جیسی صفات سے یاد کیا ہے اور انہی صفات کی بنیاد پر اس بات کی طرف متوجہ کرتا ہے کہ عالم ہستی کا ظاہری رخ ایک ایسی حقیقت کا محتاج ہے جس پر یہ قائم ہے‘ وہ حقیقت تمام محدود‘ نسبی اور مشروط چیزوں کا سہارا اور انہیں باقی رکھنے والی ہے۔ وہ بے نیاز ہے کیوں کہ ہر دوسری چیز نیازمند اور محتاج ہے۔ وہ ”بھرپور“ اور کامل (لامحدود) ہے کیوں کہ اس کے علاوہ ہر دوسری چیز اندر سے خالی اور ایسی حقیقت کی محتاج ہے جو اس کے خلاء کو ہستی سے پر کر دے۔
قرآن محسوس اور مشہود موجودات کو آیات (نشانیوں) سے تعبیر کرتا ہے یعنی ہر وجود اپنے مقام پر لامحدود ہستی اور اللہ کی مشیت‘ حیات اور علم و قدرت کی نشانی ہے۔ قرآن کی نظر میں پورا عالم طبیعت ایسی کتاب کی مانند ہے جسے ایک دانا و حکیم نے تحریر کیا ہے اور اس کی ہر سطر بلکہ اس کا ہر کلمہ اپنے منصنف کی بے انتہا حکمت و دانائی کی علامت ہے۔ قرآن کی نظر میں انسان جس قدر عملی صلاحیت اور اشیاء کی معرفت حاصل کرتا ہے اتنا ہی پہلے سے زیادہ اللہ کی رحمت و عنایت اور حکمت و قدرت کے آثار سے واقف ہوتا ہے۔
علوم طبیعت میں سے ہر علم جہاں ایک اعتبار سے طبیعت کی معرفت ہے وہاں ایک اور اعتبار اور زیادہ گہری نگاہ سے معرفت الٰہی ہے۔
اسی مقام پر اللہ کی معرفت کے حصول کی غرض سے نمونے کے طور پر اس کے حوالے سے قرآن کی بہت سی آیات میں سے ایک آیت پیش کی جا رہی ہے:
ان فی خلق السموات والارض و اختلاف اللیل و النھار و الفلک التی تجری فی البحر بما ینفع الناس و ما انزل اللّٰہ من السماء من ماء فاحیا بہ الارض بعد موتھا و بث فیھا من کل دابة و تصریف الریاح و السحاب المسخربین السماء والارض لایات لقوم یعقلون (سورئہ بقرہ‘ آیت ۱۶۴)
”بے شک آسمان و زمین کی پیدائش اور رات دن کے ادل بدل میں اور کشتیوں (جہازوں) کے لوگوں کو نفع کی چیزیں دریا میں لے چلنے میں اور پانی میں جو خدا نے آسمان سے برسایا پھر اس سے زمین کو مردہ ہونے کے بعد جلا دیا اور اس میں ہر طرح کے جانور پھیلا دیئے اور ہواؤں کے چلانے میں اور بادل کہ جسے آسمان اور زمین کے مابین کام میں لگا رکھا ہے‘ ان سب میں غور و فکر کرنے والوں کے لئے وجود خدا پر نشانیاں ہیں۔“
اس آیت شریفہ میں عمومی طور پر معرفت کائنات کے حصول مثلاً جہاز رانی کی صنعت‘ دنیا کی سیر و سیاحت اور اس کے معاشی فوائد‘ بادلوں کی حرکت‘ ہوا اور بارش کے بنیادی اسباب‘ علم حیاتیات اور جانداروں کی معرفت حاصل کرنے کی طرف دعوت دی گئی ہے اور ان علوم کے فلسفے پر غور و تدبیر کو معرفت الٰہی کا سبب قرار دیا ہے۔
 

صرف علی

محفلین
صفات خدا
قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے کہ خداوند تعالیٰ تمام صفات کمال کے ساتھ متصف ہے:
لہ الاسماء الحسنی (سورئہ حشر‘ آیت ۲۴)
اس کے لئے بہترین نام اور اعلیٰ ترین اوصاف ہیں۔
ولہ المثل الا علی فی السموات والارض (سورئہ روم‘ آیت ۲۷)
پورے عالم ہستی میں اعلیٰ صفات اسی سے مختص ہیں۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ حیی اور زندہ‘ قادر‘ علیم‘ مرید‘ رحیم‘ ہادی‘ خالق‘ حکیم‘ غفور اور عادل ہے۔ مختصر یہ کہ کوئی بھی ایسی صفت کمال نہیں ہے جو اس میں نہ ہو‘ دوسری طرف وہ جسم‘ مرکب‘ مرنے والا‘ عاجز‘ مجبور اور ظالم بھی نہیں ہے۔
پہلی قسم کی صفات جنہیں صفات کمال کہا جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ ان سے متصف ہے‘ کو صفات ثبوتیہ سے تعبیر کیا جاتا ہے جب کہ دوسری قسم کی صفات جو کمی اور نقص کا نتیجہ ہیں اور اللہ تعالیٰ ان سے منزہ ہے‘ کو صفات سلبیہ کہا جاتا ہے۔
ہم خدا کی ثناء بھی کرتے ہیں اور تسبیح بھی۔ جب ہم اس کی ثناء و تعریف کرتے ہیں تو اسے اسماء حسنی اور صفات کمالیہ سے یاد کرتے ہیں لیکن جب ہم اس کی تسبیح کرتے ہیں تو اسے ان تمام چیزوں سے مبرا اور منزہ گردانتے ہیں جو اس کے لائق نہیں ہیں۔ اس طرح دونوں صورتوں میں اپنے لئے اس کی معرفت ثابت کرتے ہیں اور یوں اپنے آپ کو بلندی کی طرف لے جاتے ہیں۔
وحدانیت خدا
خداوند تعالیٰ کا کوئی مثل و مانند اور شریک نہیں بلکہ بنیادی طور پر ایسا ہونا محال ہے کہ جس کے نتیجے میں ایک خدا کی جگہ دو یا دو سے زیادہ خدا ہو جائیں کیوں کہ کسی چیز کا دو‘ تین یا زیادہ ہونا محدود اور نسبی موجودات کے خواص میں سے ہے جب کہ لامحدود اور مطلق وجود کے لئے تعدد و کثرت کا کوئی مفہوم نہیں ہوتا مثلاًہماری ایک اولاد بھی ہو سکتی ہے اور دو سے زیادہ بھی‘ اسی طرح ہمارا ایک دوست یا دو اور دو سے زیادہ دوست بھی ہو سکتے ہیں‘ کیوں کہ اولاد یا دوست میں سے ہر ایک محدود مخلوق ہے اور ایک محدود مخلوق اپنے مقام پر مثل و نظیر رکھ سکتی ہے اور اسی کے نتیجے میں وہ تعدد اور کثرت کو قبول کر لیتی ہے لیکن لامحدود وجود قابل کثرت نہیں ہوتا۔ ذیل میں دی جانے والی مثال اگرچہ ایک اعتبار سے کافی نہیں‘ لیکن اس مطلب کو واضح کرنے کے لئے مفید ہے۔
محسوس اور مادی کائنات کی مختلف جہات کے بارے میں یعنی اجسام کی دنیا کے بارے میں حکماء اور سائنس دانوں نے دو قسم کا نظریہ پیش کیا ہے۔ بعض کا یہ دعویٰ ہے کہ کائنات کی اطراف اور جہات محدود ہیں یعنی یہ محسوس اور مادی دنیا ایک خاص مقام پر جا کر ختم ہو جاتی ہے لیکن بعض کا یہ دعوٰی ہے کہ مادی کائنات لامحدود ہے اور کسی جہت سے بھی محدود نہیں ہے۔ مادی کائنات کا کوئی اول و آخر اور وسط نہیں ہے۔ اگر ہم مادی و جسمانی کائنات کو محدود سمجھتے ہیں تو ہمیں ایک سوال کا جواب دینا پڑے گا اور وہ یہ کہ آیا مادی و جسمانی کائنات ایک ہے یا ایک سے زیادہ؟ لیکن اگر کائنات لامحدود ہو تو پھر اس کائنات کے علاوہ ایک اور جسمانی کائنات کا فرض کرنا معقول ہو گا کیوں کہ ایسی صورت میں جس کائنات کا بھی تصور کریں گے تو یا وہ بعینہ کائنات ہو گی یا اس کی ایک یہ مثال اجسام کی دنیا اور ایسے جسمانی موجودات سے مربوط ہے جو محدود و مشروط خلق کئے گئے ہیں اور کوئی بھی حقیقت مطلق‘ مستقل اور قائم بالذات نہیں اور اپنی حقیقت کے اعتبار سے محدود ہیں اور چونکہ اس فرض کی بناء پر کہ کائنات کے اطراف اور جہات لامحدود ہیں لہٰذا اس جیسی کسی دوسری کائنات کا فرض نہیں کیا جا سکتا۔
اللہ تعالیٰ کا وجود لامحدود اور واقعیت مطلق ہے اور ہر مسئلے پر محیط ہے اور کوئی زمان و مکان اس سے خالی نہیں‘ ہم سے ہماری شہ رگ سے بھی زیادہ نزدیک ہے پس اس کے لئے نظیر و مثل کا ہونا محال ہے‘ اس جیسے مثل و نظیر کا فرض بھی نہیں کیا جا سکتا۔
اس کے علاوہ ہم اس کی عنایت و تدبیر اور حکمت کے آثار تمام موجودات میں دیکھتے ہیں اور پوری کائنات میں ایک ہی ارادے‘ مشیت اور نظم کا ادراک کرتے ہیں اور یہ بجائے خود اس بات کا ثبوت ہے کہ ہماری کائنات کا ایک ہی مرکز و محور ہے نہ کہ دو یا کئی مراکز۔
اس کے علاوہ اگر کائنات میں ایک سے زیادہ خدا ہوں تو لازمی طور پر دو یا دو سے زیادہ ارادوں اورمشیتوں کا عمل دخل ہوتا‘ اور تمام مشیتیں ایک ہی نسبت سے چیزوں میں موثر ہوتیں اور جو چیزیں بھی وجود میں آنا چاہتیں‘ انہیں آن واحد میں دو وجود کا حاصل ہونا چاہئے تھا تاکہ ہر ایک اپنے منبع سے منتسب ہو سکے اور نتیجتاً کوئی بھی شے وجود میں نہ آ سکتی اور کائنات معدوم ہی رہتی۔ قرآن کریم نے اسی مطلب کی اشارہ کیا ہے:
لو کان فیھا الھا الا اللّٰہ لفسدتا
”اگر ذات احدیت کے سوا متعدد خدا ہوتے تو آسمان و زمین تباہ ہو چکے ہوتے۔“(سورئہ انبیاء‘ آیت ۲۲)
عبادت و پرستش
ایک کامل ترین ذات اور صفات نیز ہر قسم کے نقص و عیب سے منزہ ہونے کے عنوان سے خدائے واحد کی معرفت‘ اسی طرح کائنات کے ساتھ اس کے رابطے کی معرفت جو نگہداشت‘ جود و سخا‘ عطوفت اور رحمانیت سے عبارت ہے‘ ہمارے اندر ایسے ردعمل کو جنم دیتی ہے جسے ہم پرستش اور عبادت سے تعبیر کرتے ہیں۔
پرستش ایک طرح کے ایسے خاضعانہ‘ حامدانہ اور شاکرانہ رابطے کا نام ہے جو انسان اپنے خدا سے برقرار کرتا ہے۔ اس قسم کا رابطہ انسان صرف اپنے خدا سے برقرار کر سکتا ہے اور صرف خدا ہی کے بارے میں صادق آتا ہے جب کہ غیر خدا کے بارے میں نہ تو صادق ہے اور نہ ہی جائز۔ ایک تنہا مبدائے ہستی اور ہر چیز کے یکتا و واحد مالک اور خدا کے عنوان سے اللہ کی معرفت کا تقاضا یہ ہے کہ کسی مخلوق کو بھی مقام عبادت میں اس کی شریک نہ ٹھہرائیں۔ قرآن کریم کا اس چیز پر بہت زیادہ اصرار اور زور ہے کہ عبادت و پرستش کو اللہ ہی کے لئے مخصوص ہونا چاہئے اور خدا کے شریک ٹھہرانے سے بڑھ کر کوئی گناہ نہیں ہے۔
اب ہم دیکھتے ہیں کہ جو عبادت یا پرستش خدا کے لئے مخصوص ہے اور انسان کو خدا کے سوا کسی بھی دوسرے وجود سے اس قسم کا رابطہ برقرار نہیں کرنا چاہئے‘ اس سے کیا مراد ہے اور یہ رابطہ کس نوعیت کا ہے؟
عبادت کی تعریف
عبادت کے معنی و مفہوم کو جاننے کے لئے اور اس کی صحیح تعریف تک پہنچنے کے لئے دو مقدموں کا تذکرہ ضروری ہے:
۱۔ عبادت کا تعلق یا قول سے ہوتا ہے یا عمل سے:
قولی پرستش ان جملوں اور افکار سے عبارت ہوتی ہے جنہیں ہم زبان سے ادا کرتے ہیں مثلاً حمد و سورة کی قرات اور وہ ذکر جو نماز کے دوران تشہد اور رکوع و سجود میں پڑھے جاتے ہیں‘ اسی طرح ذکر لبیک جسے حج میں پڑھا جاتا ہے۔ عملی پرستش جیسے نماز میں رکوع یا سجود یا حج میں وقوف عرفات و مشعر اور طواف۔ عام طور سے عبادات قولی و عملی دونوں اجزا پر مشتمل ہوتی ہیں جیسے نماز اور حج قولی اور عملی دونوں اجزاء پر مشتمل ہوتے ہیں۔
۲۔ انسانی اعمال دو طرح کے ہوتے ہیں:
بعض اعمال نہ صرف یہ کہ کسی خاص مقصد کے بغیر اور کسی دوسری چیز کی علامت کے طور پر انجام دیئے جاتے ہیں بلکہ صرف اپنے سکونی اور طبیعی اثر کی خاطر انجام دیئے جاتے ہیں مثلاً ایک کسان صرف اس لئے کھیتی باڑی سے مربوط بعض کام انجام دیتا ہے کہ اس کے ذریعے ان کے طبیعی نتیجے تک پہنچ سکے۔
ایک کسان کھیتی باڑی سے مربوط کاموں کو بعض مقاصد اور جذبات و احساسات کو بیان کرنے کے عنوان سے انجام دیتا ہے۔ اسی طرح ایک درزی بھی سلائی سے مربوط بعض کام انجام دیتا ہے۔ جب ہم اپنے گھر سے سکول کی جانب جاتے ہیں اور ہماری نگاہ میں سکول پہنچنے کے سوا کوئی اور مقصد نہیں ہوتا تو ہم اپنے اس فعل کے ذریعے کسی اور مقصد کو بیان کرنا نہیں چاہتے۔ لیکن ہم کچھ کام بعض مقاصد کی علامت کے عنوان سے اور اپنے خاص احساسات کے اظہار کی خاطر انجام دیتے ہیں مثلاً کسی چیز کی تصدیق کرنے کے لئے اپنا سر جھکا دیتے ہیں یا خضوع و خشوع کے کے اظہار کی خاطر گھر کی دہلیز پر بیٹھ جاتے ہیں اور کسی دوسرے شخص کی تعظیم و تکریم کی خاطر جھک جاتے ہیں۔
انسان کے زیادہ تر کام پہلی نوعیت کے ہوتے ہیں جبکہ بہت کم کام دوسری قسم کے ہوتے ہیں لیکن بہرحال انسان کے بعض کام کسی مقصد یا جذبے کے اظہار کی خاطر ہوتے ہیں۔ اس قسم کے کام معاشرے میں رائج ان کے کلمات‘ الفاظ اور لغات کی مانند ہوتے ہیں جنہیں کسی خاص مقصد یا نیت کے اظہار کی خاطر استعمال کیا جاتا ہے۔
ان دو مقدموں کو جان لینے کے بعد اب ہم اس بات کی طرف آتے ہیں کہ عبادت چاہے قولی ہو یا عملی‘ بامعنی اور بامقصد ہوتی ہے۔ انسان اپنے عابدانہ جملوں کے ساتھ حقیقت بلکہ حقائق کا اظہار کرتا ہے اور اپنے عابدانہ اعمال مثلاً رکوع و سجود‘ وقوف و طواف اور امساک کے ذریعے وہی کچھ کہنا چاہتا ہے جو وہ اپنے افکار کے ذریعے کہنا چاہتا ہے۔
روح عبادت و پرستش
انسان اپنی قولی و عملی عبادت سے جس چیز کا اظہار کرتا ہے اسے ذیل میں یوں بیان کیا جا سکتا ہے:
۱۔ اللہ کے ان اوصاف و صفات سے ثنا و تعریف جو خود اس کے ساتھ مخصوص ہیں‘ یعنی ایسے اوصاف جن کا مفہوم کمال مطلق ہے‘ مثلاً علم مطلق‘ قدرت مطلق‘ ارادہ مطلق اور کمال مطلق‘ علم مطلق اور قدرت و ارادہ مطلق سے مراد یہ ہے کہ وہ کسی چیز کے ساتھ محدود اور مشروط نہیں ہے اور اسی چیز کا لازمی نتیجہ اللہ کی بے نیازی ہے۔
۲۔ ہر قسم کے نقص و عیب سے اللہ کی تنزیہ و تسبیح مثلاً فنا‘ محدودیت‘ نادانی‘ ناتوانی‘ بخل‘ ظلم و ستم وغیرہ سے مبرہ و منزہ قرار دینا۔
۳۔ ہر خیر و نعت کا اصل سرچشمہ ہونے کے عنوان سے اور اس اعتبار سے اللہ کا شکر ادا کرنا کہ ہمارے پاس موجود تمام نعمتیں اسی کی عطا کردہ ہیں اور اس کے سوا دوسری ہر چیز اسی کی جانب سے وسیلہ ہے۔
۴۔ اللہ کے سامنے اطاعت محض اور تسلیم محض کا اظہار اور اس چیز کا اقرار کہ وہ غیر مشروط طور پر قابل اطاعت اور مستحق اطاعت و تسلیم ہے اور ہم چونکہ اسی کے بندے ہیں لہٰذا اس کے سامنے جھکنے اور اس کی اطاعت کے اہل ہیں۔
۵۔ مذکورہ بالا کسی مسئلے میں بھی اس کا کوئی شریک نہیں ہے۔ اس کے سوا کوئی کامل مطلق نہیں ہے۔ اس کے سوا کوئی ذات نقص و عیب سے منزہ نہیں ہے اس کے سوا کوئی ایسی ذات نہیں ہے جو اصل منعم ہو‘ وہ تمام نعمتوں کا اصل سرچشمہ ہے اور تمام تعریفیں اسی کی طرف لوٹتی ہیں۔ اس کے سوا کوئی بھی ذات نہیں جو اطاعت محض اور تسلیم محض کے لائق ہو۔ اطاعت چاہے کسی بھی نوعیت کی ہو مثلاً پیغمبر‘ امام‘ اسلامی اور شرعی حاکم کی اطاعت نیز ماں باپ یا استاد کی اطاعت اگر اس کی رضا کی طرف لوٹتی نہ ہو‘ تو وہ جائز نہیں ہو گی۔ یہی وہ ردعمل ہے جس کا خدائے عظیم کے سامنے ایک بندہ مستحق ہے اور خدائے واحد کے سوا کسی بھی دوسرے وجود کے سامنے بندے کے لئے نہ تو اس قسم کا استحقاق صادق ہے اور نہ ہی جائز۔
 

صرف علی

محفلین
توحید کے درجات اور مراتب
توحید کے کچھ درجات اور مراتب ہیں جیسا کہ توحید کے مقابلے میں شرک کے بھی درجات اور مراتب ہیں۔ جب تک کوئی توحید کے ان مراحل و مراتب کو طے نہیں کر لیتا وہ حقیقی معنوں میں موحد نہیں ہو سکتا۔
۱۔ توحید ذاتی
توحید ذاتی سے مراد ذات حق تعالیٰ کی وحدانیت و یگانگت کی معرفت ہے۔ جو کوئی ذات حق تعالیٰ کے بارے میں پہلی معرفت حاصل کرتا ہے وہ اس کی بے نیازی ہے یعنی ایک ایسی ذات جو کسی جہت سے بھی کسی وجود کی محتاج نہیں ہے اور قرآن کی اصطلاح میں ”غنی“ ہے جب کہ ہر چیز اسی کی محتاج ہے اور اسی سے مدد لیتی ہے جب کہ وہ سب سے غنی ہے:
یا یھا الناس انتم الفقراء الی اللّٰہ و اللّٰہ ھوالغنی الحمید (سورۃ فاطر‘ آیت: ۱۵)
اور حکماء کی اصطلاح میں واجب الوجود ہے۔
اسی طرح اس کی ایک اور صفت ا”اولیت“ یعنی مبدایت و مشائیت اور خالقیت ہے وہ دوسرے موجودات کا خالق و مبداء ہے۔ تمام موجودات اسی سے ہیں جب کہ وہ خود کسی چیز سے نہیں ہے اور حکماء کی اصطلاح میں ”علت اولیٰ“ ہے۔
یہی وہ پہلی معرفت اور تصور ہے جو ہر شخص اللہ کے بارے میں رکھتا ہے۔ یعنی جو بھی اللہ کے بارے میں سوچتا ہے اور اس کے اثبات یا نفی اور تصدیق یا انکار کی کوشش کرتا ہے اس کے ذہن میں یہی معنی و مفہوم آتا ہے کہ کیا کوئی ایسی حقیقت موجود ہے جو کسی اور حقیقت سے وابستہ نہ ہو۔ بلکہ تمام حقیقتیں اسی سے وابستہ ہیں‘ اسی کے ارادے سے وجود میں آئی ہوں جبکہ وہ خود کسی اور اصل سے وجود میں نہ آیا ہو؟ توحید ذاتی سے مراد یہ ہے کہ حقیقت دوئی کی حامل اور قابل کثرت نہیں ہے اور نہ ہی اس کی کوئی مثل و نظیر ہے:
لیس کمثلہ شئی (شوریٰ‘ آیت ۱۱)
اسی طرح اس کی برابری کا کوئی اور وجود نہیں ہے:
ولم یکن لہ کفوا احد (اخلاص‘ آیت ۴)
کسی موجود کا ایک نوع کا فرد ہونا مثلاً حسن کا نوع انسان کا فرد ہونا (اور لامحالہ ایسی صورت میں انسان کے لئے دوسرے افراد بھی قابل فرض ہیں) مخلوقات و ممکنات کے ساتھ مخصوص ہے جب کہ ذات واجب الوجود اس معنی سے مبرا و منزہ ہے اور چونکہ ذات واجب الوجود واحد و یکتا ہے لہٰذا کائنات بھی مبداء و منشاء اور مرجع و منتہی کے اعتبار سے واحد و یکتا ہے۔
کائنات نہ تو متعدد سرچشموں سے وجود میں آئی ہے اور نہ ہی اسے متعدد سرچشموں کی طرف لوٹ کر جانا ہے بلکہ کائنات ایک ہی سرچشمے اور حقیقت سے وجود میں آئی ہے:
قل اللّٰہ خالق کل شئی (رعد‘ آیت ۱۶)
اور اسی سرچشمے اور حقیقت کی طرف لوٹ جائے گی۔
الا الی اللّٰہ تصیرالامور (شوریٰ‘ آیت ۵۳)
دوسرے الفاظ میں عالم ہستی ایک ہی قطب اور مرکز و محور کی حامل ہے۔
اللہ اور کائنات کے درمیان رابطہ‘ مخلوق کے ساتھ خالق کے رابطے یعنی معلول کے ساتھ علت (علت ایجادی) کے رابطے کی مانند ہے‘ نہ کہ چراغ کے ساتھ روشنی یا انسان کے ساتھ انسانی شعور کے رابطے کی مانند۔ یہ بات بجائے خود درست ہے کہ خدا کائنات سے جدا نہیں ہے۔ وہ تمام اشیاء کے ساتھ ہے جب کہ اشیاء اس کے ساتھ نہیں ہیں۔
ھو معکم اینما کنتم
(لیس عن الاشیاء ولافیھا ‘نہج البلاغہ)
لیکن کائنات سے اللہ کے جدا نہ ہونے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ پس خدا کائنات کے لئے چراغ کے لئے روشنی اور جسم انسانی کے لئے شعور کی مانند ہے ایسی صورت میں کائنات خدا کے لئے علت ہو گی نہ کہ خدا کائنات کے لئے علت کیوں کہ چراغ روشنی کے لئے علت ہے نہ کہ روشنی چراغ کے لئے علت‘ اسی طرح کائنات اور انسان سے خدا کے جدا نہ ہونے کا مطلب یہ بھی نہیں ہے کہ خدا‘ کائنات اور انسان سب ایک ہی جہت رکھتے ہیں اور سب ایک ارادے اور روح سے حرکت کرتے اور حیات رکھتے ہیں۔ یہ سب مخلوق و ممکن کی صفات ہیں جبکہ خداوند تعالیٰ مخلوقات کی صفات سے منزہ ہے۔
سبحان ربک رب العزۃ عما یصفون
(سورئہ حدید‘ آیت ۴)
۲۔ توحید صفاتی
توحید صفاتی سے مراد ذات حق تعالیٰ کی صفات کے ساتھ عینی وحدانیت اور ان صفات کی ایک دوسرے سے یگانگت کی معرفت و ادراک ہے۔ توحید ذاتی‘ ثانی اور مثل و نظیر کی نفی کرنا ہے جبکہ توحید صفاتی خود ذات سے ہر قسم کی ترکیب کی نفی کرنا ہے اگرچہ ذات خداوند تعالیٰ اوصاف کمالیہ جمال و جلال سے متصف ہے لیکن مختلف عینی جہات کی حامل نہیں ہے ذات کا صفات کے ساتھ اختلاف اور صفات کا ایک دوسرے کے ساتھ اختلاف کسی وجود کے محدود ہونے کا لازمہ ہے‘ لیکن کسی اور لامتناہی وجود کے لئے کوئی دوسرا قابل تصور نہیں ہے۔ اسی طرح ذات و صفات کے اختلاف اور کثرت و ترکیب کا بھی کوئی تصور نہیں‘ توحید ذاتی کی مانند توحید صفاتی بھی اسلامی معارف کے اصولوں اور انسان کے عالی ترین اور بالا ترین افکار میں سے ہے جو خاص کر مکتب تشیع میں جلوہ گر ہوئی ہے۔ یہاں پر ہم صرف نہج البلاغہ کے پہلے خطبے کو درج کرتے ہیں:
الحمدللّٰہ الذی لایبلغ مدحة القائلون ولا یحصی نعماء ہ العادون‘ ولا یودی حقہ المجتھدون‘ الذی لایدرک بعدالھمم ولا ینالہ غوص الفطن‘ الذی لیس لصفة حد محدود و لانعت موجود
تعریف اس خدا کی جس تک تعریف کرنے والوں کی تعریف نہیں پہنچ سکتی اور نہ شمار کرنے والے اس کی نعمتوں کو شمار کر سکتے ہیں اور نہ ہی کوشش کرنے والے اس کی بندگی کا حق ادا کر سکتے ہیں اور نہ ہی اس کی کہنہ ذات تک بلند پرواز ہمتیں پہنچ سکتی ہیں‘ نہ عقل و فہم کی گہرائیاں اس کی تہہ تک پہنچ سکتی ہیں۔ اس کی صفت کی کوئی حد انتہا نہیں نہ اس کے لئے توصیفی الفاظ ہیں___
ان جملات میں اللہ کی لامحدود صفات کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ اس کے بعد چند ہی جملوں کے بعد ارشاد ہوتا ہے:
کمال الاخلاص لہ نفی الصفات عنہ لشھادۃ کل موصوف انہ غیر الصفۃ و شھادۃ کل صفۃ انھا غیر الموصوف فمن وصف اللّٰہ سبحانہ فقد قرنہ و من قرنہ___
کمال اخلاص یہ ہے کہ اس سے صفتوں کی نفی کی جائے کیوں کہ ہر صفت شاہد ہے کہ وہ اپنے موصوف کی غیر ہے اور ہر موصوف شاہد ہے کہ وہ صفت کے علاوہ کوئی چیز ہے لہٰذا جس نے ذات الٰہی کے علاوہ صفات مانیں اس نے ذات کا ایک دوسرا ساتھی مان لیا اور جس نے اس کی ذات کا کوئی اور ساتھی مانا‘ اس نے ان جملوں میں اللہ کے لئے صفت کو ثابت بھی کیا ہے:
الذی لیس لصفۃ حد محدود
وہ ہستی جس کی صفات کی کوئی محدود حد نہیں اور صفات کی نفی بھی کی گئی ہے (لشھادة کل صفة انھا___) ان الفاظ سے یہ بھی معلوم ہو جاتا ہے کہ اللہ سے جو صفت منسوب کی گئی ہے وہ ذات کی طرح لامحدود ہے اور عین ذات ہے اور جس صفت سے اللہ کی ذات مبرا و منزہ ہے‘ وہ محدود ہے اور غیر ذات کے ساتھ ساتھ دوسری صفت کا بھی غیر ہے۔ پس توحید صفاتی سے مراد ذات اور صفات حق کی وحدت و یگانگت کی معرفت ہے۔
۳۔ توحید افعالی
توحیدا فعالی سے مراد اس چیز کی معرفت اور ادراک ہے کہ کائنات اپنے تمام تر نظاموں‘ روایات‘ عقل و اسباب اور معلومات و مسببات کے باوجود اسی کا فعل اور اسی کے ارادے کا نتیجہ ہے جس طرح موجودات عالم اپنی ذات میں مستقل نہیں ہیں اور سب اسی کے ذریعے قائم اور اسی سے وابستہ ہیں اور وہ قرآن کی اصطلاح میں پوری کائنات کے لئے ”قیوم“ ہے اسی طرح تاثیر اور علت کے اعتبار سے بھی مستقل نہیں ہے لہٰذا خداوند تعالیٰ کا جس طرح اپنی ذات کے لحاظ سے کوئی شریک نہیں ہے اسی طرح اپنی فاعلیت کے اعتبار سے بھی شریک نہیں ہے۔ ہر فاعل اور سبب کی حقیقت تاثیر اور فاعلیت نیز اس کا وجود اسی سے ہے اور اسی پر قائم ہے۔ ہر حالت اور قوت اسی پر قائم ہے:
ماشاء اللّٰہ ولاقوۃ الابہ‘ لاحول ولاقوۃ الا باللّٰہ
انسان جو موجودات میں سے ایک ہے اور خدا کی مخلوق ہے‘ تمام مخلوقات کی طرح اپنے کام کی علت اور اس میں موثر ہے اور اس سے بالاتر یہ کہ اپنی تقدیر میں بھی موثر ہے لیکن کسی طور پر بھی کوئی موجود بھی مفوض نہیں یعنی کوئی ایسا موجود نہیں‘ جسے سب کچھ تفویض کر دیا گیا ہو۔
بحول اللّٰہ وقوتہ اقوم واقعد
”اللہ کے حول و قوت سے میں کھڑا ہوتا ہوں اور بیٹھتا ہوں۔“
ایک وجود کو تمام اختیارات سونپ دینا (چاہے وہ انسان ہو یا غیر انسان) فاعلیت اور استقلال کے اعتبار سے خدا کے ساتھ اس وجود کو شریک ٹھہرانے کے مترادف ہونے کے ساتھ ساتھ ذات میں استقلال کو بھی لازم گردانتا ہے جو توحید ذاتی کے بھی منافی ہے‘ چہ جائیکہ توحید افعالی کے منافی ہو‘ ایک دعا کے الفاظ یوں ہیں:
الحمدللّٰہ الذی لم یتخذ صاحبا ولا ولد اولم یکن لہ شریک فی الملک ولم یکن لہ ولی من الذل و کبرہ تکبیراً (مفاتیح الجنان‘ دعای افتتاح)
حمد اس خدا کی جس نے ہمسر اور اولاد نہیں اپنائی اور کائنات پر حکومت کرنے میں اس کے ساتھ کوئی شریک نہیں ہے اسی طرح کائنات کا نظام سنبھالنے کے اعتبار سے ناتوانی کی بناء پر کوئی اس کا مددگار بھی نہیں ہے اسے اس طرح بزرگ و برتر جانو جس طرح اس کی ذات پاک کے لائق ہو۔
 

صرف علی

محفلین
۴۔ توحید در عبادت
مذکورہ بالا تینوں مراتب کا تعلق توحید نظری اور ایک طرح کی معرفت سے ہے‘ لیکن توحید در عبادت‘ توحید عملی اور ”موجود ہونے“ اور ”واقع ہونے“ کی نوع سے ہے۔ توحید کے گذشتہ مراتب حقیقی تفکر و تعقل سے متعلق ہیں جبکہ توحید کا ہر مرحلہ حقیقی معنی میں ”ہونے“ اور ”ہو چکنے“ سے مربوط ہے۔ توحید نظری کمال کے بارے میں بصیرت ہے اور توحید عملی کمال تک پہنچنے کے لئے حرکت کرنے کا نام ہے۔ توحید نظری‘ وحدانیت خدا تک پہنچ جانے کا نام ہے جب کہ توحید عملی انسان کا ممتاز ہو جانا ہے توحید نظری ”دیکھنا“ ہے جب کہ توحید عملی ”راستے پر چلنا“ ہے۔
توحید عملی تشریح کرنے سے پہلے توحید نظری کے بارے میں ایک نقطے کا بیان ضروری ہے‘ کیا توحید نظری یعنی ذات خدا کو اس کی وحدانیت‘ ذات و صفات کی یگانگت اور فاعلیت میں وحدانیت کے اعتبار سے پہچاننا ممکن ہے یا غیر ممکن؟ ممکن ہونے کی صورت میں کیا اس قسم کی معرفتیں بشر کی سعادت میں موثر بھی ہیں یا یہ کہ ان کی کوئی ضرورت نہیں ہے بلکہ توحید کے مراتب میں صرف توحید عملی ہی مفید ہے؟
اس قسم کی معرفتوں کے امکان یا عدم امکان کے بارے میں ہم اپنی کتاب ”اصول فلسفہ اور روش ریالیسم“ میں گفتگو کر چکے ہیں لیکن جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ یہ باعث سعادت ہے یا فضول‘ اس کا تعلق انسان اور اس کی سعادت کے بارے میں ہماری طرز معرفت سے ہے‘ انسان اور ہستی کے بارے میں مادی افکار اس چیز کا باعث بن چکی ہیں کہ خدا پر اعتقاد رکھنے والے بھی الٰہی معارف کو بے فائدہ اور بے سود سمجھنے لگے ہیں اور انہیں ایک طرح کی تصوریت پسندی (Idealism) اور حقیقت پسندی (Realism) سے گریز قرار دینے لگے ہیں لیکن ایک ایسا مسلمان جس کی انسان کے بارے میں سوچ یہ ہے کہ انسان کی حقیقت صرف اس کے مادی بدن میں منحصر نہیں ہے بلکہ اس کی اصل حقیقت اور واقعیت اس کی روح ہے (ایسی روح جس کا جو ہر علم و تقدس اور پاکیزگی ہے) وہ اس بات سے بخوبی واقف ہے کہ توحید نظری جہاں توحید عملی کی اصل بنیاد ہے وہاں اپنی ذات میں کمال نفسانی بھی ہے بلکہ عالی ترین کمال نفسانی ہے کیوں کہ توحید نظری انسان کو حقیقی معنوں میں اللہ کی طرف لے جاتی ہے اور اسے کمال عطا کرتی ہے۔
الیہ یصعد الکلم الطیب والعمل الصالح یرفعہ (سورئہ فاطر‘ آیت ۱۰)
”اسی کی بارگاہ میں اچھی باتیں پہنچتی ہیں اور اچھے کام کو وہ خود بلند فرماتا ہے۔“
انسان کی انسانیت معرفت الٰہی کی مرہون منت ہے کیوں کہ انسان کی معرفت انسان سے جدا نہیں ہے بلکہ اس کے وجود کا اصلی ترین اور محترم ترین حصہ ہے انسان جتنی زیادہ ہستی‘ نظام اور مبدائے ہستی کی معرفت پیدا کرے گا انسانیت (کہ جس کا نصف جوہر علم و معرفت ہے) اس میں پیدا ہوتی جائے گی۔
اسلام کی نظر میں خاص کر مذہب شیعہ کے معارف کے اعتبار سے اس بات میں ذرہ برابر بھی شک نہیں ہے کہ ان معارف پر مرتب سماجی اور عملی آثار سے قطع نظر‘ الٰہی معارف کا ادراک بذات خود انسانیت کا ہدف و مقصد ہے۔ (اس تمہید کے بعد) اب ہم توحید عملی کی طرف آتے ہیں۔
توحید عملی یا توحید در عبادت سے مراد ایک خدا کی پرستش ہے۔ دوسرے الفاظ میں حق تعالیٰ کی پرستش کی راہ میں منفرد اور ممتاز ہونا اور بعد میں ہم اس بات پر روشنی ڈالیں گے کہ اسلام کی نظر میں عبادت کے کئی مراتب اور درجات ہیں اور عبادت کے روشن ترین مراتب تقدس و تنزیہ پر مشتمل ایسے اعمال بجا لانا ہے کہ اگر انہیں غیر خدا کے لئے انجام دیا جائے تو اسے بجا لانے والا مکمل طور پر اہل توحید کی صف اور دائرئہ اسلام سے خارج ہو جائے گا‘ لیکن اسلام کی نظر میں عبادت و پرستش صرف اسی مرتبے پر منحصر نہیں ہے بلکہ کسی بھی قسم کی جہت کے انتخاب آئیڈیل اپنانے اور اپنا روحانی قبلہ قرار دینے سے عبارت ہے۔ جو شخص اپنی حیوانی خواہشات کو اپنی راہ تصور اور روحانی قبلہ قرار دیتا ہے وہ بھی پرستش کرتا ہے۔
افرأیت من اتخذ الٰھہ ھواہ
”کیا تم نے ایسے شخص کو دیکھا ہے جس نے اپنی ہوائے نفس کو اپنا خدا اور معبود قرار دے رکھا ہے؟“(سورئہ فرقان‘ آیت ۴۳)
جو شخض کسی ایسے فرد کے امر اور فرمان کی اطاعت کرتا ہے جس کی اطاعت کا اللہ نے حکم نہیں دیا ہے اور اس کے سامنے تسلیم محض ہو جاتا ہے تو اس نے اس کی عبادت کی ہے۔
اتخذوا احبارھم و رھبا نھم اربابا من دون اللّٰہ (سورئہ توبہ‘ آیت ۳۱)
”(وہی لوگ) جنہوں نے اپنے اپنے علمائے دین اور زاہدوں کو اللہ کی بجائے اپنا خدا بنا لیا ہے۔“
ولا یتخذ بعضنا بعضاً اربابا من دون اللّٰہ (سورئہ آل عمران‘ آیت ۶۴)
”بے شک ہم انسانوں کو آپس میں ایک دوسرے کو اپنا خدا اور حاکم قرار نہیں دینا چاہتے۔“
اس بناء پر توحید عملی یا توحید در عبادت سے مراد صرف خدا کو قبلہ روح‘ اپنی سمت اور اپنا آئیڈیل قرار دینا اور اسی کی اطاعت کرنا اور اس کے مقابلے میں ہر دوسرے قبلہ‘ آئیڈیل اور جہت کی نفی کرنا اور خدا کے سوا کسی اور کی اطاعت نہ کرنا ہے یعنی اللہ ہی کے لئے خم و راست ہونا‘ اسی کے لئے قیام کرنا‘ اسی کی خدمت کرنا اسی کے لئے جینا اور مرنا‘ جیسا کہ حضرت ابراہیم نے کہا ہے:
وجھت وجھی للذی فطرالسموات والارض حنیفا وما انا من المشرکین (سورئہ انعام‘ آیت ۷۹)
”اپنے صفحہ دل اور چہرہ قلب کو ایسی حقیقت کی جانب موڑ دیا ہے جس نے اعلیٰ اور پست کائنات کو وجود بخشا اور میں ہرگز مشرکین میں سے نہیں ہوں“___
ان صلواتی ونسکی و محیای و مماتی للّٰہ رب العالمین لاشریک لہ و بذالک امرت و انا من المسلمین
(سورئہ انعام‘ آیات ۱۶۲ اور ۱۶۳)
”بے شک میری نماز‘ میری عبادت‘ میرا جینا مرنا خدا ہی کے لئے ہے جو مختلف جہانوں کا رب ہے‘ اس کا کوئی شریک نہیں ہے اسی چیز کا مجھے حکم دیا گیا ہے اور میں ہی حق کے سامنے تسلیم ہونے والوں میں سے (ایک) ہوں۔“
یہی توحید ابراہیمی ان کی توحید عملی ہے کلمہ طیبہ یعنی لا الٰہ الا اللہ ہر چیز سے زیادہ توحید عملی پر دلالت کرتا ہے یعنی خدا کے سوا کوئی پرستش کے لائق نہیں ہے۔
انسان اور توحید تک رسائی
ایک روحانی نظام اور ایک ارتقائی اور انسانی جہت میں انسان کو حقیقت وجودی کا وحدانیت تک پہنچنا اسی طرح ارتقاء و تکامل سے ہم آہنگ ایک اجتماعی نظام میں انسانی معاشرہ کا وحدت و یگانگت تک پہنچنا اور اس کے مقابلے میں انسان کی انفرادی شخصیت کا مختلف محوروں میں بٹ جانا اور غیر موزوں شعبوں میں اس کی حقیقت وجودی کا ٹکڑے ٹکڑے ہو جانا نیز انسانی معاشرے کا متضاد‘ متناقض اور غیر موزوں اناؤں‘ گروہوں اور طبقوں میں بٹ جانے کا تعلق ایسے مسائل سے ہے جنہوں نے ہمیشہ فکر بشری کو اپنی جانب متوجہ کئے رکھا ہے۔ انسان کی شخصیت کی وحدت و یگانگت یعنی توحید تک رسائی کے لئے کیا کرنا چاہئے؟ اس مقام پر تین طرح کے نظریات پائے جاتے ہیں۔ مادہ پرستانہ (Materialistic Theory)‘ تصوریت (Idealistic Theory) کا نظریہ اور حقیقت پسندانہ نظریہ (Realistic Theory)۔ اب ہم ان کے بارے میں ایک ایک کر کے گفتگو کرتے ہیں:
(الف) مادیت (Materialism)
اس نظریے کا کہ جو صرف مادے کے بارے میں سوچتا اور روح کے لئے کسی قسم کی بنیادی حیثیت کا قائل نہیں ہے۔ مدعا یہ ہے کہ جو چیز ایک انسان کو روحانی اعتبار سے اور انسانی معاشرے کو اجتماعی لحاظ سے ٹکڑے ٹکڑے کر دیتی ہے اور غیر موزوں جہات میں تبدیل کر دیتی ہے‘ وہ انسان (مالکیت) کے ساتھ اشیاء کا خاص رشتہ ہے۔ یہ اشیاء ہی ہیں جو انسان کے ساتھ اپنے خاص تعلق کی بناء پر‘ اسے انفرادی و روحانی لحاظ سے اور اجتماعی اعتبار سے منتشر کر دیتی ہیں۔ انسان ایک مدنی الطبع وجود ہے۔ ابتدائے تاریخ سے ہی انسان اجتماعی صورت میں زندگی گزارتا رہا ہے۔ کوئی ذاتی انا موجود نہیں تھی‘ یعنی اسے اپنی انا کا احساس نہیں تھا بلکہ اجتماعی حیثیت کا احساس تھا۔ وہ اپنے انفرادی وجود سے بے خبر تھا لیکن اپنے اجتماعی وجود کی معرفت ضرور رکھتا تھا۔ اس کا درد‘ اجتماع کا درد تھا اور اس کا احساس بھی معاشرے کا احساس تھا‘ وہ معاشرے کے لئے جیتا تھا نہ کہ اپنے لئے۔ اس کا ضمیر اور وجدان بھی اجتماعی اور معاشرتی تھا نہ کہ انفرادی۔ انسان ابتدائے تاریخ سے ہی اشتراکی زندگی کا حامل تھا‘ اسی لئے وہ ایک اجتماعی روح اور احساس کے ساتھ زندگی گزارتا تھا۔ اس کی زندگی شکار کے ساتھ گزرتی۔ ہر شخص سمندر اور جنگل سے اپنی احتیاج اور ضرورت کے مطابق ہی روزی حاصل کرتا تھا۔ اضافی پیداوار کا وجود نہیں تھا۔ یہاں تک کہ انسان نے زراعت کے میدان میں قدم رکھا اور اضافی پیداوار کا امکان فراہم کیا‘ جس کے نتیجے میں ایک گروہ کے لئے کام کرنے کا موقع فراہم ہو گیا‘ جب کہ دوسرے گروہ کے لئے کام نہ کرنے اور مفت خوری کی راہ ہموار ہو گئی اور یہی چیز اصول مالکیت کو جنم دینے کا موجب بن گئی۔ مخصوص مالکیت کے اصول نے یا دوسرے الفاظ میں کسی خاص گروہ کی دولت و ثروت (یعنی پانی اور زمین جیسے پیداواری ذرائع اور گائے اور آہن جیسے پیداواری وسائل) کے ساتھ مخصوص تعلق نے اجتماعی روح کو تباہ کر دیا اور ایک متحد معاشرے کو دو حصوں میں بانٹ دیا۔ ایک حصہ صاحب مال و ثروت اور منافع خور اور دوسرا محروم‘ نفع دینے والا اور زحمت کش‘ یوں جو معاشرہ اجتماعی حقیقت کا حامل تھا وہ مختلف اناؤں میں تقسیم ہو گیا اور پھر انسان اپنے ہی اندر سے مالکیت کے وجود میں آنے سے اپنی حقیقی خودی کو کہ جو ایک اجتماعی خودی تھی اور اپنے آپ کو بعینہ دوسرے انسانوں کی مانند تصور کرتی تھی‘ کھو بیٹھا اور اپنے آپ کو ”انسان“ سمجھنے کی بجائے ”مالک“ سمجھنے لگا۔ یوں وہ اپنے آپ سے بیگانہ ہو گیا اور زوال پذیر ہونے لگا۔
صرف اسی قید اور رشتے کو ختم کرنے سے انسان ایک بار پھر اخلاقی ہم آہنگی اور روحانی سکون کے ساتھ ساتھ اجتماعی وحدت و سلامتی کی طرف لوٹ سکتا ہے اور تاریخ کی جبری حرکت بھی انہی وحدتوں کی جانب ہے۔
اس نظریے کے مطابق جن مالکیتوں نے انسانی وحدت کو کثرت میں بدلا اور اس کی اجتماعی حیثیت کو پارہ پارہ کر دیا ہے وہ ان کنگروں کی مانند ہیں جنہیں مولانا روم اپنی خوبصورت مثل میں لائے ہیں یعنی جنہوں نے سورج کے واحد و منبسط نور کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا اور سایوں کی پیدائش کا منشاء بن گئے‘ البتہ مولانا روم کی یہ مثل ایک عرفانی حقیقت پر دلالت کرتی ہے یعنی وحدت سے کثرت کا ظہور اور کثرت کی وحدت کی طرف بازگشت لیکن کچھ تاویل و تحریف کے بعد اسے مارکسیزم کے نظریے کے لئے ایک تمثیل قرار دیا جاتا ہے۔
ذیل کے اشعار میں یہی تمثیل بیان کی گئی ہے:
منبسط بودیم ھمچون آفتاب
بی سر و بی پا بودیم آن سرھمہ
یک گہر بودیم ھمچون آفتاب
بی گرہ بودیم و صفای ھمچو آب
چون بہ صورت آمد آن نور سرہ
شد عدد چون سایہ ھای کنگرہ
کنگرہ ویران کنید از منجنیق
تا رود فرق ازمیان این فریق
 

صرف علی

محفلین
(ب) تصوریت (Idealism)
اس نظریے کا تعلق انسان کی روح و باطن اور نفس کے ساتھ اس کے رابطے سے ہے‘ اور اسی کو بنیاد اور اساس قرار دیتا ہے۔ اس نظریے کے تحت اگرچہ تعلق اور رابطہ وحدت کی راہ میں رکاوٹ کثرت کا موجب اور اجتماع کو نابود کر دیتا ہے۔ انسان کو نفسیاتی و روحانی طور پر تباہ کر دیتا ہے اور معاشرے کو مختلف گروہوں میں بانٹ دیتا ہے لیکن ہمیشہ جس سے تعلق پیدا کیا جاتا ہے اور رشتہ جوڑا جاتا ہے وہی تعلق پیدا کرنے والے کو کئی حصوں میں تقسیم کر دیتا ہے نہ کہ تعلق پیدا کرنے والا اپنے متعلق کی وحدت کو منقسم کرتا ہے۔ انسان کے ساتھ اشیاء کا تعلق (مثلاً مال و دولت‘ عورت اور مقام و منصب وغیرہ) روح انسانی اور انسانی معاشرے کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے کا موجب نہیں بنتا بلکہ اشیاء کے ساتھ انسان کا اندرونی اور قلبی رابطہ اور تعلق انسان کو اپنے سے بیگانہ بنانے اور اس کی وحدت کو پارہ پارہ کرنے کا باعث بنتا ہے۔ انسان کی ”مالکیت“ نے اسے اپنے معاشرے سے جدا کر دیا ہے۔ جو چیز انسان کی یکتائی کو اخلاقی اور اجتماعی لحاظ سے تقسیم کر دیتی ہے‘ وہ ”میرا مال“، ”میری عورت“ اور میرا مقام و منصب“ نہیں ہے بلکہ وہ مال‘ عورت اور مقام و منصب کی جدا جدا حیثیت اور ان چیزوں کی… میں… ہے۔
”میں“ کے ”ہم“ میں بدلنے کے لئے انسان کے ساتھ اشیاء کا تعلق ختم کرنے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ اشیاء کے ساتھ انسان کا تعلق ٹوٹنا چاہئے۔
انسان کو اشیاء کی قید سے رہا کرنے کی ضرورت ہے تاکہ اپنی انسانی حقیقت کی طرف لوٹ آئے نہ کہ انسان کی قید سے اشیاء کو رہا کرنے کی ضرورت ہے۔ انسان کو معنوی و روحانی آزادی دیں‘ اشیاء کو آزاد اور رہا کرنے کا کیا فائدہ؟ انسان کو وحدت و اجتماعیت اور آزادی و نجات کی ضرورت ہے نہ کہ کسی ”چیز“ کی انسان کے لئے اجتماعی و اخلاقی توحید کی عامل تعلیم و تربیت خاص کر روحانی تعلیم و تربیت کے عوامل میں سے ہے نہ کہ اقتصادی عوامل کی مانند۔ انسان کا اندرونی ارتقاء اس کا عامل توحید ہے نہ کہ اس کا خارجی اور بیرونی نقص و عیب نہ یہ کہ اس سے مادیت کو چھین لیا جائے۔ انسان پہلے حیوان ہے پھر انسان۔
انسان بالطبع حیوان ہے اور بالاکتساب انسان۔ انسان‘ ایمان اور صحیح تعلیم و تربیت کے عوامل کے زیراثر اپنی پوشیدہ اور فطری انسانیت کو پا لیتا ہے جب تک انسان موثر روحانی عوامل کے تحت اپنی معنویت کو حاصل نہیں کر لیتا اور انسانی صورت میں نہیں آ جاتا اس وقت تک وہ حیوان بالطبع ہی رہتا ہے۔ یہاں پر روحوں اور جانوں کی وحدت و یگانگت کے امکان کا مسئلہ درپیش نہیں ہے۔ اس بات کو مولانا روم نے یوں نظم بند کیا ہے:
جان حیوانی ندارد اتحاد
تو مجو این اتحاد از جان باد
گر خورد این نان‘ نگردد سیدآن
ورکشد بار این نگردد آن گران
بلکہ این شادی کند از مرگ آن
از حسد میرد چون بیند برگ آن
جان گرگان و سگان ازہم جدا است
متحد جانھای شیران خدا است
مومنان معدود لیک ایمان یکی
جسمشان محدود لیکن جان یکی
غیر فہم و جان کہ در گاو و خر است
آدمی را عقل و جانی دیگر است
وہ چراغ از حاضر آری در مکان
ھریکی باشد بہ صورت غیر آن
فرق نتوان کرد نور ھریکی
چون بہ نورش روی آری بی شکی
اطلب المعنی من القرآن قل
لانفرق بین احد من رسل
گر تو صد سیب و صد آبی(۱) بشمری
صد نما یہ یک شور چون بفشری
در معانی قسمت و اعداد نیست
در معانی تجزیہ و افراد نیست
مادے کو انسان کے اختراق و اجتماع کا عامل سمجھنا یعنی مادے کو یکجا کرنے سے انسان کا یکجا ہو جانا اور متفرق اور منقسم ہونے سے انسان کا متفرق اور منقسم ہونا اور مادے کو ایک ہو جانے سے انسان کا ایک ہو جانا اور اس اخلاقی و اجتماعی شخصیت کو پیداواری اور معاشی صورت حال کے تابع سمجھنا دراصل انسان کو نہ پہچاننے اور اصالت انسان اور اس کی قوت عقل اور ارادے پر ایمان نہ لانے کا نتیجہ اور مسلک انسانیت (Humanism) کا مخالف نظریہ ہے۔
اس کے علاوہ انسان سے مربوط اور متعلق اشیاء کا اس سے رابطہ ٹوٹنا ایک ناممکن امر ہے کیوں کہ اگر بالفرض مال و دولت کے سلسلے میں ایسا ہو بھی جائے تب بھی بیوی‘ بچوں اور خاندان کے سلسلے میں کیا کیا جا سکتا ہے؟
کیا اس سلسلے میں اشتراکیت کو زیربحث لاتے ہوئے جنسی کمیونزم کا قائل ہوا جا سکتا ہے؟ اگر ایسا ممکن ہے تو پھر کیوں وہ ممالک مخصوص خاندانی نظام سے چمٹے ہوئے ہیں جو دولت و ثروت کے سلسلے میں کئی سال سے شخصی ملکیت کو کالعدم قرار دے چکے ہیں؟ اگر بالفرض خاندان کا مخصوص فطری نظام بھی اشتراکی ہو جائے تو مقام و منصب‘ شہرت اور اعزازات کے سلسلے میں کیا کیا جا سکتا ہے‘ کیا انہیں بھی یکساں طور پر تقسیم کیا جا سکتا ہے؟ لوگوں کی مخصوص بدنی و جسمانی صلاحیتوں نیز ان کی ذہنی و روحانی صلاحیتوں کے بارے میں کیا کیا جا سکتا ہے؟
یہ وہ واقعات ہیں جو انسان کے وجود کا حصہ ہیں اور انہیں نہ تو اس سے جدا کیا جا سکتا ہے اور نہ برابر تقسیم کیا جا سکتا ہے۔
(ج) عینیت (Realism)
اس نظریے کے مطابق جو چیز انسان کو انفرادی اور اجتماعی اعتبار سے تقسیم کرتی ہے اور انسان کو جدا جدا کرنے کا بنیادی عامل ہے وہ اشیاء کے ساتھ انسان کا تعلق ہے۔ انسان کی اسارت و مصیبت اس کے مملوک ہونے کا نتیجہ ہے نہ کہ اس کی ملکیت کا۔ اسی لئے یہ نظریہ‘ فکری انقلاب‘ ایمان‘ نظریہ حیات اور روحانی آزادی کے بنیادی کردار کو تعلیم و تربیت کا عامل قرار دیتا ہے‘ لیکن اس نظریے کی رو سے انسان جس طرح محض مادہ نہیں ہے‘ محض روح بھی نہیں ہے‘ معاش اور معاد ایک دوسرے کے ساتھ ساتھ ہیں۔ جسم و روح دونوں ایک دوسرے پر اثرانداز ہوتے ہیں- جہاں توحید در عبادت اور حق پرستی کے زیر سایہ روحانی انتشار و افتراق کے عوامل سے مقابلہ کرنا ضروری ہے وہاں امتیازی سلوک‘ ناانصافی اور محرومیوں کے ساتھ بھی شدید جنگ کی ضرورت ہے۔
اسلام کی منطق یہی ہے۔ جونہی اسلام کا ظہور ہوا‘ آن واحد میں دو قسم کی تبدیلیاں اور تحریکیں وجود میں آئیں۔ اسلام نے یہ نہیں کہا کہ اگر امتیازی سلوک‘ بے انصافی‘ ملکیتوں کو ختم کر دیا جائے تو خود بخود ہر چیز درست ہو جائے گی۔ اسلام نے یہ نہیں کہا کہ اپنے باطن کی اصلاح کر لو اور ظاہر سے سروکار نہ رکھو‘ اور یہ بھی نہیں کہا کہ اگر اخلاق درست ہو گیا تو معاشرے کی خود بخود اصلاح ہو جائے گی۔ اسلام نے بیک وقت اللہ تعالیٰ پر ایمان اور توحید پرستی کے زیرسایہ روحانی و باطنی توحید کی ندا بھی دی ہے اور اجتماعی و معاشرتی اونچ نیچ کے ساتھ جہاد و مبارزت کے سائے میں اجتماعی توحید کی آواز بھی بلند کی۔ قرآن کریم کی یہ آیت جو توحید انسانی کے آسمان پر ستارہ بن کر چمک رہی ہے‘ وہی آیت ہے جسے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سربراہان مملکت کے نام اپنے دعوت ناموں پر درج کیا تھا اور جو اسلام کی حقیقت بینی اور ہمہ گیر جہات کو بیان کرتی ہے۔
قل یا اھل الکتاب تعالوا الی کلمة سواء بیننا و بینکم ان لا نعبدا لا اللّٰہ ولا نشرک بہ شیاء (سورئہ آل عمران)
”ایک ہی بات‘ ایک ہی نظریے اور ایک ہی حقیقت کی طرف آؤ جو ہمارے اور آپ سب کے لئے یکساں ہے اور اس کی نسبت ہم سب کے ساتھ مساوی ہے‘ نہ تو ہمارے لئے کوئی خاص امتیاز ہے اور نہ ہی آپ کے لئے وہ یہ ہے کہ صرف خدائے واحد کی عبادت کریں اور اس کے سوا کسی اور کی پرستش نہ کریں۔“
یہاں تک آیت کریمہ میں ایمان واحد‘ جہت واحد‘ قبلہ واحد ایک ہی آئیڈیل اور روحانی و معنوی آزادی تک پہنچنے کے ذرائع انسانوں میں وحدت و یگانگت پیدا کرنے کو موضوع گفتگو بنایا گیا ہے۔ اس کے بعد ارشاد ہوتا ہے:
ولا یتخذ بعضنا بعضاً اربابا من دون اللّٰہ (سورئہ آل عمران)
”ہم میں سے بعض انسانوں کو بعض دوسروں کو اپنا رب نہیں بنانا چاہئے (جب کہ ہم سب کا رب خدا ہے) اور ارباب و بندہ میں تقسیم نہ ہوں۔“
آؤ ہم سب مل کر ان غلط معاشرتی رابطوں کو کاٹ ڈالیں جو انسانوں میں تفاوت کا باعث بنتے ہیں۔
خلافت اسلامی کے دگرگوں ہونے‘ دور جہالت کے طبقاتی نظام کے قیام‘ عوام کے ردعمل‘ لوگوں کی شورش اور حضرت عثمان کے قتل ہو جانے کے بعد جب عوام بیعت کے لئے حضرت علی علیہ السلام پر ٹوٹ پڑے تو آپ نے مجبوراً خلافت کو قبول کر لیا۔ اگرچہ ذاتی طور پر آپ خلافت قبول نہیں کرنا چاہتے تھے لیکن شرعی ذمہ داری نے آپ کو خلافت کا بوجھ اٹھانے کے لئے مجبور کر دیا۔ حضرت علی اپنے ذاتی ناپسند اور شرعی ذمہ داری کو ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں:
لولا حضور الحاضر و قیام الحجہ بوجود الناصر وما اخذ اللّٰہ علی العلماء ان لا یقارو اعلی کظة ظالم ولا سغب مظلوم لالقیت حبلھا علی غاربھا ولسقیت اخرھا بکاس اولھا (نہج البلاغہ‘ خطبہ شقشقیہ‘ خطبہ ۳)
”اگر لوگ میرے گرد جمع نہ ہوتے‘ اگر لوگوں کی طرف سے میری نصرت کا اعلان کرنے سے مجھ پر حجت تمام نہ ہوتی۔ اگر اللہ تعالیٰ نے علماء سے یہ عہد و پیمان نہ لیا ہوتا کہ وہ ظالم کی شکم پری مظلوم کی گرسنگی پر سکون و قرار سے نہ بیٹھیں تو میں خلافت کی مہار اسی اونٹنی کے کوہان پر ڈال دیتا اور اس کے آخر کو اسی پیالے سے سیراب کرتا جس پیالے سے اس کے اول کو سیراب کیا تھا۔“
ہم سب جانتے ہیں حضرت علی نے خلافت کی ذمہ داری سنبھالنے کے بعد دو کاموں کو اپنے پروگراموں میں سرفہرست رکھا اور انہی کو اپنی ہمت و کوشش کا مرکز و محور قرار دیا‘ ایک لوگوں کو پند و نصیحت اور ان کی اخلاقی و روحانی اصلاح اور معارف الٰہی کا بیان کہ نہج البلاغہ جس کا نمونہ ہے اور دوسرا معاشرے میں ناجائز امتیازات کے خلاف جہاد۔ حضرت علی نے صرف روحانی آزادی اور باطنی اصلاح پر ہی قناعت نہیں کی۔ اسی طرح صرف معاشرتی اصلاحات کو بھی کافی نہیں سمجھا۔ یوں حضرت علی نے دو محاذوں پر اصلاح کے کام کا آغاز کیا اور اسلام کا پروگرام اور نصب العین بھی یہی ہے۔
یوں اسلام نے ایک طرف تو خدا پرستی کی راہ میں انسانوں میں اجتماعی اور انفرادی وحدت پیدا کرنے کے لئے تعلیم و تربیت کا پروگرام رکھا‘ دو چیزوں کی دعوت دی اور منطقی اوزار اپنایا اور دوسری طرف انسانوں کے درمیان غیر متوازن تعلقات کو منقطع کرنے‘ معاشرے میں طبقاتی نظام کو تہہ و بالا کرنے اور طاغوتی نظاموں کو سرنگوں کرنے کے لئے تلوار اٹھائی۔
 

صرف علی

محفلین
ایک ایسا اسلامی معاشرہ جو طبقاتی تفاوت سے پاک ہو یعنی جس میں نہ امتیازی سلوک‘ نہ محرومیت ہو اور نہ ہی وہ معاشرہ اجتماعی امور سے لاتعلق ہو‘ کیوں کہ یہ بھی ایک طرح کا ظلم اور بے انصافی ہے۔ اختلاف و تفاوت اور ترجیحی و امتیازی سلوک کے درمیان فرق ہے جیسا کہ کائنات کے تکوینی نظام میں پایا جانے والا اختلاف اس میں حسن و جمال‘ تنوع‘ پیش رفت اور ارتقاء و کمال کا باعث ہے لیکن اسے ترجیحی یا امتیازی سلوک نہیں کہتے۔
اسلامی نظام مملکت امتیازی سلوک کا مخالف اور دشمن ہے نہ کہ اختلاف اور تفاوت اسلامی معاشرہ‘ مساوات‘ برابری اور بھائی چارہ کا معاشرہ ہے لیکن یہ منفی نہیں بلکہ مثبت مساوات ہے۔ منفی مساوات سے مراد اشخاص کی قدرتی ترجیحات کو حساب میں نہ لانا اور برابری و مساوات کے لئے ان کے اکتسابی امتیازات کو سلب کرنا ہے جب کہ مثبت مساوات سے مراد عوام کے لئے مساوی امکانا ت اور وسائل فراہم کرنا‘ ظالمانہ اور موہوم امتیازات سلب کرنا اور ہر شخص کو اس کی کمائی اور محنت کا مالک بنانا ہے۔
منفی مساوات اس مساوات کی مانند ہے جسے ایک داستان میں بیان کیا گیا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ کسی کوہستانی علاقے میں ایک ظالم شخص رہتا تھا اور وہاں سے گزرنے والوں کو اپنا مہمان بنا کر پذیرائی کرتا تھا۔ سونے کے وقت مہمان کو ایک مخصوص بستر پر سونا ہوتا تھا۔ میزبان کے غلام مہمان کو اس مخصوص بستر پر سلا دیتے تھے۔ اگر اتفاق سے مہمان کا بدن اس بستر سے چھوٹا اور نہ بڑا ہوتا تو اسے سونے کی اجازت دے دی جاتی لیکن افسوس اس بدنصیب مہمان پر کہ جس کا جسم بستر کے مساوی نہ ہوتا۔ اگر اس کا جسم بستر سے بڑا ہوتا تو پاؤں کی طرف سے آری کے ذریعے اسے بستر کے برابر کر دیا جاتا اور اگر چھوٹا ہوتا تو دونوں طرف سے اسے اتنا کھینچا جاتا کہ وہ برابر ہو جاتا‘ بہرحال اس کا انجام واضح ہوتا۔
لیکن مثبت مساوات اس دلسوز اور مہربان استاد کی مانند ہوتی ہے جو تمام شاگردوں کو ایک ہی نظر سے دیکھتا ہے۔ اگر سب کے جواب مساوی ہوں تو سب کو ایک جیسے نمبر دیتا ہے اور جوابات میں اختلاف ہو تو ہر ایک کو اس کے ا ستحقاق کے مطابق نمبر دیتا ہے۔ اسلامی معاشرہ ایک قدرتی معاشرہ ہے نہ کہ امتیازی اور منفی مساوات کا معاشرہ۔ اسلام کی تھیوری‘ صلاحیت کے مطابق کام اور کام کے مطابق استحقاق پر استوار ہے۔
امتیازی معاشرہ وہ معاشرہ ہے جس میں انسانوں کا باہمی رابطہ دوسرے کے استحصال پر استوار ہوتا ہے یعنی کسی سے جبراً فائدہ اٹھانا اور دوسروں کے کام اور زحمت کے نتیجے میں بعض افراد کا زندگی گزارنا۔ لیکن ایک طبیعی اور قدرتی معاشرے میں کسی بھی قسم کا ناجائز فائدہ اٹھانا اور کسی دوسرے شخص پر اپنی زندگی کا بوجھ ڈالنا پسندیدہ ہے۔ انسانوں کے درمیان رابطہ ”متقابل تسخیر“ کا رابطہ ہے سب پوری آزادی اور اپنی صلاحیتوں اور وسائل کے ساتھ کوشش اور جدوجہد کرتے ہیں۔ ایک دوسرے کی خدمت میں لگے ہیں اور سب ایک دوسرے کے کام آ رہے ہیں یعنی باہمی خدمت کا نظام حکم فرما ہوتا ہے۔
واضح سی بات ہے کہ جب افراد کے درمیان قدرتی اختلاف اور تفاوت پایا جاتا ہے تو جس میں زیادہ قوت و صلاحیت ہو گی وہی زیادہ قوت و صلاحیت جذب کرنے میں کامیاب ہو گا۔ مثلاً جو شخص زیادہ علمی صلاحیت کا مالک ہو گا‘ وہ زیادہ شیفتگان علم کو اپنی طرف مائل کرے گا اور زیادہ افراد کو مسخر کرے گا‘ اسی طرح جس میں فنی صلاحیت زیادہ ہو گی اتنے ہی دوسرے لوگ اس کے ماتحت رہتے ہوئے اس کی عقل و فکر اور تخلیقی صلاحیتوں کی راہ میں حرکت کریں گے اور اس کے مطیع و فرماں بردار ہوں گے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید جہاں معاشرے میں ”رب و مربوب“ کی نفی کرتا ہے‘ وہاں قدرتی اختلاف اور تفاوت نیز تخلیقی اعتبار سے مختلف صلاحیتوں کے درجات کی حقیقت کا بھی معترف ہے اور ”ایک دوسرے کے کام آنے کی بنیاد پر رابطے“ کی تائید کرتا ہے۔
اھم یقسمون رحمة ربک ن نحن قسمنا بینھم معیشتھم فی الحیوة الدنیا و رفعنا بعضھم فوق بعض درجات لیتخذ بعضھم بعضا سخریا و رحمة ربک خیر مما یجمعون (سورئہ زخرف‘ آیت ۳۲)
”کیا پروردگار کی رحمت (نبوت) کو انہوں نے تقسیم کیا ہے؟ (کیا یہ ان کے ہاتھ میں ہے کہ جسے چاہیں خلعت نبوت عطا کر دیں اور جسے نہ چاہیں نہ کریں۔ ایک روز ہم ہی نے معیشت کو ان کے درمیان تقسیم کیا تھا اس طرح سے کہ دوسرے لوگوں کو مسخر کر سکیں اور آپ کے پروردگار کی رحمت (نبوت) ان چیزوں سے بہتر ہے جنہیں یہ لوگ جمع کرتے ہیں۔“
اس آیت شریفہ سے ایک نکتہ یہ حاصل ہوتا ہے کہ مراعات کا اختلاف یک طرفہ نہیں بعض لوگوں کے دو گروہ نہیں ہیں۔ ایک قدرتی مراعات کا حامل گروہ اور دوسرا قدرتی مراعات سے محروم گروہ‘ اگر ایسا ہوتا تو ایک طبقہ مطلق تسخیر کرنے والا اور دوسرا گروہ تسخیر ہونے والا ہوتا۔ اگر ایسا ہوتا تو پھر قرآن کی تعبیر یوں ہونی چاہئے تھی:
و رفعنا بعضھم فوق بعض درجات لیتخذ وھم سخریا
”ہم نے بعض کو بعض کے مقابلے میں درجات دیئے ہیں تاکہ جنہیں درجات دیئے گئے ہیں وہ ان لوگوں کو مسخر کر سکیں‘ جنہیں درجات نہیں دیئے گئے۔“
جبکہ قرآن کی تعبیر یوں ہے: و رفعنا بعضم فوق بعض درجات لیتخذ بعضھم بعضا سخریا
”ہم نے بعض کو بعض کی نسبت درجات سے نوازا تاکہ بعض لوگ بعض کو اپنے لئے مسخر کر سکیں۔“
یعنی سب درجات سے بہرہ مند ہیں اور سب ایک دوسرے کو اپنے لئے مسخر کرتے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں چونکہ درجات طرفینی نوعیت کے ہیں لہٰذا تسخیر بھی طرفینی حیثیت کی حامل ہو گی۔
دوسرا نکتہ ”سخریا“ کے لفظ سے مربوط ہے‘ یہاں پر اس لفظ میں سین پر پیش کی حرکت دی گئی ہے جس کا یہی معنی ہے جو بیان کیا گیا‘ لیکن قرآن کی دیگر دو آیات میں سین پر زیر دی گئی ہے۔ ایک سورئہ مومنون کی آیت نمبر ۱۰۹ اور ۱۱۰ میں کہ جہاں اہل دوزخ کو خطاب کیا گیا ہے اور اہل ایمان کے ساتھ ان کے ناروا برتاؤ کی مذمت کی گئی ہے:
انہ کان فریق من عبادی__ فاتخذ تموھم سخریا__ و کنتم منھم تضحکون
اور دوسری سورئہ مبارکہ ”ص“ کی آیت ۶۲ اور ۶۳ ہے کہ جس میں خود اہل دوزخ کی زبان سے کہا گیا ہے کہ:
مالنا لا نری رجالا کنانعد ھم من الاشرار اتخذ نا ھم سخریا ام زاغت عنھم الابصار
قرآئن سے بھی یہ بات ثابت ہے اور خود میں نے بھی جہاں تک تفاسیر کا مطالعہ کیا ہے (مجمع البیان‘ کشاف‘ تفسیر امام‘ بیضاوی‘ روح البیان‘ صافی‘ المیزان) تمام مفسرین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ ”سخریا“کے عین پر جو کسرہ آئی ہے وہ ”تمسخر اڑانے“ کے معنی میں ہے۔ صرف تفسیر مجمع البیان نے یہ ناقابل اعتنا قول نقل کیا ہے کہ بعض کے مطابق ”سخریا“ کا لفظ ”غلام بنائے جانے“ کے معنی میں ہے اور بعض نے مطلقاً یہ کہا ہے کہ ”سخریا“ سین پر کسرہ کے ساتھ ہمیشہ ”تمسخر اڑانے“ کے معنی میں استعمال ہو گا اور سین پر ضمہ کے ساتھ ”مسخر“ کے معنی میں۔
اب ہم دیکھتے ہیں کہ ”تسخیر اور مسخر“ کا کیا معنی اور مفہوم ہے۔
یہ دو لفظ قرآن کریم میں کئی مرتبہ آئے ہیں اور رام کرنے اور رام ہونے کے معنی میں ہے۔ قرآن کریم میں (حضرت داؤد علیہ السلام) کے لئے چاند‘ سورج‘ شب و روز‘ سمندر‘ نہریں اور پہاڑ‘ حضرت سلیمان۱کے لئے ہوا اور انسان کے لئے جو کچھ زمین اور آسمان میں ہے اسے مسخر کرنے کی بات کی گئی ہے۔ واضح سی بات ہے کہ ان تمام موارد میں مقصد یہ ہے کہ ان امور کو اس انداز میں پیدا کیا گیا ہے کہ انسان کے لئے رام اور زیر استفادہ ہوں۔ ان تمام آیات میں تمام تر گفتگو انسان کے لئے ان اشیاء کے رام ہونے کے بارے میں ہے نہ کہ ان اشیاء کے لئے انسان کے رام ہونے کے بارے میں۔ لیکن زیربحث آیت میں دو طرفہ طور پر انسان کے لئے انسان کے مسخر اور رام ہونے کی بات کی گئی ہے۔
لفظ ”تسخیر“ کے مفہوم میں اکراہ و اجبار کا معنی پوشیدہ نہیں ہے مثلاً عاشق‘ معشوق کے لئے‘ مرید‘ مراد کے لئے‘ شاگرد‘ استاد کے لئے اور عام لوگ اکثر مایہ ناز اور ممتاز شخضیات کے لئے مسخر ہونے کے باوجود مجبور نہیں ہوتے‘ لہٰذا حکمائے اسلام نے بڑی ہوشمندی کا ثبوت دیتے ہوئے ”فاعلیت بالتسخیر“ کی اصطلاح کو ”فاعلیت بالجبر“ سے جدا کیا ہے۔ البتہ ہر اجبار میں اپنا مطیع بنانا موجود ہے لیکن ہر مطیع بنانے میں اجبار کا پہلو نہیں ہے۔
اگرچہ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ اس لفظ کے مفہوم میں قرآن کی اصطلاح یہی ہے لیکن مجھے اس وقت یہ معلوم نہیں کہ یہ اصطلاح خاص قرآن کی اصطلاح ہے اور قرآن نے تخلیق کے عمل میں ایک غیر معمولی طور پر نادر حقیقت کی تفہیم کے لئے اس اصطلاح کا استعمال کر کے لفظ کے اصل مفہوم کو اجاگر کیا ہے یا قرآن سے پہلے بھی یہ اصطلاح رائج تھی‘ یعنی طبیعی قوتوں کی فعالیت۔ فاعلیت تسخیری کی نوع سے ہے نہ کہ فاعلیت جبری کی نوع سے اور نہ ہی انہیں اپنے اوپر چھوڑ دیا گیا ہے۔
یہاں سے معلوم ہوتا ہے کہ لغت کی بعض کتابوں مثلاً المنجد نے تسخیر کو جو بلا اجرت ذمہ داری سونپنے کے معنوں میں لیا ہے وہ کتنا ادھورا ہے۔ اہل لغت نے پہلے تو اس لفظ میں زبردستی اکراہ و اجبار کا معنی داخل کر دیا ہے جب کہ قرآن نے اس کے مفہوم میں اکراہ و اجبار کو زبردستی داخل کئے بغیر اسے تکوینی رابطے کے سلسلے میں استعمال کیا ہے۔
زیربحث آیت سماجی زندگی میں انسانوں کے اس تکوینی رابطے کو بیان کرتی ہے کہ یہ ”تمام لوگوں کے ساتھ عام لوگوں کا تسخیری“ رابطہ ہے اور کہا جا سکتا ہے کہ اسلام کے اجتماعی فلسفے کو بیان کرنے کے اعتبار سے یہ اہم ترین آیات ہیں۔ بیضاوی نے اپنی معروف تفسیر اور ان کی پیروی میں ”علامہ فیض“ نے تفسیر صافی میں کتنی خوبصورت اور اعلیٰ تفسیر کی ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
لیتخذ بعضھم بععضا سخریا
کا معنی یہ ہے کہ دوسرے سے اپنی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے استفادہ کریں تاکہ اس وسیلے سے ایک دوسرے کے درمیان محبت و الفت پیدا ہو‘ اور دنیا میں نظم و ضبط پیدا ہو جائے۔ حدیث میں بھی آیا ہے کہ اس آیت سے مراد یہ ہے کہ سب کو ایک دوسرے کے لئے ضرورت مند پیدا کیا ہے۔
تسخیری رابطے کی صورت یہ ہے کہ جہاں قدرتی ضروریات نے انسانوں کو ایک دوسرے سے ملا دیا ہے وہاں جبری رابطے کے برخلاف معاشرہ ایک آزادانہ مقابلے سے خارج نہیں ہو گا۔ حیوانات کی اجتماعی زندگی جبری رابطے کی بنیاد پر ہے لہٰذا انسان کا اجتماعی ہونا شہد کی مکھی یا چیونٹی اجتماعی ہونے سے مختلف ہے۔ ان کی زندگی میں جبری قوانین لاگو ہوتے ہیں۔ ان کی زندگی مقابلے اور کشمکش کا میدان نہیں ہے اسی طرح اوپر اور نیچے جانے کا بھی کوئی امکان نہیں ہے۔ انسان جہاں اجتماعی ہے وہاں ایک طرح کی حریت و آزادی کا حامل بھی ہے۔
انسانی معاشرہ ترقی و پیش رفت اور کمال و ارتقاء کے حصول کے لئے ایک مقابلے اور رقابت کا میدان ہے‘ جو قیود اور پابندیاں راہ کمال میں انفرادی آزادی کو محدود کر دیتی ہیں وہ انسانی صلاحیتوں کو پھلنے پھولنے سے روک دیتی ہیں۔
نظریہ مادیت کا ماڈل انسان چونکہ روحانی و باطنی آزادی تک نہیں پہنچ سکا بلکہ صرف بیرونی روابط اور تعلقات کے ساتھ اس کا رشتہ جڑا ہے‘ لہٰذا وہ ایسے بے بال و پر پرندے کی مانند ہو گیا ہے جس سے ہر قسم کی پابندی اٹھا دی گئی ہے لیکن وہ اپنے پر نہ ہونے کی بناء پر اڑنے کے قابل نہیں رہا لیکن نظریہ تصوریت کا ماڈل انسان چونکہ اندرونی طور پر آزاد لیکن بیرونی طور پر بندھا ہوا ہے لہٰذا وہ ایسے پرندے کی مانند ہے جس کے پر بھی سالم ہیں اور اس کے پیروں سے سنگین بوجھ بھی ہٹا دیا گیا ہے۔
مجموعی طور پر ابھی تک جو کچھ کہا گیا ہے اس سے واضح ہو جاتا ہے کہ توحید عملی (چاہے انفرادی توحید عملی ہو یا اجتماعی) سے مراد توحید پرستی کی راہ میں فرد کا وحدت و یگانگت حاصل کرنا‘ ہر قسم کی قلبی پرستش مثلاً ہوا پرستی“ دولت پرستی‘ مقام پرستی وغیرہ کی نفی کرنا اور طاغوتی امتیازی رویوں اور ناانصافیوں کی نفی کے ذریعے توحید پرستی کی راہ میں معاشرے کا وحدت و یگانگت کو پانا ہے۔ جب تک فرد اور معاشرہ وحدت کو حاصل نہیں کر لیتا سعادت تک نہیں پہنچ سکتا اور صرف حق پرستی ہی کے زیرسایہ وحدت و یگانگت تک پہنچا جا سکتا ہے۔ قرآن کریم سورئہ مبارکہ زمر کی انتیسویں آیت میں نظام شرک میں انسانی شخصیت کے افتراق و انتشار‘ اس کی سرگردانی اور بے راہ روی اور اس کے برعکس توحیدی نظام میں اس کے وحدت و یگانگت تک پہنچنے‘ ایک سمت کو انتخاب کرنے اور کمال و ارتقاء کے راستے پر قدم رکھنے کو یوں بیان کرتا ہے:
ضرب اللّٰہ مثلا رجلا فیہ شرکاء متشاکسون و رجلا سلما الرجل ھل یستویان مثلا
”خدا مثال لاتا ہے ایک ایسے شخص کی جو کئی بدچلن اور نالائق افراد کا بندہ بنا ہوا ہے (کہ جس میں سے ہر ایک نفرت و غصے اور غلط طریقے سے اسے کسی طرف چلنے کا حکم دیتا ہے) جب کہ دوسرا شخص صرف ایک فرد کے سامنے سر جھکاتا ہے۔ کیا یہ دونوں ایک جیسے ہیں؟“
یہاں علامہ اقبال کا یہ معروف شعر یاد آتا ہے:
وہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے
ہزار سجدوں سے دیتا ہے آدمی کو نجات
نظام شرک میں انسان ہر لمحہ کسی ایک طرف کھنچا چلا جاتا ہے گویا سمندر کی لہروں میں ایک تنکے کی مانند جسے موجیں ہر لمحے کبھی ادھر کو لے جاتی ہیں کبھی ادھر کو لیکن نظام توحید ایک ایسے بحری جہاز کی مانند ہے جو رہنمائی کے پورے نظام سے آراستہ ہے اور ایک خیرخواہ کے فرمان پر منظم اور ہم آہنگ انداز میں حرکت کر رہا ہے۔
 

صرف علی

محفلین
شرک کے مراتب اور درجات
جس طرح توحید کے مراتب اور درجات ہیں‘ اسی طرح شرک کے بھی اپنے مقام پر کچھ مراتب ہیں اور
تعرف الاشیاء باضدادھا
(اشیاء اپنی اضداد سے پہچانی جاتی ہیں) کی رو سے مراتب شرک کے ساتھ مراتب توحید کا موازنہ کرنے سے توحید کو بھی بہتر طور پر پہچانا جا سکتا ہے اور شرک کو بھی۔
تاریخ بھی یہی بتاتی ہے کہ ابتدائے تاریخ سے انبیاء الٰہی جس توحید کی دعوت دیتے چلے آئے ہیں اس کے مقابلے میں طرح طرح کے شرک بھی موجود رہے ہیں۔
(الف) شرک ذاتی
بعض اقوام ثنویت یا تثلیت یا ایک دوسرے سے جدا کئی قدیم اوزاری مبداؤں کی قائل رہی ہیں اور کائنات کو چند محوروں اور کئی بنیادوں کی حامل سمجھتی رہی ہیں‘ اس قسم کے افکار کا منشاء کیا تھا‘ کیا ان میں سے ہر فکر اپنے دور کے عوام کی اجتماعی صورت حال کی آئینہ دار رہی ہے؟ مثلاً جب لوگ کائنات کے لئے دو قدیم اوزاری مبداؤں اور محوروں کے قائل تھے تو اس کی وجہ یہ تھی کہ ان کا معاشرہ دو مختلف سمتوں میں تقسیم ہو چکا تھا اور جب لوگ تین مبداؤں اور تین خداؤں کے قائل تھے تو ان کا اجتماعی اور سماجی نظام ایک تثلیثی نظام تھا یعنی ہمیشہ سے اجتماعی نظام ایک اعتقادی اصول کی صورت میں لوگوں کے ذہنوں میں منعکس ہوتا رہا ہے اور لامحالہ جب انبیائے الٰہی کی جانب سے کائنات کے ایک مبداء اور عقیدہ توحید کو موضوع گفتگو بنایا گیا‘ تو یہ وہی وقت تھا جب اجتماعی نظام ایک قطبی ہو چکا تھا۔ یہ نظریہ ایک فلسفی نظریے سے ماخوذ ہے جس کے بارے میں ہم پہلے بھی روشنی ڈال چکے ہیں اس کے مطابق انسان کی فکری و معنوی جہات اور علم‘ قانون‘ فلسفہ‘ مذہب اور فن پر مبنی معاشرے کی معنوی و روحانی بنیادیں اس کے سماجی اور خاص کر اقتصادی نظام کے تابع ہیں اور ازخود اس کی کوئی اصلیت نہیں ہے۔ گذشتہ بحث میں ہم اس نظریے کا جواب دے چکے ہیں اور چونکہ ہم فکر و خیال‘ نظریہ حیات اور سب سے بڑھ کر انسانیت کے سلسلے میں اصالت و استقلال کے قائل ہیں لہٰذا شرک و توحید کے سلسلے میں اس طرح کے عمرانی نظریات کو بے بنیاد سمجھتے ہیں۔
البتہ یہاں پر ایک اور مسئلہ بھی ہے جسے اس مسئلے کے ساتھ خلط ملط نہیں کرنا چاہئے اور وہ یہ کہ کبھی ایک اعتقادی اور مذہبی نظام کسی معاشی اور اجتماعی نظام میں ناجائز استفادہ کا ذریعہ بن جاتا ہے جیسا کہ مشرکین قریش کی بت پرستی سے متعلق خاص نظام سود خور عربوں کی مفاد پرستی کے لئے ایک وسیلہ تھا‘ حالانکہ ابوسفیان‘ ابوجہل اور ولید بن مغیرہ جیسے افراد پر مشتمل سود خوروں کا گروہ ان بتوں پر ذرہ برابر بھی ایمان نہیں رکھتا تھا بلکہ ان کے پیش نظر اس وقت کے معاشرتی نظام کی بقاء تھی اور وہ اسی کا دفاع کرتے تھے اور اس دفاع نے خاص کر اس وقت عملاً سنجیدہ صورت اختیار کر لی جب توحیدی نظام کو جو استحصال اور سود خؤری کا دشمن اور مخالف تھا‘ اسلام کی صورت میں نمودار ہوتا دیکھا۔ جب بت پرستوں نے اپنے وجود کو مٹتے دیکھا تو انہوں نے عوام الناس کے اعتقادات کی حرمت و تقدس کو بہانہ بنایا۔ قرآنی آیات میں اس نکتے کی طرف بہت زیادہ توجہ دلائی گئی ہے‘ خاص طور پر موسیٰ اور فرعون کے واقعے میں‘ لیکن جیسا کہ ہم جانتے ہیں یہ مسئلہ اس مسئلے سے مختلف ہے جس میں کہا گیا ہے کہ اقتصادی نظام بطور کلی فکری مذہبی نظام کی بنیاد ہے۔ فکری و مذہبی نظام‘ اقتصادی اور معاشرتی نظام کا جبری ردعمل ہوتا ہے۔
جس چیز کی انبیاء کے مکتب نے شدت سے نفی کی ہے وہ یہ ہے کہ ہر مکتب فکر لازمی طور پر معاشرتی اور اجتماعی ضروریات و خواہشات کا آئینہ دار ہے اور یہ ضرورتیں اپنے مقام پر اقتصادی حالات اور شرائط کی پیداوار ہیں۔ اس بناء پر یہ نظریہ سو فیصد مادی ہے اور انبیائے الٰہی کا توحیدی مکتب بھی اپنے مقام پر اپنے زمانے کی معاشرتی ضرورتوں اور اقتصادی احتیاجات کی پیداوار ہے‘ یعنی پیداواری آلات ایسی معاشرتی خصوصیات کا سبب ہیں جن کی توحیدی فکر کی صورت میں توجیہہ کرنا پڑے گی اور انبیاء بھی درحقیقت اس معاشرتی اور اقتصادی ضرورت کے مبعوث کردہ ہوتے ہیں اور کسی فکر‘ عقیدہ و تصور کا اقتصادی بنیاد پر قائم ہونے کا یہی مفہوم ہے اور اسی میں توحید کو بھی شامل کیا گیا ہے۔
چونکہ قرآن انسان کے لئے فطرت کا قائل ہے اور فطرت کو انسانی وجود کا ایک بنیادی پہلو سمجھتا ہے جو اپنے مقام پر افکار اور احتیاجات کی بنیاد بنتا ہے لہٰذا قرآن انبیاء کی دعوت توحید کو اسی فطری ضرورت کا جواب دہ سمجھتا ہے اور عام انسانی اور توحیدی فطرت کے سوا کسی دوسری چیز کو توحید کی بنیاد قرار نہیں دیتا۔
اسی لئے طبقاتی شرائط کو کسی فکر یا عقیدے کا جبری عامل نہیں جانتا اور طبقاتی حالات بنیادی حیثیت کے حامل ہوں اور فطرت کی کوئی حیثیت نہ ہو‘ تو پھر جبراً ہر شخص کی فکر کے شاہین اور خواہشات کا رخ اسی طرف ہو گا جس طرف اس کی طبقاتی شرائط کا تقاضا ہو گا۔ ایسی صورت میں اختیار و انتخاب کی بات ختم ہو جائے گی‘ نہ تو فرعون جیسے قابل ملامت ہوں گے اور نہ ہی ان کے مخالف ستائش و تحسین کے لائق‘ کیوں کہ انسان اسی لئے مستحق ملامت یا لائق تحسین ہوتا ہے‘ جب وہ ارادہ و اختیار رکھتا ہو۔ لیکن اگر اس کے ہاتھ میں اس کا اختیار نہ ہو (جیسے سیاہ فام باشندوں کی سیاہی اور سفید فام باشندوں کی سفیدی) نہ تو وہ ملامت کا مستحق ہو گا اور نہ ہی لائق تحسین و ستائش۔ لیکن ہم جانتے ہیں کہ انسان طبقاتی سوچ کا غلام نہیں ہے۔ وہ اپنے طبقاتی مفادات کے خلاف قیام کر سکتا ہے جیسا کہ فرعون کے ناز و نعم سے پلنے والے حضرت موسیٰ نے قیام کیا تھا اور یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اس قسم کی گفتگو کرنا جہاں انسان کی انسانیت کو سلب کر لیا جائے وہاں ایک بے ہودہ اور باطل بات سے زیادہ کچھ بھی نہیں ہے۔
البتہ اس کا مطلب یہ بھی نہیں ہے کہ مادی حالت کا فکری کیفیت اور فکری کیفیت کا مادی حالت پر کوئی اثر نہیں ہوتا اور یہ ایک دوسرے پر بے اثر ہیں بلکہ اس کے معنی ایک کے غالب اور دوسرے کے مغلوب ہونے کی نفی ہے وگرنہ قرآن نے خود کہا ہے کہ
ان الانسان لیطغیٰ ان راہ استغنیٰ
”انسان جب اپنے آپ کو بے نیاز اور طاقت ور سمجھنے لگتا ہے تو باغی ہو جاتا ہے۔“(سورئہ علق‘ آیت ۷)
قرآن نے ایک طرف انبیاء کے خلاف سرمایہ داروں کے خصوصی کردار کا ذکر کیا ہے اور دوسری طرف یہ بھی بتایا ہے کہ مستضعفین نے انبیاء کی خصوصی حمایت کی ہے اور اس طرح سے یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ وہ ہر شخص میں‘ فطرت انسانی (کہ جو انسان کو دعوت بیداری دیتی ہے) کے وجود کا قائل ہے۔ ان دونوں گروہوں کے درمیان فرق یہ ہے کہ ان میں سے ایک گروہ (سرمایہ دار) کو روحانی اعتبار سے ایک بڑی رکاوٹ یعنی موجود مادی مفادات اور جن ظالمانہ امتیازات کو حاصل کیا ہے ان سے عبور کرنا ہو گا لیکن دوسرے گروہ کی راہ میں ایسی کوئی رکاوٹ نہیں ہے اور بقول سلمان فارسی ”نجی المحفون“ جن کا بوجھ ہلکا ہے‘ انہی کو نجات حاصل ہے بلکہ جہاں ان کی فطرت کو مثبت جواب فراہم کرنے کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہیں وہاں ایک سہولت اور بھی حاصل ہے اور وہ یہ کہ اپنی پرمشقت زندگی سے بہتر حالت تک پہنچتے ہیں اور اسی سبب پیغمبروں کے پیروکاروں میں اکثریت ان لوگوں کی رہی ہے جو اپنے معاشرے کے مستضعف لوگ تھے لیکن ہمیشہ ایسا ہوتا رہا ہے کہ انبیاء نے دوسرے گروہ میں سے اپنے حامی پیدا کئے اور انہیں اپنے طبقے اور طبقاتی نظام کے خلاف قیام پر ابھارا جیسا کہ مستضعفین کے گروہ میں سے کچھ لوگ اپنی بعض عادات و خصائل اور وراثتی میلانات وغیرہ کی وجہ سے انبیاء کے دشمنوں سے مل گئے۔ قرآن نے حضرت موسیٰ اور حضرت پیغمبر اکرم کے خلاف لوگوں کے جذبات کو بھڑکانے والے فرعونوں اور ابوسفیانوں کی اپنے زمانے کی شرک آلود نظام سے وابستگی اور حمایت کو طبقاتی نظام کی جبری سوچ پر محمول نہیں کیا اور یہ نہیں کہا کہ انہوں نے اپنے طبقاتی نظام کے تقاضے کی بناء پر ایسا کیا ہے اور وہ ایسی روش اختیار کرنے پر مجبور تھے اور ان کے عقائد میں معاشرتی تقاضوں کی چھاپ تھی‘ بلکہ قرآن نے یہ بات پیش کی کہ یہ لوگ دھوکہ باز تھے اور حقیقت کو خداداد فطرت پر سمجھنے کے باوجود اس کا انکار کرتے تھے۔
وجحد و ابھا و استیقنتھا انفسھم
(سورئہ نمل‘ آیت ۱۴)
قرآن کریم نے ان کے کفر کو کفر جحودی سے تعبیر کیا ہے یعنی دل میں اقرار اور زبان پر انکار۔ دوسرے الفاظ میں قرآن نے اس طرح کے انکار کو اپنے ضمیر کی آواز کے خلاف ایک طرح کے قیام سے تعبیر کیا ہے۔
ایک بڑی غلطی یہ ہوتی ہے کہ بعض افراد نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ قرآن‘ مارکسزم (Historical Materialism) کو قبول کرتا ہے۔ ہم اسلامی تصور کائنات سے متعلق اپنی بحث کے دوسرے حصے میں جہاں ”معاشرے اور تاریخ“ کا اسلامی نقطہ نظر سے جائزہ لیں گے‘ اس موضوع پر تفصیل کے ساتھ گفتگو کریں گے۔ یہ نظریہ نہ تو تاریخ کے عینی حقائق پر منطبق ہے اور نہ علمی اعتبار سے اس پر بحث کی جا سکتی ہے۔
بہرحال متعدد مبداء پر اعتقاد شرک در ذات ہے اور توحید ذاتی کا مدمقابل ہے۔ قرآن برہان (برہان تمانع) قائم کرتے ہوئے کہتا ہے:
لوکان فیھما الھا الا اللّٰہ لفسدتا(۱)
”اگر آسمان اور زمین میں اللہ کے سوا کئی خدا ہوتے تو یہ دونوں تباہ ہو چکے ہوتے۔“
بہرحال اس قسم کا اعتقاد اہل توحید کی صفت اور دائرئہ اسلام سے خارج ہو جانے کا باعث بنتا ہے اور اسلام شرک در ذات کو ہر صورت میں بطور کلی رد کرتا ہے۔
(ب) شرک در خالقیت
بعض قومیں اللہ کو بے مثل و مانند اور عالم ہستی کا واحد مبداء سمجھتی تھیں لیکن بعض دوسری قومیں مخلوقات کو اس کے ساتھ خالقیت میں شریک گردانتی تھیں مثلاً وہ کہتی تھیں کہ خداوند عالم ”شر اور برائی“ کی خلقت کا ذمہ دار نہیں بلکہ ”شر“ کو بعض دیگر مخلوقات نے جنم دیا ہے۔(۲)
اس طرح کا شرک جو خالقیت اور فاعلیت میں شرک ہے‘ توحید افعالی کا مدمقابل ہے۔ اسلام اس طرح کے شرک کو بھی ناقابل معافی سمجھتا ہے۔ البتہ شرک در خالقیت کے بھی اپنے مقام پر کئی درجات ہیں کہ جن سے بعض کا تعلق شرک خفی سے ہے نہ کہ شرک جلی سے‘ اور اس میں انسان اہل توحید کے زمرے اور دائرئہ اسلام سے مکمل طور پر خارج نہیں ہوتا۔
(ج) شرک صفاتی
شرک در صفات انتہائی دقیق اور مشکل ہونے کے سبب عام لوگوں کے درمیان موضوع گفتگو نہیں ہوتا۔ یہ موضوع صاحبان فکر و فہم اور اہل نظر کے لئے مخصوص ہے جو ان مسائل پر غور و فکر تو کرتے ہیں لیکن کافی مقدار میں تعمق و صلاحیت نہیں رکھتے۔ مسلمان متکلمین میں اشاعرہ اس طرح کے شرک کے مرتکب ہوئے اور اس طرح کا شرک بھی شرک خفی کہلاتا ہے البتہ دائرئہ اسلام سے خارج ہونے کا موجب نہیں بنتا۔
 

صرف علی

محفلین
(د) شرک در پرستش
بعض قومیں پرستش کے مرحلے میں لکڑی‘ پتھر‘ دھات‘ حیوان‘ ستارے‘ چاند‘ سورج‘ درخت یا دریا وغیرہ کو پوجتی رہی ہیں۔ اس نوعیت کا شرک کثرت سے تھا اور آج بھی دنیا کے بعض حصوں میں یہ موجود ہے۔ یہ شرک‘ شرک در عبادت میں شمار ہوتا ہے اور یہ توحید در عبادت کا مقابل ہے۔ اوپر بیان کئے جانے والے شرک کی اقسام اور مراتب نظری سے منسوب ہیں اور غلط معرفت پر مبنی ہیں لیکن یہ شرک‘ شرک عملی ہے اور اس کا تعلق غلط ہونے اور غلط انجام پانے سے ہے۔
البتہ شرک عملی کی بھی اقسام اور درجات ہیں اور ان میں سب سے بلند درجہ وہ ہے جو انسان کو دائرئہ اسلام سے خارج کر دیتا ہے اور جسے شرک جلی کہا جاتا ہے لیکن شرک خفی کی بعض ایسی اقسام ہیں کہ جن کا اسلام اپنی توحید عملی کے پروگرام میں سخت مقابلہ کرتا ہے۔ ان میں سے بعض شرک تو اتنے چھوٹے اور مخفی ہوتے ہیں جن کو طاقت ور ترین خوردبین سے بمشکل دیکھا جا سکتا ہے۔
جناب رسالت مآب سے ایک حدیث میں وارد ہوا ہے:
الشرک اخفی من دبیب الذر علی الصفافی اللیلة الظلما و ادناہ یحب علی شئی من الجور و یبغض علی شئی من العدل و ھل الدین الا الحب و البغض فی اللہ قال اللہ ان کنتم تحبون اللہ فاتبعونی یحببکم اللّٰہ(تفسیرالمیزان (عربی متن) آیت قل ان کنتم تحبون اللّٰہ فاتبعونی کے ذیل میں)۔
شرک کی چال اس چیونٹی کی چال سے بھی زیادہ مخفی ہے کہ جو گھپ اندھیری رات میں ایک صاف پتھر پر قدم جمائے آگے بڑھ رہی ہے۔ سب سے چھوٹا اور کم ترین شرک یہ ہے کہ انسان بہت معمولی ظلم کو پسند کرے اور اس پر راضی ہو جائے یا پھر بہت معمولی حد تک عدل سے دشمنی اختیار کرے۔ کیا دین اللہ کے لئے دوستی اور اللہ کے لئے دشمنی کے علاوہ بھی کوئی چیز ہے؟ خداوند عالم ارشاد فرماتا ہے:
”کہہ دو اے رسول! اگر تم اللہ سے دوستی کے دعویدار ہو تو میری پیروی کرو (میرے ان احکامات کی پیروی کرو جو اللہ کی طرف سے نازل ہوئے ہیں) اللہ تم کو دوست رکھے گا۔“
اسلام ہر طرح کی نفس پرستی‘ مقام پرستی‘ مال پرستی اور شخصیت پرستی کو شرک گردانتا ہے۔ قرآن جناب موسیٰ اور فرعون کے قصے میں بنی اسرائیل پر فرعون کے جابرانہ تسلط کو ”بندہ بنانے“ سے تعبیر کرتا ہے۔ خداوند عالم جناب موسیٰ کی زبانی فرعون سے اس کے جواب میں ارشاد فرماتا ہے:
وتلک نعمة تمنھا علی ان عبدت بنی اسرائیل (سورئہ اعراف‘ آیت ۱۲۷)
”یعنی تو نے ایک بنی اسرائیل کو اپنا بندہ بنا لیا ہے اور پھر مجھ پر احسان جتاتا ہے کہ جب میں تیرے گھر میں تھا تو ایسا یا ویسا تھا؟“
واضح سی بات ہے کہ بنی اسرائیل نہ تو فرعون کی پرستش کرتے تھے اور نہ ہی فرعون کے غلام تھے بلکہ اس کے ظالمانہ طاغوتی نظام کے تحت تسلط تھے۔ قرآن ایک اور مقام پر فرعون کی زبان سے اس غلبے اور ظالمانہ تسلط کو ان الفاظ میں نقل کرتا ہے:
انا فوقھم قاھرون (سورئہ مومنون‘ آیت ۴۷)
”لوگ ہمارے ماتحت اور ہم ان پر حاکم اور قاہر ہیں۔“
اسی طرح ایک اور مقام پر پھر فرعون کی زبان سے نقل کرتا ہے:
وقومھالنا عابدون
”یعنی جناب موسیٰ اور ہارون کی قوم (بنی اسرائیل) ہماری غلام ہے۔“
اس آیہ کریمہ میں ”لنا“ کا لفظ (ہمارے لئے) اس امر کا بہترین قرینہ ہے کہ یہاں پرستش مراد نہیں ہے کیوں کہ اگر بالفرض بنی اسرائیل پرستش پر مجبور ہوتے تو وہ تنہا فرعون کی پرستش کرتے نہ کہ فرعون کے سب ساتھیوں کی۔ وہ چیز جو فرعون اور فرعون کے تمام ساتھیوں کی طرف سے (جسے قرآن کی اصطلاح میں ”ملا“(۱) فرعون) ان پر مسلط کی گئی تھی‘ جبری اطاعت تھی۔
حضرت علی علیہ السلام خطبہ قاصعہ میں فرعون کے ہاتھوں بنی اسرائیل کی محکومیت اور اس کے ظالمانہ تسلط کو بندہ بنانے سے تعبیر کرتے ہیں اور فرماتے ہیں:
اتخذ تھم الفراعنة عبیدا
”فراعنہ نے انہیں اپنا عبد بنا رکھا تھا۔“
اس کے بعد آپ اس بندگی کی وضاحت یوں کرتے ہیں:
فسا موھوم العذاب و جرعوھم المرار فلم تبرح الحال بھم من ذل الھلکۃ و قھر الغلبۃ لا یجدون حیلۃ فی امتناع و لا سبیلا الی دفاع
”فرعونوں نے انہیں تکلیفیں دیں‘ عذاب میں ڈالا‘ کڑوے گھونٹ پلائے‘ لوگ ہلاکت میں ڈالنے والی ذلت اور دشمن کی ظالمانہ فرماں روائی پر مبنی مقہوریت میں اپنی زندگی کے دن کاٹ رہے تھے ان کے پاس اپنے بچاؤ کا کوئی راستہ نہیں تھا۔“
سب سے زیادہ واضح اور روشن گفتگو اس آیت میں ہے جس میں اہل ایمان سے خلافت الٰہیہ کا وعدہ کیا گیا ہے۔ ارشاد ہوتا ہے:
وعد اللّٰہ الذین امنوا منکم و عملوا الصالحات لیستخلفنھم فی الارض کما استخلف الذین من قبلھم و لیمکنن لھم دینھم الذی ارتضی لھم و لیبد لنھم من بعد خوفھم امنا یعبدوننی لا یشرکون بی شیئا (سورئہ نور‘ آیت ۵۵)
”خداوند عالم نے ان سب لوگوں سے جو تم میں ایمان لائے اور جنہوں نے نیک عمل انجام دیئے‘ یہ وعدہ کیا ہے کہ ضرور ان کو زمین کی خلافت دے گا جیسا کہ ان سے پہلے والوں کو دے چکا ہے اور ان کے اس دین کو جسے اس نے ان کے لئے پسند کر لیا ہے‘ اقتدار عطا کرے گا اور ان کے خوف کو امن سے بدل دے گا‘ اس وقت وہ میری عبادت کریں گے اور کسی چیز کو میرا شریک نہیں ٹھہرائیں گے۔“
اس آیت کا آخری جملہ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ جب حق کی حکومت اور خلافت الٰہیہ کا قیام عمل میں آئے گا اور اہل ایمان ہر ظالم کی قید اطاعت سے آزاد ہوں گے تو وہ صرف میری عبادت کریں گے اور کسی کو میرا شریک نہیں بنائیں گے۔ یہاں سے یہ بات معلوم ہو جاتی ہے کہ قرآن کی نظر میں ہر حکم کی اطاعت عبادت ہے‘ اگر خدا کے لئے ہو تو اطاعت الٰہی ہے اور اگر غیر اللہ کے لئے ہو تو شرک ہے۔
یہ ایک عجیب بات ہے کہ جبری اطاعتیں جو اخلاقی نقطہ نظر سے ہرگز عبادت نہیں ہیں معاشرتی نقطہ نگاہ سے عبادت محسوب ہوتی ہیں- رسول اکرم ۱کا ارشاد ہے:
اذا بلغ بنو العاص ثلثین اتخذوا مال اللّٰہ دولا و عباد اللّٰہ خولا و دین اللہ دخل(شرح ابن ابی الحدید‘ شرح نہج البلاغہ‘ خطبہ ۱۲۸ کی شرح)
”جس وقت عاص بن امیہ کی اولاد (مروان بن حکم کا دادا اور اکثر خلفائے بنی امیہ) ۳۰ کی تعداد تک پہنچ جائے گی تو اللہ کا مال ان کے درمیان تقسیم ہونے لگے گا اور یہ لوگ اللہ کے بندوں کو اپنا بندہ قرار دیں گے اور اللہ کے دین میں دخل اندازی کریں گے۔“
یہاں پر بنی امیہ کے ظلم و استبداد کی طرف اشارہ ہے۔ ظاہر ہے کہ بنی امیہ نہ لوگوں کو اپنی پرستش کی دعوت دیتے تھے اور نہ انہوں نے لوگوں کو اپنا غلام بنایا ہوا تھا‘ بلکہ انہوں نے لوگوں پر اپنے استبداد اور جبر کو مسلط کر رکھا تھا‘ جناب رسول خدا نے اپنی مستقبل بین الٰہی نگاہوں سے اس صورت حال کو ایک طرح کا شرک اور ”رب و مربوب“ کا رابطہ قرار دیا ہے۔
توحید اور شرک کی حدود
توحید اور شرک نظری ہو یا عملی اس کی ٹھیک حد کیا ہے؟ کون سی فکر توحیدی ہے اور کون سی مشرکانہ؟ کس طرح کا عمل توحیدی ہے اور کس طرح کا مشرکانہ؟ کیا اللہ کے سوا کسی اور ہستی پر ایمان رکھنا شرک ہے؟ (شرک ذاتی) اور کیا توحید ذاتی کا لازم یہی ہے کہ اللہ کے سوا کسی چیز کی موجودیت (چاہے وہ مخلوق کی حیثیت ہی سے کیوں نہ ہو) پہ ایمان نہیں رکھنا چاہئے (ایک طرح کا عقیدہ وحدت وجود)؟
مخلوق خدا کا فعل خدا ہونا ایک واضح سی بات ہے۔ فعل خدا خود اس کی شانوں میں سے ایک شان ہے‘ کوئی اس کا ثانی نہیں اور کوئی اس کے مدمقابل نہیں۔ اللہ کی مخلوقات اس کی فیاضیت کی تجلیاں ہیں۔ مخلوق ہونے کی حیثیت میں وجود مخلوق پر اعتقاد توحید کی ضد نہیں ہے‘ بلکہ اسے تمام اور مکمل کرنے والی ہے۔ پس توحید و شرک کی حد کسی دوسری چیز کا وجود رکھنا یا نہ رکھنا چاہے وہ اسی مخلوق سے کیوں نہ ہو‘ نہیں ہے۔
کیا سببیت و مسببیت اور تاثیر و تاثر پر اعتقاد رکھنا شرک ہے؟ (خالقیت اور فاعلیت میں شرک) اور کیا توحید افعالی کا لازم یہ ہے کہ ہم دنیا کے سبب و مسبب کے نظام کا انکار کریں اور ہر سبب اور ہر اثر کو براہ راست اور بلاواسطہ خدا سے نسبت دیں اور اسباب کے لئے کسی کردار کے قائل نہ ہوں؟ مثلاً ہم یہ کہیں کہ آگ کا جلنے میں‘ پانی کا سیراب کرنے میں‘ بارش کا نشوونما میں اور دوا کا صحت دینے میں کوئی کردار نہیں‘ اورخدا ہی ہے جو بطور مستقیم صحت دیتا ہے‘ بطور مستقیم سیراب کرتا ہے‘ بطور مستقیم نشوونما کرتا ہے اور بطور مستقیم ہی صحت بخشتا ہے اور ان عوامل کا ہونا نہ ہونا یکساں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ کا طریقہ یہی ہے کہ اپنے کاموں کو ان امور کے ذریعے انجام دے مثلاً اگر انسان کی عادت یہ ہو کہ ہمیشہ لکھتے وقت اپنی ٹوپی سر پر رکھتا ہو تو اگر ٹوپی کے ہونے یا نہ ہونے کی لکھنے میں کوئی تاثیر نہیں ہے‘ لیکن لکھنے والا یہ نہیں چاہتا کہ ٹوپی کے بغیر لکھے۔ اشیاء کا ہونا یا نہ ہونا کہ جنہیں ہم عوامل و اسباب کہتے ہیں اسی مثال کی مانند ہیں اور اگر ہم اس کے سوا کسی اور چیز کے قائل ہوتے ہیں تو گویا ہم خدا کی فاعلیت میں نہ صرف ایک بلکہ کئی شریک قرار دیتے ہیں۔ (اشارہ اور جبری مکتب فکر)
یہ نظریہ بھی درست نہیں ہے جس طرح مخلوق پر ایمان شرک ذاتی اور خدا کے مقابل ایک دوسرے خدا اور محور پراعتقاد کے مساوی نہیں بلکہ اس سے خدائے واحد کے وجود پر اعتقاد مکمل ہوتا ہے۔ اسی طرح اگر ہم اس امر پر توجہ کرتے ہوئے کہ مخلوقات جس طرح اپنی ذات میں مستقل نہیں تاثیر میں بھی استقلال سے عاری ہیں اور اسی کے وجود سے موجود اور اسی تاثیر سے موثر ہیں۔ تو نظام کائنات میں مخلوقات کے کردار اور تاثیر و تاثر پر اعتماد بھی شرک در خالصیت نہیں ہے بلکہ یہ اعتقاد خداوند عالم کی خالصیت کو مکمل کرتا ہے‘ ہاں! اگر ہم مخلوقات کے لئے تاثیر‘ استقلال اور تفویض کے قائل ہو جائیں اور یہ سوچنے لگیں کہ کائنات سے خدا کی نسبت ایسے ہی ہے جیسے صنعت گر کی صنعت کے ساتھ (مثلاً گاڑی بنانے والی کی گاڑی کے ساتھ نسبت) اس طرح کہ صنعت اپنے وجود میں آنے کے لئے صنعت گر کی محتاج ہوتی ہے لیکن جب یہ وجود میں آ جاتی ہے تو ایک خاص طریقے پر اپنا کام جاری رکھتا ہے‘ صنعت گر کا صنعت کے بنانے میں تو ہاتھ ہوتا ہے‘ لیکن چیز کے بن جانے کے بعد اس کے کام کرنے میں نہیں۔ اگر گاڑی بنانے والا مر بھی جائے تب بھی گاڑی اپنا کام انجام دے گی۔ اگر ہم اس انداز میں سوچنا شروع کر دیں کہ اللہ کے ساتھ کائنات کے عوامل جیسے پانی‘ بارش‘ بجلی‘ حرارت‘ مٹی‘ گھاس‘ حیوان اور انسان وغیرہ کی نسبت بھی ایسے ہی ہے (جیسا کہ معتزلہ اتفاق سے اسی چیز کے قائل ہیں) تو یہ قطعی طور پر شرک ہے۔ مخلوق اپنے وجود میں آنے اور بقا کے لئے خالق کی محتاج ہے۔ اپنی بقا اور تاثیر کے لئے اتنی ہی محتاج ہے جتنی اپنے وجود میں آنے کے لئے‘ یہ کائنات عین فیض‘ عین تعلق‘ عین ارتباط‘ عین وابستگی اور عین ”اسی سے“ ہے۔ لہٰذا اشیاء کی تاثیر اور ان کی سببیت عین تاثیر اور سببیت خدا ہے۔ انسان ہو یا غیر انسان کائنات کی توانائیوں اور قوتوں کی خلاقیت عین خلاقیت خدا اور اس کی فاعلیت کا پھیلاؤ ہے‘ بلکہ کارخانہ عالم میں اشیاء کے عمل دخل کی سوچ شرک ہے اور یہ فکر ہمارے ذہنوں میں اس امر کا نتیجہ ہے کہ ہم نے اپنی نادانی کی بناء پر ذات حق کے مقابل موجودات کو مستقل گردانا ہے اور اسی سبب اگر موجودات کا اثرانداز ہونے میں کوئی کردار ہو تو ہم ان تاثیرات کو دوسرے محوروں کی طرف موڑ دیتے ہیں‘ پس توحید و شرک کی حد یہ نہیں ہے کہ ہم تاثیرات اور اسباب میں غیر خدا کے لئے کسی کردار کے قائل ہوں یا نہ ہوں۔
کیا مافوق الفطرت طاقت و تاثیر پر ایمان توحید و شرک کی حد ہے؟ یعنی فطرت کے عام قوانین سے ماوراء طاقت کی حامل ہستی پر ایمان خواہ وہ فرشتہ ہو یا انسان (مثلاً پیغمبر یا امام) شرک ہے لیکن متعارف اور معمولی حد میں کسی قوت و تاثیر پر اعتقاد شرک نہیں ہے اسی طرح کیا دنیا سے چلے جانے والے انسان کی طاقت و تاثیر پر اعتقاد شرک ہے کیوں کہ مردہ انسان تو جماد ہے اور طبیعی قوانین کی رو سے جماد نہ شعور رکھتا ہے نہ طاقت اور نہ ار ادہ‘ پس مرنے والے کی قوت ادراک پر ایمان‘ اسے سلام کرنا‘ اس کی تعظیم بجا لانا‘ اسے احترام کی نظر سے دیکھنا‘ اسے اپنی حاجتوں کے لئے بلانا اور اس سے کچھ چاہنا شرک ہے؟ کیوں کہ اس سے غیر خدا کے ماورائے طبیعی طاقت پر اعتقاد لازم آتا ہے‘ اسی طرح کیا اشیاء کے لئے پراسرار اور ناقابل شناخت تاثیرات کا عقیدہ شرک ہے اور کسی شے کے لئے شفا دینے کی تاثیر یا استجابت کے لئے کسی خاص مکان کی خصوصیت پر عقیدہ گمراہی ہے؟ کیوں کہ یہ امر کسی شے کے بارے میں مافوق الفطرت طاقت پر ایمان کا لازم ہے کیوں کہ کائنات کی ہر قدرتی و فطری چیز قابل شناخت‘ قابل تجربہ‘ قابل حس اور قابل لمس ہے لہٰذا اشیاء کے لئے مطلق تاثیر کا عقیدہ شرک نہیں ہے (جیسا کہ اشاعرہ کا خیال ہے) بلکہ اشیاء کے لئے ماورائے طبیعت تاثیر کا عقیدہ شرک ہے‘ پس ہستی دو حصوں میں تقسیم ہوتی ہے۔ ایک طبیعت دوسرا ماورائے طبیعت‘ ماورائے طبیعت اللہ تعالیٰ کا خاص دائرئہ کار ہے اور عالم طبیعت مخلوق کا خاص دائرئہ کار ہے یا پھر یہ خدا اور مخلوق دونوں کی مشترک قلم رو ہے۔
بعض کاموں کا تعلق ماورائے طبیعی پہلوؤں سے ہے مثلاً احیاء (زندہ کرنا) و اماتہ (مارنا)‘ روزی دینا اور ایسے دیگر کام اور باقی معمول اور غیر معمول کے کام اللہ کے افکار سے مختص ہیں اور باقی کام مخلوقات کے دائرئہ کار میں آتے ہیں۔ یہ بات توحید نظری کے پہلو سے ہے۔
لیکن توحید عملی کے پہلو سے غیر اللہ کی طرف ہر قسم کی معنوی توجہ یعنی توجہ کرنے والے کا چہرہ و زبان دوسرے شخص کے چہرے اور کان کی طرف متوجہ نہ ہو بلکہ توجہ کرنے والا اپنے اور مدمقابل شخص کے درمیان ایک طرح کا قلبی و معنوی رابطہ برقرار کرنا چاہتا ہو‘ اور اسی رابطے کے ساتھ اسے بلائے‘ اپنی طرف متوجہ کرے‘ اس سے متوسل ہو جائے اور اجابت کی تمنا کرے‘ یہ سب کچھ شرک اور غیر اللہ کی پرستش میں آتا ہے۔ اس لئے کہ عبادت الٰہی انہی چیزوں کا نام ہے اور غیر اللہ کی عبادت بحکم عقل اور بضرورت شرع جائز نہیں اور اس سے انسان لازمی طور پر اسلام سے نکل جاتا ہے‘ علاوہ ازیں اس طرح کے اعمال کی بجا آوری اس چیز سے قطع نظر کہ یہ غیر اللہ کے لئے عبادت کا عملی نمونہ ہے اور بالکل وہی طریقہ ہے جو مشرک اپنے بتوں کے لئے انجام دیتے تھے اور یہ چیز مدنظر شخصیت (پیغمبر یا امام) کے لئے ماورائے طبیعی طاقت پر اعتقاد کو بھی ظاہر کرتی ہے (عصر حاضر میں وہابیوں اور وہابی نماؤں کا نظریہ یہی ہے)۔
اس نظریے کو ہمارے زمانے میں کسی حد تک فروغ حاصل ہوا ہے اور ایک خاص طبقے میں روشن فکری کی علامت بن گیا ہے۔ لیکن مختلف توحیدی معیاروں کو سامنے رکھتے ہوئے یہ نظریہ توحید ذاتی کے لحاظ سے اشاعرہ کے نظریے کی حد تک شرک سے آلودہ ہے اور خالصیت اور فاعلیت میں توحید کی رو سے اسے شرک آمیز ترین نظریات میں سے ایک قرار دیا گیا ہے۔
پہلے اشاعرہ کے نظریہ کی رو میں عرض کر چکے ہیں کہ اشاعرہ نے اشیاء سے اس لئے تاثیر اور سببیت کی نفی کی ہے کہ اس کا لازمی نتیجہ اشیاء کی تاثیر اور سببیت پر اعتقاد اللہ کے مقابل دوسرے محوروں اور دوسری حقیقتوں پر ایمان کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے اور ہم نے یہ بھی کہا تھا کہ اشیاء اس صورت میں اللہ کے مقابل محور و منبع بنتی ہیں جب وہ اپنی ذات میں مستقل ہوں‘ یہاں سے یہ پتہ چلتا ہے کہ اشاعرہ غیر شعوری طور پر اشیاء کے لئے ایک طرح کے استقلال ذاتی کے قائل ہیں جس کا لازمہ شرک ذاتی ہے۔ لیکن یہ لوگ غفلت کا شکار تھے اور چاہتے تھے کہ اشیاء کی تاثیر کا انکار کر کے توحید در خالصیت کو استحکام بخشیں لہٰذا انہوں نے شرک در خالصیت کو رد کرنے کے خیال سے لاشعوری طور پر شرک در ذات کی تائید کر دی ہے۔
بعینہ یہی اعتراض وہابی قسم کے افراد کے نظریے پر ہوتا ہے‘ یہ لوگ بھی غیر شعوری طور پر اشیاء کے لئے ایک طرح کے استقلال ذاتی کے قائل ہیں اور اسی لئے معمولی عوامل کے ماورائے طبیعی کردار پر اعتقاد کو اللہ کے مقابل ایک محور اور ایک طاقت پہ اعتقاد کا باعث بنتے ہیں اور اس بات سے غافل ہیں کہ وہ ہستی یا وہ وجود جو اسی تمام تر ہویت کے ساتھ ارادہ حق سے وابستہ ہے اور اپنی کوئی مستقل حیثیت نہیں رکھتا اس کی مافوق الطبیعی تاثیر خود اپنے ساتھ منسوب ہونے سے پہلے حق کی طرف ہوتی ہے اور اس کا وجود اشیاء تک فیض حق کے گزرنے کے لئے ایک وسیلے سے زیادہ کچھ نہیں کیا۔ جبرائیل کا فیض وحی و علم‘ میکائیل کا رزق کے لئے‘ اسرافیل کا احیاء کے لئے اور عزرائیل (ملک الموت) کا قبض ارواح کے لئے وسیلہ ہونا شرک ہے؟
توحید در خالصیت کے اعتبار سے یہ نظریہ شرک کی بدترین انواع میں سے ہے‘ اس لئے کہ اس میں خالق و مخلوق کے درمیان ایک طرح سے کام کی تقسیم عمل میں آئی ہے اور ماورائے طبیعی یا مافوق الفطرت امور کو خاص اللہ کی حدود اور طبیعی امور کو خاص اللہ کی مخلوقات یا بطور اشتراک خدا یا مخلوق کی حدود میں شمار کیا گیا ہے۔ مخلوق کے لئے مخصوص قلم رو اور دائرئہ کار کا عقیدہ شرک در فاعلیت ہے‘ یہی حال اشتراکی حدود کا بھی ہے اور یہ بھی شرک در فاعلیت کی ایک دوسری قسم ہے۔
رائج تصور کے برخلاف‘ وہابیت صرف امامت کے خلاف ایک نظریہ نہیں ہے بلکہ امامت کا مخالف ہونے سے پہلے توحید اور انسان کا بھی مخالف ہے۔ توحید کا مخالف اس اعتبار سے ہے کہ اس نے خالق و مخلوق کے درمیان کام کی تقسیم کی ہے۔ اس کے علاوہ وہ ایک طرح کے خفی شرک ذاتی کا قائل ہے‘ جس کی وضاحت ہم پہلے کر چکے ہیں اور انسان کا مخالف اس اعتبار سے ہے کہ وہ انسان کی انسانی صلاحیت کو درک نہیں کرتا جس کی رو سے ملائکہ اس کے سجدے پر مامور ہوئے ہیں اور اس نے انسان کو ایک فطری حیوان کی حد میں لاکھڑا کیا ہے۔
اس کے علاوہ مردہ اور زندہ کے درمیان اس شکل میں جدائی کہ مردہ دوسری دنیا میں بھی زندہ نہیں ہے اور اس کی تمام شخصیت اس کا بدن ہے کہ جو جماد کی صورت اختیار کر لیتا ہے۔ ایک مادی اور غیر الٰہی سوچ ہے اور ہم آئندہ معاد کی بحث میں اس موضوع پر گفتگو کریں گے‘ نامعلوم مرموز و مجہول اثرات اورمعلوم آثار کے درمیان تفکیک اور پہلے کو دوسرے کے برخلاف ماورائے طبیعی جاننا شرک کی ایک دوسری قسم ہے۔
رائج تصور کے برخلاف‘ وہابیت صرف امامت کے خلاف ایک نظریہ نہیں ہے بلکہ امامت کا مخالف ہونے سے پہلے توحید اور انسان کا بھی مخالف ہے۔ توحید کا مخالف اس اعتبار سے ہے کہ اس نے خالق و مخلوق کے درمیان کام کی تقسیم کی ہے۔ اس کے علاوہ وہ ایک طرح کے خفی شرک ذاتی کا قائل ہے‘ جس کی وضاحت ہم پہلے کر چکے ہیں اور انسان کا مخالف اس اعتبار سے ہے کہ وہ انسان کی انسانی صلاحیت کو درک نہیں کرتا جس کی رو سے ملائکہ اس کے سجدے پر مامور ہوئے ہیں اور اس نے انسان کو ایک فطری حیوان کی حد میں لا کھڑا کیا ہے۔ اس کے علاوہ مردہ اور زندہ کے درمیان اس شکل میں جدائی کہ مردہ دوسری دنیا میں بھی زندہ نہیں ہے اور اس کی تمام شخصیت اس کا بدن ہے کہ جو جماد کی صورت اختیار کر لیتا ہے‘ ایک مادی اور غیر الٰہی سوچ ہے اور ہم آئندہ معاد کی بحث میں اس موضوع پر گفتگو کریں گے‘ نامعلوم مرموز و مجہول اثرات اور معلوم آثار کے درمیان تفکیک اور پہلے کو دوسرے کے برخلاف ماورائے طبیعی جاننا شرک کی ایک دوسری قسم ہے۔
یہی وہ مام ہے جہاں رسول اکرم کی اس بات کا مفہوم ہماری سمجھ میں آتا ہے کہ سیاہ رات میں سخت پتھر پر سیاہ چیونٹی کی مدھم اور غیر محسوس چال کی طرح شرک انسان کے عقائد و افکار میں نہایت آہستگی سے قدم آگے بڑھاتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ خدا نے انسان اور کائنات کے بارے میں توحید اور شرک کی حد ”اسی سے ہونا“ اور ”اسی کی طرف لوٹنا“ ہے۔ توحید نظری میں توحید و شرک کی حد ”اسی سے وابستگی“ (اناللہ) ہے۔ جس حقیقت اور جس وجود کو ہم ذات و صفات و افعال میں ”اسی سے وابستگی“ کی ھویت و خصلت کے ساتھ جانیں گے تو ہماری یہی شناخت درست حقیقت کے مطابق اور توحیدی نگاہ ہو گی خواہ وہ شے ایک یا کئی اثرات کی حامل ہو یا نہ ہو اور خواہ ماورائے طبیعی پہلو رکھتی ہو یا نہ رکھتی ہو‘ اس لئے کہ خدا صرف آسمان‘ ماورائے طبیعت اور ملکوت و جبروت کا خدا نہیں ہے بلکہ پوری کائنات کا خدا ہے۔ وہ عالم طبیعت کے اتنا ہی زیادہ نزدیک ہے اور معیت و قیومیت رکھتا ہے جتنی ماورائے طبیعت کے ساتھ اور کسی موجود کا ماورائے طبیعی پہلو رکھنا اسے خدائی پہلو عطا نہیں کرتا۔ ہم پہلے کہہ چکے ہیں کہ کائنات اسلامی تصور کائنات کی رو سے ”اسی سے ہونے“ کی ماہیت کی حامل ہے۔ قرآن کریم اپنی متعدد آیات میں مردہ کو زندہ کرنے اور پیدائشی اندھے کو شفا دینے جیسے معجزانہ کاموں کو بعض انبیاءسے نسبت دیتا ہے لیکن اس کے ساتھ باذنہ کے لفظ کا اضافہ کرتا ہے۔ یہ لفظ جملہ امور میں ”اسی سے ہونے“ کی ماہیت کو ظاہر کرتا ہے تاکہ کوئی یہ نہ سمجھے کہ انبیاء۱اپنی ذات میں مستقل ہیں۔ پس توحید نظری اور شرک نظری کی حد ”اس سے ہونا“ ہے ایسے وجود کی موجودیت پر اعتقاد جو ”اس سے“ نہ ہو شرک ہے اور اس موجود کی تاثیر پر اعتقاد کہ جس کا موثر ہونا ”اس سے“ نہ ہو یہ بھی شرک ہے خواہ زمین و آسمان کی خلقت جیسا مافوق الطبیعی اثر ہو یا پتے کے ہلنے کی طرح معمولی اور نہایت چھوٹا اثر توحید عملی میں توحید و شرک کی حد ”اسی کی سمت“ ہے (انا الیہ راجعون) ہر موجود پر توجہ خواہ وہ ظاہری توجہ ہو یا باطنی اگر حق کی سمت آگے بڑھنے کے لئے توجہ بطور ایک راہ ہو‘ اور اسے مقصد نہ بنایا جائے تو یہ خدا کی طرف توجہ ہو گی ہر حکومت اور ہر راستے پر اس عنوان سے توجہ کہ یہ راستہ ہے اور راستے کی علامتوں اور نشانیوں پر‘ علامتوں اور نشانیوں ہی کے عنوان سے توجہ صرف اس لئے کہ راستہ کھو نہ جائے یا مقصد سے دوری پیدا نہ ہو ”مقصد کی سمت ہونا“ اور ”مقصد کی سمت بڑھنا“ ہے۔
انبیاءاور اولیاء کے راستے ہیں:
انتم السبیل الاعظم والصراط الاقوم (زیارت جامعہ کبیر کے جملے ہیں)
یہ ہستیاں میرے اللہ کے راستے کی طرف جانے کی علامات اور نشانیاں ہیں۔
و اعلاما لعبادہ و منارا فی بلادہ و ادلاء علی صراطہ (زیارت جامعہ کبیر کے جملے ہیں)
یہ لوگ ہادی اور حق کی جانب رہنمائی کرنے والے ہیں۔
الدعاة الی اللّٰہ والا دلاء علی مرضاة اللّٰہ (زیارت جامعہ کبیر کے جملے ہیں)
پس مسئلہ یہ نہیں ہے کہ اولیاءکو پکارنا‘ ان کی زیارت کرنا‘ ان سے توسل رکھنا اور ان سے مافوق طبیعی امر کی توقع رکھنا شرک ہے بلکہ مسئلہ کچھ اور ہے۔
سب سے پہلے ہمیں یہ معلوم کرنے کی ضرورت ہے کہ آیا اولیاءنے مراتب قرب الٰہی میں اتنی بلندی حاصل کی ہے کہ حق تعالیٰ کی طرف سے اس حد تک مستحق عنایت الٰہی ہوں؟ قرآن کریم سے یہ استفادہ ہوتا ہے کہ خداوند عالم نے اپنے بعض بندوں کو ایسے مقامات اور درجات عنایت فرمائے ہیں۔(دیکھئے مولف محترم کی کتاب ولائھا و ولایتھا)
دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ جو لوگ وسیلہ پیدا کرتے ہیں زیارت کے لئے جاتے ہیں اور اپنی حاجت طلب کرتے ہیں ایک توحیدی اعتبار سے صحیح ادراک کے حامل ہیں یا نہیں؟ کیا واقعی یہ لوگ ”اسی کی سمت“ کے مقصد سے زیارت کو جاتے ہیں یا ”اس کو“ فراموش کر کے صاحب زیارت کو مقصد قرار دیتے ہیں بلاشک لوگوں کی اکثریت اسی جبلی توجہ کے ساتھ زیارت کو جاتی ہے۔ ممکن ہے بہت کم لوگ ایسے بھی ہوں جو اگرچہ جبلی حد تک ہی سہی توحیدی فکر کے حامل نہ ہوں تو ایسے لوگوں کو توحید کا درس دینے کی ضرورت ہے نہ کہ زیارت کو شرک قرار دیا جائے۔
تیسرا مسئلہ یہ ہے کہ وہ اقوال و افعال جو تسبیح و تکبیر و تحمید پر دلالت کرتے ہیں غیر اللہ کے لئے شرک ہیں کیوں کہ یہ براہ راست ذات کامل علی الطلاق اور غنی علی الاطلاق کی ستائش ہیں اور سبوح مطلق و منزہ مطلق ہر نقص و عیب سے مبرا ہے۔ وہی بزرگ مطلق ہے اور صرف اسی کی طرف تمام تعریفیں لوٹتی ہیں۔ تمام ”حول“ اور تمام ”قوتیں“ اسی کی ذات سے قائم ہیں۔ اس طرح کی تعریفیں چاہے قولی صورت میں ہوں یا فعلی غیر اللہ کے لئے شرک ہیں اور ہم پہلے اس موضوع پر بحث کر چکے ہیں کہ کس طرح کے امور عبادت میں شامل ہیں۔
 

صرف علی

محفلین
صدق و اخلاص
خدا شناسی خود بخود انسان کی تمام شخصیت‘ اس کی روح‘ اس کے اخلاق اور اس کے اعمال پر اپنا اثر قائم کرتی ہے۔ اس تاثیر کی مقدار کا دار و مدار انسان کے اپنے ایمان پر ہے جتنا ایمان قوی تر اور شدید تر ہو گا اتنا ہی وجود انسانی میں خدا شناسی کا نفوذ بیشتر ہو گا اور وہ انسان پر زیادہ گہرے نقوش چھوڑے گا۔
انسان میں خدا شناسی کی تاثیر مراتب و درجات کی حامل ہے۔ کمال انسانی اور تقرب الٰہی کے اعتبار سے انسان الٰہی درجات سے وابستہ ہے اور ان سب کو ”صدق“ و ”اخلاص“ کہا جاتا ہے یعنی یہ سب درجات‘ صدق و اخلاص کے درجات ہیں۔
اس کی وضاحت کچھ یوں ہے کہ پہلے ہم عرض کر چکے ہیں جب ہم اللہ کی طرف متوجہ ہوتے ہیں اور اس کی عبادت کرتے ہیں تو یوں اظہار کرتے ہیں کہ صرف تو ہی مستحق اطاعت و بندگی ہے اور میں تیرے مقابل تسلیم محض ہوں۔ اس طرح کھڑا ہونا اور یہ الفاظ ادا کرنا عبادت ہے اور الہہ کے سوا اور کسی کے لئے جائز نہیں لیکن ہمارا یہ اظہار و اقرار کس حد تک ”صدق“ کا حامل ہے یعنی ہم نے منزل عمل میں کس حد تک غیر خدا کے مقابل قید تسلیم سے رہائی حاصل کی ہے اور کہاں تک ذات احدیت کے مقابل تسلیم محض میں ہیں؟ اس کا انحصار ہمارے درجہ ایمان پر ہے۔
یقینا تمام لوگ اپنے صدق اخلاص کے اعتبار سے ایک منزل پر نہیں ہیں بعض لوگ اس حد تک آگے بڑھ جاتے ہیں کہ امر الٰہی کے سوا ان کے وجود پر کچھ اور حاکم نہیں ہوتا۔ ان کا ظاہر و باطن اللہ کی فرماں برداری پر مامور ہے‘ نہ تو ہوائے نفس اور نفسانی خواہشات انہیں ادھر سے ادھر سرکا سکتی ہیں اور نہ کوئی شخص انہیں اپنے احکامات کے تابع کر سکتا ہے۔ وہ اپنی نفسانی خواہشات کو صرف اس حد تک عمل کرنے کی اجازت دیتے ہیں جو رضائے الٰہی کے موافق ہو (البتہ رضائے الٰہی وہ راستہ ہے‘ جو انسان کو اپنے حقیقی کمال تک پہنچاتا ہے) اور اس میں وہ ماں‘ باپ اور معلم جیسے دیگر افراد کی اطاعت اسی حد تک کرتا ہے جس حد تک اللہ نے اس کی اجازت دی ہے جب کہ بعض لوگ اس سے بھی آگے بڑھ جاتے ہیں اور اللہ کے سوا ان کا کوئی محبوب و مطلوب نہیں ہوتا۔ خدا ہی ان کا اصل محبوب و معشوق ہوتا ہے۔ یہ لوگ عقل خدا کو اس اصول کی بنیاد پر چاہتے ہیں اور ان سے محبت کرتے ہیں کہ جو کوئی کسی سے محبت کرتا ہے تو اس کے آثار‘ اس کی چیزیں اور اس کی نشانیاں اس کے لئے عزیز ہوتی ہیں اور وہ ان سے محبت کرتا ہے۔ اس بناء پر وہ اس لئے دوست رکھتا ہے کہ آثار‘ مخلوقات‘ الٰہی آیات‘ نشانیاں سب اللہ کی یاد دلاتی ہیں‘ کچھ لوگ اس سے بھی زیادہ آگے بڑھتے ہیں اور انہیں اللہ اور اس کے جلوؤں کے سوا اور کچھ دکھائی نہیں دیتا یعنی وہ اللہ کو ہر چیز میں دیکھتے ہیں ہر چیز ان کے لئے آئینے کی مانند ہوتی ہے اور ان کے لئے یہ دنیا گویا ایک آئینہ گھر ہے کہ جس طرف نگاہ اٹھائیں اسی کو اسی کے جلوؤں کو دیکھتے ہیں‘ گویا ان کی زبان حال کچھ یوں کہتی ہے:
صحرا کو دیکھوں تو صحرا میں تو ہے
دریا میں دیکھوں تو دریا میں تو ہے
پہاڑوں میں دشتوں میں دیکھو ں تجھے میں
ہر اک سو تجلی زیبا میں تو ہے
(قزلباش)
حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں:
”میں کسی چیز کو نہیں دیکھتا مگر یہ کہ اس سے پہلے یا اس کے ساتھ خدا کو نہ دیکھ لوں۔“
ایک عابد‘ عبادت کی حالت میں جو کچھ اپنے پروردگار سے کہتا ہے اسے اپنی اصل زندگی میں بروئے کار لا کر ”صدق“ کے مرحلے میں داخل ہو جاتا ہے۔
عبادت ایک حقیقی عابد کے لئے ایک ”عہد“ ہے اور سفر زندگی اس عہد کی وفا ہے یہ عہد دو بنیادی شرائط پر مشتمل ہے: ایک غیر اللہ کی اطاعت و حکومت سے رہائی و آزادی‘ چاہے وہ ہوائے نفس اور نفسانی خواہشات ہوں یا موجودات‘ اشیاء اور اشخاص اور دوسری ان اوامر کے سامنے تسلیم محض جن کا اللہ نے حکم دیا ہے اور ان پر راضی اور انہیں دوست رکھنا۔
عابد کے لئے حقیقی عبادت‘ اس کی روحانی تربیت اور پرورش کے باب میں سب سے بڑا عامل ہے۔ عبادت‘ عابد کے لئے وابستگی‘ حریت‘ فداکاری‘ اللہ سے محبت‘ اس کی مخلوق سے محبت‘ اس کے اوامر سے محبت‘ اہل حق سے دوستی‘ احسان اور بندگان الٰہی کی خدمت کا درس ہے۔
ان معروضات کی روشنی میں یہ بات سامنے آتی ہے کہ اسلامی توحید اللہ کے سوا کسی محرک کو تسلیم نہیں کرتی۔ انسان اور کائنات کے تکامل کی حقیقت‘ الٰہی حقیقتیں ہیں‘ جن کی واپسی اسی (خدا) کی طرف ہے۔ اسلام کے نقطہ نظر سے جس طرح اپنے کام کو خدا کی راہ میں کرنا ضروری ہے اسی طرح مخلوق خدا کے کام کو بھی خدا کے لئے انجام دینا ضروری ہے۔ اللہ کے لئے کام کا مطلب مخلوق کے لئے کام ہے۔ راہ خدا اور راہ خلق خدا ایک ہے۔ خدا کے لئے کام کا مطلب خلق خدا کے لئے کام ہے‘ وگرنہ خلق کو چھوڑ کر خدا کے لئے کام ملائیت اور صوفیت ہے جو ہرگز درست نہیں ہے۔ اسلام کی رو سے راہ اللہ کی راہ ہے اور بس۔ مقصد اللہ کی ذات ہے اور کوئی دوسری شے نہیں لیکن راہ خدا خلق کے درمیان سے گزرتی ہے۔ اپنے لئے کام کرنا نفس پرستی ہے اور خلق کے لئے کام کرنا بت پرستی ہے۔ اسی لئے خلق اور خالق دونوں کے لئے کام کرنا شرک اور دوگانہ پرستی ہے۔
لیکن اپنے اور مخلوقات کے کام کو اللہ کے لئے کرنا توحید اور خدا پرستی ہے۔ اسلامی توحیدی روش میں تمام امور کا آغاز اللہ کے نام سے ہوتا ہے۔ خلق کے نام سے آغاز بت پرستی ہے اور خالق و مخلوق کے مشترکہ نام سے شرک اور بت پرستی‘ صرف اللہ کے نام سے آغاز توحید پرستی اور یگانہ پرستی ہے۔ قرآن مجید میں ”اخلاص“ کے بارے میں ایک دلچسپ نکتہ سامنے آتا ہے اور وہ یہ کہ مخلص ہونا مخلص کرنے سے مختلف ہے۔ مخلص ہونے کا مطلب عمل میں اخلاص سے کام لینا ہے۔ عمل کو اللہ کے لئے پاک و خالص کرنا ہے لیکن فتح لام کے ساتھ مخلص ہونا‘ اللہ کے لئے پورے وجود کا پاک و خالص ہونا ہے اور واضح سی بات ہے کہ عمل کا پاک و خالص ہونا اور چیز ہے پورے وجود کا پاکیزہ ہونا اور چیز۔
وحدت عالم
کیا یہ کائنات (طبیعت: خدا کی زمانی و مکانی مخلوقات) مجموعی طور پر ایک حقیقی ”اکائی“ ہے کیا توحید کا لازمہ یہ ہے کہ ہم ذات و صفات و فاعلیت میں اللہ کی وحدانیت کا یہ مفہوم لیں کہ خلقت اپنی مجموعی صورت میں ایک طرح کی وحدت کی حامل ہے۔
اگر یہ پورا عالم ایک مربوط اکائی کے حکم میں ہے تو اس ارتباط کی صورت کیا ہے؟ کیا یہ کسی مشین کے اجزاء کی طرح مصنوعی پیوند کے ذریعے مربوط ہے یا اس کا ارتباط بدن کے اعضاء کی صورت میں ہے؟ یعنی عالم کا اجزائے عالم سے ارتباط میکانیاتی ہے یا عضویاتی؟
ہم اصول فلسفہ کی پانچویں جلد میں وحدت عالم کی نوعیت کے بارے میں گفتگو کر چکے ہیں۔ اسی طرح اپنی کتاب عدل الٰہی میں بھی عرض کر چکے ہیں کہ عالم طبیعت ایک ”ناقابل تقسیم کل“ ہے۔ اس میں ایک جزو کا نہ ہونا کل کے نہ ہونے کے مترادف ہے اور اس بارے میں گفتگو کر چکے ہیں کہ طبیعت سے اس اٹھانے کو شرور کا نام دیا جاتا ہے‘ جو تمام طبیعت کی نابودی کے مترادف ہے۔ جدید فلاسفہ خاص کر جرمنی کے عظیم فلسفی ”ہیگل“ نے بدن سے اعضاء کے رابطے کی مثال میں کل سے اجزائے طبیعت کے رابطے کو صحیح گردانا ہے‘ اس جرمن فلسفی نے اس نظریے کو جن اصولوں کی بنیاد پر ثابت کیا ہے انہیں قبول کرنا اس کے تمام فلسفی اصولوں کو قبول کرنے پر منحصر ہے۔
ہیگل کے مادی پیروکاروں یعنی مادہ پرستانہ جدلیات کے حامیوں نے بھی یہ اصول ہیگل سے لیا ہے اور تاثیر متقابل یا ارتباط عمومی اشیاء یا اتحاد تضادات کے اصول کے عنوان سے بڑی شدت کے ساتھ اس کی حمایت کی ہے اور مدعی ہیں کہ عالم طبیعت میں کل کے ساتھ جزو کا رابطہ عضویاتی ہے۔ میکانیاتی نہیں لیکن جب وہ اثبات کی منزل میں آتے ہیں تو میکانیاتی رابطے کے علاوہ ان سے بن نہیں پڑتا۔
حقیقت یہ ہے کہ مادی فلسفے کے اصول اس بات کے اثبات سے قاصر ہیں کہ یہ دنیا کل میں انسان کے اعضائے بدن کی مانند ہے اور کل کے ساتھ اجزاء کے رابطے کی مانند ہے وہ الٰہی فلاسفہ جو قدیم زمانے سے کہتے آئے ہیں کہ عالم ”انسان کبیر“ ہے اور انسان عالم صغیر‘ ان کی نظر اسی قسم کے رابطے کی طرف تھی۔
مسلمان فلاسفہ ”اخوان الصفا“ نے سب سے زیادہ اس موضوع پر زور دیا ہے‘ یہی دنیا اور ہستی کو وحدت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ عرفا کے نزدیک یہ تمام خلقت اور یہ پوری کائنات شاہد ازلی کا جلوہ واحد ہے۔
عکس روی تو چو در آئینہ جام افتاد
عارف از پرتو می در طمع خام افتاد
حسن روی تو بہ یک جلوہ کہ در آئینہ کرد
این ہمہ نقش در آئینہ اوھام افتاد
عرفاء ماسوا کو ”فیض مقدس“ کا نام دیتے ہیں اور تمثیلاً کہتے ہیں کہ فیض مقدس ایک مخروط کی طرح ہے کہ جو ”راس“ اور ابتدائی نقطے کے اعتبار سے یعنی ذات حق کے ساتھ ارتباط کی منزل میں بسیط محض اور بااعتبار قاعدہ ممتد و منبسط ہے۔
ہم یہاں فلاسفہ یا عرفا کے بیانات کے بارے میں کچھ کہنا نہیں چاہتے بلکہ صرف ان مطالب کو لے کر آگے بڑھنا چاہتے ہیں‘ جو ہماری گذشتہ مباحث سے مربوط ہیں۔ پہلے ہم عرض کر چکے ہیں کہ یہ دنیا ”اس سے“ اور ”اسی کی سمت“ سے وابستہ حقیقت پر مبنی ہے۔ پھر اپنے مقام پر یہ ثابت ہے کہ دنیا ایک متحرک و سیال حقیقت نہیں بلکہ عین حرکت اور عین روانی ہے۔(۱) دوسری طرف مباحث حرکت میں یہ نکتہ پایہ ثبوت کو پہنچ چکا ہے کہ وحدت مبداء‘ وحدت منتہا‘ وحدت خط سیر‘ حرکات کو طرح وحدت و یگانگت عطا کرتا ہے۔ پس اس اعتبار سے کہ کل عالم ایک مبداء سے ایک مقصد کی سمت اور ایک تکاملی خط سیر میں رواں دواں ہے۔ بہرحال کائنات ایک طرح کی وحدت و یگانگت کی بھی حامل ہے۔
غیب و شہادت
اسلامی اور توحیدی تصور کائنات میں دنیا غیب و شہود کا مجموعہ ہے یعنی الٰہی و اسلامی تصور کائنات دنیا کو دو حصوں میں تقسیم کرتا ہے۔ عالم غیب اور عالم شہود یا عالم شہادت‘ خود قرآن میں بارہا غیب شہادت خاص کر غیب پر گفتگو ہوئی ہے۔ غیب پر ایمان‘ اسلامی ایمان کا رکن ہے۔
الذین یومنون بالغیب (سورئہ بقرہ‘ آیت ۲)
وہ لوگ جو غیب پر ایمان لاتے ہیں۔
و عندہ مفاتح الغیب لا یعلمھا الاھو (سورئہ انعام‘ آیت ۵۹)
”اس کے پاس خزانہ غیب کی کنجیاں ہیں‘ جنہیں خود اس کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ “
غیب یعنی پوشیدہ چیزیں‘ غیب کی دو قسمیں ہیں‘ ایک نسبی اور دوسری مطلق نسبی۔ غیب یعنی وہ چیز جو دور ہونے یا اس جیسی کسی اور علت کی بناء پر کسی شخص کے حواس سے پوشیدہ ہو‘ مثلاً جو شخص تہران میں ہے اس کے لئے تہران شہادت ہے اور اصفہان غیب لیکن اصفہان میں رہنے والے کے لئے اصفہان شہادت ہے اور تہران غیب قرآن مجید میں بعض مقامات پر لفظ غیب اسی نسبی مفہوم میں آیا ہے جیسے:
تلک من انباء الغیب نوحیھا الیک (سورئہ ھود‘ آیت ۴۹)
”یہ غیب سے متعلق خبریں ہیں جنہیں ہم تم پر وحی کرتے ہیں۔“
واضح سی بات ہے کہ گذشتہ قصے موجودہ زمانے کے لوگوں کے لئے غیب ہیں لیکن خود ان کے لئے شہادت۔
لیکن دوسرے موارد میں قرآن کریم لفظ غیب کو ان حقائق پر اطلاق کرتا ہے جو نظر آنے والے نہیں ہیں۔ دوری یا دیگر موانع کی وجہ سے قابل حسن اور لمس حقیقت کے نظر نہ آنے جیسا کہ تہران میں رہنے والوں کے لئے اصفہان‘ اور ایسی حقیقت کے نظر نہ آنے کے درمیان فرق ہے کہ جسے محدود اور غیر مادی ہونے کی بناء پر ظاہری حواس کے ذریعے سے محسوس نہیں کیا جا سکتا اور وہ اس اعتبار سے پوشیدہ رہتی ہے۔ واضح سی بات ہے کہ جہاں قرآن موضوع کی اس لحاظ سے توصیف کرتا ہے کہ ان کا غیب پر ایمان ہے اس سے مراد نسبی غیب نہیں ہے۔ نسبی غیب پر تو کافر اور مومن سبھی کا اعتبار ہے۔ اسی طرح جہاں ارشاد ہوتا ہے:
عندہ مفاتح الغیب لا یعلمھا الاھو
غیب پر اطلاع کو ذات حق پر منحصر سمجھا گیا ہے اور مراد غیب مطلق ہے کیوں کہ یہ عبادت غیب نسبی کے ساتھ ہم آہنگ نہیں ہے جس جگہ پر غیب و شہادت کا ایک ساتھ تذکرہ ہوا ہے‘ مثلاً:
عالم الغیب و الشہادة ھوالرحمٰن الرحیم (سورئہ حشر‘ آیت ۲۲)
وہ ہر غیب اور ہر شہود سے باخبر نہایت بخشنے والا اور بے حد مہربان ہے یعنی کوئی محسوس اور نامحسوس شے اس سے اوجھل نہیں ہے‘ یہاں پر بھی نہ دیکھے جانے والے غیب پر دلالت ہے نہ کہ غیب نسبی پر۔
دونوں عوامل یعنی غیب اور شہادت کے رابطے کی کیفیت کیا ہے؟ کیا عالم محسوس کی کوئی حد ہے اور اس حد کے پیچھے عالم غیب واقع ہے؟ مثلاً یہاں سے نیلگوں آسمان کی چھت تک عالم شہادت ہے اور اس کے بعد عالم غیب شروع ہوتا ہے؟ ظاہر ہے کہ اس طرح کے تصورات عامیانہ ہیں‘ اگر یہ فرض کر لیا جائے کہ کوئی جسمانی حد ان دونوں جہانوں کو ایک دوسرے سے جدا کرتی ہے تو دونوں جگہ شہادت اور دونوں عالم جسمانی اور مادی ہوں گے۔ غیب و شہادت کے رابطے کی کسی مادی اور جسمانی تعبیر سے توضیح نہیں ہو سکتی۔ زیادہ سے زیادہ جو تعبیر مطلب کو ذہن سے قریب کر سکتی ہے وہ یہ ہے کہ ہم اسے اصل اور فرع یا پھر شخص اور اس کے سائے کے رابطے کی شبیہ قرار دیں یعنی یہ جہان اُس جہان کا ایک انعکاس اور پر تو ہے۔
قرآن سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ اس دنیا میں جو کچھ بھی ہے وہ اس دنیا کی ”تنزل یافتہ صورت“ ہے۔ جس چیز کو گذشتہ آیت میں ”مفاتح“ سے تعبیر کیا گیا ہے وہی چیز دوسری آیت میں ”خزائن“ سے موسوم ہوئی ہے۔
وان من شئی الا عندنا خزائنہ وما ننزلہ الا بقدر معلوم (سورئہ حجر‘ آیت ۲۱)
”کوئی چیز نہیں مگر یہ کہ اس کا خزانہ اور اس کی حقیقت ہمارے پاس ہے اور ہم اس سے نازل نہیں کرتے مگر ایک معین اندازے کے ساتھ۔“
اور اسی لئے قرآن نے تمام چیزوں حتیٰ پتھر اور فولاد کو بھی ”نازل شدہ“ گرداناہے۔
و انزلنا الحدید (سورہ حدید‘ آیت ۲۵)
”ہم نے فولاد کو اتارا یا نازل کیا۔“
ظاہر سی بات ہے یہاں پر یہ مراد ہے کہ ہم نے من جملہ دوسری چیزوں کے فولاد کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کیا ہے۔ جی ہاں! جو کچھ اس دنیا میں ہے‘ اس کی ”حقیقت“، ”اصل“ اور ”کنہ“ دوسری دنیا میں ہے جو عالب غیب ہے۔ وہ چیزیں جو اس عالم میں ہیں ان کی ”رقیق صورت“‘ ان کا ”پر تو“ اور ان کی ”تنزل یافتہ صورت“ اس دنیا میں ہے۔(دیکھئے تفسیرالمیزان (عربی متن)‘ جلد ۷‘ سورئہ انعام کی آیت ۵۹ کے ذیل میں)
چرخ با این اختران نغز و خوش و زیباستی
صورتی در زیر دارد‘ آنچہ در بالاستی
بررود بالا ہمی با اصل خود یکتاست ی
صورت عقلی کہ بی پایان و جاویدان بود
باہمہ و بی ہمہ مجموعہ و یکتا ستی
این سخن را در نیابد ہیچ فہم ظاہری
گر ابو نصرستی و گر بوعلی سینا ستی
قرآن جس طرح ”غیب“ کے عنوان سے ہستی کے بارے میں ایک طرح کے ایمان اور ایک طرح کی بصیرت کو پیش کرتا ہے اور لازم قرار دیتا ہے‘ بعض مقامات پر دیگر عناوین کے تحت ملائکہ اور رسول پر ایمان (وحی پر ایمان) کو بھی لازم قرار دیتا ہے۔
امن الرسول بما انزل الیہ من ربہ و المومنون کل امن باللّٰہ و ملائکتہ و کتبہ و رسلہ (سورئہ بقرہ‘ آیت ۲۸۵)
”رسول اور صاحبان ایمان اس پر ایمان لاتے ہیں جو ان کے پروردگار کی طرف سے ان (پیغمبروں) پر نازل کیا گیا ہے سب خدا اس کے فرشتوں‘ اس کی کتابوں اور اس کے رسولوں پر ایمان لاتے ہیں۔“
ومن یکفر باللّٰہ و ملائکتہ و کتبہ و رسلہ و الیوم الاخر فقد ضل ضلا لا بعیدا (سورئہ نساء‘ آیت ۱۳۶)
”اور جس نے خدا کا‘ اس کے فرشتوں کا‘ اس کی کتابوں کا اور قیامت کے دن کا انکار کر دیا‘ وہ سخت گمراہی میں پڑ گیا۔“
ان دونوں آیتوں میں اللہ کی کتابوں پر ایمان کا جداگانہ تذکرہ کیا گیا ہے اگر ان کتابوں سے آسمانی کتابیں ہی مراد ہیں جو انبیاء پر نازل ہوئی ہیں تو اس کے لئے وہی ایمان بالرسل کافی تھا۔ گفتگو کا یہ انداز بتاتا ہے کہ ان کتابوں سے مراد کچھ اور حقیقتیں ہیں کہ جو کتاب اور ورق کی نوعیت سے جدا ہیں۔ خود قرآن میں بار بار پوشیدہ اور غیبی حقائق کو کہیں ”کتاب مبین“، کہیں ”لوح محفوظ“، کہیں ”ام الکتاب“، کہیں ”کتاب مرقوم“ اور کہیں ”کتاب مکنون“ جیسے ناموں سے یاد کیا ہے۔(ملاحظہ فرمائیں ”تفسیرالمیزان“، مذکورہ الفاظ سے متعلق آیات) اسی ماورائی کتب پر ایمان‘ ایمان اسلامی کا حصہ ہے۔
انبیاء بنیادی طور پر اسی لئے آئے ہیں کہ وہ لوگوں کو ایک ایسا تصور کائنات اور انداز فکر عطا کریں جس کی رو سے وہ نظام ہستی کے بارے میں ہرچند مجمل سہی بقدر صلاحیت کوئی تصور ضرور پیدا کر لیں۔ خلقت کائنات صرف احساس و ادراک کی دنیا نہیں ہے کہ جس میں سائنسی اصولوں کے مطابق تمام امور قابل حس اور قابل تجربہ ہوں۔ انبیاء کی کوشش یہ رہی ہے کہ وہ انسان کی نگاہ کو محسوس سے معقول‘ آشکار سے پنہاں اور محسوس سے لامحدود تک لے جائیں اور اسے بلندی عطا کریں۔
افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ سرزمین مغرب سے اٹھنے والی مادی افکار کی لہریں اس قدر قوی ہو گئی ہیں کہ اب ایک گروہ کا یہ اصرار ہے کہ وہ اسلامی تصور کائنات کے تمام وسیع اور بلند و بالا مقام مفاہیم کو محسوس اور مادیات کی سطح تک گرا دیں۔
دنیا اور آخرت
دنیا اور آخرت کے اعتبار سے کائنات کی تقسیم اسلامی تصور کائنات کا ایک اور موضوع ہے۔ غیب و شہادت کے عنوان سے پہلے ہم جو کچھ عرض کر چکے ہیں اس کا تعلق ایسی دنیا سے تھا جو ہماری اس دنیا پر محیط ہے اور ہماری اس دنیا کو سنوارتا ہے۔ اگرچہ ایک اعتبار سے عالم آخرت عالم غیب ہے اور یہ دنیا عالم شہادت لیکن یہ وہ دنیا ہے جس میں ہمیں اس موجودہ دنیا کے بعد قدم رکھنا ہے لہٰذا اس کی وضاحت ایک علیحدہ عنوان کے تحت ضروری ہے۔ عالم غیب وہ دنیا ہے جہاں سے ہم آئے ہیں اور عالم آخرت وہ منزل ہے جہاں ہمیں لوٹ کر جانا ہے۔ حضرت علی کے اس جملے کا بھی یہی معنی ہے:
رحم اللّٰہ امرءً اعلم من این و فی این والی این
”اللہ کی رحمت ہو اس شخص پر جس نے یہ جان لیا کہ وہ کہاں سے آیا ہے؟ کس منزل پر ہے؟ اور اسے کہاں جانا ہے؟“
حضرت علی نے یہ نہیں فرمایا کہ اللہ کی رحمت ہو‘ اس شخص پر جو یہ جان لے کہ کس چیز سے اس کی خلقت ہوئی ہے‘ کس چیز میں اسے جانا ہے‘ اور جس چیز سے وہ دوبارہ اٹھایا جائے گا۔ اگر آپ نے یہ ارشاد فرمایا ہوتا تو ہم یہ کہتے کہ مٹی سے ہماری خلقت ہوئی ہے‘ اسی میں ہمیں لوٹ کر جانا ہے‘ اور اسی سے دوبارہ اٹھائے جائیں گے۔ اگر آپ کا یہ ارشاد ہوتا ہے تو قرآن کی اس آیت کی طرف آپ کا اشارہ ہوتا:
منھا خلقنا کم و فیھا نعید کم و منھا نخر جکم تارة اخری (سورئہ طہٰ‘ آیت ۵۵)
”ہم نے تمہیں زمین سے تخلیق کیا ہے‘ اسی میں تمہیں لوٹایا جائے گا‘ اور پھر اسی سے دوبارہ اٹھائے جاؤ گے۔“
لیکن حضرت علی کی نگاہ قرآن کی دوسری آیات کی جانب تھی کہ جو بلند تر مفاہیم کی حامل ہیں۔ آپ نے فرمایا ہم کس دنیا سے یہاں آئے ہیں؟ کس دنیا میں ہیں اور کس دنیا کی طرف ہمیں جانا ہے؟
دنیا و آخرت بھی غیب و شہادت کی مانند اسلامی تصور کائنات کے اعتبار سے دو مطلق مفاہیم کی حامل ہے نہ کہ نسبی اور قرآن کی رو سے ان میں سے ہر ایک جدا عالم ہے جو چیز نسبی ہے‘ وہ کار دنیا اور کار آخرت ہے‘ یعنی اگر کوئی کام نفس پرستی کے تحت انجام دیا جائے تو وہ دنیوی کام ہو گا اور اگر یہی کام خدا اور رضائے الٰہی کی خاطر ہو تو کار آخرت ہو گا‘ بعد میں ہم ”زندگی جاوید یا حیات اخروی“ کے عنوان سے دنیا و آخرت کے بارے میں تفصیل سے بحث کریں گے۔
 

صرف علی

محفلین
حکمت بالغہ اور عدل الٰہی
الٰہی تصور کائنات میں چند ایسے مسائل زیربحث آتے ہیں جو کائنات کے ساتھ اللہ کے رابطے سے متعلق ہیں‘ مثلاً حدوث و قدم عالم‘ نظام و ترتیب خلقت موجودات یا وہ دیگر مسائل جن کا الہیات میں تفصیل سے تذکرہ ہے۔ اس مقام پر جس چیز کا تذکرہ مناسب حال ہے وہ حکمت بالغہ الٰہی اور عدل الٰہی سے متعلق مسائل ہیں اور یہ دونوں مسائل ایک دوسرے کے بہت زیادہ قریب ہیں۔ حکمت بالغہ الٰہی کا مسئلہ اس حوالے سے زیربحث آتا ہے کہ یہ نظام ہستی ایک حکیمانہ نظام ہے یعنی امور دنیا میں صرف علم و شعور اور ارادہ و مشیت ہی کا عمل دخل نہیں ہے بلکہ موجودہ نظام ایک احسن اور اصلح نظام ہے اور اس سے زیادہ بہتر اور مفید نظام ناممکن اور محال ہے جہان موجود کامل ترین جہان ممکن ہے۔
اور یہی وہ مقام ہے جہاں سے سوالات اور اعتراضات کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے کہ اس دنیا میں ایسے حوادث و واقعات مشاہدہ میں آتے ہیں جن پر اس کے نقص‘ شر‘ قبیح یا عبث ہونے کا عنوان آتا ہے۔ حکمت الٰہی کا تقاضا یہ ہے کہ شر کی جگہ خیر‘ بدصورتی کی جگہ خوبصورتی‘ عبث اور باطن کی جگہ مفید ہو۔ ناقص الخلقت لوگ‘ مختلف بلائیں‘ مصیبتیں‘ قبیح مناظر اور انسان و حیوان کے بدن میں زائد اعضاء و اجزاء خلاف حکمت کو ثابت کرتے ہیں۔ عادلانہ نظام تو یہ ہے کہ ظلم اور امتیازی سلوک کا کہیں وجود نہ ہو‘ آفت و بلا نام کی کوئی چیز نہ ہو بلکہ اس نظام میں عدم اور فنا بے معنی ہوں اس لئے کہ کسی ہستی کو وجود میں لانا‘ اسے لذت ہستی سے آشنا کرنا اور پھر دیار عدم میں بھیج دینا ظلم ہے۔ عادلانہ نظام سے مراد یہ ہے کہ اس نظام کے تمام موجودات میں جہل‘ عجز‘ ضعف و فقر جیسے نقائص موجود نہ ہوں‘ اس لئے کہ کسی موجود کو وجود کا لباس پہنانے کے بعد اسے ہستی و وجود کے شرائط کمالات سے محروم رکھنا ظلم ہے۔ اگر موجودہ نظام ایک عادلانہ نظام ہے تو پھر یہ تفاوت و تبعیض کیوں؟ اس کی کیا وجہ ہے کہ کوئی گورا ہے کوئی کالا‘ کوئی خوبصورت ہے تو کوئی بدصورت‘ کوئی تندرست ہے تو کوئی بیمار؟ کیوں ایک وجود کو انسان بنایا اور دوسرے کو بھیڑ‘ بکری یا بچھو یا زمین پر رینگنے والا کیڑا؟
ایک شیطان خلق ہوا‘ اور دوسرا فرشتہ سب ایک جیسے کیوں نہیں بنائے گئے؟ یا پھر ایسا کیوں نہیں ہوا کہ وہ جو گورا‘ خوبصورت اور تندرست ہے‘ کالا‘ بھدا اور بیمار ہو جائے۔ آخر کیوں؟
یہ اور اس جیسے دوسرے سوالات کائنات کے بارے میں اٹھائے گئے ہیں اور اب الٰہی تصور کائنات کہ جو اس دنیا کو فعل خدائے حکیم اور خدائے عادل علی الاطلاق جانتا ہے‘ کا یہ فرض ہے کہ ان سوالات کا جواب دے۔
چونکہ ان سوالات کا اگر تفصیلی جواب دیا جائے تو ایک ضخیم اور مستقل کتاب بن جائے گی۔ اس کے علاوہ ہم نے خود بھی اپنی کتاب عدل الٰہی میں انہی موضوعات پر گفتگو کی ہے جو کئی بار شائع ہو چکی ہے اور بازار میں دستیاب ہے اور ہم نے ان سوالات کا حل بھی کتاب میں پیش کر دیا ہے لہٰذا یہاں پر تفصیل میں جانے کی بجائے حقیقت کے متلاشی افراد کو اس کتاب کی طرف رجوع کرنے کی دعوت دیتے ہیں۔ یہاں پر ہم صرف ان اصولوں کے تذکرہ پر اکتفا کر رہے ہیں جن سے آگاہی حاصل ہو جانے کے بعد ان اشکالات و سوالات کے حل کی راہ ہموار ہو جائے گی اور نتیجہ اخذ کرنے کی ذمہ داری خود محترم قاری پر چھوڑ رہے ہیں۔
۱۔ اصول غنا اور اصول کمال ذات حق:
اللہ تعالیٰ اس عنوان سے کہ واجب الوجود علی الاطلاق ہے اور کوئی ایسا کمال اور کوئی ایسی فضیلت نہیں جو اس میں نہ ہو‘ کسی کام کو اپنے کسی مقصد یا کمال تک پہنچنے یا اپنے اندر کسی کمی کو پورا کرنے کے لئے انجام نہیں دیتا‘ اس کا کام نقص سے کمال کی طرف حرکت کے مفہوم میں نہیں ہوتا۔ اس اعتبار سے اس کے بارے میں مفہوم حکمت یہ نہیں ہے کہ وہ اپنے کاموں میں بہترین مقاصد کو اپنے لئے اور بہترین وسائل کو اپنے اہداف تک پہنچنے کے لئے انتخاب کرتا ہے۔ حکمت اپنے اس مفہوم میں انسان کے بارے میں صادق آتی ہے۔ خدا کے بارے میں نہیں‘ حکمت الٰہی کا مطلب یہ ہے کہ اس کا کام موجودات کو ان کے وجودی کمالات اور غایت وجود تک پہنچانا ہے‘ اس کا کام ایجاد کرنا ہے کہ جو خود (عدم سے) کمال وجود تک پہنچانا ہے یا ان کی تدبیر و تکمیل ہے اور اشیاء کو ان کے کمالات اور ان کی جہات خیر تک پہنچانا ہے‘ خود ایک طرح سے افاضہ و تکمیل ہے۔
سوالات‘ اشکالات کا ایک حصہ خدا کو انسان پر قیاس کرنے کی وجہ سے عمل میں آتا ہے‘ اکثر جب یہ سوال کیا جاتا ہے کہ ”فلاں مخلوق کی حکمت اور فائدہ کیا“ تو سوال کرنے والا خدا کو اس مخلوق کی مانند سمجھتا ہے کہ جو اپنے کاموں میں دوسری مخلوقات اور موجودات سے اپنے مقصد تک پہنچنے کی خاطر فائدہ اٹھانا چاہتی ہے اور اگر پوچھنے والا پہلے سے اس چیز کو اپنی نظر میں رکھے کہ حکمت الٰہی کا مفہوم یہ ہے کہ اس کا فعل غایت رکھتا ہے نہ کہ خود اور ہر مخلوق کی غایت خود اس کے وجود میں پنہاں ہے اور خداوند عالم اس کو خود اپنی ذاتی غایت کی سمت بڑھاتا ہے تو بہت سے سوالات کا خود بخود جواب مل جائے گا۔
۲۔ اصول ترتیب:
فیض الٰہی یعنی فیض ہستی جس نے پوری کائنات کو اپنی آغوش میں لے رکھا ہے‘ ایک مخصوص نظام ہے۔ موجودات و مخلوقات میں ایسی خاص قسم کا تقدم و تاخر‘ ایک ایسی علیت و معلولیت اور سببیت و مسببیت موجود ہے جو ناقابل تبدیل ہے یعنی کوئی موجود اپنے خاص مرتبے سے تجاوز کر سکتا ہے نہ اسے چھوڑ سکتا ہے اور نہ ہی کسی اور موجود کے مرتبے پر اپنا قبضہ جما سکتا ہے۔ پس مراتب ہستی اور درجات ہستی کا لازمہ یہ ہے کہ ان کے درمیان نقص و کمال اور شدت ضعف کے اعتبار سے ایک طرح کا اختلاف موجود ہو‘ اختلاف و تفاوت اس معنی میں کہ وہ لازمہ مراتب ہستی ہے‘ امتیاز اور زیادتی نہیں کہ جسے خلاف حکمت اور خلاف عدل سمجھا جائے‘ زیادتی اس وقت ہو گی جب دو موجود‘ کمال کے ایک ہی معین درجے کی قابلیت رکھتے ہوں لیکن ایک کو کمال عطا کر دیا جائے جب کہ دوسرے کو محروم رکھا جائے لیکن جہاں اختلاف و تفاوت کا تعلق ذات میں موجود نقص اور کمی سے ہو تو اسے امتیاز نہیں کہا جا سکتا۔
۳۔ اصول کلیت
خدا کے ساتھ اپنا موازنہ کرنے کے نتیجے میں انسان کی ایک اور غلطی یہ ہے کہ انسان ایک معین جگہ اور معین وقت میں (البتہ معینہ رائج شرائط کے تحت) گھر بنانے کی سوچتا ہے اور پھر اس پر عمل کرتا ہے‘ کچھ اینٹیں‘ کچھ لوہا‘ کچھ سیمنٹ کہ جن میں ذاتی اعتبار سے کوئی جوڑ نہیں انہیں آپس میں مصنوعی اتصال کے ذریعے ایک دوسرے سے مربوط کرتا ہے اور گھر کے نام سے ایک معین عمارت کھڑی ہو جاتی ہے۔
کیا خدا کا کام بھی اسی نوعیت کا ہے؟ کیا خداوند عالم کی مضبوط و مستحکم صنعتیں بھی اسی طرح چند لاتعلق چیزوں کے درمیان مصنوعی اور عارضی رابطے سے وجود میں آئی ہیں؟ اس طرح کا مصنوعی اور عارضی جوڑ انسان جیسی مخلوق کا کام ہے کہ جو اس نظام کا ایک حصہ ہے اور ایک معین مقدار میں خلق شدہ موجود اشیاء کے خواص اور طاقتوں سے فائدہ حاصل کرتا ہے۔ یہ کام اس مخلوق کا ہے کہ جس کی فاعلیت اور خالقیت‘ فاعلیت حرکت کی حد میں ہے‘ فاعلیت ایجادی کی حد میں نہیں یعنی وہ کسی موجود شے میں حرکت وجود میں لاتا ہے اور وہ بھی ”طبیعی“ نہیں ہوتی بلکہ ”قسری“ نوعیت کی ہوتی ہے۔ لیکن خداوند عالم فاعل ایجادی ہے‘ وہ اشیاء کو تمام طاقتوں‘ تمام خصلتوں اور تمام خاصیتوں کے ساتھ خلق کرتا ہے۔
مثلاً انسان آگ اور بجلی کے وجود سے استفادہ کرتا ہے اور اپنے اس جزوی کام کو اس طرح مرتب کرتا ہے کہ جب چاہتا ہے اس کے اثرات کو ظاہر کر کے اس سے استفادہ کرتا ہے اور جب نہیں چاہتا یا ضرر کا اندیشہ ہوتا ہے تو فوراً ایک لمحے میں اس کے اثر کو توڑ کر اس کی خاصیت منجمد کر دیتا ہے۔ لیکن خداوند عالم تمام خاصیتوں کے ساتھ آگ اور بجلی کا خالق ہے۔ بجلی اور آگ کا لازمہ ہے کہ وہ گرمی دے یا حرکت پیدا کرے یا جلائے۔ خداوند عالم نے ان دونوں چیزوں کو خاص شخص یا خاص شے کے لئے خلق نہیں کیا مثلاً وہ فقیر کی کٹھیا کو گرم کرے لیکن جب اس کا لباس آگ میں گرے تو اسے نہ جلائے۔ خدا نے آگ کو جلانے کی خاصیت کے ساتھ خلق کیا ہے۔ پس نظام عالم میں آگ کو اس کی کلیت کے ساتھ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ جہاں اس کا وجود لازم‘ مفید اور حکمت کے موافق ہو‘ نہ یہ کہ اس کی جزوی حیثیت کو سامنے رکھ کر یہ کہا جائے کہ فلاں جزوی شے میں فلاں ذاتی غرض کے پیش نظر‘ کیا اس کا وجود فائدہ مند‘ خیر اور حکمت ہے یا نہیں؟ دوسرے الفاظ میں جہاں حکمت الٰہی میں غایت کو غایت فعل سمجھنا چاہئے۔ غایت فاعل نہیں اور خدا کے حکیم ہونے کا مطلب بھی یہی ہے کہ اس نے موجودات کو ان کی غایات تک پہنچانے کے لئے بہترین نظام ایجاد کیا ہے۔ اپنے نقص کو کمال اور قوت کو فعل سے بدلنے اور اہداف کمالیہ حاصل کرنے کے لئے بہترین وسیلے کی فراہمی نہیں ہے۔ اس کے علاوہ ہمیں یہ بھی جاننا چاہئے کہ افعال الٰہی کی غایات کلی ہیں‘ جزوی غایات نہیں۔ آگ کو اس لئے پیدا کیا کہ وہ کلی پر جلائے نہ کہ فلاں مورد میں جلانے کے لئے کہ جو ممکن ہے ایک شخص کے لئے مفید ہو اور دوسرے کے لئے مضر۔
۴۔ کسی حقیقت اور کسی واقعیت کو پانے کے لئے صرف فاعل کی فیاضت اور اس کا تام الفاعلیة ہونا کافی نہیں ہے۔ اس کے لئے صلاحیت اور قابلیت کا ہونا بھی ضروری ہے۔ صلاحیت اور قابلیت کا فقدان بعض موجودات کو بہت سے موارد میں بعض کمالات اور نیکیوں سے محروم رکھتا ہے اور نظام کلی نیز واجب الوجود کے ساتھ ارتباط کے حوالے سے جہل و عجز جیسے بعض نقائص پیدا ہو جانے کا راز بھی یہی ہے۔
۵۔ خداوندتعالیٰ جس طرح واجب بالذات ہے واجب من جمیع الجہات بھی ہے اور اسی لئے محال ہے کہ کوئی موجود قابلیت وجود رکھتا ہو اور اس کی جانب سے اس کے لئے افاضہ وجود نہ ہو اور اسے وجود سے محروم رکھے۔
۶۔ شرور اور برائیاں یا تو خود ہستی و عدم کی صنف سے ہیں۔ جیسے جہل‘ عجز و ناتوانی اور غربت و افلاس یا پھر ہستی کی صنف سے ہیں لیکن ان کا شر ہونا اس اعتبار سے ہے کہ یہ فقدان کا باعث بنتے ہیں جیسے زلزلے‘ جراثیم‘ سیلاب اور ژالہ باری وغیرہ۔ وہ ہستیاں جو نیستی اور عدم کا باعث بنتی ہیں ان کی شریت دوسری اشیاء کی نسبت سے ہوتی ہے نہ کہ اپنی ذاتی حیثیت میں شر ہوتی ہیں۔ ہر شے کا حقیقی وجود فی نفسہ اس کا وجود ہے اس کا اضافی اور نسبی وجود ایک اعتباری اور انتزاعی امر اور اس کے حقیقی وجود کا جزولاینفک ہے۔
۷۔ نیکیاں اور شرور دو علیحدہ اور مختلف چیزیں نہیں ہیں اور نہ ہی ایک دوسرے سے الگ اور مستقل ہیں بلکہ شرور نیکیوں کی ناقابل جدا صفت اور ان کا لازم ہیں۔ وہ شرور جو خود نیستی و عدم کی قسم سے ہیں ان میں صلاحیت اور قابلیت کا فقدان ہے لیکن قابلیت پیدا ہوتے ہی ذات واجب الوجود کی طرف سے افاضہ وجود حتمی اور لازم ہو جاتا ہے۔ اب رہے وہ شرور جو عدم کی قسم سے نہیں ہیں انہیں کبھی اچھائی سے جدا نہیں کیا جا سکتا۔
۸۔ کوئی شر شر محض نہیں ہوتا‘ عدم اور نابود اپنی اپنی جگہ خود مقدمہ ہستی اور مقدمہ کمالات و خیرات ہیں۔ شرور اپنے مقام پر تکامل کا زینہ ہیں اور اسی لئے کہا جاتا ہے کہ ہر برائی میں ایک اچھائی چھپی ہوتی ہے اور ہر عدم میں ایک وجود پوشیدہ ہوتا ہے۔
 

صرف علی

محفلین
۹۔ قانون و سنت
عالم ہستی اس جہت سے کہ علت و معلول کے نظام کے مطابق جاری و ساری ہے اور وہ نظام جیسا کہ ہم پہلے عرض کر چکے ہیں کلی ہے لہٰذا قوانین و سنن الٰہی کی بنیاد پر قائم ہے اور قرآن مجید بڑی صراحت کے ساتھ اس کی تائید کرتا ہے۔
۱۰۔ دنیا جس طرح ایک ناقابل تخلف اور کلی نظام کی حامل ہے اسی طرح اپنی ذات میں بھی ایک ناقابل تجزیہ و تقسیم اکائی ہے یعنی اپنی مجموعی حیثیت میں ایک جسم کی مانند اکائی پر مشتمل ہے پس نہ صرف شرور اور نیستی و نابودی‘ خیر و ہستی سے جدا نہیں ہو سکتی بلکہ اجزائے کائنات کا مجموعہ بھی ایک اکائی اور ایک جلوہ ہونے سے ایک دوسرے سے جدا نہیں ہو سکتے۔
مذکورہ دس اصولوں کی بنیاد پر جو چیز وجود کا امکان رکھتی ہے وہ معین کلی اور غیر متغیر نظام ہے پس امر دنیا اس بات پر منحصر ہے کہ یا تو معین نظام کے ساتھ موجود ہو یا اصلاً موجود نہ ہو لیکن یہ بات کہ خود تو موجود ہو لیکن نظام نہ رکھتا ہو یا نظام تو رکھتا ہو مگر اس نظام کی کوئی دوسری شکل ہو مثلاً علتیں معلولات کی جگہ اور معلولات علتوں کی جگہ ہوں تو یہ محال ہے۔ پس جو بات حکمت بالغہ کے حوالے سے قابل بحث ہے‘ وہ یہ ہے کہ دنیا یا تو ایک منظم نظام کے تحت موجود ہو یا کچھ بھی موجود نہ ہو۔ واضح سی بات ہے کہ حکمت افضل کا تقاضا کرتی ہے یعنی ہستی کا تقاضا کرتی ہے‘ عدم کا نہیں۔ اسی طرح وہ چیز جس کا وجود ممکن ہے وہ اشیاء کا اپنے سے جدا ہونے والے لوازم اوصاف کے ساتھ وجود رکھنا ہے اور جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ نیکیاں اور ہستیاں شر اور نیستی سے جدا ہو جائیں‘ خیال محض اور توہم محال ہے۔ پس اس اعتبار سے بھی جو چیز حکمت بالغہ کے حوالے سے زیربحث ہے وہ یہ کہ خیر و شر کا بیک وقت نہ ہونا ہے نہ کہ خیر تو موجود ہو لیکن شر موجود نہ ہو۔
اسی طرح جو چیز امکان وجود رکھتی ہے وہ ایک دوسرے کے ساتھ متصل اکائی کی صورت میں کل کائنات کا موجود ہونا ہے نہ کہ ایک جزو کا موجود ہونا اور دوسرے کا معدوم پس حکمت بالغہ کی نظر سے جو چیز قابل بحث ہے وہ کل کا ہونا یا نہ ہونا ہے کسی جزو کا ہونا اور دوسرے جزو کا نہ ہونا نہیں ہے۔
مذکورہ اصول اگر اچھی طرح سمجھ میں آ جائے تو یہ حکمت بالغہ اور عدل کامل الٰہی سے متعلق تمام شبہات اور تمام اشکالات کو ختم کر دینے کے لئے کافی ہے۔ میں ایک بار پھر اپنے پڑھنے والوں کو اپنی کتاب ”عدل الٰہی“ کی طرف رجوع کرنے کی دعوت دیتا ہوں اور اس بات کے لئے معذرت چاہوں گا کہ میں نے ضرورت کے تحت ان مسائل کو پیش کیا جو اس کتاب کی سطح سے بالاتر ہیں۔
آخر میں اس عنوان سے کہ ”عدل“ کی بحث مسلمانوں کے درمیان خاص تاریخ کی حامل ہے یہاں تک کہ اسے شیعہ مذہب کے اصول میں داخل کر دیا گیا ہے یعنی شیعہ نقطہ نظر سے عدل اصول اسلام کا حصہ ہے لہٰذا اس کی مختصر تاریخ کی طرف اشارہ بے سود نہیں ہو گا۔
اسلامی ثقافت میں اصول عدل کی مختصر تاریخ
مذہب شیعہ میں ”عدل“ اصول دین میں شامل ہے۔ ہم اپنی کتاب عدل الٰہی میں عرض کر چکے ہیں کہ اسلامی ثقافت میں عدل‘ عدل الٰہی اور عدل انسانی میں تقسیم ہوا ہے اور عدل الٰہی عدل تکوینی اور عدل تشریعی میں تقسیم ہوا ہے۔ عدل انسانی بھی اپنے مقام پر عدل انفرادی اور عدل اجتماعی میں تقسیم ہوا ہے اور جس عدل کو شیعہ مذہب کی خصوصیات میں سے شمار کیا گیا ہے‘ عدل الٰہی ہے اور عدل کی یہی قسم اسلامی تصور کائنات کا محور ہے۔
عدل الٰہی اس بات پر اعتقاد کا نام ہے کہ خداوند عالم‘ نظام تکوین میں ہو یا نظام تشریع میں‘ حق و عدل کے مطابق عمل کرتا ہے اور ظلم نہیں کرتا۔ عدل کو مذہب شیعہ کا ایک اصول قرار دینے کی وجہ یہ ہے کہ مسلمانوں میں ایک ایسا گروہ پیدا ہو گیا تھا جس نے انسان کی آزادی و اختیار سے انکار کر دیا تھا۔ ان لوگوں نے قضا و قدر الٰہی کے بارے میں ایک ایسے عقیدے کی بنیاد رکھی جو انسان کی آزادی کے بالکل منافی تھا۔ انہوں نے کائنات کے کلی نظام اور انسان کے نظام عمل میں علت و معلول اور سبب و مسبب کا انکار کر دیا اور یہ عقیدہ قائم کر لیا کہ قضائے الٰہی براہ راست اور بلاواسطہ عمل کرتی ہے اس بناء پر آگ نہیں جلاتی بلکہ خدا جلاتا ہے۔ مقناطیس کے لوہے کا اپنی طرف کھینچنے میں کوئی عمل دخل نہیں ہوتا بلکہ یہ خدا ہے کہ جو براہ راست لوہے کو مقناطیس کی طرف جذب کرتا ہے انسان اچھا یا برا کام انجام نہیں دیتا بلکہ خداوند تعالیٰ پیکر انسانی میں اچھا یا برا کام انجام دیتا ہے۔
اور یہیں سے ایک اہم مسئلہ زیربحث آتا ہے اور وہ یہ کہ اگر نظام علت و معلول بے حقیقت ہے اور اگر انسان کا اپنے کاموں کے انتخاب میں کوئی حقیقی کردار نہیں ہوتا‘ تو پھر انفرادی جزا و سزا کے مسئلے کی توجیہ کیا ہو گی؟ خدا کیوں بعض افراد کو جزا دے گا اور انہیں جنت میں داخل کرے گا اور بعض دوسرے افراد کو سزا دے گا اور دوزخ میں ڈال دے گا‘ جب کہ وہ نیک کام بھی خود انجام دیتا ہے اور برا کام بھی؟ ایسے انسانوں کو جزا و سزا دینا جو ازخود ذرہ برابر بھی آزادی و اختیار نہیں رکھتے‘ ظلم ہے اور عدل خداوندی کے قطعی اصول کے برخلاف بھی۔ شیعوں نے عمومی طور پر اہل سنت کے ایک گروہ جسے معتزلہ کہا جاتا ہے‘ کی قطعی اور عقلی و نقلی دلائل کی بناء پر انسان کے مجبور ہونے اور الٰہی قضا و قدر کے بلاواسطہ عالم میں مداخلت کی نفی کی ہے اور اسے اصول عدل کا منافی گردانا ہے اسی لئے یہ عدلیہ کے نام سے معروف ہوئے ہیں۔ یہاں سے معلوم ہوتا ہے کہ اصول عدل ہرچند ایک الٰہی اصول ہے یعنی صفات خدا میں سے ایک صفت کے ساتھ مربوط ہے لیکن ایک انسانی اصول بھی ہے کیوں کہ یہ انسان کی آزادی و اختیار سے مربوط ہے۔ پس شیعہ اور معتزلہ کے درمیان عدل سے مراد انسان کی آزادی و اختیار کے اصول‘ انسان کی ذمہ داری اور اس کی اصلاح و تعمیر پر اعتقاد ہے۔
عدل الٰہی سے متعلق زیادہ تر جس سوال نے بالخصوص اس موجودہ دور میں اذہان کو اپنی طرف متوجہ کر رکھا ہے وہ بعض معاشرتی ناہمواریوں سے متعلق ہے۔ عام طور سے یہ سوال کیا جاتا ہے کہ ایسا کیوں ہے کہ بعض لوگ بدصورت ہیں اور بعض خوبصورت‘ بعض صحت مند ہیں‘ بعض بیمار‘ بعض خوشحال ہیں اور بعض محتاج اور نیازمند‘ کیا یہ ناہمواریاں عدل الٰہی کے خلاف نہیں؟ کیا عدل الٰہی کا لازمہ یہ نہیں ہے کہ سب لوگ مال و دولت میں‘ عمر میں‘ اولاد میں‘ معاشرتی مراتب میں اور شہرت و محبوبیت میں برابر ہوں؟ اور اختلاف و تفاوت نام کی کوئی چیز موجود نہ ہو۔ کیا ان اختلافات کی ذمہ دار قضا و قدر الٰہی کے علاوہ کوئی اور چیز ہو سکتی ہے؟
اس سوال اور ابہام کی بنیاد دو چیزیں ہیں:
ایک قضا و قدر الٰہی کی کیفیت سے عدم توجہ‘ اس مقام پر سوال کرنے والا یہ خیال کرتا ہے کہ قضا قدر الٰہی کا براہ راست عمل دخل ہے (ملاحظہ فرمائیں مولف کی کتاب ”انسان اور تقدیر“ اس کتاب میں قضائے قدر الٰہی کے مسئلے پر بڑی تفصیل سے روشنی ڈالی گئی ہے)۔ مثلاً دولت و ثروت بلاواسطہ اور بغیر کسی سبب اور عامل کے غیب الٰہی کے خزانے سے لوگوں کے گھروں میں منتقل ہوتی ہے۔ اسی طرح صحت و سلامتی‘ خوبصورتی‘ قوت و طاقت‘ مقام و منصب“ مقبولیت‘ اولاد اور دیگر بخششوں کا بھی یہی حال ہے۔ جب کہ اس نکتے کی طرف توجہ نہیں کی گئی کہ رزق چاہے کسی بھی نوعیت کا ہو‘ چاہے مادی ہو یا معنوی‘ براہ راست خزانہ غیب سے تقسیم نہیں ہوتا بلکہ قضائے الٰہی نے ایک نظام کو خلق کیا ہے کہ جو قوانین و سنن کے ایک سلسلے کا حامل ہے۔ ہر شخص کے لئے ضروری ہے کہ وہ جس چیز کا بھی خواہشمند ہے اسے اسی نظام اور انہی سنن و قوانین کے تحت مانگے۔
اس انتباہ اور غلطی کی دوسری بنیاد انسان کی اس مقام و منزلت سے عدم توجہ ہے کہ جس میں وہ ایک طرف تو ایک ذمہ دار فرد کی حیثیت سے بہترین زندگی کے لئے تگ و دو کرتا ہے اور عوامل طبیعت سے برسرپیکار رہتا ہے اور دوسری طرف معاشرتی برائیوں کے عوامل اور انسانوں کے مظالم اور برے کردار کا مقابلہ کرتا ہے۔
اگر معاشرے میں بعض ناہمواریاں ہیں‘ اگر بعض لوگ نعمتوں میں زندگی بسر کر رہے ہیں اور ان کے پاس نعمتوں کی فراوانی ہے جب کہ بعض لوگ غریب و مفلس ہیں اور سخت محنت و مشقت کرنے پر مجبور ہیں تو اس کی ذمہ دار قضائے الٰہی نہیں ہے بلکہ اس نامساوی اور ناہموار صورت حال کی ذمہ داری آزادی و خود مختاری انسان پر عائد ہوتی ہے۔
 

فاخر رضا

محفلین
۹۔ قانون و سنت
عالم ہستی اس جہت سے کہ علت و معلول کے نظام کے مطابق جاری و ساری ہے اور وہ نظام جیسا کہ ہم پہلے عرض کر چکے ہیں کلی ہے لہٰذا قوانین و سنن الٰہی کی بنیاد پر قائم ہے اور قرآن مجید بڑی صراحت کے ساتھ اس کی تائید کرتا ہے۔
۱۰۔ دنیا جس طرح ایک ناقابل تخلف اور کلی نظام کی حامل ہے اسی طرح اپنی ذات میں بھی ایک ناقابل تجزیہ و تقسیم اکائی ہے یعنی اپنی مجموعی حیثیت میں ایک جسم کی مانند اکائی پر مشتمل ہے پس نہ صرف شرور اور نیستی و نابودی‘ خیر و ہستی سے جدا نہیں ہو سکتی بلکہ اجزائے کائنات کا مجموعہ بھی ایک اکائی اور ایک جلوہ ہونے سے ایک دوسرے سے جدا نہیں ہو سکتے۔
مذکورہ دس اصولوں کی بنیاد پر جو چیز وجود کا امکان رکھتی ہے وہ معین کلی اور غیر متغیر نظام ہے پس امر دنیا اس بات پر منحصر ہے کہ یا تو معین نظام کے ساتھ موجود ہو یا اصلاً موجود نہ ہو لیکن یہ بات کہ خود تو موجود ہو لیکن نظام نہ رکھتا ہو یا نظام تو رکھتا ہو مگر اس نظام کی کوئی دوسری شکل ہو مثلاً علتیں معلولات کی جگہ اور معلولات علتوں کی جگہ ہوں تو یہ محال ہے۔ پس جو بات حکمت بالغہ کے حوالے سے قابل بحث ہے‘ وہ یہ ہے کہ دنیا یا تو ایک منظم نظام کے تحت موجود ہو یا کچھ بھی موجود نہ ہو۔ واضح سی بات ہے کہ حکمت افضل کا تقاضا کرتی ہے یعنی ہستی کا تقاضا کرتی ہے‘ عدم کا نہیں۔ اسی طرح وہ چیز جس کا وجود ممکن ہے وہ اشیاء کا اپنے سے جدا ہونے والے لوازم اوصاف کے ساتھ وجود رکھنا ہے اور جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ نیکیاں اور ہستیاں شر اور نیستی سے جدا ہو جائیں‘ خیال محض اور توہم محال ہے۔ پس اس اعتبار سے بھی جو چیز حکمت بالغہ کے حوالے سے زیربحث ہے وہ یہ کہ خیر و شر کا بیک وقت نہ ہونا ہے نہ کہ خیر تو موجود ہو لیکن شر موجود نہ ہو۔
اسی طرح جو چیز امکان وجود رکھتی ہے وہ ایک دوسرے کے ساتھ متصل اکائی کی صورت میں کل کائنات کا موجود ہونا ہے نہ کہ ایک جزو کا موجود ہونا اور دوسرے کا معدوم پس حکمت بالغہ کی نظر سے جو چیز قابل بحث ہے وہ کل کا ہونا یا نہ ہونا ہے کسی جزو کا ہونا اور دوسرے جزو کا نہ ہونا نہیں ہے۔
مذکورہ اصول اگر اچھی طرح سمجھ میں آ جائے تو یہ حکمت بالغہ اور عدل کامل الٰہی سے متعلق تمام شبہات اور تمام اشکالات کو ختم کر دینے کے لئے کافی ہے۔ میں ایک بار پھر اپنے پڑھنے والوں کو اپنی کتاب ”عدل الٰہی“ کی طرف رجوع کرنے کی دعوت دیتا ہوں اور اس بات کے لئے معذرت چاہوں گا کہ میں نے ضرورت کے تحت ان مسائل کو پیش کیا جو اس کتاب کی سطح سے بالاتر ہیں۔
آخر میں اس عنوان سے کہ ”عدل“ کی بحث مسلمانوں کے درمیان خاص تاریخ کی حامل ہے یہاں تک کہ اسے شیعہ مذہب کے اصول میں داخل کر دیا گیا ہے یعنی شیعہ نقطہ نظر سے عدل اصول اسلام کا حصہ ہے لہٰذا اس کی مختصر تاریخ کی طرف اشارہ بے سود نہیں ہو گا۔
اسلامی ثقافت میں اصول عدل کی مختصر تاریخ
مذہب شیعہ میں ”عدل“ اصول دین میں شامل ہے۔ ہم اپنی کتاب عدل الٰہی میں عرض کر چکے ہیں کہ اسلامی ثقافت میں عدل‘ عدل الٰہی اور عدل انسانی میں تقسیم ہوا ہے اور عدل الٰہی عدل تکوینی اور عدل تشریعی میں تقسیم ہوا ہے۔ عدل انسانی بھی اپنے مقام پر عدل انفرادی اور عدل اجتماعی میں تقسیم ہوا ہے اور جس عدل کو شیعہ مذہب کی خصوصیات میں سے شمار کیا گیا ہے‘ عدل الٰہی ہے اور عدل کی یہی قسم اسلامی تصور کائنات کا محور ہے۔
عدل الٰہی اس بات پر اعتقاد کا نام ہے کہ خداوند عالم‘ نظام تکوین میں ہو یا نظام تشریع میں‘ حق و عدل کے مطابق عمل کرتا ہے اور ظلم نہیں کرتا۔ عدل کو مذہب شیعہ کا ایک اصول قرار دینے کی وجہ یہ ہے کہ مسلمانوں میں ایک ایسا گروہ پیدا ہو گیا تھا جس نے انسان کی آزادی و اختیار سے انکار کر دیا تھا۔ ان لوگوں نے قضا و قدر الٰہی کے بارے میں ایک ایسے عقیدے کی بنیاد رکھی جو انسان کی آزادی کے بالکل منافی تھا۔ انہوں نے کائنات کے کلی نظام اور انسان کے نظام عمل میں علت و معلول اور سبب و مسبب کا انکار کر دیا اور یہ عقیدہ قائم کر لیا کہ قضائے الٰہی براہ راست اور بلاواسطہ عمل کرتی ہے اس بناء پر آگ نہیں جلاتی بلکہ خدا جلاتا ہے۔ مقناطیس کے لوہے کا اپنی طرف کھینچنے میں کوئی عمل دخل نہیں ہوتا بلکہ یہ خدا ہے کہ جو براہ راست لوہے کو مقناطیس کی طرف جذب کرتا ہے انسان اچھا یا برا کام انجام نہیں دیتا بلکہ خداوند تعالیٰ پیکر انسانی میں اچھا یا برا کام انجام دیتا ہے۔
اور یہیں سے ایک اہم مسئلہ زیربحث آتا ہے اور وہ یہ کہ اگر نظام علت و معلول بے حقیقت ہے اور اگر انسان کا اپنے کاموں کے انتخاب میں کوئی حقیقی کردار نہیں ہوتا‘ تو پھر انفرادی جزا و سزا کے مسئلے کی توجیہ کیا ہو گی؟ خدا کیوں بعض افراد کو جزا دے گا اور انہیں جنت میں داخل کرے گا اور بعض دوسرے افراد کو سزا دے گا اور دوزخ میں ڈال دے گا‘ جب کہ وہ نیک کام بھی خود انجام دیتا ہے اور برا کام بھی؟ ایسے انسانوں کو جزا و سزا دینا جو ازخود ذرہ برابر بھی آزادی و اختیار نہیں رکھتے‘ ظلم ہے اور عدل خداوندی کے قطعی اصول کے برخلاف بھی۔ شیعوں نے عمومی طور پر اہل سنت کے ایک گروہ جسے معتزلہ کہا جاتا ہے‘ کی قطعی اور عقلی و نقلی دلائل کی بناء پر انسان کے مجبور ہونے اور الٰہی قضا و قدر کے بلاواسطہ عالم میں مداخلت کی نفی کی ہے اور اسے اصول عدل کا منافی گردانا ہے اسی لئے یہ عدلیہ کے نام سے معروف ہوئے ہیں۔ یہاں سے معلوم ہوتا ہے کہ اصول عدل ہرچند ایک الٰہی اصول ہے یعنی صفات خدا میں سے ایک صفت کے ساتھ مربوط ہے لیکن ایک انسانی اصول بھی ہے کیوں کہ یہ انسان کی آزادی و اختیار سے مربوط ہے۔ پس شیعہ اور معتزلہ کے درمیان عدل سے مراد انسان کی آزادی و اختیار کے اصول‘ انسان کی ذمہ داری اور اس کی اصلاح و تعمیر پر اعتقاد ہے۔
عدل الٰہی سے متعلق زیادہ تر جس سوال نے بالخصوص اس موجودہ دور میں اذہان کو اپنی طرف متوجہ کر رکھا ہے وہ بعض معاشرتی ناہمواریوں سے متعلق ہے۔ عام طور سے یہ سوال کیا جاتا ہے کہ ایسا کیوں ہے کہ بعض لوگ بدصورت ہیں اور بعض خوبصورت‘ بعض صحت مند ہیں‘ بعض بیمار‘ بعض خوشحال ہیں اور بعض محتاج اور نیازمند‘ کیا یہ ناہمواریاں عدل الٰہی کے خلاف نہیں؟ کیا عدل الٰہی کا لازمہ یہ نہیں ہے کہ سب لوگ مال و دولت میں‘ عمر میں‘ اولاد میں‘ معاشرتی مراتب میں اور شہرت و محبوبیت میں برابر ہوں؟ اور اختلاف و تفاوت نام کی کوئی چیز موجود نہ ہو۔ کیا ان اختلافات کی ذمہ دار قضا و قدر الٰہی کے علاوہ کوئی اور چیز ہو سکتی ہے؟
اس سوال اور ابہام کی بنیاد دو چیزیں ہیں:
ایک قضا و قدر الٰہی کی کیفیت سے عدم توجہ‘ اس مقام پر سوال کرنے والا یہ خیال کرتا ہے کہ قضا قدر الٰہی کا براہ راست عمل دخل ہے (ملاحظہ فرمائیں مولف کی کتاب ”انسان اور تقدیر“ اس کتاب میں قضائے قدر الٰہی کے مسئلے پر بڑی تفصیل سے روشنی ڈالی گئی ہے)۔ مثلاً دولت و ثروت بلاواسطہ اور بغیر کسی سبب اور عامل کے غیب الٰہی کے خزانے سے لوگوں کے گھروں میں منتقل ہوتی ہے۔ اسی طرح صحت و سلامتی‘ خوبصورتی‘ قوت و طاقت‘ مقام و منصب“ مقبولیت‘ اولاد اور دیگر بخششوں کا بھی یہی حال ہے۔ جب کہ اس نکتے کی طرف توجہ نہیں کی گئی کہ رزق چاہے کسی بھی نوعیت کا ہو‘ چاہے مادی ہو یا معنوی‘ براہ راست خزانہ غیب سے تقسیم نہیں ہوتا بلکہ قضائے الٰہی نے ایک نظام کو خلق کیا ہے کہ جو قوانین و سنن کے ایک سلسلے کا حامل ہے۔ ہر شخص کے لئے ضروری ہے کہ وہ جس چیز کا بھی خواہشمند ہے اسے اسی نظام اور انہی سنن و قوانین کے تحت مانگے۔
اس انتباہ اور غلطی کی دوسری بنیاد انسان کی اس مقام و منزلت سے عدم توجہ ہے کہ جس میں وہ ایک طرف تو ایک ذمہ دار فرد کی حیثیت سے بہترین زندگی کے لئے تگ و دو کرتا ہے اور عوامل طبیعت سے برسرپیکار رہتا ہے اور دوسری طرف معاشرتی برائیوں کے عوامل اور انسانوں کے مظالم اور برے کردار کا مقابلہ کرتا ہے۔
اگر معاشرے میں بعض ناہمواریاں ہیں‘ اگر بعض لوگ نعمتوں میں زندگی بسر کر رہے ہیں اور ان کے پاس نعمتوں کی فراوانی ہے جب کہ بعض لوگ غریب و مفلس ہیں اور سخت محنت و مشقت کرنے پر مجبور ہیں تو اس کی ذمہ دار قضائے الٰہی نہیں ہے بلکہ اس نامساوی اور ناہموار صورت حال کی ذمہ داری آزادی و خود مختاری انسان پر عائد ہوتی ہے۔
اتنے کھلا ذہن کا حامل آدمی اور اتنی دقت سے موضوع کی گہرائی میں جاکر مطلب لانا. بے انتہا مشکل کام ہے.
ماشاءاللہ بہت اچھی تحریر شیئر کی ہے
 
Top